loading

{ شرح فصوص الحکم ۔ قيصری }

فصّ آدمی

استاد: آیت اللہ حیدر ضیائی
تدوین: سید محمد حسن رضوی

فصوص الحکم میں ۲۷ فصوص ہیں۔ ہر فص ایک انسان کامل سے متعلق ہے جس میں اس نبی ؑ سے متعلق خصوصیات کو ذکر کیا گیا ہے۔ فص کا ایک معنی خلاصہِ شیء اور زبدہِ شیء ہے، جیسے مکھن جوکہ دہی سے لیا جاتا ہے اس مکھن کو فص کہتے ہیں۔ فص کا دوسرا معنی تزیینِ شیء ہے ، وہ جس سے ایک شیء کو زینت حاصل ہوتی ہے، جیسے فصِ خاتم یعنی انگوٹھی کا نگینہ۔  فصِ حکمتِ الہٰیہ میں ہم نے حکمت کا معنی پڑھ لیا تھا۔ الہٰیہ سے مراد وجود کے ایک مرتبہ ہے جس میں اسماء و صفات کی تفصیل ہے۔ اول تعین احدیت مرتبہِ الہیت مرتبہِ واحدیت ہے اور مرتبہِ واحدیت مرتبہِ اسماء و صفاتِ الہٰی ہے لیکن تفصیل کے ساتھ جبکہ مرتبہِ احدیت یہی مرتبہِ اسماء و صفات ہے لیکن اجمال کے ساتھ۔ اسم اللہ بھی الہٰیت سے مشتق ہے۔                اللہ سبحانہ تمام اسماء و صفات سے متصف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اور مشیت تھی کہ وہ ان اسماء و صفات کو ظہور و بروزدے۔ تمام وجودات اسماء و صفات کو ظہور دے رہے ہیں۔                                                                                            ظاہر اور مظہر میں اتحاد ہوتا ہے کیونکہ مظہر ظاہر کو ظہور دے رہا ہے۔  اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق کو خلق کرے جو اس کے تمام اسماء و صفات کو ظہور و بروزدے اور یہ صرف آدم سے ممکن ہے اور کسی سے ممکن نہیں ۔

فہرست مقالہ

آدم سےمراد روحِ کلی کا ہونا:

               آدم سے مراد ہماری جناب آدمؑ نہیں کیونکہ وہ مصداق اور جزئی ہیں۔ آدم سے  ہماری مراد  وجودِ کلی ہے ۔ اللہ کی مشیت کو ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آدم کو خلق فرمایا ۔ چونکہ آدم بمعنی انسان کامل یہ استطاعت رکھتا ہے کہ الہٰیت کو ظہور و بروز دے۔ جناب آدمؑ نبی اللہ اس آدم یعنی انسان کامل کا ایک مصداق ہیں ، جناب ابراہیمؑ ایک مصداق ہیں ، رسول اللہ ﷺ سب سے جامع اور کامل مصداق ہیں۔ حدیث میں آیا ہے :> كنت‏ كنزا مخفيا فأحببت أن أعرف فخلقت الخلق لكي أعرف‏ < [1]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۴، ص ،۱۹۹، باب ۱۲۔ آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے لیے خلق فرمایااور اس کا مرتبہ تمام عوالم کے مراتب سے جامع ہے۔ اس طرح حضرت آدم مرتبہِ الہٰیہ کے لیے آئینہ بن گئے۔ آدم بمعنی انسان کامل مظہر ہیں اسمِ اللہ کا۔  یہ دنیا مظہر ہے اپنے سے بالاتر عالم  یعنی عالم ملکوت کا اور  عالم ملکوت مظہر ہے عالمِ جبروت  کا اور  عالم جبروت مظہر ہے عالم لاہوت کا ۔ تمام عوالم اللہ تعالیٰ کے ظہورات ہیں جن میں جامع مظہر  انسان کامل ہے۔

               کلمہِ آدمی سے ہماری مراد روحِ کلی ہے جوکہ نوعِ انسانی کا مبدأ ہے۔ یہاں کلی سے مرادعلومِ عقلیہ میں بحث کی جانے والی ’’ کلیِ مفہومی‘‘ نہیں ہے بلکہ مراد کلی وجودی ہے جوکہ وسعتِ وجودی یا سعۃِ وجودی سے عرفان میں تعبیر کی جاتی ہے۔ شیخ اکبر کہتے ہیں کہ آدم وہ نفسِ واحد ہے جس سے اس نوعِ انسان کو اللہ نے خلق کیا ہے۔  یعنی اس نفسِ واحد کے  سبب سے نوعِ انسانی ظاہر ہوئی بلکہ تمام اشیاء ظاہر ہوئیں۔ حضرتِ آدمؑ اس آدم کلی سے جدا ہیں ۔ آدم ابو البشرؑ اس نوعِ انسانی کے پہلے فرد ہیں جو عالم شہادت میں آئے اور اسمِ اللہ کے مظہر قرار پائے۔ آدمؑ کی جامعیت ان کے اولاد میں سے خاص اولیاء جو کُمّل ہیں کو حاصل ہے۔ یہ کتاب فصوص میں تقسیم ہے اور ہر فص ایک نبی کے ساتھ مختص ہے۔

               اللہ تعالیٰ کی ایک ذات ہے اور ایک اسماء۔ ذات کے اعتبار سے اللہ سبحانہ غنی و بے نیاز ہے لیکن اسماء میں عوالم پیش نظر ہیں۔ ذاتِ الہٰی لا متناہی ہے لیکن اسماء کے اعتبار سے عوالم پیش نظر ہیں۔ اسماء الہٰی کو شمار نہیں کر سکتے لیکن تقسیم کر سکتے ہیں، مثلاً اسماءکلی جن کا وجود وسیع اور احاطہ کیے ہوئے ہے جبکہ اسماء جزئی محاط ہیں جن کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اسماء کلی ۹۹ ہیں جبیاکہ بعض احادیث مبارکہ میں ہے جبکہ اسماء جزئی کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسماء ِ الہٰی کی کل تعداد معلوم نہیں ہے۔ وہ اسماء جن کا عدد بیان کیا گیا ہے وہ اسماءِ کلی ہیں نہ کہ اسماء جزئی ۔ جو اسماء قابل شمار ہیں وہ اسماء کلی ہیں اور جو اسماء شمار نہیں کیے جا سکتے ہیں وہ اسماءِ جزئی ہیں۔  اسماءِ الہٰی علت اور موجوداتِ عوالم معلول ہیں۔ وجودِ علمی پہلے ہے اور وجودِ خارجی اس کے بعد ہے۔ اللہ سبحانہ نے اپنے اسماءِ حسنی کے اعتبار سے عوالم کو ایجاد کیا۔ عالمِ انسانی کی ایجاد کے ماوراء علتِ غایت کو بیان کیا  اور وہ علتِ غایت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو اپنی ذات کے ذریعے سے جامعِ انسانی کی جقیقت کے آئینہ میں آشکار کرے،  جیساکہ حدیث قدسی ہے:>كنت كنزاً مخفيًّا فأحببتُ أن أُعْرَف فخَلَقْت‏ُ الخلْق‏َ لكي أُعْرَف‏َ فتحبَّبتُ إليهم بالنعمِ فَعَرَفُوني‏؛ میں پوشیدہ خزانہ تھا ، پس میں نے محبوب جانا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے خلقت کو خلق کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں ، میں نے نعمات کے ذریعے ان سے محبت کی تو انہوں نے مجھے پہچانا <.[2]قیصری، شرح فصوص الحکم، ص ۳۲۶۔ [3]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۴، ص ۱۹۹۔  یہ قول اس تمہیدِ اصل کی مانند ہے جس پر اسماءِ الہٰیہ سے تمام کلی حکمتوں کا ان اسماء کے مظاہر میں ظاہر ہونا مترتب ہے۔

کائنات کا آئینہ ہونا

               یہ کائنات آئینہ کی مانند ہے جس میں اللہ تعالیٰ خود کو تفصیلی طور پر ملاحظہ فرماتا ہے۔ ایک ذات کا اپنے آپ کو خود سے دیکھنا ایک الگ چیز ہے اور آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھنا الگ چیز ہے۔ ہر جگہ جہاں وجود ہے وہاں کمالاتِ وجود بھی ہیں۔ البتہ جہاں وجود قوی ہے وہاں کمالات بھی قوی ہیں اور جہاں وجود ضعیف ہے وہاں کمالات بھی ضعیف ہیں۔ وجود کی مثال لشکر کے سردار کی سی ہے اور کمالاتِ وجود کی مثال لشکر کے افراد کی سی ہے ۔ جہاں سردارِ لشکر ہے وہاں وہاں اس کی اتباع میں افرادِ لشکر بھی ہیں۔ جتنا سردار قوی ہو گا اتنا افرادِ لشکر قوی ہوں گے۔ دیوار ایک وجود ہے لیکن ضعیف وجود ہے اس لیے اس کے کمالات بھی ضعیف ہیں۔ دیوار سے قوی نبات کا وجود ہے اس لیے افرادِ نبات بھی دیوار سے قوی ہیں۔ حیوان نبات سے وجود میں قوی تر ہے اس لیے افرادِ حیوان بھی نبات اور اس کے افراد سے قوی تر ہیں، انسان ان سب میں قوی تر ہے کیونکہ اس کا وجود بقیہ سے قوی تر ہے۔ حق تعالیٰ اسماء اور اعیانِ اسماء یعنی اعیان ثابتہ اور مظاہرِ اسماء یعنی اعیان خارجی کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب اسماء و اعیان و مظاہر کا مشاہدہ تب سے کر رہا ہے جب انسانِ کامل ظاہر نہیں تھا۔ یعنی ازل سے اللہ سبحانہ ان کا مشاہدہ کر رہا ہے اور یہ مشاہدہ اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات کے ضمن میں مشاہدہ کرنا ہے۔ اگر ہم شیخ اکبر کی تعلیل کو مناسب معنی میں ڈھالیں تو کہیں گے کہ اللہ کی مشیت یہ تھی کہ وہ اعیان کا مشاہدہ کرے ، یہ بات اس سے جدا ہے کہ اللہ تعالیٰ  آدم میں  خود اپنی ذات کا مشاہدہ کرے ۔ بالفاظِ دیگر یہ مطلب  اس معنی سے جدا ہے کہ حق تعالیٰ آئینہ میں خود کو مشاہدہ کرے۔  کیونکہ آدمؑ اپنی ذات کے اعتبار سے معدوم  اور حادث ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو وجود دیا ہے لیکن حق تعالیٰ کی طرف نسبت کی صورت میں موجودہیں۔ تمام عالمِ امکان اسی طرح ہے کہ ذات کے اعتبار سے معدوم اور حادث  اور محتاجِ محدِث ہے لیکن حق تعالیٰ کی نسبت سے موجود ہے۔ آدمؑ میں یہ قابلیت تھی کہ وجود کے تمام اسرار ان میں ظہور کر سکیں ۔ لہٰذا وہ اس سے متصف ہوئے اور قابلیت ہونے کی وجہ سے آدمؑ نے تمام اسماء اور ان کی خصوصیات کا احاطہ کیا۔ کیونکہ ملزوم نقشِ علت رکھتا ہے اور لازم نقشِ معلول ۔ وجود ملزوم ہے اور کمالاتِ وجود معلول ہیں ۔اسماء و صفات کمالاتِ وجود ہیں۔ فرق نہیں پڑتا کہ یہ بالواسطہ ہو جیساکہ کَونِ جامع ہمارے لیے بالواسطہ ہے اور انسان کامل کے لیے بلا واسطہ ۔ کونِ جامع سے مراد ما سوی اللہ ہے۔

               سرّ سے مراد عینِ حق تعالیٰ اور اس کے کمالاتِ ذاتی ہیں۔ عینِ حق اور کمالاتِ ذاتی غیب الغیوب ہے جیساکہ کہا جاتا ہے کہ آبادان کے بعد کوئی گاؤں نہیں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد کوئی منزل یا ذات نہیں ہے۔ لہٰذا مشیتِ الہٰی یہ تھی کہ وہ خود کو اور اپنے ذاتی کمالات جوکہ غیبِ مطلق ہے کو مشاہدہ کرے شہادتِ مطلقہ انسانی میں انسانِ کامل کے آئینہ میں ۔ پس یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے آپ کا مشاہدہ کرنا اور اپنی ذاتِ غیب میں اپنے کمالات کو مشاہدہ کرنا علمِ ذاتی کی بناء پر ہے ، چنانچہ زمین و آسمان سے ایک ذرہ بھی اس سے غائب نہیں ہے ۔ یہ نوعِ مشاہدہ اور رؤیت ایک چیز ہے اور انسانِ کامل کو آئینہ قرار دے کر اس آئینہ کے توسط سے مشاہدہ کرنا ایک الگ چیز ہے۔

اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے نسبت مثل دریا و قطرہ

               مشیتِ الہٰی یہ قرار پائی کہ وہ اپنے آپ کو خود یا اپنی صفات کو کونِ جامع میں مشاہدہ کرے اور  انسان کامل مظہرِ اسم الہٰی قرار پائے ۔ کونِ جامع سے مراد انسانِ کامل ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ نے جناب آدمؑ کو خلق کیا۔ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنے آپ کو مشاہدہ کر رہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مظاہرِ الہٰی میں یا آئینہ میں اپنے آپ کو مشاہدہ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ ازل سے اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو مشاہدہ کر رہا ہے اور اپنی ذات غیب میں اپنے کمالات  کا علم ذاتی  رکھتا ہے۔ آئینہ میں ذات و صفات کو مشاہدہ کرنا بدونِ آئینہ مشاہدہ سے فرق رکھتا ہے کیونکہ جب آئینہ میں صفات الہٰی جلوہ گر ہو تو اس سے آئینہ متاثر ہوتا ہے اور صفاتِ الہٰی کی تاثیر آئینہ پر برپا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری حکمت یہ سامنے آتی ہے کہ جب ایک ذات اپنے کمال کو آئینہ میں مشاہدہ کرتی ہے تو ایک ابتہاج سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ رہنی چاہیے کہ انسان یا عوالم حتی انسان کامل اللہ تعالیٰ کے لیے آئینہ یا مرآۃ نہیں ہے بلکہ مثلِ مرآت و آئینہ ہے۔ کیونکہآئینہ انسان کی نسبت سے یا کسی بھی ذات کی نسبت سے بیگانہ اور کسی قسم کے احساس کا حامل نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات اللہ سبحانہ سے ربط و تعلق بھی رکھتی ہیں اور اللہ کے بغیر ان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کی مثال دریا اور قطرہ کی سی ہے کہ دریا میں قطرہ دریا ہے لیکن دریا کے مقابلے میں قطرہ کی کیا حیثیت !! اللہ تعالیٰ ان عوالم سے نسبت دریا اور قطرہ کی سی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور قطرہ وجود میں ایک ہیں لیکن وجود کی حدود و قیود میں فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ  کے وجود کی کوئی حدود نہیں ہیں لیکن غیر اللہ کے وجود کی حدود و قیود ہیں۔ اس وجہ سے اللہ سبحانہ کے مقابلے میں اس کا غیر کالمرآۃ ہے نہ کہ مرآۃ۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کا اپنے آپ کو اپنی ذات میں اپنی ہی ذریعے سے مشاہدہ کرنا الگ چیز ہے اور کسی اور شیء کے توسط سے اپنے آپ کا مشاہدہ کرنا الگ چیز ہے۔ اس کی مثال آئینہ سے دی جاتی ہے ، لہٰذا ہر آئینہ اپنی خصوصیات کے مطابق اس شیء کو ظاہر کرتی ہے۔ آئینہ میں خصوصیت بغیر آئینہ کے حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس شیء کی تجلی کے بغیر بھی آئینہ کو خصوصیت حاصل نہیں ہو سکتی، مثلاً ایک انسان آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو جیسا آئینہ ہو گا ویسی صورت انسان کی نظر آئے گی۔ آئینہ گول ہے یا مستطیل ہے تو گول یا مستطیل صورت میں انسان کی صورت منعکس ہو گی۔ نیز نفسِ انسان اپنی بہترین خوبصورت جمیل صورت کو دیکھ کر احساسِ لذت کرتا ہے۔ اگر چاروں طرف آئینے ہوں تو جتنے آئینےہیں وہ سب کے سب ایک ہی انسان کو اپنی اپنی خصوصیات کے مطابق ظاہر کر رہے ہیں۔ آئینہ کی خصوصیت ہے کہ ایک ذات کو آئینہ انعکاس کے وقت متعدد ظاہر کرتا ہے۔ پس ذات ایک ہے لیکن متعدد آئینے اس ایک ذات کو متعدد کر رہے ہیں اور متعدد صورتوں میں ظاہر کر رہے ہیں۔

               اس جگہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آئینہ اپنے غیر کو کمال عطا کر رہا ہے!! ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ یہ آئینہ بھی تو ذاتِ الہٰی کے لوازم میں سے ہی ہے ۔ آئینہ مثلِ انسان کامل خود اللہ سبحانہ کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ وجود کے اعتبار سے یہ مظاہر عینِ خدا ہیں لیکن دوسری طرف سے حدِ وجود کے اعتبار سے غیر خدا ہے ، جیسے دریا میں قطرہ دریا ہے لیکن دریا کے مقابلے میں قطرہ ہے۔ مقدمِہِ شارح قیصری کی تیسری نکتہ میں گزر چکا ہے کہ اعیانِ ثابتہ بھی عینِ حق تعالیٰ ہیں اور اس کے علمی مظاہر میں سے ہیں۔ پس یہ مظاہر حق تعالیٰ کی تکمیل کا باعث نہیں ہیں۔ اس لیے شیخ اکبر نے مظاہر کو مرآۃ نہیں کہا بلکہ کالمرآۃ کہا ہے۔ کیونکہ آئینہ میں جب دیکھنے والا نہیں دیکھتا تو اس وقت آئینہ اور دیکھنے والے دونوں الگ الگ تعینات رکھتے ہیں  اور اس وقت ان میں بینونتِ ذاتی اور جدائی کامل پائی جاتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ اور غیر اللہ میں بینونتِ ذاتی اور کامل جدائی ممکن نہیں ہے بلکہ غیر اللہ کا وجود اللہ سبحانہ کی جانب سے ہے۔

               پس تمام خلقت مثلِ بدن ہے اور اس بدن کی روح ’’انسان کامل‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سماء و ارض خلق فرمایا تو بدن کو بدونِ روح نہیں رکھا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جناب آدمؑ کو خلق فرما بدنِ خلقت کو روح عنایت کی،  جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَ نَفَخْتُ فيهِ مِنْ رُوحي‏ فَقَعُوا لَهُ ساجِدين‏؛ پس جب میں نے اس کو مکمل بنا دیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی تو وہ اس کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ [4]الحجر: ۲۹۔ پس اللہ تعالیٰ نے خلقت کی روح انسان کامل کوقرار دیا ہے۔ حجت اور انسان کامل نبی یا رسول کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اولیاء الہٰی بھی انسان کامل ہیں اور ان کے بغیر ممکن نہیں ہے خلقت حیات سے مربوط رہے۔ آج کے دور میں امام مہدی ؑ ہیں جوکہ حجت اور انسانِ کامل ہیں۔ یہ نظریہ مکتبِ اہل بیتؑ میں واضح طور پر آیا ہے کہ اگر حجت نہ ہو تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جائے۔

