loading
{رہبر معظم بعنوان مفکر اسلامی:قسط۳}

بعثت ِانبیاء کے مقاصد

کتاب: ولايت و حکومت
مؤلف: رهبر معظم امام خامنه ای
تحرير: عون نقوى

گزشتہ درس میں بیان ہوا کہ ایک بعثت درونی ہے جو نبی کی ذات میں ایجاد ہوتی ہے۔ اور دوسری بعثت بیرونی نتیجہ ہے اس پہلی بعثت کا جو معاشرے میں وجود میں آتی ہے۔ نبی کی ذات جب اندر سے منقلب ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں انقلاب وجود میں آتا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ہدف کیا ہے؟ بعثت کی ضرورت کیا ہے؟ کیا انسانی معاشرے نبی کے بعثت کے بغیر کمال کی طرف نہیں بڑھ سکتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا اس تحریر میں جواب دیا جاۓ گا۔

بعثت کا عالی ترین ہدف

بعثت کا عالی ہدف انسانوں کو پستی اور پلیدگی سے نکال کر انسانیت کے عالی ترین مدارج تک پہنچانا ہے۔ وہ انسان جو اللہ کی عبودیت سے نکل کر تمام غیر معبودوں کے عبد بنے ہوۓ ہیں، اور طاغوتوں کے چنگل میں ہیں۔ انسانوں کو اللہ کی عبودیت کی طرف لانے اور طاغوت سے نجات دینے کے لیے انبیاء مبعوث ہوۓ ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ».ترجمہ: اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو۔[1] نحل: ۳۶۔

۱۔ فطرت کی بیداری

اللہ تعالی نے انسان کو فطرت عطا کی ہے۔ جس میں تمام الہی تعلیمات رکھ دی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر طبیعت بھی رکھ دی ہے جو اسے سرکشی اور طغیانی پر ابھارتی ہے۔ اگر سب انسان فطرت کے عین مطابق زندگی گزارنے لگ جائیں تو انسان کامل بن سکتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی اکثریت طبیعی میلان کے مطابق زندگی گزارتی ہے۔ طبیعت کی سرکشی کو روکنے کے لیے اور فطرت کو بیدار کرنے کے لیے نبی مبعوث ہوۓ ہیں۔امیرالمومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:«وَ يُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ».ترجمہ: وہ عقل کے دفینوں کو ابھاریں۔[2] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۔ انسان کے پاس فطرت نامی بہت قیمتی اور فضیلت سے سرشار سرمایہ موجود ہے۔ لیکن اس کو درست راستے میں تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر تربیت کے ذریعے فطرت کو ابھار دیا جاۓ تو انسان تکامل حاصل کر لیتا ہے۔

 ۲۔ تعلیم و تربیت

عقل و فطرت کے دفائن کو ابھارنے کے لیے نبی امت کو تعلیم و تربیت دیتا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت کے ذریعے فطرت کیسے بیدار ہو؟کیا مدرسہ بنا دیں تو تعلیم و تربیت دے سکتے ہیں؟ یا سکول اور یونیورسٹیز بنا دیں تو تعلیم و تربیت کا ہدف پورا ہو جاۓ گا؟ کیا انبیاء بھی اسی طرح سے تعلیم وتربیت کرتے ہیں جس طرح سے ہم تعلیم و تربیت کے سسٹم بناتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے مدرسہ یا سکول نہیں بنایا۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سکول کالج وغیرہ نہ بنائیں۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ تعلیم و تربیت کا طریقہ سیکھیں۔ جس طرح سے ہم تعلیم و تربیت دیتے ہیں اس طرح سے فطرت بیدار ہو جاۓ گی؟ جی نہیں! مصنف فرماتے ہیں کہ انبیاء الہی کا تعلیم و تربیت کا ایک خاص انداز ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک ایسا سالم اور متناسب ماحول بناتے ہیں جس میں انسان نشو و نما پا سکے۔ ایک الہی و توحیدی عادلانہ معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ جب الہی و توحیدی معاشرہ وجود میں آ جاتا ہے تو انسان تیزی سے فطری مراحل کو طے کرتا ہے اور قرب الہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ سورہ حدید میں الہی و توحیدی عادلانہ معاشرے کے قیام کو انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف قرار دیا گیا ہے۔ وارد ہوا ہے:«لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتابَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ».ترجمہ: بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔[3] حدید: ۲۵۔ اصل میں بعثت انبیاء اس لیے ہوئی کہ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو اور لوگوں میں عدالت کا نظام قائم کیا جا سکے۔ جب تک یہ عدالت اجتماعی قائم نہیں ہو جاتی اور انسان کے لیے سالم و متناسب ماحول ایجاد نہیں ہو جاتا تعلیم و تربیت ممکن نہیں۔ آپ کوشش کریں گے تعلیم و تربیت کی لیکن اس کا اثر نہ ہوگا کیونکہ اجتماعی طور پر جس معاشرے میں انسان رہ رہے ہیں وہ فاسد ہے۔ وہ ظلم کی اساس پر ہے۔ اگر اجتماعی طور پر ظلم کے نظام میں انسان رہیں اور انفرادی طور پر ان کو تعلیم و تربیت دی جاتی رہے اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں۔

