loading
{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۶}

مسئلہ ِولایت  کی اہمیت

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى

بیان ہوا کہ ہماری بحث ولایت کی اس قسم میں ہے جو حکومت اور مدیریت کے معنی میں ہے۔ کسی بھی معاشرے کے اوپر حکومت اور اس کی مدیریت کا مسئلہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر حکومت اور مدیریت اچھی ہو تو معاشرہ ارتقاء کے مراحل کو تیزی سے طے کرتا ہے اور اگر بری ہو تو معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی تاکید 

دین اسلام حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے۔ بلکہ دین نے اس مسئلے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اسلامی ریاست تشکیل دی اور جب اس دنیا سے رخصت ہونے لگے تو اپنے بعد اسلامی امت کے لیے خلیفہ منصوب کر کے گئے۔ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ کو حکم دیا کہ مسئلہ ولایت کو امت کے لیے بیان کریں اور اگر یہ کام نہیں کرتے تو ان کی رسالت گویا قبول نہیں۔ وارد ہوا:«وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ».ترجمہ: اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔[1] مائدہ: ۶۷۔ غدیر کے موقع پر امام علیؑ کی جس ولایت کا اعلان ہوا وہ ولایت تشریعی تھی۔ ہم نے گزشتہ اقساط میں بیان کیا کہ ولایت کی تین قسمیں ہیں۔[2] سائٹ البر۔ جس ولایت کا غدیر میں اعلان ہوا وہ امیرالمومنینؑ کی تکوینی ولایت کا اعلان نہیں تھا۔ رسول اللہﷺ وہاں پر یہ بیان نہیں کرنا چاہتے تھے کہ علیؑ بہت فضائل کے مالک ہیں اور معنوی کمالات کے اعلی مقام پر فائز ہیں، ان کمالات کو تو سب مانتے ہی تھے۔ رسول اللہﷺ در اصل اس بات کا اعلان کرنا چاہ رہے تھے کہ آج کے بعد جس طرح سے تم سب پر میں سرپرست اور حاکم تھا میرے بعد علیؑ ہوں گے۔ امت مسلمہ کی مدیریت و حاکمیت کے مسئلے کو غدیر میں بیان کیا گیا۔ اور یہ مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ اللہ تعالی نے فرمایا اگر رسول یہ کام نہیں کرتے گویا انہوں نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہے اگر ولایت دین میں نہ ہو، وہ دین اور شریعت کسی کام کی نہیں۔

حکومت اور ولایت کی ضرورت

اس امر پر تقریبا تمام مسلم و غیر مسلم مفکرین کا اجماع ہے کہ معاشرے کے اندر ہرج مرج سے بچنے کے لیے قوانین اور حاکم کی ضرورت ہے۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:«لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِيرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ».ترجمہ: نظام انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہر حال ضروری ہے چاہے نیک کردار ہو یا فاسق۔[3] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۴۰۔ معاشرے پر فاسق حکمران ہونے سے یہ صورت کہیں زیادہ بدترین ہے کہ معاشرے پر کوئی بھی حاکم نہ ہو۔ فاسق حکمران کم از کم ملکی حدود کی حفاظت کرے گا اور ملک میں قوانین کو لاگو کرے گا معاشرے کو ہرج مرج سے محفوظ کرے گا لیکن اگر حاکم ہی نہ ہو تو یہ معاشرہ نہیں چل سکتا۔ تاہم بہترین صورت یہ ہے کہ حاکم الہی ہو۔ اگر ایک دن ملت الہی راستہ اختیار کر لے اور کرامت و معنویت کو معیار قرار دیتے ہوۓ اپنے اوپر ایک ایسا حاکم قرار دے جو الہی معیارات کے مطابق ہو تو وہ دن ان کے لیے عید کا دن ہوگا۔ کیا ایسا کبھی تاریخ میں ہوا ہے؟ اس کی مثال ہمیں رسول اللہﷺ کے دور میں ملتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد بھی اس نعمت کو برقرار رکھنے کے لیے غدیر میں اہتمام کیا لیکن امت نے اس راہ کو ترک کر دیا۔ اس مسئلے کی تبیین ضروری تھی ورنہ دین ناقص رہ جاتا۔

