loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۷۲}

ولایت فقیہ پر متعدد احادیث مبارکہ

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ تحریر میں چند روایات بیان ہوئیں۔ مؤلف کے پیش نظر یہ یہ نہیں ہے کہ وہ صرف صحیح السند روایات کو جمع کر دیں۔ بلکہ وہ ہروہ روایت لے آئے ہیں جو زمانہ غیبت میں فقیہ کی ولایت کو ثابت کر سکتی ہے۔ لذا جمع آوری کرتے ہوۓ شیعہ اور سنی ہر دو منابع سےروایات شاہد کے طور پر لاۓ ہیں۔ ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ ان میں سے اکثر روایات توسند کے اعتبار سے ضعیف ہیں، تو کہا جاۓ گا کہ درست ہے سندی طور پر روایت ضعیف ہے لیکن ہم اس وقت قرائن اور شواہد جمع کر رہے ہیں۔ ممکن ہے ان روایات میں سے اکثر کی سند ضعیف ہو لیکن ان میں سے جو صحیح السند روایات ہیں اس کے مضمون کو تقویت دینا مقصد ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر ایک شخص تحقیقی طور پر ان سب روایات کو سندی طور پر ضعیف قرار دیتا  ہے یا ان روایات کے معانی و حجیت پر اشکال کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ ولایت فقیہ رد ہو گئی۔ بلکہ اس شخص کو عقلی دلیل دی جاۓ گی۔ کیونکہ ولایت فقیہ پر سب سے محکم ترین دلیل عقلی دلیل ہے۔اس موضوع پر انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ابھی کام شروع ہوا ہے اور الحمد اللہ بہت تیزی سے تشیع علمی ارتقاء کو حاصل کر رہا ہے۔ 

تشیع پر انقلاب اسلامی کے آثار

بعض افکار تشیع کی اساس و بنیاد ہیں۔ مثلا نظریہ امامت۔ہمارے آئمہ معصومینؑ کو ظاہری امامت سے دستبردار ہونا پڑااس لیے تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوۓ۔ ان کے حقیقی شیعہ بھی اس مصیبت سے مستثنی نہیں تھے۔تقیہ کے آثار اگلی نسلوں میں صدیوں تک منتقل ہوتے رہے۔لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شیعہ تقیہ سے باہر نکلا۔حکومت، سیاست، حدود کے اجراء، نیابت اور عالمی حکومت کی باتیں ہونے لگیں، در اصل اس انقلاب نے دنیا کو ظہور کے قریب تر کر دیا۔ دلیل یہ ہے کہ اس انقلاب کے ذریعے شیعہ کو پتہ چلا کہ امام زمانہؑ کی عالمی حکومت کے لیے کیا مقدمات فراہم کرنا ہیں؟ ان کے معاونین کون اور کیسے ہونگے؟ امام کو مختلف شعبہ جات میں انصار کی ضرورت ہوگی تو یہ ضرورت کیسے پوری کرنی ہے؟نصرت کیسے جنم لیتی ہے؟ کیونکہ امامؑ نے معجزے سے عالمی حکومت قائم نہیں کرنی۔ اگر معجزے سے طواغیت عالم کو سرنگون کرنا ہوتا تو اب تک یہ کام ہو جاتا، معجزے میں تو کوئی شے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امامؑ نے انصار کے توسط سے یہ کام کرنا ہے۔

ارتقاء حق و باطل

یہ بات واضحات میں سے ہے کہ ماضی کی نسبت معاشرے با بصیرت ہوتے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے آپ انفرادی طور پر کہیں کہ رسول اللہﷺ جیسا تو کوئی نہیں ہو سکتا۔ یا سلمانؓ و ابوذ ؓ جیسا تو کوئی نہیں ہے۔ یہ شخصیات منفرد ہیں لیکن ہم اجتماعی طور پر پورے معاشرے کو ملحوظ رکھیں تو دیکھیں گے کہ جس طرح سے باطل ترقی کرتا جا رہا ہے حق بھی ارتقاء کی طرف بڑھ رہا ہے۔اگر ایک شخص نے انڈروئڈ موبائل چالیس سال کی عمر میں چلانا سیکھا ہے تووہی موبائل چار سال کا بچہ بھی چلانا جانتا ہے۔انٹرنیٹ کا استعمال بچہ بچہ کر رہا ہے ، لیکن ممکن ہے ہمارے چالیس سال کی عمر کے افراد بھی اس  کا استعمال نہ جانتے ہوں۔اللہ تعالی کی تدبیر حاکم ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ ممکن ہے اہل حق کو جیلوں میں ڈال دیں لیکن اس سے ارتقاء رک نہیں جاۓ گا۔حق اور باطل دونوں اپنے عروج پر آئیں گے اور آخر کار حق کا باطل پر غلبہ ہوگا۔ لیکن حق کے غلبہ کے بعد کیا دنیا ختم ہو جاۓ گی؟ جی نہیں! ممکن ہے اور آدم جیسے ابو البشر آئیں، جدید دنیا خلق ہوں اور وہاں پر حق و باطل کی جنگ ہو۔ لذا ارتقاء کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کہیں پر حق مغلوب ہو گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب حق کبھی بھی غالب نہیں ہو سکے گا۔

