loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۲}

مدینہ فاضلہ اور  ثفافتی ترقی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

مدینہ فاضلہ کا پہلاوصف رُشد فرہنگی ہے۔ رُشد فرہنگی یعنی ثقافتی ترقی۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ رشد کی اساس معنوی ہو۔ ترقی کی اساس ہدایت ہو جہالت نہ ہو۔

جاہلیتِ قدیم اور جاہلیت جدید

جب ہم کہتے ہیں کہ مدینہ فاضلہ میں علمی و عملی ترقی ہو اور رشد فرہنگی ہو، ہر شرط پر علمی و عملی ترقی مقصود نہیں جیسا کہ آج ہم مغربی ممالک اور بعض عرب ممالک میں دیکھتے ہیں ۔انہوں نے ترقی تو کر لی ہے لیکن یہ ترقی جہالت کی اساس پر ہے۔ ہم جب لفظ جہالت کا استعمال کرتے ہیں تو اسے ہدایت کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ مغربی ممالک میں تو بہت زیادہ علم موجود ہے، ہم کہیں گے کہ علمی پیشرفت ضرور ہے لیکن ہدایت نہیں ہے۔ اور اگر کوئی معاشرہ علمی ترقی کر لے ہدایت یافتہ نہ ہو وہ جاہل معاشرہ کہلاۓ گا۔ رسول اللہﷺ کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرہ صنعت و حرفت میں اتنا گیا گزرا ہوا نہیں تھا، ادیب لوگ تھے، تجارت کرتے تھے، تلواریں اور ہتھیاروں کا استعمال کرتے تھے، لباس بھی اچھا پہنتے تھے لیکن اس سب کے باوجود اسلام نے اسے جاہل معاشرہ قرار دیا اور ہم رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے کے زمانے کو عصر جاہلیت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح آج ۲۱ویں صدی میں بھی یہی جہالت موجود ہے لیکن یہ جاہلیت جدید ہے، ماڈرن ہو گئی ہے بڑے اور لمبے برج بنا لیے، ہسپتالیں، روڈز اور کالج یونیورسٹیاں بنا لیں لیکن ہدایت سے محروم ہیں۔ یہی جاہلیت جدید ہے۔

ثقافتی ترقی کی اساس ہدایت

دین اسلام کی نظر میں آپ پینٹ شرٹ اور ٹائی پہن کر یا فیشن اختیار کر کے با فرہنگ (Civilized)نہیں ہو جاتے۔ رُشد فرہنگی کی اساس یہ ہے کہ معاشرہ زمانہ جہالت میں نہ ہو، زمانہ ہدایت میں ہو، اس لیے اگر کوئی معاشرہ جمہوری اقدار کا دعوے دار ہے، اس میں انسانوں کو مکمل آزادی ہے، زنا، رقص و سرود کی آزادی ہے، پیسہ اور دولت سب کے پاس عام ہے یہ معاشرہ جاہل معاشرہ ہے۔ ممکن ہے اس معاشرے میں بعض مومن موجود ہوں اور وہ انفرادی طور پر اپنی عبادات کر رہے ہوں یہ معاشرہ تب بھی جہالت میں ہے۔ مثلا عرب عمارات ہے، سعودی عرب ہے یہ وہ معاشرے ہیں جن کو کچھ بھی نہیں آتا، ان کو کوئی بھی چیز چلانا یا بنانا نہیں آتی، پاکستانی، ہندوستانی اور بنگالی مزدوروں سے کام کرواتے ہیں، ٹیکنالوجی ان کی مغربیوں کے ہاتھوں میں ہے بس ان کو بیٹھے بٹھاۓ تیل کے پیسے مل جاتے ہیں یہ تیل خود تو نہیں نکال سکتے، آداب، افکار اور تعلیم سے بھی واقف نہیں، تو کیا صرف لمبی اور بڑی عمارتوں کی بنا پر ہم اس معاشرے کو مدینہ فاضلہ کہہ دیں؟ جی نہیں! یہ مدینہ فاضلہ نہیں ہیں بلکہ مدینہ پستی و مدینہ حقارت ہیں۔ اگر مدینہ فاضلہ کسی معاشرے کو بنانا ہے تو اس میں ہدایت کو دیکھیں اونچی بلڈنگز نہ دیکھیں۔ ہاں اگر کسی معاشرے میں ہدایت ہے اور اونچی عمارتیں نہیں ہیں یہ مدینہ فاضلہ ہے، تعلیم اور ہدایت ہے وہ مدینہ فاضلہ ہے۔ حتی ہم معاشرے کی بنیادی ترین اکائی گھرانے کو بھی اسی اصول کے ذیل میں ملاحظہ کریں گے۔ اگر گھر میں تعلیم سے محبت ہے اگر گھر کے افراد ہدایت کے راستوں پر چلتے ہیں یہ گھر مدینہ فاضلہ کا مصداق ہے لیکن اگر گھر میں ہدایت نہیں اور اس کے برعکس، گھر کے سب افراد کے پاس الگ الگ موبائیل، تیز انٹرنیٹ، ہر فرد کے پاس الگ گاڑی، باپ ڈاکٹر اور ماں پروفیسر، بچے بڑی اکیڈمیز میں پڑھتے ہیں یہ گھرانہ جہالت اور گمراہی کی اساس پر کھڑا ہے۔ 

