loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۷۰}

ولایت فقیہ اور حدیث علماء وارث انبیاء

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ولایت فقیہ پر تیسری دلیل بہت طولانی ہے۔ حوزہ جات علمیہ میں زیادہ تر ولایت فقیہ کی تیسری دلیل کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ولایت فقیہ کی پہلی دو دلیلیں بدیہی ہیں۔ لیکن نقلی دلیل نظری ہے۔ اس دلیل میں ہمیں ناچارہو کر علم فقہ، علم اصول اور علم رجال میں وارد ہونا پڑتا ہے۔

نقلی دلیل میں اختلاف

فقہاء کرام کا تیسری دلیل میں شدید اختلاف ہے۔ ہر صاحب نظر اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن ہمیں کسی کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اختلاف کے نام پر مومنین کی تضعیف کا باعث بنے۔ اختلاف کے نام پر  دشمن کی سازش کا حصہ بنے۔ اگر حکومت اسلامی سے اختلاف دشمن کے عزائم کی تکمیل کرتا ہے تو یہاں پر خاموش ہونا ضروری ہے۔ ہاں علمی اختلاف کی گنجائش موجود ہے، اگر کوئی علمی دلیل سے اس موضوع کو رد کرتا ہے تو اس کی دلیل اس کے لیے حجت ہے لیکن اسے مومنین کے اندر تفرقہ پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔

ولایت فقیہ کے موضوع پر مجادلہ

ولایت فقیہ کی ابحاث کو علمی مراکز میں دلیل کی اساس پر بحث کیا جانا ضروری ہے۔ لیکن اس موضوع کو سوشل میڈیا کا موضوع بنا کر غیر علمی انداز میں بحث کرنا درست نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر کثیر افراد ایسے ہیں جن کا کام صرف چیلنج کرنا ہے۔ یہ لوگ سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ الجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے چیلنجز کو قبول کرنا دین کی خدمت نہیں ہے بلکہ ان کی باتوں کی طرف متوجہ نہ ہونا دین کی خدمت ہے۔ یہ لوگ عوام کو بے وقوف بناتے ہیں، نا تو طالب علم ہیں اور نا کسی مدرسے کے باقاعدہ فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے اندر صرف ایک ہنر پایا جاتا ہے اور وہ زبان کی تیزی اور بدزبانی کرنا ہے۔ ہم سب کی بات نہیں کر رہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر بہت سے مخلص اور دین کا درد رکھنے والے افراد بھی فعال ہیں۔ ان کی فعالیت دیکھ کر علم ہوتا ہے کہ وہ عوام کو کچھ سکھانا چاہتے ہیں لیکن جن کا مقصد ہی آپ کو کسی نا کسی طرح سے ورغلا کر اپنے پیج پر لانا، اختلافی ابحاث ابھار کر پیج کی ریٹنگ بڑھانا ہے وہ یہ سب سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔ سمجھداری اس میں ہے کہ ان کی سازش کا حصہ نہ بنیں وہ تو چاہتے ہیں آپ ان کا چیلنج قبول کریں، جب آپ جائیں گے تو انہوں نے نے آگے سے ایک بھی نہیں سننی ، کیونکہ سوشل میڈیا علمی پلیٹ فارم نہیں ہے وہ شور مچا کر غیر علمی انداز پر اتر  آۓ گا اور الٹا بدنام کرے گا۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:
«سَلْ تَفَقُّهاً وَ لاَ تَسْأَلْ تَعَنُّتاً».
ترجمہ: سمجھنے کے لیے پوچھو، الجھنے کے لیے نہ پوچھو۔[1] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت ۳۲۰۔
جہاں پر دیکھیں مقابل سمجھنے کی بجاۓ صرف اپنا نظریہ ثابت کرنے پر تل گیا ہے وہاں خاموش ہو جائیں۔ اور ایسی بحث کو ترک کر دیں۔ کیونکہ مجادلہ سیئہ بداخلاقی شمار ہوتا ہے۔ حتی اعتکاف اور احرام کی حالت میں تو مجادلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