باطل کا ظاہری غلبہ

آج ہم پوری دنیا پر باطل کا ظاہری طور پر غلبہ دیکھتے ہیں۔ حق کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حق نابود ہو گیا ہے۔یا حق کے لیے کسی اور جگہ پر زحمت اٹھائی جاۓ تو وہاں پر حق اب قائم نہیں ہو سکے گا۔ ممکن ہے ایران سے ولایت فقیہ ختم ہوجاۓ اور دنیا کے کسی اور ملک کے کسی گاؤں،شہر یا صوبےمیں ولایت فقیہ آ جاۓ۔ کیونکہ حق کا غلبہ قرآن کریم کا وعدہ ہے۔

«جاء الحق و ذہق الباطل ان الباطل کان ذهوقا»؛ اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔[1] اسراء: ۸۱۔

زمانہ گزرے گا باطل ختم ہو جاۓ گا اگر ہم نے باطل سے ٹکر نہ لی تو ایسے لوگ آئیں گے جو جرأت مند ہونگے۔ حق کو دوبارہ غلبہ عطا کریں گے۔ عراق میں شہید باقر الصدرؒ کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ان کی کتابوں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی حتی ان کے گھر پر بلڈوزر پھرواۓ گئے ۔ پھر کیا ہوا؟ صدام خود پھانسی چڑ ھ گیا اور شہید صدرؒ آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی کتابیں حوزہ کا نصاب ہیں۔ بچہ بچہ ان کو جانتا ہے اور ان کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ لکھا جاتا ہے۔ صدام کو لعنۃ اللہ کہا جاتا ہے، اس کی قبر تک کا کسی کو علم نہیں ہے۔