تزکیہ نفس اور تعلیم

مدینہ فاضلہ کے زمامدار پر فرض ہے کہ لوگوں کے اندر تزکیہ نفس اور تعلیم کو عام کرے۔ فقط علم دینا کافی نہیں ہوتا اس کے ہمراہ تزکیہ نفس بھی ضروری ہے۔ اگر فقط تزکیہ نفس ہو اور علم نہ ہو  بصیرت و شعور نہ ہو وہ معاشرہ خوارج کی طرح بن جاۓ گا۔ اور اگر علم ہو لیکن تزکیہ نفس نہ ہو وہ ڈاکٹر انجینئر بن کر بھی کرپشن کرے گا۔ تزکیہ کریں تاکہ اس کے اندر کا حیوان رام ہو، اور تعلیم دیں تاکہ رشد اور ترقی حاصل ہو سکے۔خوارج کرپشن نہیں کرتے تھے۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ ایک خارجی نے زمین پہ پڑے ہوۓ کھجور کے ایک دانے کو کھا لیا تو اس کے ساتھیوں نے اس کی مذمت کی کہ تم نے لوگوں کے مال میں سے کیوں کھا لیا، لیکن  انسانوں کا خون بہانے میں نہیں کتراتے تھے۔[1] سائٹ استاتید حوزہ۔ خوارج عقلی و علمی جمود رکھتے تھے، تجزیہ تحلیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ آج کے دور میں بھی یہ لوگ موجود ہیں۔ مثلا پاکستان میں ایک عالم دین نے یہ کہہ دیا کہ موجودہ حالات میں ایران پر ہر طرف سے دباؤ بڑھ گیا ہے اندر باہر سے اسرائیل کا نفوذ بڑھ رہا ہے تو بعض نادانوں نے کہا کہ یہ بات کہہ کر آپ نے اسلامی نظام کی تضعیف کر دی۔ حالات حاضرہ کا تجزیہ اور ان کی تحلیل کرنا کب سے نظام اسلامی کی تضعیف ہو گیا؟ خطے کے حالات ایسے بن رہے ہیں کہ عرب عمارات، عربستان نے ایک بھاری رقم خرچ کی ہے مختلف ممالک میں اور چاہتے ہیں کہ وہاں شیعہ مخالف ایک حرکت شروع ہو اور خصوصا نظام ولایت کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا جاۓ۔ اگر دشمن شناسی کے ذیل میں کوئی عالم دین یہ کہتا ہے کہ ہمیں مزید ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اسرائیلی نفوذ بہت زیادہ بڑھ رہا ہے، ابھی حال میں ہی ایران کی ایک اور اہم ترین شخصیت شہید صیاد کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ حتی ان کے ہمسائیوں کو بھی علم نہ تھا کہ یہ شخص کون ہے اور کیا کرتے ہیں کیونکہ حساس اداروں کا حصہ تھے۔لیکن اسرائیلیوں نے اسے ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کیا ہے اس کا مطلب بہت زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ مزید چوکنا رہناہوگا۔تو کیا یہ بات کرنا نظام اسلامی کی دشمنی ہے؟ یقینا یہ خوارج والی سوچ ہے۔ امام حسینؑ کی مظلومیت بیان کرنا، یا امیرالمومنینؑ کی حکومت میں شام کے بدمعاشوں کی کاروائیوں کا ذکر کرنا کب سے امیرالمومنینؑ سے بے وفائی ہو گیا؟ اگر تجزیہ تحلیل کی صلاحیت نہیں ہے تو کم از کم ان موضوعات پر مت بولیں۔ اگر زیادہ ہی بولنے کا شوق ہے تو اپنے ملک کے اندر جو ناسور پل رہے ہیں اور جن کے پیچھے ہمارے علماء اور مومنین بھاگ رہے ہیں ان سیاسی پارٹیوں پر تنقید کریں ان کی سازشوں کو بے نقاب کریں۔ عالم کا کام یہ ہے کہ عوام کو بیدار کرے، عوام کو شعور دیں اور فکری جمود سے نکالیں۔ ان کو ناامیدی سے نکال کر نظام اسلامی کے لیے امیدوار کریں۔

