loading

{ حديث يوم }

سعادت کا سبب – رغبت، قدرت اور اذن

شارح : سید محمد حسن رضوی
تدوين: بلال حسين
11/15/2023

الکافی میں شیخ محمد بن یعقوب کلینیؒ امام صادقؑ سے حدیث مبارک نقل کرتے ہیں جس میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: 

{ وَلَيْسَ كُلُّ مَنْ يُحِبُّ أَنْ‏ يَصْنَعَ‏ الْمَعْرُوفَ‏ إِلَى النَّاسِ يَصْنَعُهُ وَلَيْسَ كُلُّ مَنْ يَرْغَبُ فِيهِ يَقْدِرُ عَلَيْهِ وَلَا كُلُّ مَنْ يَقْدِرُ عَلَيْهِ يُؤْذَنُ لَهُ فِيهِ فَإِذَا اجْتَمَعَتِ الرَّغْبَةُ وَالْقُدْرَةُ وَالْإِذْنُ فَهُنَالِكَ تَمَّتِ السَّعَادَةُ لِلطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ إِلَيْهِ }.
ترجمہ:ایسا نہیں ہےکہ کوئی لوگوں کے ساتھ نیکی کرناچاہتا ہے وہ اس نیکی کو انجام دے دے، نہ ہی ایسا ہے کہ کسی نیکی میں رغبت رکھتا ہے اس کو انجام دینے پر قادر بھی ہو اور نہ ہی جو کسی نیکی کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے اسے اس نیکی کو انجام دینے کا اذن و اجازت مل جائے !! جب رغبت، قدرت اور اذن تینوں جمع ہو جائیں تو اس وقت طالب (نیکی طلب کرنے والے) اور مطلوب (جس کے لیے نیکی کو طلب کیا گیا ہے) کونیکی انجام دینے کی   سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔[1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۷، ص ۲۶۹۔

فہرست مقالہ

شرح حدیث:

اللہ تعالیٰ نے نیکی کی انجام دہی کے لیے ایک نظام خلق کیا ہے جس کے مطابق اگر اسباب جمع ہو جائیں تو انسان سے نیکی صادر ہو جائے گی اور انسان صاحبِ سعادت کہلا سکے گا۔ اس حدیث مبارک میں سعادت کے حصول اور نیکی کی انجام دہی کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں جو وجود میں آئیں تو نیکی وجود میں آئے گی:
۱۔ رغبت: نیکی انجام دینے والے کی نیکی کی طرف رغبت اور میلان ہونا ضروری ہے ورنہ وہ اپنے اختیار و ارادہ اور اپنی مرضی کے مطابق نیکی انجام نہیں دے گا۔
۲۔ قدرت: ایسا کثرت سے دیکھنے کو ملاتا ہے کہ انسان ایک نیکی سے محبت رکھتا ہے اور اس کو انجام دینا چاہتا لیکن اپنے اندر کسی نہ کسی وجہ سے اس نیکی کو انجام دینے کی قدرت نہیں پاتا، مثلاً ایک شخص چاہتا ہے کہ مظلوم کی مدد کرے لیکن دیکھتا ہے وہ ایسا کرنے میں انتہائی کمزور ثابت ہو رہا ہے اور اس کے پاس مالی و بدنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ چنانچہ وہ اپنے دل میں ہی ظالم کو برا بھلا کہتا ہے اور اس سے اظہارِ براءت کرتا ہے۔ پس نصرت یا کسی غریب کی عملی طور پر مدد تب ہی ممکن ہے جب انسان استطاعت رکھتا ہو۔ یہاں سے ہمیں معلوم ہوا کہ کسی نیکی کی انجام دہی کےلیے قدرت کا حصول ضروری ہے ۔
۳۔ اذن: بسا اوقات انسان دیکھتا ہے کہ اس کو ایک نیکی سے محبت اور رغبت ہے اور اس کو انجام دینے کی قدرت بھی اس کے پاس موجود ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس نیکی کو انجام نہیں دے پا رہااور کوئی نہ کوئی رکاوٹ ہمیشہ حائل ہو جاتی ہے!! اس کا مطلب ہے کہ اس کو اللہ سبحانہ کی جانب سے نیکی انجام دینے کا اذن حاصل نہیں ہے۔ علامہ طباطبائیؒ نے اذنِ الہٰی سے مراد رکاوٹ کا ختم کرنا اور دو چیزوں کا آپس میں ایک دوسرے سے دوچار ہو جانا قرار دیا ہے۔ پس موانع اور رکاوٹوں کا دور ہو جانا اذن کہلاتا ہے۔ اذن الہٰی ایک شیء کے وجود کا اساسی سبب بنتا ہے کہ اگر یہ سبب مہیا نہ ہو تو کوئی شیء اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ [2]علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱۹، ص ۳۰۳۔ لہٰذا جب اذنِ الہٰی حاصل ہو جائے تو نیکی انجام دینے والے شخص اور نیکی کا باہمی تعلق قائم ہو جائے گا اور انسان اپنے سعادت سے ہمکنار ہو جائے گا۔

یہ تین نکات اس وقت ہیں جب انسان کو نیکی کی معرفت حاصل ہو اور انسان نیکی کے ارادہ اور عزم کو نہ توڑے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیکی کو جان لینے کے بعد اور اس کو انجام دینے کا ارادہ کرنے کے بعد اس وقت نیکی کی انجام دہی کی انسان کو توفیق حاصل ہو گی جب انسان کے لیے یہ تین امور ’’رغبت، قدرت اور اذنِ الہٰی‘‘ میسر آ جائے۔ چنانچہ سعادت کا راز انسان کی نیکی اور خیر کے امور کی طرف رغبت اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدرت و اذن کے عطا ہونے پر موقوف ہے۔

Views: 44

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حديث يوم- احترام مومن