loading

وحدت اسلامی اور اختلاف امام علیؑ کی نگاہ میں

تحریر: سید محمد حسن رضوی
01/20/2024

امام علیؑ کا دورِ حکومت اگرچے جنگوں اور باہمی تنازعات سے پُر ہے لیکن اگر سیرتِ علیؑ کا مطالعہ کیا جائے تو وحدتِ اسلامی کے قیام کے لیے امام علیؑ کی انتھک اور کثیر کاوشیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دین اسلام کے اہم اہداف میں سے ایک ہدف ملتِ اسلامیہ کا قیام اور گروہ بندی ختم کر کے ایک امت میں پرونا تھا۔ اگر کہیں امام علیؑ کا اختلاف کرنا یا مختلف موقف اختیار کرنا نظر آتا ہے اس کی وجہ بنیادی وجہ ذاتِ الہٰی کا تقرّب، دین الہٰی کی بقاء و قیام، حق و عدل کے معیارات کی بالاتری اور اسلامی معاشرہ میں امن و امان کی فضاء بحال کرنا ہے۔ ذیل میں وحدت اسلامی اور اختلاف کو نہج البلاغہ کے تناظر میں ملاحظہ کرتے ہیں:

قیام امتِ اسلامی ایک بنیادی ہدف:

قرآن کریم کی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاءؑ کی بعثت کے متعدد اہداف میں سے ایک اہم ہدف معاشرے میں وحدت کا قیام اور معاشرے کو مختلف ایسی گروہ بندیوں سے نجات دینا تھا جو ایک ملت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کی تشکیل اور عدل و انصاف کے قیام کے لیےشریعت کو اتارا اور امام کا تعین کر کے اس پر شریعت کی ترویج، تبیین اور نفاذ کا وظیفہ عائد کیا۔ معاشرے میں امن و امان کی فضاء اس وقت تک برقرار نہیں ہو سکتی جب تک مختلف نسب و قومیت اور مختلف افکار و نظریات کے حامل افراد ایک امت کی شکل اختیار نہ کر لیں ۔ چنانچہ دین اسلام نے ایک امت ، ایک ملت اور ایک شناخت کو متعارف کروایا اور اسلام رنگ اختیار کر کے علاقائی و خاندانی شناخت کو ثانوی حیثیت عنایت کی ۔دیگر اقوام اور ملتوں کے مقابلے امت اسلامی اور وحدت اسلامی کو دینِ اسلام نے متعارف کروایا۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرينَ وَمُنْذِرينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فيمَا اخْتَلَفُوا فِيه‏ِ }.[1]بقرۃ: ۲۱۳۔یہ آیت کریمہ واضح دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاءؑ کو منذر و مبشر بنا کر اور حق کے ساتھ کتاب کے ہمراہ اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں میں اختلاف کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کریں۔ انبیاءؑ کی اطاعت کی مختلف حکمتوں میں سے ایک اہم حکمت یہی ہے کیونکہ اگر انبیاءؑ کا فیصلہ نہ مانا جائے تو اختلاف اپنی جگہ قائم رہے گا اور حقدار کو حق میسر نہیں آ سکے گا۔

وحدت اور اختلاف سے مراد:

وحدت اور اختلاف ظاہری طور پر ایک دوسرے کے مقابل تصور ہوتے ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی مباحث میں وحدت اور اختلاف سے مراد  وحدت و اختلاف کے فلسفی و کلامی معانی نہیں ہیں جو عدمِ تقسیم یا غیریت و عناد و ٹکراؤ کی اساس پر سامنے آتے ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی مباحث میں اختلاف کے باوجود وحدت کا قیام ممکن ہے اور مختلف جہات سے اختلاف کے ساتھ ساتھ وحدت جنم پا سکتی ہے۔ اس مقام پر وحدت سے مراد کسی موقف یا کسی عمل میں یکسانیت، اتحاد اور موافقت دکھانا ہے اور باہمی انتشار یا اختلاف و جدال کو دبا دینا ہے۔ چنانچہ معاشرے مختلف قبائل اور گروہوں میں تقسیم ہونے کے باوجود کسی موقف، کسی فکر، کسی ہدف و مقصد یا عمل میں آپس میں موافقت اور یکجہتی کے ساتھ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ان مباحث میں وحدت کا یہی پہلو مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے طبیعی طور پر کائنات کی اشیاء کے درمیان اتحاد و اشتراک قرار دیا ہے اور ایک دوسرے سے مختلف نظر آنے کے لیے حکمت کے تحت اختلاف بھی اجاگر کیا ہے۔ بلا شک و شبہ یہ نیچرل اور طبیعی اتحاد و اختلاف مادی دنیا کی زینت اور دنیاوی زندگی کے وجود کے لیے ضروری ہے۔ لہٰذا وحدت اسلامی سے مراد انسان کا نسب ،قومیت اور علاقائی شناخت کا خاتمہ نہیں ہے !! اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے سے پہچان اور نسلِ انسانی کی حفاظت کے لیے نسب کا قانون جاری کیا ہے اور علاقائی تقسیم کے ذریعے مختلف طرح کی خصوصیات کے مالک معاشرے جنم دیئے ہیں۔ چنانچہ زبان، رنگ نسل اور قومیت و خاندان کی اساس پر اختلاف دنیائے مادی کا جزؤ لا ینفک ہے جس میں حکمتِ الہٰی کے وافر نمونے موجود ہیں۔

اس طبیعی اختلاف کی بازگشت وحدت کی طرف ضروری ہے ورنہ یہی اختلاف ہدف بن کر انسانیت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔ چنانچہ اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے توحید کی وحدت کے ماتحت لانا ضروری قرار دیا ہے۔ ذاتِ الہٰی کی توحید کی اساس پر ایک دین ، ایک شریعت، ایک کتاب اور ایک حجت تمام اختلاف کو وحدت کے ساتھ سازگار کر دیتی ہے۔ لہٰذا دین کی فکری تعلیم ایمانی اخوت کی اساس پر ایک امت اور ایک اسلامی معاشرہ کے قیام کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے۔ مزاجوں میں اختلاف اور شہوات و نفسانی امراض کی تباہ کاریوں کے باعث معاشروں میں شقاوت اور بغاوت جنم لیتی ہے جس کے خاتمہ کا واحد حل وحدت میں رکھا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ دینِ اسلام اور سیرت محمد و آل محمدؑ سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کے اسباب کی موجودگی کو وحدت سے قابو نہ کیا جائے تو یہی اختلاف انسانیت کے خاتمہ کا باعث بن جائے گی۔ بالخصوص دو طرح کا اختلاف انسانی معاشروں کے لیے خطرہ کی علامت ہے:
۱۔ شہوات ، قوتِ غضب اور نفسانی امراض کے گھیراؤ کے باعث شقاوت و بغاوت کا ابھرنا
۲۔ طبیعی اختلاف کو دائرہِ اعتدال سے خارج ہوجانا

