نظریہ ولایت فقیہ حملوں کی زد میں
عقلی اور روائی دلیل سے مرکب دلیل جسے تلفیقی دلیل کہا جاتا ہے کو گزشتہ اقساط میں اجمالی طور پر بیان کیا گیا۔ اس تحریر میں دلیل پر ابھرنے والے چند سوالات کے جواب دئیے جائیں گے۔
فہرست مقالہ
ولایت فقیہ۔امامت کے قریب ترین نظام
اللہ تعالی زمین و آسمان کا خالق ہے۔ خلقِ خدا پر اللہ تعالی کی حکومت ہے۔ انسانوں پر الہی حکومت کی ضرورت کو بھی سب مسلمان قبول کرتے ہیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ الہی حکومت اجراء کے مرحلے میں کس انسان کے ہاتھ میں ہو؟ اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص بھی حکومت پر مسلط ہو جاۓ وہ خلیفہ الہی ہے اور اس کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے۔ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی کی جانب سے منصوب امام، حکومت کر سکتا ہے۔ زمانہ امامت(۲۶۰ ہجری) تک تو مشکل پیش نہیں آتی مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب وقت کا امام غیبت میں ہے۔ زمانہ غیبت میں الہی حکومت ہو یا نہ ہو؟ کیا اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ زمانہ غیبت غیر الہی حکومت میں بسر ہو؟ الہی قوانین معطل رہیں؟ یقینا یہ سب مقصود نہیں ہے۔ عقل یہاں پر کہتی ہے کہ اگر امامت نہیں ہے تو امامت کے قریب ترین نظام ہو۔ ولایت فقیہ اگرچہ کامل طور پر امامت کے نظام کا متبادل نہیں ہو سکتا لیکن بقیہ نظاموں کی نسبت امامت سے قریب تر ضرور ہے۔ عقل یہ حکم کرتی ہے کہ امامت نہ سہی تو ایسی صورت اختیار کی جاۓ جو امامت کے قریب تر ہو۔ کلی طور پر تلفیقی دلیل یہی ہے ۔جس کا ایک مقدمہ دین سے لیا گیا ہے۔ دینی مقدمے پر عقل حکم لگا رہی ہے۔ پس یہ کہنا کہ ہم ولایت فقیہ کو امامت کے متبادل قرار دے رہے ہیں درست نہیں۔ ولی فقیہ نا تو امام کی مانند ہے اور نا ہی ولایت فقیہ امامت کے متبادل۔
زمانہ غیبت میں سیاسی نظام
زمانہ امامت میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں امام کی اطاعت نہیں کرتا اور کسی دوسرے شخص کو اپنا امام بنا سکتا ہوں۔ کیونکہ امام واجب الطاعہ ہوتا ہے۔ یہی صورت حال زمانہ غیبت میں بھی ہے۔ اگر امام ظاہر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی کو بھی سیاسی طور پر اپنا امام مقرر کر لیں۔ جس طرح زمانہ امامت میں لوگ صرف الہی قوانین کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں زمانہ غیبت میں بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ کسی بھی قانون کو اپنا لیں۔ قوانین الہی کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں، بلکہ تا قیامت یہی قوانین ہیں جو معاشروں میں نافذ ہونے ہیں۔ اس طور پر کوئی بھی شخص ولایت فقیہ کا انکار نہیں کر سکتا۔ آپ کسی سے بھی پوچھیں کہ اس کو کونسا نظام اور قانون چاہیے؟ اسلامی یا غیر اسلامی؟ وہ کہے گا کہ اسلامی قانون چاہیے۔ آپ کسی سے بھی پوچھیں کہ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ آپ کے مسلمان معاشرے میں شراب عام بک رہی ہو؟ سودی نظام سے غریب، غریب تر ہو رہا ہو اور امیر، امیر تر ہو رہا ہو؟ کیا وہ چاہتا ہے کہ اسلامی حدود جاری نہ ہوں؟ یقینا اگر وہ مسلمان ہے تو وہ کہے گا کہ میں یہ سب نہیں چاہتا۔ تو ہم کہیں گے پھر تو آپ بھی ولایت فقیہ کے قائل ہیں۔ کیونکہ ولایت فقیہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب امور نہ ہوں، اگر ولایت فقیہ آ جاۓ تو الہی قانون کا اجراء ہوگا، فسق و فجور پر پابندی لگائی جاۓ گی، مجرمین کو اسلامی حدود کے مطابق سزا ملے گی، اور آپ کا حکمران بھی فاسق فاجر یا جاہل نہ ہوگا بلکہ با تدبیر و با صلاحیت انسان حاکم ہوگا جو عدل کی بنا پر فیصلے کرے گا، اگر وہ ایک بھی فیصلہ غیر عادلانہ کرتا ہے تو اس کی ولایت ساقط ہو جاۓ گی۔ ولی فقیہ کے لیے عادل ہونا شرط ہے، اگر پتہ چل جاۓ کہ اس نے ایک فیصلہ بھی اسلامی معیار وں کو مدنظر رکھنے کی بجاۓ ہوا و ہوس سے کیا ہے اس کی حکومت گر جاۓ گی۔ ایسا نظام کون نہیں چاہتا؟ یقینا سب یہی چاہتے ہیں اس لیے اس نظام کی درست تشریح و تبیین ضروری ہے۔ شبہات کا جواب دینا ضروری ہے ورنہ اس کے متبادل اور پست تر نظام معاشروں پر نافذ رہیں گے۔
اجتماعی علوم میں اجتہاد کی ضرورت
حوزہ جات علمیہ میں الحمد للہ اجتماعی علوم بھی ایک حد تک پڑھاۓ جانے لگے ہیں۔ جو طلاب اجتماعی علوم نہیں پڑھتے اور صرف فقہ و اصول میں مہارت حاصل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں وہ معاشرے کےاجتماعی امور میں علمی نظر نہیں رکھتے بلکہ ان امور میں تقلید کرتے ہیں۔ جبکہ اجتماعی زندگی میں نظریات کو اپنانے کے لیے تقلید کی نہیں اجتہادی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم خود اجتماعی زندگی کے امور میں اجتہادی نظر حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں تو ہر ایرے غیرے کی نظر کو آرام سے قبول کر لیں گے۔ جبکہ ہمیں خود تجزیہ تحلیل کرنا ہوگا کہ کیسے استعماری طاقتوں نے کئی صدیوں سے امت مسلمہ کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے؟ کیوں مسلمان ملک فقیر ہیں اور مغرب کی غلامی کر رہے ہیں؟ کیوں ہمارے ممالک میں اسلامی حکومتیں قائم نہیں ہو رہیں، صرف استعمار کا غلام ہی ہم پر مسلط ہوتا ہے؟ ہم اجتماعی طور پر اسلامی نکتہ نظر سے کیوں نہیں سوچتے، قومیت، قبائلیت، لسانیت اور مفادات کی بنا پر اجتماعی فیصلے کرتے ہیں؟ آخر کیوں؟ آخر کیوں وطن عزیز میں ہم انہیں چور ڈاکوؤں سے ہی اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں؟ ان امور میں کیوں تجزیہ تحلیل نہیں کیا جاتا؟ اگر ہمیں اتنا نہیں سمجھ آتا کہ ہم کس طرح اس حالت کو پہنچے ،یقینا پھر اسلام سے زمانہ غیبت میں نظام بھی استخراج نہیں کر سکیں گے۔ہم نے اسلام کو انفرادی نگاہ سے دیکھا ہے، اجتماعی امور کو دوسروں کے حوالے کر دیا۔ ہمارا مسئلہ صرف ولایت فقیہ کو نہ سمجھ پانا نہیں بلکہ بہت سے بنیادی اجتماعی امور کی بھی ابھی تک ہم نے صحیح فہم حاصل نہیں کی۔
ولایت فقیہ پر چاروں طرف سے حملہ