مدینہ فاضلہ کے حوالے سے نا امیدی

جب کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستان میں ولایت فقیہ کی حکومت چاہتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان میں ایران کی حکومت چاہتے ہیں۔ بلکہ مراد یہ ہوتا ہے کہ مدینہ فاضلہ چاہتے ہیں،ایک آئیڈیل حق و حقیقت پر قائم ریاست چاہتے ہیں۔ لیکن امامت کے قائل اور مدینہ فاضلہ کو پڑھ کر جانے والے علماء ہی اس سے مایوس نظر آتے ہیں اور اس کے لیے کوششیں نہیں کرتے۔ ان کو ہرکس و ناکس کی حکومت کے آنے کا یقین ہے اور ان کا ساتھ بھی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن مدینہ فاضلہ اور نظام ولایت کو ناممکن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالی کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ حق قائم ہونے والا ہے اور باطل مٹ جانے والا ہے۔[2] اسراء: ۸۱۔ اگر لوگ حق کو جانتے ہوۓ بھی اس کی طرف نہ بڑھیں یہی جہالت ہے۔ بے شک پڑھے لکھے عالم نما بنے ہوۓ ہوں یا عمامہ پہنا ہوا ہو، زبان سے کلمات ادا کرنے سے تو جہالت ختم نہیں ہوتی جب تک حجت خدا کے نظام کو ترک کیا ہوا ہے اور اس کی تعلیمات کے مطابق معاشروں میں قدم نہیں رکھتے رشد فرہنگی حاصل نہیں ہوگا۔ اور دوسری طرف سے مومنین حضرات ہیں ان کا یہ کہنا کہ سب علماء اکٹھے ہو جائیں تب ہی نظام امامت کی طرف بڑھیں گے یہ بات بھی غلط ہے۔ سب علماء کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، جن کو علماء کہا جا رہا ہے ان میں سے اکثر علماء نہیں ہیں، ایک بہت بڑی تعداد ہے جس نے عمامہ اوڑھ لیا ہے اور صرف منبر پر آ کر بول لیتے ہیں اور عوام پسند باتیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیسے حقیقی علماء کے ساتھ آ کر بیٹھ سکتے ہیں؟ ان کے قلوب اور ارواح جمود کا شکار ہیں۔ معیار حق کا ساتھ اور ہدایت پر چلنا ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نہ دینے والا ابو جہل کوئی انپڑھ شخص تو نہ تھا۔ اس کا ہدایت پر نہ ہونا سبب بنا کہ ہم اسے ابو جہل کہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جہاں سے ان کو مفاد اور پیسہ ملتا ہے اسی طرف بڑھتے ہیں۔ دینی ٹچ دیتے ہیں۔ یہ دینی ٹچ دینے کا نسخہ کب سے عمل پیرا ہو رہا ہے۔ جب امام آئیں گے دینی ٹچ نہیں دیں گے بلکہ کامل دین نافذ کریں گے اس وقت رشد بھی بڑھ جاۓ گا اور جب عقلی و فکری رشد بڑھ جاۓ گا آج جیسے عوام پیسہ آنے پر فورا عیاشی کی طرف جاتے ہیں، یا ہوٹلوں اور ساحلوں کا رخ کرتے ہیں ظہور کے زمانے میں ہدایت، تزکیہ، کتاب اور حکمت کی طرف بڑھیں گے۔ لہذا اس نا امیدی کو ختم کریں اور اس رشد کو پیدا کرنے والے علماء کا ساتھ دیں ایسے افراد سے دور ہوں جو مایوسی پھیلاتے ہیں۔

