loading

ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کے فوائد

تحریر : سید محمد حسن رضوی
03/01/2024

ماہِ رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس میں ہر بالغ صاحب استطاعت شخص پر روزہ رکھنا واجب ہے۔ اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا اور لیلۃ القدر سے اس کی راتوں کو نوازا گیا ہے۔ہر مہینہ خیر و برکت اور جہنم کی آگ سے چھٹکارہ کا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر رحمتوں کو نازل فرمایا ہے کہ گویا شیطان کو زندان میں بند کر دیا گیا ہو۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان کے ظاہری فوائد کو جان لے تو بھر پور رغبت سے ماہِ رمضان کا استقبال کرے گا اور اس کے رخصت ہونے پر غمگین و محزون ہو جائے گا جیساکہ رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اہل بیتؑ کی سیرت میں ملتا ہے۔ آیات و روایات میں جہاں واجب روزوں کے تفصیلی احکامِ شرعیہ بیان کیے گئے ہیں وہاں روزے کے فوائد اور اس کے واجب ہونے کی بعض حکمتوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ذیل میں روزے کے بعض فوائد کو آیات و روایات کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں :

تقوی الہٰی کا حصول:

سورہ بقرہ میں ماہِ رمضان میں روزہ کے احکام بیان کرتے ہوئے تسلسل سے چند آیات کریمہ وارد ہوئی ہے ۔ ان آیات کا آغاز جس آیت کریمہ سے ہوتا ہے اس میں تقویٰ الہٰی کے حصول کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون‏؛اے  ایمان والو ! تمہارے اوپر روزے فرض کیے گئے ہیں جیساکہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کر سکو}۔[1]بقرہ: ۱۸۳۔تقویٰ الہٰی انسانی زندگی میں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اس تک رسائی کے لیے اللہ سبحانہ نے ماہِ رمضان میں روزے رکھنا لازم قرار دیا ہے۔

نزول قرآن کا مہینہ اور شبِ قدر:

قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اللہ سبحانہ نے اس مہینے میں قرآن کو لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے ۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پانے کی سعادت سے ہمکنار ہو اسے اس مہینہ میں روزے رکھنا چاہیے ، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذي أُنْزِلَ فيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى‏ وَالْفُرْقانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ؛ ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا جوکہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور واضح ہدایت و فرقان ہے ، لہٰذا تم میں سے جو اس مہینہ کو پائے اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے }.[2]بقرۃ: ۱۸۵۔تفسیر قمی میں مذکور ہے کہ امام صادقؑ سے پوچھا گیا کہ ماہِ رمضان میں قرآن نازل کیا گیا تو یہ کیسے ممکن ہے؟ امامؑ نے فرمایا: قرآن بیس (۲۰) سالوں میں نازل کیا گیا ، پھر فرمایا: ماہِ رمضان میں ایک جملہ میں قرآن بیت المعمور میں نازل ہوا پھر بیت المعمور سے بیس (۲۰) سالوں میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا۔[3]قمی ، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۱، ص ۶۶۔ سورہ طور میں بیت المعمور کی قسم کھائی گئی ہے۔ [4]طور: ۴۔ تفسیر قمی میں ہی وارد ہوا ہے کہ بیت المعمور چوتھا آسمان ہے جوکہ ایک گڑھا ہے جس میں ہر روز ۷۰ ہزار فرشتے داخل ہوتے اور پھر کبھی نہیں لوٹتے۔ [5]قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۳۳۱ ۔
ماہِ رمضان کی ایک اہم خصوصیت شبِ قدر کا ہونا ہے کہ جسے سورہ القدر کے مطابق ہزار مہینوں سے افضل و بہتر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ انسانی بلندیوں میں سے ایک لیلۃ القدر کو پانا ہے۔ اللہ سبحانہ نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا اور لیلۃ القدر کی دوسری خصوصیت ہزار مہینوں سے افضل ہونا اور تیسری خصوصیت ملائکہ اور روح کا نزول اور چوتھی خصوصیت تا وقتِ فجر سلامتی سے ہمکنار ہونا قرار دیا ہے۔ [6]قدر: ۱-۵۔

احکامِ روزہ میں آسانی  اور شکر گزار بننا:

