loading

{فصوص الحكم فارابی}

ذات احدیت اور واحدیت
درس: شرح فصوص الحکم (فارابی)
استاد: آيت الله حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

شرحِ فص ۵۶: الذات الأحدية لا سبيل إلى ادراكها … تعالى عما يصفه الجاهلون…

فارابی اس فص میں ذکر کرتے ہیں کہ ذاتِ احدیت کو درک کرنے کی کوئی راہ نہیں ہے بلکہ اس کو ہم اس کی صفات کے ذریعے سے پہچانتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی کنہِ معرفت حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ علم عالم کا معلوم کا احاطہِ علمی وجودی  کرنا ہے۔ اگر عالم محدود ہے تو وہ لا محدود کا احاطہِ علمی نہیں کر سکتا، مثلاً ہمیں اگر دیوار کا علم ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دیوار کا علمیِ وجودی احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لا محدود ہے جس کا احاطہ محدود نہیں کر سکتا۔ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کی صفات کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں لیکن کنہِ معرفت اصلًا ممکن نہیں ہے۔

آج ۱۰ ربیع الثانی ۱۴۴۳ ھ شبِ منگل جناب فاطمہ معصومہؑ کی وفات کی رات ہے لہٰذا اس مناسبت سے چند نکات ذکر کیے جاتے ہیں کہ مرحوم آیت اللہ شہاب الدین مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی تھے جو نجف میں تحصیل علم کے لیے تشریف لے گئے۔ سید محمود کے بارے میں آغا مرعشی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ۴۰ دن حرمِ امام علیؑ میں راتیں شب داری میں گزاری اور حالتِ مکاشفہ میں امام علیؑ کا دیدار کیا اور چند سوالات امام علیؑ سے کیے، ان میں سے ایک سوال یہ تھاکہ جناب فاطمہؑ کی قبر مطہر کہاں ہے؟ امام علیؑ نے جواب دیا کہ وہ قبر مخفی رہے اس لیے میں اس کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔ پھر امام علیؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی جناب سیدہؑ کی قبر کی زیارت کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ فاطمہ معصومہؑ کی زیارت کرے۔ اس وجہ سے آیت اللہ مرعشی کہتے ہیں میں قم میں منتقل ہو گیا اور ہر روز صبح جناب معصومہ ؑ کی قبر کی زیارت کرنے چاہتا ، چاہے گرمی ہو یا سردی ، میری کوشش ہوتی تھی کہ جب حرمِ معصومہؑ کا دروازہ کھلے تو میں پہلا شخص ہوں جو جناب معصومہؑ کی زیارت کرنے والا ہوں۔ آیت اللہ مرعشی بیان کرتے ہیں کہ بہت مرتبہ ایسا ہوتا کہ میں پہنچ جاتا اور دروازہ بند ہوتا تھا اور میں انتظار کرتا رہتا۔  آیت اللہ بہجت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ ایک دن ایسا نہیں ہے کہ ان سے زیارتِ جناب معصومہؑ قضاء ہوئی ہو۔ آئمہ اطہارؑ سے جناب فاطمہ معصومہؑ کی فضیلت اور زیارت کی تاکید وارد ہوئی ہے۔ امام رضاؑ سے آپؑ کی زیارت نقل ہوئی ہے۔امام رضاؑ سے روایت منقول ہے: 

عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا × قَالَ قَالَ: يَا سَعْدُ عِنْدَكُمْ لَنَا قَبْرٌ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَبْرُ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُوسَى ‘، قَالَ: نَعَمْ، مَنْ‏ زَارَهَا عَارِفاً بِحَقِّهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ. [1]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۸، ص ۳۱۷۔

نصیحتِ امیر المؤمنین ؑ

نہج البلاغہ اور دیگر کتبِ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ امام علیؑ نے فرمایا: إِنَّ أَعْظَمَ الْحَسَرَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَسْرَةُ رَجُلٍ كَسَبَ مَالًا فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّهِ، فَوَرِثَهُ رَجُلٌ فَأَنْفَقَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ فَدَخَلَ بِهِ الْجَنَّةَ وَ دَخَلَ الْأَوَّلُ بِهِ النَّار.[2]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۵۴، حکمت: ۴۲۹۔روزِ قیامت سب سے بڑی حسرت اس شخص کے لیے ہے جس نے اللہ کی اطاعت کے بغیر مال کمایا اور اس مال کو ورثہ کے طور پر چھوڑ گیا اور ورثاء نے اللہ سبحانہ کی اطاعت میں اس مال کو خرچ کیا جس کی وجہ سے ورثاء جنّت میں داخل ہو جائیں گے اور پہلا شخص اسی مال کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گا۔