حق قائم کرنے والی جماعت

تاریخ میں ہمیں بہت سی قومیں ملتی ہیں جنہوں نے حق کے لیے قیام کیا تو اللہ تعالی نے انہیں کامیابی عطا کی۔ لیکن جب حق سے دستبردار ہو گئے تو ان  کو تاریخ کے صفحوں سے مٹا دیا گیا۔ ان کی جگہ اللہ تعالی ایسی قومیں لے آیا جو قربانی کا جذبہ رکھتی تھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو قربانی نہیں دے گا وہ بچ جاۓ گا۔ جہاں پر کربلا کے شہداء کی سنہری تاریخ موجود ہے وہیں پر واقعہ حرہ بھی تاریخ کے اوراق میں سیاہ دھبے کے طور پر موجود ہے۔ مدینہ میں جن لوگوں نے ڈر کی وجہ سے امام حسینؑ کا ساتھ نہیں دیاوہ بچ نہ سکے بلکہ انہیں بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ مدینہ کو یزید نے دس دن کے لیے حلال قرار دیا۔ ان کی جان مال اور ناموس کو شامیوں پر حلال قرار دیا۔ لذا ان حقیقتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ولایت فقیہ اگر آج زمین کے ایک خطے پر قائم ہے تو اس کے حامی و ناصر بنیں۔ اگر نصرت اور حمایت نہ ملی تو باطل چھا جاۓ گا۔ جب حضرت موسیؑ، داودؑ، سلیمانؑ  جیسے انبیاء کی حکومتیں ختم ہو گئیں تو یہ بھی ختم ہو سکتی ہے بشرطیکہ خود انصار اس کو ختم نہ ہونے دیں۔تقیہ کر کے چھپ کر نا بیٹھ جائیں،اگر ہم نے دفاع نہ کیا تو واقعہ حرہ کی تاریخ کو دوبارہ دہرایا جاۓ گا۔ اگر ایران سے یہ نظام ختم ہو جاتا ہے تو خدا کوئی اور جماعت لے آۓ گا جو ہماری جگہ پر اس نظام کے لیے کوشش کرے گی اور اس کا دفاع کرے گی۔ انتخاب ہم نے کرنا ہے کہ کن کے ساتھ کھڑے ہوں؟ خوف یا شہوت کا شکار ہو کر حق سے منہ موڑ لیں یا حق کا ساتھ دیں۔ جنگ جمل کے بعد ایک شخص امیرالمومنینؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا امیرالمومنینؑ میرا ایک بھائی تھا جو بہت شدت سے چاہتا تھا کہ اس جنگ میں آپ کا ساتھ دیتا لیکن وہ شامل نہیں ہو سکا۔ امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ اگر وہ واقعی طور پر دل سے یہ خواہش رکھتا تھا تو ہم میں سے ہے اور گویا ہمارے ساتھ شامل تھا۔[2] حوالہ درکار ہے۔ ولایت فقیہ کسی بھی جگہ پر آ سکتی ہے اس تفکر کو ابھاریں اور تحرک ایجاد کریں۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو وطن عزیز پاکستان آزاد ہوا۔ لیکن ہم میں سے بہت سوں کو یہ علم نہیں ہے کہ اس کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ ان قربانیوں پر انہیں کس نے آمادہ کیا؟ ایک تفکر ابھرا، خدا کی عبادت انجام دینے کے لیے ان کو ایک آزاد سرزمین کی ضرورت تھی اس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد ہی اس کو اغوا کر لیا گیا۔ برطانوی نظام مسلط کر دیا گیا۔ سر سید احمد کی سوچ کو فروغ دیا گیا اور اقبالؒ کے تفکر کو دبایا گیا۔ علامہ اقبالؒ ایک انقلابی فکر رکھنے والی شخصیت تھی۔ وہ امت واحدہ کا نظریہ رکھتے تھے، استعماری نظام جمہوریت کے سخت خلاف تھے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان میں سر سید احمد کی فکر کو تبلیغ کیا گیا اور عملی طور پر ان کی نظر میں جو آئیڈیل نظام تھا اسے اپنا لیا گیا۔

حاکمیت الہی کا تفکر

ہر مومن مسلمان کا یہ وظیفہ ہے کہ اللہ تعالی کی زمین پر الہی حکومت کی تمنا اپنے دل میں رکھے اور اس کے لیے کوشش کرے۔ استعمار نے اتنا منفی پروپیگنڈہ کیا ہے کہ آج کا مسلمان سیکولر کی حکومت قبول کر لیتا ہے لیکن اسے اسلامی حکومت سے شدید خوف لاحق ہے۔ مسلمانوں کے خیال میں اسلامی حکومت یعنی داعش، طالبان، القاعدہ۔ یہ وہ تصور ہے جو استعمار نے مسلمان معاشروں میں ایجاد کیا ہے۔ کیا داعش اور طالبان کے اسلامی حکومت کے عنوان کو بدنام کرنے کی وجہ سے ہم اسلامی حکومت کا نام لینا ترک کر دیں۔ کیا جہاد کے وظیفے کو بدنام کر دئیے جانے کے بعد ہم پر جہاد ساقط ہو جاۓ گا؟ اگر ولایت فقیہ کو ایک فقیہ نے نقلی دلیل کے طور پر قبول نہیں کیا تو ہم بھی اس کو رد کر دیں؟ یا عقلی دلیل پھر بھی ہم پر حجت ہے؟ آخر کار ہمیں معاشرے میں حاکم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر حاکم کی ضرورت ہے تو کس کو حاکم بنایا جاۓ؟ فاسق فاجر مفاد پرست شخص کو حاکم بنائیں؟ یا عادل؟ ایسے شخص کو حاکم بنائیں جو دین کو استعمال کرتا ہے یا دین کو بدنام کرنے کے لیے فرقہ واریت کو پھیلاتا ہے یا اس شخص کوجو  دینی اور الہی مقررات کی پاسداری کرتا ہے اور دیندار شخص ہے؟ ہمارے پاس اس وقت بھی سنی شیعہ میں ۷۰ فیصد سے زیادہ مشترکات ہیں۔ لیکن ۳۰ فیصد اختلاف کو بھڑکانے کے لیے استعماری اینجنٹس بیٹھے ہوۓ ہیں جو نکتہ اشتراک پر ہمیں مل کر نہیں بیٹھنے دے رہے۔ یہ افراد حکومت اسلامی کی بات کرنے کی نوبت تک نہیں آنے دیتے پہلے ہی اسے فرقہ واریت کا موضوع بنا کر اڑا دیتے ہیں۔ یہ افراد ہمارے اپنے اندر موجود ہیں جنہیں ان موضوعات سے تکلیف ہے یہ لوگ آج بھی امام خمینیؒ یا شہید مطہریؒ جیسی شخصیات کی کتابوں کو نصاب کا حصہ نہیں بننے دیتے۔

