loading
{ رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۵}

ولایت  سے مراد

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى

ولایت قرآن کریم کی اصطلاح ہے۔ اس لفظ کے دیگر مشتقات بھی قرآن کریم میں وارد ہوۓ ہیں۔ ولایت کا معنی افراد کاباہمی طور پر شدید ارتباط رکھنا ہے۔ ایک ایسا ارتباط جو ایک فکر اور ایک ہدف کی طرف بڑھاتا ہے۔ ولایت کا ہدف افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھنااور ان کو تفریق سے بچانا ہے۔

ولایت کے لغوی معنی

کلمہِ ولایت ’’و ۔ ل ۔ ی‘‘ سے مشتق ہے۔ عربی لغات اور مفسرین نے اس کے معنی دو اشیاء کا قریب ہونابیان کیا ہے۔ البتہ ایسی قربت یا نزدیکی جو مالکیت اور حقِ تصرف کا باعث بنے۔ بعض دیگراہل لغت نے تحریرکیا ہے کہ دو اشیاء کا اس طرح سے قریب ہونا کہ ان کےدرمیان ان کا غیر حائل نہ ہو۔ [1] راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۳۳۔ [2] ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۶، ص۱۴۱۔ [3] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۲۰۳۔ [4] علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۔ [5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، ج۱، ص۸۳۔ پس کلمہِ ولایت کے لغوی معنی دو اشیاء کا قریب آنا ہونا یا ایک دوسرے سے شدید طور پر مرتبط ہو جانا ہیں۔

ولایت کے اصطلاحی معنی

دین کی اصطلاح میں ولایت کے معنی امت کی سرپرستی کرنے کے ہیں۔ ولی سے مراد معاشرے کا حاکم ہے۔ روایات میں ولی بمعنی حاکم کثرت سے استعمال ہوا ہے۔[6] سائٹ البر۔

امام علیؑ نے محمد بن ابی بکر ؓ کے نام ایک مکتوب تحریر فرمایا جسے سید رضی نے نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے۔ اس مکتوب میں امام علیؑ نے کلمہِ ولایت کے مشتقات کو حکومت اور حاکم کے معنی میں استعمال کرتے ہوئے اس طرح خطاب فرمایا ہے:

«أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِی مَوْجِدَتُکَ مِنْ تَسْرِیحِ الْأَشْتَرِ إِلَی عَمَلِکَ وَ إِنِّی لَمْ أَفْعَلْ ذَلِکَ اسْتِبْطَاءً لَکَ فِی الْجَهْدَ وَلاَ ازْدِیَاداً لَکَ فِی الْجِدِّ وَلَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ یَدِکَ مِنْ سُلْطَانِکَ لَوَلَّیْتُکَ مَا هُوَ أَیْسَرُ عَلَیْکَ مَئُونَهً وَأَعْجَبُ إِلَیْکَ وِلاَیَهً، إِنّ الرّجُلَ ألّذِی کُنتُ وَلّیتُهُ أَمرَ مِصرَ کَانَ رَجُلًا لَنَا نَاصِحاً وَعَلَی عَدُوّنَا شَدِیداً نَاقِماً».

ترجمہ: مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہاری جگہ پر(مالک)  اشتر کو بھیجنے سے تمہیں ملال ہوا ہے، تو واقعہ یہ ہے کہ میں نے یہ تبدیلی اس لیے نہیں کی کہ تمہیں کمزور اور ڈھیلا پایا ہو اور یہ چاہا ہو کہ تم اپنی کوشش تیز کر دو اور اگر تمہیں اس منصب حکومت سے جو تمہارے ہاتھ میں تھا، میں نے ہٹایا تھا تو تمہیں کسی ایسی جگہ کی ولایت (حکومت) سپرد کرتا جس میں تمہیں زحمت کم ہو اور وہ تمہیں پسند بھی آۓ۔ بلاشبہ جس شخص کو میں نے مصر کا والی(حاکم) بنایا تھا وہ ہمارا خیر خواہ اور دشمنوں کے لیے سخت گیر تھا۔[7] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ،ص ۴۰۷،  مکتوب۳۴۔

ولایت کی اقسام

ولایت کی عموما دو اقسام ذکر کی جاتی ہیں۔ تاہم آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی کتاب میں ولایت کی تقسیم اس طرح سے بیان فرمائی ہے:

ولایت تکوینی:

  اس سے مراد کائنات کے امور میں تصرف کرنے کی قوت رکھنا۔ کائنات کا مالک و خالق اس ولایت کا حقیقی طور پر مالک ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے لامحدود خزانے سے ایک حد تک یہ ولایت انبیاء کرامؑ و آئمہ معصومینؑ کو عطا کی ہے۔ با الفاظ دیگر ولایت تکوینی سے مراد آئمہ معصومینؑ کا معجزات کا حامل ہونا ہے۔

ولایت بر تشریع:

  اس سے مراد قانون گزاری کا حق ہے۔ معاشروں پر قانون گذاری کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ حتی نبی اور امام بھی قانون نہیں بنا سکتا۔ تاہم اس مسئلے میں بعض علماء نے اختلاف کیا ہےکہ  آیا نبی یا امام بھی قانون گذار ہو سکتے ہیں یا صرف وہ قانون  کو جس طرح سے لیا ہےامت تک پہنچا دینے والے ہیں فقط؟

 ولایت تشریعی:

  اس سے مراد شریعت الہی و قانون الہی کے تابع رہتے ہوۓ معاشرے کی سرپرستی کرنا ہے۔ یہی ولایت ہے جس کے معنی حکومت کے ہیں۔ آئمہ معصومینؑ امتوں کے اوپر ولایت رکھتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ حقیقی طور پر حکومت کرنے کا حق صرف انہیں ہستیوں کو حاصل ہے۔[8] سائٹ البر۔

ہماری بحث اس تیسری قسم میں ہے۔ رہبر معظم نے جب ولایت کا معنی کیا ہے تو ان کے مدنظر یہ تیسرا معنی ہے۔

امام و امت کا ارتباط

ولایت در اصل امام اور امت کے شدید ارتباط کا نام ہے۔ امام اور امت کے درمیان یہ تین ارتباط ہونا ضروری ہیں۔

۱۔ فکری ارتباط: فکری طور پر امام اور امت کی فکر اور سوچنے کا انداز ایک ہو۔ امت افکار میں شدت سے امام کے تابع ہو۔

۲۔ روحی ارتباط: روحی و معنوی طور پر جو حالت امام کی ہو وہی صورتحال امت کی بھی ہونی چاہیے۔

۳۔ عملی ارتباط: انفرادی اور اجتماعی زندگی میں امت صرف امام کی اتباع کرے۔ 

اگر یہ تین ارتباط برقرا ہو جائیں یہ امت صاحب ولایت کہلاۓ گی۔ 

ولایت کی ضرورت

ولایت کی بنیادی طور پر دو ضرورتیں ہیں۔ ایک امت سازی اور دوسرا تفرقہ و تقسیم بندی سے نجات۔ ولایت سے ہی امت ایک امام کے ساۓ تلے جمع ہو کر ایک ہدف کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ جب پوری امت ایک سمت کی طرف بڑھتی ہے ایک منزل و مقصد کے لیے کوشش کرتی ہے تو آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ امت کے افراد جتنا ایک دوسرے سے متصل ہوں اور انحرافی جریانات سے جدا ہوں، مضبوط ہونگے۔ دشمن ان کو شکار نہیں کرسکتا۔ حقیقی ہدف ولایت کا یہی ہے۔

ولایت الہی اور ولایت آئمہ معصومینؑ

حقیقی طور پر ولایت اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِیَاءَ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِیُّ».

ترجمہ:کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[9] شوری: ۹۔ اللہ تعالی نے اپنی نیابت میں یہ ولایت اپنے مخصوص بندوں کو عطا کی ہے:

«إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَهُمْ رَاکِعُونَ».

ترجمہ: تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔[10] مائدہ: ۵۵۔ ولایت کی شکلیں مختلف زمانوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ انبیاء الہی کے ادوار میں ولایت نبی کو حاصل ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد ولایت کی ذمہ داری امام کے ذمہ ہے۔ لذا ولایت آئمہ معصومینؑ اور ولایت الہی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں جدا چیزیں نہیں ہیں۔ اس سے اللہ تعالی کی ولایت میں شرک لازم نہیں آتا۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ ولایت علیؑ الگ ہے یا ولایت الہی سے جدا ہے۔ بلکہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔

ولایت در دوران اختناق

دوران اختناق سے مراد وہ زمانہ ہے جب امام اور امت کو سرکوب کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ کا مکہ کا دور ہے۔ دوران اختناق مبارزہ اور ٹکراؤ کا دور ہے۔ اس دور میں ابھی تک حکومت اور اختیار امام کو حاصل نہیں ہوا ہوتا بلکہ اس کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اقتدار اور نظام ظالمین کے پاس ہوتا ہے اور وہ امام اور اس کے قلیل پیروکاروں کو شدید دباؤ میں رکھے ہوۓ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ شدید دباؤ امام اور امت کو متفرق نہیں ہونے دیتا۔ کونسی چیز ہوتی ہے جو امت اور امام کو اس حالت میں پیوند دیتی ہے؟ وہ ولایت ہے۔ امام اور اس کے قلیل انصار اس طرح سے آپس میں جڑے ہوۓ ہیں کہ انہیں کوئی بھی مشکل ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی۔ اس دور میں ولایت کو برقرار رکھنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ بغیر تشکیلات اور منظم ہوۓ یہ پیوند برقرار رکھنا ناممکن ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے جب اعلان نبوت فرمایا ایک کثیر جماعت آپؐ کی دشمن ہو گئی۔ اور آپ کے ساتھ جو قلیل جماعت کھڑی تھی ان پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ».

