loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۴}

مدینہ فاضلہ اور قیام نہضت

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ دروس میں ہم نے مدینہ فاضلہ کی تعریف اور اس کی خصوصیات کو بیان کیا۔ مدینہ فاضلہ میں علمی اور عملی رُشد ہوتا ہےلیکن اس رُشد کی اساس ہدایت  ہوتی ہے۔ علم کو آج کے دور میں دنیوی اور دینی میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ حقیقت میں یہ تقسیم درست نہیں ہے۔ دنیوی علوم بھی دراصل دینی علوم ہی شمار ہوتے ہیں۔ دین نے جو تقسیم پیش کی ہے وہ نافع اور غیر نافع علم کی تقسیم ہے۔ علم نافع کو حاصل کرنے کی تشویق وارد ہوئی ہے۔ علم نافع سے مراد ہر وہ علم ہے جو انسان کو فائدہ پہنچاۓ۔ اس تناظر میں فقہ ہو یا کیمسٹری ہر دو علمِ دین شمار ہونگے۔ لیکن ان ہر دو علوم کا ہدایت کی اساس پر ہونا ضروری ہے۔ جب تک اساس ہدایت نہیں مدینہ فاضلہ نہیں بنے گا، نظام جہالت کو ختم کر کے ہدایت کی اساس قائم کرنے کے لیے ہمیں نہضت کی ضرورت پڑتی ہے۔

رُشد کا ہدایت کے ہمراہ ہونا

یہ بات تاکید کے ساتھ بیان ہوئی کہ علمی رُشد کی اساس ہدایت پر ہو۔ اگر اساس ہدایت نہ ہوئی تو علمی ترقی تو کر جائیں گے لیکن یہ ترقی انسان کے لیے مفید نہ ہوگی بلکہ انسان کی تباہی کا باعث بنے گی۔ علم اور سائنس کا ہدایت کے ہمراہ ہونا ضروری ہے۔ عمل کے مرحلے میں بھی ہدایت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ علم کے بغیر عمل حاصل نہیں ہوتا بعض اوقات خود علم کا حصول ہی کمال ہوتا ہے کیونکہ علم خود کمال ہے۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علم پیدا ہونے کی صورت میں اس کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری قرار پاتا ہے۔ ہمارے معاشروں کی ایک مشکل یہ ہے کہ علم تو ہوتا ہے لیکن اس کے مطابق عمل نہیں ہوتا۔ مثلا ہم سب کو علم ہے کہ ہر دور میں ایک ہادی کا ہونا ضروری ہے اگر عمل کے مرحلے میں ہم اس کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق عمل نہ کریں تو اس میں ہمارا نقصان ہے۔ ایک معاشرہ ہدایت یافتہ تب کہلاتا ہے جب علم کے مطابق عمل کرے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم کے نظام میں زندگی گزارنا جرم ہے لیکن یہ علم ہمارے لیے کسی عمل کے وجود میں آنے کا سبب نہیں بنتا۔ اس بات کا سب کو علم ہے کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق اپنے اموال سفہاء کے حوالے نہیں کرنے چاہییں۔[1] نساء: ۵۔ لیکن ہمارے معاشروں میں اموال پر احمق ترین افراد حاکم ہیں۔ ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟ رسول اللہﷺ کی سیرت اور تاریخ اسلام میں ہم ان مسائل کا حل پاتے ہیں۔ خود ایران میں انقلاب اسلامی بھی اس سوال کا جواب بنتا ہے۔ اور وہ جواب یہ ہے کہ نہضت کو وجود دیا جاۓ۔ نہضت کے بغیر آپ مدینہ فاضلہ کو قائم نہیں کر سکتے۔ با الفاظ دیگر اگر آپ پاکستان کے حالات کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہدایت کی اساس پر ایک ایسی نہضت کا قیام ضروری ہے جو معاشرے کی فاسد جڑوں کو کاٹے اور ان کی اصل سے اصلاح کرے۔ اسی کو انقلاب بھی کہتے ہیں، انقلاب اور اصلاحات کا بنیادی فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ اصلاحات میں چند سطحی امور کو اوپر اوپر سے تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن انقلاب بنیاد سے فساد کی جڑ کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔

