loading
{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۴}

بعثت کے مراحل

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى

گزشتہ درس میں بیان ہوا کہ بعثت کے بنیادی دو اہداف ہیں۔ معاشروں کی اسلامی تعلیمات کی اساس پر تعلیم و تربیت کرنا اور ان پر عادلانہ نظام قائم کرنا۔ ان اہداف کو نبی کیسے حاصل کرتا ہے اور اس کی روش و طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ اس تحریر میں بیان کیا جاۓ گا نبی کی بعثت کن مرحلوں سے گزرتی ہے اور اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

درونی بعثت اور نبی

بعثت ایک ایسا چشمہ ہے جو نبی کے دل میں پھوٹا اور پھر جاری ہوا۔ یہ الہی چشمہ قلب نبی سے جاری ہو کر معاشروں میں بہتا ہوا پہنچا تو ان کو متحول کر گیا۔ خود بعثت نبی کے لیے بھی بہت اہم امر ہے۔یہی وہ امر ہے جس سے وہ معاشروں کو تبدیل کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے۔ بعثت اور تعلیم میں فرق ہے۔ نبی کی تعلیم کا سلسلہ تو چلتا ہی رہتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:«وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها».ترجمہ: اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے۔[1] بقرہ: ۳۱۔ تاہم بعثت، تعلیم سے جدا ہے اوربہت اہم ہے۔ کیونکہ اس میں تین چیزیں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔
۱۔ تعلیم، تہذیب اور تزکیہ
۲۔ اتیان کتاب
۳۔ برانگیختہ ہونا

بعثت میں یہ تین چیزیں ہمراہ ہوتی ہیں۔ یہ تینوں پہلے خود نبی کی ذات میں حاصل ہوتی ہیں اور پھر معاشرہ ان تینوں کو حاصل کرتا ہے۔ سوره جمعہ میں وارد ہوا ہے: «هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَة».ترجمہ: وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔[2] جمعہ: ۲۔ نبی کا کام کتاب کی تلاوت کرنا، تعلیم و تربیت دینا اور معاشرے کا تزکیہ کرنا ہے۔ 

اجتماعی بعثت اور معاشرہ

درونی بعثت کے نتیجے میں اجتماعی بعثت وجود میں آتی ہے جس سے پورا معاشرہ مبعوث ہوتا ہے۔ اس بعثت میں معاشرہ تعلیم و تہذیب سیکھتا ہے، تزکیہ کرتا ہے۔ اور کتاب کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے۔ آخر میں ایک ایسا تحول معاشرے میں وجود میں آتا ہے جس سے مکمل تبدیلی حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ تینوں حاصل ہو جائیں تو معاشرہ بھی بعثت کے مرحلے کو حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن اس بعثت کو حاصل کرنے کے لیے مراحل ہیں۔ مرحلہ بمرحلہ بعثت کے اہداف حاصل ہوتے ہیں۔ 

مبارزہ اور ٹکراؤ

سب سے پہلا مرحلہ جو نبی اورامت کو طے کرنا ہے وہ مبارزہ ہے۔ مبارزہ کس سے؟ ممکن ہے نبی کی راہ میں خود اس کا بیٹا اور بیوی آ جاۓ۔ جیسا کہ حضرت نوحؑ کی بیوی اور بیٹا تھا۔ نوحؑ پر ضروری ہے کہ ان سے مبارزہ کرے۔سورہ ہود میں ذکر ہوا:«قالَ يا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ».ترجمہ:  فرمایا: اے نوح! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔[3] ہود: ۴۶۔ ممکن ہے نبی کا چچا ابو لہب کی طرح راستے میں رکاوٹ بن جاۓ۔ اس دشمن خدا کے بارے میں پوری سورہ نازل ہوئی اور اس پر خدا کی لعنت وارد ہوئی ہے۔[4] مسد:۱۔ یا علاقے کا مقتدر شخص یا حکمران جس کے نبی کی تعلیمات سے مفاد ٹکراتے ہیں وہ بھی دشمنی پر اتر سکتا ہے۔ نبی نے ان سب سے مبارزہ کرنا ہے۔ کیونکہ ہم نے بیان کیا تھا کہ بعثت کا ہدف ہی معاشرے پر حاکم ظالم نظام کو ختم کرنا اور اس کی جگہ پر عدالت اجتماعی قائم کرنا ہے۔ جب ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہر قسم کے ظالم، ستمگر افراد سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔ بغیر ٹکراؤ کے بعثت کا ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ 

