loading
{  سیاسی افکار}

امام باقرؑ اورحکمرانوں کے بارے میں موقف

تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی
01/26/2023
 

اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتِ اسلامیہ کے سیاسی و اجتماعی ہدایت کے نظام کا نام ’’امامت‘‘ ہے جس کے پانچویں حاکم و ہادی اور الہٰی حکمران ’’امام محمد باقرؑ‘‘ ہیں جن کی ولادت با سعادت معروف قول کے مطابق ۵۷ ھ اور  رجب المرجب کی پہلی تاریخ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور۷ ذی الحجہ ۱۱۴   ھ میں ہشام بن عبد الملک -لعنہ اللہ- کے زہر دینے سے آپ ؑ کی ۵۷ سال کی عمر میں شہادت ہوئی اور مدینہ منورہ جنت البقیع میں اپنے والد گرامی امام سجادؑ کے ساتھ مدفون ہوئے۔ آپؑ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ تھا جوکہ امام حسن مجتبی ؑ بیٹی اور انتہائی پاکیزہ اور بلند مرتبہ خاتون تھیں۔ الکافی میں آپؑ کی والدہ ماجدہ کا واقعہ وارد ہوا ہے کہ وہ ایک دیوار کے پاس بیٹھی ہوئیں تھیں کہ اتنے میں دیوار سے بڑی سے دراڑھ پڑی اور اس سے ٹوٹنے کی اونچی آواز آئی اور زمین کی طرف گرنے لگی۔ اس وقت امام باقرؑ کی والدہ نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: مصطفی ﷺ کے حق کی قسم ! اللہ نے تجھے گرنے کا اذن نہیں دیا۔ یہ کہنا تھا کہ دیوار ہوا میں معلق ہو گئی اور ٹھہر گئی اور جناب فاطمہ ؑ اس کے نیچے سے نکل گئیں امام سجادؑ نے اس کے بعد سو دینار صدقہ دیا۔ اس سے اگلی روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ میری دادی صدیقہ تھیںامام حسنؑ کی نسل ان جیسی کوئی خاتون نہیں گزری۔ [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۵۲۹۔[2] مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۱، ص۱۵۸۔  [3] ابن خلکان، شمس الدین، وفیات الاعیان، ج۴، ص۱۷۴۔  آپؑ کربلا کے تمام حالات کے چشم دید گواہ ہیں۔آپؑ اپنے دادا امام حسینؑ کے ہمراہ ۴ سال ، اپنے والد گرامی امام سجادؑ کے ساتھ ۳۴ سال اور اللہ سبحانہ کی جانب سے منصب امامت پر ۱۹ سال فائز رہے۔ زیر نظر سطور میں ہم امام باقرؑ کے عصرِ امامت کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے دور کے مختلف حکمرانوں کے ساتھ روش و رویہ کو احادیث مبارکہ کے تناظر میں ملاحظہ کرتے ہیں۔

سیاسی و اجتماعی حالات

امام باقرؑ کے زمانہ امامت میں امت اسلامیہ کے اجتماعی و سیاسی حالات تاریخ اسلام کے بدترین ادوار سے عبارت ہے۔ اس گھمبیر اور قیصر و کسری کے طور طریقوں پر گامزن سیاسی حالات میں  امامؑ کا سیاسی مؤقف جاننا مکتب تشیع  کے لیے بہت ضروری ہے۔اس دور کے حکمرانوں کا اگر وطن عزیز پاکستان کے حکمرانوں سے مقایسہ کریں توہم جان سکتے ہیں کہ سرزمین پاکستان میں حالیہ دور میں جمہوریت کے نام پر ملوکیت و آمریت کی تاریخ رقم کرنے والے کونسے باشادہ نما حکمران ماضی کے آئینہ میں کس حکمران کی عکاسی کرتے ہیں ۔ پاکستان کی پیدائش کے بعد سے اب تک یہ خطہِ پاک مختلف قسم کے ناپاک حاکموں کے شکنجوں میں جکڑا رہا ہے جو جمہوریت کے نام ملوکیت کی سیاست کھیلتے رہے ہیں اور آج اس پاک زمین پر بسنے والے ایک عذاب کی سی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی زمام زیادہ تر فوجی حلقہ جات کے سپرد رہی ہے اور جب آمریت کے ہاتھ سے اس پاک سرزمین نے نجات پائی تو شریف و بھٹو زرداری خاندان کے جال میں یہ مملکت گھیری گئی ۔ ان حالات میں در پردہ فوجی تائید و حمایت کے بَل بوتے پر حکومت حاصل کرنے والے عمران خان میدانِ سیاست میں اترے اور پچھلوں کی سنت پر چلتے ہوئے دل نشین نعرے لگا کر عوام و علماءِ خواص کے دل مول لیے اور اپنی ملوکیتی جمہوریت کی بنیاد تحریک انصاف کے نام پر رکھی۔ ظاہری طورپر عمران خان کا حسب نسب اور طریقہِ واردات دیگر حکمرانوں سے جدا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے عوام اپنی امیدیں باندھے ہوئے ہیں لیکن اقتدار کی کرسی کی لذت ہی ایسی ہے کہ ریاستِ مدینہ کے خواب دکھا کر اپنی اقتدار کی راہ ہموار کرنا اور روشن و ترقی یافتہ پاکستان کی خیالی تصویر دکھا کر اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی شیطانی سیاست سے خان صاحب بھی کنارہ کش نہیں رہ سکے۔ دیگر حکمرانوں اور خان صاحب میں یہ فرق ہے کہ خان صاحب بعض اصولوں اور ضوابط کے پابند نظر آتے ہیں اور شیعہ و سنی ہر دو مکاتب فکر کے سیاسی مذہبی علماء کا غیر معمولی اعتماد لیے ہوئے ہیں۔ آج ڈیموکریسی کے نام پر پاکستان میں ملوکیت کا نظام ہے،  نون لیگ کے خاندان سےصاحب اقتدار قرار پاتا ہے اور اس کے بعد یہ میراثِ اقتدار اس کے خاندان میں منتقل ہوتی ہے ، اسی طرح سے بٹھو اور چوہدری اور دیگر سیاسی بدنام زمانہ خاندان ہیں جن کی استعماریت سے مملکتِ اسلامی پاکستان ابھی تک آزادی نہیں پا سکی۔  پاکستان کے ان سیاسی حالات میں ہم کس حکمران کی کتنے درجے تک حمایت و تائید کریں اور کیا اس کسی پہلو سے بیزاری کا اظہار کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس امر کو ہم امام باقرؑ کے حکمرانوں سے رویے اور موقف کے ذیل میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح امام باقرؑ کے دور میں خلافت کے نام پر ملوکیت اور بادشاہت رائج تھی اسی طرح سے ہمارے وطن عزیز میں جمہوریت کے نام پر ملوکیت و بادشاہت حاکم ہے ، جب باپ مر جاتا ہے تو بیٹا حاکم بن جاتا ہے، اگر جانشین نہ ہو تو سیاسی حزب اور پارٹی حکمرانی کی وارث قرار پاتی ہے!! جمہوریت کے نام پر یہ وہی ملوکیت ہے جس کے خلاف دین اسلام اور ہمارے آئمہ معصومینؑ نے مبارزہ کیا ہے۔خلافت کے نام پر ملوکیت اور حکمرانی کی شیطانی سیاست امام باقرؑ کے دور میں موجود تھی اور اسی مشابہت اور مشترکہ سیاسی پہلوؤں کو بنیاد بنا کر آج کے دور میں ہم سیاسی بصیرت اور حکمرانوں کے بارے میں حقیقی اسلامی موقف حاصل کر سکتے ہیں۔

امام باقرؑ اور اموی اسلامی ریاست:

امام باقرؑ کی امامت کا زمانہ بنو امیہ کی حکومت کے اوج کا دور تھا۔ اسلامی مملکت ماڈرن ریاست بن چکی تھی۔ ملک میں غربت ختم ہو چکی تھی، درباری امور میں جدید پروٹوکول حاکم،اور جدت پسندی میں یہ حکومت اپنی مثال آپ تھی۔ ہارون اور مامون کے دور میں یہ اسلامی مملکت پوری دنیا کے لیے نمونہ بن چکی تھی۔ ہارون سے پہلے ایران اور روم کی اسٹیٹس نمونہ شمار ہوتی تھیں لیکن ان ادوار میں اسلامی ریاست پوری دنیا میں مہد تمدن شمار ہوتی تھی۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں پر پڑھنے آتے، پوری دنیا میں کتابوں اور لائبریریوں کا مرکز یہی اسلامی ملک تھا، اس وقت کے بادشاہوں میں یہ رواج چل پڑا تھا کہ پوری دنیا کے لائق ترین افراد اکٹھے کرتے ان کے لیے تحقیقات اور انکشافات کا بہترین موقع فراہم کرتے اور ان سے ایجادات کرواتے۔ یہ کام ہر ملک میں ہوتا ہے حتی ہمارے وطن عزیز میں بھی یہی ہوا، محسن ملت جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا عبدالقدیر خان وہ تو غربت میں مرحوم ہو گئے لیکن ایٹمی طاقت بننے کا سہرا سیاسی حکمرانوں نے اپنے سر باندھ لیا۔امام باقرؑ ان حالات میں پہلے منصب امامت پر فائز ہوۓ۔آپؑ نے ۵۷ سے ۶۱ ہجری تک تین یا چار سال کی ایک مختصر مدت اپنے دادا امام حسینؑ کے زیر سایہ گزاری۔ آپؑ نے ۶۱ سے ۹۵ ہجری تک ۳۴ سال ۱۰ مہنیے اپنے والد گرامی امام سجادؑ کی خدمت میں گزارے۔ سال ۹۵ ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوۓ اور تقریبا ۱۹ سال ۲ ماہ اس فریضے کو احسن انداز میں ادا کیا۔[4]طبری آملی، محمد بن جریر،دلائل الامامۃ، ص ۲۱۵۔

امام باقرؑ کے دور کے خلفاء

عالم اسلام بادشاہت و ملوکیت داغ بیل کو بنو امیہ کی دور میں فروغ ملا اور خاندانی بادشاہت کاسلسلہ چل پڑا۔ امام باقرؑ کے زمانہِ امامت میں پانچ اموی خلفاء گزرے ہیں جنہوں نے حکومت کی اور ظاہری طور پر فتوحات، معاشرتی اصلاحات اور ترقیات امور کو جاری کر کے اسلامی ریاست کی مادی زندگی کو دوبالا کر دیا لیکن دوسری طرف آئمہ اطہارؑ سے دشمنی اور ان کے حق کو سلب کر کے دینی تعلیمات کی پامالی بھی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ امام باقرؑ کے دور میں جن اموی بادشاہوں نے حکومت کی وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ولید بن عبد الملک(۸۶ ھ تا ۹۶ ھ)
۲۔ سلیمان بن عبد الملک (۹۶ ھ تا ۹۹ھ)
۳۔ عمر بن عبد العزیز (۹۹ ھ تا ۱۰۱ھ، تقریباً ڈھائی سال)
۴۔ یزید بن عبد الملک (۱۰۱ ھ تا ۱۰۵ھ )
۵۔ ہشام بن عبد الملک (۱۰۵ھ تا ۱۲۵ ھ)
خلیفہ سوم کے بعد معاویہ بن ابی سفیان پہلا اموی بادشاہ ہے جس نے رسمی اعلان کے ساتھ حکومت پر ناجائز قبضہ کیا اور مرتے ہوئے اپنا جانشین یزید لعین کو بنا گیا۔  یزید کی ہلاکت کے بعد اس کے بیٹے معاویہ بن یزید بن معاویہ نے حکومت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور علی الاعلان کہا کہ میرے باپ یزید نے امام حسینؑ کو قتل کر کے صحیح کام نہیں کیا۔[5] یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۴۔  [6] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۸ ۳۵۹۔  [7] دیار بکری، شیخ حسین، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، ص۳۰۱۔  اس وقت ممکن تھا حکومت بنو امیہ کے ہاتھوں سے نکل جاۓ، لیکن مروان بن حکم نے وہاں پر سیاسی چال سے حالات پر قابو پا لیا۔ مروان وہ شخص تھا جو واقعی میں سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ اگر یہ حق پر ہوتا تو بہت بڑی خدمات انجام دیتا۔ مثلا اتنی بڑی ریاست کو سنبھالنا، سیاسی مخالفین کو مہارت سے چپ کرانا معمولی کام نہیں ہیں۔ عمرو بن عاص جیسی شخصیات صرف جنگی مشاور ہی نہیں تھے بلکہ بہت بڑے سیاست دان تھے۔ عمومی طور پر کرنیلوں جرنیلوں میں سیاسی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی، پاکستان میں انہیں کے ہاتھوں طالبان بنائی گئی اور فتوحات کے سہانے خواب دیکھے گئے لیکن ریاست کو تباہی کے دہانے پر لے آۓ ، لیکن عمرو بن عاص نے نا صرف جنگوں میں کمانڈ کیا بلکہ سیاست بھی کی۔ اگر یہ لوگ حق پر ہوتے تو یقینا حق کی راہ میں خدمات انجام دیتے۔ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ سے امت کا بھلا ہوتا۔ مروان بن حکم نے حکومت کو ہاتھ میں لیا بعد میں اس کے بیٹوں کی حکومت آئی۔ولید بن عبدالملک نے بنو امیہ کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کیااور اہل بیتؑ کے پیرو کے لیے شدید ترین حالات کو جنم دیا ۔

امام باقرؑ کے زمانہِ امامت کے ابتدائی پہلے دو سال کچھ مہینے ولید زندہ رہا اور اس کے بعد واصل جہنم ہو گیا۔ اس کے بعد سلیمان بن عبد الملک بادشاہ بنا ہے جو کہ ایک عیاش انسان تھا اور آئمہ اہل بیتؑ اور ان کے پیرو سے سخت بغض و کینہ رکھتا تھا۔  عبدالملک بن مروان اور عبدالعزیز بن مروان۔ اس کے بعد عبدالملک کے بیٹوں کی حکومت آئی۔ ان میں سے نیک نامی صرف عمر بن عبدالعزیز کو حاصل ہوئی۔ بعض اہل سنت اس کو خلیفہ راشد تسلیم کرتے ہیں۔ ہشام بن عبد الملک امام باقرؑ سے حسد، بغض و کینہ میں دیگر اموی سلاطین کی نسبت زیادہ دشمنی رکھتا جس کی بناءپر اس نے امام باقرؑ کو ۱۱۴ ھ میں شہید کرا دیا۔

پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ مقائسہ

تاریخ تطبیقی کے باب سے ہم اموی بادشاہوں کا پاکستان کے جمہوری ملکوکی حکمرانوں کے ساتھ مقائسہ کرکے آج کے دور میں امام باقرؑ کے سیاسی موقف سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ ہم اس سیاسی شور شرابے اور چھینا چھپٹی میں کس موقف کو اختیار کریں اور اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کو انجام دیں  اور کسی بھی موقف یا حزب و جماعت کی  حمایت اور مخالفت کا معیار کیا ہونا چاہیے؟ امام باقرؑ کے دور میں اموی بادشاہوں میں بعض کو شریف خاندان کی مانند قرار دے سکتے ہیں جن کا کام ترقیاتی کام اور بیت المال کو لوٹنا تھا جبکہ بعض بھٹو زرداری پارٹی کے مشابہ قرار دے سکتے ہیں جن کے پیش نظرسیاست کرپشن اور اپنے مفاد کے حصول کا نام ہے۔ جبکہ بعض بادشاہوں کی نیک نامی اور اعلیٰ اصلاحات کی بناء پر انہیں عمران خان نیازی سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان بادشاہوں میں عمر بن عبد العزیز اموی طرفداروں کے ساتھ ساتھ محبینِ اہل بیتؑ کی بھی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں عمران نیازی اہل سنت عوام کی توجہ کا مرکز بننے کے ساتھ ساتھ مکتب تشیع کے علماء و عوام سے بھی وسیع پیمانے حمایت لینے میں کامیاب ہو گیا۔ اگرچے عمربن عبدالعزیزنے جو خدمات انجام دیں اور اہم اصلاحات معاشرے میں برپا کیں اس کا عشرہ عشیر بھی نیازی صاحب نے انجام نہیں دیا۔ اس کے باوجود ہم امام باقرؑ کا ایسے ہر دو طرف حمایت یافتہ حکمران کے بارے میں موقف کو جان کر عصرِ حاضر میں پاکستان کی سیاست میں غیر الہٰی جمہوری ملوکیت سے آراستہ حکمرانوں کے بارے میں موقف اختیار کر سکتے ہیں۔