قیامت کے مختلف نام وارد ہوئے ہیں، مثلا یوم القیامۃ، یوم الفصل یعنی جدائی کا دن، یوم الجمع ، یوم التغابن…انہی میں سے ایک نام یومِ الحسرۃ ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{وَ أَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَ هُمْ في‏ غَفْلَةٍ وَ هُمْ لا يُؤْمِنُون‏؛ اور آپ انہیں یومِ حسرت سے انذار کریں جب امر سنایا جائے گا جبکہ وہ غفلت میں ہے اور ایمان نہیں لائے}‏. [3]مریم: ۳۹ قیامت یومِ حسرت ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی حسرت اس شخص کے لیے ہو گی جو مالِ حرام سے مال جمع کرتا ہے اور جب وہ مال چھوڑ کر جاتا ہے تو اولاد کو نہیں معلوم کہ یہ مال کہاں سے اور کیسے آیا لیکن وہ اولاد اس مال کو اللہ تعالی کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اولاد جنت میں اور باپ جہنم میں جائے گا کیونکہ باپ نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بغیر مال کمایا اور حرام طریقے سے مال جمع کیا ۔ ایسا ہوتا ہے کہ والدین فاسق و فاجر یا عند اللہ ملعون ہیں لیکن فرزند نیک ار پاکیزہ ہے جیسے یزید بن معایوہ کا بیٹا معاویہ بن یزید تھا جس نے اپنے باپ کی حکومت لینے سے انکار کر دیا اور اس کو مروا دیا گیا۔ وارد ہوۃا ہے کہ بنی مروان نے یزید کے بیٹے اس عمل کی وجہ تلاش کرنا شروع کی تو معلوم ہوا کہ یزید نے اپنے بیٹے کی تربیت کے لیے ایک استاد مقرر کیا تھا جو شیعہ تھا اور حالتِ تقیہ میں تھا جس نے اہل بیت ؑ کی محبت پر یزید کے بیٹے کی تربیت کی۔ بنی مروان نے اس استاد کو گرفتار کر لیا تو سخت ترین سزائیں دے کر حقائق کو اگلوایا۔ اسی طرح بعض اوقات پاکیزہ ترین والدین ہوتے ہیں جیسے حضرت نوحؑ اور ان کا بیٹا گمراہ اور پست نکلا۔ حضرت نوحؑ نے تو حلال نوالہ کھلایا لیکن معاشرے کا انحراف بیٹے پر غالب آ گیا، جیساکہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے کہ جب حضرت نوحؑ نے بیٹے کے لیے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {قالَ يا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ فَلا تَسْئَلْنِ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجاهِلين؛ اللہ نے کہا: اے نوح ، یہ تیرے اہل سے نہیں ہے کیونکہ اس کا عمل غیر صالح ہے}[4]ہود: ۴۶۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے تھے کہ یہاں عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ میں عمل پر حتمی طور پر تنوین پڑھیں ورنہ ترجمہ بنے گا کہ یہ بچہ ایک غیر صالح عمل کا نتیجہ ہے یعنی ان کی زوجہ پر تہمت جائے گی جوکہ نادرست اور باطل ہے کیونکہ انبیاء ؑ کی ازواج کردار کے اعتبار سے پاکیزہ تھیں لیکن نوحؑ کی زوجہ کے قلب میں نفاق تھا۔

امام علیؑ سے غرر الحکم میں منقول ہے: اجْتِنَابُ السَّيِّئَاتِ أَوْلَى مِنِ اكْتِسَابِ الْحَسَنَات‏.[5]آمدی، غرر الحکم،  ص ۱۸۵، حکمت: ۳۵۱۴۔برائیوں سے اجتناب کرنا نیکیوں کو کسب کرنے سے زیادہ اولی و بہتر ہے۔مولوی کہتے ہیں کہ پہلے انبار سے چوہوں کو نکالو پھر اس میں گندم کو اس میں محفوظ کرو۔ ہم سالہاسال نمازیں دعائیں پڑھتے ہیں لیکن کوئی اثرات نہیں دیکھتے کیونکہ امراض کو اپنے نفس سے دور نہیں کرتے۔ پس پہلے برائیوں کو ترک کریں اس کے بعد حسنات ہمیں نفع دیں گی۔ 

