loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۷۵}

ولایت فقیہ پر روائی دلیل(حصہ ششم)

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ولایت فقیہ عقلی ادلہ سے بہت آسانی سے ثابت کی جاسکتی ہے۔ لیکن روایات سے اثبات کے لیے لمبی بحث درکار ہے جس میں سند، متن، معانی اور حجیت کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ ان مراحل سے گزر کر ہمیں روایات سے ثابت کرنا ہوگا کہ ولی فقیہ کو جو جامع الشرائط ہے اسے عوام پر شرعی حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔تشیع کسی بھی مرحلے میں دہتشگردی یا لشکر کشی کا قائل نہیں ہے، اس کے پاس ایک ہی طریقہ ہے حکومت کو حاصل کرنے کا اور وہ یہ کہ دلائل سے لوگوں کو قائل کرے اور اپنی مقبولیت ایجاد کرے۔ تشیع کی جنگ کسی مکتب، جفرافیہ، زبان یا زمین سے نہیں ہے بلکہ وہ عدل کے قیام کے لیے لڑتا ہے۔ اس کی جنگ غیر الہی نظاموں سے ہے جب تک پوری زمین پر الہی حاکمیت قائم نہیں ہو جاتی وہ حالت جنگ میں ہے۔ وہ کسی ایسی حکومت کو قبول نہیں کر سکتتا جو مادر پدر آزاد ہو۔ تشیع کو ایسا حاکم چاہیے جو اللہ کے قوانین کو انفرادی و اجتماعی سطح پر حاکم کرے۔ عموما دین کے نام پر سپر طاقتیں کراۓ کے شیاطین کو سامنے لاتی ہیں اور ان کے ذریعے دین الہی و حاکمیت الہی کی تضحیک کی جاتی ہے جس سے سیکولرزم میں پھیلانے میں مدد ملتی ہے۔ سیکولر طبقہ دین کا دشمن نہیں ہوتا بلکہ اس کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ دین کو سیاست کی دنیا سے نکال باہر کیا جاۓ۔ ورنہ انفرادی زندگی میں جو جس دین پر عمل کرنا چاہے ان کو اس سے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ سیکولرزم کے مطابق ہمیں ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن و اہلبیتؑ اور ان کی تعلیمات کی طرف رخ کرنے کی بجاۓ انہیں بے دین سیاسی حکمرانوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ابھی مشکل یہ ہے کہ حتی علماء بھی یہ بات کرتے ہیں کہ ہمیں صرف اپنا مفاد حاصل کرنا چاہیے اگر روٹی کپڑا مکان مل رہا ہے تو اور کیا چاہیے۔ اور اگر یہ سب کچھ یہ حکمران دے سکتے ہیں تو ان کی طرف رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دراصل یہی سیکولرزم ہے۔ وہ دین جو ہمیں سیاست، دفاع، اقتصاد، امنیت اور تعلیم کے شعبوں میں ہدایت دینے کے لیے آیا تھا اس کو ہم انفرادی عبادات کے لیے قرار دیں اور ان شعبوں میں ہدایت کے لیے بے دین سیکولر افراد کی طرف رجوع کریں۔ دینی نظریات کو تخریب کارانہ افکار بنا کر پیش کیا گیا، امامت کے نظریہ کو دہشتگردی قرار دیا گیا، اور دین کے نام پر فتنہ برپا کیے گئے جس کا نتیجہ آج سامنے ہے۔

ولایت فقیہ کے عنوان سے جو احادیث پیش کی جاتی ہیں ان کا مضمون بتاتا ہے کہ دین صرف انفرادی زندگی کے لیے نازل نہیں ہوا۔ دین اجتماعی مسائل میں ہدایت کرتا ہے اور اگر کوئی اس بات کا قائل ہے کہ دین کا اجتماعی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے چاہے وہ مجتہد یا فقیہ ہی کیوں نا ہو، سیکولر ہے۔ جس طرح مغرب میں یہی کہا گیا کہ کلیسا کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی سوچ کو اسلامی ممالک میں بھی پھیلا دیا گیا کہ اسلام کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کلیسا ظلم و بربریت کی بنا پر بدنام اور اپنی راہ سے منحرف ہو گیا تو اس میں اسلام کا کیا قصور؟ اگر مغربیوں نے مسیحیت کا چہرہ خود مسخ کیا تو اس میں بقیہ دین کیسے منفی ہو گئے؟