ہماری تدبیر اور آئمہ معصومینؑ کی تدبیر

پاکستان میں اکثر طور پر یہ تدبیر مدنظر رکھی جاتی ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں اس لیے پاکستان میں اسلامی حکومت کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہاں اسلامی حکومت آ ہی نہیں سکتی، اس تدبیر کو لے کر آگے کا منصوبہ بناتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، مثلا اسی منصوبے کے تحت ان کو سیاستدانوں کے آگے جھکنا پڑتا ہے، حکمرانوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں، ان کے ساتھ سیاسی سمجھوتے بھی کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کامیاب نہیں ہو پاتے، مثلا یہی لوگ جن کی ہم توجہ جلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شیعہ قوم کی حمایت مفت میں ان کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں ایک دفعہ بھی ہم ان کو اپنے مراکز اور مدارس میں نہیں لا سکے۔ لیکن دوسری جگہوں پر یہ سیاستدان خود دورہ کرنے جاتے ہیں۔ بہت فرق ہے۔ ہم ان کے دروازوں پر جاتے ہیں اور وہ ہمارے پاس کپھی نہیں آۓ الٹا ہمارے دشمنوں کے مراکز میں گئے ہیں۔ مکتب تشیع سمجھوتوں کا قائل نہیں ہے۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کسی سیاستدان اور حکمران کے ساتھی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا، ان کا منصوبہ پہلے دن سے یہ رہا کہ الہی حکومت قائم کی جاۓ، ایک مخلص افراد کا قلیل گروہ آمادہ ہو جس سے قوت اور اقتدار ہاتھ میں لے کر عادلانہ نظام برقرار ہو، کیونکہ حکومت اور ولایت کا حق اللہ تعالی نے صرف آئمہ معصومینؑ کو دیا ہے۔ اللہ کی مخلوق پر اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حکومت کرے۔ یہ حق صرف اللہ تعالی نے آئمہ معصومینؑ کو دیا ہے اور اسی حق کے نفاذ کے لیے آئمہ نے کوشش کی ہے۔

نہضت اور دہشت گردی میں فرق

جب کہا جاتا ہے کہ وہ راستہ اختیار کیا جاۓ جو ہمارے آئمہ معصومینؑ نے اختیار کیا تو کہا جاتا ہے کہ آپ ملک میں دہشت گردی پھیلانا چاہتے ہیں یا ملک کو توڑنا چاہتے ہیں؟ یہ وہ اعتراضات ہیں جو بہت ہی نادان انسان کر سکتا ہے۔با الفاظ دیگر آپ آئمہ معصومینؑ کی نہضتوں کو دہشتگردی کہہ رہے ہیں۔  نہضت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ ملک میں عسکری کاروائیاں کروائیں اور خانہ جنگی شروع کر دیں۔ مدینہ فاضلہ کا قیام اس پر نہیں ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کرنا شروع کر دیں۔ بلکہ نہضت کا مطلب یہ ہے کہ ظلم کو ختم کیا جاۓ، بے عدالتی کو ختم کیا جاۓ، باطل کے نظاموں کو ختم کر کے عدل و حق پر مبنی ہدایت کا نظام نافذ کیا جاۓ۔ اس لیے ہم آئمہ معصومینؑ کی سیاسی سیرت میں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی دہشت گردی ، یا ٹارگٹ کلنگ جیسے کاموں کی کبھی حمایت نہیں کی الٹا اس کام سے شدت سے منع کیا۔[2] شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۱، ص۳۸۴۔ لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ ظالمانہ حکومتوں کے خلاف حق پر مبنی قیاموں کی حمایت نہ کی ہو۔ بہت سے قیاموں کی حمایت کی اور کچھ قیاموں کی حمایت نہ کی۔ مطلوب یہ تھا کہ حق کا نظام قائم ہو لیکن حق کے راستوں پر چلتے ہوۓ قائم ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ حق کو قائم کریں لیکن جو روش اختیار کریں وہ حق نہ ہو۔ اس لیے آئمہ معصومینؑ نے صرف ان قیاموں کا ساتھ دیا جو حق اور ہدایت کے مطابق تھے۔

تمدن سازی اسلامی

شیعہ تاریخ بھر میں اپنے قیاموں اور نہضتوں کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔ نہضت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ رہبر معظم نے تمدن سازی اسلامی کے نظریے کے تحت پانچ مراحل بیان کیے ہیں جو بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اسلامی انقلاب