معاشرے کی زبوحالی

ایک معاشره دو وجوہات کی بنا پر انحطاط کا شکار ہوتا ہے۔
۱۔ جہالت
۲۔ گمراہی
جہالت کس سے؟ کتاب ہدایت اور حکمت سے جاہل ہے۔ اور اس کے برخلاف راہوں پر چل کر گمراہ ہو رہا ہے۔ اگر ایک معاشرہ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کے راستے پر چلے، اب چاہے وہ علماء ہوں یا عوام، اگر حق کے پیچھے نہیں چلتے، حق سے عاری شخص کے پیچھے چلتے ہیں اور امید لگاتے ہیں اس سے معاشرہ خوش حال ہو جاۓ گا غلط فہمی ہے۔ وطن عزیز میں علماء کرام کا خود کو اور مومنین کو ایسے اشخاص کے پیچھے چلانا جو حق سے عاری ہیں، اس امر کا باعث بنتا ہے کہ معاشرہ جہالت کی طرف بڑھتا چلا جاۓ۔ ایک عقلی قاعدہ ہے کہ فاقد الشی معطی الشی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جو شخص خود ایک شے نہیں رکھتا وہ آپ کو کیسے عطا کرے گا؟ جو شخص خود حق سے عاری ہے اور اس کا وجود فساد ہے آپ اس کے ذریعے کیسے حق کو قائم کریں گے؟ پہلے خود اس کے اندر تو حق قائم ہو۔ رشد فرہنگی چاہتے ہیں تو ہدایت کی طرف قدم بڑھائیں جب تک ہدایت کی طرف پلٹ کر نہیں آ جاتے نجات ممکن نہیں۔ رشد فرہنگی اور ہدایت پر توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ ٹیکنالوجی نہ ہو، لوگوں کے اندر رفاہ نہ ہو، تعلیمی ادارے نہ ہوں، یہ سب ہوں لیکن ہدایت کے نظام کے اندر ہونے چاہیں۔ اگر ہدایت کی اساس پر یہ سب نہ ہو تو ڈاکٹر تو بن جاۓ گا لیکن یہی ڈاکٹر پورے معاشرے کو لوٹے گا، آج ہم یہی دیکھتے ہیں کہ کمیشن کی خاطر یہی ڈاکٹر حضرات مریضوں کو غلط دوائیاں دیتے ہیں۔ انہیں ڈاکٹروں نے میڈیکل ریسرچ کے ذریعے وائرس بنائے اور انسانیت کو تباہ و برباد کیا۔ معلوم ہوا سائنسی ادارے بنا دینے سے معاشرہ سعادت مند نہیں ہو جاتا ۔ معاشرہ سعادت مند تب ہو سکتا ہے جب ہدایت کی اساس پر قائم ہو۔