غدیر کے بغیر دین ناقص

دین تب جا کر کامل ہوا جب اس کو نافذ کرنے والا حاکم ملا۔ دین صرف پڑھنے پڑھانے کے لیے نہیں یا صرف چند عبادات کا نام نہیں۔ بلکہ دین نفاذ کے لیے آیا ہے۔ اگر دین کو حکومت اور اقتدار نہ ملے تو صرف چند عقائد، اخلاق اور عبادات کا مجموعہ بن کر ہی رہ جاۓ گا۔ جبکہ دین مکمل نظام ہے۔ اس نظام کا نام ولایت ہے۔ اگر دین کو نظام نہ ملے تو قرآن کریم کی آیت کے مطابق رسول کی رسالت ناقص ہے۔ ولایت کا ہم نے ایک معنی(ولایت تکوینی) تو معاشروں میں رائج کر دیا لیکن وہ معنی جس سے دین قائم اور نافذ ہوتا ہے وہ معنی تبلیغ نہیں کیا۔ ولایت کا ایک معنی حاکمیت، سرپرستی اور اسلامی معاشرے کی مدیریت کرنا ہے۔ اگر کوئی دین یہ نہ بتاۓ کہ حاکمیت کیا ہے؟ نظام کونسا ہو؟ حاکم کیسا ہو؟ کس کو حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہے؟ یہ دین ناقص ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا معاشرے میں حاکمیت کا مسئلہ سب سے اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس اہم ترین مسئلے کی تبیین کے بغیر دین ناقص ہوگا۔ آج اگر کوئی دیندار کسی ایسے دین کا پیرو ہے جو اسے حاکمیت، سیاست اور اجتماعی امور کی رہنمائی نہیں کرتا اس نے در اصل ناقص دین کو اختیار کیا ہوا ہے۔

ولایت اور جمہوریت

اس کائنات کو اللہ تعالی نے خلق کیا ہے۔ اس کائنات پر حقیقی حاکمیت بھی اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ یہ حق صرف اسی کی ذات کو حاصل ہے کہ وہ انسانوں پر حاکم مقرر فرماۓ۔ اس لیے مکتب تشیع ولی اور امام کے بارے میں انتصاب کا قائل ہے۔ شیعہ اس بات کا قائل ہے کہ معاشرے کے اوپر حکمران بنانا، اللہ تعالی کا حق ہے۔ انسان یہ حق نہیں رکھتے کسی کو اپنا حکمران ولی یا امام بنائیں۔[4] سائٹ البر۔ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس پر حکومت کرے۔ یہ حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے جو خالق، تمام مصالح عمومی کو سمجھنے والا، اور انسانوں کے امور کا مالک ہے۔ کوئی بھی ذات اس کے سوا یہ تدبیر اور علم نہیں رکھتی کہ انسانی معاشروں کی مدیریت کے لیے بہتر کیا ہے اور ان پر کونسے قوانین حاکم ہونے چاہیں۔ اور یہیں سے جمہوریت کی نفی ہو جاتی ہے۔ نظام جمہوریت کا نظریہ یہ ہے کہ لوگ آئیں اور کسی کو اپنا حاکم بنا لیں۔ حق حاکمیت لوگوں کو حاصل ہے لیکن چونکہ سب لوگ مشترکہ طور پر حاکم نہیں ہو سکتے اس لیے کسی ایک کو اپنی نمائندگی میں حاکم قرار دے دیں۔ حالانکہ دین اسلام کہتا ہے کہ یہ حق اصلاً انسان کو حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی طرف سے حاکم بناۓ۔ جب یہ حق اسے حاصل ہی نہیں ہے تو وہ کیسے کسی کو حق حاکمیت دے سکتا ہے۔