پانچویں حدیث

کلینی نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے: «عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوْفَلِيِّ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‌ الْفُقَهَاءُ أُمَنَاءُ الرُّسُلِ مَا لَمْ يَدْخُلُوا فِي الدُّنْيَا قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا دُخُولُهُمْ فِي الدُّنْيَا قَالَ اتِّبَاعُ السُّلْطَانِ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَاحْذَرُوهُمْ عَلَى دِينِكُمْ»؛ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ فقہاء رسولوں کے امین ہیں جب تک وہ دنیا میں داخل نہیں ہو جاتے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہﷺ علماء کے دنیا میں داخل ہونے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: حکمرانوں کی پیروی۔ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اپنے دین میں ان سے ڈرو۔[3] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۔

تحقیق سند

۱۔ جو افراد الکافی کو صحیح السند مانتے ہیں ان کے نزدیک تو یہ روایت صحیح ہے۔ واضح رہے کہ یہ قول صرف اخباریوں کا نہیں ہے بلکہ بعض اصولی علماء بھی اس بات کے قائل ہیں کہ الکافی کی تمام روایات صحیح ہیں۔
اس روایت کے رواۃ بالترتیب درج ذیل ہیں:
۱۔ علی بن ابراہیم
۲۔ ابراہیم بن ہاشم
۳۔ حسین بن یزید نوفلی
۴۔ اسماعیل بن زیاد سکونی

پہلے راوی علی بن ابراہیم  مشائخ کلینی میں سے ہیں اور ان کی وثاقت واضح ہے۔
دوسرے راوی علی بن ابراہیم کے والد ابراہیم بن ہاشم وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے روایات اہل بیتؑ کو قم میں پہنچایا۔ قم کے علماء ہر شخص سے روایت نہیں لے لیا کرتے تھے۔ بلکہ روایت لینے میں اتنے سخت تھے کہ جو شخص خود ثقہ ہوتا لیکن کسی غیر ثقہ سے روایت لیتا تھا، صرف غیر ثقہ شخص سے روایت لینے کے جرم میں اس ثقہ شخص کو بھی قم سے نکال دیا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم بن ہاشم ان کی نظر میں بہت بڑی شخصیت تھے کہ جن کی روایات کو بدون چون چرا لے لیا۔[4] رجوع کریں۔
تیسرے راوی حسین بن یزید کے بارے میں اہل قم کا نظریہ یہ تھا کہ آخر عمر میں غالی ہو گئے تھے۔ نجاشیؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے نوفلی سے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی جس سے ان کا غالی ہونا ثابت ہو۔[5] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ج۱، ص۳۸۔ عبداللہ مامقانی صاحب نے ابھی ان کی روایات کو معتبر قرار دیا ہے اور فرمایا کہ بالفرض اگر ان کا غلو ثابت ہو بھی جاۓ تو تب بھی ان کی وہ روایات قابل استفادہ ہیں جو انہوں نے غالی ہونے سے پہلے بیان کی ہیں۔[6] مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج۲۳، ص۱۵۵۔