فضل بن شاذان کی کتب:

فضل بن شاذان کی کتابیں اصحاب و فقہاء قدماء میں مشہور کتب شمار ہوتی تھی جس میں کسی حدیث کا آ جانا اس حدیث کے معتبر ہونے کا قرینہ بن جاتا ہے۔ کتبِ معتبرہ میں حدیث کا ہونا صحتِ حدیث کے لیے کافی ہے۔ اس بات کو ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ  اگر سند اس طرح سے ہو کہ آپ نے یہ حدیث اپنے استاد سے سنی ، استاد نے اپنے شیخ سے ، انہوں نے امام خمینی سے … ۔ اب ہم براہ راست امام خمینی سے روایت نقل نہیں کر سکتے بلکہ ضروری ہے کہ ان تک پہنچنے کے لیے دو یاتین کڑیوں کا سفر طے کریں۔ اگر تسلسل ٹوٹ گیا تو روایت مرسل کہلائے گی جوکہ اس وقت تک ضعیف کہلائے گی جب تک اس ضعف کا جبران کسی قرینہ یا کسی اور شاہد و تائید کی وجہ سے نہ ہو جائے۔ انہی قرائن میں سے ایک قرینہ ’’معتبر قدیمی کتاب‘‘ میں حدیث کا ہونا ہے، مثلاً امام خمینی کے شاگرد آیت اللہ بہشتی نے ایک کتاب لکھی جس میں امام خمینی کے مختلف کلام کو جمع کیا ۔ اب ہم تک امام خمینی تک سند متصل نہیں ملتی جس کی وجہ سے سندی ضعف سامنے آتی ہے لیکن دوسری طرف ہمارے ہاتھ میں معتبر ذرائع سے شہید بہشتی کی کتاب میسر آ جاتی ہے۔ اس حدیث میں امام خمینی کا کلام ہونا اور کتاب کا معتبر ذرائع سے ہم تک پہنچنا اس کتاب میں تمام کلام کے معتبر ہونے کا باعث بن جائے گا۔ اس کو اصطلاح میں کہا جائے گا کہ یہ کتاب شہرت رکھتی ہے۔

انہی معتبر کتب میں سے ایک کتاب احمد بن خالد برقی کی ایک کتاب ہے۔ اگر کسی روایت کی سند ضعیف ہو لیکن وہ جناب برقی کی کتاب میں وارد ہو تو اس سے اس حدیث کی سند کا جبران ہو جائے گا وہ روایت معتبر شمار ہو گی۔ چونکہ ان کی کتاب مشہور تھی اس لیے ان کی روالیت قبول قرار پأئے گی۔ فضل بن شاذان کی کتاب چونکہ مشہور تھی اس سے لیے ان کی روایت قبول ہو چاۓ گی۔ فضل بن شا۱ذان کی کتب میں سے ایک کتاب العلل ہے جس میں احکامِ شرعیہ کے وجوب و حرمت وغیرہ کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ شیخ صدوق نے اسی موضوع کی لکھی گئی کتابوں سے علل الشرائع کتاب کو مرتب کیا۔حکم شرعی کی علت شارع بیان کر دے تو وہی حکم اس پر بھی لگے گاجس میں یہ علت پائی جائے۔ اہل سنت نے یہیں سے قیاس کا قاعدہ ایجاد کیا۔آئمہ اہل بیتؑ قیاس کے شدید مخالف تھے۔  جب ایک انحرافی شیء معاشرے میں رائج ہو جاۓ اس سے ٹکراؤ کے لیے تکرار اور مبالغہ کی جد تک شدت ظاہر کی جاتی ہے جیساکہ قیاس کے خلاف آئمہ اہل بیتؑ نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا۔