ایک شبہ :بدن بدونِ روح

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین و آسمان تو حضرت آدمؑ کے زمین پر اترنے سے پہلے تھے تو پھر یہ ضابطہ اس و قت کیوں جاری نہیں ہوا؟یعنی اگر جناب آدمؑ کی خلقت سے پہلے ملائکہ و دنیا و سماء و ارض وغیرہ سب تھے تو اس کا مطلب ہے کہ بدن بدونِ روح تھا ؟ کیونکہ آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے ان سب کے بعد خلق فرمایا؟! اس کے تین جواب بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ ان میں پہلا جواب یہ ہے کہ انسان کامل کا وجودِ عنصری اگر یہاں نہیں تھا تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ اصلاً کسی مرتبہ یا سطح کا وجود نہیں تھا!! اس وجود عنصری سے پہلے وجود مثالی  عالم الذر اور وجودِ عقلی تھا۔ وجود عقلی سے پہلے وجودِ علمی تھا جسے اعیانِ ثابتہ کہتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ إِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَ ما نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم‏۔ [5]الحجر: ۲۱۔اللہ تعالیٰ کے پاس ہر شیء کے خزانے موجود ہیں جنہیں وہ مقدار کے تناسب سے اتارتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں ایک وجودِ علمی یعنی اعیانِ ثابتہ ہے ، ایک خزانہ وجودِ عقلی ہے ، ایک خزانہِ وجودِ مثالی ہے ، ایک خزانہ وجود عنصری ہے۔
۲۔
اس سوال کا دوسرا جواب اس قاعدہ کے طور پر دیا جاتا ہے کہ ہر چیز جو ابدی ہے وہ ازلی بھی ہے اور جو ازلی ہے وہ ابدی ہے۔ یہ ایک قاعدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو ابدی ہے وہ ازلی ہے۔ نفس انسان ابدی ہے پس نفسِ انسان ازلی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ ہم نفس کو قدیم مانیں اور افلاطون کے نظریہ کو قبول کریں ۔ ملا صدرا کی حکمت متعالیہ کے مطابق یہ جواب درست نہیں ہے۔ افلاطون قدیمِ نفس کے قائل ہیں اور ارسطو و مشاء حادثِ نفس کے قائل ہیں ۔
۳۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ انسان کامل کا وجود ’’وجودِ عنصری‘‘ کے لحاظ سے متأخر ہے لیکن وجودِ علمی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر وجود سے متقدم ہے۔ نشاءتِ عنصری موقوف ہے مزاجی استعداد کے حصول پر جوکہ طبیعی عناصر کے باہمی ملاپ اور فعل و انفعال کے نتیجہ میں سامنے آتے ہیں، جیساکہ فرمانِ الہٰٖی ہے: خَمَّرْتُ‏ طِينَةَ آدَمَ‏ بِيَدِي‏ أَرْبَعِينَ صَبَاحا۔[6]ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۹۸، حدیث: ۱۳۸۔علامہ حسن زادہ آملی بیان فرماتے ہیں کہ اگر عوالم کو جمع کریں اور ایک چیز میں بند کر دیں تو یہ انسان کامل بن جاتا ہے۔ حقیقت انسان کی تفصیل فصوص الحکم کے مقدمہ سے پہلے قیصری کا تحریر کردہ۱۲ فصول پر مشتمل مقدمہ میں گزر چکی ہے۔
               تمام ارواح یعنی عقول سے پہلے نشاءت روحانی کلیہ کے اعتبار سے انسان کامل سب پر مقدم ہے، جیساکہ رسول اللہ ﷺ کے فرامین ہیں: أَوَّلُ‏ مَا خَلَقَ‏ اللَّهُ‏ نُورِي‏۔[7]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱، ص ۹۷۔بلحاظ شرف و رتبہ وجود رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ ان سب انبیاءؑ پر مقدم ہے۔ امام علیؑ کا وجود صادرِ اول کے عرض میں ہے ۔ وجودِ صادر اول غیر متناہی ہے اور اس کے عرض میں جو وجود ہے وہ بھی اسی صفت سے متصف ہے۔

نشاءت روحانی کلیہ: 

              ایک نشاءت روحانی کلیہ ہے جس سے مراد عالمِ عقول ہے اور نشاءت روحانی جزئیہ ہے اس سے مراد عالم مثال ہے۔ کلی سے عرفان میں مراد سعہِ وجودی ہے ۔ پس یہ تقدم عالم عقلی کے اعتبار سے بھی ہے اور عالم مثالی کے اعتبار سے بھی ہے۔ انسان کامل تمام مراتب میں معدوم نہیں تھے بلکہ فقط نشاءت عنصری میں معدوم تھے جبکہ وجودِ علمی، وجود عقلی اور وجود مثالی کے اعتبار سے موجود تھے۔اس لیے جناب آدمؑ عقول و نفوسِ فلکیہ سے ذاتی تأخر رکھتے تھے نہ کہ زمانی لیکن مطلق طور پر معدوم نہیں تھے کیونکہ نشاءت عنصری میں نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بقیہ نشاءات میں بھی معدوم ہیں !! بالفاظِ دیگر حضرت آدم ؑ کا وجودِ عنصری متأخر ہے ملائکہ و آسمان و زمین وغیرہ سے لیکن وجودِ مثالی و عقلی مقدم ہے ان سب پر ۔ علم عرفان نے یہ سب معلومات کشف و شہود سے حاصل کی ہیں۔ انہوں نے مکاشفہ میں دیکھا کہ حضرت آدمؑ کا وجود عنصری متأخر ہے بقیہ نشاءات میں وہ مقدم ہیں۔

فیض اقدس و فیض مقدس:

               فیض اقدس اور فیض مقدس میں فرق ہے۔ فیض اقدس وجودِ علمی الہٰی ہے جبکہ فیض مقدس سے وجود خارجی مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان وجودات کو خلق کرنے سے پہلے ان کا علمی وجود اللہ سبحانہ کو حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ ذا ت میں تمام موجودات کا علم موجود ہے، جیساکہ انجینئر کے بارے میں کہتے ہیں کہ پہلے اس کے ذہن میں پورے گھر کا نقشہ ہوتا ہے اس کے بعد نقشہ کے مطابق وہ خارج میں گھر بناتا ہے۔ اللہ سبحانہ کی ذات میں اسی طرح تمام موجودات کا علم موجود ہے جسے اعیانِ ثابتہ کہتے ہیں ۔ اسی کو فیض اقدس کہتے ہیں۔

اقدس کہنے سے مراد اقدس از کثرات  ہے۔ ذاتِ الہٰی بسیط ہے اس لیے اس مقام پر تعدد اور کثرت نہیں ہو سکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اعیان ثابتہ افاضہ ہوئی ہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ بسیط ہے اس لیے اقدس من کثرات اور کثرتِ اسماء حقائقِ امکان کے نقائص سے مبرا ہے۔ اللہ تعالیٰ افاضہ ایک مرتبہ فیض اقدس کی صورت میں ہے اور ایک مرتبہ فیض مقدس کی صورت میں ہے۔ اشیاء کا علمی وجود یا تمام اشیاء کی خلقت کا نقشہ ذات باری تعالیٰ کے پاس ہے جہاں کثرت پیش نظر نہیں ہے اس لیے اقدس از کثرات کہا ۔ وجودِ خارجی کو فیض مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے جہاں کثرت ہے۔ تمام جہان بدن کی مانند ہے جس کی روح انسان کامل ہے یعنی جناب آدمؑ کو اسی مقصد کے لیے خلق کیا۔ اس عالم کی جان اور روح انسان کامل ہے جو نہ ہو تو تمام عوالم بے جان ہے۔ اسی لیے زیارتِ جامعہ کبیرہ میں ہے : بكم فتح الله ، وبكم يختم، وبكم يمسك السماء أن تقع على الأرض۔  زیارتِ جامعہ حقیقی معنی میں امام شناسی ہے۔

سبب خلقِ خلقت اور حبّ ذاتی:

عرفاء قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حبِ ذاتی کی بناء پر خلقت کو خلق کیا ۔ اس کی دلیل ایک حدیث قدسی ہے : كنت كنزاً مخفيّاً أحببت أن اعرف، فخلقت الخلق ليعرفون‏. [8]مجذوب، محمد ، الہدایا لشیعۃ آئمۃ الھدی، ص ۱۱۴.فیصری، داود،شرح فصوص الحکم، ص ۳۳۶۔ اس کو عرفاء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حبِ ذاتی کی بناء پر خلقت کو خلق کیا ۔ انسان کی قیمت بہت بلند ہے۔ انسان کی معرفت میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے خلق کیا تاکہ خود کو متعارف کروائے۔ یہ حدیث قدسی جناب داؤدؑ سے ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ کیوں مجھے خلق کیا تو اللہ سبحانہ نے یہ ارشاد فرمایا۔ پس خلقت کو خلق کرنے کا سبب حرکتِ حبی ہے۔ اس لیے حرکتِ حبی کی صورت میں وجودِ علمی سامنے آئی اس کے بعد وجود خارجی ۔ پہلے گھر کا نقشہ اور اس کے بعد گھر کی خارج میں تشکیل ہوتی ہے۔ اس لیے حرکتِ حبی کی صورت میں فیض اقدس اور پھر فیض مقدس یعنی وجود خارجی کا تحقق ہوا۔

ہر فعل یا عمل انجام پائے تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں : ۱۔ فاعل، ۲۔ فعل ، ۳۔ قابل۔  اللہ تعالیٰ نے بعنوان فاعل اس جہان کو خلق کیا  اور وجودِ جہان و عالم فعلِ الہٰی جوکہ فیض مقدس ہے جبکہ قابل ’’فیض اقدس‘‘ ہے جسے اعیان ثابتہ کہتے ہیں۔ عین ثابت نے جب وجود خارجی کو قبول کیا تو خارج میں اس علمی وجود کا خارجی وجود کا تحقق ہوا ہے۔ پس قابل سے مراد علمی وجود کا ذات باری تعالیٰ میں ہونا اور پھر وجود خارجی کو قبول کرنا ہے۔ چونکہ وجود علمی قبول کرتا ہے اس لیے اس کو قابل کہتے ہیں ۔یہاں یہ سب سوالات کے جوابات روشن ہو جاتے ہیں کہ درخت کیوں درخت ہے ؟ اس لیے کہ اس کا وجود علمی درخت تھا، کیوں پتھر پتھر ہے ؟ اس لیے کہ وجودِ علمی پتھر تھا۔ کیوں یزید یزید ہے؟ اس لیے کہ وجودِ علمی یزید ، شمر وغیرہ تھا۔ کیوں ابو ذر و سلمان ایسے تھے؟ کیونکہ ان کا وجودِ علمی ابو ذر و سلمان تھا۔ وجودِ علمی جس نوعیت اور جس طرح کا تھا ویسا ہی وجود خارجی میں قبول کرنا ہو گا۔

               یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حاکم اور اشیاء محکوم ہے تو پھر جبر لازم آتا ہے!! کیونکہ شمر کہہ سکتا ہے کہ چونکہ وجودِ علمی میرا شمر تھا اس لیے میں شمر نکلا ، اگر میں وجودِ علمی کے مرحلہ میں شمر نہ ہوتا تو خارج میں شمر نہ ہوتا !! پس یہ تو جبر لازم آیا ؟!! اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ ایک جہت سے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ حاکم ہے جس نے عین ثابت کے مطابق وجود خارجی عطا کیا ہے لیکن دوسری جہت سے دیکھیں تو ذات میں جیسی استعداد تھی ویسا اس کا وجود علمی عین ثابت میں متحقق ہوا اور اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے وجود خارجی عنایت فرمایا۔ اس کے مطابق استعداد کا ایک ذات میں ہونا حاکم ہے اور اس کے مطابق عین ثابت میں ہونا اللہ تعالیٰ کے محکوم ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ پس ان دونوں جہات میں تنافی نہیں ہے۔ اس کو ہم اس مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ  اگر ایک طبیب مریض کے لیے نسخہ لکھتا ہے تو طبیب حاکم ہے جو لکھتا ہے اور نسخہ دیتا ہے اور مریض محکوم ہے جونسخہ لیتا ہے اور نسخہ پر عمل کرتا ہے۔ اسی وقت طبیب مجکوم ہے کیونکہ طبیب مریض کے مرض کے ماتحت نسخہ لکھے گا۔ اس لیے طبیب کے نسخہ لکھنے کی اصل وجہ مریض کا مرض تھا، جیسا مرض ویسا نسخہ ، نسخوں کے مختلف ہونے کی وجہ امراض کا مختلف ہونا ہے۔ پس مرض حاکم ہے مریض ہے جس کے مطابق طبیب نسخہ لکھے گا اور اس اعتبار طبیب محکوم بھی کہلائے گا۔ ایک اور مثال سے اب بات کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ ایک چور جو پکڑا گیا اور قاضی کے پاس لایا گیا ، قاضی نے حکم لگاتے ہوئے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا۔ یہاں اگرچے ظاہر میں حاکم قاضی ہے اور محکوم چور ہے ، لیکن قاضی کے حکم لگانے کا سبب چور کی چوری اور مجرم تھا ۔پس چور پر جرم حاکم تھا اور اس جرم کی وجہ سے قاضی محکوم کہلائے گا کیونکہ وہ جرم کی وجہ سے حکم لگانے پر مجبور ہے۔

               یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ شمر نے ابھی جرم انجام نہیں دیا پھر کیوں شمر قرار دیا گیا ؟! اس کے جواب میں ایک مثال دیتے ہیں کہ اپنے لیے ۶۰ میٹر زمین پر انجینئر سے گھر بنواتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تین کمرے اس میں بنانا ۔ جب انجینئر نے گھر بنایا تو ایک کمرہ بنایا۔ اب آپ آ کر شور مچائیں کہ میں نے تین کمرے کہا تھا تم نے ایک کمرہ بنایا ہے تو انجینئر کہے گا کہ ساٹھ میٹر پر ایک کمرہ بنتا ہے ۔ تم نے اتنی کم زمین دی ہے کہ اس میں ایک سے زائد کمرہ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح شمر کی استعداد اور ظرفیت سلمان بننے کی نہیں تھی اس لیے شمر شمر بنا۔  ایک اور مثال اس زمرے میں یہ دی جا سکتی ہے کہ بچے سکول میں امتحان دیتے ہیں اور معلم اس امتحان کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ یہاں اگرچے استاد نے نمبر دیں ہیں اور کسی کو بہترین نمبر اور کسی کو وسطی اور کسی کو کم نمبر دیئے ہیں۔ استاد سے نمبر دینے کا عمل  صفحہِ امتحان کے مطابق ہے جوکہ حاکم ہے اور استاد کا نمبر دینا محکوم ہے شاگرد کے امتحان دینے کے۔ پس یہاں استاد سے مختلف شاگردوں کو مختلف نمبر دینے کا سبب پوچھا جائے تو استاد جواب دے گا کہ جس نے جس سطح کا امتحان دیا اس کے مطابق میں نے نمبر دیئے ہیں۔ بچے کی علم قابلیت حاکم ہے کہ استاد اس کے مطابق نمبر دے۔ اسی طرح اللہ سبحانہ نے ہر ذات کو جامہِ وجود پہنایا ہے لیکن جو جیسی استعداد اور قابلیت رکھتا تھا اس کے مطابق اللہ سبحانہ نے اسے خلق کیا ہے۔ لہٰذا استعداد حاکم ہے اور اللہ تعالیٰ کا اس کے مطابق وجود عطا کرنا محکوم ہونا ہے ۔ پس ایک جہت سے اللہ تعالیٰ حاکم ہے اور دوسری جہت سے اللہ سبحانہ محکوم ہے اور ان دونوں میں تنافی نہیں ہے کہ ہم کہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے بکری یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے کیوں انسان خلق نہیں کیا اور انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پتھر یا پرندہ نہیں بنایا ۔ ہر ذات جیسی صلاحیت اور قابلیت رکھتی تھی اسی  ذاتیات کے عین مطابق خلق ہوئی ہے۔ فرمانِ الہٰی ہے: فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبالِغَة. [9]انعام: ۱۴۹۔ پس اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں ہو سکتا ہے کہ فلاں کو ایسا کیوں بنایا اور فلاں کو ایسا کیوں بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وجود دیا ہےجیساکہ ابن سینا کا کہنا ہے کہ اللہ سبحانہ نے آلوچے کو آلوچہ نہیں بنایا بلکہ اسے وجود دیا ہے۔ اگر کوئی وجود اپنے اندر نقص کرتا ہے اسے اپنے آپ ہی کو ملامت کرنی چاہیے۔

یہاں سوال ابھرتا ہے کہ شمر کی قابلیت اور صلاحیت کیوں سلمان والی نہیں تھی؟ اس کے جواب کہیں گے کہ ہر شیء کی استعداد اور قابلیت ذاتی ہے اور ذاتی لا یعلل۔ ہر شیء ذاتی طور پر استعداد اور قابلیت کی مالک ہے اور اسی استعداد اور قابلیت کے مطابق وجود علمی سامنے آتا ہے اور یہ وجود علمی وجودِ خارجی قبول کرتا ہے۔ ابن سینا کا جملہ معروف ہے کہ ما كان الله المشمشة المشمشة بل مشمشته ذاتيها. اللہ تعالیٰ نے آلوچے کو وجود دیا جبکہ اس کا آلوچہ ہونا ذاتی ہے ۔اگرچے عین ثابت کے مطابق خارجی میں تمام موجودات وجود میں آ رہے ہیں لیکن عین ثابت میں ایک شیء کا موجودہونا اس کی ذات کے تقاضا کرنے کی بناء پر ہے۔ اس ذات کا تقاضا یہ تھا کہ اللہ تعالی کے ازلی علمی اور عین ثابت میں اس کا وجود اس طرح ہو اور پھر خارج میں اسی کے مطابق متحقق ہو۔ اس لیے بکری کبھی بھی درخت نہیں ہو سکتی تھی، درخت کبھی بھی انسان نہیں ہو سکتی ، شمر کبھی سلمان نہیں بن سکتا تھا۔ پس استعداد کے مطابق ہر شیء جامہِ خلقت پہنتی ہے۔

 پس اعیانِ ثاتبہ سے فیض مقدس اور وجود خارجی کے تحقق میں جبر نہیں ہے ۔ اس لیے اس نظریہ کے باوجود جبر کی نفی ہے۔ اشاعرہ سو فیصد جبر کی طرف گئے اور معتزلہ سو فیصد اختیار کی طرف جبکہ آئمہ اہل بیتؑ کی تعلیمات ہیں کہ الامر بین الامرین ہے ۔الامر بین الامرین سے مراد پچاس فیصد اختیار اور پچاس فیصد جبری نہیں ہے بلکہ سو فیصد اختیار ہمارے پاس ہے لیکن ارادہِ الہٰی کے ماتحت اور تحت الشعاع ہے۔ پس ارادہِ الہٰی غالب اور حاکم ہے اور ہم اپنے اختیار سے اعمال انجام دیتے ہیں جوکہ اللہ سبحانہ کے ارادہ کے ماتحت ہے۔               فصِ عزیری میں مصنف نے ذکر کیا ہے کہ اللہ کا علم اشیاء کے بارے میں جیسا تھا اسی اساس پر اشیاء کو خلق کیا گیا ، کیونکہ معلومات اس شیء کے بارے میں جیسی تھیں ویسی ہی ان اشیاء نے وجود کا جامہ پہنا۔

