loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۹}

ولایت کے معنی اور اس کی اقسام

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

امام خمینیؒ نظریہ ولایت فقیہ کو بدیہیات میں سے قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ولایت فقیہ کا درست تصور کر لیں خود ہی اس کی تصدیق کریں گے۔ لیکن ولایت فقیہ کا درست تصور کرنے کے لیے ہم پر اس عنوان کی شرح کرنا ضروری ہے۔

ولایت کے لغوی معنی

کلمہِ ولایت ’’و ۔ ل ۔ ی‘‘ سے مشتق ہے۔ عربی لغات اور مفسرین نے اس کے معنی دو اشیاء کا قریب ہونابیان کیا ہے۔ البتہ ایسی قربت یا نزدیکی جو مالکیت اور حقِ تصرف کا باعث بنے۔ بعض دیگراہل لغت نے تحریرکیا ہے کہ دو اشیاء کا اس طرح سے قریب ہونا کہ ان کےدرمیان ان کا غیر حائل نہ ہو۔ [1] راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۳۳۔ [2] ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۶، ص۱۴۱۔ [3] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۲۰۳۔ [4] قیومی، احمد بن محمد، مصباح المنیر، ج۱، ص۳۴۶۔ [5] علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۔ [6] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، ج۱، ص۸۳۔ معلوم ہوا کہ کلمہِ ولایت یا ولی کے لغوی معنی دو اشیاء کا قریب آنا اور ان کے درمیان غیر کا رکاوٹ یا واسطہ نہ بننا ہے۔یہ کلمہ مختلف  اوزان میں (فتح کسرہ کے ساتھ)محبت و دوستی،نصرت یا مدد،اتباع یا پیروی، اور سرپرستی کے معنی بھی دیتا ہے۔کہ ان سب معانی میں وجہ مشترک یعنی قریب ہونا پائی جاتی ہے۔

لفظ ولایت کا استعمال

لفظِ ولایت’’ و ۔ ل ۔ ی ‘‘کے مادہ کے  بہت سے مشتقات روایات میں کثرت سے استعمال ہوۓ ہیں، مثلاً تولی، متولی، والی، ولی، مولاوغیرہ۔ روایات اہل بیتؑ بالخصوص نہج البلاغہ میں لفظ ولایت حکمران اور حکومت کی زمام ہاتھ میں لینے کے بارے میں آیا ہے۔ یہیں سے یہ کلمہ ’’ ولایت فقیہ‘‘ کی اصطلاح کے لیے انتخاب کیا گیا۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں لفظ ولایت حکومت کے معنی میں  استعمال ہوتا تھا۔صحیح بخاری میں لفظ مولا بمعنی حاکم، سرپرست کے استعمال ہوا ہے۔[7] بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۶، ص۱۴۶۔ جب ولایت فقیہ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بھی سرپرستی و حاکمیت ہوتی ہے ۔ ولی فقیہ وہ شخص ہے جو حاکم اور اسلامی معاشرے کا سرپرست ہے۔ ولایت سے مراد اہل بیتؑ کے فضائل نہیں ہیں۔ اور نا ہی ولایت فقیہ سے یہ مراد ہے کہ فقیہ کو وہی مقام حاصل ہے جو امام کو حاصل ہے۔ یہ اشتباہ ہے۔ امام خمینیؒ نے اپنی کتاب حکومت اسلامی میں یہ بات وضاحت سے بیان کی کہ ولی فقیہ سے مراد امام یا معصوم ہونا نہیں ہے۔[8] خمینی، سید روح اللہ، ولایت فقیہ،ج۱، ص۵۱۔ [9] مفيد، محمد بن نعمان، رسالۃ فی معنی المولی۔

