loading
{ علم رجال امامی ۔ توثیق و تضعیف }

محمد بن سنان

تحریر: عون نقوی
11/27/2022

محمد بن سنان  امام کاظمؑ، امام رضاؑ اور امام تقیؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ علماء حدیث و رجال نے محمد بن سنان کی وثاقت میں اختلاف کیا ہے۔ قدماء میں سے بعض نے انہیں غالی قرار دیتے ہوۓ تضعیف کی ہے۔ اور دیگر بعض علماء آپ کی وثاقت کے قائل ہیں۔ اور انہیں امامؑ کا خاص صحابی قرار دیتےہیں۔ متاخرین میں سے ایک گروہ نے رجالیین(طوسیؒ، نجاشیؒ) کی تضعیف کی بنا پر ان کو ضعیف قرار دیا ہے یا توقف کیا ہے ۔لیکن علماء کی ایک کثیر تعداد محمد بن سنان کی مدح میں وارد ہونے والی روایات کی بنا پر ان کی توثیق کے قائل ہیں۔

ابتدائی تعارف

رجال کی کتابوں میں محمد بن سنان نامی دو افراد ذکر ہوۓ ہیں۔ ایک کا نام محمد بن حسن بن سنان زاہری ہے اور دوسرا محمد بن سنان ظریف ہاشمی ہے۔ ہماری بحث پہلے راوی میں ہے۔
پورا نام ابو جعفر محمد بن حسن بن سنان زاہری ہے۔ آپ کے بچپن میں والد کی وفات ہوگئی، دادا نے کفالت کی ذمہ داری لے لی۔[1] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ج۱، ص۳۲۸۔ آپ نے فضل بن شاذان، ان کے والد شاذان، یونس بن عبدالرحمن، محمد بن عیسی عبیدی، محمد بن حسین بن ابی خطاب، حسین بن سعید اہوازی اور ایوب بن نوح سے سے تعلیم حاصل کی ۔

مدح میں وارد ہونے والی روایات

شیخ کشیؒ نے اپنی کتاب رجال میں محمد بن سنان کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ امام کاظمؑ نے محمد بن سنان کی مدح فرمائی۔ اس روایت میں امامؑ فرماتے ہیں:  قد وجدتُک في صحيفة أمير المؤمنين(ع) أمّا أنّک فى شيعتنا أبين من البرق فى اللّيلة الظلماء …يا محمّد! إنّ المفضّل اُنسي ومستراحي، و أنت اُنسهما و مستراحهما، حرام على النار أن تمسّک أبداً ‌يعنى أبا الحسن و أبا جعفر(‌ع)؛ میں نے تمہارا نام صحیفہ امیرالمومنینؑ میں پایا۔ تمہارا شیعیان امیرالمومنینؑ میں سے ہونا شب کی تاریکی میں بجلی کی چمک سے زیادہ واضح ہے۔ اے محمد! مفضل میرے لیے انس اور راحت کا سرمایہ تھا اور تو بھی میرے لیے انس و راحت کا سامان ہو۔[2] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۷۹۷۔ ایک اور روایت میں امام جوادؑ محمد بن سنان کو فرماتے ہیں: يا محمّد! أنت عبدٌ قد أخلصت لله . إنّي ناجيت الله فيك، فأبى إلاّ أن يضلَّ بك کثيراًً و يهدي بك کثيراً؛ اے محمد! تم ایک ایسے عبد ہو جس نے اللہ کے لیے خود کو خالص کیا۔ میں نے تمہارے بارے میں اللہ سے نجوی کیا ہے۔ خدا نے یہ چاہا ہے کہ تمہارے ذریعے بہت سوں کو گمراہ اور بہت سوں کو ہدایت دے۔[3] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب الغيبۃ میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں محمد بن سنان کی توثیق و مدح وارد ہوئی ہے: وروي عن أبي طالب القمّي قال: دخلت علي أبي جعفر الثاني( في آخر عمره، فسمعته يقول: جزي الله صفوان بن يحيي و محمّد بن سنان و زکريا بن آدم و سعد بن سعد عنّي خيراً، فقد وفوا لي . إلي أن قال: و أما محمّد بن سنان، فإنه روي عن علي بن الحسين بن داوود، قال: سمعت أبا جعفر( يذکر محمّدَ بن سنان بخير، و يقول: رضي الله عنه برضائي عنه، فما خالفني و لا خالَف أبي قطُّ ؛ ابی طالب قمی سے روایت کی گئی ہے کہ اس نے کہا میں امام تقیؑ کی آخر عمر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سنا کہ انہوں نے فرمایا: اللہ میری طرف سے صفوان بن یحیی، محمد بن سنان، زکریا بن آدم، اور سعد بن سعد کو جزاء خیر دے۔ انہوں نے میرے ساتھ وفا کی۔ یہاں تک کہ امام نے فرمایا: جہاں تک محمد بن سنان کی بات ہے، یہ علی بن حسین سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے امام جوادؑ سے سنا وہ محمد بن سنان کی اچھائی بیان کر رہے تھے۔ اور انہوں نے کہا کہ خدا ان (محمد بن سنان) سے راضی ہو جس طرح سے میں ان سے راضی ہوں۔ انہوں نے میری اور میرے والد کی کبھی مخالفت نہیں کی۔[4] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، الغیبہ، ص۳۴۸۔