نظامِ ہدایت کی کوشش

جب تک ہدایت کے لیے اور اس کے نظام کے لیے کوشش نہیں ہوتی حق کے مطابق عمل نہیں ہوتا طاغوت معاشروں پر چھاۓ رہیں گے۔ جب تک ہم سبق امامت کا اور عمل اس کے برعکس انجام دیتے رہیں گے، جب تک سبق ولایت کا اور عمل میں معاویائی سیاست کرتے رہیں گے سعادت کا حصول ممکن نہیں۔ اگر آپ امامت کے ماننے والے ہیں اور آپ کے ہادی بارہ امام ہیں تو ان کی راہ پر چلیں، ہمارے آئمہ معصومینؑ کبھی بھی طاغوتوں کے دربار میں حاضر نہیں ہوۓ، نا ان کے نا جائز حکومتوں کو جواز فراہم کیا ان کے خلاف قیام کی کوششیں کیں۔ ہم خود ایک دروس کا موضوع چلانا چاہتے ہیں کہ وہ افراد جو ان فاسد حکومتوں کا ساتھ دیتے ہیں ان کی معاونت کرتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا؟ روایات میں باقاعدہ طور پر اس موضوع کو بیان کیا گیا ہے اور ہمارے محدثین نے اس موضوع کی احادیث کی الگ ابواب بندی کی ہے۔ اللہ تعالی سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ اس موضوع کو جلد شروع کر سکیں۔

فرعون کے دربار کا حصہ بننے والا ایک شیعہ

روایت میں وارد ہوا ہے کہ حضرت موسیؑ کا ایک شیعہ تھا۔ بہت ہی فقیرانہ زندگی گزار رہا تھا اور جب سے حضرت موسیؑ کے ہمراہ ہوا غریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ جب تک موسیؑ کے ساتھ ہوں مال نہیں بنا سکوں گا، حتی اپنی ضروریات بھی پورا نہیں کر پاؤنگا۔ اس لیے کیوں نا فرعون کے دربار میں چلا جاؤں۔ وہاں مال بھی ہے عزت بھی ہے اور مفادات بھی۔ اس نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ جب فرعون اور موسیؑ کی جنگ ہوگی چھپ چھپا کر موسیؑ کے ساتھ ملحق ہو جاؤنگا کہ کہیں فرعون کے لشکر میں رہ کر جہنمی نہ بن جاؤں۔ یعنی یہ شخص چاہتا تھا دنیا بھی بن جاۓ اور آخرت بھی برباد نہ ہو۔ بالآخر فرعون اور موسیؑ کے لشکر جب دریا کے کنارے ملحق ہوۓ اس نے گھوڑے کو دوڑانا چاہا اور موسیؑ کے لشکر کی طرف آنا چاہا لیکن اس کا گھوڑا بار بار فرعون کے لشکر کی طرف پلٹ جاتا۔ اس نے جتنی کوششیں کیں کہ کسی طرح سے موسیؑ سے ملحق ہو جاۓ ان کے ساتھ نہ مل سکا۔ [3] شیخ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۱۰۹۔ معلوم ہوا کہ صرف ہدایت کی تعلیمات دل میں ہونا کافی نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہدایت کے راستوں پر چلنا ضروری ہوتا ہے۔ ابھی ہم جتنے امامت ولایت کے عقیدے دل میں رکھ لیں اگر ہمارا راستہ اور طریق طاغوتی راستوں پر ہے طاغوت کے ساتھ ملحق ہو جائیں گے،امامت کے ساتھ ملحق نہ ہونگے۔ آج جو یورپی ممالک میں بیٹھ کر بچوں کو دیندار بنانا چاہتے ہیں وہ بھی جان لیں، ممکن نہیں آپ بچوں کو گمراہ معاشرے میں پلنے بڑھنے کا موقع فراہم کریں اور پھر ان سے توقع رکھیں کہ مومن بن جائیں۔ خود کو مجبوریوں کا پابند بنا لینا راہ حل نہیں کیوں کہ انہیں نظاموں اور گمراہیوں سے نکالنا ہی تو مشکل کام ہے جو کہ کرنا ہے۔ وگرنہ خود آئمہ معصومینؑ بھی یہی کام کرتے، اپنے بندے درباروں میں بھیجتے، بنو عباس اور بنو امیہ کے حکام سے دوستیاں بناتے، ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکتے تھے لیکن یہ کام ان کی سیاست کا حصہ نہیں۔ جس تدبیر کو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے کہ ان نظاموں کا حصہ بن کر شیعہ اور تشیع کا دفاع کریں گے یہ کوئی راہ حال نہیں ہے ہم انہیں نظاموں میں ہی پھنس کر رہ جائیں گے۔