چوتھے راوی سکونی ہیں۔ ان کے بارے میں ایک راۓ یہ ہے کہ وہ سنی تھے۔ لیکن تحقیقی قول یہ ہے کہ سکونی شیعہ تھے۔ بہرحال سکونی کے بارے میں کتب رجالیہ میں مدح و ذم وارد نہیں ہوئی۔ بالفرض اگر سکونی سنی المذہب ہوں تو شیخ طوسیؒ نے فاسد المذہب سے روایت لینے کا ایک قاعدہ بیان کیا ہے جو اکثر علماء قبول کرتے ہیں۔ وہ قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی فاسد العقیدہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جھوٹ نہیں بولتا اس کی روایت اس شرط کے ساتھ لے لی جاۓ گی کہ اس روایت کا متن شیعہ تعلیمات کے برخلاف نہ ہو۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔
۱۔ جو متن لایا ہے عین شیعہ تعلیمات کے موافق ہے۔
۲۔ ایسا متن لا رہا ہے جس کے شواہد میسر نہیں ہیں اور شیعہ سنی دونوں کے موافق نہیں لگ رہا۔ اس صورت میں بھی اس کی روایت کو لے لیں گے۔ لیکن اگر ایک ایسا متن لا رہا ہے جو قرآن کریم یا شیعہ تعلیمات کے برخلاف ہے اور اس کے فاسد عقیدے کو اس سے تقویت ہوتی ہے تو اس کی روایت کو رد کر دیا جاۓ گا۔[7] شیخ طوسی، محمد بن حسن، العدۃ فی اصول الفقہ، ج۱، ص۱۴۹۔ بعض علماء سکونی کی روایات لینے میں احتیاط کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیخ طوسیؒ کا اپنا اجتہاد ہے جو ہم پر حجت نہیں ہے۔