عالم خلق اور عالم امر:

یہ فص طولانی ہے۔ ایک عالم خلق  ہے، ایک عالم امر اور ایک ما فوقِ عالم امر ہے ۔ عالم خلق کو ہم حس کے ذریعے درک کرتے ہیں اور عالم امر کو عقل کے ذریعے ۔ عالم امر تک نہ حس کی رسائی ہے اور نہ عقل کی ۔ حس کے ذریعے سے مجردات کو درک نہیں کر سکتے اس لیے عالم امر کو محسوسات کے ذریعے درک نہیں کیا جا سکتا۔ عالم امر کو عقل سے درک کیا جا سکتا ہے جہاں محسوسات کی رسائی نہیں۔ اسی طرح سے ما فوق عالم امر تک نہ حس کی رسائی ہے اور نہ عقل کی۔  اس لیے اللہ تعالیٰ تک نہ عقل کی رسائی ہے اور نہ حس کی ۔مافوق امر کو اگر حس اور عقل ہر دو درک نہیں کر سکتی تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ما فوق امر غائب، مخفی اور پوشیدہ ہے ! نہیں بلکہ شدتِ نور کی وجہ سے حس اور عقل درک نہیں کر سکتے۔  ایک علم حصولی ہےاور  ایک علم شہودی ہے۔ علم حصولی چیزوں کی صورتوں سے متعلق ہے جبکہ علم شہودی کے ذریعے سے اس کا ادراک ہو سکتا ہے جس تک حس کی رسائی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت منقول ہے : « سَتَرَونَ رَبَّكُم كَمَا تَرَوۡنَ الۡقَمَرَ لَيۡلَةَ الۡبَدَر <. [6]فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۲۳۵۔   بعض روایات اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرتی ہیں جبکہ بعض دیگر اللہ تعالیٰ کی رؤیت کو ثابت کرتی ہیں کیا یہ تنافی ہے؟ حقیقت میں تنافی نہیں ہے کیونکہ جن احادیث میں رؤیتِ باری تعالیٰ کا انکار کیا گیا ہے وہ حواس اور عقل سے رؤیت ہے جبکہ جن میں رؤیت کا اثبات کیا گیا ہے وہاں قلب سے رؤیت کو ثابت کیا گیا ہے نہ کہ حس اور عقل سے۔ حس، عقل اور قلب انسان رکھتا ہے۔ قلب جسے بعض عشق سے بھی تعبیر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکتا ہے۔ الکافی میں امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ امام علیؑ سے فرماتے ہیں: « عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ حِبْرٌ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حِينَ عَبَدْتَهُ، قَالَ فَقَالَ: وَيْلَكَ مَا كُنْتُ أَعْبُدُ رَبّاً لَمْ أَرَهُ، قَالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ ؟ قَالَ: وَيْلَكَ لَا تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فِي مُشَاهَدَةِ الْأَبْصَارِ وَلَكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْإِيمَانِ <. [7]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۴۲۔ ضروری نہیں ہے کہ انسان ہر شیء کو حس سے درک کرےبلکہ ہم اس دنیا میں جواہر کو حس سے درک نہیں کرتے بلکہ اس پر عوارض کو درک کرتے ہیں، جیسے ہم دیوار کو نہیں دیکھتے بلکہ ہم اس پر سفید اور رنگ کو دیکھتے ہیں، اسی طرح ہم اس کی مقدار یعنی طول، عرض  کو درک کرتے ہیں جوکہ جوہر کے اندر متحقق ہے۔ پس ہم اس دنیا میں جواہر کو حس کے ذریعے سے درک نہیں کر پاتے بلکہ جواہر پر اعراض طاری ہیں انہیں ہم درک کرتے ہیں، مثلا رطوبت ، شدت وغیرہ۔ ظاہری حواس سے ہم اگر کسی شیء کو درک کر نہ پائیں تو ہمیں اس شیء کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ سورہ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے: { تَبارَكَ الَّذي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً وَ جَعَلَ فيها سِراجاً وَ قَمَراً مُنيرا؛ }[8]فرقان: ۶۱۔

محیط کے احاطہ کی  اقسام :