نہضت چلانا اور انقلاب لانا۔ شیعہ کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ملک میں نہضت شروع کرے اور انقلاب کی کوشش کرے ۔جب تک آپ انقلاب نہیں لاتے اور اساسی تبدیلی نہیں لاتے لاکھ اصلاحات لے آئیں خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

۲۔ اسلامی نظام

جب پہلا مرحلہ کامیاب ہو جاۓ دوسرا مرحلہ نظام اسلامی کی تشکیل ہے۔ بہت سے انقلاب ایسے ہیں جو کامیاب ہوۓ لیکن حکومت بنانے میں اور اپنا نظام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ شیعہ کی دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ حکومت اسلامی تشکیل دے۔انقلاب لا کر جو نظام لاۓ وہ اسلامی ہو۔

۳۔ اسلامی دولت

حکومت اسلامی کے بعد تیسرا مرحلہ دولت اسلامی کا ہے۔ جو پہلے دو مراحل سے بھی سخت تر ہے۔ اس مرحلے میں آپ نے جو حکومت اسلامی بنائی تھی اس کے ذیل میں سب اداروں کو اسلامی کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر نظام اسلامی کے اندر جتنے بھی ادارے ہیں یا ان کے مدیر ہیں وہ اسلامی اہداف کو مدنظر رکھیں۔ اسلامی حدود و قیود سے باہر نہ نکلنے پائیں۔ ایران اس وقت تیسرے مرحلے میں موجود ہے۔ انقلاب اسلامی کامیاب ہوا، حکومت اسلامی بھی بن گئی لیکن ابھی تک دولت اسلامی بنانے میں کوشاں ہیں۔

۴۔ معاشرہ اسلامی

وہ معاشرہ تشکیل دینا جس میں افراد اسلام کے خدمتگذار ہیں۔ اسلام کے اہداف کو اپنا ہدف سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں۔ با الفاظ دیگر اس معاشرے کے لوگ نام کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کی زندگی کا ہدف اور مقصد اسلام ہے۔

۵۔ اسلامی تمدن

اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تمدن کی تشکیل۔ ایسی حکومت اسلامی جو پوری دنیا کے لیے نمونہ ہو۔[3] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ مادی اور معنوی ترقی کی اوج پر  ہو اسلام یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مٹی کے گھروں میں رہیں، پکی روڈیں نہ ہوں، ضروریات پوری نہ ہوں۔ بلکہ اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے ترقی کی اوج پر ہوں۔ لیکن یہ ترقی انسان کو اللہ تعالی سے دور نہ کر دے بلکہ قرب کا باعث بنے۔ مکتب تشیع سے منسلک ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مقدمات کو ایجاد کرنے کی کوشش کرے۔ نہضت شروع کرے۔ ان اقدامات کو اپنا ہدف قرار دینے والے علماء کرام کا ساتھ دے اور ان کو متعارف کرواۓ۔

پاکستان میں نہضت کا آغاز

پاکستان کے جتنے بھی مسائل ہیں۔ امنیت ہو یا رفاہ عامہ ۔ تفرقے کا مسئلہ ہو یا دہشتگردی کا مسئلہ۔ ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ نہضت کا قیام ہے۔ مسائل کا حل سیاسی طور پر کسی پارٹی کا اتحادی بننے میں نہیں ہے۔ مسائل کا حل حکمرانوں کے در پر پہنچنے سے نہیں ملے گا۔ اگر یہ سب کرتے رہیں اور نہضت کا آغاز نہ کریں کبھی بھی یہ ناکامی ختم نہ ہوگی۔ با الفاظ دیگر ابھی پاکستان میں پہلا مرحلہ ہی طے نہیں ہوا الٹا کہا جاتا ہے کہ نہضت راہ حل نہیں ہے،انقلاب راہ حل نہیں ہے بلکہ جیسے نظام چل رہا ہے اسی میں ایڈجسٹمنٹ (Adjustment) کرنی چاہیے۔ یہ بات درست نہیں۔ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ ان سب الجھنوں میں راہ حل موجود نہیں۔ راہ حل نہضت ہے۔ نہضت کا مطلب تشدد اور خشونت نہیں ہے۔ کسی بھی امام نے یہ کام نہیں کیا۔ حتی ایران میں بھی جب نہضت کا آغاز ہوا امام خمینیؒ نے کوئی عسکری ونگ تشکیل نہیں دیا۔ شاہ ایران انقلابیوں پر گولیاں چلاتا آگے سے امام فرماتے کہ آپ لوگوں نے کچھ بھی نہیں کہنا۔ نہضت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی زمین سے غیر الہی قوانین کو ختم کر کے الہی قوانین کا نفاذ کیا جاۓ۔ الہی حکومت کے لیے امید پیدا کی جاۓ، ظالم نظاموں سے نا امید کیا جاۓ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس کے بالکل برعکس کر رہے ہیں، ظالم نظاموں کا حصہ بن رہے ہیں، فاسق حکمرانوں سے امیدیں باندھے ہوۓ ہیں۔