رسول اللہﷺ کا مبارزہ

نبی مکرمﷺ ۲۳ سال مسلسل حالت مبارزہ میں رہے۔ اعلان نبوت کرنا تھا کہ اپنے ہی رشتہ داردشمنی پر اتر آۓ۔ عرب قبائل اور ان کے سردار، آپﷺ کے سخت دشمن ہو گئے۔ آپ کو بعثت کے اہداف سے ہٹانے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کی گئیں، لالچ دینے کی کوشش کی گئی، دھمکایا گیا۔ معاشرتی طور پر بائیکاٹ کیا۔ شعب ابی طالب میں تین سال تک سختی میں کاٹے۔ یہاں تک کہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اللہ تعالی نے آپ کو مشرکین مکہ کی اس خطرناک کوشش سے آگاہ فرمایا اور ہجرت کا حکم دیا۔ آپﷺ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ لیکن یہ سب رسول اللہﷺ نے کیا اور اس معاشرے کے ظلم کے آگے سر تسلیم خم نہیں ہوۓ۔ 

بعثت کی اساس پر نظام کی تشکیل

رسول اللہﷺ نے یہ سب مصائب جھیلے کیونکہ ان کے آگے ایک بہت بڑا ہدف تھا۔ اور وہ عدالت اجتماعی کا قیام تھا۔ مشرکین مکہ نے آپﷺ کے خلاف جنگیں لڑیں، لیکن مسلمانوں کی استقامت سے فتح نصیب ہوئی اور رسول اللہﷺ بعثت اور الہی تعلیمات کی اساس پر مدینہ میں اسلامی نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر یہ کام انجام نہ پاتا اور ظلم کے نظام سے ہی سمجھوتہ کر لیتے تو اسلام نہ پھیل پاتا۔ ظلم کے نظام کو ختم کر کے معاشرے میں عدل کا نظام نافذ کیا۔ ایک ایسا دین لے آۓ جو کامل اور جامع تھا۔ [5] مائدہ: ۳۔ یہ دین صرف اخلاق اور احکام کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ مکمل ضابطہ حیات تھا۔ جس میں معاشرے کے تمام اجتماعی امور کی مدیریت کے لیے نظام موجود تھا۔ معاشرے کی مدیریت اپنے ہاتھوں میں لی اور عدل و حق کی اساس پر اس کو چلانے کی کوشش کی۔

دین اور حکومت کی جدائی

یہیں سے دین اور حکومت کی جدائی کا نظریہ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ جاتے ساتھ ہی سب سے پہلا کام جو کیا وہ اسلامی حکومت کی تشکیل تھی۔ ورنہ اگر حکومت ظالم اور فاسق فاجر لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیتے، معاشرے کا مدیریتی نظام ان کے ہاتھوں میں ہو تا اور آپﷺ صرف مسجد تک محدود ہو کر بیٹھ جاتے تو کبھی بھی دین اسلام باقی نہ رہ پاتا۔ وہیں پر اسلامی تعلیمات کو بھی دبا دیا جاتا، رسول اللہﷺ اور ان کے مخلص اصحاب کو قتل کر دیا جاتا۔ رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے جا کر معاشرے کی مدیریت سنبھالی۔ اور ظلم کی جگہ پر عدل کو قائم کیا۔

دین اور قدرت کا ربط

بعض افراد کا کہنا ہے کہ دین کے ہاتھوں میں قدرت اور قوت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر دین قدرت ہاتھوں میں لے لے تو فاسد ہو جاۓ گا، دین مقدس ہے اور قدرت فساد آور،اس لیے دین کو قدرت اور اقتدار سے دور رہنا چاہیے۔ یہ نظریہ بھی اساس سے باطل ہے۔ دین کو اگر قدرت اور نفاذ نہ ملے، اور معاشروں سے ظلم کا نظام ختم نہ ہو ،دین کے نازل ہونے کا ہدف ہی پورا نہیں ہوتا۔ دین آیا ہی اس لیے تھا کہ معاشروں میں غیر الہی طاقتوں کو زیر کرے، ان کے ظلم و ستم کو ختم کر کے انسانیت کو عدل کا نظام فراہم کرے جس میں انسان متناسب اور سالم محیط میں الہی تعلیمات پر آسودہ ہو کر عمل کر سکے۔سورہ حدید میں بیان ہوا ہے:

«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتابَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ.»

