loading

معرفتِ نفس قرآن و برہان کی روشنی میں

كتاب: سرح العيون في شرح العيون
مؤلف: آيت الله علامه حسن زاده آملى
تدريس: آيت الله شيخ حسن رمضانى
تحرير: سيد محمد حسن رضوى
12/27/2023

عین ۶۴: انسان کا نوع اور جنس ہونا

سد) عين فى ان الانسان فى هذه النشأة نوع تحته أفراد، وفى الاخرة جنس تحته أنواع: تذكر ما فى الثالثة والخمسين، ثم اعلم أنّ النفس الانسانية فى هذه النشأة صورة الهيولى، وفى الاخرة هيولى الصور الأخروية، فإنّ ملكات العلوم والأعمال موادّ الصور البرزخية، وتلك الصور إما أبدان مكسوبة، إن كانت المواد حسنة، وإما ابدان مكتسبة، إن كانت سيئة { لَها ما كَسَبَتْ وَعَلَيْها مَا اكْتَسَبَت‏ }، [1]بقرہ: ۲۸۶۔ وتلك الملكات كالأرواح لِتَلك الأظلال، أعني أجسادها البرزخية وأبدانها الأخروية، وروح الأرواح هى النفس الانسانية، تفصيلها يطلب فى الدرس 23 من كتابنا دروس اتحاد العاقل بالمعقول، فالإنسان نوع ٌواحدٌ متفق الافراد فى هذا العالم، وأما فى الاخرة فأنواعه متكثّرة لا تحصى بحسب صور تناسب ملكاتها. وفى القرآن : { وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت‏ }،[2]تکویر: ۵۔ وفى النهج: { صُورَةُ إِنْسَانٍ‏ وَالْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَان‏ }.[3]آملی، علامہ حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۲۷۔

حکمت متعالیہ میں یہ جملہ معروف ہے کہ انسان اس نشاءت میں نوع اور آخرت میں جنس ہے جس کے ماتحت انواع ہے۔ انہی معروف جملات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو بالفعل حیوان اور بالقوۃ انسان ہوتا ہے، یعنی عملاً مکمل حیوان ہوتا ہے جو علم و عمل کے کسب کرنے سے انسان بنتا ہے۔  اس دنیا میں انسان نوع ہے اور اس کے افراد مثلاً زید ، بکر وغیرہ سب نوعِ انسانیت کے ماتحت آتے ہیں۔ انسان باطن کے اعتبار سے جنس ہے جس کے ماتحت انواع ہیں۔ انواعِ حیوانی سے مراد بکری، شیر، لومڑی، بھیڑیا وغیرہ ہے۔دنیا میں ظاہر کے اعتبار سے انسان نوع ہے لیکن باطن کے اعتبار سے جنس ہے جس کے ماتحت متعدد انواع ہے۔ پس انسان باطن میں یا تو انسان ہے یا وحوش ہے ۔ باطنی طور پر انسان حیوانات کے مرتبہ پر تب کرتا ہے جب شہوت و غضب کی وجہ سے حیوانیت سے تعلق قائم کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت‏ }.[4]تکویر: ۵۔ اسی طرح نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:صُورَةُ إِنْسَانٍ‏ وَالْقَلْبُ قَلْبُ حَيَوَان‏۔ [5]سید رضی ، نہج البلاغہ، ص ۱۱۹، حکمت قصار: ۳۷۳۔ صورتِ انسان سے مراد اس دنیا میں ظاہرِ انسان ہے اور قلبِ حیوان سے مراد انسان کا باطن ہے۔ انسان کونسے ملکات لے کر اس دنیا سے گیا ہے وہ انسان کی قبر کا تعین کرتے ہیں کہ کون کون سے حیوانات اس کے ماتحت ہیں۔ اگَر ملکات حسنہ ہیں تو اس کی قبر جنّت کے گڑوں میں سے ایک گڑا ہے لیکن اگر ملکاتِ سیئہ ہے تو اس کی قبر جہنم کے گڑوں میں سے ایک گڑا ہے۔