ضعیف رہنے کا مشورہ دینے والے

ایک تفکر جو پاکستان میں مومنین کے ذہنوں میں پیدا کیا گیا ہے یہ ہے کہ ہم اقلیت میں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ضعیف ہی رہنا ہے، ہم قوت میں نہیں ہیں اور نا ہی کبھی قوی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنا دفاع کرنے کے لیے دوسروں کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔ ہم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ الحاق کر کے، حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بڑھا کر خود کو قوی کر سکتے ہیں۔ یہ تفکر رکھنے والے افراد کہتے ہیں کہ انقلاب کی بات کرنا، یا نہضت کی بات کر کے اسلامی نظام کے لیے کوشش کرنا درست نہیں۔ بلکہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں متشددانہ ہیں۔ ان کے نزدیک حق کے لیے قیام کرنا، نہضت کی بات کرنا تشدد ہے، ظالم کے خلاف قیام تشدد ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نہضت کا کام زحمت کا کام ہے، اس میں قربانی اور مصیبتیں ہیں۔ اس تفکر کے مطابق زحمت بھی نہ اٹھانی پڑے اور کام بھی چل جاۓ۔ اس تفکر کی آئمہ معصومینؑ نے شدید مذمت کی ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام صادقؑ کے پاس ایک شخص آیا اور کوفہ کے زندان میں قید امام کے انقلابی اصحاب کے متعلق پریشانی کا اظہار کیا۔ کہنے لگا کہ وہاں بہت بری جگہ ہے افراد بہت اذیت میں ہیں وغیرہ۔ امامؑ نے فرمایا مومن کے لیے یہ دنیا زندان کی حیثیت رکھتی ہے۔ فرق نہیں پڑتا زندان ہو یا آزاد فضا۔ اگر ولایت کے ساۓ میں مومن نہیں ہے یہ دنیا اس کے لیے زندان ہے۔[4] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۵۰۔ یہ شخص پہلے خود بھی جیل میں تھا امام نے اس کو یہ نہیں کہا کہ چلو شکر ہے تمہاری جان چھوٹ گئی اور زندان کی زحمات سے بچ گئے، امام نے اسے سمجھایا کہ یہ آزادی نہیں ہے جسے تم آزادی سمجھ رہے ہو بلکہ تم جیل میں ہو اور جو زندان میں ہیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوۓ ہیں حقیقی آزاد وہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں حق کے قیام اور الہی نظام کی خاطر ہم پر ظلم ہوتا ہے تو یہ درست نہیں، اور ہمیں ظلم سے بچنے کے لیے ظالمانہ نظام کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا چاہیے، امام کے نزدیک سمجھوتہ کے نتیجے میں ملنے والی آزادی زندان کے مترادف ہے اور حق کے قیام میں ملنے والی جیل آزادی کے مترادف۔