آئمہ معصومینؑ کی سیاسی حکمت عملی

آئمہ معصومینؑ کی سیاسی سیرت کو اگر ملاحظہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی درباروں میں حاضری نہیں دی۔ ان کو درباروں سے منسلک کرنے کی کوششیں بہت کی گئیں حتی حکمرانوں نے خود انہیں پیشکشیں کیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آئمہ کبھی بھی غیر الہی نظاموں میں شامل ہو کر نعوذ باللہ گمراہی کے راستوں پر نہیں چلے۔ ہدایت کا ایک راستہ ہے، صرف اسی پر چلنا ہوگا، آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ پہنچنا تو ہدایت تک چاہتے ہوں لیکن اس کے لیے راستے گمراہی کے اپنا لیں۔ ہدایت کے راستوں پر چلنا ضروری ہے اور اس کے لیے تزکیہ اور تعلیم کی ضرورت ہے اگر امامت ہدف ہے اور امامت پڑھی ہے تو اسی کو نجات کا ذریعہ سمجھو۔ امامت کے نظام کے لیے کوشش کرو اور اس کے لیے دل میں امید پیدا کرو، بہت تعجب کی بات ہے کہ غیر الہی نظاموں کے اندر متحرک افراد اپنے اپنے نظام اور پارٹی کی حکومت کے لیے امیدوار ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ناامید ہے تو وہ صرف امامت کا پیروکار ہے۔ بادشاہت، آمریت، جمہوریت کے پیروکار امیدوار بھی ہیں، اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ ہماری کوشش اور ہماری سیاسی حکمت عملی کیسی ہو؟ امامت کا عقیدہ رکھ کر جمہوری گوسالے کے پیچھے پڑنا کونسی سیاسی حکمت عملی ہے؟ اس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جمہوری حکمرانوں کی حمایت اور اپنوں کی مخالفت

انتہائی افسوس ہوتا ہے جب مومنین اور علماء کرام میں سے بعض افراد جمہوری حکمرانوں کے تمام فساد اور ان کی مجرمانہ شخصیت  کے باوجود ان کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے ہاتھوں میں تسبیح ہوتی ہے، عمرہ پر جاتے ہیں، اچھی تقریر کرتے ہیں لیکن ۹۰ فیصد فساد کی زندگی پر پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مثلا خود خان صاحب یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ان کی شخصیت، ان کی زندگی اور مجرمانہ اعمال سب پر واضح ہیں اور سب کو یقین ہے اس بات کا کہ یہ لوگ فاسد ہیں،پھر بھی ان کی بعض قلیل مقدار میں نیکیوں کو اجاگر کر کے ان کی حمایت کی جاتے ہے۔ لیکن جب بات اپنوں کی آتی ہے تو یہی افراد بعض ایسے علماء کے اندر نکتہ چینی کرتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں جن کی ۹۹ فیصد زندگی قرآن، حدیث اور اسلام کے مطابق ہے۔ ان کی شخصی اور انفرادی زندگی کے بعض چھوٹے نکات کو اٹھا کر ان کی شخصیت کشی اور کردار کشی کی جاتی ہے جن کی کوشش ہی اسلام کا قیام، الہی نظام کا قیام اور ان کا نعرہ ہی پاکستانی قوم کے اندر عزت و شرف کا احیاء کرنا ہے۔ کیسے ہم یہ کام کر لیتے ہیں کہ جس کی زندگی ۹۰ فیصد فساد کا شکار ہے اس سے تو ہم ایک فرشتہ بنا لیتے ہیں اور ایک عالم دین جس کی ۹۹ فیصد زندگی حق کے مطابق گزری ہے اس کے خلاف پروپیگنڈہ اور اس کی شخصیت کشی کی جاتی ہے؟ جن کی کوششیں نظام ولایت کے لیے سب پر عیاں ہیں ان کے خلاف ہونا کونسی ایمان داری ہے؟ آپ اپنی اجتماعی اور نجی محافل میں طاغوتوں کی تعریف کرتے ہیں ان کی حکومت کے لیے تعاون کرتے ہیں لیکن امامت کی بات کرنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں، کیا مہدویت کی بات کرنے والے کا تمسخر اڑانا، نظام ولایت اور امامت کی بات کرنے والے کا تمسخر اڑانا بے شعوری نہیں؟ 

