loading
قرآنى آيات كا سمجھنا

گذشتہ درس ميں بيان كيا گيا تھا كہ صرف الفاظ معانى پڑھ لينا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ الفاظ كے لغوى معانى كے ساتھ ساتھ ان معنى تك رسائى حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو معنى بولنے والے نے بيان كيا ہے ۔ كيونكہ بسا اوقات ايسا ہوتا ہے كہ لفظ كا لغوى معنى مراد نہيں ہوتا بلكہ لفظ بول كر ايسا معنى مراد ليا جاتا ہے جس كا اصل معنى سے گہرا تعلق ہے ۔

آسان زبان ميں اس طرح بيان كر سكتے ہيں كہ ’’ الفاظ كے لغوى معنى ‘‘ ميں اور ’’ الفاظ كے وہ معانى جو بولنے والے نے پہنچانے چاہيں ہيں ‘‘ دونوں ميں فرق ہے ۔ يہ دونوں كبھى ايك ہو جاتے ہيں اور كبھى مختلف. مثلا: آپ جنگل ميں پك نك منانے گئے ہوئے ہيں اتنے ميں ايك زور سے چيختا ہے كہ شير آ گيا ، اس جملہ ميں لفظِ ’’شير‘‘ سے مراد وحشى جانور ہے اور لفظِ شير كا يہى لغوى معنى ہے ۔

ايك مرتبہ آپ گھر بيٹھے ہوئے ہيں كہ ايك ايسا شخص كمرے ميں داخل ہوتا ہے جس نے دشمن كا انتہائى شجاعت سے مقابلہ كيا ، كوئى كہتا ہے كہ شير آ گيا ، اس جملہ ميں بولنے والے نے اگرچے لفظِ ’’ شير ‘‘ بولا ہے ليكن ان سے اس لفظ كا لغوى معنى مراد نہيں ليا بلكہ شير بولا كر وہ بہادر شخص مراد ليا ہے ۔

پس ہميں پورى توجہ اس طرف مبذول ركھنى چاہيے كہ بولنے والے نے الفاظ بول كر كونسے معنى مراد لينا چاہيں ہيں۔ كيونكہ متكلم ( بولنے والا) كبھى لفظ كو اس كے لغوى معنى ميں استعمال كرتا ہے اور كبھى كسى ايسے معنى ميں استعمال كرتا ہے جس كا ايك نوعِ تعلق ’’لغوى معنى ‘‘ كے ساتھ ہے ۔

قرآن كريم ميں بھى ہميں يہى چيز نظر آتى ہے كہ بہت سى جگہوں پر قرآن كريم نے لفظ كہہ كر لغوى معنى مراد ليا ہے، اور بہت سارى جگہوں ميں لفظ كے ذريعے لغوى معنى مراد نہيں ليا بلكہ ايك الگ معنى بيان كيا ہے ، جيسے لفظِ صَوْم، اس كا لغوى معنى روكنا كے ہيں ليكن يہ روزے كے معنى ميں استعمال ہوا ہے ، اسى طرح الصلاة ہے جس كا لغوى معنى دعا يا درود كے ہيں ليكن بعض آيات ميں اس كے لغوى معنى مراد ليے گئے ہيں اور بعض آيات ميں لفظِ صلاة سے مراد نماز ہے ۔ ان دونوں كو جمع كرتے ہوئے علماء يہ اصطلاح استعمال كرتے ہيں كہ ’’ مرادِ متكلم‘‘ كو حاصل كرنا چاہيے ۔

قرآنى آيات كى جملہ بندى

 

سابقہ درس ميں بيان كيا گيا تھا كہ قرآنِ كريم كے الفاظ كے ذريعے ہم قرآن كريم كے معانى تك پہنچتے ہيں ۔ قرآنى الفاظ كا چناؤ حكمتِ الہٰى كے تقاضوں كے تحت ہوا ۔ انہى الفاظ كى مناسب تركيب سے جملہ جسے آيت كہتے ہيں بنتا ہے اور آيات كو اس خوبصورت طريقے سے ايك دوسرے كے ساتھ ربط ديا گيا ہے كہ يہى آيات سورت كے قالب ميں ڈھل كر معجزہ قرار پائيں ۔

الفاظ كى دنيا بہت وسيع ہے ۔ ايك معنى مختلف الفاظ سے بيان ہو سكتا ہے ۔ دانا اور صاحب علم و حكمت ايسے الفاظ كا چناؤ كرتا ہے جو الفاظ بہترين طريقے سے معنى كو روشن كر ديں ۔ قرآن كريم كے الفاظ كى تحقيق ہمارے سامنے اس حكمت كے چند پہلو آشكار كر ديتى ہے ۔

لفظ كے لغوى معنى اور لفظ كا كلام يا آيت ميں استعمال كرتے ہوئے كوئى معنى لينے ميں فرق ہے ۔ اس فرق كى طرف تھوڑى توجہ دركار ہے اس ليے دقّت سے اس كا مطالعہ فرمائيں :

  لفظ كے لغوى معنى سے مراد يہ ہے كہ يہ لفظ ڈكشنرى ميں كن كن معانى ميں استعمال ہوتا ہے ۔