سفید انقلاب کا نظریہ

ہمارے آئمہ معصومینؑ نے ہمیشہ نہضت اٹھائی۔ طاغوتوں کے خلاف قیام کیا۔ خود بھی قربانیاں دیں اور شہادتیں پیش کیں اور اپنے شیعوں کو بھی ان مصیبتوں میں پڑنے کے لیے آمادہ کیا۔ یہ تفکر باطل ہے کہ اگر حق کے قیام کی خاطر اور باطل کی نابودی کی خاطر آپ کو سختی اٹھانا پڑے تو یہ تشدد ہے اور ہمیں تشدد والے کام نہیں کرنے چاہئیں۔ جیسا کہ بعض پاکستانی سنی اور شیعہ علماء کا نظریہ ہے کہ ہم پاکستان میں سفید انقلاب کے حامی ہیں۔ سفید انقلاب کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی نہ کرنا پڑے اور ظلم کا خاتمہ ہو جاۓ۔ یعنی نہ قربانی دینا پڑے، نہ کسی کو جیل ہو اور نا کسی کو کوئی اذیت ہو اور مفت میں انقلاب بھی آ جاۓ۔ اگر یہ بات درست مان لیں تو پھر امام حسینؑ کا قیام آپ کی نظر میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ نعوذباللہ امام حسینؑ نے اتنی قربانیاں دے کر درست کام نہیں کیا۔ انہیں چاہیے تھا کہ سمجھوتے اور مذاکرات سے سفید انقلاب لاتے؟ یہ وہ بیوقوفانہ سوچ ہے جس سے کوئی بھی نتیجہ نہیں ملتا۔ اگر آپ پاکستان کے کسی بھی اجتماعی مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں وہاں نہضت کی ضرورت پڑے گی۔ یہی مسئلہ جو آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے کراچی کی ایک لڑکی بھاگ کر لاہور آتی ہے اور ایک لڑکے سے شادی کر لیتی ہے۔ اگر یہ ہیومن ٹریفکنگ کا مسئلہ ہے تو بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پوری دنیا میں موجود ہے بعض ممالک میں انسانی اعضاء کو خریدا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو ختم کرنا تقریبا نا ممکن ہے کیونکہ حکمران بہت مقتدر افراد اس میں ملوث ہے۔ اگر آپ ان سب کا مقابلہ کریں گے تو مار دیے جائیں گے جب تک اجتماعی طور پر نہضت ایجاد نہیں ہوتی اور ایک منظم آواز نہیں بلند ہوتی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

اقتصادی مسائل کا حل نہضت میں

حتی پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا شدید تر ہوتا جا رہا ہے عوام بھوک اور پیاس سے خودکشی پر مجبور ہو رہی ہے۔  حتی وزیر اعظم صاحب بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ جب حکومت میں نہ تھے تو چیخیں مار رہے تھے کہ ہم مہنگائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جب خود حکومت میں آۓ تو کہتے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف مجبور کرتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا دباؤ ہے تو کوئی اور راہ حل ڈھونڈنا چاہیے۔ عوام کے رفاہ کا مسئلہ ہے بجلی نہیں ہے گیس نہیں ہے گھر کی ضروریات پوری نہیں ہیں۔ ایک صاحب نے ہم سے فقہی سوال پوچھا کہ میرا کام میٹر ریڈنگ کا ہوتا ہے۔ جب ہم ریڈنگ کرنے جاتے ہیں تو اگلا بندہ ہمیں یہ پیشکش کرتا ہے کہ اگر ہم میٹر کے نمبرز میں ہیر پھیر کردیں تو وہ ہمیں ۵۰ ہزار روپے دیں گے؟ ہم یہ پیسے لیتے رہے ہیں لیکن ابھی توبہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا کریں؟ ہم نے جواب دیا کہ کیا وہ سارا مال واپس کر سکتے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ یہ تو ممکن نہیں۔ اگر ایسا کریں تو خود بھوکے مر جائیں گے۔ گویا وہ صاحب توبہ کا کوئی ایسا طریقہ پوچھنا چاہتے تھے جس سے مال واپس نہ کرنا پڑے۔ تو یہ وہ مسائل ہیں جن کو ہم ایک ہی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں جب تک ووٹنگ کے ذریعے ایک کے بعد ایک فاسد شخص کو ہم انتخاب کرتے رہیں گے یہ سب مسائل حل ہونے والے نہیں۔

