loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۳}

مدینہ فاضلہ  اور  اقتصادی ترقی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

دین نے جس آئیڈیل ریاست کا نظریہ پیش کیا ہے اس کی دوسری خصوصیت اقتصادی ترقی ہے۔ عمومی طور پر یہ غلط تصور ذہنوں میں پایا جاتا ہے کہ دین کہتا ہے غریب اور فقیر رہنا چاہیے ۔ اس کے برعکس دین نے باقاعدہ اقتصادی نظام پیش کیا ہے ۔دین نے  مختلف مالی عناوین فئے، خمس، زکات، فطرہ، صدقہ، فدیہ، اور کفارہ وغیرہ اس مقصد کے لیے رکھے کہ مال کی گردش ہوتی رہے۔ کوئی بھی معاشرہ اقتصادی ترقی کے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ فقر کا معنی ہی ریڑھ کی ہڈی میں فاصلہ آ جانا ہے۔ جب ریڑھ کی ہڈی میں فاصلہ (Gap) آجاتا ہے انسان چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا،اس فاصلے اور گیپ کو عربی زبان میں فقر کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانی مالی طور پر نادار ہو جاۓ اسے فقیر کہتے ہیں ۔ جس طرح سے معاشرے کے اندر نماز کے قیام کا حکم وارد ہوا ہے اسی طرح سے معاشرے سے فقر کو ختم کرنے کا بھی حکم وارد ہو ا ہے تاکہ معاشرہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔

مال کی اہمیت

روایات میں وارد ہوا ہے کہ مومنین کے لیے اپںا اقتصاد درست کرنا ضروری اور اس کے لیے زحمت اٹھانا قابل قدر ہے۔[1] مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۹۔ [2] متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال، ج۴، ص۴، ح۹۲۰۰۔ اپنے بیوی بچوں کے لیے کما کر لانے والے انسان کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔[3]  مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۱۳۔ [4] ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۴، ص۴۴۵۔ کیونکہ اگر انسان اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہو عزت کی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ مال آئے کیسے؟ مال کو لگائیں کیسے؟ کمائیں کیسے؟ یہ سب بہت اہم ہے جو تفصیل کے ساتھ اسلام نے بتایا ہے۔ اگر ان اسلامی احکام کے مطابق ہم اقتصادی نظام بنانے میں ناکام رہیں تو دشمن غالب آ جاۓ گا۔ اگر اقتصادی نظام درست نہ کر سکیں تو مدینہ فاضلہ کا پہلا وصف یعنی رشد فرہنگی بھی نہیں رہے گا۔ اگر گھر میں ہی مال نہ پہنچا بچے انحرافی ہاتھوں میں جا کر دین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ پس مدینہ فاضلہ کے رہبران پر ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر اقتصادی ترقی کے لیے کوشاں ہوں۔

خلیفہ ثانی کا قتل

رسول اللہﷺ کے بعد امت اسلامی کے اندر اقتدار کی بنا پر ایک ٹکراؤ پیدا ہوا۔ اقتدار کی چاہت کس بنا پر ہوتی ہے؟ مال کی خاطر۔ خلیفہ دوم کا فتل کیوں ہوا؟ مال کی خاطر۔ بعض جاہل افراد کہتے ہیں کہ ابو لولو فیروز شیعہ تھا۔ یہ بات درست نہیں، جس دور میں خلیفہ دوم کا قتل ہوا ایران تازہ فتح ہوا، ابو لولو ایرانی غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ نے اس کو خریدا۔ ابو لولو نے خلیفہ دوم کے حضور اپنے مغیرہ کی بہت شکایتیں کیں لیکن ایک بھی نہ سنی گئی۔ اس بنا پر خلیفہ دوم کا قتل ہوا اور بعد میں ابو لولو خودکشی کر لی۔[5] ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۴۵۔ [6] ابن شبہ، عمر بن شبہ، تاریخ المدینہ، ج۳، ص۸۹۶۔ [7] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۱۹۰۔ یہ وہ دور تھا جس میں اسلامی معاشرے کے اندر ایک قسم کا شدید طبقاتی نظام وجود دیا گیا، عرب اور عجم، غلام اور آقا اور اس طرح کی دیگر تقسیمات نے اجتماعی طور پر عجیب سا ماحول بنا ہوا تھا۔ بعد میں عبیداللہ بن عمر اپنے باب کا انتقام لینے کی غرض سے باقی ایرانی غلام اور ابو لولو کی کمسن بیٹی کو بے دردی سے قتل کر دیا۔[8] ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۵۰۔ [9] ابن قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، ج۱، ص۱۸۷۔ [10] یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰۔ [11] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۴۰۔ لیکن خلیفہ سوم نے خلیفہ کے بیٹے کو کچھ بھی نہ کہا اور آزاد کر دیا۔[12] ابوالقاسم کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ، ج۱، ص۶۸۔ [13] شریف مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، ج۴، ص۳۰۵۔