توثیق کرنے والے علماء

شیخ مفیدؒ نے محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہے: إنّه من خاصّة الکاظم( ع)و ثقاته و أهل الورع و العلم و الفقه من شيعته؛ وہ (محمد بن سنان) امام کاظمؑ کے خواص، قابل اعتماد، اہل ورع، اور ان کے عالم و فقیہ شیعوں میں سے تھے۔[5] شیخ مفیدؒ، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۲، ص۲۴۸۔ علامہ حلیؒ نے اپنی کتاب خلاصۃ الاقوال میں رجالیوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ میں ان کی شخصیت پر توقف کروں گا۔[6] علامہ حلی، جمال‌ الدین حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، ج۱، ص۳۹۴۔ لیکن اس راۓ سے پلٹتے ہوۓ اپنی کتاب مختلف الشیعہ میں محمد بن سنان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[7] علامہ حلیؒ، جمال الدین حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ، ج۷، ص۸۔ علامہ مجلسیؒ، سید نعمت اللہ جزائریؒ اور سید ابن طاؤوسؒ نے بھی محمد بن سنان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور ان کو آئمہ معصومینؑ کے خواص میں سے قرار دیا ہے۔[8] خاقانی، شیخ علی، رجال خاقانی، ج۲، ص ۱۶2۔ صاحب وسائل شیخ حر عاملیؒ محمد بن سنان کے بارے میں لکھتے ہیں:محمد بن سنان کی شیخ مفیدؒ نے توثیق کی ہے۔ ظاہرا نجاشیؒ اور طوسیؒ نے محمد بن سنان کی تعضیف ابن عقدہ کی وجہ سے کی ہے۔ ابن عقدہ کا نظریہ تھا کہ محمد بن سنان کی روایات سماعت کی اساس پر نہیں، وجادت کی اساس پر ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دلیل ان کے ضعیف ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ابن طاؤوسؒ، ابن شعبہ، اور دیگر بزرگان شیعہ ان کو ثقہ مانتے ہیں۔ اور یہی راۓ (محمد بن سنان کا ثقہ ہونا)درست ہے۔[9] شیخ حر عاملیؒ، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۲۹۔ سید بحر العلومؒ لکھتے ہیں:محمد بن سنان کے بارے میں متاخرین میں اختلاف علماء رجال کے اقوال سے پیدا ہوا۔ جن میں کشیؒ، نجاشیؒ، مفیدؒ، طوسیؒ، ابن شہر آشوبؒ، ابن طاؤوسؒ، علامہ حلیؒ، اور ابن داؤود ؒشامل ہیں۔ ہمارے بعض علماء نے ان کی تضعیف اور بعض نے توثیق کی ہے۔ کچھ علماء نے ان پر توقف کیا ہے۔ بہرحال تمام اقوال کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہماری راۓ یہ ہے کہ محمد بن سنان ثقہ ہیں۔[10] سید بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، ج۳، ص۲۷۸۔ ابو المعالی کلباسی نے اپنی کتاب الرسائل الرجالیہ میں محمد بن سنان پر مختلف اقوال پر تبصرہ کرتے ہوۓ آخر میں ان کی وثاقت کے قول کو اختیار کیا ہے۔[11] کلباسی، کمال الدین میرزا ابو مہدی، الرسائل الرجالیہ، ج۳، ص۶۵۱۔ البتہ ان میں سے بعض علماء متاخر شمار ہوتے ہیں اور ان کی توثیق ہمارے لیے حجیت نہیں رکھتی لیکن بہرحال قابل استفادہ ضرور ہے۔