عالم امر عالم خلق کو محیط ہے کیونکہ عالم امر نے عالم خلق کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ محیط کا احاطہ دو طرح سے ہوتا ہے:
۱۔ مادی  احاطہ:
جیساکہ ہم نے اشیاء کا احاطہ کیا ہوتا ہے۔ یہ   احاطہ ظاہری اور مختصر ہے۔ ہمارے لباس نے ہمارے بدن کا احاطہ کیا ہے لیکن یہ احاطہ ظاہری ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ عالم امر نے عالم خلق کا احاطہ کیا ہے تو اس سے مراد یہ ظاہری احاطہ نہیں ہے جس میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے چپکی ہوئی ہوتی ہیں ۔
۲۔ وجودی احاطہ:
عالم امر کا عالم خلق کے احاطہ سے مراد ہستی اور وجود کا احاطہ ہے، جیسے دریا کا موجِ دریا کا احاطہ کرنا ہے۔ یہ نوعِ احاطہ پورے وجود کا احاطہ کرتا ہے۔ جس طرح علت کا معلول کا احاطہ کرنا ہے اسی طرح سے عالم امر نے عالم خلق کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ یہ دونوں عوالم یعنی عالمِ امر اور عالم خلق کا احاطہ عالمِ الہ نے کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم امر اور اور عالم خلق ہر کا احاطہ کیے ہوئے ہے لیکن یہ احاطہ مادی یا حسمانی نہیں ہے بلکہ یہ وجودی احاطہ ہے۔  ۔ ان عوالم میں جدائی ایسی نہیں ہے کہ کوئی ربط ہی نہ ہو۔ اس مطلب کے استدلال کے لیے آیت اللہ حسن زادہ آملی نے بعض احادیث نقل کی ہے۔ امام علیؑ سے منقول ہے:
> مَعَ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ وَغَيْرُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ لَا بِمُزَايَلَةٍ <. [9]سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۴۰ ، خطبہ ۱۔ الکافی میں امام علیؑ سے روایت نقل ہوئی ہے جس میں دقیق طور پر امامؑ نے اس مطلب کو اس طرح ذکر کیا ہے: > دَاخِلٌ‏ فِي‏ الْأَشْيَاءِ لَا كَشَيْ‏ءٍ دَاخِلٍ فِي شَيْ‏ءٍ وَ خَارِجٌ مِنَ الْأَشْيَاءِ لَا كَشَيْ‏ءٍ خَارِجٍ مِنْ شَيْ‏ءٍ <.  [10]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۱۴۔امام علیؑ سے ایک اور جگہ منقول ہے: > دَلِيلُهُ آيَاتُهُ وَ وُجُودُهُ إِثْبَاتُهُ وَ مَعْرِفَتُهُ تَوْحِيدُهُ وَ تَوْحِيدُهُ تَمْيِيزُهُ مِنْ خَلْقِهِ وَ حُكْمُ التَّمْيِيزِ بَيْنُونَةُ صِفَةٍ لَا بَيْنُونَةُ عُزْلَةٍ <. [11]طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج ۱، ص ۲۰۱۔ جو اشیاء تمایز رکھتے ہیں  وہ دو طرح کا تمایز رکھتے ہیں: ۱۔ تمایز تقابلی، جیسے زید اور عمرو میں تمایز، دیوار اور زمین میں تمایز ، ہر ایک کی خصوصیات جدا اور اسی کے وجود کے ساتھ خاص ہیں، ۲۔ تمایزِ احاطی و محاطی: محیط مسلط ہے محاط پر ۔ یہ دونوں جمع ہو سکتے ہیں۔ عالم امر کا عالم خلق کا احاطہ اسی نوع سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا ان دونوں عوالم کا احاطہ اسی نوع سے ہے۔  محیط اور محاط میں جدائی نہیں ہے بلکہ محیط کاملًا محاط کو گھیرے ہوئے ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {وَ لِلَّهِ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ كانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحيطا؛ }. [12]نساء: ۱۲۶۔ سورہِ توحید میں تین ’’لم‘‘ آئے ہیں جس کے بارے میں امام حسینؑ سے روایت آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کبھی جدائی نہیں ہوتی کیونکہ ان تین ’’لم‘‘ صمد کی تفسیر ہے۔ صمد کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ لا جوف لہ، اگر اللہ تعالیٰ سے جدائی ہو جائے تو پھر تو فاصلہ اور جوف آ گیا۔ اسی لیے سورہ حدید میں ارشاد ہوا: {وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصير؛ }. [13]حدید: ۴۔ اسی لیے امام علیؑ نے فرمایا کہ بینونۃ عزلۃ نہیں ہے۔  عرفاء کی طرف بعض جھوٹی نسبت دیتے ہیں کہ عرفاء اللہ تعالیٰ کے حلول و اتحاد کے قائل ہیں۔ علامہ حسن زادہ کہتے ہیں کہ حلول تب ہوتا ہے جب دو چیزیں ہوں اور اسی طرح اتحاد تب ہوتا ہے جب دو چیزیں ہوں۔ یہاں دو چیزیں نہیں ہیں۔