قرآن کریم سے استدلال کی صورت

نقلی دلیل کے مقدمے بھی نقلی ہیں۔ نقل سے مراد قرآن کریم کی آیات و روایات اہل بیتؑ ہیں۔ تاہم آیات کریمہ میں صرف محکمات و ظواہر سے دلیل قائم کی جا سکتی ہے۔ محکم سے مراد ایسا کلام ہے جس کا صرف ایک ہی معنی نکل رہا ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلا حروف ایسے استعمال کئے گئے ہیں جن کا اور کوئی معنی نہیں بنتا، یا کلام کا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ اس کلام کا اور کوئی معنی نہیں۔ امامت کو محکمات سے ثابت کرنا ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں ظاہر ہے جس سے مراد ایسا کلام ہوتا ہے جس سے چند معانی لئے جا سکتے ہیں، لیکن ایک معنی دوسرے معانی سے زیادہ قوی طور پر آپ پر ظاہر ہو رہا ہے۔ اسے ظاہر کہتے ہیں۔ مثلا کوئی کہتا ہے کہ زید آیا ہے۔ فرض کر لیں آپ کے تین چار دوست ہیں جن کا نام زید ہے۔ لیکن جب کہا جا رہا تھا کہ زید آیا ہے ایک بندہ فورا آپ کے ذہن میں آیا۔ اسے ظاہری معنی کہیں گے۔ ہرچند دیگر معانی بھی مراد لئے جا سکتے تھے لیکن ایک معنی کا دوسرے معانی پر تبادر کرنا ظاہر کہلاتا ہے۔ علم اصول میں ہم ثابت کرتے ہیں کہ ظواہرِ قرآن کریم حجت ہیں۔ ولایت فقیہ کو محکمات یا ظواہر سے ثابت کرنا ضروری ہے۔ متشابہ اور مجمل آیات یا روایات سے استدلال نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ آپ کو اس موضوع کی تمام آیات کو جمع کرنا ہوگا، ممکن ہے موضوع کا ایک حصہ کہیں ذکر کر دیا ہو اور اس کا بقیہ حصہ کسی اور سورہ کے ذیل میں بیان ہو۔

روایات اہل بیتؑ سے استدلال کی صورت

روایات اہل بیتؑ سے استدلال کرتے ہوۓ بھی آپ کو محکمات یا ظواہر لانا ہونگے۔ مجمل و متشابہ معانی رکھنے والی روایات سے استدلال نہیں کر سکتے۔ روایات کے ذیل میں آپ کو ایک اور کام بھی کرنا ہے جو قرآن کریم سے استدلال کرتے ہوۓ ضروری نہیں تھا۔ اور وہ روایات کی سندی تحقیق کرنا ہے۔ قرآن کریم میں سندی تحقیق نہیں کی جاتی، کیونکہ مکتب تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم ہمارے پاس تواتر سے پہنچا ہے۔ تواتر کو سندی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن روایات میں ہمیں پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ مطلب نبی یا امام سے صادر ہوا ہے یا نہیں۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو جاۓ کہ کلام امام سے صادر ہوا ہے یا نہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ امام کا نظریہ ہے۔ اگر کوئی کلام تواتر سے ہم تک پہنچا ہے تو اس میں تو مسئلہ نہیں، لیکن اگر تواتر کی حد تک پہنچا ہوا کلام نہیں ہے توہ خبر واحد ہوگی۔ خبر واحد میں دیکھنا ہوگا کہ اس کا راوی عادل یا ثقہ ہے یا نہیں؟ ثقہ راوی کی روایت لینے کے حوالے سے فقہاء کے مبانی علمی مختلف ہیں اس لیے ہم یہاں پر موضوع کو تقلیدی طور پر نہیں بلکہ علمی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ قارئین کو تحقیق سے ایک نظریہ اختیار کرنے میں آسانی ہو۔

پہلی روایت اور اس کی تحقیق

روایت میں ہم نے بالترتیب تین تحقیقی امور انجام دینے ہیں:
۱۔ روایت کی سند
۲۔ روایت کا معنی (دلالت حدیث)
۳۔ روایت کی حجیت۔ اس سے مراد یہ ہے کہ روایت کا جو معنی آشکار ہو رہا ہے وہ ہم پر حجت ہے بھی یا نہیں؟