  كسى كلام يا جملہ يا آيت ميں لفظ كا لغوى معنى مدنظر نہيں ہوتا بلكہ لفظ كا وہ معنى مدنظر ہوتا ہے جو بولنے والے نے مراد ليا ہے ۔

اس كى مثال اس طرح سے ہے كہ اردو ميں لفظ ’’ شير ‘‘ كا معنى وہ وحشى جانور ہے جو جنگلوں كا بادشاہ كہلاتا ہے اور جانوروں كا گوشت كھاتا ہے ۔ پس لفظ كا لغوى معنى وحشى جانور ہے ليكن ايسا نہيں ہے كہ جہاں لفظِ شير استعمال ہوا ہے وہاں يہى معنى مراد ليا جائے ۔ بلكہ بعض اوقات ايسا ہو سكتا ہے كہ يہى لفظ استعمال كيا جائے ليكن وحشى جانور كى بجائے كوئى اور معنى مراد ليا جائے ، مثلا آپ كہتے ہيں : على شير ہے ۔ اس جملہ ميں لفظِ شير اپنے لغوى معنى ميں نہيں بلكہ شجاعت اور بہادرى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے ۔ يہى صورتحال ہميں قرآن كريم كى آيات ميں نظر آتى ہے ، مثلا الصلاة كا لغوى معنى دعا يا درود كے ہيں ، ليكن متعدد قرآنى آيات ميں الصلاة سے مراد نماز ہے كيونكہ اللہ سبحانہ نے لفظ كا لغوى معنى وہاں مراد نہيں ليا بلكہ دورانِ گفتگو اللہ تعالى نے نماز پڑھنے اور اسے قائم كرنے كا حكم ديا ہے۔

الفاظ و لغت قرانی

قرآنى آيات كيسے وجود دى گئى ہيں ؟

  كسى بھى كلام ميں ’’ الفاظ ‘‘ اشاروں كا كام كرتے ہيں جن كے ذريعے معانى تك رسائى حاصل كى جاتى ہے ۔ اس ليے لفظ ميں غلطى سے معنى تك رسائى ميں غلطى واقع ہوتى ہے اور انسان غلط معنى سمجھتا ہے ۔ اس ليے لفظ كے صحيح معنى سے آشنائى بہت ضرورى ہے ۔

  قرآن كريم كو ديگر تمام كلام حتى حديث مبارك سے بھى يہ امتياز حاصل ہے كہ اس كے الفاظ الہٰى حكمت كے تحت چنے گئے ہيں اور معجزہ كى حد تك سورہ اور سورہ ميں موجود كلام كى جملہ بندى كى گئى ہے ۔

اس جگہ دو پہلوؤں كو مدنظر ركھنا ضرورى ہے :

قرآن كريم كے الفاظ كا چناؤ :

اس سے مراد يہ ہے كہ ممكن ہے كہ ايك معنى كو بيان كرنے كے ليے متعدد الفاظ كا سہارا ليا جا سكے ، مثلا اگر آپ نے پھل دار درخت كے بارے ميں كسى بتانا ہے تو ممكن ہے آپ اس كے ليے لفظِ شجر لائيں يا لفظِ درخت يا لفظِ پيڑ لائيں ۔۔۔ ليكن حكمت كا تقاضا ہے كہ ايسا لفظ لايا جائے جس سے انسان طبيعت مانوس بھى ہو اور وہ سب سے بہترين طريقے سے اصل معنى كو روشن كر رہا ہو ۔ اس ليے ايسا لفظ استعمال نہيں كريں گے جس سے صحيح طور پر معنى روشن نہ ہو يا وہ لفظ معاشرے ميں گراں يا قبيح شمار كيا جاتا ہو ۔ اسى طرح كى حكمتوں كو مدنظر ركھتے ہوئے قرآن كريم نے لوحِ محفوظ پر محفوظ معانى كو انسان ضمير و عقل تك پہنچانے كے ليے الفاظ كا استعمال كيا ۔ قرآن كريم ميں ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے:

وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر ( القمر : ۱۷ )

اور ہم نے ذكر كى خاطر قرآن كو آسان كيا تو كيا كوئى ہے جو ذكر لے ۔

يہ آيت قرآن كريم ميں ۳ مرتبہ مزيد تكرار ہوئى ہے ۔ اسى طرح بعض آيات ميں ہے كہ قرآن كو عربى ميں اس ليے نازل كيا تاكہ قرآن سمجھا جا سكے ، ارشادِ بارى تعالى ہوتا ہے :

إِنَّا أَنْزَلْناهُ قُرْآناً عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون‏ ( يوسف : ۲ )

بے شك ہم نے اس كو نازل كيا بطورِ قرآنِ عربى ، تاكہ تم لوگ تعقل كر سكو ۔

پس پہلا پہلو يہ ہے كہ انسانيت شعور و تفكر و تدبّر كے ذريعے قرآن كے معانى كو لے سكيں اور معانى تك رسائى الفاظ كے ذريعے ہوتى ہے ۔ اس ليے الفاظ كا سمجھنا معانى كو سمجھنے كا باعث بنتا ہے ۔

علوم قرآنی