loading

قلب کے قرآنی و عرفانی معنی

تحریر: سید محمد حسن رضوی
01/16/2024

کلمہِ قلب کثرت سے قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے ۔اردو اور فارسی زبان میں اسے دِ ل کہا جاتا ہے۔ عموماً اس سے مراد انسان جسم کا وہ عضو مراد لیا جاتا ہے جو خون کی گردش کا کام کرتا ہے اور علم طب میں اس کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ ذیل میں اس کے لغوی و اصطلاحی معانی کو ملاحظہ کرتے ہیں :

قلب کے لغوی معنی :

قلب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مختلف معانی کتبِ لغت میں وارد ہوئے ہیں جن میں مشترک معنی متغیر و تبدیل ہونے کے ہیں۔ ذیل میں اس کے اہم لغوی معنی پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ معجم مقاییس اللغۃ: ابن فارس لکھتے ہیں کہ اس لفظ کے دو اصلی صحیح معنی ہیں: ۱) وہ جو کسی شیء کے خالص اور اس کی شرافت و بلندی پر دلالت کرے، ۲) کسی چیز کا ایک طرف سے دوسری طرف پلٹنا۔ انسانی قلب کو اس لیے قلب کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں شیء جا کر خالص ہو جاتی ہے [1]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۱۷۔
۲۔ کتاب العین: خلیل بن احمد فراہیدی تحریر کرتے ہیں کہ قلب انسان عضو فؤاد کا ایک لوتھڑا ہے جو رگ سے جڑا ہوتا ہے۔ قلب یعنی ایک شیء کو اس کی دوسری دوسری طرف موڑ دینا ، چیز کو پھیر دینا ، شیء کا خالص ہونا جس میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ ہو قلب کہلاتا ہے۔ [2]فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۵، ص ۱۷۱۔
۳۔ المفردات: راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں کہ شیء کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دینا یا تبدیل کر دینا قلب کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں قلب کہہ کر ارواح، علم و فہم  اور ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا مراد لیا گیا ہے۔ [3]راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن ، ص ۶۸۱۔
۴۔ التحقیق فی کلمات القرآن الکریم: علامہ حسن مصطفوی تحریر کرتے ہیں کہ اس لفظ کا ایک اصلی معنی مطلق تبدیلی واقع ہونا ہے چاہے وہ تحوُّل و تبدُّل مادی ہو یا معنوی، مکانی یا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا ہو، صفات میں ہو یا موضوعات میں ۔ قرآن کریم نے اس لفظ کو مادی اور معنوی ہر دو اعتبار سے استعمال کیا ہے۔ جہاں تک مادی قلب کا تعلق ہے تو وہ صنوبری شکل کا ایک عضو ہے جو سینے کی بائیں جانب ہوتا ہے اور بدن کے تمام اعضاء کو خون فراہم کرتا ہے ۔ مادی قلب کے اجزاء میں شریان شامل ہیں اور اعضاء سے یہ موٹی رگوں کے ذریعے جڑا ہے ۔ مادی قلب ہر وقت سکڑتا اور پھیلتا رہتا ہے اور گردش و تبدیلی کی حالت میں رہتا ہے۔ انسانی بدن کا کوئی عضو اس کی طرح مسلسل تبدیل نہیں ہوتا رہتا اس لیے اس کو قلب کہا جاتا ہے۔ اسی کے ذریعے سے حیوان میں حرکت، حرارت اور زندگی ہے ۔ قلب بدن کی مملکت کا رئیس شمار ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روحِ انسانی کا تعلق ہے اور اسی پر انسانی حیات موقوف ہوتی ہے۔ [4]مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ۹، ص ۳۰۴۔

قلب کے قرآنی معنی:

قرآن کریم میں قلب متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے۔ بعض آیات میں قلب بمعنی عقل ، بعض انسانی حقیقت اور بعض کے مطابق انسان میں اس قوت کو قلب کہا گیا ہے جو حقائق کو درک کرتی ہے اور تفقہ و تدبر کے عمل کو انجام دیتی ہے۔ اسی طرح انسان کے نفس پر طاری ہونے والی حالات کے مطابق قلب کے عنوان سے قرآن کریم نے انسان کی حالت کو بیان کیا ہے۔

 

منابع:

منابع:
1 ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۱۷۔
2 فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۵، ص ۱۷۱۔
3 راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن ، ص ۶۸۱۔
4 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ۹، ص ۳۰۴۔
Views: 13