loading

حور العین اور غلمان کی حقیقت

تحریر: سید محمد حسن رضوی
10/23/2023

قرآن کریم کی متعدد آیات میں حور العین کا تذکرہ وارد ہوا ہے جس کی تفصیل احادیث مبارکہ میں وسیع پیمانے پر نظر آتی ہے۔ اسی طرح احادیث سے غلمان کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ان آیات و احادیث کے ظواہر سے استفادہ کرتے ہوئے جنّت کی ایک شہوانی تصویرکشی کی جاتی ہے اور کہ مؤمنین کو سو یا ہزاروں حور العین سے ازدواج حاصل ہو گا۔ اس مقام پر ضروری ہے کہ حور العین اور غلمان کے کلمات کا جائزہ لیں اور آیات و روایات میں ان کی کیا حقیقت وارد ہوئی ہے ۔ نیز اسی اثناء میں ہم مطالعہ کریں گے کہ فقہاء و محدثین اور فلاسفہ و عرفاء کے درمیان حور العین وغلمان کی حقیقت کے بارے میں کیا اختلاف پایا جاتا ہے۔

کلمہ حور العین کے لغوی معنی:

حور العین عربی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ ’’حور اور عین‘‘ سے مرکب ہے۔لفظِ حور اگر حَوْر بر وزن فَعْل ہو تو اس کا معنی کسی شیء کی طرف پلٹنا اور ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونا ہے۔ اگرحَوَر بروزن فَعَل ہوتو اس کا معنی آنکھوں کی شدید سفید اور اس کا شدید سیاہ ہونا ہے۔ اس کو حُور بھی کہا جاتا ہے۔ [1]فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۳، ص ۲۸۸، مادہ: حور۔ابن فارس حُور کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حور کے تین اصلی معنی ہیں:۱۔ رنگ ، ۲۔ رجوع کرنا، ۳۔ ایک شیء کا گردش کرتے رہنا۔ پہلا معنیحَوَر سے آتا ہے جس کے معنی آنکھوں کی سفیدی کا شدید ہونا اور اس کی سیاہی کا شدید ہونا ہے، ابو عمرو کہتا ہے کہ پوری آنکھوں کا سیاہ ہونا حَوَر کہلاتا ہے  ، جیسے ہرن اور گائے ، بنی آدم میں کوئی حَوَر نہیں ہے لیکن خواتین کوحُورُ العُيون‏اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہرن اور گائے سے مشابہ ہوتی ہیں۔ حضرت عیسیؑ کے اصحاب سفید لباس پہنتے تھے اس لیے انہیں حواری کہتے تھے ۔ بعد میں ہر مدد کرنے والے کو حواری کہا جانے لگا۔ [2]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۱۱۶۔راغب اصفہانی المفردات میں لکھتے ہیں: حَوْر کا معنی ذات کا آنا جانا ہے یا فکر کے ہمراہ آنا جانا ہے،قرآنی آیت میں حُور جمع ہے اَحوَر اور حَورَاء کی ، کہا گیا ہے کہ قلیل مقدار میں سفیدی اور سیاہی ہو تو اسے حُور کہتے ہیں جوکہ انتہائی حسین و خوبصورت آنکھ کہلاتی ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ حواریوں کو اس لیے حواری کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے تزکیہ نفس کے ذریعے اپنے نفوس کو پاکیزہ کر لیا ۔[3]راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۱۲، مادہ: حور۔پس لغت کی اس بحث سے ثابت ہوا کہ حُور سے مراد خوبصورت آنکھوں کا ہونا ہے جوکہ سفیدی و سیاہی کے وصف کے اعتبار سے ہو ۔

صاحب التحقیق متوفی ۱۴۲۶ ھ لکھتے ہیں کہ اس مادہ ’’ح-و-ر‘‘ کا اصلی معنی ظاہری مادی اور معنوی باطنی امور میں خارجی حالت سے نکلنا اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنا ہےجوکہ اصلاح کے اعتبار سے بھی ہو سکتا ہے اور فساد کے اعتبار سے بھی ۔حواری کو اس لیے حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سابقہ دین و ایمان سے نکل کر دینِ حق میں داخل ہو گئے اور عداوت سے ولایت کی طرف لوٹ آئے۔ حور العین میں حور سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیائے ملائکہ سے تعلق رکھتی تھیں جہاں سے وہ نکل آئیں اور اللہ کے امر اور اس کے ارادہ سے انسانی صورت اختیار کر کے ایک لطیف ، ظریف اور انتہائی جاذب رنگت کی مالک اور خوبصورت شکل و صورت میں انسان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو گئیں۔ [4]مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ۲، ص ۳۰۸۔

قرآن کریم کی نگاہ میں:

