loading

علم عرفان میں اجمال یعنی ملکہ

تحریر: سید محمد حسن رضوی

تمام وجوداتِ امکان اجمالی طور پر اجمال یعنی وجودِ جمعی، وجودِ فشردگی، یعنی ملکہِ اجتہاد، ملاکات کو اجمال کہتے ہیں۔ یہ توضیح المسائل وہی ملکہ اجتہاد ہے ، توضیح المسائل وجودِتفصیل ہے اس ملکہ ِ اجتہاد کا اور ملکہِ اجتہاد وہی توضیح المسائل ہے لیکن اجمالی طور پر۔ عقل اول تمام حقائق رکھتا ہے لیکن بالاجمال۔ ہرموجود استعدادِ خاص رکھتا ہے کہ وہ جس کو قبول کرے۔ موجوداتِ سماوی مؤثر ہیں موجوداتِ ارضی کی پیدائش کے لیے، یہ اسرار آج بھی آشکار نہیں ہو سکے، جب چاند آسمان پر ہو تو سمندر کا پانی اوپر ہوتا ہے اور جب چاند روشن نہ ہو تو پانی نیچے ، ہزاروں مثالیں ہیں کہ سماوی موجودات ارضی موجودات پر مؤثر ہیں۔ لا مؤثر فی الوجود الا اللہ ، یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کیونکہ ہر شیء اللہ تعالی کے ماتحت مؤثر ہے۔ نظامِ الہٰی سبب و مسبب ہے  اور مسبب الاسباب [1]ابن طاووس، علی بن موسی، المجتنی من الدعاء المجتبی، ص ۴۰۔ اللہ سبحانہ ہے۔ انسان عالمِ کبیر کا نسخہ ہے۔ امام علیؑ سے منسوب کلمات شرح فصوص میں نقل کیے گئے ہیں۔ علامہ حسن زادہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اشعار امام علیؑ کے نہیں بلکہ ایک بزرگ شخصیت تھی جن کا نام علی بن ابی طالب قیروانی کے ہیں جس کو امام علیؑ کی طرف منسوب کر دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح بہت کلمات ایسے ہیں سید حمیری کے ہیں لیکن ان کی نسبت امام علیؑ کی طرف دے ان کا فرمان بنا دیا گیا ہے۔ وہ جو یقینی طور پر امام علیؑ کے کلمات ہیں وہ رجز ہیں جو میدانِ جنگ میں امامؑ نے فرمائے تھے، جیسے سمتنی امی حیدرہ ۔بہرحال امام علیؑ سے منسوب اشعار اس طرح سے وارد ہوئے ہیں:

دواؤك فيك وما تشعر
وداؤك منك وما تبصر
وتزعم أنك جرم صغير
وفيك انطوى العالم الأكبر
وأنت الكتاب المبين الذي
بأحرفه يظهر المضمر. [2]مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول، ج ۳، ص ۲۷۲۔

 موجوداتِ عالم آیت الہٰی ہے اور سب سے بڑی آیت انسان کامل ہے۔ شیخ اکبر محی الدین کہتے ہیں: ’’انا القرآن وسبع المثانی‘‘ یعنی انسان کامل کی زبان سے ترجمانی کر رہے ہیں کہ انسانِ کامل قرآن ہے اور سبعِ مثانی ہے۔یہ کلمات ابن عربی کے اپنے بارے میں نہیں ہے جیساکہ آگے ابن عربی نے ذکر کیا ہے کہ لست ننبی ولا رسول۔ بعض نے اگرچے یہ اعتراض کیا ہے کہ ابن عربی نے اپنے آپ کو قرآن اور سورہ فاتحہ کہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کامل کو قرآن اور سبع مثانی کہا ہے۔ سبع مثانی کے بارے میں مختلف اقوال ہیں اور ان میں سب سے معروف قول سبع مثانی سورہ حمد ہے جیساکہ احادیث میں بھی یہی آیا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ سب سورہ حمد میں ہے اور جو سورہ حمد میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں وہ باء کے نیچے نقطہ میں ہے اور نقطہ امام علیؑ ہیں۔ نقطہ اس لیے کہا ہے کیونکہ کتاب کلمات سے پر ہے اور کلمات کا منشأ نقطہ ہے۔

Views: 80

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تناسخ ملکی اور ملکوتی