تشیع کا حکمرانوں کے بارے میں کلی ضابطہ

شیعہ ہر دور میں سیاسی حکمرانوں سے ٹکراؤ میں رہا ہے۔ اس لیے ہر دور میں مظلوم بھی واقع ہوا ہے۔ درحقیقت مکتب تشیع میں حکمرانوں کو قبول کرنے کا معیار بہت سخت ہے اس بنا پر یہ حکمرانوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ تشیع کی آئمہ نے تربیت ہی اس طرح سے کی ہے کہ یہ ظلم اور ظالم سے ٹکراتا ہے۔ حکمرانوں کو قبول کرنے کا معیار ذاتیات نہیں ہیں۔ اگر ذاتیات معیار ہوں تو پھر عقیلؑ کا بھی ذاتی طور پر امام علیؑ سے شکوہ تھا۔ انسان کو اپنا نفس ہمیشہ محترم لگتا ہے۔ قرآن کریم میں آیا : وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ؛ اور جب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔[8] فجر:۱۶۔ حاکم کے انتخاب میں معیار ذاتیات نہیں ہیں، تشیع میں حاکم کے انتخاب کے لیے معیار پیری مریدی بھی نہیں ہے، استادی شاگردی اور مفادات حاصل کرنے کو معیار قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ تشیع میں حمایت اور مخالفت کا معیار قرآن کریم ہے۔ قرآنی معیار کو قبول کرنے میں مشکلات ہی کیوں نہ آ جائیں تب بھی تشیع اس کو ترک نہیں کرتا۔ تشیع کا غم منفعت کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کا غم دین الہی کی منفعت ہے۔ شیعہ ہر کام دین کا غم اٹھا کر انجام دیتا ہے۔ کوئی بھی مشکل آ جاۓ دین کو تنہا نہیں چھوڑتا، جب ہر طرف سے دینی اقدار کو ترک کیا جا رہا ہو شیعہ دینی فرہنگ کو ابھارتا ہے، جب گراؤنڈ رئالیٹی میں دین اسلام کو کنارے لگایا جا رہا ہو شیعہ دین کو برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دین کو جہاں سے بھی نفع ملے اس کو انجام دیتا ہے چاہے اس کی ذات کو انفرادی طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔ بے شک اس کا خاندان، اس کا پیر اور استاد کچھ اور کہہ رہے ہیں لیکن یہ دین کا حامی بن جاتا ہے۔ امام باقرؑ نے ان نورانی افکار پر تشیع کی تربیت کی ۔

امام باقرؑ کا حکمرانوں کے متعلق کلی مؤقف

علل الشرائع میں شیخ صدوق نے اپنی سند سے امام باقرؑ سے روایت نقل کی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں:أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا مِنْ عِيدٍ لِلْمُسْلِمِينَ أَضْحًى وَلَا فِطْرٍ إِلَّا وَهُوَ يَتَجَدَّدُ فِيهِ لآِلِ مُحَمَّدٍ حُزْنٌ، قُلْتُ: فَلِمَ ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَرَوْنَ حَقَّهُمْ فِي يَدِ غَيْرِهِم‏؛ اے بندہِ خدا ! مسلمانوں کی کوئی ایسی عید نہیں ہے چاہے وہ عید اضحی ہو یا عید فطر مگر اس میں آل محمدؑ کا حزن و غم تازہ ہو جاتا ہے۔ میں نے دریافت کیا: اس کی کیا وجہ ہے؟ امامؑ نے فرمایا: کیونکہ وہ اپنے حق کو اپنے غیروں کے ہاتھوں میں دیکھتے ہیں۔[9] شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۲، ص ۳۸۹، باب ۱۲۶۔ [10] شيخ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۷، ص۶۵۴۔
امام باقرؑ عیدین کے موقع پر غمزدہ کیوں ہوتے تھے؟ کیونکہ اپنا حق کسی غیر کے ہاتھ میں دیکھتے تھے۔ طاغوت جس منصب پر بیٹھا ہے در حقیقت اس منصب پر بیٹھنے کا حق امام معصوم کو حاصل ہے۔ امامؑ کو غم اس بات کا نہیں تھا کہ حکومت ان کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہے بلکہ اس بات کا غم تھا کہ الہی قانون کا اجراء کیوں نہیں ہو رہا۔ حکومت ان کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے نہیں بلکہ الہی قانون کے اجراء کے لیے چاہیے۔
قوانین کو اجراء کرنا بغیر حکومت کے ممکن نہیں ۔ حتی ایران میں آج یہی مسئلہ پیش آیا ہوا ہے۔ اجراء کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے۔اسلامی حکومت تو بن گئی لیکن اسلامی قوانین کے اجراء کا مرحلہ آیا تو شرق و غرب ، اندرون بیرون سے شیاطین کی چیخیں نکل گئیں۔قوانین کے اجراء کے لیے معاشرے میں قبولیت کی فضاء ایجاد کرنا اور بھرپور قوت کا موجود ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ایران میں اصل ہدف اسلامی حکومت لانا نہیں تھا بلکہ اسلامی حکومت خود کسی اور ہدف کے لیے ہے ۔حکومت اسلامی کا ہدف الہی حدود کا اجراء کرناہے۔ اس کا اصلی ہدف معاشروں کو اللہ کے قریب کرنا ہے۔ پورے ملک کو اجتماعی طور پر اللہ تعالی کی بندگی کے لیے تیار کرنا جس ہدف کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو خلق کیا تھا۔ خلقت انسان کا ہدف بغیر الہی قوانین کے اجراء کئے پورا نہیں ہو سکتا۔ انسان صرف نسل بڑھانے، کھانے پینے کے لیے نہیں آیا، اس کام کے لیے دیگر مخلوقات موجود تھیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اپنے اختیار اور مرضی سے بندگی اختیار کرے۔ اس کام کے لیے ایک بندے کو تیار کر لینا بہت آسان ہے، کیونکہ اگر ایک ہی انسان دیکھنا ہے تو الہی شخصیات ہر خطے میں موجود ہیں، اس وقت بھی حتی یورپ کے فسق و فجور میں غرق ممالک، چین، ہندوستان جیسی سرزمینوں پر بھی الہی شخصیات موجود ہیں، لیکن پورے معاشروں کو اس ہدف کی طرف بڑھانا بہت مشکل ہے۔ حکومت اسلامی کا ہدف پوری انسانیت کو اللہ کے قریب کرنا ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ قانون کے اجراء کے لیے حکومت کی ضرورت ہے۔ امامت کا نظام بنیادی طور پر اس لیے قرار دیا گیا ہے تاکہ امتوں پر معصوم حاکم کے ذریعے قانون کا اجراء ہو اور یہ اپنے اصلی ہدف کی طرف بڑھ سکیں۔ بغیر حکومت اور اختیار کے حتی گھر میں بھی درست مدیریت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی گھر میں باپ کو ولی نا مانا جاۓ اس گھر میں حتی بیوی پر بھی قانون کا اجراء ممکن نہیں رہتا۔ امام کا کام یہ ہے کہ وہ زمین پر الہی بندگی کو جنم دے اور شیطان کی بندگی کو پھیلنے سے روکے۔ امامؑ اس لیے روز عیدین غمزدہ ہیں کیونکہ شیطان کی بندگی پھیل رہی ہے۔ اس لیے امامؑ اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت گلہ مند تھے۔ ان کے شیعہ بھی سخت گلہ مند تھے کہ جس منصب پر یہ لوگ بیٹھے ہیں درحقیقت یہ ان کے امام کا حق ہے۔ آج کے شیعہ کی بھی یہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وقت کے حکمرانوں سے گلہ مند رہے، اسے یہ غم ہونا چاہیے کہ وقت کے امام کی حکومت کیوں نہیں ہے؟ یہ فاسق فاجر امام کے حق کو غصب کر کے کیوں اس منصب پر براجمان ہیں؟ یہ غم ہر شیعہ کے دل میں ہونا چاہیے ۔