اسلامی حاکمیت کا نظام

دین اسلام نے حاکمیت کا حق اللہ تعالی کے لیے قرار دیا ہے۔ یہ حق اللہ تعالی نے اپنے خاص بندوں کو عطا کیا۔ کیونکہ انسانی معاشروں کو چلانے کے لیے بالآخر کسی انسان کی ضرورت پڑے گی جو ان کی مدیریت کر سکے۔ پس جب ہم حاکم اسلامی کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص جو الہی احکام کو جاری کرنے والا ہوتا ہے۔ آیا وہ خودمختار ہوتا ہے جو فرمان جاری کر دے اور جس سے منع کر دے؟ جی نہیں بلکہ وہ صرف احکام کا مجری ہوتا ہے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق رسول اللہﷺ کے بعد امیرالمومنینؑ امت کے قانونی و شرعی حاکم ہیں۔ امیرالمومنینؑ کی حاکمیت رسول اللہﷺ کی ذاتی مرضی یا امت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ حق اللہ تعالی نے ان کو دیا ہے۔ امت یہ حق نہیں رکھتی کہ وہ کسی کو اپنا حاکم بنا لے۔ امت اپنے شخصی سلیقوں اور شہوانی طرز پر کسی کو اپنا حاکم نہیں بنا سکتی۔ پس اس بنا پر کسی بھی شخص کو اپنا حاکم بنا لینا کہ وہ ہمارے کام کرواۓ گا غیر الہی روش ہے۔   اسلام جبری حکومت کا بھی قائل نہیں ہے۔ اگر کوئی الہی حاکم بھی آتا ہے تو ضروری ہے کہ عوام اسے قبول کرے اگر قبول نہیں کرتی تو اسے بھی جبری حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں۔ معلوم ہوا امت صرف قبولیت میں مؤثر ہے تاہم کسی کو حق حاکمیت نہیں دے سکتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کوئی الہی حاکم ہے اور اسے امت بھی حاکم کے طور پر قبول کر لیتی ہے تو یہ حکومت بن سکتی ہے اور عین الہی حکومت ہوگی۔ لیکن اگر الہی حاکم موجود ہے اور امت اسے حاکم کے طور پر قبول نہیں کرتی یا اسے ترک کر دیتی ہے تو یہ الہی حاکم جبری حکومت نہیں کرے گا۔ دوسری طرف اگر کوئی ایک ایسا حاکم ہے جس کو پوری امت نے تو قبول کیا ہوا ہے لیکن وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے تو یہ شخص بھی حکومت نہیں بنا سکتا۔ اس کی حکومت غیر الہی حکومت ہوگی۔

حاکم اسلامی مظہر قدرت الہی

معاشرے کے حاکم کو قدرت الہی کا مظہر ہونا چاہیے۔ اسلامی معاشروں اور غیر اسلامی معاشروں میں فرق یہی ہے کہ اسلامی معاشرے کی مدیریت نفسانی خواہشات کی بنا پر نہیں بلکہ الہی احکام کی بنا پر ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں جہالت، شہوت، نفسانی خواہشات، اور ہوا و ہوس کی بنا پر مدیریت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی مدیریت عدالت، علم و دین کی اساس پر ہوتی ہے۔ اس لیے اسلامی معاشرے کا حاکم بھی خاص شرائط کا حامل ہوتاہے۔ خودخواہ یا شخصی سلیقوں کے مطابق چلنے والا انسان اسلامی معاشرے کا حاکم نہیں ہو سکتا۔ عصمت کا نظریہ اور اس کا فلسفہ یہی ہے۔ اسلام کا مطلوب ترین حاکم معصوم ہے۔ معصوم وہ شخص ہوتا ہے جو غلطی نہیں کرتا اور گناہ نہیں کرتا۔ اس کے اوپر ہواۓ نفس غالب نہیں اس لیے امت کو الہی راستوں پر صرف وہی چلا سکتا ہے۔ اور اگر اضطراری صورت ہے جیسا کہ زمانہ غیبت ہے تو اس میں بھی کم از کم عدالت شرط ہے۔ اگر عصمت کی حامل شخصیت الہی حکمت سے پردہ غیبت میں ہے تو ایسا شخص حاکم ہو جو معصوم کے قریب تر ہو۔ علم، تقوی، عدالت اور مدیریت و سیاست میں امام کے قریب ترین ہو۔ 

غدیر کی اہمیت

غدیر کی اہمیت صرف شیعوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے ہے۔ اس دن اسلامی حاکمیت کے لیے معیار اور میزان مقرر ہوۓ۔ علم، تقوی، جہاد، ورع، فداکاری جیسے معیار پر اترنے والی شخصیت کو اسلامی امت کا امام بنایا گیا۔ پس غدیر در اصل ایک شخصیت کی ولایت کا اعلان نہیں ہے بلکہ معیار ہے کہ جو شخص ان معیارات پر اترے فقط وہ اسلامی حاکم کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان معیاروں پر نہیں اترتا اسے اسلامی معاشروں پر حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں۔[5] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۴۱تا۴۴۔

منابع:

Views: 10

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت  سے مراد
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ اور ضرورتِ قانون و نظم