loading

{ سلسلہ سوال جوابات }

جناب فاطمہؑ  اور حضرت عائشہ کے اختلاف میں فرق
جوابات: مدرس سید محمد حسن رضوی

سوال:وحدت کا ضروری ہونا اور اختلاف کو ختم کرنے پر جو زور دیا جاتا ہے اور تنقید کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ نے خلیفہِ برحق امام علیؑ کی بیعت نہیں کی اور ان کے خلاف خروج کیا اور امت میں اختلاف برپا کیا تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب فاطمہؑ نے بھی تو حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی اور ان سے شدید اختلاف کیا تو یہاں کیوں تنقید قابل قبول نہیں ہے؟
🌗 تاریخ: 25-2-2024
🔹 نام: نا معلوم
🔸 ملک/ شہر: فن لینڈ
🔻 پروگرام: درس سیاستِ امام علیؑ از نہج البلاغہ

جواب:وحدت اور اختلاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وحدت اس وقت قابل تعریف و قابل حمایت ہے جب اس کے ذریعے سے عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام، ظلم و ستم کا خاتمہ ، دینِ الہٰی کا تحفظ ، حق کی بالا دستی اور دشمن کی سازش اور اس کے تسلط کو ختم کیا جا سکے۔ لیکن اگر وحدت اختیار کرنے کا نتیجہ دین کی مخالفت، ظلم و ستم کی حمایت، امن و امان کا خاتمہ اور باطل کی تقویت نکلے تو لازم ہے کہ وحدت کو توڑا جائے اور اختلاف کو برپا کیا جائے۔ پس دین اور حق و عدل کی خاطر وحدت صحیح ہے اور ظلم و گمراہی اور باطل سے اختلاف رکھنا واجب ہے۔ یہ نکات جب واضح ہو گئے تو آئیے سیدۃ النساء صدیقہِ طاہرہ جناب فاطمہؑ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کے عمل میں واضح فرق کو ملاحظہ کریں:

پہلا فرق۔ اختلاف کے حق کا موجود ہونا:

پہلا فرق یہ ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس اختلاف کا حق موجود تھا جبکہ حضرت عائشہ کے پاس بالاتفاق اختلاف کا حق موجود نہیں تھا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد امت کے درمیان آنحضرت ﷺکے خلیفہ و جانشین کے مسئلہ پر اختلاف رونما ہو گیا۔ امام علیؑ خلافت و امامت کے حقدار تھے اور جناب سیدہؑ دیگر بعض اکابر صحابہ سمیت امام علیؑ کے ایمان، علم ، شجاعت و تقوی کی بنیاد پر اور رسول اللہؐ کے واضح اعلانات اور نصوص کی وجہ خلیفہ برحق اور امام مسلمین قرار دیتی تھیں جبکہ دوسری طرف سقیفہ بنی ساعدہ میں آنحضرتؐ کے وقتِ جنازہ قبائلی اساس پر کچھ مہاجرین و انصار نے حضرت ابو بکر کو خلیفہ بنا لیا۔ پس رسول اللہؐ کی امام علیؑ کی خلافت کے بارے میں متواتر احادیث کے باوجود چونکہ معاشرہ میں قبولیت کے اعتبار سے خلیفہ کا برسر اقتدار آنا ظاہر نہیں ہوا تھا اس لیے جناب سیدہؑ اختلاف رکھ سکتی تھیں لیکن ۳۵ ھ کو امام علیؑ کی اکثریت امت نے اور اکابر صحابہ و تابعین و جماعتِ اہل حل و عقد نے قبول کر لیا تھا اس لیے حضرت عائشہ اختلاف کا حق نہیں رکھتی تھیں۔
پس حضرت عائشہ کے دور میں بالاتفاق تمام مسلمانوں کا ایک خلیفہ آغاز ہی سے موجود تھا اور امام علیؑ کی خلافت کے  مدمقابل کوئی بھی شخص خلیفہ ہونے کا دعویدار نہیں تھا کہ کہا جاتا کہ دو افراد خلیفہ بننے کے دعویدار تھے اور حضرت عائشہ نے اپنے دلائل کی بنیاد پر فلاں کو اپنا امیرا ور خلیفہ قبول کیا ہے !! حتی شام کے باغیوں نے بھی اس وقت الگ سے معاویہ بن ابی سفیان کو خلیفہ نامزد نہیں کیا بلکہ خلیفہ سوم کے خون کے بدلہ لینے کے مسائل پر اختلاف کیا تھا۔  ایسی صورت میں لازم تھا کہ حضرت عائشہ امام علیؑ کی خلافت کو قبول کرتیں اور ان سے کسی موقف میں اختلاف تھا تو اس کو اپنی حد تک رکھتیں۔ اس کے برعکس جناب فاطمہؑ کی حیاتِ طیبہ میں خلافت کے مسئلہ میں چند دعویدار تھے جن میں نمایاں امام علیؑ اور سقیفہ بنی ساعدہ میں چند مہاجرین و انصار کے تائید یافتہ حضرت ابو بکر خلیفہ ہونے کے دعویدار تھے۔ لہٰذا جناب فاطمہؑ نے خلافت میں دو شخصیات کے خلیفہ ہونے کے اختلاف میں امام علیؑ کی حمایت کی۔