حکمرانوں کے در جہنم کے دروازے

امام باقرؑ سے معتبر حدیث منقول ہے جس میں فرماتے ہیں: ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: كُنْتُ قَاعِداً عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ ع عَلَى بَابِ دَارِهِ بِالْمَدِينَةِ فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ يَمُرُّونَ أَفْوَاجاً فَقَالَ لِبَعْضِ مَنْ عِنْدَهُ حَدَثَ بِالْمَدِينَةِ أَمْرٌ فَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ وُلِّيَ الْمَدِينَةَ وَالٍ فَغَدَا النَّاسُ يُهَنِّئُونَهُ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْدَى عَلَيْهِ بِالْأَمْرِ تَهَنَّأَ بِهِ وَ إِنَّهُ لَبَابٌ مِنْ أَبْوَابِ النَّارِ؛ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں امام باقرؑ کے پاس مدینہ میں ان کے گھر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ کسی طرف جا رہے ہیں۔ ایک قریب بیٹھے شخص سے امام نے پوچھا: مدینہ میں کیا ہوا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میں آپ پر فدا ہو جاؤں مدینہ کا والی مقرر ہوا ہے لوگ صبح نکلتے ساتھ ہی اس کو مبارک باد کہنے کے لیے جا رہے ہیں۔ امام نے فرمایا: یہ شخص صبح کر رہا ہے کہ اس شخص کو مبارک باد کہے کہ جس کا در جہنم کے دروازوں میں سے ایک ہے۔[11] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۱۰۷۔
آج کی سیاسی اصطلاح میں اس کو بیان کرنا چاہیں تو اسے مارچ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کو حاکم بننے پر مبارک باد دینا اور ان کے دروازوں پر پیش ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ امام فرماتے ہیں یہ جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ اگر یہ خود دروازہ ہیں تو ان کے اندر کیا ہوگا؟ ظاہر ہے اندر بھی ان کے جہنم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جو حکمرانوں کے قریب ہوتا ہے درحقیقت وہ خود کو جہنم کے قریب کر رہا ہے۔ یہاں پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ حاکم سے ملنے کا کوئی جائز سبب بھی تو ہو سکتا ہے۔ جی بالکل! مکتب تشیع یہ ہرگز نہیں کہتا کہ مطلق طور پر حاکم کے دروازے پر پہنچنا جہنم پہنچنے کے مترادف ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کسی مجبوری کی بنا پر جا رہے ہیں یا حاکم سے روابط بڑھانے کا شوق پال کر جا رہے ہیں؟ حاکم نے آپ کو بلایا ہے یا خود دوڑے دوڑے اس کی طرف جا رہے ہیں؟ حکمرانوں کو جنم کا دروازہ قرار دینے کی تعلیمات امامؑ نے ایسے دور میں دیں جو تشیع کے لیے بہت سخت دور تھا۔ آج جبکہ تشیع کے لیے حالات بہت آسان ہو چکے ہیں ہمیں ان تعلیمات کو بڑے پیمانے پر پھیلانا چاہیے اور امامت کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔

حاکم طبقے سے بیزاری

معتبر حدیث میں امام باقرؑ سے نقل ہوا ہے: مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص ثَلَاثَةٌ لا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَ لا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَ لا يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ شَيْخٌ زَانٍ وَ مَلِكٌ جَبَّارٌ وَ مُقِلٌّ مُخْتَالٌ؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزِ قیامت اللہ تین افراد سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائے گا اور نہ ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ۱۔ بوڑھا زانی، ۲۔ جابر بادشاہ، ۳۔ وہ فقیر جو متکبر ہو۔ (مُقِل یعنی فقیر اور خیال پرداز یعنی متکبر کیونکہ تکبر  اپنے آپ کو بلند و بالا خیال کرنا ہے)۔[12] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲ ، ص ۳۱۱۔
یہ وہ افراد ہیں جن سے اللہ تعالی شدت نفرت سے بات تک نہیں کرے گا اور نا ہی ان پر نظر کرم فرماۓ گا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ بھلا فلاں حاکم نے کونسا ظلم کیا ہے؟ ظلم سے ان کی مراد کسی کو قتل کرنا یا کسی کو مارنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ظالم وہ  شخص ہے جو اہلیت تو نہیں رکھتا لیکن امت کی منصب امامت پر خود کو بٹھالیتا ہے۔اس کا کم سے کم ظلم یہ ہے کہ اس نے ایک حقدار کا حق چھین کر خود کو اس کے حق پر براجمان کر لیا ہے۔ لوگوں پر حاکمیت کرنے کا حق اللہ تعالی نے اپنے مخصوص بندوں کو عطا کیا ہے۔ جو شخص ان کے اس حق کو چھین کر خود اس پر جا بیٹھتا ہے وہ ظالم ہے۔

ظالم کی مدد سے اجتناب

شیخ صدوق نے ثواب الاعمال وعقاب الاعمال میں حدیث نقل کی ہے جس میں امام باقرؑ فرماتے ہیں: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مَعْرُوفٍ عَنْ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ: أَيْنَ الظَّلَمَةُ وَأَعْوَانُهُمْ وَمَنْ لاط [لَاقَ‏] لَهُمْ دَوَاةً وَ رَبَطَ كِيسًا أَوْ مَدَّ لَهُمْ مرة [مَدَّةَ] قَلَمٍ فَاحْشُرُوهُمْ مَعَهُمْ؛ امام باقرؑ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو نداء دینے والا نداء دے گا: کہاں ہیں ظالمین اور ان کے اعوان !! کہاں ہیں ان ظالمین کے لیے قلم دوات لانے والے اور ان کی تھیلی سے تعلق پیدا کرنے والے یا ان کے لیے قلم دوات کی خدمات دینے والے ، چلو ان کے ساتھ تم بھی محشور ہو۔[13] شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص ۲۶۰۔
مکتب تشیع کی اصل یہ ہے کہ حکمران طبقے سے قریب ہونا اللہ تعالی سے دوری ہے۔ جو شخص اللہ تعالی سے قریب ہونا چاہتا ہے ضروری ہے حکمرانوں سے دوری اختیار کرے۔ اس لیے کہ ظالم کا ساتھ دینے والا اس کے ساتھ محشور ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہ شخص کہےکہ میں تو فلاں نیک کام انجام دیتا تھا مجھے ظالم کے ساتھ محشور کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کو کہا جاۓ گا تم ان ظالمین کے ساتھ حشر کیے جاؤگے کیونکہ دنیا میں ان کے حمایتی تھے۔

حکمرانوں اور ان کے چیلوں کے دروازوے

شیخ صدوقؒ نے ثواب الاعمال وعقاب الاعمال میں روایت نقل کی ہے: وَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِيَّاكُمْ وَ أَبْوَابَ السُّلْطَانِ وَحَوَاشِيَهَا فَإِنَّ أَقْرَبَكُمْ مِنْ أَبْوَابِ السُّلْطَانِ وَ حَوَاشِيهَا أَبْعَدُكُمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى وَ مَنْ آثَرَ السُّلْطَانَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْهُ الْوَرَعَ وَجَعَلَهُ حَيْرَانَ؛ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بادشاہ اور اس کے قریبیوں کے دروازوں سے اجتناب کرو کیونکہ تم میں سے جو بادشاہ اور ان کے قریبیوں کے دروازوں کے قریب ہے اللہ تعالی سے اتنا ہی دور ہے اور جو بادشاہ کو اللہ تعالی پر ترجیح دے اللہ تعالی اس سے پاکیزگی کو دور کر دیتا ہے اور اسے حیران و سرگردان کر دیتا ہے۔[14] شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ج۱، ص ۲۶۰۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے شیعہ کو حکمرانوں کے دفتر پہنچنے میں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ان کے تو سیاہ کارنامے بھی سامنے آ گئے ہیں لیکن ان کی بد اعمالیوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کرنا، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان کے چیلوں سے ملنا جلنا وقت لینا، معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ جو ان کے سب سے زیادہ قریب ہو اس کو داد دی جاتی ہے۔ 

