loading

ابراہیم بن ہاشم

تحرير: سید محمد حسن رضوی
2021-08-20
ابراہیم بن ہاشم قمی   امام تقی × کے صحابی ہیں اور آپ نے کثرت سے روایات نقل کی ہیں۔ بعض علماء رجال کے مطابق آپ  امام رضا× کے صحابی ہیں لیکن اس نسبت پر بعض نے اعتراض کیا ہے ۔ محقق خوئی کے مطابق آپ کی امام رضا× سے ملاقات ثابت ہے لیکن آپ نے ان سے کوئی روایت نقل نہیں کی۔ قدیم و متأخر تمام علماء رجال و محدثین کے نزدیک آپ کی وثاقت و جلالت و عظمت ثابت ہے ۔ آپ کی علمی سیادت و جلالت کی بناء پر آپ توثیقاتِ خاص سے مستغنی و بے نیاز ہیں۔

رجالی تفصیلات كا جدول

۱۔ نام : ابراہیم بن ہاشم [1]نجاشی، احمد بن علی ، رجال النجاشی، ص ۱۶، رقم: ۱۸۔
۲۔ کنیت:  ابو اسحاق
۳۔لقب/ نسبت: کوفی، قمی [2]طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ، ص ۱۲، رقم: ۶۔
۴۔ رجالی حیثیت:
توثیق خاص
۱۔ نجاشی: موجود نہیں۔ آپ پہلی شخصیت ہیں جس نے کوفی محدثین کی احادیث قم میں نشر کیں۔[3]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۱۶، رقم: ۱۸۔
۲۔ طوسی: موجود نہیں۔ آپ پہلی شخصیت ہیں جس نے کوفی محدثین کی احادیث قم میں نشر کیں۔ [4]طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ، ص ۱۲، رقم: ۶۔
۳۔ کشی: موجود نہیں۔
توثیق عام آپ کا شمار کامل الزیارات اور تفسیر قمی کی اسانید میں وارد ہونے والے راویوں میں ہوتا ہے اور سید ابن طاووس نے آپ کی وثاقت پر اجماع کا دعوی کا ہے ۔ [5]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص۳۴۴۔[6] خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۲۹۱، رقم:۳۳۲۔
۵۔طبقہ: صحابی امام تقی ×

علمی تبصره

علامہ حلی، علامہ مجلسی ،میر باقر داماد اور دیگر علماء رجال نے آپ کی وثاقت کو شک سے بالاتر قرار دیا ہے ۔  تمام فقہاء و محدثین کا آپ کی روایات پر اعتمادکرنا اور کثرت سے آپ سے روایات نقل كرنا  اور کسی قسم کی مخالفت کا موجود نہ ہونا آپ کی کمال وثاقت پر دلیل ہے۔  [7]مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال ، ج ۵، ص ۸۶۔  ابراہیم بن ہاشم اپنی شہرت اور بلند پایہ شخصیت کی وجہ سے توثیقات خاصہ سے بے نیاز ہیں۔ محقق خوئی نے تین دلائل کی بناء پر آپ کی وثاقت کو یقینی قرار دیا ہے:

    1.  آپ تفسیر قمی روایات کی اسانید میں وارد ہوئے ہیں اور علی بن ابراہیم نے یہ طے کیا تھا کہ وہ قابل اعتماد اور ثقہ کے علاوہ کسی سے روایت نہیں لیں گے۔
    2. سید ابن طاووس نے فلاح السائل کتاب میں آپ کی وثاقت پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔

    3.  آپ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے کوفی محدثین کی روایات قم میں نشر کیں۔ اس دور میں اہل قم اس قدر حساس تھے کہ وہ ضعیف راویوں سے روایت کرنے والے جلیل القدر شخصیت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ ایسے میں قمی محدثین کا ابراہیم بن ہاشم سے کثیر روایات لینا واضح دلیل ہے کہ ابراہیم بن ہاشم کی جلالت و منزلت سے قمی محدثین انتہائی متاثر ہوئے۔[8]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۲۹۱، رقم:۳۳۲۔

شیخ محسنی نے ان تمام دلائل کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے باوجود کثرتِ روایات اور قدماء کی جانب سےابراہیم بن ہاشم کی تعظیم و احترام کی بناء پر ان کی روایات کو ردّ کرنا اور غیر قابل قبول قرار دینا  ناممکن قرار دیا ہے۔چنانچہ ’’من باب احتیاط‘‘ ابراہیم بن ہاشم کی تمام روایات کو قبولیت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔[9]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۳۴۴۔

Views: 75

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: محمد بن علی ماجیلویہ
اگلا مقالہ: قاسم بن یحیی