دوسرا فرق۔ حضرت عائشہ کا بیعت کے بغیر ہونا

شیعہ اور سنی کتبِ احادیث میں صحیح اور معتبر اسانید کے ساتھ احادیث وارد ہوئی ہیں جن کے مطابق سلطان اور امیر کی اطاعت اور بیعت کے بغیر موت جاہلیت کی موت ہے اور جو جماعتِ مسلمین سے ایک ہتھیلی بھی پیچھے ہٹا اور مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ بخاری و مسلم اہل سنت کی نظر میں صحیح ترین کتبِ احادیث ہیں جن کی اسانید کی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ انہی دو کتب سے بعض احادیث پیش کی جاتی ہیں جس سے جناب فاطمہؑ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ میں اختلاف کی نوعیت کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔
صحیح مسلم میں امام مسلم نے روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے جس کی سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں : { سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ: مَنْ خَلَعَ‏ يَداً مِنْ‏ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة؛رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: جس نے امیر کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا وہ روزِ قیامت اس اللہ سے حالت میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی اپنے اس عملِ بد پر کوئی دلیل و حجت نہیں ہو گی ، اور جو شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس کی گردن میں کسی بیعت کا قلادہ نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا }.[1]نیشاپوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج ۳، ص ۱۴۷۸، حدیث: ۵۸/۱۸۵۱۔
صحیح بخاری میں امام بخاری نے روایت نقل کی ہے :  { قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ [وَآلِهِ‏]: مَنْ كَرِهَ‏ مِنْ‏ أَمِيرِهِ‏ شَيْئاً فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنْ طَاعَةِ السُّلْطَانِ شِبْراً مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً؛ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: کسی شخص کو اپنے امیر سے کسی قسم کی ناگواری کا احساس ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان کی اطاعت سے ایک انچ باہر نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا  }.[2]بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج ۹، ص ۴۷، حدیث: ۷۰۵۳۔
صحیح بخاری میں مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہونے کے بارے میں اس طرح سے حدیث وارد ہوئی ہے:  { عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ‏ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَمَاتَ‏ فَمِيتَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ؛ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: کوئی شخص اپنے امیر میں کسی ایسی چیز دیکھتا ہے جو اسے ناپسند اور ناگوار لگی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر صبر کرے، کیونکہ خو شخص جماعت سے ایک انچ بھی جدا ہوا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی }.[3]بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج ۹، ص ۴۷، حدیث: ۷۰۵۴۔
ان تین احادیث مبارکہ سے سیدۃ النساء العالمین ؑ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کا اپنے دور میں خلیفہ کے بارے میں اختلاف کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔ جب جناب فاطمہؑ نے حضرت ابو بکر کی بیعت نہیں کی اور ان سے ناراضگی اختیار کی جیساکہ صحیح بخاری میں آیا ہے تو اس وقت جناب فاطمہؑ امام علیؑ کی بیعت میں تھیں اور انہیں اپنا برحق خلیفہ و اطاعت گزار امام مانتی تھیں ۔ لہٰذا جناب فاطمہؑ امیر المؤمنینؑ کی بیعت کے ساتھ اس دن سے رخصت ہوئیں۔ لیکن ہم جب حضرت عائشہ کی طرف آئیں تو امام علیؑ کے دورِ خلافت میں حضرت عائشہ ان تین احادیث کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں کیونکہ :
۱۔ حضرت عائشہ نے تاوفات امام علیؑ کی بیعت نہیں کی ۔ پس حدیث میں بیعت کا قلادہ گردن میں ہونا ضروری تھا لیکن حضرت عائشہ بدونِ خلیفہ و سلطان کے دنیا سے رخصت ہوئیں۔ یہی مشکل اس وقت تمام اہل سنت کی ہے کہ وہ بدونِ امیر و خلیفہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی موت بدونِ بیعت جاہلیت کی موت ہو سکتی ہے جبکہ مکتبِ تشیع امام مہدیؑ کی بیعت و اطاعت میں ہیں جس کی بناء پر عصرِ حاضر میں واحد مکتب ہے جو ان مجموعہِ احادیث پر کاملاً عمل پیرا ہے۔
۲۔ حدیث کے مطابق اگر خلیفہ و امیر کے کسی فیصلہ یا عمل پر ناگواری کا احساس ہو تو صبر کرنا چاہیے لیکن حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کے مسئلہ میں خلیفہِ وقت امام علیؑ کے ساتھ ناگواری میں صبر نہیں کیا بلکہ جنگ مسلط کر دی۔
۳۔ حدیث کے مطابق جماعتِ مسلمین سے ایک انچ نہ ہٹنے کا حکم ہے لیکن حضرت عائشہ امام علیؑ کے ساتھ اختلاف کر کے سوادِ اعظم و امتِ اسلامیہ کی جماعت سے پیچھے ہٹ گئیں اور امتِ اسلامیہ پر جنگ کو مسلط کیا۔