حکمرانوں کے پوچھنے پر بتانا

صرف ایک صورت میں حکمران سے تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ ہدایت دینے کا تعلق ہے۔ اگر حکمران ہدایت لینا چاہے تو بخل سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ عبداللہ بن محمد جعفی کہتے ہیں کہ میں امام باقرؑ کی خدمت میں موجود تھا ان کے پاس ہشام بن عبدالملک کا خط آیا۔ یہ وہی ہشام بن عبدالملک ہے جو اہل بیتؑ سے سخت متنفر تھا۔ یہ ایک دفعہ امام سجادؑ کے ہاتھوں ذلیل ہوا اور دوسری دفعہ جب اس نے امام باقرؑ کو شام بلوایا۔ امام باقرؑ کا شام کا یہ دورہ بہت ہی بابرکت دورہ تھا۔ ہشام بھی آج کے حکمرانوں کی طرح پروٹوکول کا بہت دلدادہ تھا۔ حج کے موقع پر مکہ آیا تو اس نے سمجھا کہ لوگ مجھے دیکھ کر ہٹ جائیں گے اور بڑی ٹھاٹھ سے حج کرونگا۔ لیکن دیکھتا ہے کہ عوام کا ہجوم شدید ہے اور لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ ایسے میں امام سجادؑ تشریف لاۓ تو لوگوں نے ان کو راستہ دیا اور امام نے بڑے اطمینان سے اعمال حج انجام دئیے۔ ہشام کے درباریوں نے اس وقت پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جس کے لیے سب لوگوں نے راستہ چھوڑ دیا لیکن خلیفہ کو کسی نے اہمیت نہیں دی۔ اس وقت ہشام کے درباری مشہور شاعر عرب فرزدق نے امام سجادؑ کی شان میں فی البدیہ قصیدہ پڑھا جو آج بھی عربی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ حتی ناصبی اس قصیدہ کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ یہ اس وقت بھی سب شامیوں کے سامنے ذلیل ہوا اور ایک دفعہ اس وقت ذلیل ہوا جب اس نے امام باقرؑ کو شام بلوایا۔ اس نے امامؑ کے نام خط بھیجا جس میں فقہی سوال پوچھا گیا تھا۔ امام نے مسئلے کا جواب دیا اور خط کو اس کی طرف ارسال کروا دیا۔ وارد ہوا ہے: وَرُوِيَ عَنْ آدَمَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيِّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ وَجَاءَهُ كِتَابُ هِشَامِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فِي رَجُلٍ نَبَشَ امْرَأَةً فَسَلَبَهَا ثِيَابَهَا وَ نَكَحَهَا فَإِنَّ النَّاسَ قَدِ اخْتَلَفُوا عَلَيْنَا هَاهُنَا طَائِفَةٌ قَالُوا اقْتُلُوهُ وَ طَائِفَةٌ قَالُوا أَحْرِقُوهُ ، فَكَتَبَ: إِلَيْهِ أَنَّ حُرْمَةَ الْمَيِّتِ كَحُرْمَةِ الْحَيِّ حَدُّهُ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ لِنَبْشِهِ وَ سَلْبِهِ الثِّيَابَ وَ يُقَامَ عَلَيْهِ الْحَدُّ فِي الزِّنَا إِنْ أُحْصِنَ رُجِمَ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ أُحْصِنَ جُلِدَ مِائَةً؛ عبد الله بن محمد جعفی کہتے ہیں کہ میں امام باقرؑ کے پاس موجود تھا، آپؑ کی خدمت میں ہشام بن عبد الملک کا ایک خط آیا جس میں ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے قبر کھود کر خاتون کی میت کو نکالا ہے اور اس سے اس کا لباس چھینا  اور اس کے ساتھ مباشرت انجام دی ،ہماری طرف لوگوں میں اختلاف ہے ، ایک گروہ کہتا ہے کہ اس شخص کو قتل کر دیا جائے اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کو آگ میں جلا کر مار دیا جائے ، امام باقرؑ نے جواب میں تحریر فرمایا: میت کی حرمت زندہ کی حرمت کی مانند ہے ،اس شخص پر میت کی قبر کشی اور اس کا لباس چھیننے کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی حد جاری ہو گی اور اس پر زنا کی حد جاری کی جائے گی، اگر وہ شادی شدہ تھا تو اس کو رجم کیا جائے اور اگر کنوارہ تھا تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔[15] شیخ صدوق، محمد بن علی،من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۷۴۔

امام باقرؑ اور عمربن عبدالعزیز

عمربن عبدالعزیز بنو امیہ کے معروف ترین بادشاہوں میں سے ہے۔ اس کے عدل و انصاف اور اہل بیتؑ سے رحمدلی کے واقعات بہت مشہور ہیں۔ رحمدل، عدل و انصاف میں مشہور بادشاہ سے امام باقرؑ کا رابطہ کس طرح کا تھا؟ اس سلسلے میں امام باقرؑ سے منقول ایجابی و سلبی دونوں قسم کے واقعات ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں۔ جن کا اختصار کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔

نصحیت کا رابطہ

امامؑ نے کبھی بھی اس کی کرسی کے ساتھ کرسی نہیں ملائی۔ ان کے پاس خود کبھی حاضر نہیں ہوۓ۔ یہ امام کی طرف آتا یا کہیں ملاقات ہو جاتی۔ یہی روش قدیم سے ہمارے علماء کی بھی ہے۔ ہمارے علماء ہمیشہ حکمرانوں سے بے نیاز رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کو نصحیت کرنے سے بھی کبھی جی نہیں چرایا۔ اور ایسا بھی نہیں کہ حکمرانوں سے خود کو مربوط کر لیں اور ان سے تعلقات باندھ لیں۔ بلکہ ہمیشہ ان سے بے نیازی کا اظہار کیا ہے۔ ایک عالم کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں دھوپ سیک رہے تھے۔ وہیں سے ایک بادشاہ کا گزر ہوا تو اسے بتایا گیا کہ فلاں معروف عالم وہاں موجود ہیں۔ بادشاہ کو توقع تھی کہ اس کے استقبال میں کھڑا ہوگا اور میں اس کی کوئی تمنا پوری کر دونگا۔ جب بادشاہ نزدیک پہنچا تو اس عالم نے بے نیازی کا اظہار کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر کوئی تمنا ہے تو بتاؤ پوری کر دیتا ہوں۔ اس عالم نے کہا کہ صرف ایک خواہش ہے۔ اگر ممکن ہو تو آگے سے ہٹ جائیں آپ سورج کی دھوپ مجھ تک پہنچنے میں مانع بن رہے ہیں۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کبھی بھی حکمرانوں سے روابط جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ 
امام باقرؑ عمربن عبدالعزیز کو نصیحت کرتے ہیں جیسا کہ منقول ہے: رَوَاهُ أَبُو صَالِحٍ الطَّائِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ مُعَاذٍ، قَالَ: كُنْتُ‏ جَلِيساً لِعُمَرَ بْنِ‏ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَيْثُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ مُنَادِيَهُ أَنْ يُنَادِيَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ، أَوْ قَالَ: ظُلَامَةٌ، فَلْيَأْتِ الْبَابَ، فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ (ع) فَدَخَلَ عَلَيْهِ مَوْلَاهُ مُزَاحِمٌ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ (ع) بِالْبَابِ، فَقَالَ لَهُ: أَدْخِلْهُ يَا مُزَاحِمُ فَدَخَلَ مُحَمَّدٌ، وَ عُمَرُ تَسِحُ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ، فَيَمْسَحُهَا، فَقَالَ مُحَمَّدٌ (ع): مَا أَبْكَاكَ يَا عُمَرُ؟ فَقَالَ هِشَامٌ: أَبْكَاهُ كَذَا وَ كَذَا يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ. فَقَالَ مُحَمَّدُ [بْنُ عَلِيٍّ ع‏]: يَا عُمَرُ، إِنَّ الدُّنْيَا سُوقٌ مِنَ الْأَسْوَاقِ، مِنْهَا خَرَجَ النَّاسُ بِمَا يَنْفَعُهُمْ، وَ مِنْهَا خَرَجُوا بِمَا يَضُرُّهُمْ، وَكَمْ مِنْ قَوْمٍ هُمْ قَدْ ضَرَّهُمْ مِثْلُ الَّذِي أَصْحَابُنَا فِيهِ حَتَّى أَتَاهُمُ الْمَوْتُ، فَاسْتَوْعَبُوا فَخَرَجُوا مِنَ الدُّنْيَا نَادِمِينَ ، لَمَّا لَمْ يَأْخُذُوا لِمَا أَحَبُّوا مِنَ الْآخِرَةِ عُدَّةً، وَ لَا لِمَا كَرِهُوا جُنَّةً، قَسَّمَ مَا جَمَعُوا مَنْ لَا يَحْمَدُهُمْ، وَ صَارُوا إِلَى مَا يُعْذِرُهُمْ، فَنَحْنُ وَ اللَّهِ مُحِقُّونَ أَنْ نَنْظُرَ إِلَى تِلْكَ الْأَعْمَالِ الَّتِي كُنَّا نَغْبِطُهُمْ بِهَا فَنُوَافِقُهُمْ فِيهَا، وَ نَنْظُرُ إِلَى تِلْكَ الْأَعْمَالِ الَّتِي كُنَّا نَتَخَوَّفُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا، فَنَكُفُّ عَنْهَا؛ فَاتَّقِ اللَّهَ وَ اجْعَلْ فِي قَلْبِكَ اثْنَيْنِ تَنْظُرُ الَّذِي تُحِبُّ أَنْ يَكُونَ مَعَكَ إِذَا قَدِمْتَ عَلَى رَبِّكَ فَقَدِّمْهُ بَيْنَ يَدَيْكَ حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِ، وَ تَنْظُرُ الَّذِي تَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ مَعَكَ إِذَا قَدِمْتَ عَلَى رَبِّكَ، فَابْتَغِ بِهِ الْبَدَلَ، وَ لَا تَذْهَبَنَّ إِلَى سِلْعَةٍ بَارَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكَ  فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُمَرُ، وَ افْتَحِ الْأَبْوَابَ، وَ سَهِّلِ الْحُجَّابَ وَ انْصُرِ الْمَظْلُومَ، وَ رُدَّ الْمَظَالِمَ، ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ بِاللَّهِ: فَجَثَا عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: إِيهِ أَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، قَالَ: نَعَمْ يَا عُمَرُ، مَنْ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُدْخِلْ رِضَاهُ فِي الْبَاطِلِ، وَ مَنْ إِذَا غَضِبَ لَمْ يُخْرِجْهُ غَضَبُهُ مِنَ الْحَقِّ، وَ مَنْ إِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَنَاوَلْ مَا لَيْسَ لَهُ. قَالَ: فَدَعَا عُمَرُ بِدَوَاةٍ وَ قِرْطَاسٍ وَ كَتَبَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ : هَذَا مَا رَدَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ظُلَامَةَ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، فَدَك‏.
یہ ایک طویل روایت ہے جس میں راوی کہتے ہے کہ وہ بادشاہ عمربن عبدالزیز کے ہمراہ موجود تھا۔ بادشاہ کی جانب سے شہر میں یہ صدا لگائی جا رہی تھی کہ جس کا جو مال لوٹا گیا ہے وہ بادشاہ سے تقاضا کر کے واپس لے سکتا ہے۔ امام باقرؑ نے نے تقاضا کیا کہ ان کا ایک مال گزشتہ حکومتوں نے غصب کیا ہے۔ امامؑ کو بادشاہ کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ امامؑ دیکھتے ہیں کہ بادشاہ گریہ کر رہے ہیں۔ امام نے گریہ کی وجہ پوچھی تو بادشاہ نے قبر و حشر، قیامت اور عذاب جہنم کا ذکر کیا۔ امامؑ نے وہاں پر بادشاہ کو طولانی نصیحت کی اور اسے تقوی الہی اختیار کرنے کی تلقین کی۔ آخر میں بادشاہ نے ایک دستاویز تحریر کی جس پر لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ فدک ہے جسے میں عمربن عبدالعزیز، محمد بن علی کو رد مظالم کے طور پر واپس کر رہا ہوں۔[16] طبری آملی ، محمد بن جریر، المسترشد فی امامۃ علی ابن ابی طالب ع، ص ۵۰۶۔ [17] شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، ج۱، ص ۱۰۴، حدیث: ۶۴۔
یہ عمربن عبدالعزیز کے کارناموں میں سے ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ فرض کریں آج کے کسی پاکستانی حکمران نے یہ کام کر دیا ہوتا اور فدک واپس کر دیتا تو شیعہ اس کو کیا کچھ نا مان لیتے؟ لیکن امام باقرؑ نے اس کے مقابلے میں کیا مؤقف اختیار کیا وہ دیکھنا ضروری ہے۔ اہلسنت برادران عمربن عبدالعزیز کے اس عمل پر متذبذب ہو جاتے ہیں۔ اس کے عمل کو درست قرار دیں یا خلفاء ثلاثہ کو بچائیں۔ اگر خلفاء کو بچاتے ہیں تو عمربن عبدالعزیز کا یہ عمل غلط قرار پاتا ہے۔ اور اگر عمربن عبدالعزیز کے عمل کو درست انجام دیں تو جو خلفاء نے کیا اس کا جواز نہیں بنتا۔