ترجمہ: بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔[6] حدید: ۲۵۔

اگر دین کو اقتدار حاصل نہ ہو ممکن ہے انفرادی طور پر چند افراد صالح ہو جائیں لیکن پورا معاشرہ اصلاح نہیں پا سکتا۔ اجتماعی طور پر اگر معاشروں کی اصلاح کرنی ہے تو اس کی مدیریت فاسق ہاتھوں سے لے کر صالح لوگوں کو دینی ہوگی۔ نبی کا یہی کام ہے۔ وہ معاشرے سے ظالم لوگوں کا اثر و رسوخ ختم کرے اور حاکمیت الہی کو قائم کرے۔

حکومت وسیلہ یا ہدف

حکومت حاصل کرنا انبیاء الہی کا نہائی ہدف نہیں ہوتا۔ بلکہ حکومت ان کے لیے وسیلہ ہوتی ہے۔ اس وسیلے کے ذریعے وہ دین الہی کو نافذ کرتے ہیں۔ شریعت کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں۔ کیونکہ شریعت یا قوانین الہی بغیر حکومت کے آپ نافذ نہیں کر سکتے۔ اگر یہ کام بغیر حکومت کے حاصل ہو جاۓ اور نصیحتوں سے ہی سب انسان سمجھنے لگ جائیں، پھر تو کسی قانون اور حکومت کی ضرورت نہیں۔ قانون اور حکومت کی ضرورت ہی اس لیے پڑتی ہے کہ انسان نصیحت کو کم سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے چند افراد نصیحت سمجھ لیں لیکن اجتماعی طور پر نظم و نسق بنا رہنے کے لیے حتما قانون اور حکومت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ضرورت کو مسلمان اور غیر مسلم سب مفکرین ہی مانتے ہیں۔ لیکن عام سیاستدانوں کے لیے خود حکومت کا حصول ہی ہدف ہوتا ہے۔ اس لیے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز وسیلہ کو اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ خود حکومت ہدف نہیں ہے بلکہ حکومت کے ذریعے اسلامی اقدار اور عدل الہی قائم کرنا ہے۔ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے:

«قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسِ – رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ -: دَخَلْتُ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ بِذِی قَارٍ وَ هُوَ یَخْصِفُ نَعْلَهُ فَقَالَ لِی مَا قِیمَهُ هَذَا النَّعْلِ فَقُلْتُ لاَ قِیمَهَ لَهَا فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ وَ اللَّهِ لَهِیَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ إِمْرَتِکُمْ إِلاَّ أَنْ أُقِیمَ حَقّاً أَوْ أَدْفَعَ بَاطِلاً».

ترجمہ: امیرالمومنینؑ جب اہل بصرہ سے جنگ کے لیے نکلے تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ  میں مقام ذی قار میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ آپ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں۔(مجھے دیکھ کر فرمایا: کہ اے ابن عباس! اس جوتے کی قیمت کیا ہوگی؟) میں نے کہا کہ اب تو اس کی کچھ قیمت نہ ہوگی، تو آپؑ نے فرمایا کہ اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔[7] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۳۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ حکومت کے خواہاں نہ تھے۔ لیکن اس کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں ضرور تھے۔ کیونکہ حق کا قیام، اور باطل کو مٹانا حکومت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ ہزاروں سال حق بیان کریں اور باطل کے عیب بیان کریں جب تک حکومت ہاتھ میں نہ ہو حق قائم نہیں ہو سکتا اور نا ہی باطل کا نظام ختم ہوگا۔اس لیے اللہ تعالی نے لوگوں پر صرف ایسے افراد کو ولی (ولی بمعنی حکمران)مقرر کیا ہے جو خود بھی حق پر ہوں اور صرف حق کا نفاذ چاہتے ہوں، اور اس راہ میں کسی باطل روش کو استعمال نہ کریں۔ حق کو حق کے ذریعے قائم کریں۔ اور یہ صرف معصوم ہستی ہی کر سکتی ہے۔ اس لیے لوگوں پر حکمرانی (ولایت تشریعی)کا حق صرف انہیں کو حاصل ہے اور جو ان کے نائب ہوں۔[8] سائٹ البر۔