شرح حدیث

روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب تک فقہاء دنیا دار نہیں ہو جاتے تب تک وہ امین ہیں۔ لیکن اگر دنیاداری کا شکار ہو جائیں اور حکمرانوں کی چوکھٹ پر جھکنا شروع ہو جائیں تو اس صورت میں وہ امین نہیں بلکہ خائن ہیں۔ یہ فقہاء حب الدنیا کا شکار ہیں۔ ہر انسان کا رزق معین ہے، فقیر کی نسل فقیر نہیں رہے گی۔ بلکہ اللہ تعالی جب جس کے حالات بدل دینا چاہیے بدل سکتا ہے۔ ایک وہ رزق ہے جو اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے وہ آپ کو مل کر ہی رہنا ہے۔ ورنہ آج پاکستان میں جتنے بھی امیر ترین خاندان ہیں یہ شروع میں فقیر تھے۔ لیکن آج انہوں نے پورے پاکستان پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہر طرح کا تحفظ بھی ان کو حاصل ہے، کسی کی جرأت نہیں ہے ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ لیکن اگر کوئی ضعیف ہے تو اسے تھانیدار بھی آنکھیں دکھاتا ہے۔ اس وقت وطن عزیز پاکستان کی حالت افریقی ممالک سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ہمیں ایٹمی طاقت بنے سالوں گزر گئے ہیں۔ ملک کا آدھے سے زیادہ بجٹ فوج استعمال کرتی ہے اور اس سے پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی کہ کہاں پر خرچ کیا ہے۔ حتی تنقید تک برداشت نہیں کرتے جو تنقید کرے اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ اس سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ملک کی امنیت کا مسئلہ ہے کہ آج طالبان پورے ملک پر دوبارہ حملہ ور ہیں۔ اس دہشتگرد گروہ کو کس نے بنایا؟ کسی مذہبی جماعت یا سیاستدان نے تو طالبان نہیں بناۓ تھے بلکہ حمید گل صاحب نے بناۓ۔ وہ فخر سے اپنے اس کام پر اتراتے اور کہتے کہ ہم نے امریکہ سے بھی مفاد لیا اور روس سے بھی جنگ جیت گئے۔ لیکن انہوں نے یہ کبھی تحلیل نہیں کیا تھا کہ طالبان نے ملک و قوم کا نقصان کتنا کیا ہے؟ لیکن کیسے طالبان بن گئی؟ کیسے دین دار مولویوں نے دنیوی مفادات کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالا اور اپنے مذہب کو بدنام کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی جو اس روایت میں بیان ہوئی ہے۔ وہ وقت کے حکمرانوں کی اتباع کرنے لگے۔ ہمارا سب سے بڑا اعتراض ہی اپنے اداروں پر یہ ہے کہ ان کے سارے منصوبے سیکولر سوچ پر ہیں۔ وہ ایمانی تفکر نہیں رکھتے بلکہ مفادات کی بنا پر منصوبہ بناتے ہیں اور مال کی خاطر خود بھی بکتے ہیں اور دوسروں کو بھی خریدتے ہیں۔ لیکن اگر منصوبوں کی اساس ایمان ہو تو کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ قوم کو فروخت نہیں کریں گے اور نا ہی ان پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جاۓ گا۔ اس کا علاج ضروری ہے ورنہ یہ بیماری دیمک کی طرح ملک کو کھا جاۓ گی۔ فوج کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی حفاظت کریں اور لبرل بنیادوں پر منصوبہ نا بنائیں۔ بلکہ اسلامی تقاضوں کی بنیاد پر ملک و قوم کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ اسلامی تقاضوں کا مطلب طالبانی و داعشی سوچ نہیں ہے، اور نا ہی سپاہ محمد یا سپاہ صحابہ کی منصوبہ بندی مراد ہے۔ دین اسلام ٹارگٹ کلنگ کو قبول نہیں کرتا۔ اسلام کے نام پر اگر کوئی مولوی کرپشن یا دہشتگردی کرتا ہے تو اسے اسلام کے کھاتے میں نہ ڈالیں۔ اسلام سے مراد سلامتی والا حقیقی اسلام ہے۔ دین اسلام کے ان مشترکات کو تمام فرقہ جات مانتے ہیں کہ خائن کو قبول نہ کیا جاۓ، دنیادار کو اپنے اوپر مسلط نہ کیا جاۓ۔ ایک پروپیگنڈہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ شیعہ جب اسلامی نظام کا نام لیتا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ پاکستان میں ایرانی نظام لے آئیں۔ یہ شدید ترین پروپیگنڈہ ہے جو تشیع کے خلاف کیا گیا ہے۔ ولایت فقیہ کا ایرانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نا کسی غیرت مند پاکستانی کو ایرانیت قبول ہے۔ ولایت فقیہ سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں لیکن ایرانیت کو پاکستان پر مسلط نہیں کر سکتے۔ اور نا ہی ولایت فقیہ کا نظام یہ چاہتا ہے کہ دوسرے ممالک کی حدود کو پائمال کرے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایران جہاں پر بھی موجود ہے وہاں آپ ایرانیت کے آثار نہیں دیکھیں گے، فرض کریں شام ہے یا حزب اللہ لبنان۔ آپ کہیں پر بھی ایرانی جھنڈا نہیں دیکھیں گے۔ اس کے برعکس جہاں کہیں بھی امریکی و برطانوی استعمار گیا ہے ان کے بہت گہرے آثار موجود ہیں۔ تشیع میں لشکر کشی کا نظریہ ہی نہیں ہے۔ اگر ایران ایسا کرے تو وہ ایرانیت کی اساس پر کر سکتا ہے اور ایسی صورت میں باطل عمل ہوگا اور ہر شیعہ اس بات کو رد کرے گا بلکہ ان کے خلاف ملک کی سالمیت کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا۔ ولایت فقیہ یہ نہیں ہے جو دنیادار مولوی پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ہر عالم دین، ولی فقیہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کا جامع الشرائط ہونا ضروری ہے۔ اس میں پہلی شرط ہی یہ ہے کہ ولی فقیہ دنیا دار نہیں ہو سکتا، اس کا عادل ہونا شرط ہے۔ مدیریت اور سیاست کرنا جانتا ہو۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان شرائط کی تبیین نہیں کی جاتی حالانکہ ان باتوں کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ طلاب کو پتہ ہونا چاہیے کہ اسلامی نظام کیا ہے؟ اس کا حاکم کیسا ہوتا ہے؟ اس کے اندر کون کونسی خصوصیات ہونا ضروری ہیں؟ اسلامی سیاست کے اصول سب کو پڑھنا ضروری ہیں۔ ایسا فقیہ قابل قبول نہیں ہے جس کی تمام فعالیت ہی استعمار کو فائدہ دے رہی ہو۔ فرق نہیں پڑتا یہ فقیہ شیعہ ہے یا سنی، اگر اس کے اندر اتنی بصیرت نہیں ہے کہ اس کی باتوں سے مسلمانوں کو فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان، ایسا فقیہ پوری قوم کی مدیریت کیسے کر سکتا ہے؟ ایسا فقیہ جس سے اپنا دفتر صحیح طریقے سے مدیریت نہیں ہوتا ہم اس کے حوالے پوری قوم کے امور کیسے سونپ سکتے ہیں؟ اگر مدیریت کی اہلیت نہیں رکھتا اور پھر بھی خود کو مدیریت کے لیے پیش کرتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا دار ہے۔ حقیقی دین دار ایسا کام ہرگز نہیں کرے گا۔ اس فقیہ سے اپنے دین کو بچانا ضروری ہے۔ حکمرانوں کی اتباع کرنا فقہاء کے لیے ننگ ہے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ حکومت اور اداروں میں فرق ہے۔ حکومتی اداروں میں کام کرنے والا ہر عہدے دار حاکم نہیں کہلاتا۔ بلکہ حاکم وہ ہوتا ہے جو ان سب پر مدیر ہوتا ہے۔ مکتب تشیع غیر الہی حاکم یا حکومت کو غیر مشروع مانتا ہے اس کا اداروں سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی عالم دین کسی حکومتی ادارے کی بات مانتا ہے یا اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے وہ دنیادار ہو گیا۔ مشکل حکومتی اداروں سے نہیں بلکہ حکومتی نظام سے ہے۔ جیسے خان صاحب کی ہماری چیف صاحب سے لڑائی تھی۔ اب یہ لڑائی ایسا نہیں کہ خان صاحب پورے فوجی ادارے کے مخالف ہوں بلکہ ان کی مخالفت فوجی ادارے کے چیف سے تھی۔ ہمارے یہاں کیونکہ بات بات پہ پروپیگنڈہ کر دیا جاتا ہے تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہماری بات کا مطلب یہ ہے کہ کل سے کسی ادارے کے ساتھ تعاون ہی نہ کریں اور ملک میں افراتفری کا باعث بن جائیں۔ حکمرانوں کی اتباع اور اداروں کے ساتھ تعاون میں فرق ہے۔ حکمران کی حمایت اور مخالفت کا معیار ہونا چاہیے، اتباع کا مرحلہ ممنوع ہے جس میں حکمران کے ساتھ ہو لیا جاۓ، اس کے منشور کو اپنا منشور بنا لیا جاۓ، اس کی پارٹی میں شامل ہو کر اس کی تائید کرنا ممنوع ہے۔ 