وجود کا منشاء و مقصد اللہ سبحانہ

               امرِ وجود کا منشاء بھی اللہ سبحانہ ہے اور اس کا منتہیٰ اور مقصد بھی اللہ سبحانہ ہی ہے۔ آغاز ہمارا اللہ سبحانہ سے ہے اور اسی طرف پلٹنا ہے۔ عرفاء قوسِ نزول اور قوس صعود کے قائل ہیں کہ نظام ہستی انہی دو قوس کے مابین ہے۔ قوس نزول کا آغاز اللہ تعالیٰ سے ہے اور قوس صعود میں اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ فرمان الہٰی ہے: إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون‏۔ [10]البقرۃ: ۱۵۶۔ پہلا حصہ ’’إنا للہ‘‘ قوس نزول اور دوسرا حصہ قوس صعود کو بیان کر رہا ہے۔ اسی طرح فرمانِ الہٰی ہے: يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ في‏ يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون‏. [11]سجدہ: ۵۔ آسمان سے زمین تک کی تدبیر قوس نزول کو بیان کرتی ہے اور پھر اس کی طرف اوپر جانا قوس صعود کو بیان کر رہا ہے۔

               قیامت کی ایک قسم قیامتِ صغری اور ہے اور ایک قیامت کبری ہے۔ انسان جب اس دنیا سے اٹھتا ہے تو یہ اس کی قیامتِ صغری ہے۔ قیامت سے مراد انسان کا اپنے اعمال کی جزا پانا ہے ۔ انسان جیسے مرتا ہے تو اسے اپنے اعمال کی جزا مل جاتی ہے۔ اس لیے مرتے ساتھ ہی انسان کی قیامت قائم ہو جاتی ہے لیکن یہ قیامت قیامتِ صغری ہے۔ قیامتِ کبری کے بارے میں قرآن نے بیان کیا ہے : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها- وَ أَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقالَها. [12]زلزالہ: ۱-۲۔اسی طرح قرآن کی دیگر آیات قیامتِ کبری کو بیان کرتی ہے جس میں مملکت فقط اور فقط اللہ سبحانہ کے پاس ہے۔ قیامت کبریٰ میں ہر فعل اللہ تعالیٰ کے افعال ، تمام صفات اس کی صفات اور تمام ذوات اس کی ذات میں فناء ہو جائیں گی یہاں تک کہ اثنینت رفع ہو جائے گی اور حکمِ احادیت ظہور پیدا کر لے گا۔ اسی طرح قیامتِ انفسی اور قیامت آفاقی ایک تقسیم کی جاتی ہے۔ قیامتِ انفسی ابھی بھی حاصل ہے جبکہ انسان جب مرتا ہے تو قیامتِ آفاقی بھی اسے حاصل ہو جاتی ہے۔

قُوَی روحانی یعنی فرشتے اور ان کی انواع

بعض ملائکہ عالم جبروت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انسان قوت سے فعلیت کی طرف حرکت کرتا ہے جبکہ ملائکہ ایسے نہیں کیونکہ عالم جبروت سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کے نقائص برطرف کر دئیے گئے ہیں اور فعلیت تک پہنچ گئے ہیں۔ ان سے اوپر ملائکہ مہیّمہ ہیں جو غرق ہیں اور ربوبی میں، حتی اپنے آپ سے غافل اور ذات الٰہی میں مستغرق ہیں۔ انہیں عالین بھی کہا جاتا ہے جیساکہ سورہ ص میں ہے۔

ان کے علاوہ ملائکہ مدبرات امر ہیں جو حکم الہی سے تدبیر کر رہے ہیں ۔ س کائنات کی ہر شیء اور ہر ذرہ مدبر رکھتی ہے۔  ان کے مراتب نیچے درجے کے ہیں۔ اس کے بعد طبیعت اور زمینی فرشتے ہیں، جیسے انسان پر مؤکل یا ہوا چلانے والے وغیرہ جیسے فرشتے۔ بعض فلک ہشتم کے فرشتے ہیں۔ بعض نیچے افلاک کے ملائکہ ہیں۔ عقول سماویہ سے مراد ہر فلک کا اپنے سے مختص فرشتہ رکھنا ہے۔ عالم طبیعت کے چار عناصر ہیں : آگ و پانی و ہوا و خاک ، ہر عنصر کا اوپر فرشتہ ہے۔ اس وقت سو سے اوپر عناصر دریافت ہو چکے ہیں جن میں سے بعض عناصر بسیط ہیں اور بعض دیگر عناصر مرکب ہے ، جیساکہ آج کی تحقیقات کے مطابق پانی عناصر مرکبہ مین سے ہے ۔ ان مرکب عناصر پر بھی فرشتے ہیں۔ اسی طرح معدنیات ہیں جو بنیادی تین ہین: 1۔ جمادات ، 2۔ نباتات ، 3۔ حیوانات ، ان سب پر فرشتے ہیں ۔

اسی طرح کچھ فرشتے ملکوتی اور عالم مثال سے تعلق رکھتے ہیں ۔ عقل کلی اس لیے اس فرشتے کو کہتے ہیں کیونکہ یہ تمام افلاک کے فرشتوں پر مقدم ہے۔ فرشتے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف وہی ہے جو نفسانی قوتوں کی نفس کی طرف ہے ۔ انسانی نفس کی قوتیں مختلف قسم کی ہیں ، مثلا قوت ادراکی ظاہری یعنی حواس خمسہ ظاہری  مثل دیکھنا سننا وغیرہ، قوت ادراکی  باطنی یعنی حواس باطنی مثل خیال و وہم وغیرہ ، قوت نباتیہ مثل غاذیہ، نشو و نما پانا یعنی نامیہ ، مولدہ جو تولید کرتے ہیں اور قوتِ تحریکی، جاذبہ ، دافع ، ہاضمہ ۔یہ جہان جسم و بدن ہے اور روحِ جہان جناب آدم ع ہیں اور اس جسد و روح کی قوتیں ملائکہ ہیں۔ جہان کو انسان کبیر اور جناب آدم ع جو انسان صغیر اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے۔ یہ کائنات مثل جسد ہے اور انسان کامل روح ہے اس جسد کی اور ملائکہ نفس کی قوتوں کی مانند قوتیں ہیں۔اسی طرح بعض فرشتے نفس منطبعہ کہلاتے ہیں اور بعض جسمانی قوتوں سے تعبیر ہیں۔ قویِ جسمانی خادم ہیں نفس منطبعہ کے۔ بعض فرشتے جن ّاور شیاطین ہیں جو کہ مکلف ہیں۔قوتوں کا اطلاق روحانی و نفس منطبعہ اور ان ماتحت ذوات پر ہے ۔ انسانی نفس جس طرح نفسانی قوتوں کے ذریعے سے جسم کی تدبیر کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے جہان کی تدبیر فرما رہا ہے۔ انسان حیات ، ادراک اور رکھتا ہے اور ہر ایک کا ایک منبع ہے، حیات کا منبع دل، ادراک کا منبع دماغ اور کا منبع جگر ہے ۔

فیض وجود باری تعالیٰ

               اللہ تعالیٰ کی تجلی میں تکرار نہیں ہے اور فیضِ الہٰی مسلسل جاری ہے۔ اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ آپ چودہویں کے چاند کے نیچے بہتے صاف شفاف پانی میں اپنی تصویر دیکھیں تو آپ کو ظاہرا ایک تصویر نظر آ رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ تصویر متعدد ہے کیونکہ پانی مسلسل بہہ رہا ہے اور جدید پانی گزر جانے والے پانی کی جگہ لے لیتا ہے  لیکن دیکھنے والا ایک تصویر دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فیض اس بہتے ہوئے پانی کی مانند مسلسل جدت رکھتا ہے اور گزرا ہوا پانی واپس نہیں آتا ۔ اس لیے ہر روز اللہ تعالیٰ کی نئی شان ہے اور اس کی تجلی و فیض جدید ہے۔ امرِ الہٰی کے نازل ہونے کے مراتب اس طرح سے ہیں کہ سب سے پہلے حضرتِ احدیت سے نزول ہوتا ہے اور پھر واحدیت اور واحدیت سے مرتبہِ عقلیہ روحیہ ، پھر لوح اور پھر کلیہِ طبیعہ پر اترتا ہے اور پھر ہیولیٰ جسمیہ اور پھر عرش ، پھر کرسی اور پھر سماوات سبع سے جزئی جزئی کے طور پر سامنے آتا ہے ۔

               یہ عالم آئینہ کی مانند ہے جس میں اسماء الہٰی کو ملاحظہ کیا جا سکتاہے۔ ۔ عالم کو انسان کبیر اور موجودات اس عالم میں انسان صغیر ہے ۔ اس کے مقابلے میں بعض کہتے ہیں کہ انسان عالم کبیر ہے اور بقیہ موجودات انسان صغیر ہیں۔ حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے جب خلق کیا تووہ عوالم کے لیے روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولا. [13]احزاب: ۷۲۔  اس آیت کریمہ کے اختتام پر ظلوم اور جہول دو اوصاف ذکر کیے ہیں جن کے بارے میں عرفاء کہتے ہیں کہ ظلوم سے مراد انسان کا اپنی ہوائے نفس کو مارنا اور ہوائے نفس پر ظلم کرنا ہے جوکہ ظلمِ ممدوح ہے۔ اسی طرح جہول سے مراد ہے کہ ما سوی اللہ سے جاہل ہونا اور توجہِ کامل اللہ سبحانہ کی طرف کرنا ہے۔  

نیز قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ فَقالَ أَنْبِئُوني‏ بِأَسْماءِ هؤُلاءِ إِنْ كُنْتُمْ صادِقين‏. [14]بقرة: ۳۱۔ لفظِ علیم اسمِ الہٰی نہیں بلکہ اسم الاسم ہے کیونکہ حقیقی اسم ’’مسمی‘‘ ہے۔ حضرت آدم ؑ اس لیے اس جہان کے لیے روح کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خلافتِ الہٰی کے مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خلیفہ بنایا۔ ملائکہ نے حضرت آدمؑ کی خلقت پر اعتراض کیا ۔ ملائکہ کے کئی طبقات ہیں ان میں سے ایک ملائکہ مہیمہ ہیں جو غرقِ ذاتِ ربوبی ہیں اور اپنے آپ سے بھی غافل ہیں جنہیں قرآن کریم نے عالین کہا ہےاور جناب آدمؑ سے سجدہ کرنے سے مبرّا تھے جیساکہ سورہ ص آیت ۷۵ میں وارد ہوا ہے۔ مہیمہ یعنی سرگرداں ، حیرت زدہ ۔ اسی طرح ملائکہ جبروت ہیں جوکہ مجردِ کامل ہیں ، اسی طرح ملائکہ سماوی ہیں، ملائکہ ارضی ہیں وغیرہ ، بعض ملائکہ مدبِّر سیارہ جات ہیں۔ کئی قسم کے ملائکہ ہیں ۔ جنہوں نے آدمؑ کی خلقت پر اعتراض کیا وہ ملائکہِ جبروت یا ملائکہِ مہیمن نہیں تھے بلکہ وہ ملائکہ تھے جو ان سے کمتر ہیں۔ یہی ملائکہ حقیقی اسمِ الہٰی ہیں، اللہ تعالیٰ علیم ہے تو اسمِ علیم جناب جبریلؑ ہیں، اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک ممیت ہے، اسم ممیت جناب عزرایل ہے۔ جناب اسرافیل بمنزلہِ اسم محی ہے۔ اسم الہی یعنی اسمِ ذات الہٰی مقید بہ وصف ۔ جناب جبریلؑ اور یہ فرشتگان عالم لاہوت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے انہیں عالم امکان میں شمار نہ کیا جائے جوکہ ناسوت پر مشتمل ہے۔  پس حضرت آدمؑ پر جناب جبریل و اسرافیل و عزرایل و میکایلؑ نے اعتراض نہیں کیا بلکہ ان فرشتوں نے اعتراض کیا جوکہ ملائکہِ سماوات  و ارض جنہیں فلسفی زبان میں ارباب الانواع یا مثلِ افلاطونی کہتے ہیں نے اعتراض کیا ۔ ملائکہِ سماوات و ارض ہی مدبراتِ امر ہیں۔ ان فرشتوں کو ملکِ مؤکل بھی کہتے ہیں۔

               پس ایک عالم ہے جوکہ بمنزلہِ جسد ہے اور ایک صورت ہے جوکہ بمنزلہِ روح ہے اور ملائکہ اس روح کی قوتوں سے تعبیر ہیں۔ انسانِ صغیر سے مراد آدمؑ ہیں اور انسانِ کبیر سے مراد جہان ہے۔ انسانِ کبیر میں جوکچھ تفصیل سے ہے وہ سب اجمالی طور پر انسان صغیر میں ہے۔ انسان کبیر میں ہر چیز تفصیل سے ہے جبکہ انسان صغیر میں وہی سب اجمالاً ہے۔ بعض عرفاء نے اس کو برعکس کہا ہے اور انسان کبیر سے مراد جناب آدمؑ ہیں اور انسان صغیر سے مراد جہان ہے۔ اہل جبروت سے مراد عقلِ اول ہے جن سے بالاتر ملائکہِ مہیّمہ ہے۔

               قوی روحانی میں سے ہر ایک چاہے وہ نشاءت انسانی میں سے ہیں یا اس کے علاوہ ہیں ، ان میں سے ہر ایک بذاتِ خود محجوب ہے اور اپنے سے افضل کسی کو قبول نہیں کرتے  ، مثلاً سماوی و ارضی فرشتوں نے جناب آدمؑ سے جھگڑا کیا یا عقل و وہم میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور جہانِ انسانی پر ہر دو اپنا تسلط جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح عقل دعویدار ہے کہ وہ تمام حقائق اور ماہیات جیساکہ ہیں انہیں اپنی نظری قدرت سے درک کرتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ عقل کے بعد مرحلہِ دارائی یعنی عشق و ذوق ہے۔  لہذا عقلاء اپنے عقلوں کی تقلید کی وجہ سے حق اور حقائق کے ادراک سے محجوب رہ جاتے ہیں ۔ وہ عقول کی تقلید میں بقیہ مرحلہِ ذوقی تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ عقل اور وہم ہر دو ایک ہی ہیں ، فرق یہ ہے کہ اگر یہ قوت معانی کلیہ کا ادراک کرے تو اس کو عقل کہا جاتا ہے اور اگر معانی جزئی کا ادراک کرے تو یہ ’’وہم‘‘ کہلاتا ہے۔ معانی سے مراد وہ چیزیں ہیں جو حد و مقدار نہیں رکھتیں ، جیسے محبت و نفرت  وغیرہ کہ ان معانی کا کلی ادراک عقل اور جزئی ادراک وہم کہلاے گا۔

عقل کا لغوی مطلب ہی بندھن اور محدودیت کا ہونا ہے۔اہل عقل کا زیادہ سے زیادمقصد علمِ اجمالی کا حصول ہے  کہ علم اجمالی کے طور پر وہ یہ جانتے ہیں کہ  ان کو وجود دینے والا رب ہے جو کہ صفاتِ کونی سے منزہ ہے۔ بقیہ وہ حقائق کے فقط لوازم اور خواصِ حقائق سے واقف ہیں ۔ ان کے مقابلے میں اہل تحقیق و اہل سیر و سلوک ان حقائق کو اجمالی طور پر جانا اور اپنے ربّ کی تجلیات  اور اس کے ظہورات کا تفصیلی مشاہدہ کیا۔ عرفاء نے نورِ ربّ سے ہدایت پائی اور حقائق کو کشف کیا اور حقائق کے خواص و لوازم کو اس طرح سے جانا کہ کسی قسم کے شبہ کا شکار نہیں ہوئے۔ عرفاء کا علم ایسا ہے جس میں کسی قسم کے شک و ریب کی گنجائش نہیں۔ یہ وہ عباد الرحمن ہیں جوکہ حقائق کی زمین پر تواضع و انکساری سے چلتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ سورہ فرقان کی یہ آیت جو عباد الرحمن سے شروع ہو رہی ہیں خود سیر و سلوک کے اعتبار سے ایک دستور عمل ہے جسے اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ گویا قرآن کریم نے یہ دستور عمل ہمیں دیا ہے ۔

               ظاہرا عرفاء عقل کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں اور عشق و ذوق کو بالاتر قرار دیتے ہیں۔ عرفاء کے کئی اشعار عقل کی مذمت میں ہیں ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ عرفاء عقل کو قبول نہیں کرتے !! عرفاء عقل کو قبول کرتے ہیں لیکن اس پر اکتفا درست نہیں سمجھتے ۔ لہذا عقل کی اہمیت اور عظمت کے عرفاء قائل ہیں لیکن اس مرحلہ پر اکتفا کرنے کو قبول نہیں کرتے اور عقل سے بالاتر مرحلہ دل و جان و عشق قرار دیتے ہیں۔ علم عقلی کے علاوہ علم ذوقی ہے جوکہ بالاتر ہے۔ علم ذوقی کی مثال حلوا سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی ہم سے حلوہ کے بارے میں سوال کرے کہ حلوہ کیا ہے؟ اس کے دو جواب دیئے جا سکتے ہیں: ۱۔ پہلا جواب عقلی و علمی ہے کہ حلوہ کے اجزاء لے کر آؤ اور بنانے کی ترکیب اسے بیان کی جائے اور بن جائے تو کہا جائے یہ حلوہ ہے، ۲۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ منہ کھولو اور حلوہ کھاؤ ، جب کھاؤ گے تو خود معلوم ہو جائے گا کہ حلوہ کیا ہے۔ پہلا جواب علم حصولی ہے اور دوسرا جواب علم ذوقی ہے جو چکھنے سے معلوم ہو گا ۔ پہلے جواب میں ذہنی تصور اور مشاہدہ کی اساس پر سمجھ رہا ہے جبکہ دوسرے جواب میں پورے وجود سے حلوہ کی لذت اور اس کے وجود کو محسوس کر رہا ہے ۔ علامہ حسن زادہ آملی کے مطابق پہلا جواب دانائی ہے اور دوسرا دارائی ہے۔ دانائی اور دارائی میں بہت فرق ہے۔ ہمیں دانائی کے علاوہ دارائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف دانائی سے انسان گناہوں سے نہیں رکتا ، کتنے ایسے دانا اور مبدأ و معاد پر برہانِ محکم رکھنے والے ہیں جو گناہ سے گھبراتے ہیں اور جرأت سے گناہ کرتے ہیں !! اگر مبدأ و معاد کو ’’دارا‘‘ کر لیں تو گناہ صادر نہیں ہوں گے۔ انبیاء و آئمہ علیہم السلام مرحلہِ دارائی پر ہیں اس لیے گناہ نہیں کرتے ۔ پس عقل کو استعمال کر کے دانائی کو کسب کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ سب کچھ حاصل کر لیا بلکہ ضروری ہے کہ علم دارائی اور ذوقی تک رسائی حاصل کی جائے۔ علم حصولی دانائی کی قبیل سے ہیں اور علم حضوری دارائی کی قبیل سے ہیں۔ عرفاء دانائی کی بجائے دارائی کے طلبگار ہوتے ہیں۔