انبیاء الہی کا ظالمین سے ٹکراؤ

جب بھی نبی نے لوگوں کے اندر تعلیم و تربیت کو عام کیا ان کا معاشرے کے ظالم افراد حاکم طبقے سے ٹکراؤ ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ اس ظالم و حاکم طبقے کے اسی ظالمانہ نظام کے ساتھ مفادات ہیں۔ اگر لوگ تعلیم و تربیت پا جائیں تو اس کے نتیجے میں ان افراد کے ظلم کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن یہ ظالم طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہ نظام ایسا ہی چلتا رہے اور ان کی بے شعوری سے حتی الامکان فائدہ اٹھایا جاۓ۔ جب نبی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے تو ظالم و حکمران طبقہ ان کا دشمن ہو جاتا ہے۔ انبیاء الہی تاریخ بشریت کے دشمن دار ترین انسان گزرے ہیں۔ اگر آپ ایسے افراد کی لسٹ بنائیں جن کے سب سے زیادہ دشمن رہے ہیں ان میں سرفہرست انبیاء ہونگے۔ ممکن ہے دشمن خود ان کے گھر سے کھڑا ہو جاۓ۔ اپنا بھائی، چچا یا ماموں، حتی آپ کی بیوی اور بچے دشمن بن جائیں۔ اس لیے کہ ممکن ہے جو تعلیم اور نظام آپ تشکیل دینا چاہ رہے ہیں اس میں ان افراد کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔ کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بعثت کے اہداف کے مطابق حرکت شروع کی ہو اور کسی نے ان کے ساتھ دشمنی نہ کی ہو۔ قرآن کریم اور روایات اہل بیتؑ میں کثرت سے ان موارد کی طرف اشارہ موجود ہے۔ حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت داوودؑ، اور حضرت سلیمانؑ۔ اسی طرح سے بقیہ انبیاء الہی کہ ان کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی اولاد پر ظلم ڈھاۓ گئے اور معاشرے نے سخت دشمنی کی۔ طعنے دیتے، نعوذباللہ پاگل مجنون کہتے۔ خود رسول اللہﷺ اور ان کے اوصیاء بارہ اماموں کے ساتھ کیا ہوا؟ تاریخ اسلام اس کی گواہ ہے۔ جب بھی رسول یا امام نے بعثت کے اہداف کو پورا کرنے کی کوشش کی، تعلیم و تربیت کو عام کیا اور عدالت اجتماعی کو قائم کیا تو معاشرہ بدترین دشمنی پر اتر آیا۔ 

توحید در حاکمیت کی تعلیم

انبیاء الہی کا امت کو پڑھایا گیا پہلا درس توحید ہے۔ سب انبیاء نے توحید کا پرچار کیا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ لیکن توحید سے مراد کیا ہے؟ کیا توحید صرف ایک ذہنی تصور ہے؟ کیا ایک تصور ہے کہ ہم نے ذہن میں صرف ایک ذات کو قرار دینا ہے جو ہماری خدا ہے اور بس! جی نہیں۔ بلکہ توحید سے مراد یہ ہے کہ ہر مورد میں خدا کی وحدانیت کو مدنظر رکھنا ہے۔ عبادت بھی ایک خدا کی کرنی ہے، خالق بھی ایک خدا کو ماننا ہے، رازق بھی ایک خدا کو ماننا ہے اور حاکم بھی ایک خدا کو ماننا ہے۔ توحید یعنی اس کائنات پر صرف ایک خدا کی حکمرانی ہے۔ اور کوئی ذات حاکم نہیں ہو سکتی۔ جس طرح سے عبادت اور رازقیت و خالقیت میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح سے حکومت میں بھی اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں ہے۔ عالم تکوین اور عالم تشریع میں اللہ تعالی کی حاکمیت ہے۔ عالم تکوین میں توحید سے مراد یہ ہے کہ کائنات کے امور میں تصرف کرنے کا بالذات اور مستقل حق صرف خدا کو ہے۔ اور عالم تشریع میں توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق پر، انسانوں پر قانون گذاری کرنے کا حق، ان کے امور کی مدیریت، اور سیاسی حکمرانی کا حق صرف خدا کو حاصل ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ عالم تکوین میں تو آپ اللہ تعالی کی حاکمیت و توحید کو مان لیں اور دنیوی امور میں کسی ایسے حاکم کو مان لیں جو خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہے۔اگر خدا کی طرف سے مقرر حاکم آپ لوگوں پر حکمران ہے تو عالم تشریع میں بھی آپ توحید کے قائل ہیں۔ لیکن اگر ایک ایسا حاکم دنیوی امور میں ہم پر حکمران ہو گیا جو اللہ تعالی کی طرف سے نہیں وہ طاغوت ہوگا اور اس کا انکار ہم پر لازم ہے ۔ 