چھٹی حدیث

یہ روایت جامع الاخبار میں وارد ہوئی ہے جس میں رسول اللہﷺ سے منقول ہے: «فَإِنِّي أَفْتَخِرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِعُلَمَاءِ أُمَّتِي عَلَى سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي»؛  میں روز قیامت اپنی امت کے علماء پر مجھ سے پہلے تمام آنے والے انبیاء پر فخر کرونگا۔[8] شعیری، محمد، جامع الاخبار، ج۱، ص۳۸۔
کتاب جامع الاخبار کی روایات کی سند پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کتاب کا متن بہت اعلی معانی پر مشتمل ہے۔ یہ روایت جناب ابو ہریرہ سے آئی ہے۔

ساتویں حدیث

کتاب فقہ الرضا میں امام رضاؑ سے نقل ہے: «منزلة الفقيه في هذا الوقت، كمنزلة الأنبياء في بني إسرائيل»؛ اس وقت فقیہ کا درجہ، بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہے۔[9] فقہ الرضا، ج۱، ص۳۳۸۔
یہ کتاب علماء میں اختلافی ہے۔ اس کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ آج سے تقریبا ۴۰۰ سال پہلے ایک اخباری عالم دین گزرے ہیں جن کا نام تقی مجلسی ہے۔ آپ صاحب بحار الانوار علامہ مجلسی کے والد ہیں۔ انتہائی پاکیزہ شخصیت تھے۔ تصوف کی طرف مائل تھے، انہوں نے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کی شرح لکھی ہے جس کا نام روضۃ المتقین ہے۔ تقی مجلسیؒ ایک سال حج پر تھے، ان کے پاس ایک کاروان آیا انہوں نے تقی مجلسی کو ایک کتاب دی اور کہا کہ یہ کتاب امام رضاؑ سے منسوب ہے۔ آپ بتائیں کہ معتبر ہے یا نہیں؟ آپ نے دن رات ایک کیا اور کتاب کا مطالعہ کر کے تائید کی اور کہا کہ واقعی میں یہ کتاب امام رضاؑ کی ہے۔ اس کتاب سے روایات بھی اپنی کتاب میں نقل کی ہیں، ان کے فرزند علامہ مجلسیؒ نے بھی اس کتاب کو نقل کیا ہے۔ وہ کاروان چلا گیا اور اصل کتاب بھی لے گیا۔ فقہ الرضا کے نام سے جو کتاب آج موجود ہے وہ در اصل نسخہ برداری ہے۔ تقی مجلسیؒ سے پہلے کے ادوار میں یہ کتاب کہیں بھی موجود نہیں تھی۔ اور ہمارے پاس تقی مجلسیؒ کی گواہی کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ کتاب امام رضاؑ کی ہے ۔ 