جمیعت سے مراد

               پس یہ کائنات جسم کی مانند ہے جس کی روح ’’انسان کامل‘‘ ہے اور اس نفس و روح کی قوتیں فرشتے ہیں۔ نشاءت انسانی میں ہر قوت محجوب ہے دوسری قوت سے کیونکہ ہر قوت یہ سمجھتی ہے کہ اس سے بالاتر کوئی نہیں ہے ۔ ان قوتوں کا یہ سمجھنا کہ جمعیتِ الہٰی اس قوت کو حاصل ہے اس وجہ سے وہ سب سے بالاتر ہے جبکہ جمعیت الہٰی ان قوتوں میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے بلکہ جمعیت الہٰی خود ذات انسان کو حاصل ہے۔ قوتِ خیالی ، قوت وہمی اور قوت عقلی اس کائنات میں ہے  اور ہر قوت یہ سمجھتی ہے کہ اس سے بالاتر کوئی نہیں ہے۔ انسان میں یہ تمام قوتیں جمع کر دی گئی ہے۔ پس نشاءتِ انسانی جمعیت سے ہمکنار ہے۔سوال یہ پیدا ہے کہ خود انسان کو جو جمعیت الہٰیہ حاصل ہے اس جمعیت سے کیا مراد ہے؟ شارح کہتے ہیں کہ جمعیت سے تین معانی مراد ہو سکتے ہیں اور تینوں کا احتمال دیا جا سکتا ہے:

۱۔ اگر ہم واؤ کو ابتدائیہ مانیں تو اس صورت میں ماتن کے کلام کو ’’اِنّ‘‘ کے ساتھ پڑھیں گے اور اس صورت میں اس کا معنی ہو گا کہ نشاءتِ انسانی ہر بلند منصب کی اہلیت رکھتا ہے جیساکہ یہ احتمال ہے کہ جمعیت الہٰیہ  سے مراد اسماء الہٰی ہیں۔ اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ ایک ذاتِ الہٰی ہے ، اس سے نیچے آئیں تو مرتبہِ احدیت ہے اور اس کے بعد مرتبہِ واحدیت ہے۔ احدیت اور واحدیت مقامِ اسماء و صفات ہے۔ احدیت مقامِ اجمال اور واحدیت مقامِ تفصیل ہے۔  پس جمعیتِ الہٰی سے مراد اسماء و صفات ہے۔جنابِ الہٰی جو احدیت و واحدیت کو شامل ہے۔

۲۔ اگر ہم ماتن کے کلام میں واؤ کو حالیہ قرار دیں اور ’’أنّ‘‘ پڑھیں تو اس سے مراد نوعِ انسان کے ہر فرد کا یہ اہلیت رکھنا ہے کہ وہ بلند ترین مصنب کی اہلیت رکھتا ہے۔ پس نسان زمین پر جمادات یا نباتات یا حیوانات کا نمونہ دار ہے ، اسی طرح عقل رکھنے کی وجہ سے انسان فرشتوں کا نمونہ دار بھی ہے۔جمعیتِ الہٰی سے مراد کَون یعنی کائنات ہے۔ حقیقتِ حقائق سے مراد صادرِ اول ہے جوکہ تمام حقائقِ عالم کو اپنے اختیار میں رکھتا ہے ۔ یہاں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ حقیقتِ حقائق سے مراد مقام احدیت ہو کیونکہ اس مقام میں تمام حقائق اجمالی طور پر موجود ہیں لیکن بمعنی احدیت اس لیے نہیں لے سکتے کیونکہ مصنف نے حقیقتِ حقائق کو جنابِ الہٰی کے قسیم قرار دیا ہے اس لیے جنابِ الہٰی جوکہ احدیت و واحدیت کو شامل ہے مراد نہیں ہو سکتا۔ پس یہاں حقیقتِ حقائق سے مراد حقائق کونیہ ہیں نہ حقائقِ الہٰی۔ اس لیے حقیقتِ حقائق سے مراد نَفَس رحمانی ہے  ۔ نیز ممکن ہے حقیقتِ حقائق کا اطلاق حضرتِ جمع و وجود ہے جوکہ مرتبہِ انسان کامل ہے ، جیساکہ صدر الدین قونوی استادِ قیصری نے کتاب مفتاح بیان کیا ہے ۔ کتاب المفتاح کی شرح فنّاری نے کی ہے جوکہ مصباح الانس کےنام سے چھپتی ہے اور  فصوص الحکم کے بعد تدریسی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ یہاں نَفُس رحمانی اور مرتبہ انسان کامل میں فرق ہے لیکن باعتبار صعودی دونوں ایک دوسرے کے عرض میں ہیں۔ ممکن ہے کہ حقیقتِ حقائق سے مراد جواہر ہوں ۔ جواہرِ فلسفی اور جواہرِ عرفانی میں فرق ہے۔ جوہر عرفانی تمام عوالم کی اصل ہے۔

۳۔ اگر ہم ماتن کے کلام میں واؤ کو عاطفہ قرار دیں ۔ اس صورت میں جمعیتِ الہٰی سے مراد طبعیتِ کلیہ ہے جوکہ تمام جواہر میں فعل و انفعال کا مبدأ ہے۔  یہ طبعیتِ کلیہ انسانِ کامل (نہ کہ نَفَس رحمانی) اور صادرِ اول ہے۔ صادرِ اول کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ بعض نسخوں میں طبعیتِ کل وارد ہوا ہے ۔ ہر دو لفظ صحیح ہیں۔ صادرِ اول کے نوّے(۹۰)  نام ہیں ان میں سے ایک طبیعتِ کلیہ ہے۔ طبیعتِ کلیہ کو تنہا تمام قوابلِ عوالم کو لیے ہوئے ۔ عوالم دو حصے میں تقسیم ہوتے ہیں: عوالم مجردات جنہیں اعلی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور عوالم مادیات جسے اسفل کہا گیا ہے۔  یہاں طبیعتِ کلی  میں کلی سے مراد کلی منطقی نہیں ہے بلکہ کلی بمعنی سعہِ وجودی ہے۔  طبیعتِ کلیہ تمام عوالم چاہے وہ اعلیٰ ہوں جیسے مجرد یا اسفل ہوں جیسے عالم مادہ سب کو حاضر و شامل ہے۔

بالفاظِ دیگر ذاتِ انسان میں ہر قوت دوسری قوت کے مقابلے میں حجاب میں ہے کیونکہ ہر قوت یہ سمجھتی ہے کہ جمعیتِ الہٰی اس کو حاصل ہے نہ کہ کسی اور قوت جس کی بناء پر ہر قوت اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھتی ہے اور اپنے سے بالاتر کسی اور کو نہیں سمجھتی ، مثلاً قوتِ حسی اپنے سے اوپر خیال و عقل کو نہیں سمجھتی، قوتِ خیالی اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھتی ہے، قوتِ وہمی اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھتی ہے کیونکہ وہ عالمِ حسی اور تمام معانی جزئیہ کو درک کرتی ہے اور عقل اپنے آپ کو بالاتر سمجھتی ہے کیونکہ عقل دعویدار ہے کہ وہ تمام حقائق کو درک کرتی ہے۔ قلب اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھتا ہے کیونکہ نشاءت انسانی میں اس کو سلطانی حاصل ہے ۔ ان تمام قوتوں میں ہر قوت اپنے آپ کے بالاتر ہونے کی دعویدار ہے۔ اس بناء پر  ہر قوت اپنے علاوہ دیگر قوتوں سے حجاب میں ہے اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھنے اور اپنے اوپر کسی اور کو نہ قرار دینے کی وجہ سے۔ لہٰذا ہر قوت یہ سمجھتی ہے کہ نشاءت انسانی میں عالی منصب کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ ماتن کے قول میں یزعم کا لفظ آیا ہے جبکہ صحیح شارح کی نظر میں تزعم ہے۔ کیونکہ یزعم ناسخ کی طرف سے تصرف ہے۔

               نشاءت سے مراد نشاءت عنصری ہے ۔ انسان کے لیے تین قسم کے نشاءت ہیں:
۱۔ نشاءت روحیہ
۲۔ نشاءت  عنصری
۳۔ نشاءت مرتبیہ جوکہ روحی اور عنصری کے مابین مقامِ جمع ہے۔
               اوصاف سے مراد کمالاتِ انسانی ہے۔انسانِ کامل کی مثال آئینہ کی سی ہے جس میں وہ کمالاتِ الہٰیہ کو اپنی استعداد کے مطابق جلوگر کر سکتا ہے۔ اوصاف سے مراد قُوَی انسانی ہیں کیونکہ اوصاف کا منشاء خودِ قُوَی ہے۔ انسان کی قُوَی جسمانی ہے جیسے قوتِ بصارت و سماعت وغیرہ جبکہ قُوَی روحانی جیسے حس مشترک، قوت خیال ، قوتِ وہم ، قوتِ عقل۔ اوصاف اور کمالات کو حاصل کرلے تو اللہ تعالیٰ سے ایک شباہت پیدا کر لیتا ہے جس کی بناء پر وہ خلیفۃ اللہ کہلاتا ہے۔ کمالات محمول قرار نہیں پاتے کہ موضوع پر حمل کر سکیں کیونکہ علم بدونِ عالم نہیں ہے، قدرت بدونِ قادر نہیں ہے ۔ اوصاف کو مجازً قُوَی کہا جاتا ہے کیونکہ اوصاف کا مبدأ و منشاء قُوَی ہیں۔ اوصاف بذات خود موجود نہیں ہو سکتے جیساکہ تنہا علم و قدرت وجود میں نہیں آ سکتے بلکہ ان کے لیے ذات یعنی عالم و قادر کی ضرورت ہے۔ اس لیے اوصاف قیام بنفسہا نہیں ہیں۔ اوصاف کی مانند قُوَی بھی مستقل وجود نہیں رکھتے بلکہ صاحبِ قُوَی کے محتاج ہیں ، مثلاً قوتِ باصرہ و سامعہ وغیرہ بذات خود مستقل طور پر موجودنہیں ہیں۔اس اعتبار سے اوصاف اور قُوَی میں شباہت موجود ہے۔ پس جب علاقہ اور شباہت متحقق ہو گئی تو اوصاف کو مجازًاقُوَی کہا جا سکتا ہے۔ اوصاف بدونِ قُوَی نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح قُوَی بدونِ اوصاف نہیں ہو سکتے کیونکہ لازم و ملزوم ایک دوسرے کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ اوصاف و قُوَی لازم و ملزوم ہیں ۔ اس لیے جہاں قُوَی وہاں اوصاف ہیں اور جہاں اوصاف وہاں قُوَ ی ہیں۔ قُوَی ملزوم ہیں جن کا لازمہ اوصاف ہیں۔

عوالم مختلف قسم کے ہیں، عالم سماء و ارض، عالم بالا و ادنی ، عالم مادی و معنوی ، ان سب عوالم کا احاطہ انسان کر سکتا ہے۔عالمِ ملکی و مادی سماوی و سفلی میں تقسیم ہوتا ہے ۔ قدیمی طبیعات کے مطابق افلاک، ثوابت افلاک اور فلک و افلاک میں آسمانِ دنیا کو تقسیم کیا جاتا تھا۔  عالم مجردات کو عالم علمی اور مادی عالم کو عالم سفلی کہا جاتا ہے۔ یہ مکان و محل کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ مرتبہ کے اعتبار سے ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے جو تمام کمالات کو حاصل کر سکتا ہے ۔ تمام کمالات تک رسائی انسان کے علاوہ کسی اور خلقت کے اندر نہیں ہے۔

دل و جان کا عقل و فکر سے بالاتر ہونا:

انسان کو اللہ تعالیٰ نے جان و دل بھی عنایت کیا ہے اور عقل و فکر بھی ۔ عرفاء کا کہنا ہے کہ عقل و فکر انسان کی آخری حد نہیں ہے کیونکہ عقل و نظر سے تمام حقائق حاصل نہیں ہو سکتے بلکہ حقائق جیسا ہیں ان کو ویسا درک کرنے کے لیے جان و دل کی ضرورت ہے۔ عقل و فکر ایک مرتبہ تک سفر کراتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عرفاء نے عقل کی جہاں مذمت کی ہے اس سے مراد عقل کا انکار نہیں ہے بلکہ عقل کا تمام مراتب تک رسائی کا نہ ہونا ہے۔ قلب و جان سے انسان تمام کمالات کو حاصل کر سکتا ہے۔ بو علی سینا کے بارے میں ہے کہ اس نے وقتِ موت کہا کہ ابن سینا مر رہا ہے اور افسوس اس نے اپنی پوری زندگی میں کچھ علم حاصل نہیں کیا اور کچھ نہیں سمجھا سوائے اس کے کہ بو علی سینا کو یہ علم ہے کہ اس نے کچھ نہیں سمجھا ۔ یعنی مجھے فقط اتنا علم ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں ہے۔ ابن سینا وہ شخصیت ہے کہ ۱۹ سال کی عمر میں وہ اپنے دور کے تمام بزرگ اساتیذ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کسبِ فیض کیا اور پھر یہ کہا کہ ان سب اساتیذ سے جو سنا ہے اس سے میرے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ابن سینا کی کثیر تصینفات ہیں جو سب کی سب آج بھی مایہ ناز اور بڑی کتب میں شمار ہوتی ہیں جن میں سے ایک الشفاء ہے کہ اس کے ورق پلٹاتے ہوئے ہم تھک جاتے ہیں۔ الشفاء صرف الہٰیات پر نہیں بلکہ اس میں طبیعات، ریاضیات اور منطقیات بھی ہے۔ یہ عظیم ہستی کہہ رہے ہے کہ میں کائنات میں عقل کی مدد سے کچھ نہیں سمجھ سکا ۔ عقلی طرق پر چلنے والے اتنا کچھ جاننے کے باوجود یہ احساس رکھتے تھے کہ کچھ نہیں جانتے ۔ ان کی بجائے ابن عربی کی طرف آئیں تو ان کا کہنا ہے کہ میں یہ باور کرتا ہوں کہ اس کائنات میں کسی شیء کا وجود اللہ تعالیٰ کے وجود سے جدا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود سے ہر شیء کا وجود متصل ہے جیساکہ آیاتِ کریمہ اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے۔ ابن عربی کا کہنا ہے کہ میں کسی شیء کی حقیقت کو درک نہیں کر پایا اگرچے آثار و لوازمِ حقائق کا علم حاصل ہوا لیکن حقیقتِ شیء کا علم نہیں ہوا  اور کیسے میں کسی شیء کی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے جبکہ ہر حقیقت کےماوراء حقیقت اللہ تعالیٰ ہے۔

پس عقل کے ذریعے حقائق نہیں بلکہ آثار و لوازمِ حقائق کا علم ہوتا ہے۔ حقائق تک رسائی کے لیے قلب و جان چاہیے ۔عرفاء کی عقل کی مذمت سے مراد عقل کا انکار نہیں ہے بلکہ عقل کو آخری حد نہ سمجھنا بلکہ قلب و دل کو عقل سے بالاتر سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعے حقائق کے ادراک کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر آئینہِ دل کو جلاء بخشیں تو جمالِ کبریاء کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

علم کی اقسام:

ایک علم کسبی و حصولی ہے اور ایک علمِ ذوقی و شہودی ۔  علمِ کسبی و حصولی کے ذریعے ہم حقائق تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ علم حصولی زیادہ سے زیادہ لوازمِ اشیاء ہمارے سامنے عیاں کرتا ہے نہ کہ حقائقِ اشیاء، مثلاً آگ کے بارے میں ہم سوال کریں کہ آگ کیا ہے ؟ تو جواب ملے گا کہ آگ وہ ہوتی ہے جو جلائے ، حرارت و روشنی دے۔ یہ آگ کی حقیقت نہیں بلکہ آثار و لوازمِ آگ ہے۔ وہ علم جو حقیقت کو عیاں کرتا ہے وہ علمِ کشفی و علم ذوقی و شہودی ہے۔اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی پوچھے حلوا کیا ہے؟ ایک مرتبہ ہم جواب دیتے ہیں کہ حلوا آٹا، چینی اور گھی کا مجموعہ ہے۔یہ علم حصولی کے ذریعے جواب ہے۔ دوسری مرتبہ جواب میں ہم کہتے ہیں کہ منہ کھولو اور آپ اس کے منہ میں حلوا ڈالتے ہیں اور وہ کھاتا ہے اور پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حلوا ہے۔ یہ علم ذوقی ہے جس میں اس نے چکھ کر علم حاصل کیا ہے۔ اشیاء اللہ تعالیٰ سے بینونتِ کلی و تباین کلی نہیں رکھتے اس وجہ سے حقائق کی کنہ معرفت کا حصول ممکن نہیں کیونکہ ان اشیاء کا ربط اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی کنہ معرفت ممکن نہیں ہے ، جیساکہ ابن عربی کا شعر ہے کہ میں کیسے حقائق جان سکتا ہے جبکہ حقائق کے درمیان حقیقت تیری ذات ہے!! اسی طرح ابن سیناء کا کلام ہے کہ میں عقل کے ذریعے حقائق کو نہیں جان سکا۔فخر الدین رازی ساری عمر علم و تعلم سے وابستہ رہے اور بڑی بڑی تفسیر و حدیث و فقہ و اصول و معقولات پر کتابیں لکھی اور آخر میں اعتراف کیا کہ میں ۷۰ سے اوپر ہو گیا ہوں اور اب معلوم ہوا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہے۔ علم حصولی و ذوقی میں فرق کی ایک مثال اس طرح دی جاتی ہے کہ ایک شخص کے دانت میں شدید درد تھا جس کی عیادت کے لیے اس کے احباب آئے۔ اس نے کہا کہ میرے دانتوں کو دیکھ کر یہ احباب جو جان رہے ہیں وہ اس علم سے کس قدر جدا ہے کہ اس درد کو پورے وجود سے جھیل رہا ہوں۔حقیقت علم عالم کا وجودِ معلوم کا احاطہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود غیر متناہی ہے جس کا احاطہ وجودِ متناہی نہیں کر سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی کما حقہُ معرفت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ ہر ممکن الوجود محدودیتِ وجودی رکھتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے تحذیر کا حکم دیا ہے اور ڈرایا ہے۔[15]آل عمران: ۳۰۔ خود یہ جملہ کہ ہم نے حقیقت کو نہیں پہچانا خود ایک حقیقت کا جاننا اور اسے درک کرنا ہے۔ شاعرکا کہنا ہے:
قد تحيّرتُ فيكَ خُذ بِيَدِي‌ (تیرے بارے میں (اے رب) میں متحیر ہوں میرا ہاتھ تھام لے)
يَا دليلا لمن تحيّر فيكا (اے اس شخص کو رہنمائی کرنے والے جو تیرے بارے میں حیرت زدہ و پریشا ن ہے اس کی رہنمائی فرما)
شیخ اکبر ابن عربی کا کہنا ہے:
 فلستُ أُدرِكُ مِن شيءٍ حقيقَتَهُ (میں کسی شیء کی حقیقت کو نہیں جانتا)
وَكَيفَ أُدرِكُهُ وَأَنتَمُو فِيهِ 
(اور کیسے میں حقیقتِ شیء جان سکتا ہے جبکہ (اے اللہ) تو ان میں موجود ہے)

مکاشفاتِ شیطانی و جنّی و الہٰی میں فرق:

اگر علم ذوقی کی طرف آئیں اور مکاشفات کے ذریعے معلومات حاصل کریں تو یہاں مکاشفات میں تمیز دینا ضروری ہے جوکہ معیارات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مکاشفات تین قسم کے ہیں:
۱۔ بعض مکاشفات شیطانی ہیں ۔
۲۔ بعض مکاشفات جنّی ہیں۔جنّات مادی ابدان نہیں رکھتے بلکہ مثالی ابدان رکھتے ہیں۔
۳۔ کشف خواطر۔
۴۔ کشف مظالم۔
۵۔ بعض مکاشفات رحمانی و الہٰی ہیں اور یہی مکاشفات مطلوب ہیں۔