عمربن عبدالعزیز کا اہل مؤدت ہونا

قرب الاسناد میں امام باقرؑ سے منقول ہے: جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «لَمَّا وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَعْطَانَا عَطَايَا عَظِيمَةً. قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَخُوهُ فَقَالَ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ لَا تَرْضَى مِنْكَ بِأَنْ تُفَضِّلَ بَنِي فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ عَلَيْهِمْ. فَقَالَ: أُفَضِّلُهُمْ لِأَنِّي سَمِعْتُ حَتَّى لَا أُبَالِيَ أَنْ أَسْمَعَ- أَوْ لَا أَسْمَعُ- أَن‏ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ كَانَ يَقُولُ: إِنَّمَا فَاطِمَةُ شَجْنَةٌ مِنِّي، يَسُرُّنِي مَا سَرَّهَا وَ يَسُوؤُنِي مَا سَاءَهَا، فَأَنَا أَتْبَعُ سُرُورَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ أَتَّقِي مَسَاءَتَه‏؛ امام جعفر صادقؑ اپنے والد گرامی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جب عمربن عبدالعزیز نے ہمیں عطیات بھجواۓ تو اس کا بھائی اس کے پاس آیا اور اس نے کہا: بنی امیہ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ اولاد فاطمہؑ کو فضیلت دیتے ہو۔ عمربن عبدالعزیز نے کہا میں ان کو فضیلت دیتا ہوں ۔مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے جو سنا ہے اور جو نہیں سنا۔ کیونکہ میں نے اتنا سنا ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے کہ فاطمہ میرے ہی وجود کی ایک شاخ ہیں جس نے انہیں خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے ان کے ساتھ برا کیا اس نے میرے ساتھ برا کیا۔ اس وجہ سے میرے لیے رسول اللہﷺ کو سرور پہنچانا اہم ہے اور میں ان کے ساتھ برائی کرنے سے ڈرتا ہوں۔[18] حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الاسناد، ص ۱۱۳، حدیث: ۳۸۹۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اگر یہی کام ہمارے کسی حکمران نے کیا ہوتا اور اپنی ہی پارٹی کے افراد پر شیعوں کو ترجیح دی ہوتی، ہمارے حکمرانوں نے تو ان کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کیا تو اتنی ان کی تعریفیں کی جاتی ہیں لیکن اگر ایسا کر دیں تو خدا جانتا ہے کہ ہمارے مومنین ان کو کیا کچھ نا مان لیں؟عمربن عبدالعزیز اپنے بھائی اور خاندان پر آل فاطمہؑ کو ترجیح دیتا ہے اور ان کی اس طرح سے فضیلت بیان کرتا ہے۔