قرآن کریم میں چار مختلف مقامات پر حور العین کا تذکرہ وارد ہوا ہےجوکہ درج ذیل ہیں:
۱۔سورہ دخان میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{
كَذلِكَ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِين‏ٍ؛اسی طرح اور ہم نے ان کی حورِ عِین کے ساتھ تزویج کر دی }. [5]دخان: ۵۴۔
۲۔ سورہ طور میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{
مُتَّكِئينَ عَلى‏ سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَ زَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عين‏؛وہ بچھے ہوئے تختوں پر ٹیک  لگائے ہوئے ہوں گے اور ہم ان کی حور العین (یعنی گوری رنگت کی کشادہ چشم عورتوں) سے تزویج کر دیں گے}.[6]طور: ۲۰۔
۳۔ سورہ رحمن میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:{ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيام‏ ، فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُما تُكَذِّبانِ‏ ، لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ  وَلا جَانٌّ ، فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُما تُكَذِّبانِ‏ ، مُتَّكِئِينَ عَلى‏ رَفْرَفٍ خُضْرٍ ، وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ‏ ، فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُما تُكَذِّبان‏؛ان میں خوبصورت شکل و صورت کی حوریں ہوں گی، پس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟!انہیں ان  (جنتیوں) سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا اور نہ کسی جنّ نے،  پس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! وہ (جنتی لوگ) سبز رنگ کے نرم ملائم اور انتہائی خوبصورت گدوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔پس تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟!}. [7]رحمن: ۷۲-۷۷۔
۴۔ سورہ واقعہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{
وَحُورٌ عِينٌ‏ كَأَمْثالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُون‏؛جو مخفی کیے گئے موتیوں کی طرح (حسین) ہوں گی}. [8]واقعہ: ۲۳-۲۳۔

قرآن کریم میں غلمان کا تذکرہ:

قرآن کریم میں غلمان کا تذکرہ فقط ایک آیت میں وارد ہوا ہے :
۱۔سورہ طور میں ارشاد الہٰی ہوتا ہے: {
وَأَمْدَدْنَاهُم بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ، يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَّا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ ، وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُون‏ٌ  ؛اور ہم انہیں من پسند  پھل اور گوشت دیں گے،وہ  اس جامِ شراب پر چھینا جھپٹی کر رہے ہوں گے جس میں نہ  کوئی لغو بات ہوگی اور نہ کوئی گناہ  اور ان کے اردگرد ان کے غلمان طواف کر رہے ہوں گے گویا کہ حُسن و جمال میں پوشیدہ کیے گئے موتیوں کی مانند ہوں گے}. [9]طور: ۲۲-۲۴۔
۲۔سورہ واقعہ میں فرمانِ الہٰی ہوتا ہے:{
عَلى‏ سُرُرٍ مَوْضُونَة ، مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِين‏ ، يَطُوفُ‏ عَلَيْهِمْ‏ وِلْدانٌ‏ مُخَلَّدُونَ‏ ، بِأَكْوابٍ وَأَبارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَعِين‏ٍ ، لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ ، وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ ، وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُون‏؛(سونے اور موتی ہیروں سے ) مرقع  تختوں پر ، آمنے سامنے ان تختوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے، ان کے اردگرد ہمیشہ رہنے والے غلمان (نوخیز لڑکے)، بھرے پیالوں اور صراحیاں لیے ہوئے اور پاک و صاف شراب کے پیالے لیے گردش کر رہے ہوں گے، جس سے نہ دردِ سر ہوگا اور نہ عقل میں فتور آئے گا، ور وہ (غلمان) طرح طرح کے پھل پیش کریں گےجسے اپنی مرضی سے وہ چُن رہے ہوں گے، اور اپنے پسندیدہ پرندوں کا گوشت تناول کر رہے ہوں گے }. [10]واقعہ: ۱۵-۲۱۔
۳۔سورہ انسان (دہر) میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: {
مُتَّكِئِينَ فِيها عَلَى الْأَرائِكِ لا يَرَوْنَ فِيها شَمْساً وَلا ، قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوها تَقْدِيراً ، وَيُسْقَوْنَ فِيها كَأْساً كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا ، عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا ، وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ مُخَلَّدُونَ إِذا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤاً مَنْثُوراً ، وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيماً وَمُلْكاً كَبِيراً ، عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ، وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً ، إِنَّ هذا كانَ لَكُمْ جَزاءً وَكانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُور؛جن پر }.[11]انسان: ۱۳-۲۲۔

حور العین سے تزویج:

حور العین کے بارے میں تزویج کا کلمہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے ۔ اس بارے میں یونس بن حبیب نحوی کہتے ہیں کہ عرب نکاح کے معنی میں یہ نہیں کہتے ہیں:تَزَوَّجتُ بِإِمرَأَةٍ؛ یعنی جس سے شادی کرنی ہے اس کے نام کے ساتھ حرف جر ’’باء‘‘ نہیں لاتے بلکہ باء کے بغیر کہتے ہیں:تَزَوَّجت إِمرَأَةً،جیساکہ قرآن کریم میں اللہ عز و جل فرماتا ہے:{ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِيْن‏ٍ؛اور ہم نے ان کی تزویج حور عین کے ساتھ کی}.[12]دخان: ۵۴۔ اس کا معنی ہے کہ ہم نے انہیں ان کے ساتھ ملا دیا ۔ یہاں حور عین سے تعلق جوڑنے اور ملانے کے ہیں ، نہ کہ وہ معنی ہے جو عامۃ الناس لیتے ہیں۔ [13]مسکویہ، احمد بن محمد، الحکمۃ الخالدۃ، ص ۱۳۶۔

منابع:

منابع:
1 فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۳، ص ۲۸۸، مادہ: حور۔
2 ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۱۱۶۔
3 راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۱۲، مادہ: حور۔
4 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ۲، ص ۳۰۸۔
5, 12 دخان: ۵۴۔
6 طور: ۲۰۔
7 رحمن: ۷۲-۷۷۔
8 واقعہ: ۲۳-۲۳۔
9 طور: ۲۲-۲۴۔
10 واقعہ: ۱۵-۲۱۔
11 انسان: ۱۳-۲۲۔
13 مسکویہ، احمد بن محمد، الحکمۃ الخالدۃ، ص ۱۳۶۔
Views: 139

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: کلمہ رمضان کے قرآنی معنی
اگلا مقالہ: قلب کے قرآنی و عرفانی معنی