ولایت فقیہ کے خاتمہ کے لیے دشمن نے اب تک ہزاروں منصوبے بنائے ہیں۔ جب سے یہ نظام قائم ہوا ہے پہلے دن سے ہی مشرقی و مغربی بلاک نے اس کا کام تمام کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اندرونی طور پر ایران کے اندر نفوذی چھوڑے، اور بیرونی طور پر ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ لیکن یہ بات واضحات میں سے ہے کہ جتنا نقصان اس نظام کو خود اندر کے لوگوں سے پہنچا ہے وہ کسی بیرونی دشمن سے نہیں پہنچ سکا۔ ایران کو اندرون سے مختلف مسائل کا شکار کر دیا گیا۔ ولایت فقیہ کے مقابلے میں قوم پرست، لبرل، متحجرین، اور اصلاح طلب گروہوں کو لایا گیا۔ قوم پرست کہتے ہیں کہ جب سے ایران میں اسلامی حکومت آئی ہے تبھی سے ایران مسائل کا شکار ہوا ہے، ہمارا ہیرو کورش کبیر (Cyrus the Great) ہے اور ہمیں اپنی اسی اصل کی طرف جانا چاہیے۔ یہ لوگ امام رضاؑ اور امیرالمومنینؑ کو اپنا رول ماڈل ماننے کی بجاۓ کوروش کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ بعض ہمارے علماء نے کوروش کو ذوالقرنین نبی قرار دیا ہے۔ ان کے بقول یہ دونوں ایک شخصیت ہیں۔ بہرحال کوروش پرست افراد ایران میں قوم پرستی کی بنا پر حکومتی نظام تشکیل دینا چاہتے ہیں اور اسلام کا کاملا انکار کرتے ہوۓ ولایت فقیہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف سے ایران میں ایسی تنظیمیں وجود دی گئی ہیں جو ایران کو چند ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول کردستان، بلوچستان، تبریز اور اس کے علاوہ دیگر صوبے ایران کا حصہ نہیں ہیں، صرف وسط میں جو علاقہ فارس کہا جاتا ہے وہی ایران ہے بس، اس کے علاوہ باقی تمام صوبہ آزاد ہونے چاہئیں۔ قوم پرستی کے عنصر کو ابھار کر وہ اس اسلامی نظریہ کو توڑنا چاہتے ہیں۔ دشمن چاہتا ہے جو قوم بھی آ جاۓ، مشکل نہیں۔ لیکن اسلامی قانون کی بات نہ ہو، ان کو ریاستی و قومی مسائل میں الجھا دو، ان کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ قوموں کی شکل میں رہیں۔ جبکہ دین اسلام امت واحدہ کا قائل ہے۔ امت واحدہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومیں ختم ہو جائیں، ملکوں کی سرحدیں ختم ہو جائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے لیکن مشترکہ مفاد کی بنا پر ایک امت بن کر رہنا نا صرف امت کے اجتماعی مفاد میں ہے بلکہ دینی طور پر بھی فریضہ ہے۔
دشمن کی وحدت اور مسلمانوں میں تفریق
یورپی اگر مختلف قوموں کے باوجود ایک ہو سکتے ہیں تو مسلمان بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں پر الٹی گنگا بہتی ہے۔ مسلمان ملک(یمن) کے خلاف آل سعود کی نگرانی میں مسلمان ممالک کی فوجوں سے ایک مشترکہ لشکر بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کا لشکر عالمی استکبار کے خلاف کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ ہمیں ان امور کو اجاگر کرنا چاہیے، اس پر مقالات لکھے جانے چاہئیں اور کانفرنسز منقعد ہونی چاہئیں۔ امت مسلمہ مشترکہ مفاد کے لیے اکٹھی ہو جاۓ اور وحدت کی صورت اختیار کر کے اسلام دشمنوں کے خلاف کھڑی ہو۔ لیکن دشمن مکار ہے وہ اس تفکر کو پھیلنے نہیں دیتا اور فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے۔ فرقہ واریت کا پھل آج امت مسلمہ کو یہ ملا کہ مسلمانوں کے قلب(قبلہ اول بیت المقدس فلسطین) پر اس نے حملہ کیا کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ مسلمان ممالک کا دوسرا اہم ترین خطہ جو وسط شمار ہوتا ہے عرب عمارات ہے اور اسے مغربی استکبار نے بدترین شکل میں اپنے چنگل میں پھنسایا ہوا ہے۔ عرب عمارات اس وقت کامل طور پر اسرائیل کی ریاست بنا ہوا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے الہی قوانین کو نافذ کرنے کی بجاۓ الہی قوانین کو صرف پڑھنے پر اکتفاء کیا۔ دین اسلام اس لیے نازل نہیں ہوا تھا کہ افراد اس کو پڑھ کر مفتی بنیں اور اسلامی ممالک دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں ہوں۔ دشمن کو الہی قوانین پڑھنے سے تو کوئی مشکل نہیں، کوئی عزاداری کرتا ہے اور خود کو مارتا ہے تو اس میں دشمن کو تو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ ان کو مساجد، مدارس اور امام بارگاہوں سے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کو مسئلہ یہ ہے کہ کہیں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات نہ ہو۔ آپ لاکھ عزاداری کریں کسی بھی ملک میں آپ کو کوئی نہیں روکے گا لیکن اگر آپ اسلامی ممالک میں الہی قوانین کی بات کریں اور یہ بات کریں کہ امام حسینؑ کے قیام کو آج بھی معاشروں میں زندہ کیا جاۓ تو اسے اغوا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس بات پر تو سب کو خوش ہونا چاہیے کہ امام حسینؑ کے قیام کی بات کی جا رہی ہے، حسینیت کو عام کیا جا رہا ہے اور ملک میں مسلط یزید صفت حکمرانوں سے چھٹکارے کی بات ہو رہی ہے۔ اسلامی سوسائٹی کی بات ہو رہی ہے، عزت و استقلال کی بات ہو رہی ہے اس سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ اس میں مسئلہ پیچھے سے استعمار کو ہے ہمارے اپنوں کو نہیں۔ استعماری طاقتوں کا ہمارے ملک کے تمام اداروں میں نفوذ موجود ہے وہ ایسا شخص معاشرے میں مقبول ہی نہیں ہونے دیتیں جو الہی قوانین کے اجراء کی بات کرے۔ وہ لبرل اور استعمار زدہ شخص کو عوام میں مقبول کر وا دیتے ہیں۔ اور ادھر مذہبی افراد اس حقیقت کو سمجھنے کی بجاۓ آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہی نہیں کہ کوئی ایم۔آئی۔سکس نامی چیز ہے، یا سی۔آئی۔اے ہے جن کا ہمارے ممالک میں بھرپور نفوذ موجود ہے،اور یہ مسلمانوں کو اندر سے کمزورکر رہے ہیں۔ انہیں امریکی و برطانوی ایجنسیوں نے ہی داعش، طالبان، جبہۃ النصرہ جیسے گروہ بناۓ ہیں جو صیہونیوں کے خلاف جہاد کرنے کی بجاۓ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ دشمن در اصل طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں بنا کر مسلمانوں کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ جو بھی اسلامی نظام کی بات کرے وہ داعشی یا طالبانی ہے۔ دشمن ولایت فقیہ کے مقابلے میں ان گروہوں کو سامنے لایا ہے۔