پس وحدت سے مراد یہ ہے کہ اگر معاشرے میں امن و امان کے قیام اور دین اسلام کے وسیع اجتماعی مفادات میں تفرقہ و انتشار نمایاں نہیں ہونا چاہیے۔ امتِ واحد بننے کے نتیجہ میں فکر، ہدف اور عمل میں یکجہتی اور یگانگت معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام اور دین کی حاکمیت کے حصول کو یقینی بنا دے گی۔ شہید مطہری بیان کرتے ہیں کہ وحدتِ اسلامی سے مراد کسی ایک مذہب کی اجارہ داری قبول کرنا یا اپنے افکار و نظریات کو ترک کر دینا نہیں ہے بلکہ اتحاد بین المسلمین سے مقصود اختلافات ہونے کے باوجود مختلف مذاہب کا دشمنوں اور غیروں کے مقابلے میں متحد ہو جانا ہے۔

رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو عرب معاشرہ مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹا ہوا تھااور باہمی تنازعات اور قبائلی لڑائی جھگڑوں کا شکار تھا۔ آنحضرتﷺ نے جہاں توحید کا پیغام پہنچایا وہاں معاشرے کے اندر سے گروہ بندی اور باہمی لڑائی جھگڑے کو ختم کیا۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:مُسْتَقَرُّهُ خَيْرُ مُسْتَقَرٍّ وَمَنْبِتُهُ أَشْرَفُ مَنْبِتٍ فِي مَعَادِنِ الْكَرَامَةِ وَمَمَاهِدِ السَّلَامَةِ، قَدْ صُرِفَتْ نَحْوَهُ أَفْئِدَةُ الْأَبْرَارِ وَثُنِيَتْ إِلَيْهِ أَزِمَّةُ الْأَبْصَارِ دَفَنَ اللَّهُ بِهِ الضَّغَائِنَ وَأَطْفَأَ بِهِ [النَّوَائِرَ] الثَّوَائِرَ أَلَّفَ بِهِ إِخْوَاناً وَفَرَّقَ بِهِ أَقْرَاناً أَعَزَّ بِهِ الذِّلَّةَ وَأَذَلَّ بِهِ الْعِزَّةَ كَلَامُهُ بَيَانٌ وَصَمْتُهُ لِسَان‏؛ بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں ان کا مقام بہترین مقام اور جائے قرار اعلیٰ و اشرف ترین جائے قرار ہے ۔ ان کی طرف ابرار کے دل جھکا دیئے گئے ہیں اور نگاہوں کے رخ موڑ دیئے گئے ہیں۔ اللہ نے ان کی وجہ سے فتنے دبا دیئے اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے، بھائیوں میں باہمی الفت پیدا کی اور جو کفر میں اکٹھے تھے انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا ، اسلام پستی و ذلت کو عزت بخشی اور کفر کی عزت و نخوت کو ذلیل کیا ، ان کا کلام شریعت کا بیان اور سکوت احکام کی زبان تھی. [2]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۵۳، خطبہ ۹۴، ترجمہ: مفتی جعفر حسین۔

 حصول اقتدار امام علیؑ کی نظر میں:

امام علیؑ حکومت اور اقتدار کو الہٰی وظائف کی انجام دہی اور مظلوم کی داد رسی کا وسیلہ قرار دیتے تھے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں: ؛۔[3]سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۔

تفرقہ و پراگندگی شیطان کی طرف سے:

  رسول اللہ ﷺ معاشرے کو ایک امت بنانے اور وحدتِ اسلامی کے قیام میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے کفر و شرک کے بتوں کو گرا کر معاشرے کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔ رحلتِ رسول ﷺ کے بعد جب اقتدار پر حاکم کو قبول کرنے کی آزمائش سے امت دوچار ہوئی تو اقتدار کے حرص و ہوس نے امت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ یہاں تک جب حکومت دوبارہ اصل وارثِ رسول اللہ ﷺ امام علیؑ کے دست مبارک میں لوٹ کر آئی تو گروہ بندی نے امام علیؑ کی تدبیر کو سخت مشکلات سے دوچار کیا۔ امام علیؑ اپنے ایک خطبہ میں بیان فرماتے ہیں:ْ إِنَّ الشَّيْطَانَ يُسَنِّي لَكُمْ طُرُقَهُ وَيُرِيدُ أَنْ يَحُلَّ دِينَكُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً وَيُعْطِيَكُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ وَبِالْفُرْقَةِ الْفِتْنَةَ فَاصْدِفُوا عَنْ نَزَعَاتِهِ وَنَفَثَاتِهِ وَاقْبَلُوا النَّصِيحَةَ مِمَّنْ أَهْدَاهَا إِلَيْكُمْ وَاعْقِلُوهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ؛ بے شک تمہارے لیے شیطان نے اپنی راہیں آسان کر دی ہیں ، وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے ، تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور نصیحت کی پیش کش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو.[4]سید رضی ، نہج البلاغہ ، ص ۲۹۷، خطبہ ۱۱۹۔

بنیادی اعتقاد پر وحدت:

قرآن کریم نے توحید اور شرک کی نفی کی اساس پر متحد ہونے کی طرف ابھارا ہے۔ ارشاد ربّ العزت ہوتا ہے:{ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى‏ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُون‏ }. [5]آل عمران: ۶۴۔ اہل کتاب کو توحید اور عبودیت میں شرک کی نفی کے مشترکہ نکتہ پر جمع کرنے کی قرآن کریم نے دعوت دی ہے۔

قرآن کی اساس پر وحدت:

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَلا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْواناً وَكُنْتُمْ عَلى‏ شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون‏ }. [6]آل عمران : ۱۰۳۔ اس آیت کریمہ میں حبل اللہ کو تھامنے کی تاکید کی گئی ہے اور ہر قسم کے تفرق اور گروہ بندی سے اجتناب کا حکم دیا گیا ۔ اسلام سے پہلے والا معاشرہ تفرقہ کا شکار تھا اور گروہ آپس میں اختلاف و انتشار اور باہمی دشمنی کی آگ میں جل رہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ اور اسلامی تعلیمات کی نعمت کے ذریعے باہمی دشمنوں کو ایمانی برادری میں پرو دیا اور جہنم کے کنارے سے نجات عنایت فرمائی۔متعدد مفسرین نے حبل اللہ سے مراد آئمہ اہل بیتؑ لیا ہے جیساکہ مکتبِ اہل بیتؑ میں وارد ہونے والی احادیث نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس صورت میں ایک امت کی اصل اساس قرآن و اہل بیتؑ قرار پاتے ہیں اور یہی حقیقت شیعہ و سنی ہر دو کتبِ احادیث میں وارد ہوئی ہے۔

اختلاف سے بچنے کی تلقین:

امام علیؑ کا زمانہ انتشار اور باہمی رقابتوں کا زمانہ تھا جس کے مختلف اسباب میں اہم سبب اخلاقی اقدار کی پامالی اور دینی کج روی کا پھیلا جانا تھا۔ امیر المؤمنینؑ مختلف پہلوؤں سے وحدت کی تلقین فرماتے رہے اور حق و باطل کے درمیان اختلاف کے علاوہ دیگر موارد میں اختلاف کی بجائے وحدت کو اختیار کرنے کا درس دیتے۔ اسلامی معاشرے میں عوام کا عنوان مسلمان، دین کا نام اسلام  اور قانون کا نام شریعتِ اسلامی ہے ۔ لہٰذا کم سے کم ان پہلوؤں سے کسی قسم کے اختلاف و انتشار کی امید نہیں ہونی چاہیے تھی۔ امام علیؑ نہج البلاغہ اسی پہلوِ وحدت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  وَإِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَنَبِيُّهُمْ‏ وَاحِدٌ وَكِتَابُهُمْ وَاحِد أَ فَأَمَرَهُمُ اللَّهُ [تَعَالَى‏] سُبْحَانَهُ بِالاخْتِلَافِ فَأَطَاعُوهُ أَمْ نَهَاهُمْ عَنْهُ فَعَصَوْه‏؛حالانکہ ان کا اللہ ایک ، نبی ایک اور کتاب ایک ہے (انہیں غور کرنا چاہیے کہ ) کیا اللہ نے انہیں اختلاف کا حکم دیا تھا اور یہ اختلاف کر کے اس کا حکم بجالاتے ہیں !! یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور یہ اختلاف کر کے جان بوجھ کر اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں.[7]سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۱۲۳، خطبہ ۱۸، ترجمہ: مفتی جعفر حسینؒ۔ اسی اساس پر امام علیؑ نے اہل شام کو وحدت کی طرف بلایا اور بیعت کرنے کی ابھارا ۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:وَكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا [بِالْقَوْمِ‏] وَالْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَالظَّاهِرُ أَنَ‏ رَبَّنَا وَاحِدٌ وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ وَدَعْوَتَنَا فِي الْإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ وَلَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ وَلَا يَسْتَزِيدُونَنَا- [وَ] الْأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ، وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ، فَقُلْنَا تَعَالَوْا [نُدَاوِي‏] نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وَتَسْكِينِ الْعَامَّةِ حَتَّى يَشْتَدَّ الْأَمْرُ وَيَسْتَجْمِعَ فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ [فِي مَوَاضِعِهِ‏] مَوَاضِعَهُ فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيهِ بِالْمُكَابَرَةِ فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ وَرَكَدَتْ وَوَقَدَتْ نِيرَانُهَا وَحَمِشَتْ فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وَإِيَّاهُمْ وَوَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وَفِيهِمْ أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْهِ فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وَسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ وَانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ، فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنَ الْهَلَكَةِ وَمَنْ لَجَّ وَتَمَادَى فَهُو الرَّاكِسُ الَّذِي رَانَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ وَصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه‏؛ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی، نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسولؐ کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے، بالکل اتحاد تھا، سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خونِ عثمان کے بارے میں ہو گیا تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سےبالکل بری الذمہ تھے۔تو ہم نے ان سے کہا کہ آؤ فتنہ کی آگ بجھا کر اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا کر کے اس مرض کا وقتی مداوا کریں جس کا پورا استیصال ابھی نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ صورتِ حال استوار و ہموار ہو جائے اور سکون و اطمینان حاصل ہو جائے۔ اس وقت ہم میں اس چیز کی قوت ہو گی کہ ہم حق کو اس کی جگہ پر رکھ سکیں، لیکن ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا علاج جنگ و جدل سے کریں گے۔اور جب انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا تو جنگ نے اپنے پر پھیلا دیئے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے اور شدت بڑھ گئی۔ اب جب اس نے ہمیں اور انہیں دانتوں سے کاٹا اور اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تو وہ اس بات پر اتر آئے جس کی طرف ہم خود انہیں بلا چکے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان کی پیشکش کو مان لیا اور ان کی خواہش کو جلدی سے قبول کر لیا۔ اس طرح ان پر حجت پورے طور سے واضح ہو گئی اور ان کیلئے کسی عذر کی گنجائش نہ رہی۔اب ان میں سے جو اپنے عہد پر جما رہے گا وہ وہ ہو گا جسے اللہ نے ہلاکت سے بچایا ہے اور جو ہٹ دھرمی کرتے ہوئے گمراہی میں دھنستا جائے گا تو وہ عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سرپر منڈلاتے رہیں گے.[8]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۹۵،مکتوب ۵۸۔

جماعت سے جڑے رہنا:

نہج البلاغہ میں امام علیؑ وحدت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:فَالْزَمُوهُ وَالْزَمُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ‏ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ [عَلَى‏] مَعَ الْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ، فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِئْبِ‏؛ تم اسی راہ پر جمے رہو اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ، چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ ، اس لیے کہ جماعت سے الگ ہونے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے جس طرح ریوڑ سے جدا ہو جانے والی بھیڑ بکری بھڑئیے کا نوالہ بن جاتی ہے. [9]سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۵، ص ۲۶۰۔ امام علیؑ کا وحدت کی کوشش کرنے سے مقصود یہ ہے کہ امام علیؑ اپنے آپ کو خلافت اور جانشینِ رسالت کا حقیقی حقدار قرار دیتے تھے اور خلفاء سے اس بارے میں شدید اختلاف رکھتے تھے ۔ نیز امام علیؑ دیگر کوئی فیصلوں اور جزوی امور میں خلفاء کی سیرت پر ناقد تھے لیکن دشمنوں کے مقابلے میں اصلِ دین کی حفاظت، اسلامی معاشرے کے عمومی مصلحت و فائدہ اور دشمن کے غلبہ سے اہل اسلام کو بچانے کی خاطر خلفاء سے میل جول رکھتے اور ان کے ساتھ مختلف امور میں شریک ہوتے۔الکافی میں شیخ کلینی بیان کرتے ہیں:

خلفاء کے بارے میں امام علیؑ کا موقفِ وحدت:

بلا شک و شبہ امام علیؑ آنحضرتﷺ کی جانب سے خلیفہ و امام مقررد کیے جانے کی وجہ سے اپنے آپ کو خلافت کا حقیقی حقدار تسلیم کرتے تھے اور اس مسئلہ میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان تینوں بزرگوار سے اختلاف رکھتے تھے۔ اس اختلاف کے باوجود امام علیؑ نے امت کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا اور دین اسلام کی حفاظت و اسلامی معاشرے کی امنیت کے پیش نظر خلفاء کے بارے میں اپنا نقطہِ نظر بھی بیان کیا اور انتشار پھیلانے والے گروہوں سے بھی اظہارِ براءت کیا۔ جب حضرت عثمان کو خلیفہ بنایا گیا تو تب بھی امام علیؑ نے اپنے حقدارِ خلافت ہونے کو عیاں کیا لیکن اپنی خاموشی کی وجہ اس طرح سے بیان فرمائی: > لَقَدْ عَلِمْتُمْ‏ أَنِّي‏ أَحَقُ‏ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِي وَوَاللَّهِ لَأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ وَلَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً الْتِمَاساً لِأَجْرِ ذَلِكَ وَفَضْلِهِ وَزُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوهُ مِنْ زُخْرُفِهِ وَزِبْرِجِه‏؛تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہنچتا ہے۔ خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی، میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا۔ تاکہ (اس صبر پر) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت اور آرائش کو ٹھکرا دوں جس پر تم مٹے ہوئے ہو <.[10]سید رضی، نہج البلاغہ ، خطبہ ۷۴۔ امام علیؑ ایک اور مقام پر اپنی خلافت کے حق کے متعلق فرماتے ہیں:فَأَعِينُونِي‏ بِمُنَاصَحَةٍ خَلِيَّةٍ مِنَ الْغِشِّ سَلِيمَةٍ مِنَ الرَّيْبِ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاس‏؛ایسی خیر خواہی کے ساتھ میری مدد کرو کہ جس میں دھوکا فریب ذرا نہ ہو، اور شک و بدگمانی کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس لیے کہ میں ہی لوگوں (کی امامت) کیلئے سب سے زیادہ اولیٰ و مقدم ہوں.[11]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۷۵، خطبہ ۱۷۵۔

خلیفہ اوّل کی جب بیعت ہو گئی تو اس وقت امام علیؑ نے آواز بلند کرنے کے بعد اپنے حق سے خاموشی اختیار کر لی جس کی بنیادی وجہ دین کی بقاء اور اسلامی معاشرے کی سالمیت تھی۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ ارشاد فرماتے ہیں:> فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي مُعِينٌ إِلَّا أَهْلُ بَيْتِي فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ وَأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى وَشَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا وَصَبَرْتُ عَلَى أَخْذِ الْكَظَمِ وَعَلَى أَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَم‏؛میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو مجھے اپنے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی اپنا معین و مدد گار نظر نہ آیا۔ میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں پھندے تھے مگر میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پی لئے اور گلو گرفتگی کے باوجود حنظل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا <.[12]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۶۷، خطبہ ۲۶۔

نہج البلاغہ خطبہ ۳۰ میں حضرت عثمان کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے امام علیؑ فرماتے ہیں:> لَوْ أَمَرْتُ‏ بِهِ‏ لَكُنْتُ‏ قَاتِلًا أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ لَكُنْتُ نَاصِراً ؛ غَيْرَ أَنَّ مَنْ نَصَرَهُ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ خَذَلَهُ مَنْ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ، وَمَنْ خَذَلَهُ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ نَصَرَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، وَأَنَا جَامِعٌ لَكُمْ أَمْرَهُ اسْتَأْثَرَ فَأَسَاءَ الْأَثَرَةَ وَجَزِعْتُمْ فَأَسَأْتُمُ الْجَزَعَ، وَلِلَّهِ حُكْمٌ وَاقِعٌ فِي الْمُسْتَأْثِرِ وَالْجَازِع‏؛ اگر میں ان کے قتل کا حکم دیتا تو البتہ ان کا قاتل ٹھہرتا اور اگر ان کے قتل سے (دوسروں کو) روکتا تو ان کا معاون و مددگار ہوتا (میں بالکل غیر جانبدار رہا)، لیکن حالات ایسے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی نصرت و امداد کی وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم ان کی نصرت نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں اور جن لوگوں نے ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا وہ نہیں خیال کرتے کہ ان کی مدد کرنے والے ہم سے بہتر و برتر ہیں ۔ میں حقیقت امر کو تم سے بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے (اپنے عزیزوں کی) طرفداری کی تو طرفداری بُری طرح کی اور تم گھبرا گئے تو بُری طرح گھبرا گئے اور (ان دونوں فریق کی) بے جا طرفداری کرنے والے اور گھبرا اٹھنے والے کے درمیان اصل فیصلہ کرنے والا اللہ ہے <. [13]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۷۳، خطبہ نمبر ۳۰۔

امام علیؑ نے خلیفہ سوم کے بعد اسی وحدتِ امت کی اساس پر اپنی خلافت کو قبول فرمایا ۔ ورنہ ان بگڑے ہوئے حالات میں امام علیؑ حکومت لینا نہیں چاہتےتھے بلکہ مزید زمینہ سازی کرنے کے بعد اس کا حصول چاہتے تھے، جیساکہ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے یہ کلمات وارد ہوئے ہیں:> دَعُونِي‏ وَالْتَمِسُوا غَيْرِي فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَأَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَلَا تَثْبُتُ عَلَيْهِ الْعُقُولُ، وَإِنَّ الْآفَاقَ قَدْ أَغَامَتْ وَالْمَحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ. وَاعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ وَلَمْ أُصْغِ إِلَى قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ وَإِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ، وَلَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وَأَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ وَأَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيرًا؛مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کیلئے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو۔ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں۔ جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں۔ (دیکھو!) اُفق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ راستہ پہچاننے میں نہیں آتا۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسا میں ہوں اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دنیوی مفاد کیلئے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے <.[14]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۳۶، خطبہ ۹۰۔