لفظ ولایت کا تکامل

ایک لفظ کسی معنی کے لیے کیسے استعمال ہونے لگتا ہے؟ اس کے دو مرحلے ہیں۔ ایک اس کا مرحلہ ایجاد ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ یہ لفظ کس معنی کو بیان کرنے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر لفظ سیر ہے۔ اس لفظ کو چلنے کے معنی کے لیے ایجاد کیا گیا۔ بہت زیادہ چلنے والے کو سیّار کہا جانے لگا۔ بعد میں یہی لفظ گاڑی کے لیے بھی استعمال ہونے لگا کیونکہ گاڑی بہت زیادہ چلتی ہے تو اسے بھی سیّارہ کہا جانے لگا۔ اب لفظ سیر کا لغوی معنی تو چلنا تھا لیکن گاڑی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہونے لگا۔ کاروان کے لیے بھی استعمال ہوا۔ ان سب استعمالات میں چلنے کا مشترک معنی پایا جاتا ہے۔ مثلا گاڑی بھی چلتی ہے، بس بھی چلتی ہے اور کاروان بھی چلتا ہے۔ پس ایک مرحلہ ایجاد ہے اور دوسرا مرحلہ استعمال ہے۔ اسی طرح سے لفظ ولایت بھی ہے۔ اس کو مرحلہ ایجاد میں قرب کے معنی کو بیان کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ لیکن مرحلہ استعمال میں حاکم، سرپرست، دوست، غلام کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ البتہ ان سب معانی میں قرب کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ ان دو مرحلوں کے علاوہ لفظ کی ایک اور جہت بھی موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ ہر علم اور شعبے میں ایک ہی لفظ مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کا لغوی معنی ایک ہے لیکن مختلف علوم کی اصطلاح کے طور پر معانی مختلف دیتا ہے۔ مثلا لفظ واجب ہے۔ اس کا لغوی معنی لٹا دینا یا گرا دینا ہے۔[10] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۳۰۔ لیکن علوم دینی میں اس کے الگ معنی ہیں۔ فقہ میں واجب کسی اور معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے، کلام میں کسی اور معنی، منطق اور نحو میں دیگر معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شعبہ بدل جانے سے معنی بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے لفظ وحی ہے۔ لغت میں اشارہ کرنے کو وحی کہتے ہیں۔ لیکن اصطلاح میں نبیؑ کے دل کے اندر ایک تعلیم ڈالنا وحی کہلاتا ہے۔ پس لفظ اور اس کے معنی کا حصول قواعد و ضوابط کا تابع ہے۔ ایک اس کا مرحلہ ایجاد ہے، ایک اس کا مرحلہ استعمال ہے، اور تیسرے مرحلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ متکلم نے یہ لفظ بول کر کیا معنی مراد لیا ہے۔ مراد متکلم سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اس لفظ کو استعمال کر کے متکلم ہم تک کونسا معنی پہنچانا چاہتا ہے۔

ولایت کی اقسام

مصنف نے ولایت کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔

۱۔ ولایت تکوینی:

اس سے مراد کائنات کے امور میں تصرف کرناہے۔ ایسی قدرت یا سرپرستی کہ آپ ہر شے میں تصرف کر سکیں۔ کائنات میں مختلف موجودات کو مراتب کے اعتبار سے یہ ولایت حاصل ہے۔ تاہم اس ولایت کا حقیقی منبع اللہ تعالی کی ذات ہے۔ با الفاظ دیگر حقیقی طور پر تکوینی ولایت صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ اب اللہ تعالی نے اپنی مرضی کے مطابق ہر شے کو ایک حد تک ولایت دی ہے۔ مثلا حشرات، حیوانات، اور انسان ہیں۔ انسان کی ولایت حیوان اور حشرہ سے زیادہ ہے۔ عام انسان کائنات کے امور میں ایک حد تک تصرف کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اولیاء کرام، و انبیاء عظام کی ولایت ہے۔ اسی طرح سے رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی ولایت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ جس کو زیادہ ولایت دی اس کے پاس قدرت بھی زیادہ ہوگی۔ مثلا معجزے کی قوت وغیرہ۔

۲۔ ولایت بر تشریع:

اس سے مراد قانون گذاری کا حق ہے۔ شریعت بنانا اور انسان کے لیے قانون مقرر کرنا صرف اللہ تعالی کے لیے ہے۔ نبی یا امام صرف قانون کو لے کر امت تک پہنچانے والے ہیں۔ خود سے قانون کو وضع نہیں کرتے۔ یا اپنی مرضی سے قانون نہیں بناتے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا:
«فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ».
ترجمہ: پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[11] شوری: ۹۔
سورہ یوسف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
«إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلهِ».
ترجمہ: فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے۔[12] انعام: ۵۷۔

