loading

(فقہی اصطلاحات کی تشریح)

علم فقہ میں مثل اور مثلی
تحریر : سید محمد حسن رضوی

مثلی علم فقہ کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے جوکہ ضمان کی بحث اور بیع سے مربوط ابواب میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کی مشہور تعریف یہ ہے کہ وہ مال مثلی کہلاتا ہے جس کے اجزاء و افراد یکساں ہوں اور ایک دوسرے سے شباہت رکھتے ہوں، جیسے تیل ، دالیں ، چنے، انڈے وغیرہ۔ مثلی وہ مال ہے جس کے افراد کی خصوصیات ایک دوسرے کے نزدیک ہوتی ہیں اور مشابہت یا افراد کے یکساں ہونے کا معیار عقل نہیں بلکہ عرفِ عقلاء ہیں۔

لغوی و اصطلاحی معنی

لفظ مِثْل اور قیمت عربی زبان کے الفاظ ہیں ۔ علم فقہ میں معاملات کے ابواب میں ایک باب ضمان ہے جس میں مثلی اور قیمی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ضمان سے مربوط احادیث میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔  [1]حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج13، ص106۔[2] حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج13، ص87۔[3]حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج17، ص313۔ لفظ مثلی و قیمی کا اصطلاحی معنی پہلی بار شیخ طوسی کی کتاب میں استعمال کیا گیا ہے۔ [4]رشتی، میرزا حبیب‌ الله، کتاب الغصب، 59۔[5]طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ج ۱۲، ص ۲۶۵۔[6] خوئی، سید‌  ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج3، ص151۔  شیخ طوسی کے بعد بعض فقہاء نے ان کی بیان کردہ تعریف کی اتباع کی ہے اور دیگر محققین نے ان کی تعریف کی تحقیق و جستجو کرنے کے بعد اس تعریف کی تکمیل کی ہے۔

ضمانت سے نکالنے کا طریقہ

مالی معاملات میں ایک طرف ضامن ہوتا ہے جو اپنے مقابل کی طرف سے پیسے ادا کرنے کی ضمانت لیتا ہے۔ ضمان کے موارد میں سے ایک مورد ہے جس میں متعلقِ ضمان مشخص نہیں ہوتا اور موردِ توافق نہیں ہوتا، اس مورد میں فقہ اسلامی اور اس موضوع سے متعلق قوانین میں وارد ہوا ہے کہ مثلی و قیمی میں ضمانِ مثل کا حکم لگایا جائے گا۔ مثل و مثلی کیا ہے ؟ اس بارے میں محققین و دانشوروں میں شدید معرکہ آراء بحث پائی جاتی ہے اور ہر کوئی اپنے مبانی کے تحت اس سوال کا جواب دیتا ہے۔ معاشرے میں موجود اقتصادی روابط میں بعض اوقات قرارداد و خاص معاملہ کی بناء پر اور بعض اوقات غیر قراردادی امور مثلا غصب ، تلف وغیرہ کے سبب اشخاص پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مدمقابل فریق کو مال ادا کریں ۔ ضمانت سے نکالنے کے لیے دو طریقے بیان کیے جاتے ہیں:
۱۔  جس مال کی ضمانت لی گئی تھی بعینہ وہی مال ادا کیا جائے۔ یہ تب ممکن ہے جب بعینہ وہی مال موجود ہو۔
۲۔  اگر مال تلف ہو جائے یا مال ہاتھ سے نکل جائے تو اس صورت میں اس مال کے بدلے میں اسی کی مثل یا تو جنس دیں گے اور اگر اجناس قیمی ہوں تو اس کی قیمت ادا کریں گے۔
اسی طرح مال کا عوض اور بدل دو قسم کا ہوتا ہے:
۱۔
عوض اور بدل کا اعتباری اور قراردادی ہونا؛
۲۔
عوض و بدل کا حقیقی و واقعی ہونا۔
فقہِ شیعہ میں موجود قواعد و ضوابط جس کی تائید اہل سنت مکتب میں بھی پائی جاتی ہے کے مطابق کسی معاملہ میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا ضامن بنتا ہے تو اس ضامن کے لیے ضروری ہے کہ وہ بطور ضمانت اس مال کا بدلِ واقعی ادا کرے۔ اس قاعدہ کی بناء پر اس کو قاعدہ ضمان واقعی یا ضمانِ مثل و قیمت بھی کہا جاتا ہے۔ اگر بذاتِ خود وہی مال موجود ہو تو ضامن کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اس مال کو ادا کرے۔ اگر عینِ مال تلف ہو گیا ہے یا اس تک رسائی مشکل ہے تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ مورد مثلی یا قیمی ، اگر مثلی ہے تو اس مال کا مثل ادا کرنا ہو گا اور اگر قیمی ہے تو مال کی قیمت دینا ضامن کی ذمہ داری قرار پائے گی۔[7]گرجی‌، ابو القاسم‌، مقالات حقوقی، 248۔ [8]نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج37، ص85۔[9] نائینی، میرزا حسین و خوانساری، موسی، منیۃ الطالب، ج1، ص135۔[10] شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج3، ص438۔[11] شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج3، ص174۔[12]شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج3، ص447۔[13]طباطبائی، سید‌ علی، ریاض المسائل‌، ج8، ص11۔[14]طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ج ۱۲، ص ۲۵۶۔