فلاسفہ کی نظر میں احدیت اور واحدیت:

ایک احدیت ہے اور ایک واحدیت۔ اللہ تعالیٰ احد بھی ہے اور واحد بھی۔ ان دونوں میں فرق ہے البتہ حکیم کی نظر میں احدیت اور واحد میں فر ق ہے لیکن عارف کی نگاہ میں دونوں میں فرق ایک اورمعنی میں ہے۔ ہر دو نے جو فرق ذکر کیا ہے وہ درست ہے۔ حکیم و فیلسوف بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے لیکن عدد کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ عدد کی صورت میں واحد ہو تو اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونا لازم آئے گا جس میں ایک ہے تو دو ، تین …  نہیں ہے اور اس صورت میں اللہ تعالیٰ کو محدود ماننا پڑے گا۔ واحد یعنی اللہ تعالیٰ حقیقت میں واحد ہے  اور فقط ایک حقیقت ہے، مثلا ایک مجتہد نے کئی سال درس پڑھ کر ملکہِ اجتہاد حاصل کر لیا اور پھر وہ توضیح المسائل لکھتا ہے جس میں کئی ہزار مسائل فقہی لکھتا ہے۔ یہ ملکہ اجتہاد ایک چیز ہے لیکن یہ ہزاروں مسائل اس میں ہیں۔ یہ ملکہ اس کا وجودِ اجمالی ہے اور یہ ہزاروں فقہی مسائل اسی مجتہد کا وجودِ تفصیل ہے۔ اسی طرح ہم ہم نفس رکھتے ہیں اور ایک قُوَی نفس ہے۔ اب نفس ایک ہے لیکن یہ نفس عدد میں ایک نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ایک ہے ۔ قُوَی کے متعدد ہونے سے نفس متعدد نہیں ہو گیا۔ فلاسفہ کی نظر میں واحد عدد ساز ہے خود عدد نہیں ہے لیکن یہ پہلوِ گفتگو جدا ہے۔ ہماری یہاں  مراد حکیم کی نظر میں واحد سے  مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں واحد ہے جس کا کوئی مقابل نہیں ہے، جیساکہ متعدد مثالیں بیان کی ہیں کہ نفس اور قُوَی نفس اور مجتہد کا ملکہ اور فقہی مسائل ۔ نفس قوتِ باصرہِ، سامعہ وغیرہ رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود نفس اور قُوَی میں فرق ہے۔ یہاں ہم جو کہیں گے وہی اللہ تعالیٰ اور مخلوق کی نسبت سے کہا جائے گا۔

فلاسفہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو احد مانتے ہیں ۔ واحد یعنی جس کا کوئی مقابل اور ثانی نہیں ہے جبکہ ’’احد‘‘ سے مراد ایسی ذات مراد لیتے ہیں جو بسیط ہے اور کسی قسم کے اجزاء نہیں رکھتا کیونکہ ہر مرکب جو اجزاء رکھتا ہے وہ محتاج ہے، حدِّ اقل مرکب خد خود کسی جزء کا محتاج ہے  جبکہ اللہ تعالیٰ احتیاج سے منزہ و پاک ہے اس لیے کسی شیء سے اللہ تعالیٰ مرکب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بسیط ِ محض ہے اور فقط اللہ سبحانہ بسیطِ محض ہیں۔ مجردات، عالم عقول بھی بسیطِ محض نہیں ہیں کیونکہ حدِّ اقل عقول ماہیت اور وجود سے مرکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی ذاب بسیطِ محض نہیں ہے۔ انسان کا نفس بھی وحدت رکھتا ہے لیکن نفسِ انسان کی وحدت ظلی و محتاجِ علت و سبب ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ذی ظل ہے۔ اس لیے حکماء اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں: بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء ، ولیس الشیء منہا۔ اگر ایک شیء حقیقی معنی میں بسیط ہو تو تمام جہان کی حقیقت کو محیط ہو گی۔ اس کو ہم نفس اور اس کی قُوَی سے سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کا نفس ایک ہے لیکن اس کی قوت فقط باصرہ نہیں ہے ، یا اس کی قوت فقط سامعہ نہیں بلکہ متعدد قوتیں ہیں۔ نفس اور اس کی قُوَی میں فرق ہے دونوں ایک نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود نفس ان سب کو محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور مخلوق میں فرق ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات عینِ مخلوق نہیں ہے ، دونوں میں فرق ہے لیکن اس کے باوجوداللہ تعالیٰ ان سب کو محیط ہے۔ شر التراکیب وجدان اور فقدان ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قسم کی ترکیب نہیں رکھتا۔ ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ بعض چیزیں رکھتا ہے اور بعض نہیں اور وجدان و فقدان کی ترکیب بدترین ترکیب ہے۔ علامہ نے ان مطالب کو بیان کرنے کے لیے متعدد روایات ذکر کی ہیں جسے یہاں بیان کرنے کی ابھی فرصت نہیں ۔پس بسیط الحقیقۃ وہی ہے جو قرآن کریم کہتا ہے: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَد؛ }. [14]توحید: ۱۔ یہاں سے ہمیں معلوم ہو گیا فقط تنزیہ درست نہیں ہے، بعض نے فقط تنزیہ کو لے لیا اور کہا اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیت سے عاری ہے ۔ اسی طرح فقط تشبیہ بھی درست نہیں ہے۔ جنہوں نے تنزیہ کو تنہا لیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو محدود کر دیا اور اللہ تعالیٰ کو شبیہ قرار دے دیا۔ اسی طرح جنہوں نے فقط تشبیہ کو لے لیا اور اللہ تعالیٰ کو جسم قرار دیا ، جیساکہ مجسمہ فرقہ تاریخ میں رہا ہے جنہوں نے قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے جسمانیت کا نظریہ اختیار کیا۔ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کو محدود کر دیا اور جسم و جسمانیت میں مقید کر دیا۔ جو اہل تنزیہ ہیں ان کی سیدھی آنکھ بینا ہے لیکن ان کی بائیں آنکھ نابینا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسم نہیں ہے لیکن جسم سے جدا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ مجردہِ محض نہیں مثلِ عقول لیکن مجردات سے جدا نہیں، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ وَ هُوَ السَّميعُ الْبَصير؛ }. [15]شوری: ۱۱۔اس آیت کریمہ پر دقت کریں کہ اس کا پہلا حصہ ’’لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ‘‘ تنزیہ کو بیان کر رہا ہے اور ’’وَ هُوَ السَّميعُ الْبَصير‘‘ تشبیہ ہے کہ انسان بھی سمیع بصیر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی سمیع بصیر ہے ۔ امام صادقؑ سے روایت منقول ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: إنّ الجمع بلا تفرقة زندقة، والتفرقة بدون الجمع تعطيل، والجمع بينهما توحيد۔ [16]خوئی، حبیب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج ۱۹، ص ۲۱۶۔ پس تشبیہ اور تنزیہ میں جمع کرنا عینِ توحید ہے۔پس اللہ تعالیٰ مغایرت رکھتا ہے لیکن ربط و تعلق بھی رکھتا ہے۔ تشہد میں ہم پڑھتے ہیں کہ ’’اشہد أن محمدا عبدہ‘‘ یہاں ’’عبدہ‘‘ بلیغ و دقیق تر ہے ’’عبد اللہ‘‘ سے۔ 

عارف کی نظر میں احدیت اور واحدیت:

عرفاء کی اصطلاح میں احد کا دو معنی ہے:
۱۔ احد یعنی جو واحد کے مقابل ہے
۲۔ احد یعنی جو مقابل نہ رکھتا ہے۔