تضعیف کرنے والے علماء

نجاشیؒ نے اپنی رجال میں لکھا ہے: وهو رجل ضعيف جدّاً؛ وہ (محمد بن سنان) نہایت ضعیف شخصیت ہیں۔[12] نجاشی، احمد بن علی  ، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔ شیخ طوسیؒ نے اپنی رجال کی دونوں کتابوں میں محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[13] شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۴۶۔ [14] شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۱۹۔ ابن غضائری نے محمد بن سنان کے بارے میں لکھا ہے: ضعيف، غال، يضع (الحديث) لا يلتفت إليه‌ ؛ ضعیف، غالی اور حدیث گھڑنے والے ہیں۔ ان کی (روایات)طرف توجہ نہیں کی جاۓ گی۔[15] ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال۔ابن غضائری، ج۱، ص۹۲۔ ابن داؤود حلیؒ نے اپنی رجال کی کتاب میں محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے۔[16] ابن داؤود حلی، حسن بن علی، کتاب الرحال، ج۱، ص۲۷۳۔ آیت اللہ خوئیؒ نے توثیق اور تضعیف کے اقوال اپنی کتاب میں بیان کئے اور آخر میں تبصرہ کیا:محمد بن سنان کے بارے میں جو روایات میں ملتا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آئمہ معصومینؑ کے موالی تھے اور آئمہؑ نے ان کی مدح کی ہے۔ خاص طور پر جن روایات میں امامؑ نے ان سے راضی ہونے کا ذکر کیا ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ اگر ابن عقدہ، نجاشی،ؒ شیخ طوسیؒ، اور ابن غضائری ؒنے ان کی تضعیف نہ کی ہوتی تو ان کی مدح میں وارد ہونے والی روایات پر عمل کرنے میں ہمارے لیے مشکل نہ ہوتی۔ لیکن ان بزرگان کا محمد بن سنان کو ضعیف قرار دینا ہمارے لیے ان پر اعتماد کرنے سے مانع بنتا ہے۔[17] خوئیؒ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۱۷، ص۱۷۰۔

محمد بن سنان کی تضعیف کے اسباب

نجاشیؒ اور طوسیؒ نے محمد بن سنان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوۓ انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔[18] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔ [19] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۶۔
محمد بن سنان کو درج ذیل اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیا گیا ہے:
۱۔ اتہام غلو[20] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۶۔
۲۔  وجادۃ روایات نقل کرنا[21] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۵۔
۳۔ معضل روایات نقل کرنا[22] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی،   ج۲، ص۷۹۶۔
۴۔ اتہام کذاب[23] شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال ، ج۲، ص۸۲۳۔

تضعیف کے اسباب پر رد

جہاں تک نجاشیؒ کے قول کا تعلق ہے تو ان کی عبارت میں ابہام موجود ہے۔ معلوم نہیں  جو عبارت لائی گئی ہے وہ ان کی اپنی ہے یا وہ ابن عقدہ سے نقل کر رہے ہیں۔ اگرچہ نجاشی نے دوسری جگہ پر محمد بن سنان کی تضعیف کی ہے ،تاہم شیخ مفیدؒ، شیخ طوسیؒ (نے اپنی کتاب الغیبہ میں محمد بن سنان کی مدح میں وارد ہونے والی روایت نقل کی ہے)، سید بن طاؤوسؒ، شیخ حر عاملیؒ، اور وحید بهبهانیؒ جیسے علماء کا ان کو ثقہ قرار دینا آپس میں تعارض رکھتا ہے اس لیے نجاشیؒ کے قول کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے۔شیخ طوسیؒ کا اپنی رجال کی کتابوں میں ان کو ضعیف قرار دینا اور کتاب الغیبہ میں ان کی توثیق کرنا ،خود تعارض رکھتا ہے۔ اس لیے تعارض کی حالت میں ان کا قول بھی ہم پر حجت نہیں رہتا۔