 نہج البلاغہ میں امام علیؑ خلافت قبول کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہیں: > فَتَدَاكُّوا عَلَيَّ تَدَاكَّ الْإِبِلِ الْهِيمِ يَوْمَ وِرْدِهَا وَقَدْ أَرْسَلَهَا رَاعِيهَا وَخُلِعَتْ مَثَانِيهَا حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُمْ قَاتِلِيَّ أَوْ بَعْضُهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَدَيَّ وَقَدْ قَلَّبْتُ هَذَا الْأَمْرَ بَطْنَهُ وَظَهْرَهُ حَتَّى مَنَعَنِي النَّوْمَ فَمَا وَجَدْتُنِي يَسَعُنِي إِلَّا قِتَالُهُمْ أَوِ الْجُحُودُ بِمَا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ ص فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مُعَالَجَةِ الْعِقَابِ وَ مَوْتَاتُ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ مَوْتَاتِ الْآخِرَة؛ وہ اس طرح بے تحاشا میری طرف لپکے جس طرح پانی پینے کے دن وہ اونٹ ایک دوسرے پر ٹوٹتے ہیں کہ جنہیں ان کے ساربان نے پیروں کے بندھن کھول کر کھلا چھوڑ دیا ہو۔ یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ یا تو مجھے مار ڈالیں گے یا میرے سامنے ان میں سے کوئی کسی کا خون کر دے گا۔ میں نے اس امر کو اندر باہر سے الٹ پلٹ کر دیکھا تو مجھے جنگ کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی، یا یہ کہ محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکام سے انکار کر دوں، لیکن آخرت کی سختیاں جھیلنے سے مجھے جنگ کی سختیاں جھیلنا سہل نظر آیا اور آخرت کی تباہیوں سے دنیا کی ہلاکتیں میرے لئے آسان نظر آئیں <.[15]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۹۱، خطبہ ۵۴۔

امام علیؑ کے اختلاف کے اسباب:

امام علیؑ کے کلام میں جنگ اور اختلاف کے متعدد اسباب وارد ہوئے ہیں جن میں نکتہِ مشترک یہ پہلو ہے کہ دین کے خلاف اور ظلم و فساد پر وحدت نہیں ہو سکتی۔ امام علیؑ نے متعدد مقام پر جو خطبات اور مکتبوبات تحریر کیے ان سے درج ذیل اسبابِ اختلاف سامنے آتے ہیں:

۱۔معاشرے میں امن و امان کے قیام کی خاطر اختلاف:

اسلامی معاشرے کی بقاء اور امتِ اسلامیہ کی جان و مال و ناموس کے تحفظ کو امام علیؑ دیگر اہداف پر فوقیت دیتے تھے۔ خلافتِ علوی کے قیام کے بعد اکابر صحابہ و تابعین کی جانب سے جن جنگوں کو مسلط کیا گیا امام علیؑ ان جنگوں سے مکمل اجتناب کی کوشش کرتے رہے لیکن جب باغی گروہوں کی طرف سے فساد اور قتل و غارت حد تجاوز کر گیا تو معاشرے کی فلاح و بہبود اور امت اسلامیہ کے تحفظ کی خاطر مجبوراً امام علیؑ کو جنگیں لڑنا پڑیں۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں: > هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ، اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ وَلَا الْتِمَاسَ شَيْ‏ءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ وَلَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ، وَنُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ وَتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ وَسَمِعَ وَأَجَابَ لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ ص بِالصَّلَاةِ وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ وَالدِّمَاءِ وَالْمَغَانِمِ وَالْأَحْكَامِ وَإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ، فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُهُ وَلَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِهِ وَلَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِهِ وَلَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ وَلَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ وَيَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ وَلَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الْأُمَّة؛کتنا دشوار ہے کہ میں تمہارے سہارے پر چھپے ہوئے عدل کو ظاہر کروں یا حق میں پیدا کی گئی کجیوں کو سیدھا کروں ۔ بار الہٰا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا اِس لئے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی، بلکہ یہ اس لئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیا ہے (اے لوگو!) تمہیں یہ معلوم ہے کہ ناموس، خون، مالِ غنیمت، (نفاذ) احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کیلئے کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی بخیل حاکم ہو، کیونکہ اس کا دانت مسلمانوں کے مال پر لگا رہے گا اور نہ کوئی جاہل کہ وہ انہیں اپنی جہالت کی وجہ سے گمراہ کرے گا اور نہ کوئی کج خلق کہ وہ اپنی تند مزاجی سے چرکے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مال و دولت میں بے راہ روی کرنے والا کہ وہ کچھ لوگوں کو دے گا اور کچھ کو محروم کر دے گا اور نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا کہ وہ (دوسروں کے) حقوق کو رائیگاں کر دے گا اور انہیں انجام تک نہ پہنچائے گا اور نہ کوئی سنت کو بیکار کر دینے والا کہ وہ اُمت کو تباہ و برباد کر دے گا۔ [16]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۲۱، خطبہ ۱۲۹۔

۲۔ظالم سے مظلوم کو حق دلوانا:

ہر دور میں الہٰی حجج کے بنیادی اہداف میں اعلیٰ ترین ہدف ظلم و ستم کا کامل خاتمہ ہے۔ امام علیؑ اللہ سبحانہ کے خلیفہ و امام ہونے کے بناء پر اقتدار کے ذریعے اسی ہدف کا حصول چاہتے تھے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ اپنی بیعت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اپنے اہداف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: > لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ‏ فَلْتَةً وَلَيْسَ أَمْرِي وَ أَمْرُكُمْ وَاحِداً إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّهِ وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لِأَنْفُسِكُمْ، أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَايْمُ اللَّهِ لَأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِهِ وَلَأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهِ حَتَّى أُورِدَهُ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَإِنْ كَانَ كَارِها؛تم نے میری بیعت اچانک اور بے سوچے سمجھے نہیں کی تھی اور نہ میرا اور تمہارا معاملہ یکساں ہے۔ میں تمہیں اللہ کیلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے شخصی فوائد کیلئے چاہتے ہو۔اے لوگو! اپنی نفسانی خواہشوں کے مقابلہ میں میری اعانت کرو۔ خدا کی قسم! میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے سر چشمہ حق تک کھینچ کر لے جاؤں گا۔ اگرچہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے   < ۔[17]سید رضی، نہج البلاغہ ، ۳۲۸، خطبہ ۱۳۴۔

نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں : > وَلَقَدْ ضَرَبْتُ‏ أَنْفَ‏ هَذَا الْأَمْرِ وَعَيْنَهُ وَ قَلَّبْتُ ظَهْرَهُ وَبَطْنَهُ فَلَمْ أَرَ لِي فِيهِ إِلَّا الْقِتَالَ أَوِ الْكُفْرَ بِمَا جَاءَ [بِهِ‏] مُحَمَّدٌ إِنَّهُ قَدْ كَانَ عَلَى الْأُمَّةِ وَالٍ أَحْدَثَ أَحْدَاثاً وَ أَوْجَدَ النَّاسَ مَقَالًا فَقَالُوا ثُمَّ نَقَمُوا فَغَيَّرُوا؛ میں نے اس امر کو اچھی طرح سے پرکھ لیا ہے اور اندر باہر سے دیکھ لیا ہے۔ مجھے تو جنگ کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا، یا یہ کہ رسول ﷺ کی دی ہوئی خبروں سے انکار کر دوں۔ حقیقت یہ ہے (مجھ سے پہلے) اس اُمت پر ایک ایسا حکمران تھا جس نے دین میں بدعتیں پھیلائیں اور لوگوں کو زبانِ طعن کھولنے کا موقعہ دیا۔ (پہلے تو) لوگوں نے اُسے زبانی کہا سنا، پھر اس پر بگڑے اور آخر سارا ڈھانچہ بدل دیا  <.[18]سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۸۴، خطبہ ۴۳۔

امام علیؑ لوگوں کے انتشار اور اسباب تفرقہ بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:> رَايَةُ ضَلَالٍ قَدْ قَامَتْ‏ عَلَى‏ قُطْبِهَا وَتَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا تَكِيلُكُمْ بِصَاعِهَا وَتَخْبِطُكُمْ بِبَاعِهَا قَائِدُهَا خَارِجٌ مِنَ الْمِلَّةِ قَائِمٌ عَلَى [الضَّلَّةِ] الضِّلَّة، فَلَا يَبْقَى يَوْمَئِذٍ مِنْكُمْ إِلَّا ثُفَالَةٌ كَثُفَالَةِ الْقِدْرِ أَوْ نُفَاضَةٌ كَنُفَاضَةِ الْعِكْمِ تَعْرُكُكُمْ عَرْكَ الْأَدِيمِ وَتَدُوسُكُمْ دَوْسَ الْحَصِيدِ وَتَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْ بَيْنِكُمُ اسْتِخْلَاصَ الطَّيْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِينَةَ مِنْ بَيْنِ هَزِيلِ الْحَبِّ، أَيْنَ تَذْهَبُ بِكُمُ الْمَذَاهِبُ وَتَتِيهُ بِكُمُ الْغَيَاهِبُ وَتَخْدَعُكُمُ الْكَوَاذِبُ وَمِنْ أَيْنَ تُؤْتَوْنَ وَأَنَّى تُؤْفَكُونَ فَـ { لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ‏ } وَلِكُلِّ غَيْبَةٍ إِيَابٌ، فَاسْتَمِعُوا مِنْ رَبَّانِيِّكُمْ وَأَحْضِرُوهُ قُلُوبَكُمْ وَاسْتَيْقِظُوا إِنْ هَتَفَ بِكُمْ، وَلْيَصْدُقْ رَائِدٌ أَهْلَهُ وَلْيَجْمَعْ شَمْلَهُ وَلْيُحْضِرْ ذِهْنَهُ، فَلَقَدْ فَلَقَ لَكُمُ الْأَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ وَقَرَفَهُ قَرْفَ الصَّمْغَةِ فَعِنْدَ ذَلِكَ أَخَذَ الْبَاطِلُ مَآخِذَهُ وَرَكِبَ الْجَهْلُ مَرَاكِبَهُ وَعَظُمَتِ الطَّاغِيَةُ وَقَلَّتِ الدَّاعِيَةُ وَصَالَ الدَّهْرُ صِيَالَ السَّبُعِ الْعَقُورِ وَهَدَرَ فَنِيقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ كُظُومٍ وَتَوَاخَى النَّاسُ عَلَى الْفُجُورِ وَتَهَاجَرُوا عَلَى الدِّينِ وَتَحَابُّوا عَلَى الْكَذِبِ وَتَبَاغَضُوا عَلَى الصِّدْقِ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ كَانَ الْوَلَدُ غَيْظاً وَالْمَطَرُ قَيْظاً وَتَفِيضُ اللِّئَامُ فَيْضاً وَتَغِيضُ الْكِرَامُ غَيْضاً وَكَانَ أَهْلُ ذَلِكَ الزَّمَانِ ذِئَاباً وَسَلَاطِينُهُ سِبَاعاً وَأَوْسَاطُهُ أُكَّالًا [أَكَالًا] وَفُقَرَاؤُهُ أَمْوَاتاً وَغَارَ الصِّدْقُ وَفَاضَ الْكَذِبُ وَاسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ وَتَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوبِ وَصَارَ الْفُسُوقُ نَسَباً وَالْعَفَافُ عَجَباً وَلُبِس‏ الْإِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوبا؛باوجود اس کے باطل پھر اپنے مرکز پر آ گیا اور جہالت اپنی سواریوں پر چڑھ بیٹھی، اس کی طغیانیاں بڑھ گئی ہیں اور (حق کی) آواز دَب گئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندے کی طرح حملہ کر دیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعد پھر بلبلانے لگا ہے، لوگوں نے فسق و فجور پر آپس میں بھائی چارہ کر لیا ہے اور دین کے سلسلہ میں ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، جھوٹ پر تو ایک دوسرے سے یارانہ گانٹھ رکھا ہے اور سچ کے معاملہ میں باہم کد رکھتے ہیں۔(ایسے موقعہ پر) بیٹا (آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کے بجائے) غیظ و غضب کا سبب ہو گا اور بارشیں گرمی و تپش کا، کمینے پھیل جائیں گے اور شریف گھٹتے جائیں گے۔ اس زمانہ کے لوگ بھیڑیئے ہوں گے اور حکمران درندے، درمیانی طبقہ کے لوگ کھاپی کر مست رہنے والے اور فقیر و نادار بالکل مردہ، سچائی دَب جائے گی اور جھوٹ اُبھر آئے گا، محبت (کی لفظیں) صرف زبانوں پر آئیں گی اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رہیں گے، نسب کا معیار زنا ہو گا، عفت و پاکدامنی نرالی چیز سمجھی جائے گی اور اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا <.[19]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۵۸، خطبہ ۱۰۶۔