اختلافی مسئلہ

ولایت بر تشریع میں علماء تشیع نے اختلاف کیا ہے۔ بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ درست ہے کہ حقیقی طور پر ولایت بر تشریع صرف خدا کو حاصل ہے لیکن خود اللہ نے رسول اور امام کو بھی یہ اجازت دی ہے کہ وہ قانون بنا ئیں۔ لیکن یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ایک گروہ علماء کا کہنا ہے کہ رسول یا امام خود قانون نہیں بنا سکتا وہ صرف قانون کو لے کر اس کو اجراء کرنے والا ہے۔ لیکن درست قول یہ ہے کہ جزوی طور پر رسول یا امام بھی قانون بنا سکتے ہیں۔ اور یہ اجازت خود خدا نے ان کو دی ہے۔ الکافی میں کتاب الحجت میں ایک باب وارد ہوا ہے جس کا عنوان ’’باب التفویض فی امر الدین ‘‘ہے۔ تفویض کا کلمہ مشترک لفظی ہے۔ تفویض سے مراد ایک دفعہ معتزلہ کا افراطی نظریہ لیا جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ نے تمام قدرت انسان کو دے دی ہے۔ الکافی میں تفویض سے مراد یہ والا نظریہ نہیں ہے۔ اور دوسرا غالی فرقے کا نظریہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ کائنات کی تدبیر اللہ تعالی نے آئمہ معصومینؑ کو دے دی ہے۔ اس نظریے کو بھی تفویض کہا جاتا ہے۔ غالیوں کا نظریہ ہے کہ امام علیؑ خالق، رازق، اولاد دینے والے اور سب کچھ دینے والے ہیں۔ یہ نظریہ بھی تفویض کہلاتا ہے۔ ایک نظریہ فیض ہے جس میں وسائط کی بحث لائی جاتی ہے۔ نظریہ فیض اور نظریہ تفویض میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ نظریہ فیض میں ہم بعض مقدس ہستیوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں جبکہ تفویض میں یہ کہا جاتا ہے کہ خدا نے سب کچھ آئمہ معصومینؑ کے حوالے کر دیا ہے۔ ان دونوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال الکافی میں جو باب تفویض وارد ہوا ہے اس میں تفویض کے یہ دونوں معنی مراد نہیں ہیں بلکہ الکافی میں تفویض سے مراد یہ ہے کہ شریعت اور قانون اللہ تعالی کا ہے۔ دین اور شریعت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ حلال محمد حلال الی یوم القیامۃ، اور حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ ہے۔[13] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۸۔ لیکن جو چیزیں ثابت نہیں ہیں اور نئی پیش آ رہی ہیں ان میں اللہ تعالی نے یہ اختیار نبی اور امام کو دیا ہے کہ وہ قانون بنائیں۔[14] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۵۔ شیخ آصف محسنیؒ نے بھی اپنی کتاب معجم الاحادیث المعتبرہ میں اس باب سے احادیث لائی ہیں اور اس نظریہ کو درست قرار دیا ہے۔[15] محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرہ، ج۱، ص۴۷۶۔ تاہم یہ حق غیر معصوم کو حاصل نہیں ہے کہ وہ خود سے قانون گذاری کرے۔ لیکن نبی یا امام قانون گذاری کر سکتا ہے کیونکہ وہ جو کچھ بھی دیتا ہے وہ خدا کی جانب سے ہے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
 «مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللهَ‌».
ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔[16] نساء: ۸۰۔
سورہ حشر میں وارد ہوا ہے:
«وَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا».
ترجمہ: اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔[17] حشر: ۷۔
ایک روایت میں الکافی میں وارد ہوا ہے:
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَدَّبَ نَبِيَّهُ فَأَحْسَنَ أَدَبَهُ فَلَمَّا أَكْمَلَ لَهُ الْأَدَبَ قَالَ- إِنَّكَ لَعَلى‌ خُلُقٍ عَظِيمٍ‌ ثُمَّ فَوَّضَ إِلَيْهِ أَمْرَ الدِّينِ وَ الْأُمَّةِ لِيَسُوسَ عِبَادَهُ».
ترجمہ: اللہ عز و جل نے اپنے نبی کو با ادب کیا اور بہت اچھا ادب کیا۔ جب ان کا ادب کامل ہوا تو فرمایا: بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔ اور اس وقت دین اور امت کے امور کو ان کے حوالے کیا تاکہ بندوں کی مدیریت کر سکیں۔[18] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۶۔
« لِيَسُوسَ عِبَادَهُ»کی تعبیر سے  پتہ چلتا ہے کہ خدا نے اپنے نبی کا تعارف سیاستدان کے طور پر کروایا ہے۔  زیارت جامعہ کبیرہ میں بھی آئمہ معصومینؑ کے لیے ساسۃ العباد کا کلمہ استعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب بنتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ اللہ تعالی کے بندوں پر حقیقی سیاستدان ہیں۔[19] زیارت جامعہ کبیرہ۔ یہ لفظ کسی مفکر کا ایجاد کردہ نہیں ہے بلکہ ہمارے دینی منابع یہ لفظ وارد ہوا ہے۔ بہرحال لوگوں کے امور کی دیکھ بھال جسے سیاست کہتے ہیں، اللہ تعالی نے یہ امر نبی اور امام کو عطا کیا ہے۔ 