اسلامی نکتہ نظر کا بیان

ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ہم مدینہ فاضلہ بھی چاہتے ہیں اور اس میں پاۓ جانے والے اوصاف بھی اپنی ریاست میں پیدا کرنے چاہتے ہیں اب کیا کریں؟ کیا انتخابی سیاست راہ حل ہے؟ سیاسی پارٹیوں کے ذریعے اصلاح ممکن ہے؟ آمریت حل ہے یا جمہوریت؟ مکتب امامت یہاں پر جواب دیتا ہے کہ اسلامی نظریے کے لیے اقدام کرو۔ مشکل جڑ سے ہے اور اصلاح صرف اس جڑ کو ختم کرنے سے ممکن ہے۔ یہ فاسد نظام آپ کے گھر میں گھس چکا ہے، فحاشی پھیل چکی ہے، گناہ  کا نظام موبائل کی شکل میں سب کی رسائی میں ہے، سود کا نظام سب کو ہی متاثر کر رہا ہے، اس کو آپ فقط چند تبدیلیوں کے ذریعے ٹھیک نہیں کر سکتے، ایک کامل نہضت چاہیے جو فساد کو جڑ سے کاٹ پھینکے۔ اگر آپ کی سیاست فاسد ہو چکی ہے، اگر آپ کے حکمران اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کی بات کر رہے ہیں، اگر آپ کے حکمران عربوں کی غلامی کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں، تو یہاں پر راہ حل یہ نہیں کہ ان کے ساتھ جا کر ٹیبل ٹاک کی جاۓ۔ ایک شیعہ عالم دین یا عام مومن کا وظیفہ کیا ہے؟ آیا وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے نکلے اور حکمرانوں سے قریب ہو کر دین کے ساتھ خیانت کرے یا نہضت چلاۓ۔ ظاہر ہے اس سب کے لیے نہضت کی ضرورت ہے جس شخص کا وجود ہی خود فساد بن چکا ہے آپ اس کی مذاکرات کے ذریعے اصلاح نہیں کر سکتے۔

مصالحت یا ٹکراؤ

اب یہاں پر ایک تفکر موجود ہے جو نہضت کا سخت مخالف ہے اور کہتا ہے کہ ظالمین اور فاسقوں سے مصالحت کر کے ان سے مفادات لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم ان کو کبھی بھی ختم نہیں کرسکتے۔لیکن اس کے برعکس دوسرا تفکر کہتا ہے کہ نہضت کو ابھارو، ظالمین کو رسوا اور ذلیل کرو، انہیں لوگوں کی نظروں میں گرا دو، ظالم کو عزت مند نہ ہونے دو، کیونکہ معلوم ہونا چاہیے جب ایک عالم دین کسی ظالم فاسق حکمران سے جا کر ملتا ہے لوگوں کی نظروں میں اس عالم کی وجہ سے وہ حکمران عزیز ہو جاتا ہے۔ اس ظالم کو عزیز نہیں ہونے دینا۔ ممکن ہے یہاں پر کوئی کہے کہ ہمارے علماء جن سے ملتے ہیں اور ان سے سیاسی مصالحتیں کرتے ہیں وہ کہاں سے ظالم ہیں؟ انہوں نے کس پر ظلم کیا ہے؟ جواب دیا جاۓ گا کہ ظلم سے مراد یہ نہیں کہ شخص نے کسی کو قتل کیا ہو بلکہ ظلم سے مراد وہ معنی ہے جو قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔ قرآن نے عدل کے مقابلے میں ظلم کو لایا ہے۔ سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ سب سے بڑا ظلم دشمن کا آلہ کار بننا ہے، سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ پوری قوم کو فسق و فجور میں لگا دیا جاۓ۔ اور بھی ظلم کے کئی مصادیق ہیں جن پر یہ حکمران مکمل طور پر فٹ نظر آتے ہیں۔

ولایت فقیہ کی مخالفت توحید کی مخالفت

مدینہ فاضلہ کا قیام انبیاء کرامؑ کی تمنا تھی۔ اسلامی نظام کا قیام ہمارے آئمہ معصومینؑ کی آرزو تھی اس لیے ہر نبی و امام نے اس کے لیے نہضت چلائی اور اسی کی اتباع میں نظام ولایت فقیہ ہے۔ اس نظام کا توحید سے بہت گہرا ربط ہے۔ کیونکہ ولایت فقیہ کا ہدف انسان کو بندگی تک پہنچانا ہے۔ اس کی مخالفت کی تو گویا اسلام کی مخالفت کی۔ اس کی مخالفت در اصل تمام انبیاء اور آئمہ کی نہضتوں کی مخالفت ہے۔ اور کچھ نادان افراد اسی کو ہی اختلافی موضوع قرار دے کر اصل موضوع کو ہی اڑا دینا چاہتے ہیں۔ تنگ نظری سے موضوع کا جائزہ لیتے ہیں، چند آراء کو اکٹھا کر کے ان پر نقد کرتے ہیں اور حکم لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس نظام کی مخالفت کر کے دشمنوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں آپ کو اندازہ نہیں کہ کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہی نظام ولایت فقیہ تھا جس نے داعش کو عراق سے فرار کرنے پر مجبور کیا ورنہ جب داعش ان کی گردنوں کو اڑاتی تب پتہ چلتا کہ کس کی مخالفت کرنی چاہیے اور کس کی نہیں۔ 