تحلیل کی قلت اور تقلید کی کثرت
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی حوزے میں پڑھنے والا طالبعلم اجتماعی امور میں تحلیلی نظر رکھنے کی بجاۓ تقلید کرتا ہے۔ وہ سال ہا سال دین کو پڑھتا ہے لیکن جب اسے کہا جاۓ کہ یہ دین پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ نافذ ہونے کے لیے نازل ہوا ہے تو اس کا ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے فورا کہتا ہے کہ فلاں عالم نے تو ایسا کبھی نہیں کہا؟ فورا فلاں عالم اور مجتہد کا حوالہ دے گا اور تقلید پر اتر آۓ گا۔ زمانہ غیبت میں دین کا نظام ہو یا نہ ہو؟ وہ بلا جھجھک کہتا ہے کہ کوئی بھی نظام ہو فرق نہیں پڑتا۔ نیابت کا نظام ہو چاہے ڈیموکریسی کا نظام ہو کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر یہاں وہاں سے ڈیموکریسی کو ثابت کرنے کی کوشش کرے گا جب پوچھا جاۓ کہ ڈیموکریسی مغربی نظام ہے یا اسلامی؟ اس کے جواب میں فورا کسی کا قول نقل کرے گا کہ فلاں نے تو اسے بھی اسلام کے منافی قرار نہیں دیا۔ تعجب کی بات ہے فقہی استنباط کرنے میں اس کا دماغ خوب چلتا ہے لیکن دین کا نظام جاری ہونا چاہیے یا نہیں یہاں فورا اسے تقیہ یاد آ جاتا ہے۔ فورا کہتا ہے کہ ہم حکم ثانوی پر بھی تو عمل کر سکتے ہیں۔ علمی فضا ایسی بنی ہوئی ہے کہ اگر کوئی نماز روزہ کے مسائل کو پڑھتا ہے تو سب کہتے ہیں کہ یہ دین پڑھ رہا ہے لیکن اگر اجتماعی امور پر بات کرتا ہے یا امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا راہ حل پیش کرتا ہے تو اسے کہتے ہیں عالم ہو کر غیر دینی باتیں مت کرو۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کرنا کب سے غیر اسلامی بات ہو گئی؟ یا کہے گا کہ آپ دیوبندی ہو گئے ہو۔ دشمن نے ہمارے معاشروں میں اتنا زہر پھیلا دیا ہے کہ جو بھی حکومت اسلامی کی بات کرتا ہے یا قانون الہی کے اجراء کی بات کرتا ہے سب سمجھتے ہیں کہ یہ شدت پسند سنی ہو گیا ہے۔ نظام الہی کی بات کرنا تسنن نہیں ہے بلکہ عین تشیع ہے۔ امامت یہ ہے کہ ہمارے اوپر آئمہ معصومینؑ کی یا ان کے نائبین کی حکمرانی ہو، یہ ہمارے ہادی و امام ہیں۔ صرف انفرادی زندگی میں ہی امام نہیں ہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی امام ہیں۔ امامت کا مزاج بتاتا ہے کہ وہ اس لیے قرار دی گئی کہ امت کے اجتماعی امور کی اصلاح کرے اور ان کی مدیریت کرے۔ طلاب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ذہنوں کو کھولیں اور اجتماعی امور میں تقلید پر اکتفاء نہ کریں بلکہ اجتہادی نظر رکھیں۔ جس طرح فقہاء کے اختلاف کو فقہ کی دنیا میں دلیل کی بنا پر قبول کیا جاتا ہے اسی طرح سیاسی تجزیہ تحلیل میں بھی دلیل کو اختیار کریں، تقلید نا کریں۔
کثرت سے وحدت کی طرف سفر