مثل کا معنی 

لغت میں مثلی کا معنی مثل کی طرف نسبت یا وہ مال جس کے لیے مثل ہو بیان کیا گیا ہے۔ [15]کوہ کمری، سید‌ محمد‌ حجت، کتاب البیع، تعلیقۃ میرزا ابو طالب تجلیل تبریزی، 169۔ لغت میں مثلی کے معنی کی وضاحت اس طرح سے کی گئی ہے:

– مثل: کـلمه تـسویه؛ یـقال هذا مثله ، ومثله کما یقال شبهه و شبهه بمعنی؛ مثل: یہ کلمہ دلالت کرتا ہے کہ ایک شیء دوسرے کی مانند یا اس کے مساوی ہے، کہا جاتا ہے: یہ اس کی مثل ہے یعنی اس کے مشابہ ہے، اس کی مثال ہونا جیساکہ کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے مشابہ ہے، اس کے مشابہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ یہ اس کی مانند ہے۔ [16]جوہری‌، اسماعیل‌ بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح‌ العربیۃ، ج5، ص1816۔

وقیل: المثل بـالکسر: الشـبه، تقول هذا الشیء مثل ذاک بلفظ واحد للجمیع و المثلی‌ بالکسر‌: المنسوب الی المثل؛ اور کہا جاتا ہے : مثل ، میم پر کسرہ کے ساتھ: مشابہ ہونا، آپ ایک لفظ کے ذریعے تمام کے لیے کہتے ہیں کہ یہ چیز اُس کی مثل ہے، مثلی – میم پر کسرہ کے ساتھ – وہ جو مثل کی طرف منسوب ہو۔ [17]شویری لبنانی، ظـاہر خـیر الله، اللمع النواجم، ص999۔

المثل (بالکسر) کـلمه تـسویه و فی المصباح: المثل علی ثلاثه اوجه، بمعنی الشبیه و بمعنی نفسه و ذاته و زائدة؛ مثل – میم پر کسرہ کے ساتھ-: یہ کلمہ ایک چیز کے دوسری چیز کے مساوی ہونے کو بتاتا ہے، مصباح المنیر میں ہے: مثل تین صورتوں میں ہوتا ہے: بمعنی شبیہ (یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کے مشابہ ہونا)، بمعنی نفس و ذات، بمعنی زائد۔ [18]شرتونی، سعید، اقرب الموارد‌ فی‌ فصح العربیۃ و الشوارد، ج1، ص43۔

قـوله تعالی‌: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‌ء، أی “کهو” والعرب تـقیم المـثل مـقام النفس؛ قوله تعالی: وَمِثْلَهُمْ مَعَهُم‌، أی شبههم، یـعنی أن الله أحـیی من مات من ولد‌ ایوب‌ ورزقه مثلهم؛  قرآنی آیت ہے:لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‌ء، یعنی جیسے وہ، عرب نفسِ شیء کی جگہ پر مثل کو رکھتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: اور ان کی مثل ان کے ساتھ ہے، یعنی ان کی شبیہ، یعنی اولادِ ایوبؑ میں سے جو جو مر گیا تھا اللہ نے اسے زندہ کیا اور انہی کی مثل اسے رزق دیا۔ [19] طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۱۶۹۔