پہلی روایت

« مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ».
ترجمہ: ابو بختری بنے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بتحقیق علماء انبیاء کے وارث ہیں۔[2] شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۲۔
اس روایت کی سند پر بعض بزرگان نے اشکال کیا ہے لیکن ان الفاظ اور معانی کے ساتھ جو روایت قداح سے نقل ہوئی ہے اس کی سند پر کسی بھی فقیہ کو اعتراض نہیں۔[3] شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۴۔ قداح کی روایت کسی بھی فقیہ کے مبنی کے تحت ضعیف نہیں ہے۔ اس لیے اس روایت کا امام سے صادر ہونا قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے۔ اس روایت کے معانی (دلالت حدیث) پر استدلال اور حجیت پر بعد بحث پیش کی جاۓ گی۔ لیکن اس روایت میں جو عمومی ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس روایت کے مطابق علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اہل علم کی منزلت اللہ تعالی کے نزدیک بہت بلند ہے۔ جو قومیں اہل علم کی قدر نہیں کرتیں وہ انسانیت کے اعلی مدارج تک نہیں پہنچ پاتیں۔ پاکستانی معاشرے میں طاقتور کو عزت ملتی ہے لیکن اس کا حقدار اہل علم ہے۔ پاکستان میں محسن ملت ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ کیا ہوا؟ پوری قوم گواہ ہے۔ لیکن شیطانی نظاموں میں جکڑی قوم نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ ہمارے ہاں عالم کی جب قدر نہیں ہوتی اس کو مغرب خرید لیتا ہے۔ مغربیوں کو اہل علم کی قدر ہے وہ ہاتھ پیر مار کر ان کو جذب کر لیتے ہیں۔ ان کے پاس سسٹم موجود ہے لیکن نادان قومیں ڈنڈے کے زور پر مسائل کو حل کرتی ہیں ان کو ہر مسئلہ ڈنڈے سے حل کرنا ہے۔ کوئی بھی اپنی جگہ پر نہیں ہے، اور یہ عدالت کے برخلاف ہے۔ علم ہمیں اقدار سکھاتا ہے، اور اہل علم ہمارے معاشرے کی عزت ہوتے ہیں۔ انہیں سے معاشروں کی بقاء ہے۔ 

دوسری روایت اور اس کی تحقیقی

دوسری روایت

« مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْعُلَمَاءُ أُمَنَاءُ».
ترجمہ: اسماعیل بن جابر نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے، امامؑ نے فرمایا علماء امین ہیں۔[4] شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۔
اس روایت کی سند میں چار راوی ہیں۔
محمد بن یحیی العطار، احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن سنان، اسماعیل بن جابر۔ ان میں صرف محمد بن سنان کی وثاقت کے بارے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ محمد بن سنان پر طولانی گفتگو ہے۔ نجاشیؒ اور طوسیؒ نے اپنی کتابوں میں ان کی تضعیف کی ہے۔ علم رجال میں ستون یہی دو شخصیات ہیں۔ لیکن شیخ مفیدؒ، نے محمد بن سنان کی خصوصیت کے ساتھ توثیق کی ہے۔ وسائل الشیعہ کے خاتمہ میں شیخ حر عاملی ؒنے بھی محمد بن سنان کو ثقہ قرار دیا ہے۔ بہرحال محمد بن سنان امام کاظمؑ، امام رضاؑ اور امام تقیؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ ان کی وثاقت پر ہمارے پاس کثیر قرائن بھی موجود ہیں جن سے ان کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے۔ تاہم آیت اللہ خوئیؒ نے تمام رجالیوں کے اقوال کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے اور آخر میں تبصرہ کرتے ہوۓ ضعیف قرار دیا ہے۔ لذا آیت اللہ خوئیؒ کے مبنی کے مطابق تو یہ روایت ضعیف ہو جاۓ گی لیکن دیگر فقہاء کرام کے مبانی کے مطابق یہ روایت صحیح ہے۔ اور اس کے معانی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔[5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۸تا۱۷۹۔

Views: 21

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نظریہ ولایت فقیہ حملوں کی زد میں
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ پر متعدد احادیث مبارکہ