امام علیؑ باطل راہوں اور گمراہ کن چیزوں پر وحدت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ تحکیم کے مسئلہ میں جب اختلاف اٹھا تو اس وقت امام علیؑ نے وحدت کے اصول ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: < فَلَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً وَلَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ أَمْرِكُمْ وَلَا لَبَّسْتُهُ عَلَيْكُمْ إِنَّمَا اجْتَمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى اخْتِيَارِ رَجُلَيْنِ أَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَلَّا يَتَعَدَّيَا الْقُرْآنَ فَتَاهَا عَنْهُ وَتَرَكَا الْحَقَ‏ وَهُمَا يُبْصِرَانِهِ وَكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَيَا عَلَيْهِ وَقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ وَالصَّمْدِ لِلْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وَجَوْرَ حُكْمِهِمَا؛تمہارا بُرا ہو! میں نے کوئی مصیبت تو کھڑی نہیں کی اور نہ کسی بات میں تمہیں دھوکا دیا ہے اور نہ اس میں فریب کاری کی ہے۔ تمہاری جماعت ہی کی یہ رائے قرار پائی تھی کہ دو آدمی چن لئے جائیں جن سے ہم نے یہ اقرار لے لیا تھا کہ وہ قرآن سے تجاوز نہ کریں گے۔ لیکن وہ اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے باوجود قرآن سے بہک گئے اور حق کو چھوڑ بیٹھے اور ان کے جذبات بے راہ روی کے مقتضی ہوئے۔ چنانچہ وہ اس روش پر چل پڑے (حالانکہ) ہم نے پہلے ہی ان سے شرط کر لی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق کا مقصد پیش نظر رکھنے میں بد نیتی و بے راہ روی کو دخل نہ دیں گے۔ (اگر ایسا ہوا تو وہ فیصلہ ہمارے لئے قابل تسلیم نہ ہو گا)  <.[20]سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۵، ص

امام علیؑ نے خلافت کو بنیادی طور پر اسی لیے قبول فرمایا تاکہ دین کے مٹے ہوئے نشانات زندہ کیے جا سکیں اور شہروں میں امن و بہبودی کو وجود دیا جا سکے۔ لیکن جب ان اہداف میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگیں تو امام علیؑ نے جہاں لوگوں کی سرزنش کی وہاں باطل کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اختلاف کو ظاہر کیا جیساکہ نہج البلاغہ کے اس خطبہ میں وارد ہوا ہے:> أَيَّتُهَا النُّفُوسُ الْمُخْتَلِفَةُ وَالْقُلُوبُ الْمُتَشَتِّتَةُ الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ وَالْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ أَظْأَرُكُمْ عَلَى الْحَقِّ وَأَنْتُمْ تَنْفِرُونَ عَنْه‏ نُفُورَ الْمِعْزَى مِنْ وَعْوَعَةِ الْأَسَدِ هَيْهَاتَ أَنْ أَطْلَعَ بِكُمْ سَرَارَ الْعَدْلِ أَوْ أُقِيمَ اعْوِجَاجَ الْحَقِّ، اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ وَلَا الْتِمَاسَ شَيْ‏ءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ وَلَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ وَنُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ‏ فِي بِلَادِكَ فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ وَتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ وَسَمِعَ وَأَجَابَ لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ بِالصَّلَاةِ، وَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْوَالِي عَلَى الْفُرُوجِ وَالدِّمَاءِ وَالْمَغَانِمِ وَالْأَحْكَامِ وَإِمَامَةِ الْمُسْلِمِينَ الْبَخِيلُ فَتَكُونَ فِي أَمْوَالِهِمْ نَهْمَتُهُ وَلَا الْجَاهِلُ فَيُضِلَّهُمْ بِجَهْلِهِ وَلَا الْجَافِي فَيَقْطَعَهُمْ بِجَفَائِهِ وَلَا الْحَائِفُ لِلدُّوَلِ فَيَتَّخِذَ قَوْماً دُونَ قَوْمٍ وَلَا الْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ فَيَذْهَبَ بِالْحُقُوقِ وَيَقِفَ بِهَا دُونَ الْمَقَاطِعِ وَلَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَيُهْلِكَ الْأُمَّة؛اے الگ الگ طبیعتوں اور پراگندہ دل و دماغ والو کہ جن کے جسم موجود اور عقلیں گم ہیں، میں تمہیں نرمی و شفقت سے حق کی طرف لانا چاہتا ہوں اور تم اس سے اس طرح بھڑک اٹھتے ہو جس طرح شیر کے ڈکارنے سے بھیڑ بکریاں۔ کتنا دشوار ہے کہ میں تمہارے سہارے پر چھپے ہوئے عدل کو ظاہر کروں یا حق میں پیدا کی ہوئی کجیوں کو سیدھا کروں۔بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے (جنگ و پیکار کی صورت میں) ظاہر ہوا اِس لئے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی، بلکہ یہ اس لئے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو (پھر ان کی جگہ پر) پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کریں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے) جاری ہو جائیں جنہیں بیکار بنا دیا گیا ہے۔اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کی اور تیرے حکم کو سن کر لبیک کہی اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی نے بھی نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نہیں کی۔(اے لوگو!) تمہیں یہ معلوم ہے کہ ناموس، خون، مالِ غنیمت، (نفاذ) احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کیلئے کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی بخیل حاکم ہو، کیونکہ اس کا دانت مسلمانوں کے مال پر لگا رہے گا اور نہ کوئی جاہل کہ وہ انہیں اپنی جہالت کی وجہ سے گمراہ کرے گا اور نہ کوئی کج خلق کہ وہ اپنی تند مزاجی سے چرکے لگاتا رہے گا اور نہ کوئی مال و دولت میں بے راہ روی کرنے والا کہ وہ کچھ لوگوں کو دے گا اور کچھ کو محروم کر دے گا اور نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا کہ وہ (دوسروں کے) حقوق کو رائیگاں کر دے گا اور انہیں انجام تک نہ پہنچائے گا اور نہ کوئی سنت کو بیکار کر دینے والا کہ وہ اُمت کو تباہ و برباد کر دے گا <. [21]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ، خطبہ ۱۲۹۔