نتیجہ یہ نکلا کہ لفظِ مثل دو یا تین معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلی اور قیمی کی بحث میں مثل سے مراد پہلا معنی ہے جس سے مراد مماثلت، مشابہت اور برابری و مساوی ہونا ہے۔  اکثر فقہاءِ امامیہ نے مثلی کی یہ تعریف کی ہے کہ مثلی سے مراد ایک مال کے اجزاء کا قیمت کے اعتبار سے مساوی ہونا ہے؛ مثلاً اگر دس کلو آٹے کا تھیلا ہے جس کی قیمت ۱۰۰۰ روپے ہے تو اس کی طرح کا دوسرا تھیلا جس کی وہی قیمت ہے اس کی مثل کہلائے گا اور اس تھیلے کا نصف مثلا ۵۰۰ روپے ہے تو اس کی مثل دوسرا آٹا کا تھیلا کہلائے گا۔[20]طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج ۳، ۲ ۵۹۔[21]محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ج ۴، ص ۷۶۵۔[22]فاضل آبی، حسن بن ابی طالب، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، ج ۲، ص ۳۸۱۔[23]شہید ثانی، زین الدین، مسالک الافہام، ج ۱۴، ص ۳۰۔[24]شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج ۳، ص ۱۱۷۔[25]نجفی، محمد حسن ، جواہر الکلام، ج ۳۷، ص ۸۹۔[26] انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۰۹۔

بعض معاصر محققین کے مطابق تمام مذاہب کے فقہاء کی بیان کردہ تعاریف سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مثلی سے مراد وہ مال ہے جس کے اجزاء یا افراد برابر ہوں، اس طرح سے کہ اگر اس جنس کے بعض افراد کو دیگر افراد کی جگہ پر رکھیں یا بدل دیں تو پیدا ہونے والا فرق قابل اعتناء نہ ہو ۔ بالفاظ دیگر اس مال کے افراد میں قابل توجہ فرق نہ ہو اور معمولا وزن یا کیل کے پیمانوں پر اس کو فروخت کیا جاتا ہو۔

حقیقت شرعیہ اور متشرعہ کی نفی

مثلی و قیمی کے الفاظ احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت شرعیہ کا حامل نہیں ہے۔[27] انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۱۴۔[28] مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، ص۴۷۰۔  اس کا مطلب ہے کہ مثل اور مثلی ایک اصطلاح ہے اور انتزاعی معنی و عنوان ہے۔ [29]کوہ کمری، سید‌ محمد‌ حجت، کتاب البیع، تعلیقہ میرزا ابو طالب تجلیل تبریزی، ۱۳۸۔ مثل و مثلی کی خصوصیات اور مصادیق کو آشکار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیرت عقلاء اور عرفی ارتکازات کی طرف مراجعہ کیا جائے۔ فقہاء اسلام کا اتفاق ہے کہ اوّلا مثلی اشیاء میں مثلیت کا ملاک و معیار عرفی مماثلت ہے نہ کہ عقلی؛ کیونکہ اگر اگر عقلی مماثلت مراد ہوتی تو شارع حتما اس طرف اشارہ کر دیتے۔ ثانیاً چونکہ یہ امر مبتلاء بہ مسائل میں سے ہے اور عام البلوی ہے اس لیے شارع کی جانب سے کسی قسم کی صراحت کا نہ ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے عقلی مماثلت شرط نہیں ہے۔ نیز اس امر میں مماثلتِ عقلی ناممکن ہے اور فقط اللہ سبحانہ جوکہ علّام الغبوب ہے دقیق اور کامل طور پر مماثلت کی تشخیص دے سکتا ہے۔ بقیہ کے لیے تشخیص دینے کی تکلیف ان کی قدرت سے باہر ہے۔ ثالثًا عقلی مماثلت کے تعبدی ہونے کا وجود شریعت میں موجود نہیں ہے اور اصل عدم تعبد ہے۔[30]کاشف الغطاء، عباس، المال المثلی و المال القیمی فی الفقہ الاسلامی، ص ۵۹۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ مثلی اور قیمی حقیقت شرعیہ نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک فقہی اصطلاح ہے جس کی تعریف عرف سے حاصل کی گئی ہے اور علم فقہ میں بابِ ضمان میں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