اللہ سبحانہ نے روزہ انسان کے انتہائی فائدے اور اوجِ کمال پر فائز ہونے کے لیے قرار دیا ہے۔ لہٰذا روزے کا وجوب استطاعت کی صورت میں ہے۔ اگر انسان مریض ہو یا سفر میں تو اس پر رزوہ فرض نہیں ۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا دیا کہ اللہ سبحانہ آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشقت ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:  وَمَنْ كانَ مَريضاً أَوْ عَلى‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى‏ ما هَداكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون‏ ؛ تم  سے جو مریض ہو یا سفر پر ہو ت اسے دیگر ایام میں اس عدد کو پورا کرنا چاہیے ، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے نہ کہ اللہ تمہارے پر تنگی چاہتا ہے اور اس عدد کو تمہیں مکمل کرنا چاہیے اور اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر جو اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور تاکہ تم شکر گزار بن سکو }۔[7]بقرہ: ۱۸۵۔ پس قرآن کریم نے روزے کے احکام میں آسانی اور تاکید کے ماہِ مبارک رمضان کے عدد کی تکمیل کی جائے اور اس عظیم نعمت اور توفیق پر اللہ تعالیٰ کی تکبیر بیان کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔

ماہِ برکت و رحمت و مغفرت:

ماہِ رمضان کا شمار ان مہینوں میں ہوتا ہے کہ جس کے فضائل، اعمال اور عظمت کا بیان متواتر اور صحیح ترین احادیث مبارکہ میں آیا ہے۔ ان روایات کا نچوڑ ظاہر ہوتا ہے کہ اس مہینے کا خصوصی اہتمام انسان کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کی اوج پر فائز کرتا ہے اور انسان اپنی زندگی میں اپنی روح اور آخرت کا جو  خسارہ اور نقصان کر چکا ہے اس کا کامل ازالہ کر کے قربِ الہٰی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ ذیل میں چند احادیث سے اہم فوائد کو نکات کی صورت میں بیان کیا جا رہا ہے:
۱۔ نیکیوں کا دگنا ہونا اور برائیوں کا مٹنا : معتبر حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ماہِ رمضان وہ عظیم مہینہ ہے جس میں اللہ نیکیوں کو دگنا کر دیتا ہے اور برائیوں کو مٹا دیتا ہے ۔ [8]صدوق، محمد بن علی، الامالی،  ص ۵۴، مجلس : ۱۳۔
۲۔ ماہِ مغفرت بشرطِ اعمال: معتبر حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس مہینہ میں صدقہ دے اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا، جو شخص اپنے ماتحت کے ساتھ اچھائی کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا، جو اس مہینہ میں حُسن اخلاق اختیار کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ، جو اس مہینے میں غصہ قابو کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا، جو اس مہینے میں صلہِ رحمی کرے گا اللہ کی مفغر فرمائے گا۔[9]صدوق، محمد بن علی، فضائل الأشہر الثلاثۃ، ص ۷۳، حدیث: ۵۳۔
۳۔ برکت و رحمت کا مہینہ: معتبر حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ تمارا یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرف نہیں ہے کیونکہ یہ مہینہ تمہاری طرف برکت و رحمت کے ہمراہ آتا ہے اور جب جاتا ہےتو گناہوں کی مغفرت لیے جاتا ہے۔ [10]صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ ، ج ۱، ص ۲۹۳۔
۴۔ گناہوں سے اجتناب ہی عبادت: معتبر خطبہِ شعبانیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مہینے اگر کوئی شخص گناہوں کا ترک کرے ، مثلاً وہ سوکر وقت گزارتا ہے تو بھی اللہ تعالیٰ اس کو عبادت شمار کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:اے لوگو! اللہ کا مہینہ کا تمہاری پاس برکت، رحمت اور مغفرت لے کر آ رہا ہے ، اللہ کے نزد یک یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ، اس کا دن تمام دنوں سے افضل اور اس کی راتیں تمام راتوں سے افضل اور اس کی گھڑیاں اور لمحات تمام لمحات سے افضل ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں تمہیں ضیافتِ الہٰی کی طرف دعوت دی گئی ہے، اس میں تمہیں اللہ کی کرامت والوں میں قرار دیا گیا ہے، تمہاری سانسیں اس میں تسبیح اور تمہاری نیند اس میں عبادت ہے، تمہارا عمل قبول اور تمہاری دعائیں مستحاب ہیں۔ [11]محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ،  ج ۵، ص ۴۷۹۔

۵: قیامت کی  بھوک و پیاس  کی یاد: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:  ۔

منابع:

منابع:
1 بقرہ: ۱۸۳۔
2 بقرۃ: ۱۸۵۔
3 قمی ، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۱، ص ۶۶۔
4 طور: ۴۔
5 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۳۳۱ ۔
6 قدر: ۱-۵۔
7 بقرہ: ۱۸۵۔
8 صدوق، محمد بن علی، الامالی،  ص ۵۴، مجلس : ۱۳۔
9 صدوق، محمد بن علی، فضائل الأشہر الثلاثۃ، ص ۷۳، حدیث: ۵۳۔
10 صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ ، ج ۱، ص ۲۹۳۔
11 محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ،  ج ۵، ص ۴۷۹۔
Views: 99

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قلب کے قرآنی و عرفانی معنی