عقل نظری کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایات و نورانیت نچھاور نہ ہو تو وہ حیرت و سرگردان و ظلمات کے صحراء میں متحیر رہتی ہے۔ اگر عقل نظری کو نورانیتِ الہٰی عنایت ہو تو اسے عقل کی روشنی سے نظر آتا ہے۔ اگر انسان کے نفس سے گناہوں اور غفلتوں کی آلودگی برطرف ہو جائے تو حقائق اس آئینہ پر جلو گر ہوتے ہیں۔ کشف الہٰی حقیقت کو آشکار کرتی ہےجبکہ بقیہ مکاشفات حقائق سے ہمکنار نہیں کرتیں۔ اگر کوئی تجلیاتِ ذاتیہ الہٰیہ تک دسترس حاصل کر لے تو وہ منزلِ فناء تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ تجلیاتِ ذاتی شیء کی اِنَّیَّت کو برطرف کر دیتی ہے۔ اِنّیَّت ماہیت کے مقابلے میں ہے جس سے مراد ہستی ہے ۔شاعر کا کہنا ہے : وُجُودُکَ ذَنبٌ — لا یُقاسُ بِهِ ذَنب،(تیرا وجود گناہ ہے — کسی گناہ کو اس گناہ کے ساتھ قیاس نہیں کیا جا سکتا)۔ پس اگر حقیقی عاشق ہے تو معشوق میں فناء ہو جائے حتی اپنی ذات و وجود کو بھی نہ دیکھے۔ اس مرتبہ کا فناء کہ اپنی ذات بھی فناء کر ڈالے تو تجلیاتِ ذاتیہ سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس فناءِ ذاتی کا نتیجہ بقاءِ ابدی ہے۔ پس فناءِ ذاتی جس میں اصلاً اپنی ذات و اِنّیّت کو نہ دیکھے نقص نہیں بلکہ کمال ہے۔ وجودِ اشیاء بلحاظِ اصل وجود عین حق تعالیٰ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نہ ہو تو اصلا کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی ہے۔ صور سے مراد یا تو مادی اجسام ہیں یا مادی و مثالی ہر دو اجسام مراد ہیں ۔

انسان کو انسان کہنے کی وجہ:

اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ کونِ جامع کو آئینہ قرار دیتے ہوئے اس  میں اپنے آپ کو ملاحظہ فرمائے۔  چنانچہ اس نے انسانِ کامل کو خلق کیا جن میں سے ایک حضرت آدمؑ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جو عوالم خلق کیے ہیں ان کے نمونے انسان میں قرار دیئے ہیں۔ انسان میں عقل و شہوات و غضب موجود ہے۔ انسان خود ایک عالم ہے جس میں تمام عوالم پنہاں ہیں۔ دیکھنے میں ایک جِرمِ صغیر ہے لیکن اس میں عالمِ کبیر مخفی ہے۔ جہانِ مجردات میں دیکھیں تو انسان ملائکہ سے آئے ہے بلکہ وہ مسجودِ ملائکہ ہے اور اگر جہانِ سفلی میں دیکھیں تو اس سے بڑھ کر کوئی درندہ اور حیوان نہیں ہے ۔ پس بلندی کر طرف جائے تو کوئی مخلوق اس کے مرتبہ پر نہیں پہنچ جاتی اور جناب جبریلؑ کے پَر جہاں جل جاتے ہیں اس سے آگے انسانِ کامل رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ لیکن یہی انسان جب گرنے پر آئے تو اس سے پست ترین مقام تک کوئی اور پست خلقت نہیں پہنچ سکتی ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خلقت کو انسان کیوں کہا گیا ہے؟ اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ انسان  کو انسان کہنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:
۱۔ انسان  یا تو  انس سے مشتق ہے یا نسیان سے مشتق ہے۔ انسان ہر موجود سے انسیت رکھتا ہے اور انسیت پیدا کر لیتا ہے اس لیے انسان کو انسان کہتے ہیں۔ انسان تمام وجودی مراتب سے انسیت پیدا کر لیتا ہے، مثلاً مادیات جوکہ جمادات و نباتات و حیوانات پر مشتمل ہے سے انسیت رکھتا ہے، پتھروں سے بھی اسے انس ہے اور نباتات و پھل و فصل وغیرہ سے بھی انس ہے اور جو خلقت ارادہ اور حواس رکھتے ہوئے حرکت کرتی ہے یعنی حیوان سے انسیت رکھتا ہے۔ پس ہر مرتبہِ وجودی سے اس کی انسیت ہے اس لیے اس کو انسان کہتے ہیں۔ نسیان کے معنی میں بھی انسان کہنا درست ہے کیونکہ انسان کبھی جمادات کی طرف توجہ پیدا کر لیتا ہے اور بقیہ مراتبِ وجودی سے نسیان کا شکار ہو جاتا ہے ، یا نباتات و حیوانات یا حیوانی زندگی میں جذب ہو جاتا ہے اور بقیہ مراتبِ وجودی فراموش کر دیتا ہے اس لیے نسیان سے اس کو انسان کہا جاتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ وہ اس حکمِ قرآن سے متصف ہے :{
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْن }.[16]رحمن: ۲۹۔ وہ ایک شأن میں نہیں رہتا بلکہ ایک بعد دیگر امر میں مشغول ہو جاتا ہے۔ انسان کی زندگی ایک انداز میں نہیں رہتی ہےکیونکہ اگر وہ ایک طرز میں ہی باقی رہے تو انسان کا بقیہ خلقت سے فرق نہیں باقی رہے گا۔ اس لیے انسان اسم و مسمی میں جامع ہے۔
۲۔ ایک دوسری تشریح انسان کہنے کی یہ بنتی ہے کہ انسان حق تعالیٰ کے لیے انسان العین کی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے اسے انسان کہا جاتا ہے۔ عین سے مراد آنکھ کا ڈھیلا ہے جسے اصطلاح میں انسان العین کہتے ہے ۔ پس انسان اپنی آنکھ کے ڈھیلےسے دیکھتا  ہے جس کی مناسبت سے اس کا نام انسان پڑ گیا۔

انسان العین یعنی انسانِ کامل:

اللہ سبحانہ نے انسانِ کامل کو اپنی آنکھ قرار دیا ہے جس کی توسط سے وہ اپنی ذات کو دیکھتا ہے۔ ایک مرتبہ اللہ تعالی کا   ایک اپنی ذات کا مشاہدہ بغیر کسی توسط کے ہے اور ایک مرتبہ عین کے توسط سے ہے۔ ان دونوں زاویوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ خلقتِ جہان میں اصل مقصود انسان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق کرنے کی خاطر ہر شیء کو خلق فرمایا۔ حدیث قدسی میں منقول ہے: إنّ اللَّه يقول: عبدي خلقت الأشياء لأجلك و خلقتك‏ لأجلي‏؛اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے میں نے تمام اشیاء تیری خاطر خلق کی اور تجھے اپنی وجہ سے خلق کیا ہے۔ [17]حر عاملی، محمد بن حسن ، الجواہر السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ، ص ۷۱۰۔ پس انسان مقصودِ اصلی ہے ، جیسے پھل کے حصول کے لیے درخت کو کاشت کیا جاتا ہے۔ ظاہر بین درخت کو اصل اور پھل کو فرع کہے گا لیکن باریک بین انسان پھل کو اصل قرار دے گا۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ مثل میوہ اصل مقصود ہیں جن کی وجہ سے تمام خلقت کو اللہ سبحانہ نے خلق فرمایا۔ اگر پھل مقصود نہ ہوتا تو باغبان کسی صورت بھی درخت کاشت نہ کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح سے خلق فرمایا ہے کہ وہ آنکھ کے ڈھیلے سے سب کچھ دیکھ کر زندگی بسر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خلقت میں انسان کی حیثیت آنکھ کی سی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شیء پر انسان کو اس اعتبار سے بالا قرار دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہر خلقت کو دیکھ سکتا ہے اور درک کر سکتا ہے اس لیے اس کو انسان العین کی مناسبت سے انسان کہتے ہیں۔ انسان العین کے اعتبار سے ایک مرتبہ اس کو انسان کہتے ہیں اور ایک مرتبہ اسی کو خلیفہ کہتے ہیں۔ فص آدمی کے آغاز میں شیخ اکبر بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کونِ جامع (انسان کامل) میں تمام امر کو محصور کر دیا اور اس کو اپنی عین قرار دیا ۔

انسان کامل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اور تمام عالم کے درمیان واسطہ قرار دیا ہے۔ جس طرح آنکھ کا ڈیلا دیکھنے والی ذات اور جسے دیکھا جا رہا ہے کہ درمیان واسطہ ہے اسی طرح انسانِ کامل حق تعالیٰ اور عوالم کے درمیان واسطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس انسانِ کامل کے توسط سے ہر شیء کو مشاہدہ فرما رہا ہے۔ خلقت کی علتِ غائی انسانِ کامل ہے جوکہ میوہِ درخت ہے جوکہ اصل مقصود ہوتا ہے۔ اگر انسان کامل نہ ہوتا تو خلقت نہ ہوتی۔ یہی مطلب آئمہ اطہارؑ سے اس طرح سے وارد ہوا ہے کہ اگر حجتِ الہٰی نہ ہوتی تو زمین اپنے اہل سمیت دھنس جاتی۔ آئمہ اطہارؑ  سے منقول احادیث میں اسی انسانِ کامل کو حجت الہٰی سے تعبیر کیا گیا اور عرفانِ اصطلاح میں حقیقتِ محمدیہ ﷺ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس انسان کامل جہاں خلقت کو خلق کرنے کی علت غائی ہے وہاں خلقت کی بقاء کا سبب بھی اللہ تعالیٰ نے اسی ہستی کو قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے :َ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏: أَوَّلُ‏ مَا خَلَقَ‏ اللَّهُ‏ نُورِي‏ ابْتَدَعَهُ مِنْ نُورِهِ وَ اشْتَقَّهُ مِنْ جَلَالِ عَظَمَتِهِ.[18]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۵، ص ۲۴۔اللہ تعالیٰ نے انسان کامل کو آئینہ قرار دیا جس میں اپنے آپ کو مشاہدہ کیا جیساکہ آغازِ فص آدمی میں ذکر گزر چکا ہے۔

قربِ نوافل سے مراد:

شیعہ و سنی کتبِ احادیث میں معتبر حدیث قدسی وارد ہوئی ہے جسے حدیث قربِ نوافل کہا جاتا ہے۔ یہاں الکافی سے شیخ کلینیؒ کے طریق سے یہ حدیث بیان کی جا رہی ہے جس میں امام باقرؑ فرماتے ہیں: وَإِنَّهُ لَيَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّافِلَةِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ‏ الَّذِي‏ يَسْمَعُ‏ بِهِ‏ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَلِسَانَهُ الَّذِي يَنْطِقُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا إِنْ دَعَانِي أَجَبْتُهُ وَإِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْت؛ اور نوافل کے ذریعے میرے قریب نہیں ہوتا مگر میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں، لہٰذا میں جس سے محبت کرتا ہوںتو میں اس کی سماعت ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، وہ ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ چیزیں پکڑتا ہے ، اگر وہ مجھے پکارے تو میں اسے جواب دیتا ہوں، اگر وہ مجھے سے کچھ مانگے تو میں اسے عطا کرتا ہوں ۔[19]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۷۴۔ قربِ فرائض بالاتر ہے یا قربِ نوافل؟ قربِ فرائض بالاتر ہے کیونکہ قربِ نوافل میں اللہ تعالیٰ سمعِ عبد قرار پاتا ہے جبکہ قربِ فرائض میں عبد عین اللہ ، سمع اللہ ، ید اللہ قرار پاتا ہے۔ پس قربِ نوافل میں اللہ تعالیٰ سمعِ انسان، عینِ انسان، یدِ انسان قرار پا رہا ہے اور انسان محدود ہے ۔ جبکہ قربِ فرائض میں عبد ید اللہ، عین اللہ قرار پا رہا ہے اور اللہ سبحانہ لا محدود ہے۔قربِ فرائض میں عبد ذات الہٰی میں فناء ہوتا ہے جبکہ قربِ نوافل میں صفاتِ الہٰی میں فناء ہوتا ہے ذات تک وہ نہیں ابھی پہنچا۔ یہاں تین اصطلاحات کو سمجھنا چاہیے:
۱۔ مقامِ فرق: انسان ہر شیء کو دیکھے سوائے اللہ سبحانہ کے۔
۲۔ مقامِ جمع: انسان جب فقط اللہ تعالیٰ کو دیکھے اور عالم امکان سے غافل ہو تو اس کو مقام الجمع کہتے ہیں۔ یعنی مقامِ فرق کے برعکس مقام الجمع ہے۔
۳۔ مقامِ فرق بعد الجمع: انسان اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھے اور عالم کو بھی دیکھے ۔اس کو جمع الجمع بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ اور خلقِ الہٰی ہر دو کو مشاہدہ کر رہا ہے۔یہ مقام اس کو حاصل ہوتا ہے جو منزلِ فناء پر فائز ہو جاتا ہے۔

انسان کامل کا ہر شیء پر مقدم ہونا:

انسان وجودِ علمی اور وجودِ عینی ہر دو اعتبار سے تمام عالم پر مقدَّم ہے۔ یہ تقدُّمِ زمانی نہیں ہے بلکہ تقدُّم رتبی ہے۔ کیونکہ انسان درخت کا پھل ہے۔ ظاہر بین کی نگاہ میں درخت اصل ہے اور پھل فرع ہے جبکہ باطن پر نگاہ رکھنے والوں کے نزدیک پھل اصل ہے جو مقصود نہ ہوتا تو کسان اصلاً بیج نہ بوتا۔ اس کائنات میں انسان میوہ و پھل ہے جس کے لیے اللہ سبحانہ خلقت کو خلق کیا۔ پس از لحاظ رتبی یعنی باطنی انسان ہر خلقت پر مقدم ہے ۔ ہر شیء اس لیے خلق کی تاکہ انسان عینی طور پر متحقق ہو سکے۔بالاترین اسم اللہ ہے ، اس کے بعد اسمِ الہٰی ’’رحمن‘‘ ہے ۔ مظہرِ اللہ خلیفۃ اللہ ہے۔ ہم اس اسم کے مظہر ہے جو اسم ہمارے اوپر حاکم ہے۔تمام حقائقِ عالم حقیقتِ محمدیہ ﷺ میں اجمالی طور پر موجود ہیں ۔ مرتبہِ الہٰیہ سے مراد مرتبہِ احدیت ہے اور مرتبہ واحدیت اس کے بعد ہے۔ حقیقت محمدیہ ﷺ اسی مرتبہِ الہٰیہ یعنی احدیت کے مضاہات میں ہے کیونکہ اجمالی طور پر تمام حقائق کو لیے ہوئے ہے۔تمام اشیاءپہلے اللہ سبحانہ کے علم میں تھیں اس لیے اشیاء کا علمی وجود ان کے عینی وجود سے پہلے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا وجود علمی اعتبار سے ہر شیء پر مقدم ہے۔

 اسی طرح  انسانِ کامل وجود ِ عینی کے اعتبار سے بھی  ہر شیء پر تقدم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وجودِ خارجی اس کے مطابق خلق فرمایا جو اس کا وجودِ علمی اللہ سبحانہ کے علم تھا۔ اشیاء کے علمی وجود جو اللہ تعالیٰ کے علم تھا کو اعیانِ ثابتہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وجودِ عینی کے مقدم کا بیان ان احادیث سے روشن ہوتا ہے: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: أَوَّلُ‏ مَا خَلَقَ‏ اللَّهُ‏ نُورِي‏؛ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : اللہ نے سب سے پہلے جس کو خلق کیا وہ میرا نور تھا۔ [20]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۵، ص ۲۲۔اسی لیے ہم حجتِ الہٰی کو واسطہِ فیض قرار دیتے ہیں۔ عقل اول نورِ محمدی ﷺ ہے جس کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے تمام خلقت کو خلق فرمایا۔ مقصودِ خلقت آنحضرتﷺ ہیں جبکہ بقیہ تو طفیلی ہیں۔ نورِ محمدیﷺ کے علاوہ جتنی خلقت موجود ہے ان سب کو عقلِ اوّل متضمن ہے اور اس کا علم رکھتی ہے۔

حتی کمالات و مقامات کے اعتبار سے بھی انسانِ کامل ہر خلقت پر تقدم رکھتا ہے کیونکہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اسماءِ الہٰی کے ظہور و بروز کا مقام قرار پائے جیساکہ آئینہ میں کثیر چیز منعکس ہو سکتیں ہیں۔

علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب فاطمہ زہراءؑ کے بارے میں دقیق اور تفصیلی مطالعات و تحقیقات کی ہیں ۔ ان تمام تحقیقات میں اس سے دقیق ترین بیان میری نگاہ سے نہیں گزرا جسے سید ابن طاؤوسؒ نے فلاح السائل میں ذکر کیا ہے کہ جناب فاطمہؑ پنجگانہ نمازوں میں تعقبات میں اس دعا کو پڑھا کرتی تھیں۔ جناب سیدہ فاطمہؑ اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمد و شکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں :الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَجْعَلْنِي جَاحِدَةً لِشَيْ‏ءٍ مِنْ كِتَابِهِ وَلَا مُتَحَيِّرَةً فِي شَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِه‏؛ تمام حمد و ستائش اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اپنی کتاب میں موجود کسی ایک چیز کا منکر قرار نہیں دیا اور نہ اپنے امر میں ایک ذرہ متحیرو پریشان قرار دیا ہے۔[21]ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، ص ۱۷۳۔احادیث میں وارد ہوا ہے: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ‏ أَنَّهُ قَالَ‏: { إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ اللَّيْلَةُ فَاطِمَةُ، وَالْقَدْرُ اللَّهُ، فَمَنْ عَرَفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ أَدْرَكَ‏ لَيْلَةَ الْقَدْر؛ امام صادقؑ فرماتے ہیں: { بے شک ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا }،شب (سے مراد) فاطمہ اور’’ قدر‘‘ سے مراد اللہ ہے، لہٰذا جس نے فاطمہؑ کی حق معرفت حاصل کر لی اس نے شبِ قدر کو درک کر لیا۔[22]علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۶۵۔   جناب سیدہ ؑ لیلۃ القدر کی شب ہے  ۔ ایک قرآن صامت ہے اور ایک قرآن ناطق ہے۔ مکتبِ اہل بیتؑ کے مطابق قرآن ناطق معصوم ہستی ہیں۔ ظرفِ نزولِ قرآن ناطق ہستی جناب فاطمہؑ ہیں کیونکہ گیارہ آئمہ معصومینؑ انہی کے شکمِ مبارک سے ظاہر ہوئے۔

اللہ کی رحمت کا دو طرح سے ہونا:

اللہ تعالیٰ واحد ذات ہے جس کی اپنی ذات کا تقاضا ہے کہ وہ موجود ہو۔ ذاتِ الہٰی کے علاوہ کوئی ذات اپنی ذات میں موجود ہونے کا تقاضا نہیں رکھتی۔ یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے وجود کی حقدار فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور کوئی ذات اپنی ذات کے اعتبار سے وجود کا حق نہیں رکھتی ۔ ہر کمال کی اساس وجود ہے ۔ وجود سے کمال جنم لیتا ہے۔ وجود و کمال اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت دو طرح کی ہے:
۱۔ رحمتِ رحمانیت عام ہے جو سب کو شامل ہے حتی مجرمین و ظالمین و معصیت کاروں کو بھی شامل ہے ، جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ سبحانہ کی نعمات سے استفادہ کرتے ہیں۔اس رحمت کی بناء پر اللہ تعالیٰ وجودات کو وجود دیتا ہے، چاہے وہ دوست ہو یا دشمن۔ ایک جود وسخا سے فقیر وجود میں آ رہا ہے اور ایک جُود و سخا سے بالا مراتب کی طرف خلقت جاتی ہے۔پس ایجاد و خلقت رحمتِ رحمانیت کی بناء پر ہے۔
۲۔ رحمتِ رحیمیت خاص ہے ۔اس رحمت کی اساس پر اللہ سبحانہ بلند مراتب کی طرف لے کر جاتا ہے۔پس نشو ونما اور بلندی کر طرف جانا رحمتِ رحیمیت کی بناء پر ہے۔