خلیفہ سوم کا قتل اور امیرالمومنینؑ کی حکومت

تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے قتل کی وجہ بھی اقتصادی اور مالی بے ضابطگیاں تھیں۔ اسلامی ریاست کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوۓ اور سب کا ایک ہی مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ خلیفہ کی جانب سے مامور والی حضرات کرپشن میں ملوث ہیں اور آشکار طور پر فسق کرتے ہیں۔[14] شریف رضی، محمد بن حسین، نہج‌ البلاغہ، خطبہ ۳، ص۴۹۔ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ جو کھڑا ہوا وہ یہی تھا کہ امام نے مال کھانے والوں کی پکڑ دھکڑ کی اور فرمایا کہ جس نے جو کچھ بھی حرام طریقے سے کمایا ہے وہ واپس لونگا۔ یہ سن کر وہ سب لوگ جو خلفاء کے دور میں مال بنا چکے تھے گھبرا گئے اور مخالفت پر اتر آۓ۔[15] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۷۷۔ [16] محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۰، ص۷۴۵۔ [17] محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۲، ص۲۰۸۔ [18] سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۵۳،ص۴۴۴۔ [19] محمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۰۰۔ [20] علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۶۔ [21] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۵، ص۵۷۔ [22] محمد ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۱، ص۱۹۲۔ [23] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ ،مکتوب۴۳، ص۴۱۵۔ [24] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۶،ص۳۸۳۔ [25] سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۰، ص۳۷۷۔ [26] سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۷۱، ص۴۶۲۔

اقتصاد کی اہمیت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ اگر خاتون کی گھریلو ضروریات شوہر پورا نہ کرے دین کہتا ہے کہ اس عورت پر واجب نہیں ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے۔ معلوم ہوا اقتصاد کے بغیر گھر بھی نہیں چل سکتا۔ یہ جو ہزاروں دینی ادارے چل رہے ہیں وہ بھی اسی پر کھڑے ہیں، امت کے افراد مالی تعاون کرتے ہیں اور ادارہ چلتا ہے۔ اگر مدیر کرپٹ ہو یہ ادارہ پھی نہیں چل سکتا اس لیے ہم پر ضروری ہے کہ جن اداروں کے بارے میں ہمیں یقین ہو صرف وہاں مال دیں۔ 

رسول اللہﷺ کا معاشرے کی مدیریت کرنا

خود رسول اللہﷺ نے بھی معاشرے کو معجزے سے مدیریت نہیں فرمایا، وہاں پر بھی مال خرچ ہوا۔ مسلمین کا دفاع کیا جنگیں لڑنا پڑیں یہ سب بغیر مال کے تو ممکن نہیں، لشکر کو کھانا کھلانا ہے، ان کے اسلحے کا بندوبست کرنا ہے۔ قتال کا قرآن کریم میں حکم ہوا اور اموال کو خرچ کرنے کا حکم ہوا یعنی ہمیں دین کی مالی مدد کرنی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
«وَ آتُوهُمْ مِنْ مالِ اللهِ الَّذي آتاكُمْ».
ترجمہ: اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو۔[27] نور: ۳۳۔
ایک اور آیت میں حکم ہوا:
«وَ أَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفينَ فيهِ».
ترجمہ: اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔[28] حدید: ۷۔

ایران پر اقتصادی پابندیاں

ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شرق و غرب نے اسلامی حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ پہلے صدام کے ذریعے جنگ مسلط کی اور ہزاروں نوجوانوں نے قربانیاں دیں، اس جنگ میں جانی اور مالی نقصان شدید طور پر ہوا۔ اقتصاد بدترین صورت حال کو جا پہنچا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ اشیاء کی قیمتیں دنوں کے حساب سے بھی نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھنے لگیں۔ ایران سے کوئی خریدنا یا بیچنا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جو ملک ایران سے کچھ لیتا یا بیچتا اس ملک پر بھی پابندیاں لگا دی جاتیں۔ ایران کی لیڈرشپ نے سخت ترین معاشی پابندیوں کے باوجود ملک کی مدیریت کی لیکن یہ سب آسان نہ تھا۔