عمربن عبدالعزیز کا امیرالمومنینؑ پر لعنت ختم کروانا

ایک اور کارنامہ جو عمربن عبدالعزیز نے انجام دیا امیرالمومنینؑ پر لعنت ختم کروانا ہے۔ شیخ صدوقؒ نے نقل کیا ہے: وَ سَأَلْتُ شَيْخَنَا مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمَّا يَسْتَعْمِلُهُ الْعَامَّةُ مِنَ التَّهْلِيلِ وَ التَّكْبِيرِ عَلَى أَثَرِ الْجُمُعَةِ مَا هُوَ فَقَالَ رُوِّيتُ أَنَّ بَنِي أُمَيَّةَ كَانُوا يَلْعَنُونَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع بَعْدَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ نَهَى عَنْ ذَلِكَ وَ قَالَ لِلنَّاسِ التَّهْلِيلُ وَ التَّكْبِيرُ بَعْدَ الصَّلَاةِ أَفْضَل‏.[19] شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۴۳۳، حدیث: ۱۲۶۴۔ یہ ایک ایسا کام ہے کہ اگر آج کا حکمران حکومتی سطح پر کروا دے تو ناجانے کیا ہو جاۓ گا۔ شیخ صدوقؒ نے اپنے استاد ابن ولید سے پوچھا کہ اہل سنت نماز جمعہ میں تہلیل و تکبیر کیوں کرتے ہیں؟ ابن ولید ایک ایسی شخصیت ہیں جن پر شیخ صدوقؒ بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور ان کی باتوں کو اعتقاد بنا لیتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ بنو امیہ نماز جمعہ کے بعد تین مرتبہ امیرالمومنینؑ پر لعن کیا کرتے تھے(نعوذباللہ) لیکن جب عمربن عبدالعزیز کی حکومت آئی تو اس نے لعن سے روک دیا اور لوگوں سے کہا کہ لعن کی بجاۓ نماز کے بعد تہلیل و تکبیر کیا کرو یہ افضل ہے۔
منبر سے علی الاعلان لعن بھیجنا بنوامیہ کی روش ہے۔ اہل بیتؑ نے اس طرح سے درس نہیں دیا۔ حتی امیرالمومنینؑ نے اہل شام پر سب و شتم کرنے سے اپنے اصحاب کو روک دیا تھا۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں: إِنِّي أَكْرَهُ لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ؛ میں تمہارے لیے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے لگو۔[20] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۰۶۔
وارد ہوا ہے کہ امیرالمومنینؑ کے معروف اصحاب حجر بن عدی اور عمرو بن حمق صفین کے ایام میں اہل شام کو سب و شتم کرنے لگے۔ امام نے ان کو بلایا اور سب و شتم سے منع کیا۔ انہوں نے عرض کی کہ یا امیرالمومنینؑ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام نے فرمایا بالکل! انہوں نے عرض کی کیا وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں؟ امام نے فرمایا ہاں بالکل! عرض کی تو پھر ہمیں ان کی بدگوئی کرنے سے کیوں منع کر رہے ہیں؟ تو امام نے یہ کلمات بیان فرماۓ۔ اگر کوئی باطل پر ہے تو اس کا جذبات سے نہیں بلکہ عقلانیت سے تجزیہ تحلیل کرنا چاہیے تاکہ حقیقت سب پر کھل کر واضح ہو جاۓ۔ یہ کام بنو امیہ کیا کرتے تھے کہ مخالفین پر سب و شتم کرتے اور لعن کی بدعت ایجاد کی۔ اس بدعت کو ختم کرنے پر بنوامیہ عمربن عبدالعزیز پر بہت نالاں ہوۓ۔
مناقب میں ابن شہر آشوب نے نقل کیا ہے: وَالأَصْلُ في سبِّهِ مَا صَحَّ عِنْدَ أهلِ العلم، إِنّ مُعَاوِيَةَ أَمَرَ بِلَعْنِهِ عَلَى المنَابَرِ فَتَكَلَّم فيه ابنُ عَبَّاسٍ، فقال: هَيْهَاتَ هَذَا أَمْرُ دِيْنٍ لَيْسَ إِلَى تركِهِ سبيلٌ ، أَ لَيْسَ الغَاشّ لِرسولَ اللهَ الشَتَّامُ لأبي بكر، المُعِيَّرُ عمرَ، الخَاذِلَ عُثْمَانَ ؟! قال: أَ تَسُبُّه عَلَى المنابرِ وَهُوَ بَناهَا بِسَيْفِهِ؟! قال: لَا أَدْعُ ذَلِكَ حَتَّى يَمُوتَ فِيْه الكبيرُ وَ يَشب عليه الصغيرُ… فَبَقِيَ ذلك إلى أن ولي عمر بن عبد العزيز فجعل بدل اللعنة في الخطبة قوله تعالى {إِنَّ اللَّهَ تعالى يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسانِ وَ إِيتاءِ ذِي الْقُرْبى‏ } الآية فقال عمرو بن شعيب: وَيْلٌ لِلْأُمَّةِ رُفِعَتِ الْجُمعَةُ وَتُرِكَتِ اللعنةُ وَذُهِبَتِ السنّةُ.[21] ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ ، ج ۳، ص ۲۲۳۔ معاویہ نے امیرالمومنینؑ پر منبر سے لعن شروع کروائی اور عمربن عبدالعزیز نے لعن کی بجاۓ اس آیت مجیدہ {إِنَّ اللَّهَ تعالى يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسانِ وَ إِيتاءِ ذِي الْقُرْبى‏} کو قرأت کرنے کا حکم جاری کیا۔ خلیفہ عمربن عبدالعزیز کے اس کام کے رد عمل میں عمرو بن شعیب نے کہا کہ واۓ ہو اس امت پر جس نے جمعہ کو اٹھا لیا، لعن کو ترک کر دیا اور سنت کو ختم کر دیا۔

عمربن عبدالعزیز کا امام علیؑ کی احادیث کو ظاہر کرنا

کتاب الغارات میں وارد ہوا ہے کہ امیرالمومنینؑ نے محمد بن ابی بکر کو جب وہ مصر کے والی تھے ایک خط لکھا۔ یہ خط بہت زرخیز اور اعلی نکات پر مشتمل تھا۔ حسن سیاست اور تدبیر کے رہنما اصول لکھے ہوۓ تھے۔ محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد یہ خط عمرو بن عاص کے ہاتھ لگا۔ عمرو بن عاص کی شخصیت کو سمجھنا بھی بہت اہم ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اہل شام و مصر کو پروپیگنڈہ کر کے امیرالمومنینؑ کے خلاف کیا ہوا تھا۔ اس دور میں اتنا مضبوط نیٹورک اور عالم اسلام کی معروف ترین شخصیت کے خلاف یہ پروپیگنڈہ پھیلانا کہ علیؑ نماز پڑھتے تھے یا نہیں، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری بصیرت پر موقوف ہے کہ ہمیں ان شخصیات کی کتنی پہچان ہے۔ اہل شام کو اس نے خون عثمان سے دھوکہ دیا لیکن امیرالمومنینؑ کے لشکر کو قرآن سے دھوکہ دیا۔ ہر جمعیت کو اس کے افکار و نظریات کے مطابق پروپیگیٹ کرنا اس کا گُر تھا۔ اس نے محمدبن ابی بکر کے نام اس اعلی مضامین پر مشتمل خط کو معاویہ کے نام بھیجا۔ معاویہ نے یہ خط پڑھا وہ بھی مطالب کو پڑھ کر حیران رہ گیا۔ اس کے دربار میں ولید بن عقبہ بھی موجود تھا اس نے کہا کہ اس خط کو جلا دیتے ہیں کہ کوئی پڑھ کر علیؑ سے متاثر نہ ہو جاۓ۔ یہ وہی ولید بن عقبہ ہے جس نے خلیفہ عثمان کے دور میں کوفہ کی مسجد میں شراب پی کر فجر کی نماز چار رکعت پڑھا دی۔ شراب، چرس اور بھنگ پی کر عبادت کرنا بنوامیہ کی روش ہے ۔ان شخصیات کو پاکستان میں رضی اللہ کہے جانے کا بل پاس کروا رہے ہیں۔ معاویہ نے کہا کہ ولید بن عقبہ کی بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور بعد میں ان جیسے متعدد خطوط پر امیرالمومنینؑ کا نام ہٹا کر ’’قال المعاویہ‘‘ لکھ دیا گیا۔ جب عمربن عبدالعزیز کا دور آیا تو اس نے ظاہر کیا کہ یہ خطوط امام علیؑ کے ہیں۔[22] ابن ہلال ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۱، ص۱۶۰۔ [23]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ، ج ۳۳، ص ۵۵۱۔

معاویہ کو افضل کہنے والے کو سزا

عمربن عبدالعزیز کے زمانہ خلافت میں قرقیسا کے گورنر میمون بن مہران کی جانب سے مامور علاثہ نامی شخص کے پاس دو شخص آۓ۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ علی افضل ہیں اور دوسرے کا کہنا تھا کہ معاویہ حق پر تھے اور وہی فضیلت رکھتے ہیں۔  علاثہ نے ان دونوں کے جھگڑے کی میمون بن مہران کو اطلاع دی۔ میمون بن مہران نے عمربن عبدالعزیز کو خط لکھا اور اس جھگڑے کا حل پوچھا۔ عمربن عبدالعزیز نے اس کو جواب دیا کہ ان دونوں کو شہر کی جامع مسجد میں بلاؤ اور جس نے معاویہ کو علیؑ پر فضیلت دی اس کو سو کوڑے مارو۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ناک کو رگڑ کر دروازے سے نکال دو۔[24] ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، ج۳، ص۲۲۳۔