امام علیؑ ظالمین کو لوٹ مار کے پیسے پر جیتا نہیں دیکھ سکتے تھے، چنانچہ امامؑ نے اپنی حکومت میں کرپشن کا خاتمہ کیا اور ظالمین سے مظلوم کے چھینے ہوئے حق کی واپسی کو اپنا ہدف قرار دیا اور اس راہ میں ہر قسم کے اختلاف کو قبول کیا۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:> لَمْ تَكُنْ بَيْعَتُكُمْ إِيَّايَ فَلْتَةً وَلَيْسَ أَمْرِي وَ أَمْرُكُمْ وَاحِداً إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّهِ وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لِأَنْفُسِكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَايْمُ اللَّهِ لَأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِهِ وَلَأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهِ حَتَّى أُورِدَهُ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَإِنْ كَانَ كَارِها؛تم نے میری بیعت اچانک اور بے سوچے سمجھے نہیں کی تھی اور نہ میرا اور تمہارا معاملہ یکساں ہے۔ میں تمہیں اللہ کیلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے شخصی فوائد کیلئے چاہتے ہو۔ اے لوگو! اپنی نفسانی خواہشوں کے مقابلہ میں میری اعانت کرو۔ خدا کی قسم! میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے سر چشمہ حق تک کھینچ کر لے جاؤں گا۔ اگرچہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے  <.[22]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۹۴، خطبہ ۱۳۴۔

صدائے حق اور مشکلات کا سامنا:

جس طرح وحدت کا سبب دینِ حق اور معیاراتِ عدل و انصاف ہے اسی طرح اختلا ف کا سبب ذاتیات کی بجائے باطل اور معیاراتِ  ظلم و نا انصافی ہے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے فرمودات سے واضح ہوتا ہے کہ باطل ، گمراہی اور ظلم پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور ان کے خلاف قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ اگر صدائے حق کی ایسی تاثیر برپا ہو کہ قیامِ حق ممکن ہوتا جائے تو یہ مورد پُر زور طریقے سے استقامت، مبارزہ اور قیامِ حق کی برملاکوششوں سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اگر قیامِ حق کی کوششوں سے دشمنانِ اسلام کے مسلط ہونے یا حق جماعت کے ختم ہونے یا دین اسلام کی نابودی کی صورت میں نکلتا ہو تو ان کوششوں کو تقیہ کی ڈھال میں انجام دینا لازم ہے یا اس زمین سے ہجرت راہِ حل ہے۔امام علیؑ نے جن وجوہات کی بناء پر حقِ خلافت و امامت پر ناقابل برداشت صبر کیا اس کی بنیادی یہی وجوہات ان کے کلام میں وارد ہوئی ہیں ۔

وحدت اسلامی اور سیرتِ امام جعفر صادقؑ :

امام جعفر صادقؑ سے صحیح السند روایت وارد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امامؑ عامۃ المسلمین کے خوشی غمی کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ شیخ کلینیؒ نے الکافی میں روایت نقل کی ہے جسے علامہ مجلسیؒ نے مرآۃ العقول میں صحیح السند قرار دیا ہے:عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ‏: أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ غَلَاءٌ وَقَحْطٌ حَتَّى أَقْبَلَ الرَّجُلُ الْمُوسِرُ يَخْلِطُ الْحِنْطَة بِالشَّعِيرِ، وَيَأْكُلُهُ وَيَشْتَرِي بِبَعْضِ الطَّعَامِ وَكَانَ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × طَعَامٌ جَيِّدٌ قَدِ اشْتَرَاهُ أَوَّلَ السَّنَةِ، فَقَالَ لِبَعْضِ مَوَالِيهِ: اشْتَرِ لَنَا شَعِيراً فَاخْلِطْ بِهَذَا الطَّعَامِ أَوْ بِعْهُ، فَإِنَّا نَكْرَهُ أَنْ نَأْكُلَ جَيِّداً وَيَأْكُلُ النَّاسُ رَدِيّا؛اہل مدینہ مہنگائی اور قحط کا شکار ہو گئے ، یہاں تک کہ امیر شخص بھی گندم کو جَو سے ملاتا اور کھاتا تھا اور بعض خوراک اسے خریدنا پڑتی۔ امام صادقؑ کے پاس بہترین خوراک (اعلیٰ گندم) تھی جو آپؑ نے سال کے شروع میں خرید لی تھی، آپؑ نے بعض غلاموں کو بلایا اور کہا: ہمارے لیے جَو خرید کر لاؤ اور اسے اس خوراک (گندم) کے ساتھ ملا دو یا اس گندم کو بیچ دو کیونکہ ہمیں پسند نہیں ہے کہ ہم بہترین خوراک کھائیں اور لوگ ردئ و پست خوراک تناول کریں ۔[23]مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول ص، ج ۱۹، ص ۱۵۷، حدیث: ۱۔

منابع:

منابع:
1 بقرۃ: ۲۱۳۔
2 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۲۵۳، خطبہ ۹۴، ترجمہ: مفتی جعفر حسین۔
3 سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ
4 سید رضی ، نہج البلاغہ ، ص ۲۹۷، خطبہ ۱۱۹۔
5 آل عمران: ۶۴۔
6 آل عمران : ۱۰۳۔
7 سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۱۲۳، خطبہ ۱۸، ترجمہ: مفتی جعفر حسینؒ۔
8 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۹۵،مکتوب ۵۸۔
9 سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۵، ص ۲۶۰۔
10 سید رضی، نہج البلاغہ ، خطبہ ۷۴۔
11 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۷۵، خطبہ ۱۷۵۔
12 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۶۷، خطبہ ۲۶۔
13 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۷۳، خطبہ نمبر ۳۰۔
14 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۳۶، خطبہ ۹۰۔
15 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۹۱، خطبہ ۵۴۔
16 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۲۱، خطبہ ۱۲۹۔
17 سید رضی، نہج البلاغہ ، ۳۲۸، خطبہ ۱۳۴۔
18 سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۸۴، خطبہ ۴۳۔
19 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۵۸، خطبہ ۱۰۶۔
20 سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۵، ص
21 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ، خطبہ ۱۲۹۔
22 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۹۴، خطبہ ۱۳۴۔
23 مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول ص، ج ۱۹، ص ۱۵۷، حدیث: ۱۔
Views: 87

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: بعثت کے متعلق رہبر معظم کے ۲۰فرمودات