تلفیقی دلیل کے ذیل میں ہم نے بیان کیا کہ امام کی ذمہ داری ہے حج کے مناسک کو منظم بنانے کے لیے چاند کا اعلان کرے۔ زمانہ امامت میں تو یہ مسئلہ نہیں ہے تمام مومنین ایک امام کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ زمانہ غیبت میں کیا کریں؟ زمانہ غیبت میں ممکن ہے خود مراجع عظام کا اختلاف ہو جاۓ؟ تب کیا کریں گے؟ ایک مجتہد کہے کہ چاند ثابت ہے اور دوسرے کے نزدیک ثابت نہ ہو۔ زمانہ امامت میں تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایک وقت میں دوسرا امام موجود بھی ہو تو وہ پہلے کا ماموم ہوتا ہے۔ زمانہ غیبت میں بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ایک رہبر ہو۔ معاشرے میں یہ رشد ہونا ضروری ہے کہ وہ کثرت سے وحدت کی طرف آئیں۔ بہترین عقلی صورت یہ ہے کہ دین اور دنیا کا ایک رئیس ہو۔ یہ زمانہ امامت میں ممکن ہے۔ امام دینی مسئلہ بھی بتاۓ اور امت کے دنیوی مسائل کو بھی حل کرے۔ حکم شرعی، عدالتی فیصلے، سیاسی امور اور جہاد کے امور، بیک وقت ایک امام کے ہاتھ میں ہوں۔ زمانہ غیبت میں بھی معاشروں میں آہستہ آہستہ یہ شعور آنا ضروری ہے کہ وہ ایک فقیہ کی اطاعت میں ہوں۔ کیونکہ امامت کے قریب ترین صورت یہی بنتی ہے جتنی کثرت ہوگی اتنا ہی امامت سے دور تر ہونگے۔ اب چاند کے مسئلے میں جب تک امام ہے تو فقط وہ اعلان کرتا ہے دوسرا امام اس کی اتباع کرتا ہے، زمانہ غیبت میں بھی حق بنتا ہے کہ ایک فقیہ اعلان کرے، ایران میں رہبر معظم کے زیر نگرانی جو کمیٹی چاند دیکھنے کے امور انجام دیتی ہے وہ سب مراجع کے مبانی کو مدنظر رکھتے ہوۓ چاند دیکھتی ہے۔ ایسا نہیں کہ رہبر معظم اپنے فقہی مبانی کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعلان کروا دیتے ہوں۔ اعلی ترین صورت یہ بنتی ہے جب ولی فقیہ اعلان کر دے تمام مراجع اس کی اتباع کریں۔ یہ تو صرف چاند کا مسئلہ ہے، باقی سب امور میں بھی ایسی صورت اختیار کی جاۓ جو زمانہ امامت کے قریب تر ہو۔ مثلا زمانہ غیبت میں نماز عیدین کا مستحب ہونا اور زمانہ امامت میں واجب ہونا، یہ ایک استثناء ہے، نماز جمعہ کا واجب تخییری ہونا یا واجب عینی ہونا، جس بات کے بھی قائل ہو جائیں یہاں پر مثال کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔ زمانہ امامت کے قریب ترین نظریہ کونسا بنتا ہے؟ عینی ہونے کا نظریہ یا تخییری ہونے کا نظریہ؟ یہاں پر ہماری جانب سے فتوی دینا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کونسی صورت نظام امامت کے قریب ہے، یقینا واجب عینی کی صورت نزدیک ہے۔ پس شعبہ جات کی تقسیم کے اعتبار سے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو تمام شعبہ جات جدا جدا کر لیں۔ فتوی دینے والا الگ ہو، قضاوت کرنے والا الگ ہو، اور سیاست کرنے والا الگ۔ لیکن بہترین صورت یہ ہے کہ کثرت سے نکل کر وحدت کی طرف آیا جاۓ۔ جتنی وحدت ہوگی اتنا ہی نظریہ امامت کے قریب تر ہیں۔ کیونکہ امام کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں فتوی دینے والا بھی ہے، قضاوت کرنے والا بھی ہے اور امت کی سیاست بھی اسی کے ذمہ ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اس نظام کے قریب ترین صورت کو اختیار جاۓ۔
اجتماعی امور میں تقلید کا نتیجہ