اتہام غلو 

محمد بن سنان پر غالی ہونے کا الزام چند بنا پر مسترد ہے:
۱۔  اہل قم بالخصوص احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن حسن بن ولید اور محمد بن علی بن بابویہ جیسی شخصیات کا محمد بن سنان پر اعتماد کرنا انہیں اس اتہام سے بری کر دیتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اہل قم ہر شخص سے روایت نقل نہیں کرتے تھے، بلکہ ایسے شخص کو بھی قم سے نکال دیتے تھے جو خود تو ثقہ ہوتا لیکن کسی غیر ثقہ سے روایات لیتا تھا۔اگر اہل قم محمد بن سنان کی روایات کو لے رہے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کی نظر میں قابل اعتماد تھے۔
۲۔  بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب دوسرے کی راۓ آپ کی راۓ سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس کو غلو سے متہم کر دیا جاتا ہے۔اس لیے غلو کا الزام لگا دینا کافی نہیں بلکہ ثابت کیا جاۓ کہ وہ کونسے غلو آمیز نظریے کے قائل تھے۔
۳۔  ہم جانتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ کے چند بہت ہی خاص اصحاب تھے۔ آئمہ معصومینؑ فقط ان پراسرار و عجائب کی دنیا فاش کرتے تھے۔ چونکہ یہ صلاحیت سب میں موجود نہ تھی، اس بنا پر جو صاحب اسرار نہ بن پاتا ، عدم معرفت کی بنا پر دوسرے پر غلو کا الزام لگا دیتا۔ جس طرح سلمان ؓو ابوذر ؓکے بارے میں بھی وارد ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر ابوذرؓ کو علم ہو جاۓ سلمانؓ کے دل میں کیا ہے تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ [24] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص  ۴۰۵۔ سلمانؓ صاحب اسرار شخصیت تھے۔ اگر ان کی معرفت اور نظریات کا ابوذرؓ کو علم ہو جاتا تو وہ یقینا ان پر غالی اور شاید مرتد کا الزام لگا کر ان کو قتل کر دیتے۔ یہی صورت حال آئمہ معصومینؑ کے بقیہ اصحاب میں بھی تھی۔ اور عین ممکن ہے اسی بنا پر محمد بن سنان کو بھی غالی قرار دیا گیا ہو۔ اور اس پر امام جوادؑ کی وہ روایت گواہ ہے جس میں امام نے ابن سنان کو فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ تمہارے ذریعے بہت سوں کو ہدایت دے اور بہت سوں کو گمراہ کرے۔[25] شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔ یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن سنان خاص اصحاب میں سے تھے۔ سیرت علماء میں یہ امر بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ تفکرات اور نظریات کے اختلاف پر انہوں نے ایک دوسرے پر نقص ایمان یا غلو کا الزام لگایا۔ جس طرح سید مرتضی علم الہدیؒ اور شیخ صدوقؒ کے مابین پیش آیا۔[26] خاقانی، شیخ علی، رجال الخاقانی، ج۲، ص۱۶۱۔

وجادۃ روایات نقل کرنا

محمد بن سنان پر وجادۃ روایات نقل کرنے کا الزام چند بنا پر رد کیا جاتا ہے:
اولا: وجادہ کی دو صورتیں ہیں۔ وجادہ اگر قابل اعتماد اور مشہور کتاب سے ہو تو وہ معتبر ہے۔اس لیے اگر محمد بن سنان مشہور کتابوں سے وجادتاً روایت نقل کرتے ہیں تو وہ قابل قبول ہے۔
ثانیا: جن مضامین پر مشتمل روایات محمد بن سنان سے نقل ہوئی ہیں اس سے یہ تصور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ سب وجادتاً نقل ہوئی ہوں۔
ثالثا: ایوب بن نوح سے منقول مضمون در اصل محمد بن سنان کے دفاع میں ہے۔ نا کہ ان کی تضعیف پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ ایوب بن نوح نے کہا کہ میں نے محمد بن سنان کی کاپی سے بہت کچھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لیکن اس کو بیان نہیں کرتا۔ ایوب بن نوح کا کتاب سے نقل کرنا ان کے محمد بن سنان پر اعتماد کرنے پر دلالت کرتا ہے، اور ان کا محمد بن سنان کی روایت کو نقل نہ کرنااز روۓ  احتیاط ہے۔شاید اس بنا پر ہو کہ روایات کے مضامین اسرار پر مشتمل ہیں اس لیے ان کو صرف اہلیت رکھنے والے اشخاص کے سامنے نقل کیا جانا چاہیے۔
رابعا: اگر فرض کر لیں کہ محمد بن سنان نے بعض روایات کو وجادتاً لیا ہے تو ایک کثیر مجموعہ ایسا ہے جو انہوں نے وجادتاً نہیں لیا بلکہ مستقیم طور پر امامؑ سے سنا ہے۔ ہم ان چند روایات کی بنا پر محمد بن سنان کی تمام روایات کو غیر معتبر قرار نہیں دے سکتے جو انہوں نے مستقیم طور پر امامؑ سے لیں یا سماعت کی بنا پر لیں۔