عمربن عبدالعزيز کے بارے میں امام باقرؑ کا مؤقف

عمربن عبدالعزیز کے ان کارناموں کو ذہن میں رکھیں، پھر امام باقرؑ کا اس کے بارے میں مؤقف جانیں تو بہت عجیب لگتا ہے۔ عجیب اس لیے کہ حکمرانوں کے مقابلے میں آج شیعہ کا مؤقف کچھ اور ہے امام کا مؤقف کچھ اور ہے۔ اگر آج کے دور میں ان کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ایک حکمران انجام دے لے شیعہ اس کے گن گانے سے تھکیں گےنہیں ۔ ایک شخص کا عذاب قبر و حشر کے خوف سے گریہ کرنا، آل فاطمہؑ کو اپنی پارٹی کے لوگوں پر افضل قرار دینا، امیرالمومنینؑ پر لعن کو رکوانا، ان کی احادیث کو لوگوں کے سامنے عیاں کرنا، حتی اپنی پارٹی کے بانی معاویہ کو علیؑ سے کمتر قرار دینا اور معاویہ کی فضیلت کے قائل شخص کو سو کوڑے مروانا معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ لیکن حقیقی شیعہ کو ان سب باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ چاہے شریف ہو، زرداری ہو یا خان صاحب، رضاشاہ پہلوی ہو یا صدام، یا حتی کوئی شیعہ ہو اگر وہ ان معیاروں پر نہیں اترتا جو ہمارے آئمہ معصومینؑ نے بیان کئے ہیں وہ ظالم ہے اور حق امامت کا غاصب ہے۔ امام باقرؑ سے منقول ہے: وَ عَنْهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: كُنْتُ آخِذاً بِيَدِ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ: أَمَا إِنَّهُ سَيَلِي ثُمَّ يَمُوتُ، فَيَبْكِي عَلَيْهِ أَهْلُ الْأَرْضِ وَ تَلْعَنُهُ أَهْلُ السَّمَاء؛ عبد بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ کا دست مبارک تھاما ہوا تھا، وہاں سے عمر بن عبد العزیز کا گزر ہوا ، اس پر دو ہلکے زرد رنگ کے کپڑے تھے، امام باقرؑ فرماتے ہیں: اسے عنقریب حکومت ملے گی پھر یہ مر جائے گا اور اس پر اہل زمین روئیں گے اور اہل آسمان اس پر لعنت کر رہے ہوں گے۔[25] جمع من العلماء، الاصول ستۃ عشر، ص ۱۵۰، حدیث ۵۸۔[26]شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، ج۱، ص۱۰۴، حدیث: ۶۴۔ اس سے آج کے تشیع کو مؤقف لینا چاہیے کہ وہ حکمرانوں کے مقابلے میں کیا نظریہ رکھیں۔ حتی اگر کوئی عمربن عبدالعزیز جیسا حاکم آ جاۓ، جس کے بارے میں امام کہہ رہے ہیں کہ یہ عدل قائم کرے گا، اگر عدل قائم کرنے والا بھی آ جاۓ تب بھی امام باقرؑ کی طرح آج کا شیعہ اسے ملعون قرار دے۔ لیکن آج اس مؤقف کو سن کر شیعہ کہتا ہے کہ تم خان کی مخالفت کرتے ہو بہت عجیب ہے؟ اسے امام باقرؑ کا مؤقف بھی عجیب لگنا چاہیے۔ 

شیعہ ہونے کا معیار اور امام باقرؑ کی وصیت

آخر میں یہ بیان کرنا ضروی ہے کہ امام باقرؑ کے نزدیک شیعہ ہونے کا معیار کیا ہے؟ روایت میں وارد ہوا ہے: ‏‏وَ قَالَ ع إِنَّمَا شِيعَةُ عَلِيٍّ ع الْمُتَبَاذِلُونَ فِي وَلَايَتِنَا الْمُتَحَابُّونَ فِي مَوَدَّتِنَا الْمُتَزَاوِرُونَ لِإِحْيَاءِ أَمْرِنَا الَّذِينَ إِذَا غَضِبُوا لَمْ يَظْلِمُوا وَ إِذَا رَضُوا لَمْ يُسْرِفُوا بَرَكَةٌ عَلَى مَنْ جَاوَرُوا سِلْمٌ لِمَنْ خَالَطُوا؛ درحقیقت علیؑ کے شیعہ وہ ہیں جو راہ ولایت میں فداکار، ہماری مودت کے محور میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں تاکہ ہماری ثقافت اور تعلیمات کا احیاء کر سکیں۔ جب وہ غضب میں ہوں تو ظلم نہیں کرتے اور جب راضی ہوں تو اسراف نہیں کرتے، ہمسائیوں کے لیے برکت کا سبب، اور جو ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ان کے لیے سلامتی کا باعث ہیں۔[27]علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۷۸، ص۱۸۰۔ اس روایت سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ایک دوسرے کی دعوت دینا معیوب نہیں ہے بلکہ اگر اس سے امر امامت زندہ ہوتا ہے اور امام مہدیؑ کی حکومت کے لیے راہ ہموار ہوتا ہے تو یہ ملاقاتیں مطلوب ہیں۔ مومنین کا ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی نکات پر بات چیت کرنا اور امر امامت کے احیاء کے لیے طواغیت زمان پر تنقید کرنا بہت اہم ہے۔ معمولی ترین کام حتی جس میں کوئی خطرہ نہیں ہے اس کو انجام دینے میں بھی مضائقہ نہیں ۔ اہلسنت کو اپنے ہمراہ کرنا اور ان کے ساتھ وحدت کے ساتھ رہنا بھی بہت اہم ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہان سنی شیعہ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کے مقدسات کی توہین کر کے ان کی سلامتی کو ہی ختم کردیں۔

عصرحاضر اور حق و باطل کے درمیان مبارزہ:

کربلا کے بعد آئمہ معصومینؑ اور ان کے شیعوں کے لیے حالات سخت ہو گئے۔ آج بہت آسانی ہے اس دور میں بہت سختیاں اور مصائب تھے۔ لیکن ان سخت حالات میں امام تدبیر فرما رہے تھے۔ امت کے سیاسی، مذہبی اور دینی مسائل میں ان کی رہنمائی کر رہے تھے۔ آج بھی امام زمانؑ موجود ہیں لیکن ان کی نیابت میں یہ جنگ ان کے نائبین ہر سطح پر لڑ رہے ہیں اور اب تک الحمدللہ سرخرو ہوۓ ہیں۔ اہل حق اور اہل باطل کی یہ جنگ ہر سطح پر آج بھی جاری ہے۔ اس جنگ کو امام زمانؑ کی جانشینی میں رہبر معظم اور بعض مراجع جیسا کہ آیت اللہ سیستانی ہیں، دشمن کے خلاف ڈٹ کر لڑ رہے ہیں۔ بعض اوقات اپنوں کی صفوں میں ان کے مدمقابل فرقہ پرست افراد کو عموما کھڑا کیا جاتا ہے جو امت کو گروہوں میں بانٹ کر اجتماعی ساکھ کو توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالی ان کے مکروہ چہرے کو رسوا و خوار فرماۓ گا۔

منابع:

منابع:
1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۵۲۹۔
2 مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۱، ص۱۵۸۔ 
3 ابن خلکان، شمس الدین، وفیات الاعیان، ج۴، ص۱۷۴۔ 
4 طبری آملی، محمد بن جریر،دلائل الامامۃ، ص ۲۱۵۔
5 یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۴۔ 
6 بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۸ ۳۵۹۔ 
7 دیار بکری، شیخ حسین، تاریخ الخمیس فی احوال انفس النفیس، ص۳۰۱۔ 
8 فجر:۱۶۔
9 شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۲، ص ۳۸۹، باب ۱۲۶۔
10 شيخ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۷، ص۶۵۴۔
11 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص ۱۰۷۔
12 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲ ، ص ۳۱۱۔
13 شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص ۲۶۰۔
14 شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ج۱، ص ۲۶۰۔
15 شیخ صدوق، محمد بن علی،من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۷۴۔
16 طبری آملی ، محمد بن جریر، المسترشد فی امامۃ علی ابن ابی طالب ع، ص ۵۰۶۔
17 شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، ج۱، ص ۱۰۴، حدیث: ۶۴۔
18 حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الاسناد، ص ۱۱۳، حدیث: ۳۸۹۔
19 شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۴۳۳، حدیث: ۱۲۶۴۔
20 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۲۰۶۔
21 ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ ، ج ۳، ص ۲۲۳۔
22 ابن ہلال ثقفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، ج۱، ص۱۶۰۔
23 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ، ج ۳۳، ص ۵۵۱۔
24 ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، ج۳، ص۲۲۳۔
25 جمع من العلماء، الاصول ستۃ عشر، ص ۱۵۰، حدیث ۵۸۔
26 شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، ج۱، ص۱۰۴، حدیث: ۶۴۔
27 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۷۸، ص۱۸۰۔
Views: 515

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت کے مراتب 
اگلا مقالہ: میدان کربلا کے عظیم مجاہد امام سجاد