اللہ تعالی کی وجودی صفات:

اللہ سبحانہ کی صفاتِ حقیقیہِ وجودی سات ہیں : مثلاً حیات، علم ، ارادہ، قدرت، سمیع ، بصیر ۔یہ سب صفات برابر نہیں ہیں بلکہ تقدم و تأخر رکھتے ہیں۔ تمام صفات جس پر موقوف ہیں وہ ’’وجود‘‘ ہے کیونکہ اگر وجود نہ ہو تو حیات بھی نہیں ہو گی۔ ان سب صفات میں امامِ صفات ’’حیات‘‘ ہے کیونکہ حیات ہو تو بقیہ صفات ہوں گی۔حیات کے بعد علم و ارادہ آتی ہے کیونکہ علم و ارادہ ہو تو قدرت ہو گی۔ وجودی صفات یہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ صفات انسان کو عنایت فرمائی ہیں۔ ان صفات میں قوتِ سامعہ اور باصرہ برابر نہیں ہیں بلکہ قوتِ سامعہ قوی تر ہے قوتِ باصرہ سے۔ کمالاتِ وجود کا لازمہ وجود ہے، مثلاً حرارت ملزوم ہے جس کا لازمہ آگ ہے ، رطوبت کا لازمہ پانی ہے۔ وجود ہو تو کمالاتِ وجود ہوں گے۔ اللہ سبحانہ کی تمام صفات اس کے وجود کی اساس پر ہیں۔

انسان کا ازلی و ابدی ہونا اور دائمی نشوونما پانے والا ہونا:

کائنات کی خلقت میں اصل مقصود انسان کامل ہے جس کی وجہ سے تمام حقائق عالم اللہ تعالیٰ نے خلق کیے ہیں۔ لہٰذا اللہ سبحانہ نے جہان کے اجزاء اس لیے خلق فرمائے تاکہ انسان کو وجود دے۔ یہاں دو کلمات ہیں : ۱۔ حادث، ۲۔ ازلی۔ حادث سے مراد ہے جو پہلے نہ ہو پھر ایجاد ہو۔ حادیث کی دو اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں: ۱۔ حادث ازلی ، ۲۔ حادث ذاتی۔ انسان حادث ازلی بھی ہے اور حادث ذاتی بھی ۔ حادث ذاتی سے مراد اپنی ذات کے اعتبار سے وجود کا متقاضی نہ ہونا ہے۔ فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے تقاضائے وجود رکھتی ہے۔ اسی طرح قدیم کے بارے میں ایک اصطلاح قدیمِ ذاتی اوردوسری اصطلاح قدیمِ زمانی ہے۔ ازلی سے مراد ازل سے ہونا ہے۔ حادث ازلی یعنی ایک طرف سے دیکھے تو حادث ہے اور دوسری جہت سے دیکھیں تو ازلی ہے۔ عرفان کے مطابق ازلی و ابدی دو قسم کے ہیں :
۱۔ ازلی و ابدی بالاصالہ : اصالت کے طور یا ذاتی پر فقط اللہ سبحانہ ازلی و ابدی ہے۔اللہ تعالیٰ کے ازلی ہونے سے مراد صفتِ سلبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ سے پہلے کوئی ’’اوّل‘‘ نہیں ہے کہ وہ عدم سے اسے وجود دے۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ عینِ وجود ہے جسے کسی نے وجود نہیں دیا بلکہ اس کا وجود دائمی ہے اور ہمیشہ سے ہے۔ غیر اللہ مسبوق العدم ہے ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کا تقاضا وجود ہے ۔ جتنے وجودات ہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے ان کا وجود ان کا غیر ہے۔ یہ وجود ان کی ذات نے اللہ سبحانہ نے دیا ہے۔
۲۔ ازلی و ابدی بالتبع: اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شیء ، مثلاً انسان بالتبع اور بالعرض ازلی و ابدی ہے نہ کہ بالاصالۃ ازلی و ابدی ہے۔انسان ازلی و ابدی ہے لیکن اس کا سبب اللہ تعالیٰ نے جس نے اسے ازلی و ابدی وجود عنایت کیا اور اس طرح باقی رکھا۔ اگر علت ابدی ہو اور معلول ابدی نہ ہو تو اس سے علت کا معلول سے تخلف لازم آئے گا جوکہ ممکن نہیں ہے۔ اگر علت حادث ہو تو وہ اپنے وجود کے لیے علت کی محتاج ہو گی، اگر وہ علت بھی حادث ہو تو وہ اپنے حدوث کے لیے ایک اور علت کی محتا ج ہو گی اور اس طرح تسلسل لازم آئے گا جوکہ بالبداہہ باطل ہے۔ اب اگر ہم کہیں کہ انسان ابدی ہے تو ہم کہیں گے اس لیے کہ اس کی علت ابدی ہے اس لیے معلول یعنی انسان بھی ابدی ہے ورنہ تخلف معلول از علت لازم آئے گا یا تسلسل لازم آئے گا اور ہر دو باطل ہیں۔انسان کے ازلی ہونے کے لیے یہ ضابطہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہر شیء جو ازلی ہے وہ ابدی ہے یا اس کا عکس جو ابدی ہے وہ ازلی ہے۔ یہاں عکس سے مراد عکسِ منطقی نہیں بلکہ عکسِ لغوی ہے۔ یہاں ایک اشکال لازم آتا ہے کہ انسان کا نفس ابدی ہے لیکن ازلی نہیں ہے؟! یہاں جواب دیتے ہیں کہ نفسِ انسانی بدن کے اعتبار سے حادث ہے لیکن وجودِ علمی کے اعتبار سے ازلی ہے۔ ہم انسانی نفس کو دو طرح سے ملاحظہ کرتے ہیں : ۱۔ نفس بغیر بدن ملاحظہ کریں تو وہ وجودِ علمی الہٰی میں ازلی ہے، ۲۔ اگر بدن کے اعتبار سے نفس کو دیکھیں تو نفس حادث ہے۔

تسلسل دو طرح کا ہے:
۱۔ تسلسل غیر جمعی: یہ باطل نہیں ہے ، جیساکہ اجزاءِ زمان اور حرکت ۔ یہ جائز ہے۔
۲۔ تسلسل جمعی: یہ باطل ہے۔ اگر زمان فاصلہ ایجاد نہ کرے تو یہ تسلسل باطل ہے۔

انسان حادثِ ازلی اور دائماً نشو ونما پانے والا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کے وجودِ علمی کے اعتبار سے ازلی ہے اور وجودِ خارجی کے اعتبار سے حادث ہے۔ بالفاظِ دیگر حادثِ ازلی ہونے سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ اور تمام انبیاءؑ وجودِ خارجی کے اعتبار سے حادث ہیں کیونکہ پہلے نہیں تھے لیکن وجودِ علمی الہٰی کے اعتبارسے ازلی ہیں  جسے عرفان میں اعیانِ ثابتہ کہتے ہیں۔ ازلیت سے مراد وجودِ علمی ہے جوکہ عالم اور معلوم میں نسبت ہے جوکہ ازلی ہے۔ انسان معلوم ہے۔ اسی طرح ایک اصطلاح حادثِ ذاتی ہے۔ اس سے مراد ذات کے اعتبار سے حادث ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شیء حادثِ ذاتی ہے۔ عرفان کے مطابق ہر چیز جو ازلی ہے وہ ابدی ہے اور جو چیز ابدی ہے وہ ازلی ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ پہلی تقسیم کو تو قبول کرتے ہیں لیکن دوسرے کو قبول نہیں کرتے ۔ یعنی ہر وہ چیز جو ازلی ہے وہ ابدی ہے لیکن برعکس صحیح نہیں ہے، جیساکہ نفسِ انسان ابدی ہے لیکن ازلی نہیں ہے۔ یہ حکمتِ متعالیہ کے مطابق ہے کیونکہ مرحوم ملاصدرا نفس کو جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقاء قرار دیتے ہیں۔پس عرفان کے مطابق ہر دو صورتیں صحیح ہیں جبکہ حکمتِ متعالیہ کے مطابق پہلی صورت صحیح دوسری صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ازلی و ابدی ہونا بااصالت ہے جبکہ غیر اللہ سبحانہ کا ازلی و ابدی ہونا بالتبع ہے نہ کہ بالاصالہ ۔

ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ آخرت میں جو حوادث پیش آئیں گے وہ ازلی نہیں لیکن ابدی ہیں، مثلاً جو جنت میں ہے وہ ابدی طور پر جنت میں ہے اور جو جہنم میں ہے ان میں سے جو ابدی جہنم میں رہنے والے ہیں وہ پہلے جہنم میں نہیں تھے؟ اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ جنت و جہنم میں وہ ازلی نہیں تھے لیکن ابدی ہیں لیکن وجودِ علمی کے اعتبارسے وہ جنت یا جہنم میں ازلی ہیں۔

انسان جب وجود میں آگیا تو پھر ابدی ہے اور کبھی معدوم نہیں ہو گا۔ ایک مرحلہِ زندگی سے دوسرے مرحلہِ زندگی میں قدم رکھے گا لیکن معدوم نہیں ہو رہا۔لُبس بعد لبس ہے۔ ایک بعد ایک لباس پہن رہا ہے۔ خَلق و لُبس نہیں ہے ۔ ملا صدرا کے حرکتِ جوہری کے مطابق خلق و لبس باطل نظریہ ہے بلکہ لبس بعد لبس ہے۔ جنابِ جبریلؑ مقامِ معلوم رکھتے ہیں جیساکہ تمام فرشتے ایک مقام پر منتہی ہو جاتے ہیں لیکن انسان مقامِ لا یقف رکھتی ہے جو ہر حد کے بعد اس سے تجاوز کر کے آگے بڑھ سکتا ہے۔انسانِ کامل کے لیے عرفان میں تین وجود بیان کیے گئے ہیں:
۱۔ انسانِ کامل کا وجودِ علمی ’’ازلی‘‘ ہے۔
۲۔ انسان کامل کا وجودِ عنصری ’’حادث‘‘ ہے۔
۳۔ انسانِ کامل کا وجودِ روحانی ’’ازلی‘‘ ہے کیونکہ یہ غیر زمانی ہے اور اس کے احکام مطلق ہیں۔

انسان کا کلمہِ فاصلہ ہونا :

نفس کے بارے میں مختلف قول ہیں:
۱۔ نفس قدیم ہے، یہ افلاطون کا نظریہ ہے۔علامہ حسن زادہ آملی بیان فرماتے ہیں کہ افلاطون کی طرف نفس کے قدیم ہونے کا نظریہ جو منسوب ہے یہ اعیانِ ثابتہ اور وجودِ ازلی حادث کے اعتبار سے ہے۔ ہر شیء اللہ سبحانہ کے وجود میں موجود تھی۔ اس مادی دنیا میں آنے سے پہلے ہمارا ایک وجودِ مثالی تھا جسے عالم الذر کہتے ہیں اور وجودِ مثالی سے وجودِ عقلی تھا اور وجودِ عقلی سے پہلے وجودِ علمی تھا۔
۲۔ نفس حادث ہے، یہ پیرو افلاطون کا نظریہ ہے۔
۳۔ نفس انسانی حادث ہے بحدوث بدن۔ یہاں باء ’’سببیت‘‘ کے معنی ہے۔ یہ حکمت متعالیہ کا نظریہ ہے۔ یہ بلحاظِ بدن ہے نہ کہ اصل ذات۔

انسان کے ’’فاصلہ‘‘ ہونے  کے دو  معانی ہیں:
۱۔ انسان کلمہِ فاصلہ ہے کیونکہ انسان مراتبِ وجود کے درمیان فاصلہ بیان کرتا ہے ۔ انسان کامل وجود کے مراتب کو تمیز اور جدائی دیتا ہے۔
۲۔ نیز انسان اس لیے بھی کلمہِ فاصلہ ہے کیونکہ وہ روح کو بدن سے جدا کرتا ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب عزرائیلؑ روح قبض کرتے ہیں یا انسان جدا کرتا ہے؟ یہاں جواب میں کہا جائے گا کہ یہاں انسان سے مراد انسانِ کامل ہے اور جناب عزرائیلؑ انسانِ کامل کے شئوون میں سے ایک شأن ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کی روح قبض کرنے سے پہلے جناب عزرائیلؑ نے اجازت طلب کی۔ اسی طرح آج کے دور میں جناب عزرائیلؑ امام زمانؑ کے شئوون میں سے ایک شأن ہے۔  پس
انسانِ کامل کلمہِ فاصلہ ہے کیونکہ وہ وجودِ عقلی کو وجودِ مثالی سے جدا کرتا ہے اور وجودِ مثالی کو وجودِ مادی سے فاصلہ برتتا ہے۔ پس انسان مراتبِ وجود میں فاصلہ دے سکتا ہے اور نشاندہی کر سکتا ہے کہ یہ وجودِ عقلی ہے، یہ وجودِ مثالی ہے اور یہ وجودِ طبیعی۔

کلمہِ جامعہ ہونے سے مراد :

انسان کے ’’کلمہِ جامعہ ‘‘ ہونے کے دو معانی ہیں:
۱۔ ’’کلمہِ جامعہ‘‘ ہونے سے مراد انسان کا تمام مراتبِ وجود کو اپنے اندر جمع کرنا ہے۔ انسان تمام مراتبِ وجود کے نمونے رکھتا ہے، مثلاً انسان کا مادی جسم عالم ناسوت کو بیان کرتا ہے، اس کا خیال عالم ملکوت کو بیان کرتا ہے اور عقلِ انسانی عالم جبروت کو بیان کرتی ہے۔انسان کامل اسم اللہ کا مظہر ہے پس عالم لاہوت جوکہ جہانِ اسماء و صفاتِ الہٰی سے عبارت کا نمونہ رکھتا ہے۔پس انسان تمام عوالم کے نمونے اپنے اندر جمع کیے ہوئے اس لیے اسے کلمہِ جامعہ کہا جاتا ہے۔  انسانِ کامل ان تمام عوالم کی روح ہے۔ یہی مطلب احادیث آئمہ اطہارؑ میں اس طرح سے وارد ہوا ہے:
لَوْ بَقِيَتِ الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ لَسَاخَتْ‏؛اگر زمین بغیر امام کے ہو تو زمین تباہ ہو جائے.[23]کلینی ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۴۳۷، باب ۵۔ قوس نزول میں اس کا آغاز رسول اللہ ﷺ کے وجودِ اقدس سے ہوتا ہے۔ اسی طرح قوس صعود میں اختتام آنحضرتﷺ پر ہوتا ہے۔ اسی لیے آنحضرتﷺ کو اول و آخر کہا جاتا ہے۔ عرفاء نے قوس نزول و قوس صعود کی اصطلاح قرآن کریم سے اخذ کی ہے جیساکہ سورہ سجدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ في‏ يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون‏؛ وہ امر کی آسمان سے زمین تک تدبیر کر رہا ہے ، پھر امر اس کی طرف عروج کرتا ہے اس دن دس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ہزار سال ہے }.[24]سجدہ: ۵۔ اس آیت کریمہ میں آسمان سے زمین قوس نزول اور پھر عروج کرنا قوس صعود سے تعبیر ہے۔
۲۔ انسان روح اور بدن کو جمع کرتا ہے اس لیے انسان کلمہِ جامعہ ہے ، جیساکہ حضرت عیسیؑ نے پرندوں کے بدن سے ان کی روح کو جمع کیا ۔ اسی طرح حضرت عیسیؑ مردوں کو زندہ کرتے تھے  اور روحوں کو بدن کے ساتھ وابستہ کر دیتے۔

انسان کامل کا وجودِ عنصری میں متأخر وجودہونا:

انسانِ کامل وجودِ عنصری میں اس لیے متأخر ہے تاکہ تمام حقائق کا حامل ہو ۔
انسانِ کامل اس لیے بھی تمام وجودات میں متأخر ہے کیونکہ اس کا بدن ہے جس سے اس نے تعلق پیدا کرنا ہے اور یہ بدن متأخر وجود میں آ رہا ہے۔
عرفاء کے مطابق اگر قوس نزول نہ ہو تو قوس صعود ک نوبت نہیں پہنچتی ہے۔ اس لیے ہر شیء قوس نزول کے طور پر اتر رہی ہے اور پھر واپس صعود کرےگی۔ یہ حرکتِ دوری جوکہ قوس نزول سے شروع ہو کر قوس صعودی کے ذریعے اختتام پذیر ہوتی ہے، اسے دورِ تذکُّری سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ قوس نزول پر ان حقائق کو درک کیا تھا اب جب قوس صعود پر ان حقائق کو درک کرے گا تو اسے یاد آئے گا کہ ان حقائق کو پہلے بھی درک کیا تھا۔ اس کو دورِ تذکُّری کہتے ہیں۔ اہل تناسخ کے نزدیک تذکر سے مراد یہ ہے کہ اولیاء پہلے ایک بدن سے متعلق تھے اس کے بعد دوسرے بدن سے تعلق قائم کر کے واپس آ جاتے ہیں اور جب دوسرے نطفہ سے تعلق قائم کرتے ہیں تو اسے تمام چیزیں جنہیں پہلے نطفہ سے ارتباط صورت میں دیکھ چکا تھاوہ اسے دوبارہ یاد آتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ سیرِ قہقرائی ہے جوکہ باطل ہے۔

تقدم و تأخر کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کامل کا تقدم کس معنی میں ہے ؟ تقدم کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تقدّم بالطبع کے معنی میں تقدم رکھتا ہے:
۱۔
تقدم بالذات، جیسے علت کا معلول پر مقدم ہونا
۲۔ تقدُّمِ زمانی
۳۔ تقدُّمِ مکانی ، جیسے امام جماعت آگے اور مقتدی پیچھے
۴۔ تقدُّم شرف، جیسے عالم و جاہل
۵۔ تقدُّم بالطبع، جیسے علت کے جزء کا معلول پر مقدم ہونا
۔

انسان کامل اس جہان سے وہی نسبت رکھتا ہے جو نسبت انگوٹھی کے نگین کی انگوٹھی سے ہے۔ نگین انگوٹھی کو خوبصورتی و زیبائی دیتا ہے اسی طرح انسان کامل جہان کو زیبائی دیتا ہے۔ جہان ہو لیکن انسان کامل نہ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے انگوٹھی ہے لیکن اس میں نگین نہیں ہے۔ اسی طرح انگوٹھی  میں موجود نگین کے ذریعے پرانے دور میں خزانہ کو بچانے کے لیے مہر کا کام لیتے تھے اور خزانہ کو ایک چیز میں بند کر کے اس پر مہر لگا دیتے تھے ۔ اسی طرح انسان کامل اللہ سبحانہ کی مہر ہے جس کے ذریعے خزانہ کو بند کیا ہوا ہے اور عالمِ ہستی اسی انسانِ کامل کی وجہ سے قائم ہے ۔ خزانہِ جہانِ ہستی پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگائی ہے تاکہ خزانہ فساد کا شکار نہ ہو۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ میں زمین پر خلیفہ قرار دینے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جہان کو محفوظ رکھنے کے لیے انسان کو محفوظ کیا ہے۔ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو مستخلف کی صفات کو اپنے اندر واجد ہوتا ہے۔