اسی مطلب کو ورۃ الھیولی اور ھیولی الصُوَر سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔  صورت من الھیولی سے مراد نوعِ من الحیوانات ہے جبکہ آخرت میں ہیولی صورتِ اخروی ہے۔ صورت سے مراد نوع ہے اور ہیولی سے مراد حیوانات۔ ہیولی یا صورتِ انسانی ہے یا صورتِ حیوانی ہے۔ آخرت میں ہیولی الصُوَر ہے۔ صورتِ برزخی یا تو صورتِ زیبا ہے جوکہ ابدانِ مکسوبہ ہے یا صورتِ زشت و بد ہے جسے ابدانِ مکتسبہ کہتے ہیں۔ کسب تب انجام پاتا ہے جب طبقِ قانون اور نظام کے عمل انجام پائے اگرچے زحمت آور اور مشقت آور ہو۔ اس کے مقابلے میں اکتساب آتا ہے جو ممکن ہے ظاہر میں دیکھنے میں نفس نعمت سے مزین اور آرام و سکون میں دکھائی دیتا ہے لیکن غیر قانونی اور غیر شرعی طریقے سے زندگی بسر کرنے کی وجہ سے اس نفس کے وجود میں ہمیشہ کے لیے اضطراب اور اسٹریس اور تناؤ رہتا ہے۔ پس شرعی طریقے سے اعمال کی انجام دہی کی صورت میں اعمال کو کسب اور غیر شرعی و غیر قانونی کو اکتسابِ اعمال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ مطلب قرآن کریم اس آیت کریمہ سے مأخوذ ہے:{ لَها ما كَسَبَتْ وَعَلَيْها مَا اكْتَسَبَت‏ }.[6]بقرہ: ۲۸۶۔

انسان اس جہان میں ایک نوع ہے جس کے ماتحت مختلف افراد ہیں اور آخرت میں جنس ہے جس کے ماتحت مختلف انواع ہیں جوکہ اس کے ملکات کی صورتوں کے مطابق ہے۔ اگر کوئی علم و عمل میں انسان ہے تو انسان محشور ہو گا اور اگر کوئی شہوانی زندگی بسر کرتا ہے تو اس کے ماتحت شہوانی حیوانات اور اس کے افراد ہوں گے، اگر غضب کے ملکات لے کر آیا تو اسی کے مطابق اس کا حشر ہو گا۔ روح الارواح کو نفسِ انسانی کہتے ہیں۔

انسان کا مقولہِ انفعال میں ہونا :

انسان اس دنیا میں مقولہِ انفعال ہے جو ہر شیء سے تاثیر لے رہا ہے جبکہ آخرت میں انسان خود فعّالیت انجام دے گا ۔ دنیا کی لذت اور تکلیف ہر دو آخرت کی لذت و تکلیف سے قابلِ مقایسہ نہیں ہے کیونکہ اس دنیا میں لذت و تکلیف مقولہِ انفعال اور آخرت میں افعال سے عبارت ہے ۔دنیا میں انسان کا شمار ان میں ہوتا ہے جن میں اثر نفوذ کر جاتا ہے جبکہ آخرت میں انسان میں نفوذ نہیں بلکہ جو کچھ آخرت میں سامنے آئے گا وہ نفسِ انسانی کا فعل اور اس کی ایجاد ہے۔انسان ہے جو آخرت میں حور العین کو ایجاد کر رہا ہے ، انسان ہے جو آخرت لذت بخش چیزوں کو ایجاد کر رہا ہے۔ پس اس دنیا میں انسان ہر شیء کا اثر لیتا ہے، کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس پر اثر انداز نہیں ہوتی ، مثلاً خوش ذائقہ غذا کھاتا ہے اس کا نفس پر اثر ہے، اگر تکلیف جھیلتا ہے تو درد کی صورت میں اس کا اثر برپا ہوتا ہے لیکن آخرت میں  نفس اپنے ارادہ سے وجود دینے والا ہے جواپنے مرضی کے مطابق چیزوں کو ایجاد کر رہا ہے ۔ پس نفس بہترین چیزیں ارادے سے ایجاد کرنے والا ہے اور اسی طرح بدترین چیزیں اپنے ارادے سے وجود دینے والا ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آخرت انسانی نفس کی ایجاد کردہ چیزوں اور انسانیِ نفس کے افعال کا مجموعہ ہے تو پھر قرآن کریم نے آخرت میں جنت یا جہنم کے عذاب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں دی ہےاور اس کی طرف سے ان چیزوں کی ایجاد کی نسبت ہے اور پھر جنت کو دنیاوی لذت اور جہنم کو دنیاوی تکلیف سے تعبیر کیا گیا ہے؟! اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی خاطر دنیاوی لذّات اور دنیاوی تکالیف سے تعبیر کیا ہے کیونکہ تمام لوگ عقلی طور پر ان مطالب کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے ان کی سطحِ فہم کو مدنظر رکھتے ہوئے تنبیہ کی ہے۔ اسی لیے قرآن نے بیان کیا ہے کہ اہلِ علم ہی ان حقائق کو سمجھتے ہیں۔

منابع:

منابع:
1, 6 بقرہ: ۲۸۶۔
2, 4 تکویر: ۵۔
3 آملی، علامہ حسن زادہ، سرح العیون فی شرح العیون، ص ۲۷۔
5 سید رضی ، نہج البلاغہ، ص ۱۱۹، حکمت قصار: ۳۷۳۔
Views: 29

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شرح چہل حدیث امام خمینی