معظل روایات نقل کرنا

محمد بن سنان پر معظل روایات نقل کرنے کا الزام بھی انہیں ضعیف ثابت نہیں کرتا بلکہ اس سے ان کی عظمت و جلالت ثابت ہوتی ہے نا کہ تضعیف۔ کیونکہ روایات اہل بیتؑ کے بارے میں وارد ہوا ہے: إِنَّ حَدِيثَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لَا يَحْتَمِلُهُ إِلَّا صُدُورٌ مُنِيرَةٌ أَوْ قُلُوبٌ سَلِيمَةٌ أَوْ أَخْلَاقٌ حَسَنَةٌ؛ بے شک ہماری احادیث بہت سخت اور دشوار ہیں۔ ان کو تحمل نہیں کرسکتے مگر وہ جن کے سینے نورانی، قلوب سالم، اور اخلاق حسنہ ہیں۔[27] کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۰۵۔ واضح رہے کہ معظل روایت کے دو معنی ہیں:
پہلا معنی یہ ہے کہ ایسی روایت جس کے معنی کو سمجھنا دشوار ہو، اسے معضل کہتے ہیں۔ محمد بن سنان جب کہتے ہیں کہ میں معظل روایات نقل کرنے والا ہوں تو ا سے مراد یہی پہلا معنی ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ ایسی روایت جس کے سلسلہ سند میں دو یا اس سے زائد راوی حذف ہوں۔روایت معظل علم حدیث کی اصطلاح ہے جسے بعد میں آنے والے علماء نے ایجاد کیا ہے۔ لذا محمد بن سنان جب کہتے ہیں کہ میں معظل روایات نقل کرتا ہوں تو اس سے مراد دوسرا معنی نہیں ہو سکتا کیونکہ دوسرے معنی میں معظل روایت کا استعمال اس زمانے میں رائج ہی نہ تھا۔ بلکہ بعد میں آنے والے علماء نے اس اصطلاح کو ایجاد کیا ہے۔[28] صدر،سید حسن، نہایۃ الدرایہ، ج۱، ص۲۰۱۔

اتہام کذاب

کتب تراجم و رجال میں کسی بھی جگہ پر محمد بن سنان کا نام اس وقت کے مشہور کذابین میں ذکر نہیں۔ شیخ طوسیؒ نے فضل بن شاذان سے نقل کیا ہے کہ محمد بن سنان کذاب تھا، جبکہ خود فضل بن شاذان ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے کثرت سے محمد بن سنان سے روایات نقل کی ہیں۔ اگر محمد بن سنان کذاب تھا تو اس سے روایات کیوں نقل کی ہیں، صرف فضل بن شاذان ہی نہیں بلکہ دیگر بزرگان تشیع نے بھی محمد بن سنان سے روایات لی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ محمد بن سنان کو جھوٹا نہیں سمجھتی تھیں۔

محمد بن سنان کی توثیق پر بعض قرائن

محمد بن سنان کو جن اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیا گیا ان پر ایک تبصرہ ذکر کرنے کے بعد وہ قرائن بیان کرنا ضروری ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن سنان نا صرف ضعیف نہیں بلکہ جلیل القدر با عظمت شخصیت تھے۔
۱۔ محمد بن سنان کی مدح میں آئمہ معصومینؑ سے روایات نقل ہونا۔
۲۔ علماء رجال و حدیث کا محمد بن سنان پر اعتماد کرنا۔ جن میں شیخ مفیدؒ، علامہ مجلسیؒ، علامہ حلیؒ، شیخ حر عاملیؒ، اور سید بحر العلوم جیسے مشاہیر شامل ہیں۔
۳۔ بزرگ علماء و فقہاء کا محمد بن سنان سے روایت کرنا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ ان میں سے بعض بزرگان کے نام ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں جنہوں نے محمد بن سنان سے روایات لی ہیں:
احمد بن محمّد بن عیسی
ايوب بن نوح
حسن بن سعيد بن سعيد
حسن بن علی بن یقطین
حسين بن سعيد
صفوان بن یحیی
عبّاس بن معروف
عبد الرحمان بن ابی نجران
عبد الله بن صلت
فضل بن شاذان
محمّد بن اسمعیل بن بزيع
محمّد بن حسين بن ابی الخطّاب
محمّد بن عبد الجبار
موسى بن قاسم
يعقوب بن يزيد
يونس بن عبد الرحمان
مشہور(مؤثق و مقبول )راویان حدیث میں سے وہ نام جنہوں نے محمد بن سنان سے روایات نقل کی ہیں:
ابراہیم بن ہاشم
احمد بن محمّد بن خالد
حسن بن حسين لؤلؤی
حسن بن علی بن فضّال
شاذان بن خليل
علی بن اَسباط
علی بن حکم 
محمّد بن احمد بن یحیی
محمّد بن خالد برقی
اور محمّد بن عيسى بن عبید.
۴۔ بزرگ محدثین کا محمد بن سنان سے اپنی کتب میں روایات نقل کرنا بھی ان کے ثقہ ہونے پر ایک بہت بڑا قرینہ ہے۔ احمد بن محمد بن یحیی اشعری قمی نے اپنی کتاب نوادر الحکمہ، مرحوم کلینی نے الکافی، شیخ طوسیؒ نے کتاب تہذیب، اور مرحوم شیخ صدوقؒ نے من لا یحضرہ الفقیہ میں محمد بن سنان سے کثیر روایات نقل کی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے محدثین روایات لینے میں انتہائی محتاط انداز اپناتے تھے اور ہرکس و ناکس سے روایات نہیں لیتے تھے۔ ایسے میں ایک راوی سے کثیر روایات لینا، نا صرف اس کی وثاقت کی دلیل ہے بلکہ اس کے جلیل القدر ہونے کی بھی علامت ہے۔