انسان اور خلیفہ میں فرق:

اللہ تعالیٰ نے کونِ جامع یعنی انسان کامل کو خلق کیا اور اسے اپنے اسماء و صفات کا آئینہ قرار دیا ۔ اس کونِ جامع کو انسان اور خلیفہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فلاسفہ اور عرفاء کے نزدیک کَون کی اصطلاح میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ فلاسفہ غیر اللہ کو کَون سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ عرفاء کی نگاہ میں کَون سے مراد وہ ذات ہے جو تمام حقائق کا احاطہ کیے ہوئے ہےاور پورے جہان کے حقائق اس ذات کے ذریعے متحقق ہیں۔  انسان یا تو انس سے ہے یا نسیان سے ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں وضاحت گزر چکی ہے۔ جہاں تک خلیفہ کے لفظ کا تعلق ہے تو انسان ِ کامل کو خلیفہ اس لیے کہتے ہیں کیونکہ انسانِ کامل انگوٹھی میں نگینہ کی مانند ہے۔ انگشتر کے نگینہ کو دو طرح سے ملاحظہ کر سکتے ہیں :
۱۔نگینہ انگوٹھی کا جزء ہے ۔اللہ تعالیٰ کی تمام خلقت میں سے ایک انسانِ کامل ہےاس لیے جہان میں انسان کامل کا بھی شمار ہوتا ہے۔
۲۔ انسانِ کامل خود بھی جدا طور پر مکمل ایک جہان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماءِ الہٰی کا مظہر اور تمامِ کائنات کے حقائق کو شامل ہے۔ اس اعتبار سے انسان کامل کو نگینہ سے تشبیہ دی جاتی ہےاگر پوری انگوٹھی میں اگر نگینہ نہ ہو تو کوئی انگوٹھی نہیں خریدے گا اور انگوٹھی کی کوئی قیمت نہیں لگے ۔ اسی طرح اگر جہان میں انسان ِ کامل نہ ہو تو پورا جہان ناقص ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں رہے گی۔

قدیمی زمانے میں نگینہ کو مہر کے طور پر استعمال کرتے تھے جیساکہ ایک خزانہ ایک کمرے میں بند کیا جاتا تھا اور اس پر جو تالا لگایا جاتا تھا وہ تالا اس وقت کھولتا تھا جب نگینہ اس تالا کے اندر جاتا تھا ۔ لہٰذا نگینہ خزانے کی حفاظت کرتا تھا ۔ یہاں سے انسانِ کامل کو نگینہ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ انسانِ کامل پورے جہان کو محفوظ کیے ہوئے ہے کہ اگر حجت یعنی انسان کامل نہ ہو تو زمین اپنے اہل سمیت تباہ ہو جائے۔ انسانِ کامل خلیفہ ہے اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ نے تمام خلقت کی حفاظت کا ذریعہ انسانِ کامل کو قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ اس دنیا میں سب سے آخر میں حجتِ الہٰی اس دنیا سے رخصت ہوں گے۔پس آئمہ اطہارؑ کی احادیث میں حجتِ الہٰی کی جو وضاحت وارد ہوئی ہے وہی تشریح عرفان میں انسانِ کامل کے عنوان سے پیش کی گئی ہے۔ بادشاہ جب اپنے خزانہ کو محفوظ کرنا چاہتا ہے تو اس خزانے پر مہر لگا کر جاتا تھا تاکہ کوئی اس خزانہ یا مال میں تصرف نہ کرے۔ لہٰذا یہ مہر اس خزانہ کی حفاظت کرتی ۔ اصل تو بادشاہ خزانے کی حفاظت کرتا تھا لیکن بادشاہ کی بجائے یہ مہر خزانے  کی حفاظت کر رہی ہے۔

انسان کامل کا مہر ، برزخ ، اسم اعظم اور واسطہِ فیض ہونا :

اللہ تعالیٰ کی رحمت دو طرح کی ہے: ۱۔ رحمتِ رحمانیت ، ۲۔ رحمتِ رحیمیت ۔ اللہ تعالیٰ رحمتِ رحمانیت عام ہے اور تمام موجودات پر نچھاور ہے لیکن رحمتِ رحیمیت خاص ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور خاص افراد کے ساتھ خاص ہے۔ انسانِ کامل حق تعالیٰ سے مدد لیتے ہوئے تمام خلقت اور انواعِ صور کے کمالات اور آثارِ کمالات کو  حفظ کیے رکھتا ہے۔پس بادشاہ کی غیبت میں مہر اس کے خزانے کی حفاظت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے اسماء و صفات کے مظاہر کی وجہ سے مخفی ہو تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی نیابت میں انسانِ کامل کائنات کی حفاظت کرتا ہے۔ پس اللہ سبحانہ اپنے اسماء و صفات کے مظاہر کی وجہ سے مخفی ہونے سے پہلے خود تمام ہستی کی حفاظت فرماتا ہے۔ پس انسانِ کامل کا محافظ ہونا بالعرض ہے نہ کہ بالاصالت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام خلقت کو جیسا خلق کیا ہے اسی حالت میں انسانِ کامل اس کو باقی رکھتا ہے اور اس کو معدوم ہونے اور تبدیل ہونے بچائے رکھتا ہے۔ پس حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ ہستی اور خلقت کا محافظ ہے لیکن جب مظاہرِ اسماء و صفاتِ الہٰی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مخفی ہو تو انسان کامل تمام خلقت کو جیساوہ خلق ہوئی ہے ویسا باقی رکھتا ہے اور حفاظت کرتا ہے۔پس جب تک انسان کامل موجود ہے تو عوالم ِ علویہ یعنی مجردات اور عوالم سفلیہ یعنی جہانِ مادی موجود رہے گا۔ ممکن ہے یہاں ایک اشکال کیا جائے کہ مہر کے ہٹانے سے خزانہ کیوں چلا جائے ؟! اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ انسان کاملِ مہر اس معنی میں ہے کہ یہ اس خزانہ کی حفاظت کر رہا ہے کہ اگر حجتِ الہٰی نہ ہو تو زمین اپنے اہل سمیت تباہ و برباد ہو جائے گی۔یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے پہلے زمین و آسمان سب تھا تو وہ کیسے تھا؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت آدمؑ کے جسمِ عنصری سے پہلے نورِ محمدیﷺ موجود تھا لیکن جسم عنصری کی صورت میں نہیں تھا۔

انسانِ کامل صاحبِ اسمِ اعظم ہے جو کہ اس عالم کا مربّی ہے۔ اس کائنات میں انسانِ کامل کے حکم کے بغیر کوئی شیء باطن سے ظاہر نہیں ہوتی۔ انسانِ کامل برزخ ہے جوکہ دو بحروں کے درمیان حاجز و رکاوٹ ہے ۔ انسان کامل بحرِ وجوب اور بحرِ امکان کے درمیان واسطہ اور رکاوٹ ہے۔ ایک عالمِ الالہ ہے اور ایک عالم خلق ہے ، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيانِ بَيْنَهُما بَرْزَخٌ‏ لا يَبْغِيان‏ }.[25]رحمن: ۱۹-۲۰۔  انسان کامل اس دنیا میں بھی مہر ہے جس کے ذریعے حفاظتِ دنیا ہے اور آخرت میں بھی مہر ہے۔ نعماتِ دنیادوی اور نعماتِ اخروی ہر دو انسان کامل کے ذریعے اللہ تعالیٰ محفوظ کیے ہوئے ہے۔ اگر ایک انسان کامل دنیا سے اٹھ جائے تو فورا دوسرا انسان کامل اس کی جگہ جائے گزین اور قائم مقام آ جاتا ہے۔ اگر انسان کامل کے اٹھ جانے کے بعد کوئی دوسرا انسان کامل قائم مقام نہ ہو تو دنیا آخرت میں تبدیل ہو جائے گی۔ پس دنیا کا آخرت میں منتقل ہونا انسان کامل کے منتقل ہونے پر موقوف ہے ۔تمام کے تمام کمالات فقط انسان کامل کے ذریعے سے محفوظ ہوتے ہیں۔ انسان کامل جب اس دنیا سے منتقل ہو جاتا ہے تو تمام کمالات بھی اس کے ہمراہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ انسان کامل کی وجہ سے اس دنیا میں تمام خزائنِ الہٰی محفوظ اور باقی رہتے ہیں اور جب وہ اٹھ جاتا ہے تو یہ تمام خزائن کا وجوداس کے ذریعے محفوظ رہتا ہے۔ یہ عالم انسانِ کامل کے وجود کی تفصیل ہے اور خود انسانِ کامل تمام عوالم کا اجمال ہے۔ انسان کامل کو کھول دیں تو یہ کائنات بنتی ہے اور اگر تمام کائنات کو مجمل کریں تو انسانِ کامل سامنے آتا ہےتمام فیوضاتِ الہٰی انسان کامل کے ذریعے خلقت کو پہنچ رہے ہیں ۔ انسان کامل فیضِ کامل ہے۔ابن عربی اپنی کتاب ’’اسم ربانی‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ دنیا اس وقت تک باقی ہے جب تک انسان کامل اس میں موجود ہے۔ابن عربی مزید اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب انسان کامل آخرت میں منتقل ہو جائے گا کہ تو آسمان پھٹ جائے گا، سورج اندھا و نابینا ہو جائے گا، پہاڑ چل پڑیں گے اور دنیا بھی آخرت میں منتقل ہو جائے گی۔زیارت جامعہ کبیرہ میں اسی مطلب کی طرف ان الفا ظ میں اشارہ ہوتا ہے:ْ وَأَنْتُمْ نُورُ الْأَخْيَارِ وَهُدَاةُ الْأَبْرَارِ وَحُجَجُ الْجَبَّارِ بِكُمْ فَتَحَ اللَّهُ وَبِكُمْ يَخْتِمُ وَ{ بِكُمْ‏ يُنَزِّلُ‏ الْغَيْثَ‏ } وَبِكُمْ‏ { يُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ‏ إِلَّا بِإِذْنِهِ‏ } وَبِكُمْ يُنَفِّسُ الْهَمَّ وَيَكْشِفُ الضُّر.[26]شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲ ، ص ۶۱۵، زیارت جامعہ۔

قرآن کریم انسان کامل کا وجودِ تدوینی ہے اور انسان کامل قرآن کریم کا وجودِ تکوینی ہے۔ابن عربی رسول اللہ ﷺ کی نسبت سے ایک شعر میں بیان کرتے ہیں:
أنا القرآنُ والسبعُ المثاني
وَرُوحُ الروحُ لا روحُ الأَواني
فؤَادِي عند مشهودي مقيم
يشاهِدُ وعندكُمْ لساني

اسی طرح شارح قیصری نے ایک شعر ذکر کیا ہے اور اسے امام علیؑ کی طرف نسبت دی ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ یہ امام علیؑ کا نہیں بلکہ ایک عالم جس کا تعلق ترکی کے ایک علاقہ قیراون سے تھا اس کا نام بھی علی بن ابی طالب ہے اس کا یہ شعر ہے۔ اس لیے یہاں اشتباہاً امام علیؑ کی طرف اس شعر کی نسبت دی گئی ہے۔ البتہ اس شعر کا معنی بلند ہے کہ شاعر بیان کرتے ہیں:
وَأنْتَ الكتابُ المبينُ الذي
بِأَحْرُفِه يظهَرُ المضمر

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ حق تعالیٰ علم کو سلب کر لیتا ہے جب عالم اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے، یہاں تک زمین پر کوئی ایسا عالم باقی نہ رہے جو مسئلہِ علمی نہ جانتا تو پھر اللہ اللہ ، اس پر قیامت قائم ہو جائے گی۔ پس انسان کامل صرف دنیا میں نہیں بلکہ آخرت یعنی بزرخ و قیامت میں بھی واسطہِ فیض ہے ۔

فرشتوں کا بارگاہِ الہٰی میں اعتراض :

انسان کامل کے فیوضات زیادہ روشن اور شدت کے ساتھ روزِ قیامت ظاہر ہوں گے۔ انسان کامل تمام اسماءِ الہٰی کا مظاہر ہے۔ اسماءِ الہٰیہ جمالیہ ہوں یا جلالیہ ہر دو قسم کے اسماء کا مظہرِ تام انسان کامل ہے اور اسی وجہ سے انسان کامل تمام فرشتوں اور ملائکہ سے افضل ہے۔ انسان کامل کے مقابلے میں فرشتے بعض اسماءِ الہٰیہ کا مظہر ہیں ، تمام اسماء کا مظہر نہیں ہیں۔ یہی وہ پہلو کہ فرشتے انسان کامل کی جامعیت کا علم نہیں رکھتا تو انہوں نے اللہ سبحانہ کے سامنے سورہ بقرہ آیت ۳۰ میں بارگاہِ الہٰی میں اعتراض برپا کیا، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:{ وَإِذْ قالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَليفَةً قالُوا أَ تَجْعَلُ فيها مَنْ يُفْسِدُ فيها وَيَسْفِكُ الدِّماءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قالَ إِنِّي أَعْلَمُ ما لا تَعْلَمُون‏ }.[27]بقرہ: ۳۰۔  فرشتوں نے اپنی تقدیس اور تسبیح کا تذکرہ کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی برتری ظاہر کی لیکن اللہ تعالیٰ نے توبیخ اور مذمت کرتے ہوئے فرمایا :’’میں جو جانتا ہوں وہ تم (فرشتے) نہیں جانتے‘‘۔ عرفاء کی نگاہ میں فرشتے تمام اسماءِ الہٰیہ کا مظہرِ تام ہونے کا علم نہیں رکھتے اور صرف اللہ تعالیٰ یہ علم رکھتا تھا لہٰذا اس معنی کی طرف اللہ سبحانہ نے اپنے اس کلام کے ذریعے اشارہ کیا ہے کہ میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔انسانِ کامل تمام اسماء کا مظہرِ تام ہے جبکہ فرشتے بعض اسماء کے مظہر ہیں اس لیے وہ دیگر اسماء کے مظاہر سے بے خبر تھے ، بالکل اسی طرح جیسے انسانی نفس کے پاس مختلف قوتیں ہیں۔ قوتِ بصارت کو قوتِ سماعت کی خبر نہیں ہے اور قوتِ سماعت کو قوتِ بصارت کی خبر نہیں کیونکہ یہ سب ایک جہت اور ایک پہلو رکھنے والی قوتیں ہیں ، مثلاً قوتِ بصارت صرف دیکھنے کا کام کر سکتی ہے اور قوتِ سماعت صرف سن سکتی ہے ۔ لیکن ان قُوَی کے مقابلے میں نفس سب قوتوں سے باخبر ہے اور سب کے عمل کو اپنی طرف نسبت دیتی ہے۔ اسی طرح فرشتے اس کائنات میں قُوَی کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ آدمؑ اس جہان میں نفس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لیے فرشتے دیگر قوتوں اور امور سے واقف نہیں تھے لیکن آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے جامعیت عنایت کی ہے۔

فرشتوں کو انسان کے قتل و غارت اور فساد کی خبر شاید اس وجہ سے ہو کہ انہوں نے انسانوں کے مشابہ زمین پر کسی خلقت کا مشاہدہ کیا ہو جس کی وجہ سے انہوں نے حیرانگی کے ساتھ اعتراضیہ سوال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی دور میں انسانِ کامل کے بغیر خلقت کو ظاہر نہیں کیا ۔ اگر فرشتے انسان کامل پر نگاہ رکھتے تو وہ اعتراض نہ کرتے حتی ابلیس بھی اگر انسان کے خاکی پیکر کی بجائے نورانی قلب پر نگاہ کرتا تو تکبر نہ کرتا جیساکہ بعض روایات میں اس طرف اشارہ ہوا ہے۔ آج کے دور میں بھی اسی طرح ہے کہ ہم انسان کے بہت سے گناہوں اور تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن انسانِ کامل کی بلندی اور کمال کو نہیں دیکھتے جبکہ اللہ سبحانہ نے اسی انسانِ کامل کو سامنے لانے اور نشوونما دے کر اس کے کمالات کو جلوہ کرنے کے لیے خلقت کو خلق فرمایا ہے۔ پس انسانِ کامل یعنی حجتِ الہٰی پر نگاہ رکھیں اور انہی کو سببِ خلقت قرار دیں تو حکمتِ الہٰی کے سامنے سرتسلیم خم رکھیں گے اور اعتراضیہ شکوہ شکایت سے بچ جائیں گے۔شیخ طوسیؒ نے کتاب المصباح میں دوسرے نائب جناب محمد بن عثمان بن سعید عمریؓ کے طریق سے امام زمانؑ سے ایک دعا نقل کی ہے جو ایک رجب اور پورے رجب پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس دعا میں امام زمانؑ بارگاہِ الہٰی میں دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:> لَا فَرْقَ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا إِلَّا أَنَّهُمْ‏ عِبَادُكَ‏ وَخَلْقُكَ فَتْقُهَا وَرَتْقُهَا بِيَدِكَ بَدْؤُهَا مِنْكَ وَعَوْدُهَا إِلَيْك‏؛ بارِ الہٰا ! تیرے اور ان ولاۃِ امر (آئمہ اطہارؑ)  کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ ولاۃِ امر (آئمہ اطہارؑ) تیرے عبد اور تیری مخلوق ہیں اور ان کا فتق و رتق تیرے قبضہ قدرت میں ہے اور ان کا آغاز بھی تیری جانب ست ہے اور ان کا لوٹنا بھی تیری ہی طرف ہے <.[28]طوسی، محمد بن حسن، المصباح المتہجد، ج ۱، ص ۸۰۳۔انسانِ کامل کی یہ عظمت اور بلندی فرشتوں کے علم میں نہیں تھی۔قیصری بیان کرتے ہیں کہ ہمارے شیخ یعنی صدر الدین قونوی مفتاح الغیب میں بیان کرتے ہیں کہ انسان کامل کی علامت یہ ہے کہ وہ زندہ کرنے اور موت دینے اور اس طرح کے دیگر امور کو انجام دینے پر قادر ہوتا ہے۔

لفظِ صورت کی تحقیق :

اہل ظاہر کے نزدیک لفظِ صورت کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر مجاز ہے کیونکہ لفظِ صورت کا حقیقی معنی میں محسوسات کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ معقولات پر صورت کا اطلاق مجاز ہے۔جبکہ اہل حقیقت یعنی عرفاء کی نظر میں لفظِ صورت کا اطلاق اللہ سبحانہ پر حقیقی معنی میں ہے نہ کہ مجازہےکیونکہ تمام جہان حضرتِ الہٰیہ کی تفصیلی صورت ہے اور انسانِ کامل جمعی طور پر صورتِ الہٰی ہے، جیساکہ شیعہ و سنی کتب میں یہ حدیث وارد ہوئی ہےکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں : اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر خلق فرمایا ہے: عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحْرٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْخَزَّازِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَمَّا يَرْوُونَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ‏ عَلَى‏ صُورَتِهِ،‏ فَقَالَ: هِيَ صُورَةٌ مُحْدَثَةٌ مَخْلُوقَةٌ وَاصْطَفَاهَا اللَّهُ وَاخْتَارَهَا عَلَى سَائِرِ الصُّوَرِ الْمُخْتَلِفَةِ، فَأَضَافَهَا إِلَى نَفْسِهِ كَمَا أَضَافَ الْكَعْبَةَ إِلَى نَفْسِهِ وَالرُّوحَ إِلَى نَفْسِهِ، فَقَالَ‏: بَيْتِيَ‏، { وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوح }. [29]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۲۸، حدیث ۴/۳۴۹۔