فضل بن شاذان  کی روایت

عیون اخبار الرضاؑ میں شیخ صدوق نے فضل بن شاذان سے روایت نقل کی ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے:فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَلِمَ وَجَبَ‏ عَلَيْهِمْ‏ مَعْرِفَةُ الرُّسُلِ‏ وَ الْإِقْرَارُ بِهِمْ وَ الْإِذْعَانُ لَهُمْ بِالطَّاعَةِ قِيلَ لِأَنَّهُ لَمَّا أَنْ لَمْ يَكُنْ فِي خَلْقِهِمْ وَ قُوَاهُمْ مَا يُكْمِلُونَ بِهِ مَصَالِحَهُم‏ وَ كَانَ الصَّانِعُ مُتَعَالِياً عَنْ أَنْ يُرَى وَ كَانَ ضَعْفُهُمْ وَ عَجْزُهُمْ عَنْ إِدْرَاكِهِ ظَاهِراً لَمْ يَكُنْ بُدٌّ لَهُمْ مِنْ رَسُولٍ بَيْنَهُ وَ بَيْنَهُمْ مَعْصُومٍ يُؤَدِّي إِلَيْهِمْ أَمْرَهُ وَ نَهْيَهُ وَ أَدَبَهُ وَ يَقِفُهُمْ عَلَى مَا يَكُونُ بِهِ اجْتِرَارُ مَنَافِعِهِم‏,,,ٍ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ فَلِمَ جَعَلَ أُولِي الْأَمْرِ وَ أَمَرَ بِطَاعَتِهِمْ قِيلَ لِعِلَلٍ كَثِيرَةٍ مِنْهَا أَنَّ الْخَلْقَ لَمَّا وَقَفُوا عَلَى حَدٍّ مَحْدُودٍ وَ أُمِرُوا أَنْ لَا يَتَعَدَّوْا ذَلِكَ الْحَدَّ لِمَا فِيهِ مِنْ فَسَادِهِمْ لَمْ يَكُنْ يَثْبُتُ ذَلِكَ وَ لَا يَقُومُ إِلَّا بِأَنْ يَجْعَلَ عَلَيْهِمْ فِيهِ أَمِينا يَمْنَعُهُمْ مِن‏ التَّعَدِّي وَ الدُّخُولِ فِيمَا حُظِرَ عَلَيْهِمْ لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لَكَانَ أَحَدٌ لَا يَتْرُكُ لَذَّتَهُ وَ مَنْفَعَتَهُ لِفَسَادِ غَيْرِهِ فَجَعَلَ عَلَيْهِمْ قَيِّماً يَمْنَعُهُمْ مِنَ الْفَسَادِ وَ يُقِيمُ فِيهِمُ الْحُدُودَ وَ الْأَحْكَامَ وَ مِنْهَا أَنَّا لَا نَجِدُ فِرْقَةً مِنَ الْفِرَقِ وَ لَا مِلَّةً مِنَ الْمِلَلِ بَقُوا وَ عَاشُوا إِلَّا بِقَيِّمٍ وَ رَئِيسٍ وَ لِمَا لَا بُدَّ لَهُمْ مِنْهُ فِي أَمْرِ الدِّينِ وَ الدُّنْيَا فَلَمْ يَجُزْ فِي حِكْمَةِ الْحَكِيمِ أَنْ يَتْرُكَ الْخَلْقَ مِمَّا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا بُدَّ لَهُ مِنْهُ وَ لَا قِوَامَ لَهُمْ إِلَّا بِهِ فَيُقَاتِلُونَ بِهِ عَدُوَّهُمْ وَ يَقْسِمُونَ فَيْئَهُمْ وَ يُقِيمُ لَهُمْ جَمَّهُمْ وَ جَمَاعَتَهُمْ وَ يَمْنَعُ ظَالِمَهُمْ مِنْ مَظْلُومِهِمْ وَ مِنْهَا أَنَّهُ لَوْ لَمْ يَجْعَلْ لَهُمْ إِمَاماً قَيِّماً أَمِيناً حَافِظاً مُسْتَوْدَعاً لَدَرَسَتِ الْمِلَّةُ وَ ذَهَبَ الدِّينُ وَ غُيِّرَتِ السُّنَنُ وَ الْأَحْكَامُ وَ لَزَادَ فِيهِ الْمُبْتَدِعُونَ وَ نَقَصَ مِنْهُ الْمُلْحِدُونَ وَ شَبَّهُوا ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ لِأَنَّا وَجَدْنَا الْخَلْقَ مَنْقُوصِينَ مُحْتَاجِينَ غَيْرَ كَامِلِينَ مَعَ اخْتِلَافِهِمْ وَ اخْتِلَافِ أَهْوَائِهِمْ وَ تَشَتُّتِ أَنْحَائِهِم‏ فَلَوْ لَمْ يَجْعَلْ لَهُمْ قَيِّما حَافِظاً لِمَا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ ص لَفَسَدُوا عَلَى نَحْوِ مَا بَيَّنَّا وَ غُيِّرَتِ الشَّرَائِعُ وَ السُّنَنُ وَ الْأَحْكَامُ وَ الْإِيمَانُ وَ كَانَ فِي ذَلِكَ فَسَادُ الْخَلْقِ أَجْمَعِين‏؛ .[1]شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۱۰۱۔