شیعہ فقہاء کی تعاریف

اکثر‌ فقہاء امامیہ نے مثلی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ مثلی سے مراد قیمت کے اعتبار سے مال کے اجزاء کا باہمی طور پر مساوی ہونا ہے؛ مثلاً اگر دس کلو گندم کی قیمت ہزار روپے ہے تو دو کلو گندم کی قیمت دو ہزار روپے ہو گی۔[31] محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، ج۴، ص۷۶۵۔[32]فاضل آبی، حسن بن ابی‌ طالب‌، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، ج۲، ص۳۸۱۔[33]شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج۱۴، ص۳۰۔[34] شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج3، ص117۔[35]نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۷، ص۸۹۔[36] انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۰۹۔ [37] طوسی، محمد بن ‌حسن‌، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج۳، ص۵۹۔ ان تعریفوں میں اجزاء سے مراد کلی کے مقابلے میں جزئی ہے، نہ کہ کل کے مقابلے میں جزء۔ شیخ انصاری اس کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:المراد باجزائه ما یصدق علیه اسم الحقیقة؛ اس کے اجزاء سے مراد اس پر شیء کا حقیقی عنوان آنا ہے۔ یعنی حقیقی معنی میں اس مال پر شیء کا نام صدق کرے،[38] انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۱۰۔ مثلاً‌ بکروں کی مختلف انواع پر بکرے کا نام حقیقتًا صدق کرتا ہے۔ البتہ اس تعریف پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ لفظِ اجزاء کو استعمال کر کے افراد مراد لیا گیا ہے یہ عرف اور اہل لغت کی نظر میں درست نہیں ہے۔ کیونکہ اجزاء اور افراد دو جدا الفاظ ہیں اور دونوں کا استعمال جدا ہے۔

مثل اور مثلی کی اصل تعریف شیخ طوسی سے ہمارے پاس آئی ہے۔ [39] رشتی، میرزا حبیب‌ الله، کتاب الغصب، 59۔[40] طباطبائی، سید‌ علی، ریاض المسائل‌، ج۱۲، ص۲۶۹۔[41]خوئی، سید‌ ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۳، ص۱۵۱۔ ان کے بعد بقیہ فقہاء کرام نے ان کی اتباع میں تعریف کو قبول کیا اور تعریف پر سے ابہام کو دور کر کے اور عدم اطراد جیسے اشکالات کو برطرف کر کے اس تعریف کی تکمیل کی ہے ، مثلا اس طرح کی عبارات کا اضافہ کیا گیا: ویتفاوت صـفاته  [42] حلی، حسن‌ بن‌ یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، ج۲، ص۱۳۹۔یا   المتقارب الصـفات۔ [43] شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج۷، ص۳۶‌۔

مثلی کی پہچان کا معیار

فقہ جعفری میں مثلی کی اصطلاح تعریفوں پر دقت کریں تو ہمارے پاس تین ایسے ملاک سامنے آتے ہیں جن کے ذریعے ہم مثلی کی تشخیص کر سکتے ہیں اور اسے پہچان سکتے ہیں:

۱۔  مشہور اور ان کی اتباع کرنے والے دیگر فقہاء کرام نے اپنی تعریفوں میں اس بات کی تاکید کی ہے کہ قیمت اور نوعی خصوصیات کو ملاحظہ کیا جائے۔ اس معیار کے ذریعے اشیاء کے مثلی اور قیمی ہونے کی تشخیص دی جا سکتی ہے۔ [44] اصفہانی، محمد‌ حسین، حاشیہ مکاسب، ج۱، ص۳۵۶۔[45] خوئی، سید‌ ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۳، ص۱۵۲۔

۲۔ بعض معاصر محققین نے عوامی رغبت اور میلان کو میزان قرار دیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق وہ اموال مثلی کہلائیں گے جن کی خصوصیات یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک جیسے اور یکساں و مساوی ہیں اور عوام ان کی طرف رغبت رکھتی ہے۔ [46] طباطبائی یزدی‌، سید‌ محمد‌ کاظم، حاشیہ مکاسب، ج۱، ص۹۶۔[47] تبریزی‌، جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق‌ علی‌ المکاسب، ج۲، ص۱۶۸۔[48] خمینی، سید روح‌ الله، کتاب البـیع، ج۱، ص۳۳۳۔[49] حکیم، سید‌ محسن‌، نہج‌ الفقاہۃ، ج۱، ص۱۳۹۔  اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ لوگوں کی رغبت و رجحان خود اشیاء سے حاصل ہونے والے نفع و فائدہ اور اس کی خواص کے تابع ہے۔ نیز اوصاف اور منافع اموال کی مالی حثیثت و قیمت سے مربوط ہیں۔ [50] خمینی، سید روح‌ الله، کتاب البیع، ج۱، ص۳۳۳۔بالفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رغبت کو قیمت اور نفع کی طرح مال کی خصوصیات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

۳۔  بعض متأخرین اور معاصرین کے مطابق اموال کے مثلی یا قیمی ہونے کی تشخیص ان کی ذاتی اور عارضی خصوصیات پر موقوف ہے۔