دین اللہ تعالی نے بھیجا تاکہ معاشروں میں جاری ہو سکے۔ دین صرف اچھی اچھی باتیں بتانے کے لیے نازل نہیں ہوا۔ مثلا بچے کو آپ کہیں کہ اٹھو نماز پڑھو۔ وہ کہے کہ ہاں آپ بہت اچھی بات کر رہے ہیں، نماز پڑھنی چاہیے۔ اور بیٹھ جاۓ۔ آپ کہیں پھر نماز کیوں نہیں پڑھ رہے ہو؟ وہ کہے کہ آپ نے کب کہا کہ جاؤ، وضو کرو، جاۓ نماز بچھاؤ، اور تکبیرۃ الاحرام کہہ کر رکوع و سجود بجالاؤ۔ یہاں پر وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتا بلکہ عقل کہتی ہے کہ ان سب کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ نماز کے ان مقدمات کو انجام دینا بھی ضروری ہے۔ مقدمات کے فراہم کرنے کا حکم عقل لگاتی ہے۔ اس کے لیے الگ سے فتوی کی ضرورت نہیں بلکہ عقل کا حکم لگانا کافی ہے۔ اگر دین اسلام نے قوانین بیان کئے ہیں تو ان کو صرف سن لینا کافی نہیں، ان کو معاشروں میں جاری کرنے کے لیے مقدمات فراہم کئے جائیں۔ جس نے کبھی عقل کو چلایا ہی نہیں ہمیشہ فتوی مانگتا رہا وہ یہ بات نہیں سمجھے گا۔ وہ کہے گا کہ کہاں لکھا ہے کہ اسلامی قوانین کو جاری کرنا ضروری ہے؟ وہ کہے گا کہ مجھے کوئی فتوی دکھاؤ۔ تقلیدی ذہن ہمیشہ یہی سوچے گا لیکن عقل کے پیچھے چلنے والے افراد فورا قوانین الہی کے اجراء کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت کو سمجھ لیں گے۔ تقلیدی ذہن کو آپ لاکھ کہتے رہو کہ اس کے لیے تو ابتدائی ترین عقل کافی ہے یہ کام کرو ورنہ فرعون، یزید، صدام اور ٹرمپ جیسے افراد تم پر مسلط ہو جائیں گے وہ کہے گا کہ چونکہ اس پر فتوی نہیں ہے میری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔
عقل کی ولایت فقیہ کی طرف ہدایت
دین نے جتنے بھی احکام بیان کئے ہیں ان کی ماہیت پر غور کریں تو آپ یقینی طور پر ولایت فقیہ کی تصدیق کریں گے۔ کیونکہ عقل حکم لگاتی ہے کہ یہ احکام بغیر ولایت فقیہ کے کوئی معنی نہیں رکھتے، اگر ولایت فقیہ نہ ہو لغو ہو جائیں گے۔ مثلا دین کا یہ حکم دینا کہ اموال کو بے وقوفوں کے حوالے نہ کرو، وقف شدہ اموال میں جھگڑا ہو جاۓ تو اس میں حاکم شرع کی طرف رجوع کرو، جہاد اور جنگ کے امور میں امام کی طرف رجوع کرو، مجنون اور مفلس شخص کے امور کی دیکھ بھال، قضاوت اور عدالت کے امور، یہ سب وہ احکام ہیں جن میں ہم زمانہ غیبت میں آزاد نہیں ہیں۔ غیبت میں بھی ان سب مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے لوازمات یہ ہیں کہ ان سب مسائل کو دین کی نظر میں حل ہونا چاہیے، لیکن آپ کو دین کی نظر میں یہ سب مسائل حل کرنے کون دے گا؟ طاغوتی طاقتیں آپ کو الہی قوانین جاری نہیں کرنے دیں گی۔ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ پھر خود قوت حاصل کرو، اجراء کی طاقت حاصل کرو، یہ سب امور آپ کو حکومت کی طرف لے جاتے ہیں، عقل کہتی ہے کہ ان سب ابواب میں حکومت کی ضرورت ہے۔ حکومت بناؤ اور حکومت کے ذریعے دین کے احکام کو قائم کرو۔ اور یہی ولایت فقیہ ہے۔[1] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۰تا۱۷۸۔
منابع:
↑1 | جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۰تا۱۷۸۔ |
---|