علماء معاصر کی نظر

آیت اللہ شبیری زنجانی چند وجوہات کی بنا پر محمد بن سنان کو ثقہ قرار دیتے ہیں:
۱۔
۲۔

نتیجہ

محمد بن سنان کے بارے میں ہمارے پاس تین اقوال ہیں۔
۱۔ ان کی شخصیت کو ضعیف یا ثقہ قرار دئیے بغیر توقف کیا جاۓ۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے ان کی روایات بھی قابل عمل نہ ہونگی۔
۲۔ نجاشیؒ، اور شیخ طوسیؒ جیسے بزرگ رجالی علماء نے محمد بن سنان کو ضعیف قرار دیا ہے اس لیے ان کی روایات ہمارے لیے معتبر نہیں ہیں۔
۳۔ محمد بن سنان کو بعض رجالی چند اسباب کی بنا پر ضعیف قرار دیتے ہیں، لیکن اگر ان اسباب کی تحلیل کی جاۓ تو ان میں سے ایک سبب بھی ان کی تضعیف کا باعث نہیں بنتا۔ اس لیے محمد بن سنان نا صرف ضعیف نہیں بلکہ تین اماموں کے خاص اصحاب میں سے تھے۔ اور یہی ہمارا قول مختار بھی ہے۔

منابع:

منابع:
1 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ج۱، ص۳۲۸۔
2 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۷۹۷۔
3 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
4 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، الغیبہ، ص۳۴۸۔
5 شیخ مفیدؒ، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۲، ص۲۴۸۔
6 علامہ حلی، جمال‌ الدین حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، ج۱، ص۳۹۴۔
7 علامہ حلیؒ، جمال الدین حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ، ج۷، ص۸۔
8 خاقانی، شیخ علی، رجال خاقانی، ج۲، ص ۱۶2۔
9 شیخ حر عاملیؒ، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۳۲۹۔
10 سید بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، ج۳، ص۲۷۸۔
11 کلباسی، کمال الدین میرزا ابو مہدی، الرسائل الرجالیہ، ج۳، ص۶۵۱۔
12 نجاشی، احمد بن علی  ، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔
13 شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۴۶۔
14 شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۱۹۔
15 ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال۔ابن غضائری، ج۱، ص۹۲۔
16 ابن داؤود حلی، حسن بن علی، کتاب الرحال، ج۱، ص۲۷۳۔
17 خوئیؒ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۱۷، ص۱۷۰۔
18 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۲۸۔
19, 20 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۶۔
21 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۲، ص۷۹۵۔
22 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی،   ج۲، ص۷۹۶۔
23 شیخ طوسیؒ، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال ، ج۲، ص۸۲۳۔
24 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص  ۴۰۵۔
25 شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال، ج۲، ص۸۴۹۔
26 خاقانی، شیخ علی، رجال الخاقانی، ج۲، ص۱۶۱۔
27 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۰۵۔
28 صدر،سید حسن، نہایۃ الدرایہ، ج۱، ص۲۰۱۔
Views: 39

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیثِ مرسل