loading

تناسخ کی اقسام ملکی اور ملکوتی

تحریر: سید محمد حسن رضوی
12/03/2023

تناسخ کی بحث اہمیت کی حامل بحث ہے۔ تناسخ کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:

تناسخ ملکی:

یہ فاسد و باطل نظریہ ہے کیونکہ نفس موت کا ذائقہ چکھنے کے بعد اس دنیا میں کسی دوسرے نطفہ کے ساتھ ملحق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم تناسخ ملکی کو قبول کریں تو دوسری مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ملا صدرا کے مطابق نفس جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقاء ہے۔ نطفہ اس دنیا میں کچھ مدت بعد ایک نفس سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہاں ایک وقت میں دو نفس سے رابطہ ثابت ہو گا۔ نفس کا جسمانیۃ الحدوث ہونا بالکل اسی طرح ہے جیسے سوکھے درخت سے رنگ برنگ کے پتے نکلتے ہیں تو یہ پتے اسی سوکھے درخت سے نکلے ہیں اسی طرح نفسِ انسانی اسی جسم سے ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقين‏‏؛ پھر ہم نے نطفہ کو علقہ خلق کیا ، پھر علقہ کو مضغہ بنایا ، پھر ہم نے مضغہ کو ہڈیاں عنایت کیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ، پھر ہم نے اسے دوسری خلقت عطا کی ، اللہ متبارک ہے جو سے بہترین خالق ہے }. [1]مؤمنون: ۱۴۔ 

تناسخ ملکوتی:

قوس نزول میں جو ہے وہ نشات طبیعت میں تحقق پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ پس قوس نزول اور قوس صعود کاملا یکساں نہیں ہیں سوائے اس کے کہ ہر دو موجودِ مثالی ہیں۔ قوس نزول میں بھی وجود مثالی ہیں اور قوس صعود میں بھی وجود مثالی ہیں اور عالم روحانی اور وجود نورانی ہے کیونکہ مادی نہیں ہیں۔ ابن عربی نے تصریح کی ہے کہ قوس صعود غیر از قوس نزول ہے اور جو قوس نزول میں موجودات ہیں انہیں ’’ غیب امکانی ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے نشات طبیعت میں تحقق پیدا کرنا ہے۔ جبکہ قوس صعودی میں جو موجودات ہیں انہیں ’’ غیب محالی‘ ‘ کہتے ہیں۔بعض ایسے اولیاء ہیں جو قوس صعودی میں موجودات کو درک کر لیں۔ علامہ محمد حسن طباطبائی  رحمہ اللہ کے بارے میں علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ بہت قوی اور بلند منزلت تھے اور افلاطون کو برزخی طور پر درک کیا ۔ علامہ حسن زادہ آملی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ محمد حسن الہٰی طباطبائی بیان کرتے ہیں کہ میں دو برزگان سے تعلق قائم نہیں کر پایا، ایک سید ابن طاووس اور دوسرے سید بحر العلوم ، کہ جب میں نے کوشش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم امیر المؤمنین ؑ کے ساتھ وقف ہیں۔ جبکہ بقیہ سے آسانی سے ارتباط قائم کر لیتے ۔ اس طرح کی ہستیاں قلیل ہیں۔اگر کوئی برزخِ نزولی سے رابطہ قائم کر لے تو وہ دنیاوی حوادث کے بارے میں خبر دے سکتا ہے۔ پس قوس صعودی میں اموات یعنی مردوں سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے جوکہ قلیل ہیں۔ 

برزخِ صعودی میں وجودی مثالی بذاتِ خود اعمال ہیں جبکہ برزخ نزولی میں اس طرح نہیں ہے۔ قوسِ صعودی میں موجوداتِ برزخ قیدِ محالی ہے کیونکہ قوس نزول میں وجودات عالم نشاءت میں تحقق پیدا کرتے ہیں۔ قوس نزول میں کثیر ایسی اشیاء ہیں جنہوں نے ابھی تک اس عالم مادہ میں تحقق پیدا نہیں کیا اور بہت سی اشیاء نے تحقق پیدا کر لیا ہے جیسے ہم۔ عالم برزخ صعودی کوئی وجود اس نشاءت میں نہیں آئے گا۔ بلکہ محال ہے کہ برزخ صعودی سے اس دنیا میں نشاءت پیدا کرے۔  مال و عیال با وفا ہیں لیکن قبر کے دہانے تک ، جبکہ اعمال ہمیشہ با وفا ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے ہیں کہ ہم قیامت میں ہم اپنے اعمال کے دسترخوان پر ہوں گے۔ قبر کے سانپ بچھو وغیرہ باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ اندر سے آتے ہیں۔ موت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جو غیر ہے وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے، مثلاً ہمارا کنبہ، ہمارا مال، ہماری دنیا وغیرہ سب ہمارا غیر ہے اس لیے موت اس غیر کو ہم سے جدا کر دیتی ہے۔

منابع:

منابع:
1 مؤمنون: ۱۴۔
Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: فص آدمی
اگلا مقالہ: معرفت نفس میں علم و عمل کا کردار