مال خرچ کرنے کا اسلامی نظریہ

دین اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ مال کو ضرورت پڑنے پر خرچ کرو، مال کو احمقوں کے حوالے مت کرو جو فضول خرچی کریں اور بنا کسی ضابطے کے مال کو اس نیت سے خرچ کریں کہ یہ ان کا اپنا مال ہے۔ بلکہ اسلامی حاکم ایسے شخص سے مال کو ضبط کر لیتا ہے جو فضول خرچی سے مال ضائع کرتا ہو۔ جب اللہ تعالی نے آپ کو مال دیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیسے مرضی کرے آپ خرچ کریں۔ اس مال میں دوسروں کا بھی حق ہے جو اللہ تعالی نے قرار دیا ہے اگر اس کو ضائع کروگے تو اس مال کی مالکیت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
«وَ لا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتي جَعَلَ اللهُ‌ لَكُمْ قِياماً وَ ارْزُقُوهُمْ فيها».
ترجمہ: اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو۔[29] نساء: ۵۔

مارکسزم کا نظریہ

مارکسزم کا نظریہ اقتصاد کی اساس پر تھا۔ اس نظریے کے مطابق کوئی بھی انسان ملکیت نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام تھا جس کے مطابق اگر مال ہے تو ہر شے خرید سکتے ہو۔ مثلا اگر آپ کے پاس سرمایہ ہے منفعت جمع کر سکتے ہو، اگر آپ کے پاس پیسے ہیں بے شک کئی کلو میٹر مربع پر محیط گندم کی فصل خرید لو اور باہر ملک عمدہ داموں پر بیچ دو آپ کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ حکومت اور قانون کو کوئی حق نہیں آپ کو سرمایہ بنانے سے روکے۔ کارل مارکس اس نظریے کے خلاف تھا اس نے کہا کہ اس نظام کے ذریعے زمینیں بک رہی ہیں لوگوں کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے اس نے مارکسزم کا نظریہ دیا اور کہا کہ کوئی بھی شخص مالک نہیں ہو سکتا، میراث، کمائی، زمین، گھر یہ سب اشیاء حکومت کی ہیں آپ کسی بھی شے کے مالک نہیں ہو آپ کو جس حد تک ضرورت ہوگی بس اتنا ہی آپ کو میسر کر دیا جاۓ گا۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد میں ہیں لیکن ہر دو کی اساس مال پر ہے۔ مالکیت کو لے کر ہر دو نظاموں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔

دولت سالاری کا نظریہ

دولت سالاری یعنی ہر طرح کے اختیارات ریاست کو حاصل ہیں۔ یہاں پر دولت بمعنی حکومت ہے۔ اس نظام میں حکومت کو معصوم فرض کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ بس جو فیصلہ حکومت کر دے وہی درست ہے۔ بعض نادان افراد کے بقول ایران میں دولت سالاری ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ دین اسلام ان تینوں نظریات کو رد کرتا ہے۔ انقلابی علماء، تقی فلسفیؒ، شہید صدرؒ اور شہید مطہریؒ نے ان نظاموں پر باقاعدہ تنقید کی ہے۔ اسلام مالکیت کا قائل ہے لیکن مالکیت مطلق کا قائل نہیں۔ انسان کی مالکیت اعتباری حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام پر بھی اسلام کا نکتہ نظر یہ ہے کہ آپ ایک محدود دائرے میں رہ کر خرچ کر سکتے ہیں اور سرمایہ اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن آپ اس کے حقیقی مالک نہیں ہیں بلکہ حقیقی مالک اللہ تعالی کی ذات ہے اور اس مال میں مخلوق خدا کا بھی حق ہے۔[30] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۷تا۱۱۰۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۹۔
2 متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال، ج۴، ص۴، ح۹۲۰۰۔
3  مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۳، ص۱۳۔
4 ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۴، ص۴۴۵۔
5 ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۴۵۔
6 ابن شبہ، عمر بن شبہ، تاریخ المدینہ، ج۳، ص۸۹۶۔
7 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۱۹۰۔
8 ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳۵۰۔
9 ابن قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، ج۱، ص۱۸۷۔
10 یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۶۰۔
11 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۴۰۔
12 ابوالقاسم کوفی، علی بن احمد، الاستغاثہ، ج۱، ص۶۸۔
13 شریف مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، ج۴، ص۳۰۵۔
14 شریف رضی، محمد بن حسین، نہج‌ البلاغہ، خطبہ ۳، ص۴۹۔
15 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۷۷۔
16 محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۰، ص۷۴۵۔
17 محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۲، ص۲۰۸۔
18 سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۵۳،ص۴۴۴۔
19 محمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۰۰۔
20 علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۶۔
21 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۵، ص۵۷۔
22 محمد ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۱، ص۱۹۲۔
23 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ ،مکتوب۴۳، ص۴۱۵۔
24 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۶،ص۳۸۳۔
25 سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۰، ص۳۷۷۔
26 سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۷۱، ص۴۶۲۔
27 نور: ۳۳۔
28 حدید: ۷۔
29 نساء: ۵۔
30 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۷تا۱۱۰۔
Views: 13

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ اور کلچرل ترقی
اگلا مقالہ: مدینہ فاضلہ اور قیام نہضت