ان تین آراء کی جمع بندی کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اموالِ مثلی وہ اموال ہیں جن کی خصوصیات اور اوصاف یکساں ہوں ، اس طرح سے کہ اموال کی یہ خصوصیات عوام کی نظر میں تاثیر رکھتی ہوں اور ان کی بناء پر عوام ان اموال کی طرف رغبت اختیار کرتے ہوں۔ فرق نہیں پڑتا یہ خصوصیات اس مال کی ذاتی خصوصیات میں سے ہے یا عارضی خصوصیات میں سے۔ بطورِ خلاصہ کہا جا سکتا ہے اکثر شیعہ فقہاء دیگر فقہی مذاہب کے برخلاف اموال کی نوعی اور مالی خصوصیات جوکہ اموال کی ذاتی خصوصیات ہیں کو مثلی یا قیمی کی تشخیص کا ملاک و معیار قرار دیتے ہیں۔

اہل سنت فقہاء کی نظر

اگر ہم مثلی کی اصطلاح کو اہل سنت فقہاء کے تناظر میں ملاحظہ کرنا چاہیے تو ہمارے پاس اہل سنت کے چار فقہی مکاتب شافعی، حنفی، حنبلی اور مالکی سامنے آتے ہیں۔

 فقہِ حنفی:

حنفی مسلک کے مطابق مثلی سے مراد ہر وہ مال ہے جس کا اندازہ کیل یا وزن یا شمار و حساب کتاب کی شکل میں لگایا جا سکتا ہے اس طرح سے کہ اس مال کے افراد ایک دوسرے سے مشابہ ہوں ، مثلا اخروٹ ، مرغی کے انڈے … وغیرہ۔ نیز اس مالک ے اجزاء کی تقسیم اور اس کے جدا جدا مجموعے بنانے کی صورت میں کسی قسم کا نقصان و ضرر نہ پہنچتا ہو۔ اس کے مقابلے میں وہ اموال ہیں جن کا وزن اور تعداد و شمار میں اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ مشالہ ہوتے ہیں ، مثلا حیوانات، سبزیاں و پھل ۔ ان کے اوصاف ایک دوسرے کے قریب نہیں ہیں بلکہ قیمی ہیں۔ [51]ابن‌قاضی سماونۃ، محمود بن اسرائیل، جامع الفصولین، ج۲، ص۹۷۔[52]ابن‌ سمنانی، علی بن محمد، روضۃ القضاة، ج۱، ص۴۵۔[53]ابن‌ رشد، محمد بن احمد، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد‌، ج۲، ص۳۱۷۔[54] ابن‌قدامۃ، عبد الله‌ بن‌ احمد، المغنی مع الشرح الکبیر، ج۵، ص۴۲۸۔[55]ابن‌ عابدین، محمد‌ امین بن عمر، رد المختار علی الدر المختار، ج۲۰، ص۷۷۔[56]زحیلی، وہبہ، موسوعۃ الفقہ الاسلامی و القضایا المعاصرة، ج۱۰، ص۵۷۔

فقہِ شافعی:

مسلکِ شافعی سے تعلق رکھنے والے فقہاء کے مطابق مثلی سے مراد وہ مال ہے جس کا وزن یا کیل کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکے اور اس مال میں بیع سلم صحیح ہو۔[57]رملی، ابن‌ شہاب، نہایۃ المحتاج الی‌ شرح‌ المنہاج فی الفقہ علی مذہب الامام الشافعی، ج۵، ص۱۵۷۔[58]انصاری، زکریا بن محمد، منہج الطلاب، ج۱، ص۲۳۳۔[59]شربینی، محمد بن احمد، مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنہاج، ج۲، ص۲۸۱۔[60]نووی، یحیی بن شرف، منہاج الطالبین و عمدة المفتین فی الفقہ، ج۱، ص۱۴۷۔[61]تقی‌ الدین شافعی، ابو بکر بن معلی‌، کفایۃ الاخیار فی حل غایۃ الاختصار، ج۱، ص۲۸۳۔[62]ہیثمی، احمد بن حجر، تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج، مصر، ج۶، ص۱۹۔[63]قلیوبی، احمد و عمیره، احمد برسی، حاشیتا قلیوبی و عمیره، ج۲، ص۳۲۲۔[64]زہری غمراوی‌، محمد‌، السراج الوہاج علی متن المنہاج‌، ج۱، ص۲۶۸۔[65]ملیباری‌، زین‌ الدین‌ بن‌ عبد العزیز، فتح المعین بشرح قرة العین بمہمات الدین‌، ج۳، ص۱۳۸۔

فقہِ حنبلی:

فقہاء حنابلہ کے مطابق وہ مال مثلی کہلاتا ہے جس کا کیل یا وزن کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکے جس میں انسان کے کام یا عمل کا دخل نہ ہو اور اس میں بیع سلم صحیح ہو۔[66]ابن‌ النجار، محمد بن احمد، منتہی الارادات فی جمع المقنع مع التنقیح و زیادات‌، ج۱، ص۵۱۷۔[67]مرداوی، علی‌ بن‌ سلیمان‌، الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، ج ۶، ص ۱۹۲۔[68]بہوتی، منصور بن یونس‌، کشاف القناع، ج۱۰، ص۱۱۔[69]بہوتی، منصور بن یونس، شرح منتہی الارادات، ج۶، ص۳۹۴۔[70]ابن‌ مفلح، ابراہیم‌ بن‌ محمد‌، المبدع فی شرح المقنع، ج۵، ص۴۱۔

اس تعریف میں مثلی کے لیے ایک نئی قید کو بیان کیا گیا ہے۔ اس قید کے مطابق مثلی اشیاء پر ثانوی تبدیلیاں و تغیرات انسان کے عمل اور اس کے کام سے حاصل ہوتے ہیں جوکہ مثلی کی تشخیص میں کسی قسم کی دخالت نہیں رکھتے۔ کیل اور وزن کی حالت میں ان ثانوی تغیرات کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔ بالفاظِ دیگر مثلی اشیاء کی تشخیص کا ملاک و معیار ان اشیاء کی وہ اوّلی شکل ہے جو تغیر و تبدل اور دیگر انسانی اعمال کے نتیجہ میں برپا ہونے والیے تغییرات سے پہلے حاصل تھی۔

فقہِِ مالکی

مالکی فقہ کے مطابق مثلی مال سے مراد وہ مال ہے جو کیل یا وزن یا اعداد و شمار کی صورت میں اندازہ گیری کے قابل ہو اور اس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تفاوت نہ رکھتے ہوں۔ یہ اس قید کی صورت میں ہے کہ بشری صنعت کاری کی اس میں مداخلت نہ کی جائے۔ پس مثلی مال کی تشخیص کے لیے بشری کام اور اس کی صنعت کاری سے پہلے والی صورت کو مدنظر رکھا جائے گا۔ [71]صاوی، احمد، بلغۃ السالک لاقرب المسالک لمذہب الامام مالک، ج۲، ص۲۱۳۔[72]علیش، محمد بن‌ احمد، منح الجلیل شرح‌ مختصر‌ خلیل، ج۷، ص۹۰۔[73]عبدری غرناطی، محمد بن یوسف، التاج و الاکلیل لمختصر خلیل، ج۷، ص۳۱۴۔[74]ابن‌جزی، محمد بن احمد، القوانین الفقہیۃ، ص330۔

نتیجہِ بحث:

فقہاءِ امامیہ اور اہل سنت فقہی مسالک کے مطابق مثلی اور قیمی کی تعریف میں درج ذیل نکات ملحوظ خاطر رکھے جا سکتے ہیں:

1. اہل سنت مختلف فقہی مذاہب نے مثلی کی تعریف میں کیل یا وزن کی صورت میں اندازہ گیری کے معیار کی خصوصی تاکید کی ہے کیونکہ غالبا یہ اجناس مثلی اشیاء میں پیش نظر شباہت کے حامل ہوتے ہیں۔

2. اموالِ مثلی میں شباہت کا ہونا ان اموال کے ارکان کا جزء شمار کیا جائے گا اور ان کی تشخیص عرف کے سپرد ہے۔ چنانچہ اموالِ مثلی میں شباہت سے مراد عقلی طور پر شباہت نہیں ہے۔

3. فقہاء اہل سنت کی بیان کردہ تعریفوں میں اموال مثلی کے لیے شباہت کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ اسی مطلب کو فقہاءِ امامیہ نے مثلی اموال کی خصوصیات اور اوصاف کے یکساں ہونے کی صورت میں بیان کیا ہے۔ اس اعتبار سے فقہاءِ امامیہ اور فقہاء اہل سنت باہمی طور پر متفق ہیں۔

4. اہل سنت فقہاء کی بیان کردہ تعریفوں میں مثلی اموال کا کیل یا وزن یا اعداد و شمار کی قابلیت کا حامل ہونا ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ فقہاءِ امامیہ کی نظر میں اس کا اموالیِ مثلی و قیمی سے کوئی تلازم نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے قیمی اموال ایسے ہیں جو کیل یا وزن کی اندازہ گیری کی قابلیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود فقہاءِ امامیہ کے مطابق وہ قیمی شمار ہوتے ہیں۔ اس پہلو سے مثلی کی تعاریف فقہاء امامیہ اور اہل سنت میں مختلف ہو جاتی ہے۔