۳۔ ولایت تشریعی:

شریعت الہی و قانون الہی کے تابع رہتے ہوۓ معاشرے کی سرپرستی کرنا۔ ولایت تشریعی دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے۔
۱۔ معاشرے کے نادار افراد کی سرپرستی
۲۔ معاشرے کے عام افراد کی سرپرستی
معاشرے کے نادار افراد کی سرپرستی سے مراد یہ ہے کہ وہ افراد جو محجور ہیں، سفیہ، یتیم، مریض، یا اپاہج لوگ ہیں جن کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان افراد کی سرپرستی کرنا ولایت تشریعی ہے۔ جبکہ معاشرے کے عام افراد کی سرپرستی سے مراد یہ ہے کہ نادار طبقے کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی مدیریت کرنا ولایت تشریعی ہے۔ ولایت فقیہ میں جو فقیہ کو ولایت حاصل ہے وہ ولایت تشریعی کی دوسری قسم ہے۔ فقیہ کو فقط نادار افراد کی ولایت حاصل نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر پورے معاشرے کی مدیریت و سربراہی کا حق فقیہ کو حاصل ہے۔

ولایت کی ایک اور تقسیم

آیت اللہ مقتدائی نے ولایت کی قسمیں بیان کی ہیں:
۱۔ ولایت تکوینی
۲۔ ولایت تشریعی
فرماتے ہیں کہ ولایت تشریعی سے مراد ایک دفعہ فتوی دینے کی ولایت کا حاصل ہونا ہوتا ہے۔ جو ہر مجتہد کو حاصل ہے۔ ایک دفعہ ولایت سے مراد قضاوت کرنا ہوتا ہے۔ قاضی کو یہ ولایت حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک دفعہ ولایت تشریعی سے مراد معاشرے کی سربراہی کرنا ہے۔ جب ولایت فقیہ میں فقیہ کی ولایت کی بحث ہوتی ہے وہاں ولی فقیہ سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ وہ فتوی دینے کی ولایت رکھتا ہے، یا قضاوت کرنے کی ولایت رکھتا ہے۔ بلکہ ولی فقیہ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اسے معاشرے کی سربراہی کا حق حاصل ہے۔ رہبر معظم کو جب ولی فقیہ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجتہد ہیں اور بقیہ مجتہدوں کی طرح فتوی دے سکتے ہیں۔ رہبر معظم کے ولی فقیہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ قضاوت کر سکتے ہیں بلکہ ان کے ولی فقیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورے اسلامی معاشرے کے سربراہ و حاکم اور مدیر ہیں۔[20] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۳تا۱۲۵۔

منابع:

منابع:
1 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۵۳۳۔
2 ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ج۶، ص۱۴۱۔
3 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۲۰۳۔
4 قیومی، احمد بن محمد، مصباح المنیر، ج۱، ص۳۴۶۔
5 علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۶، ص۱۲۔
6 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت در قرآن، ج۱، ص۸۳۔
7 بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۶، ص۱۴۶۔
8 خمینی، سید روح اللہ، ولایت فقیہ،ج۱، ص۵۱۔
9 مفيد، محمد بن نعمان، رسالۃ فی معنی المولی۔
10 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۳، ص۳۰۔
11 شوری: ۹۔
12 انعام: ۵۷۔
13 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۸۔
14 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۵۔
15 محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرہ، ج۱، ص۴۷۶۔
16 نساء: ۸۰۔
17 حشر: ۷۔
18 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۶۶۔
19 زیارت جامعہ کبیرہ۔
20 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۳تا۱۲۵۔
Views: 61

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ کی ضرورت
اگلا مقالہ: کلمہ ولی فقیہ میں ولی سے مراد