رسول پر اعتقاد اور اس کی اطاعت کرنا کیوں واجب ہے؟ بچے یہ سوال فورا کرتے ہیں، وہ فطرت سے باہر چلا جاتا ہے، اور باپ کو عاجز کر دیتا ہے، فی الحال کیوں کا سوال ابھارنا ضروری ہے۔سیاستدان کے انڈر ہیں سائنسدان، وہ تباہیاں مچاتے ہیں ان کے کہنے پر، کیونکہ اپنا کچھ نی بنا سکتے، وہ منافع چاہتا ہ اور اس کے پاس علم ہے اور اس کا منفی استعمال کرواتا ہے اس سے،مثلا ایک سکیم آتی ہے اور وہ سودی ہے اس کو نفع قرار دیں یا دین کی بات مانی اور کہیں کہ یہ نقصان ہے؟ حقیقی نفع کس مین ہے؟ رسول پر اعتمار کا اب پتہ چلے گا، سود کو لے گا تو اس کا نقصان ہے، ایران میں بھی یہی مسئلہ ہے بینکوں نے ملک کو جکڑا ہوا ہے، عالمی بینک نے اسیران کو تباہ کیا ہوا ہے، ہر ملک نے عالمی منڈی میں اشیاء لانی ہیں، اب یہ بیچارے تاجر بھیجتے ہیں، تو پیسے کہاں سے آئیں گے؟ یہ اب پیسہ کہاں سے بھیجیں؟ مالی تبادلہ کرنے والوں کو وہ پکڑ لیتے ہیں یکونکہ ان پر پابندیاں ہیں۔ کھربوں کا نقصان، اجازت نی ہے اور سمگلر ان کو بلیک میل کرتے ہیں، بینک قوی ہو رہے ہیں اور ان پر ہاتھ نی ڈچال سکتی ورنہ فتنہ کریں گے۔ سود کا کاروبار اس سے منع ہے۔اگر انبیاء و رسلؑ نہ آتے تو انسان کو اپنا نفع و نقصان، اللہ کی معرفت، اچھائی برائی وغیرہ کا صحیح علم نہ ہو پاتا۔اطاعت سے مراد پیری مریدی نی ہے، علی پیروں کے پیر ہیں یہ نی ہے، اولی الامر سے مراد وہ افراد جو صاحبان حکومت ہیں، صوفیت :ے نام پر انحراف جدا ہے ،گمراہ کن نظریات کا عرفان سے کئوی تعلق نی ہے۔ علی کی اطاعت اولی الامر کی وجہ سے ہے نا کہ پیری مریدی کی بنا پر۔ حدود کی پابندی کرنا ضروری ہے۔

منابع:

منابع:
1 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۱۰۱۔
Views: 40

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: متنازعہ بل اور دورِ صحابہ