آٹھویں حدیث

طبرسیؒ نے کتاب الاحتجاج میں امیرالمومنینؑ سے نقل کیا ہے: «مَنْ خَيْرُ خَلْقِ اللَّهِ بَعْدَ أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى؟ قَالَ الْعُلَمَاءُ إِذَا صَلَحُوا»؛  تاریکیوں میں چراغ اور ہدایت کے آئمہ کے بعد خدا کی خلق میں سب سے بہتر کون ہے؟ امام نے فرمایا: علماء! اگر وہ صالح ہوں۔[10] طبرسی، ابو منصور احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۴۵۸۔
کچھ علماء اس کتاب کو معتبر قرار دیتے ہیں۔ لیکن اکثریت اس کتاب کو معتبر نہیں سمجھتے اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر روایات مرسل ہیں۔ 

نویں حدیث

شیخ طبرسیؒ نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں رسول اللہﷺ سے نقل کیا ہےفضل العالم على سائر الناس، كفضلي على أدناهم»؛    عالم کی فضیلت تمام لوگوں پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت ان میں سے ادنی پر ہے۔[11] طبرسی، ابومنصور احمد بن علی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۹، ص۴۱۸۔
یہ حدیث کسی بھی شیعہ سنی کتاب میں نہیں آئی۔ بعض کتابوں میں  ’’فضل العالم‘‘ تک عبارت آئی ہے لیکن ناس کا ذکر نہیں ہے۔ یا بعض روایات میں عالم کے عابد پر فضل کا ذکر ہوا ہے۔ اس روایت کی مؤلف نے سند بھی ذکر نہیں کی لہذا سندی طور پر ضعیف ہے۔ 

دسویں حدیث

شہید ثانیؒ نے منیۃ المرید میں حدیث قدسی نقل کی ہے جس میں وارد ہوا ہے:« إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِعِيسَى ع عَظِّمِ الْعُلَمَاءَ وَ اعْرِفْ فَضْلَهُمْ فَإِنِّي فَضَّلْتُهُمْ عَلَى جَمِيعِ خَلْقِي إِلَّا النَّبِيِّينَ وَ الْمُرْسَلِينَ كَفَضْلِ الشَّمْسِ عَلَى الْكَوَاكِبِ وَ كَفَضْلِ الْآخِرَةِ عَلَى الدُّنْيَا وَ كَفَضْلِي عَلَى كُلِّ شَيْ‌ءٍ»؛ بتحقیق الله تعالی نے حضرت عیسیؑ کو فرمایا: علماء کو عظیم سمجھو۔ اور ان کی فضیلت کو پہنچانو۔ میں نے ان کو اپنی تمام مخلوقات پر سواۓ انبیاء و مرسلین کے فضلیت بخشی ہے۔ ایسی فضیلت جیسی سورج کو ستاروں پر اور آخرت کی فضیلت دنیا پر اور میری فضیلت ہر چیز پر ہے۔[12] شہید ثانی، زین الدین بن علی بن احمد، منیۃ المرید، ج۱، ص۱۲۱۔
یہ روایت اور کسی کتاب میں وارد نہیں ہوئی اور نا اس روایت کی شہید نے سند بیان کی ہے۔

گیارہویں حدیث 

محمد بن علی کراجکی نے کنز الفوائد میں نقل کیا ہے: «المُلوكُ حُكّامُ النّاسِ ، وَالعُلَماءُ حُكّامٌ عَلَى المُلوكِ»؛ بادشاہ عوام کے حکمران ہوتے ہیں اور علماء بادشاہوں پر حاکم ہوتے ہیں۔[13] کراجکی، ابوالفتح محمد بن علی، کنزالفوائد، ج۱، ص۱۹۵۔ [14] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۹،۱۸۰۔

Views: 29

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ اور حدیث علماء وارثِ انبیاء
اگلا مقالہ: امام باقرؑ اور حکمرانوں کے بارے موقف