اسلامی حکومت کا معیار

مسلمانوں پر ضروری ہے کہ صرف اسلامی حکومت کی تبعیت کریں۔ غیر اسلامی حکومت کا انکار ضروری ہے۔جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ».

ترجمہ: اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔[9]نحل: ۳۶۔  معیار ہمارے سامنے ہے اگر حکومت حق کو قائم کر رہی ہے اور باطل کو مٹا رہی ہے اسلامی ہے اگر یہ کام نہیں کر رہی طاغوتی حکومت ہے۔ اور طاغوت سے اجتناب کرنا قرآن کریم کےحکم کےمطابق ضروری ہے۔ہم حق اور باطل کے معیار وں کا عقائد اور  احکام کے کچھ موضوعات میں تو خیال رکھتے ہیں لیکن  اجتماعی امور میں یہ نہیں دیکھتے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پر مسلط یہ حکمران حق پر ہے یا نہیں؟ ہم پر مسلط نظام حق ہے یا نہیں؟ ہم صرف انفرادی زندگی میں اور اپنے فرقے کو لے کر حساس ہوتے ہیں کہ ہماری فلاں عبادت حق کے مطابق ہے یا نہیں؟ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھیں یا کھول کر؟ وضو کیسے کریں؟ احکام کی حد تک تو حق اور باطل کا خیال رکھتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ جس نظام کے اندر ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ حق ہے یا باطل؟ اگر باطل ہے تو باطل نظام میں رہ کر حق پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟ اس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔

عدالت اجتماعی اور نفاذ مقررات الہی

اسلامی حکومت کی تشکیل انبیاء الہی کا متوسط ہدف ہے۔ نہائی اور آخری ہدف خود حکومت اسلامی کی تشکیل نہیں ہے۔ بلکہ نہائی ہدف معاشروں کو تکامل کی طرف لے کر بڑھنا ہے۔ انسانی اقدار کا احیاء اور انسانی اخلاق کا رواج پا جانا اصلی ہدف ہے۔ رسول اللہﷺ سے مروی ہے:

«إنما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق».

ترجمہ: میں تو اعلٰی اخلاقی اقدار کو ہی مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔[10] طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، ج۱، ص۸۔ انسان کی اعلی اخلاقی اقدار کا کامل ترین نمونہ رسول اللہﷺ کی ذات ہے۔ لیکن ان کی تمام اخلاقی خوبیاں معاشرے میں احیاء کرنی ہیں۔ تمام انسانوں کو اجتماعی شکل میں اس اعلی انسانی ہدف تک پہنچانا ہے جس کے لیے انہیں خلق کیا گیا ۔ نبوت اور امامت کا فلسفہ یہ ہے کہ معاشروں میں ایسا اجتماعی نظام بنائیں کہ جس میں صراط مسقیم پر چلنا آسان ہو۔ اگرچہ اس راستے کو طے کرنا خود انسان کا کام ہے۔ لیکن اس راہ میں جو رکاوٹیں اور موانع ہیں ان کو دور کرنا حکومت اسلامی کی ذمہ داری ہے۔ اصل ہدف لقاء الہی ہے۔ اور یہ تب ہی حاصل ہوگا جب معاشروں میں عدالت اجتماعی قائم ہو جاۓ، اگر عدالت قائم نہ ہو ظلم کے نظام میں لقاء الہی حاصل نہیں ہو سکتا۔[11] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۲۹تا۳۳۔

Views: 24

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: بعثتِ انبیاء کا مقصد
اگلا مقالہ: ولایت  سے مراد