5. اہل سنت فقہاء کی بیان کردہ تعریفوں میں مثلی اموال میں بیع سلم کا ہونا جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ بیع سلم کے مورد میں اشیاء ایسے اوصاف و خصوصیات کی قابلیت رکھتی ہیں کہ یہ خصوصیات افراد کی اشیاء میں رغبت کا باعث بنتی ہیں ۔ یہ اوصاف میں وہی مماثلت و مشابہت کا ملاک ہے جو عرف کے پیش نظر ہوتا ہے اور مثلی اشیاء میں معیار قرار دیا گیا ہے۔   اس بات کا ذکر کرتے چلیں کہ موضوعات کی تعیین میں بیع سلم کے جواز کا حکم شرعی ذکر کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ موضوعات احکامِ شرعیہ میں علت کی حیثیت رکھتی ہیں اور جب موضوع محرز اور ثابت ہو جاتا ہے تو پھر حکم شرعی لاگو ہوتا ہے ۔ لہٰذا حکم شرعی رتبہ کے اعتبار سے اپنے موضوع سے متأخر ہے۔ چنانچہ مناسب نہیں ہے کہ تعریف میں موضوع جوکہ مثلی اشیاء ہیں سے حکم شرعی کا استفادہ کیا جائے۔

منابع:

منابع:
1 حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج13، ص106۔
2 حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج13، ص87۔
3 حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج17، ص313۔
4 رشتی، میرزا حبیب‌ الله، کتاب الغصب، 59۔
5 طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ج ۱۲، ص ۲۶۵۔
6 خوئی، سید‌  ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج3، ص151۔
7 گرجی‌، ابو القاسم‌، مقالات حقوقی، 248۔
8 نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج37، ص85۔
9 نائینی، میرزا حسین و خوانساری، موسی، منیۃ الطالب، ج1، ص135۔
10 شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج3، ص438۔
11 شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج3، ص174۔
12 شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج3، ص447۔
13 طباطبائی، سید‌ علی، ریاض المسائل‌، ج8، ص11۔
14 طباطبائی، سید علی، ریاض المسائل، ج ۱۲، ص ۲۵۶۔
15 کوہ کمری، سید‌ محمد‌ حجت، کتاب البیع، تعلیقۃ میرزا ابو طالب تجلیل تبریزی، 169۔
16 جوہری‌، اسماعیل‌ بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح‌ العربیۃ، ج5، ص1816۔
17 شویری لبنانی، ظـاہر خـیر الله، اللمع النواجم، ص999۔
18 شرتونی، سعید، اقرب الموارد‌ فی‌ فصح العربیۃ و الشوارد، ج1، ص43۔
19 طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۱۶۹۔
20 طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج ۳، ۲ ۵۹۔
21 محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال والحرام، ج ۴، ص ۷۶۵۔
22 فاضل آبی، حسن بن ابی طالب، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، ج ۲، ص ۳۸۱۔
23 شہید ثانی، زین الدین، مسالک الافہام، ج ۱۴، ص ۳۰۔
24 شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج ۳، ص ۱۱۷۔
25 نجفی، محمد حسن ، جواہر الکلام، ج ۳۷، ص ۸۹۔
26 انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۰۹۔
27 انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۱۴۔
28 مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، ص۴۷۰۔
29 کوہ کمری، سید‌ محمد‌ حجت، کتاب البیع، تعلیقہ میرزا ابو طالب تجلیل تبریزی، ۱۳۸۔
30 کاشف الغطاء، عباس، المال المثلی و المال القیمی فی الفقہ الاسلامی، ص ۵۹۔
31 محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، ج۴، ص۷۶۵۔
32 فاضل آبی، حسن بن ابی‌ طالب‌، کشف الرموز فی شرح المختصر النافع، ج۲، ص۳۸۱۔
33 شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، مسالک‌ الافہام، ج۱۴، ص۳۰۔
34 شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج3، ص117۔
35 نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۷، ص۸۹۔
36 انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۰۹۔
37 طوسی، محمد بن ‌حسن‌، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج۳، ص۵۹۔
38 انصاری، مرتضی‌، مکاسب‌، ج۳، ص۲۱۰۔
39 رشتی، میرزا حبیب‌ الله، کتاب الغصب، 59۔
40 طباطبائی، سید‌ علی، ریاض المسائل‌، ج۱۲، ص۲۶۹۔
41 خوئی، سید‌ ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۳، ص۱۵۱۔
42 حلی، حسن‌ بن‌ یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، ج۲، ص۱۳۹۔
43 شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج۷، ص۳۶‌۔
44 اصفہانی، محمد‌ حسین، حاشیہ مکاسب، ج۱، ص۳۵۶۔
45 خوئی، سید‌ ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۳، ص۱۵۲۔
46 طباطبائی یزدی‌، سید‌ محمد‌ کاظم، حاشیہ مکاسب، ج۱، ص۹۶۔
47 تبریزی‌، جواد، ارشاد الطالب الی التعلیق‌ علی‌ المکاسب، ج۲، ص۱۶۸۔
48 خمینی، سید روح‌ الله، کتاب البـیع، ج۱، ص۳۳۳۔
49 حکیم، سید‌ محسن‌، نہج‌ الفقاہۃ، ج۱، ص۱۳۹۔
50 خمینی، سید روح‌ الله، کتاب البیع، ج۱، ص۳۳۳۔
51 ابن‌قاضی سماونۃ، محمود بن اسرائیل، جامع الفصولین، ج۲، ص۹۷۔
52 ابن‌ سمنانی، علی بن محمد، روضۃ القضاة، ج۱، ص۴۵۔
53 ابن‌ رشد، محمد بن احمد، بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد‌، ج۲، ص۳۱۷۔
54 ابن‌قدامۃ، عبد الله‌ بن‌ احمد، المغنی مع الشرح الکبیر، ج۵، ص۴۲۸۔
55 ابن‌ عابدین، محمد‌ امین بن عمر، رد المختار علی الدر المختار، ج۲۰، ص۷۷۔
56 زحیلی، وہبہ، موسوعۃ الفقہ الاسلامی و القضایا المعاصرة، ج۱۰، ص۵۷۔
57 رملی، ابن‌ شہاب، نہایۃ المحتاج الی‌ شرح‌ المنہاج فی الفقہ علی مذہب الامام الشافعی، ج۵، ص۱۵۷۔
58 انصاری، زکریا بن محمد، منہج الطلاب، ج۱، ص۲۳۳۔
59 شربینی، محمد بن احمد، مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنہاج، ج۲، ص۲۸۱۔
60 نووی، یحیی بن شرف، منہاج الطالبین و عمدة المفتین فی الفقہ، ج۱، ص۱۴۷۔
61 تقی‌ الدین شافعی، ابو بکر بن معلی‌، کفایۃ الاخیار فی حل غایۃ الاختصار، ج۱، ص۲۸۳۔
62 ہیثمی، احمد بن حجر، تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج، مصر، ج۶، ص۱۹۔
63 قلیوبی، احمد و عمیره، احمد برسی، حاشیتا قلیوبی و عمیره، ج۲، ص۳۲۲۔
64 زہری غمراوی‌، محمد‌، السراج الوہاج علی متن المنہاج‌، ج۱، ص۲۶۸۔
65 ملیباری‌، زین‌ الدین‌ بن‌ عبد العزیز، فتح المعین بشرح قرة العین بمہمات الدین‌، ج۳، ص۱۳۸۔
66 ابن‌ النجار، محمد بن احمد، منتہی الارادات فی جمع المقنع مع التنقیح و زیادات‌، ج۱، ص۵۱۷۔
67 مرداوی، علی‌ بن‌ سلیمان‌، الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، ج ۶، ص ۱۹۲۔
68 بہوتی، منصور بن یونس‌، کشاف القناع، ج۱۰، ص۱۱۔
69 بہوتی، منصور بن یونس، شرح منتہی الارادات، ج۶، ص۳۹۴۔
70 ابن‌ مفلح، ابراہیم‌ بن‌ محمد‌، المبدع فی شرح المقنع، ج۵، ص۴۱۔
71 صاوی، احمد، بلغۃ السالک لاقرب المسالک لمذہب الامام مالک، ج۲، ص۲۱۳۔
72 علیش، محمد بن‌ احمد، منح الجلیل شرح‌ مختصر‌ خلیل، ج۷، ص۹۰۔
73 عبدری غرناطی، محمد بن یوسف، التاج و الاکلیل لمختصر خلیل، ج۷، ص۳۱۴۔
74 ابن‌جزی، محمد بن احمد، القوانین الفقہیۃ، ص330۔
Views: 219

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: جنگ صفین میں شہید ہونے والے صحابہ کرام
اگلا مقالہ: جرح و تعدیل میں سبب کا تذکرہ