پس ان تین پہلوؤں میں جناب فاطمہؑ حضرت عائشہ سے کاملاً جدا ہیں کیونکہ جناب زہراءؑ کا امام و خلیفہ امیر المؤمنینؑ تھے، امام علیؑ کے بطور ِ خلیفہ ہر ناگواری کا اگر بالفرض انہیں احساس ہوتا تو اس پر صبر کرنے والی تھیں اور تیسرا جنابِ زہراءؑ نے اپنی تمام زندگی میں مکہ سے باہر نکل کر کسی شہر میں جماعتِ مسلمین کے خلاف کسی قسم کا لشکر ترتیب نہیں دیا اور نہ امتِ اسلامیہ پر کسی قسم کی جنگ کو مسلط کیا بلکہ اہل اسلام کی جماعت کے درمیان اپنے حقِ اختلاف کے ہمراہ زندگی بسر کی ۔اگرچے قرآن کریم کی آیات اور شریعت کے عمومی میراث کے احکام کی دلیل پر وہ خلیفہِ اوّل سے اختلاف رکھتی تھیں۔[4]بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج ۵، ص ۱۲۹، حدیث: ۴۲۴۰۔

تیسرا فرق۔ قرآن کریم کی مخالفت:

حضرت عائشہ کا خلیفہِ وقت امام علیؑ کے خلاف خروج کرنے سے قرآن کریم کی مخالفت لازم آئی کیونکہ قرآن کریم نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے:{ وَقَرْنَ في‏ بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏؛اور تم (زوجاتِ نبی ﷺ) اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت کے اندازِ زینت کی طرف زینت مت اختیار کرو }.[5]احزاب: ۳۳۔ حضرت عائشہ پر اس آیت کریمہ کے مطابق لازم تھا کہ وہ اپنے گھر کی چار دیواری سے کسی صورت باہر نہ نکلتی کیونکہ کلمہِ قَرنَ کا مطلب تسلسل کے ساتھ لازم و واجب سمجھتے ہوئے گھر میں مقید ہونا ہے۔ جناب فاطمہؑ نے جب اختلاف کیا تو قرآن کریم کی کسی آیت کریمہ کی مخالفت نہیں کی اور اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں گئیں اگرچے زیر نظر آیت زوجات سے متعلق ہے جناب سیدہؑ سے متعلق نہیں ہے۔

چوتھا فرق۔ رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی:

اہل سنت اور مکتب تشیع کی معتبر احادیث میں وارد ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کو گھر سے نکلنے سے منع فرمایا تھا اور اشارہ کر کے کہا تھا کہ اس گھر سے شیطان کا سینگ نکلے گا ، جیساکہ مسند احمد میں بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے: . [6]حنبل، احمد ، مسند احمد بن حنبل ، ج ۸، ص ۳۶۰، حدیث: ۴۶۷۹۔

اس کے مقابلے جناب فاطمہ علیہا السلام اگر اختلاف نہ کرتیں تو امام علیؑ جوکہ خلیفہِ برحق جانشینِ رسولؐ کی اطاعت و نصرت کا وظیفہ ادا نہ ہوتا اور دینِ الہٰی کے نفاذ کی کوششیں دَم توڑ جاتیں ۔ چنانچہ جناب فاطمہ علیہا السلام کے پاس وحدت کا سبب موجود نہیں تھا ۔

پأنچواں  فرق: حق کا آشکار ہونا:

جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے عدمِ اختلاف سے حق مخفی ہو جاتا اور اہل حق کمزور پڑ جاتے اور امت کے لیے حق کی شناخت کا اہم ذریعہ بے اثر ہو جاتا۔ اس کے مقابلے میں حضرت عائشہ کے اختلاف و خروج سے خلیفہِ برحق کے خلاف باطل عناصر حرکت میں آ گئے اور انہوں نے مسلمانوں کے جان و مال و ناموس پر حملے شروع کر دئیے۔ چنانچہ حضرت عائشہ کا خروج حق کے ضعف اور باطل کے قوی ہونے کا باعث بنا جبکہ ان کی طرف سے وحدت حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی کا باعث بنتی ۔

۔

Views: 49

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تناسخ ملکی اور ملکوتی