ملائکہ کے اعتراض میں اخلاقی سبق:

شارح سورہ بقرہ آیت ۳۰ سے اخلاقی درس لیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نیزآیت کریمہ کے اس حصہ کہ ’’میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے ‘‘ سے ایک اخلاقی سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ اپنے سے بلند ہستی کی عزت و احترام کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کیونکہ فرشتوں نے بارگاہِ الہٰی اور فعل الہٰی کے مقابلے میں جسارت کی اور انانیت و خود نمائی کی جسے اللہ سبحانہ نہ ناپسند فرمایا اور اس جملہ کے ذریعے فرشتوں کی مذمت و زجر و توبیخ کی ہے۔ ملائکہ خود نمائی کرنے کی وجہ سے قابل سرزنش قرار پائے۔ عرفاء نے اس مثال سے مطلب سمجھاتے ہیں کہ آنکھ کا ڈیلا تمام جہان کا نظارہ کرتا ہے لیکن خود کو نہیں دیکھتا ، اس لیے آنکھ کے ڈیلے کی طرف زندگی بسر کرنی چاہیے کہ خود جہان کی سیر کرے اور مشاہدہ کرے لیکن اپنے آپ پر نگاہ نہ رکھے ۔ آقای استودہ درس میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ نے گویا کہ ان کے اعتراض پر فرمایا کہ مجھے آدم چاہیے نہ کہ مقدس چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا تذکرہ کر کے ہمیں درس دیا ہے کہ خود نمائی نہ کرو اور تواضع اختیار کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرو۔سالک کے لیے ضروری ہے کہ فناء کے مرحلہ تک پہنچے اور اس مرحلہ میں سالک اپنے آپ کو اصلاً ملاحظہ نہیں کرتا۔ فرشتوں نے اپنے کمال کو تو دیکھا لیکن جناب آدمؑ کے کمالات پر توجہ نہیں کی۔ سالک اور منزلِ فناء پر پہنچا ہوا اس وصف سے متصف نہیں ہوتا ۔ جناب شارح قیصری اشعار میں بیان کرتے ہیں کہ مور کی طرف اپنے آپ سے عشق مت کرو کیونکہ مور اپنے بالاتر کامل خلقت والوں سے ملامت کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ شیخ اکبر نے اس مطلب کو بیان کرتے ہوئے ’’اُتِیَ‘‘ مجہول کے صیغہ کے ساتھ ذکر کیا ہے جوکہ حرفِ جرّ ’’عَلَی‘‘ سے بھی متعدی ہوتا ہے اور حرف جر باء سے بھی متعدی ہوتا ہے۔ البتہ ’’اُتِیَ‘‘ جب بھی حرف جر ’’عَلَی‘‘ سے متعدی ہو تو مکارہ اور مذمت کے معنی میں آتا ہے۔ شیخ اکبر کا مقصود یہ ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں موردِ توبیخ و مذمت قرار پائے ہیں ، گویا کہ وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ غور کرو کہ ہلاک ہونے والا کہاں سے ہلاکت سے دوچار ہوا ہے۔

انسانِ کامل کا مقامِ ملائکہ سے بالاتر ہونا:

بہشت درجات کی حامل ہے اور جہنم دَرَکات کی حامل ہے۔ بہشت میں جو نیچلے درجہ میں ہیں وہ جب اپنے سے بلند درجہ والوں کو دیکھیں گے تو حسرت بھریں گے تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں کہا جاتا ہے کہ بہشت میں کسی قسم کا غم و حزن اور حسرت نہیں ہے؟! اس کے جواب میں آیت اللہ بہجت کہتے ہیں کہ اس مثال سے سمجھیے کہ دو شخص ہیں جن میں سے ایک ۶ فٹ ہے اور ایک ۳ فٹ ۔ دونوں کو لباس دیا جائے تو ۳ فٹ انسان کسی صورت راضی نہیں ہو گا کہ اسے ۶ فٹ انسان کے سائز کا لباس دیا جائے۔ اسی طرح بہشت میں نیچلے درجہ میں موجود بہشتی اپنی زندگی اور جو نعمات لیے ہوئے ہیں اس پر قانع اور راضی ہوں گے۔

شیخ اکبر کے کلام میں وقف کا لفظ ’’مع‘‘ کے ساتھ آیا ہے۔ اس کا مطلب شعور اور علم و اطلاع نہیں ہے کیونکہ جب وقف ’’عَلَی‘‘ سے متعدی ہو تو اس وقت علم اور شعور کا معنی دیتا ہے۔ جبکہ یہاں وَقَفَ ’’مع‘‘ کے ساتھ آ رہا ہے جس سے مقصود ثابت ہے۔ یعنی فرشتے اپنی نشاءت اور وجود کے اعتبار سے جو لینے کا حق اور تقاضا رکھتے تھے اس پر قانع نہیں ہوئے اور نہ اپنے مرتبہِ وجود کے اعتبار سے جو انہیں عنایت ہوا اس پر قانع نہیں ہوئے۔ کیونکہ فرشتے اپنی روحانی نشاءت کے اعتبار سے تسبیح ، تہلیل اور جو ان کے لائق کمالات تھے کے حقدار تھے لیکن انہوں نے تجاوز کیا اور جو انہیں عنایت کیا گیا تھا اس سے زیادہ کو طلب کرنے لگے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ انسانِ کامل کے علاوہ جتنی خلقت ہے وہ ہر نوعیت کا کمال انسانِ کامل کی برکت سے وصول کرتے ہیں۔ ہر آن اور ہر لحظہ فیضِ وجود انسانِ کامل کے توسط سے پہنچ رہا ہے۔ تمام اسماءِ الہٰی اسمِ اللہ کے ماتحت ہیں اور اسمِ اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں۔ لہٰذا تمام اسماء کے مظاہر اسمِ اللہ کے مظہر کے ماتحت ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اسمِ اللہ کا مظہر انسان کامل ہے۔انسان کامل دو نشاءتوں کا جامع ہے جبکہ ملائکہ صرف روحانی نشاءت سے ہمکنار ہیں۔

فرشتوں اور ملائکہ کی اقسام:

تسبیح و تقدیس میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ تسبیح اعم اور تقدیس اخص ہے۔ ہر جگہ جہاں تقدیس ہے وہاں تسبیح ہے کیونکہ تقدیس کا مطلب ذاتِ الہٰی اور اس کےان کمالات سے عیوب و نقائص کو منزہ کرنا ہے جو کمالات و اصاوفِ الہٰی اکوان و عوالم سے متعلق ہیں۔ جبکہ تسبیح کا مطلب  اللہ تعالیٰ کی ذات کو تمام امکان و حدوث یعنی عیوب و نقائص سے منزہ قرار دینا ہے۔ تسبیح میں اوصاف سے تنزیہ کا اظہار نہیں ہےجبکہ تقدیس میں ذات  و اتصاف ہر دوسے تنزیہ کا اقرار ہے۔ یہاں تقدیس میں اللہ تعالیٰ کے تمام اوصاف و کمالات کو عیوب سے منزہ قرار نہیں دیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کثیر اوصاف و کمالات ہیں جن میں سے بعض ایسے اوصاف ہیں جو عوالم و اَسے تعلق رکھتے ہیں تقدیس میں ان اوصاف سے تنزیہ کی جاتی ہے۔ پس تقدیس میں ذاتِ الہٰی اور اوصاف و کمالاتِ مقید بہ عوالم سے تنزید کی جاتی ہے۔ فرشتوں نے ادعاء کیا :{َ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَك‏ }. [30]البقرۃ: ۳۰۔فرشتوں کی اقسام ہیں :
۱۔ ملائکہِ ارضی:ان کو ملائکہِ تنزیہی بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بجا لاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ملائکہِ تشبیہ آتے ہیں۔ ملائکہ ارضی چونکہ یک جہت رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے ناقص تھے اس لیے ان کے علم میں حضرت آدمؑ یعنی انسان کامل کی استعداد اور صلاحیت اجاگر نہیں ہوئی اور وہ اعتراض کر بیٹھے۔ زمینی ملائکہ، جنّات اور شیاطین پر ظلمت غالب رہتی ہےاور ان کی یہی نشاءت حجاب بن جاتی ہے۔ عالمِ جبروت اور عالمِ ملکوت کے ملائکہ ان سے بلند ملائکہ شمار ہوتے ہیں۔آیت کریمہ میں فرشتوں سے مراد ملائکہِ ارضی ہیں تو ’’ال‘‘ عہدی ہو گا۔
۲۔ ملائکہِ سماوی:  اس سے مراد بالا مرتبہ پر فائز فرشتے ہیں، جیسے جناب جبریلؑ و عزرائیل ؑ وغیرہ اور عرش کے گرد موجود فرشتے۔عالم جبروت اور عالم ملکوت کے ملائکہ اسی قبیل سے ہیں جوکہ انسان کامل کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کی استعداد و صلاحیت اورانسان کامل کی  اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلندمنزلت کی معرفت رکھتے ہیں، اگرچے یہ فرشتے بھی انسان کامل کی کما ھی معرفت نہیں رکھتے ۔

پس جن فرشتوں نے اللہ سبحانہ پر اعتراض کیا وہ ملائکہِ ارضی تھے جوکہ نیچلی مرتبہ پر فائز ملائکہ تھے جس پر سیاقِ آیت دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر خلیفہ قرار دینے کا فرمایا جس کو زمینی فرشتوں نے زمین سے تعلق رکھنے کی وجہ سے خاکی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اعتراض کیا۔ ایسا اس لیے بھی ممکن ہے کیونکہ ملائکہ سے مراد قُوَیِ جہان ہے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تدبیر فرما رہا ہے۔ان کم مرتبہ کے حامل فرشتوں نے اپنی ذوات حضرتِ حق تعالیٰ کی جس عبادت کا تقاضا کرتی تھی اس عبادت پر اکتفا نہیں کیا کیونکہ یہ فرشتے بعض اسماء کے مظہر تھے جس کے مطابق ایک خاص مرتبہ کی عبادت اقتضاء کرتی تھی اور اس حد تک فرشتوں کو رہنا ضروری تھا۔ لیکن وہ اپنی اس حد سے آگے تجاوز کر گئے اور اللہ تعالیٰ پر معترض ہوئے۔ ہر کسی کی اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنی ذات کے مطابق ہے۔ اس کی ذات جیسا تقاضا کرتی ہے اسی حد تک وہ عبادت انجام دیتا ہے۔ کنہِ معرفت الہٰی اصلاًممکن نہیں ہے ۔ پس ذوات کے مختلف مراتب کے مطابق نوعِ عبادت اور نوعِ معرفت ہے۔عبادت معرفت پر موقوف ہے ، لہٰذا جتنی معرفت اتنی ہی عبادت ہے۔ قرآن کریم کی آیت { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُون‏ }.[31]الذاریات: ۵۶۔ میں لِیَعبُدُونِ  سے مراد  یعرفون  لیا ہے۔ [32]میر داماد، محمد باقر، التعلیقۃ علی اصول الکافی، ص ۲۱۔ ان فرشتوں کی معرفت تمام اسماء کی نہیں تھی اس لیے انہیں چاہیے تھا کہ جن بعض اسماء کی معرفت وہ رکھتے ہیں انہی اسماء کی معرفت کے مطابق عبادت انجام دیتے کیونکہ یہی ان کی ذوات کا تقاضا تھا لیکن انہوں نے تمام اسماءِ الہٰی کی معرفت میں اپنی معرفت کی حد سے تجاوز کیا۔ عبادت سے پہلے معبود کی اس اعتبار سے معرفت ضروری ہے کہ وہ معبود ربّ اور مالک ہے جو کہ مستحقِ عبادت ہے۔ عبد جب یہ جان لیتا ہے کہ وہ مربوب اور مملوک ہے تو مستحقِ عبودیت قرار پاتا ہے۔ بعض کے مطابق فطرس اور دردائیل کا شمار بھی فرشتگانِ قُوَی میں ہوتا تھا جن سے اعتراض یا خلافِ اطاعت عمل سرزد ہو سکتا تھا۔ اگرچے بعض نے فطرس کو اصطلاحی فرشتہ قبول نہیں کیا۔ دردائیل کا تذکرہ کمال الدین کی روایت میں ہوا ہے جبکہ فطرس کا تذکرہ متعدد احادیث میں ہوا ہے۔

ملائکہِ بالا اور بلند مرتبت نے اعتراض نہیں کیا۔ بلند مرتبہ فرشتے اللہ تعالیٰ پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ ان عالی اور بلند فرشتوں کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{ عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُون‏ }. [33]تحريم: ۶۔ اسی طرح ان بلند مرتبہِ فرشتوں کے بارے میں ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:{ يَخافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُون‏ ‏ }. [34]نحل: ۵۰۔ فرشتوں کے درمیان ایک گروہِ ملائکہ وہ ہیں جو ’’عالین‘‘ ہے جنہیں آدمؑ کو سجدہ کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ یہ وہ فرشتے ہیں جو عظمتِ الہٰی و عظمتِ ربوبی میں حیران و سرگردان ہیں اور اپنے آپ سے بھی بے خبر ہیں جس وجہ سے سجدہ کا حکم انہیں نہیں دیا گیا۔ یہ اس قدر عظمتِ الہٰی میں متحیر ہیں کہ اپنی ذات سے بے خبر ہیں اور سجدہ شعوری کیفیت میں ممکن ہے اس لیے ان فرشتوں سے حکمِ سجود برطرف کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو اسی طرح سے خلق فرمایا ہے۔ ان ملائکہ کو ملائکہِ عالین کہا جاتا ہے جس کا تذکرہ سورہ ص میں آیا ہے:{ قالَ يا إِبْليسُ ما مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِما خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعالين‏ }. [35]ص: ۷۵۔ملائکہِ مہیمن اس قدر ذاتِ الہٰی میں غرق ہیں کہ انہیں نہ عالم کی خبر ہے نہ آدمؑ کی ۔ انہیں اصلاً آدمؑ کی خبر ہی نہیں ہے اس لیے حکمِ سجدہ ان کے لیے نہیں تھا۔(از استاد یزدان پناہ ، درس تفسیر ، سورہ بقرہ آیت ۳۰) ملائکہِ مہیمن دو طرح کے ہیں : ۱۔ وہ ملائکہ جو ذاتِ الہٰی میں غرق ہیں اور آدمؑ و عالم سے بے خبر ہیں ، ۲۔ ملائکہِ مقربین ، جیسے جناب جبریلؑ و عزرایل ؑ وغیرہ۔ آیت کریمہ میں ’’عالین‘‘ سے مراد ہر دو قسم کے ملائکہِ میہمن مراد ہیں۔ملائکہِ مقربین عالم و آدمؑ سے باخبر ہیں اس لیے بعض کہتے ہیں کہ انہیں بھی حکمِ سجدہ شامل تھا جبکہ بعض اسی آیت کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ عالین سے مراد یہی ملائکہِ مقربین تھے جو اس حکم ِسجدہ سے خارج تھے۔

تنبیہ:

انسان جس طرح کمالات رکھتا ہے اسی طرح نقائص سے بھی وابستہ ہے۔ فرشتوں نے انسان کے نقائص پر توجہ مرکوز کی اور اس کے خاکی رخ کو ملاحظہ کیا جبکہ انسان کے کمالات سے نا آشنا تھے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ہمکلام ہوا اور اللہ سبحانہ نےفرشتوں سے گفتگو فرمائی۔ سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اس کلام کی کیفیت اور نوعیت کیا تھی؟ اس کے جواب میں عرض کرتے ہیں کہ عوالم کے اختلاف سے کلام کی کیفیت ونوعیت مختلف ہو جاتی ہے۔ عالم ناسوت (مادہ) میں حروف و معانی کی صورت میں کلام ہوتا ہے جیساکہ ہم حسّ کرتے ہیں۔ عالم مثال میں اسی عالمِ حسی کے مشابہ کلام واقع ہوتا ہے جبکہ عالم عقل چونکہ تجرّدِ تام ہوتا ہے اس لیے اس عالم میں کلامِ نفسی ہوتا ہے جو القاء معنی سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے قلوب میں معنی کو القاء کیا ۔ فرشتوں نے اس کے مقابلے میں اپنی تسبیح و تقدیس کرنے کا دعوی کیا اور انسان کی طرف خون بہانے اور فساد کی نسبت دیتے ہوئے اعتراض کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ فرشتوں کو خود نمائی کرنے کا حق حاصل نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تسبیح و تقدیس کی قوت و توفیق عنایت فرمائی۔ خود ستائی اور خود نمائی شرکِ خفی میں سے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک لحظہ کے لیے اپنی نظر کرم ہٹأ لے تو تمام چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ لہٰذا ملائکہ کی اس مقام پر دو مشکل تھی :
۱۔ ایک تو انسان کامل سے آشنا نہیں تھے۔
۲۔ انہوں نے خود ستائی ۔

یہ ملائکہ ’’ملائکہِ تنزیہی‘‘ تھے اس لیے انہوں نے اعتراض کیا ۔ کیونکہ تنزیہ غیرت اور تشبیہ حیرت کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ ملائکہِ تنزیہی اپنے تسبیح و تقدیس کے دعویدار تھے اور انسان کے خلیفہ بنائے جانے پر غیرت کی وجہ سے اعتراض کر بیٹھے۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۴، ص ،۱۹۹، باب ۱۲۔
2 قیصری، شرح فصوص الحکم، ص ۳۲۶۔
3 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۴، ص ۱۹۹۔
4 الحجر: ۲۹۔
5 الحجر: ۲۱۔
6 ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۹۸، حدیث: ۱۳۸۔
7 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱، ص ۹۷۔
8 مجذوب، محمد ، الہدایا لشیعۃ آئمۃ الھدی، ص ۱۱۴.فیصری، داود،شرح فصوص الحکم، ص ۳۳۶۔
9 انعام: ۱۴۹۔
10 البقرۃ: ۱۵۶۔
11, 24 سجدہ: ۵۔
12 زلزالہ: ۱-۲۔
13 احزاب: ۷۲۔
14 بقرة: ۳۱۔
15 آل عمران: ۳۰۔
16 رحمن: ۲۹۔
17 حر عاملی، محمد بن حسن ، الجواہر السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ، ص ۷۱۰۔
18 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۵، ص ۲۴۔
19 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۴، ص ۷۴۔
20 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۵، ص ۲۲۔
21 ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، ص ۱۷۳۔
22 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۶۵۔
23 کلینی ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۴۳۷، باب ۵۔
25 رحمن: ۱۹-۲۰۔
26 شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۲ ، ص ۶۱۵، زیارت جامعہ۔
27 بقرہ: ۳۰۔
28 طوسی، محمد بن حسن، المصباح المتہجد، ج ۱، ص ۸۰۳۔
29 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۲۸، حدیث ۴/۳۴۹۔
30 البقرۃ: ۳۰۔
31 الذاریات: ۵۶۔
32 میر داماد، محمد باقر، التعلیقۃ علی اصول الکافی، ص ۲۱۔
33 تحريم: ۶۔
34 نحل: ۵۰۔
35 ص: ۷۵۔
Views: 53

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: الحاد ایک باطل نظریہ