عدالت اجتماعی کی اہمیت

بعثت کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تعلیم و تربیت کے ذریعے انسانوں کی اصلاح ہو۔ انسان کمال کی طرف بڑھیں اور الہی راستوں پر چل کر قرب الہی کو حاصل کریں۔ اور بعثت کا دوسرا پہلو عدالت اجتماعی کا قیام ہے۔ اگر کسی معاشرے میں عدالت اجتماعی قائم نہ ہو اور ظلم کا نظام حاکم ہو تو وہ زندگی جہنمی زندگی ہے۔ ایسے معاشرے میں انسان کمال حاصل نہیں کر سکتے۔ مادی کمال حاصل کر سکتے ہیں اور نا ہی معنوی کمالات۔ اس کی مثال ہمارے ممالک ہیں۔ جہاں پر ظلم کا نظام حاکم ہے، انسانوں کی مادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہیں اور معنوی کمالات بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔ اجتماعی طور پر معاشرے ظلم کا شکار ہیں۔ نبی کا کام یہ ہے کہ اگر وہ لوگوں کی انفرادی اصلاح چاہتا ہے اور ان کو قرب الہی کی منازل تک پہنچانا چاہتا ہے تو عدالت اجتماعی کا نظام قائم کرے۔ در اصل عدالت اجتماعی مقدمہ ہے اور انفرادی اصلاح ذوالمقدمہ یا نتیجہ ہے۔ مثلا وضو مقدمہ ہے نماز کے لیے۔ اگر وضو نہ کریں تو نماز نہ ہوگی۔ اسی طرح سے اگر عدالت اجتماعی قائم نہیں ہوتی تو تعلیم و تربیت و لقاء الہی بھی معاشرے کو نصیب نہ ہوگا۔ 

معاشرے میں رائج دین

ہم سوچتے ہیں کہ پہلے معاشرے کی اصلاح کریں اور ان کی تبلیغ کرتے رہیں ایک دن سب لوگ ٹھیک ہو جائیں گے اور معاشرہ خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا۔ جبکہ اصل دین یہ نہیں ہے، انبیاء کی روش یہ ہے کہ اگر لوگوں کی اصلاح چاہتے ہیں تو وہ فقط تعلیم و تربیت اور صرف تبلیغ کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ آپ کو عدالت اجتماعی قائم کرنا ہوگی۔ با الفاظ دیگر آپ کو معاشرے کا نظام بدلنا ہے، انقلاب لانا ہے۔ اگر ظلم کا نظام بدل جاۓ اور عدل کا نظام آ جاۓ تو اس سالم و متناسب ماحول میں انسان اجتماعی طور پر تکامل حاصل کر پائیں گے۔ لیکن اگر ظلم کا نظام باقی رہے اور عدالت اجتماعی قائم نہ ہو، آپ ہزار سال تبلیغ کرتے رہیں اور انفرادی طور پر لوگوں کی اصلاح کرتے رہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔ ممکن ہے محلے کے چند افراد مومن ہو جائیں اور داڑھی رکھ لیں، نماز قائم کرنے لگیں لیکن اجتماعی طور پر پورا معاشرہ اصلاح نہیں پا سکے گا۔ انبیاء الہی کی روش درست روش ہے اور ہمیں اس روش کو اختیار کرنا چاہیے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کریں اور ساتھ میں ظلم کے نظام کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ الہی نظام توحیدی معاشرے کے قیام کی کوشش کریں۔[4] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۲۵تا۲۸۔

منابع:

منابع:
1 نحل: ۳۶۔
2 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۔
3 حدید: ۲۵۔
4 خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ص۲۵تا۲۸۔
Views: 21

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: بعثت کے معانی اور اس کی اقسام
اگلا مقالہ: بعثت کے مراحل