پاکستانی شیعہ اور تقیہ

جب اسلامی نظام اور امامت کی بات کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ پاکستانی شیعہ اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ نظام کی بات کرے۔ اور کہتے ہیں کہ ابھی ہمارے لیے تقیہ کی حالت ہے ہمیں امامت اور ولایت کی ابھی بات کرنے کی بجاۓ انہیں موجودہ نظاموں کا حصہ بننا چاہیے۔ جب موقع ہوگا تو تقیہ سے نکل کر امامت کے لیے بھی کوششیں کر لیں گے۔ یہ تجزیہ سراسر غلط تجزیہ ہے۔ آج کا پاکستانی شیعہ کسی بھی صورت میں تقیہ کی حالت میں نہیں ہے۔ شیعہ کی زندگی پاکستان میں اس بات پر منحصر نہیں ہو کر رہ گئی کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف ایک ہی لقمہ ہے اور وہ خنزیر کا ہے۔ اگر خنزیر نہ کھایا تو مر جاۓ گا۔ تقیہ مجبوری کے موارد میں ہوتا ہے اور وہ بھی ایک خاص مقدار تک۔ پاکستان میں کہاں شیعہ اس حالت کو پہنچا ہے کہ وہ اگر ان فاسد نظاموں کا حصہ نہ بنا تو مر جاۓ گا؟[4] سائٹ البر۔ شیعہ پاکستان میں پھنسا ہوا نہیں ہے اور اگر پھنس بھی جاۓ تو وہ یہ نہیں کہتا کہ خان صاحب ہمارے ساتھ ہے یا فلاں سیاسی پارٹی ہمارے ساتھ ہے تو ہم بچ جائیں گے۔ ہمارے رہبروں نے ہمیں یہ درس نہیں دیا کہ جب ایک دوراہے میں پھنس جاؤ تو جا کر کسی طاغوت کی پناہ لے لو۔ حضرت موسیؑ کا لشکر جب دریا کنارے پہنچا تو دیکھا کہ پیچھے فرعون کا لشکر ہے اور آگے سمندر۔ اب بعض کمزور ایمان والوں نے کہا کہ اب تو پھنس گئے۔ شاید بعض نے یہ بھی سوچا ہو کہ فرعون کے پاس چلے جاتے ہیں اب تو وہی ہمیں بچا سکتا ہے جیسے آج کا شیعہ سوچتا ہے کہ فلاں خان صاحب اور فلاں پارٹی ہمارے ساتھ ہے ہم بچ جائیں گے۔ حضرت موسیؑ نے یہاں پر کیا کہا؟ فرمایا:
«إِنَّ مَعِيَ رَبِّي».
ترجمہ: میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے۔[5] شعراء: ۶۲۔
حق کے راستوں پر چلیں نظام امامت کے لیے کوشش کریں اور یہ کہیں کہ یقینا ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ قلیل گروہ کو غلبہ عطا کرے گا۔[6] بقرہ: ۲۴۹۔ مدینہ فاضلہ میں امید کا محور اللہ تعالی کی ذات ہے۔[7] احزاب: ۳۔ توکل کریں پھر چاہے قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑے، کوئی بھی مکتب یا تفکر بغیر قربانی کے نہیں پھیلا۔ ظلم سے نبرد، باطل اور طاغوت سے مقابلہ سب انبیاء نے کیاہے۔ جب اپنی ذمہ داری ادا کی تو اللہ تعالی نے بھی نصرت کی۔ جس نے حضرت موسیؑ کے لیے راستہ نکالا وہ آج بھی راستہ نکال سکتا ہے وہ صرف موسیؑ کا خدا نہیں بلکہ اس کا نصرت کا وعدہ سب مومنین کے لیے ہے۔[8] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶تا۱۰۷۔

منابع:

Views: 23

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ سے مراد
اگلا مقالہ: مدینہ فاضلہ اور اقتصادی ترقی