 ذاتِ غیب الغیوب حق تعالیٰ ہے جو نہ اسم رکھتا ہے نہ رسم۔ فقط ضمیر ’’ہُ‘‘ کے ذریعے اس کی ذات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اس ہُ ضمیر سے مراد غیب الغیوب مراد ہے یعنی فقط اسی کی ذات۔ سورہ توحید میں ہم پڑھتے ہیں:{قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَد؛ }.  [17]توحید: ۱۱ یہ ’’ھُوَ‘‘ اللہ ہے، یہ ’’ھُوَ‘‘ صمد ہے ، یہ ’’ھو‘‘ لم یلد و لم یولد، ولم یکن لہ کفوا احد ہے۔ اس مقامِ ’’ہُ‘‘ تک کسی کی رسائی ممکن نہیں ہے اور یہ کسی کے لیے کشف نہیں ہو سکتا اس لیے ذات الہٰی کا تقاضا نہ کریں اور نہ اس کے لیے تگ و دو کر کے اپنے آپ کو خستہ نہ کرے کیونکہ یہ علاقہ ممنوعہ ہے۔ یہ احد کا ایک معنی ہے عرفاء کی نگاہ میں۔یہ فقط ذات سے تعبیر ہے جس کا کوئی مقابل نہیں ہے۔

احد کے دوسرے معنی میں ذات سے ہم تنزل کرتے ہیں اور نیچے آتے ہیں۔ دعاء جوشن کبیر ایک ہزار ایک اسماء ہیں جس میں ۵۵ نمبر ۱۱ عدد ہیں اور اسی وجہ سے آیت اللہ حسن زادہ آملی نے اپنی بعض  کتابوں کا نام ہزار و یک نام رکھا ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ اللہ تعالیٰ فقط یہ ایک ہزار ایک اسماء نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ عرفاء کی نظر میں مقامِ جمع الجمع اور مقام تفصیل دو مقام ہیں۔ عرفاء کی نظر میں وجودِ جمعی کو احدیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہی وجودِ جمعی یعنی احدیت کو مرتبہِ ملکہ کہتے ہیں۔ مقامِ تفصیل اسی ملکہ کی بناء پر حاصل ہونے والی تفصیل ہے، مثلا ایک بندہ خطاطی کی صلاحیت محنت مشقت کر کے حاصل کرتا ہے اور اسی صلاحیت کو ملکہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس ملکہ کی بناء پر خطاط جو لکھتا ہے یہ اس کی تفصیل ہے۔ یہاں مقامِ جمع یعنی ملکہ یعنی احدیت زیادہ بالاتر ہے۔ اسی کے ذیل میں آیت اللہ حسن زادہ آملی نے معراج کی طرف ایک اشارہ کیا ہے ۔معراج کے ذیل میں ۹ افلاک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد جسمانی افلاک نہیں بلکہ مقامات و ارواح ِ افلاک ہیں اور آخری فلک کے بعد عرش ہے۔ ارواح کے مراتب بیان کیے گئے ہیں، پہلا مرتبہ روحِ مومن کا ہے، اس سے بالاتر روحِ عابد ،اس سے بالاتر  روحِ زاہد، اس سے بالاتر روحِ و مقام عارف، بالاتر روح و مقام ولی،پھر  نبی،پھر  رسول، پھر اولوا العزم، ان سب میں سے بالاتر اور بلند تر روحِ رسول اللہ ﷺ ہے اور ان کے مقام پر آیت مباہلہ کی دلیل کی بناء پر امام علیؑ ان کےساتھ ہیں۔اللہ تعالیٰ کے علم کے مراتب ہیں، ایک مرتبہ علم عین ذاتِ اقدس ہے، ایک مرتبہ اعیان ثابتہ ہے، اس کے بعد مرتبہ لوح محفوظ ہے، ایک مرتبہ کتاب مبین ہے، ایک مرتبہ خود وجودِ اشیاء ہے۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۸، ص ۳۱۷۔
2 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۵۴، حکمت: ۴۲۹۔
3 مریم: ۳۹
4 ہود: ۴۶۔
5 آمدی، غرر الحکم،  ص ۱۸۵، حکمت: ۳۵۱۴۔
6 فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۲۳۵۔
7 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۴۲۔
8 فرقان: ۶۱۔
9 سید رضی، نہج البلاغہ ، ص ۴۰ ، خطبہ ۱۔
10 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۱۴۔
11 طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج ۱، ص ۲۰۱۔
12 نساء: ۱۲۶۔
13 حدید: ۴۔
14 توحید: ۱۔
15 شوری: ۱۱۔
16 خوئی، حبیب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج ۱۹، ص ۲۱۶۔
17 توحید: ۱۱
Views: 303

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: کتاب کا مقدمہ (تمہید القواعد)
اگلا مقالہ: عالم مثال اور اس کی اقسام