ترجمہ: انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟[11] بقرہ: ۲۱۴۔ اس دور کے اصحاب کی اپنی قیمت ہے۔ اللہ تعالی نے وہ اصحاب جنہوں نے مشکل وقت میں رسول اللہﷺ کا ساتھ دیا، اور بعد میں اسلام قبول کرنے والے اصحاب کو جدا کیا ہے۔ کیونکہ بہت فرق ہے ایسے دوست میں جو مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑا رہا اور ایسے دوست میں جو آسانی میں آپ کے ساتھ آ ملا۔ وارد ہوا ہے:

«وَ اَلسّٰابِقُونَ اَلسّٰابِقُونَ أُولٰئِكَ اَلْمُقَرَّبُونَ».

ترجمہ: اور سبقت لے جانے والے تو مقدم ہی ہیں۔ یہی وہ مقرب لوگ ہیں۔[12] واقعہ: ۱۰تا۱۱۔

ولایت در حکومت اسلامی

ولایت کا ایک زمانہ حکومت اسلامی کا زمانہ ہے۔ وقت کے ولی اور اس کے قلیل ساتھیوں کی مقاومت سے زمانے کا طاغوت سرنگون ہو چکا ہے اور امت دھڑوں کی شکل میں مومنین کی صفوں میں داخل ہو رہی ہے۔ نبی کا اصل کام یہی ہے۔ انبیاء معاشروں میں سب سے بڑے منکَر سے ٹکر لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں جب تک معاشرے پر فاسق اشخاص کی مدیریت ہے وہ عوام کو حق کے راہ پر نہیں چلنے دیں گے۔ اس لیے نبی امت کی تعلیم و تربیت کی کوشش کرتا ہے ایک قلیل جماعت تیار کرتا ہے جس کے سہارے ظالم سے ٹکر لے سکے۔ جب یہ فاسد حکمران ہٹ جاتا ہے اب راہ ہموار ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ. وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَفْوَاجًا».

ترجمہ: جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے، اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں۔[13] نصر۱،۲۔ جب نصرت خدا آ جاتی ہے تو اکثریت بھی حق سے مل جاتی ہے۔ لیکن نصرت کیسے آتی ہے؟ نصرت الہی آنے کا فارمولا قرآن کریم بیان فرماتا ہے:

«إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ یَنْصُرْکُمْ».

ترجمہ: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا۔[14] محمد: ۷۔ دوران اختناق سے گزرنے کے بعد نصرت الہی آتی ہے۔ دوران اختناق میں نبی کے ساتھ افراد کا جھمگٹا نہیں ہوتا۔ ایک قلیل جماعت میسر ہوتی ہے جب یہ قلیل افراد مقاومت کرتے ہیں اور اپنے راہ پر ڈٹ جاتے ہیں تو اللہ تعالی بھی ان کو فتح عطا فرماتا ہے۔ کبھی بھی عوام کی کثرت ابتدا میں موجود نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ امید کرنا کہ ہم ولایت کی بات کریں اور افراد جمع ہو جائیں بے جا توقع ہے۔ ابتدا میں ایک قلیل جماعت کو ہی مقاومت دکھانا ہوگی۔ اگر ان کے ارادے محکم ہوۓ تو نا صرف ظلم کے نظام کو گرا دیں گے بلکہ نصرت الہی کا باعث بنیں گے اور تمام امت کی ہدایت کا بھی باعث بنیں گے۔

ولایت ایک عظیم نعمت

عملی طور پر معاشرے کی مدیریت ظالم کے ہاتھ سے نکل کر جب حقیقی الہی حاکم کے ہاتھ میں آجاۓ اکثریت کے لیے حق کو قبول کرنے کا راہ ہموار ہو جاتا ہے۔ اس کثریت کو ٹھکرا یا نہیں جاۓ گا۔اگرچہ انہوں نے دوران اختناق نبی اور اس کی قلیل جماعت سے منہ پھیرا ہوا تھا۔ان کو خوش آمدید کہنا ہے۔ سیرت رسول اللہﷺ یہ ہے کہ ان سب کو معاف کیا جاۓ گا۔ ان سب کو بھی بھائی مانا جاۓ گا۔ جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا۔ رسول اللہﷺ نے نا صرف عام جانبدار افراد کو قبول کیا بلکہ ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے دشمنی کی۔ کیونکہ اصلی ہدف دشمنی کرنا نہیں بلکہ امت سازی ہے۔ جب امت الہی نظام کے تحت آ جاۓ تب جا کر ولایت کا حقیقی ہدف پورا ہوتا ہے۔ جب پورا معاشرہ اجتماعی طور پر الہی حاکم کے زیر سایہ ہے۔ ان کے امور کی باگ ڈور عادل و معصوم انسان کے ہاتھوں میں ہے۔ اور یہی امت کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے کہ ان کی مدیریت الہی انسان کے ہاتھ میں ہے۔یہ معاشرہ اب تیزی سے الہی منازل طے کر سکتا ہے۔ لیکن اگر معاشروں کی باگ ڈور الہی ہاتھوں میں نہیں آتی گمراہی و ضلالت ان کا مقدر بنی رہے گی۔[15] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکوت، ص۳۸تا۴۰۔

Views: 29

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: بعثت کے مراحل
اگلا مقالہ: مسئلہ ولایت کی اہمیت