نہضت اور تنظیم کی سوچ میں فرق

ایک اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ جس نہضت کی بات کر رہے ہو یہ لانگ ٹرم منصوبہ ہے۔ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا کوئی آسان کام نہیں لذا یہ کام تو آہستہ آہستہ ہوتا ہی رہے گا پہلے ہم شیعہ کو امنیت تو دے لیں، پہلے بھوکوں کا پیٹ تو بھر لیں، پہلے شہداء کے خانوادوں تک راشن تو پہنچا دیں، پہلے یہ چھوٹے موٹے کام کر لیں پھر نہضت بھی چلا لیں گے۔ سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی سوچ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول ایک لانگ ٹرم منصوبہ ہے اور ایک شارٹ ٹرم منصوبہ۔ ہمیں شارٹ ٹرم منصوبہ کے تحت پہلے اپنے مفادات پورے کرنے چاہیں، جب رفاہی طور پر مضبوط ہو جائیں گے اور پیٹ بھرا ہوگا تب نہضت بھی شروع کریں گے۔ اس کے برعکس نہضت کا نظریہ ہے۔ رسول اللہﷺ کی تحریک اور نہضت ہے، امام حسینؑ کی نہضت عاشورا ہے، اور آئمہ معصومینؑ کی نہضتیں۔ ان میں سے کسی بھی شخصیت نے اولین فرصت میں یہ والے کام نہیں کیے جن کو ہم شارٹ ٹرم منصوبہ کہہ رہے ہیں، یہاں پر مقصود یہ نہیں کہ عوام کے رفاہ کا انہوں نے کوئی منصوبہ نہیں رکھا ہوا تھا، جی نہیں بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا اولین مقصد نہضت کا قیام اور اس کے نتیجے میں ظالم و ستمگر کی سرنگونی و اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں آتے ساتھ ہی اسلامی حکومت کو تشکیل دیا، وہاں رسول اللہﷺ نے یہ نہیں کہا کہ چلو ان لٹے پٹے مہاجروں کا پہلے پیٹ بھر لیں، ان کی شادیاں کر لیں ان کو مکان مل جائیں پھر ہم لانگ ٹرم منصوبے پر عمل کریں گے۔ امام حسینؑ نے بھی یہی کام کیا، سب سے بڑی مشکل سے جا کر ٹکراۓ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا۔ آئمہ معصومینؑ نے بھی کسی بھی حاکم سے سیاسی تعلقات بنا کر شیعوں کا پیٹ بھرنے کا منصوبہ نہیں بنایا، اولین صورت میں ایک نہضت کو اپنا ہدف قرار دیا۔ ہاں انفرادی طور پر راتوں کو کی تاریکی میں فقراء کے گھروں میں راشن بھی پہنچاتے تھےاور ان کی ضروریات بھی پورا کرتے تھے لیکن یہ سب ان کا اولین مقصد نہیں تھا۔کیونکہ اگر یہی ان کا اولین مقصد ہوتا تو اس کے لیے تو پھر نہضت کی بھی ضرورت نہیں، حکمرانون سے ٹکرانے کی بھی ضرورت نہیں، قربانی دینے کی بھی ضرورت نہیں یہ کام تو بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس آئمہ معصومینؑ نے یہ کام بھی کیے اور اولین فرصت میں نہضت بھی شروع کی۔ ہمیں اس ترتیب سے چلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اس ترتیب کو سمجھ نہیں لیتے اور اس کے مطابق عمل نہیں کرتے لاکھ کوشش کریں شارٹ ٹرم منصوبہ بھی ناکام رہیں گے۔[5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶تا۱۰۹۔

Views: 21

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ اور اقتصادی ترقی
اگلا مقالہ: شہادت خیال سے حقیقت کا ایک سفر