loading

{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}

عالم مثال اور اس کی اقسام

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: آيت الله شيخ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

فصل سادس: فیما یتعلق بالعالم المثالی

عرفاء ممکنات کے عوالم کو تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں: عالمِ دنیا جسے ناسوت کہتے ہیں، عالم ملکوت اور عالم جبروت۔ یہ تین عالمِ امکان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ چوتھا عالم ’’عالمِ لاہوت‘‘ ہے جو اللہ سبحانہ کے ساتھ مختص ہے۔ عالم امکان کے یہ تین عوالم ایک دوسرے کے طول میں ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے عرض میں ہیں۔ ہر عالمِ مافوق محیط اور عالم مادون محاط ہے۔ ہر عالم مافوق حقیقت ہے اور ہر عالم ما دون اس حقیقت کی رقیقت ہے ، ہر عالم ما فوق علت ہے اور ہر عالم ما دون اس عالم کا معلول ہے۔ یہ عالم ناسوت یعنی عالم دنیا ، عالم طبیعت ، موجوداتِ مادی مادہ اور مقدار ہر دو کے مالک ہیں۔ یہ عالم ناسوت کی خصوصیت ہیں۔ ہم اس وقت عالم ناسوت عالم دنیا میں ہے۔ جہاں تک عالمِ مثال کا تعلق ہے تو وہ مادہ نہیں رکھتا لیکن مقدار یعنی شکل و صورت و شمائل رکھتا ہے، مثلا آپ آئینے میں تصویر دیکھتے ہیں ، آپ کا وزن مثلا ۷۰ کلو ہے لیکن آئینہ میں جو تصویر بن رہی ہے وہ تصویر تو ہے جو شکل و صورت کو ظاہر کر رہی ہے لیکن اس تصویر کا وزن نہیں ہے اور نہ ہی یہ تصویر شیشہ کے وزن میں اضافہ کر رہی ہے۔ اس کو تصویر کو موجود مثالی کہتے ہیں۔ موجوداتِ عالم جبروت، عقول، ملائکہ نہ مادہ رکھتے ہیں اور نہ مقدار اور شکل و شمائل ، کاملاً مجرد ہے۔ اللہ تعالیٰ مجردِ محض ہے جوکہ نہ مقدار و مادہ نہیں رکھتا۔

پس عالم مثال واسطہ ہے دو عوالم کے درمیان یعنی عالم ناسوت اور عالم جبروت کے درمیان واسطہ عالم مثال ہے جوکہ ایک نمونہ عالم ناسوت کا رکھتا ہے اور ایک نمونہ عالم جبروت کا رکھتا ہے، عالم ناسوت سے شکل و شمائل اور عالم جبروت سے مادہ کا نہ ہونا ہے۔ اسی طرح عالم ناسوت کی خصوصیات سے عاری ہے اور عالم جبروت کی خصوصیت سے بھی عاری ہے، مثلا عالم ناسوت مادہ رکھتا ہے لیکن عالم مثال مادہ نہیں رکھتا اسی طرح عالم جبروت مقدار نہیں رکھتا لیکن عالم مثال مقدار رکھتا ہے۔ آیت اللہ حسن زادہ آملی عالم مثال کو سحر سے تشبیہ دیتے ہیں جوکہ نہ دن ہے اور نہ رات ہے۔عرفاء عالم مثال کو قبول کرتے ہیں جبکہ فلاسفہِ مشاء اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دو قوس ہیں: ۱۔ قوسِ نزول  یعنی اوپر سے نیچے کی طرف آنا، ۲۔ قوس صعود یعنی نیچے سے اوپر کی طرف جانا۔ قوس صعود ہیولی سے شروع ہوتا ہے، رفتہ رفتہ برترین خلقت میں ڈھل جاتا ہے۔ قرآن کریم میں قوس نزول و صعود کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہوتا ہے:{يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ في‏ يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّون؛  } [1]سورہ سجدہ: آیت ۵۔

عالم مثال کی اقسام:

ہم دو عالمِ مثال رکھتے ہیں: ۱۔ قوس نزول، یعنی اوپر سے نیچے آنا، ۲۔ قوس صعود یعنی نیچے سے اوپر کی طرف جانا، قوس صعود کے اعتبار سے عالم مثال کو عالمِ برزخ کہتے ہیں  جسے عالمِ قبر بھی کہتے ہیں اور قوسِ نزولی کے اعتبار سے عالم الذر کہتے ہیں۔ ہم جسے قبر کہتے ہیں وہ بدن کی قبر ہے کیونکہ قبرستان میں سب کی قبریں یکساں ہیں کیونکہ ابدان سب یکساں اور مشابہ ہیں اس لیے قبر بھی سب کافر، مشرک، مومن مسلم کی یکساں ہیں۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فيما تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّها كَلِمَةٌ هُوَ قائِلُها وَ مِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلى‏ يَوْمِ يُبْعَثُون‏؛  } [2]سورہ مؤمنون: آیت ۱۰۰۔

عالم مثال متصل :

ایک عالم مثال وہ ہے جو ہمارے اندر ہے ،اس کو عالمِ مثالِ متصل کہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے وجود، ہمارے نفس سے متصل ہے۔جس طرح ظاہری اعضاء و جوارح اور ان کی قوتیں ہیں  اسی طرح ایک قوتِ عقل ہے اور ایک قوتِ خیال ہے۔ یہ قوتِ خیال معانی کو شکل و شمائل اور صورت دیتی ہے، جیسے یاقوت کا پہاڑ ، یہ یاقوت کا پہاڑ مادہِ خارجی نہیں رکھتا ، اس لیے ہم جتنا یاقوت کے پہاڑ کا تصور زیادہ کرتے چلے جائیں اس کے وزن میں اضافہ نہیں ہو گا۔ 

عالم مثال منفصل :

 ایک عالم مثال ہمارے نفس سے باہرہے  اور اندرون سے باہر ہے جسے عالم مثالِ منفصل یا عالم مثال مطلق کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات عالمِ مثال منفصل کو خیالِ منفصل اور عالم مثال متصل کو خیال متصل بھی کہا جاتا ہے، مثلاً خواب عالمِ مثال متصل یعنی خیالِ متصل ہے جبکہ عالمِ الذر  عالم مثال قوس نزول ہے۔ عالم مثال جسمِ مرکب یعنی مادی نہیں ہے۔ بعض نے جسمِ شفاف کہا ہے لیکن ان کی شفاف سے مراد بھی یہی ہے کہ ایسا جسم جو مادہ نہیں رکھتا ۔ عالم مثال کو برزخ کہا جاتا ہے تو ہر وہ شیء جو برزخ ہو وہ دو اشیاء کے درمیان حاجز یعنی رکاوٹ اور واسطہ ہے اور جو بھی اس خصوصیت کا مالک ہو وہ ان دونوں اشیاء سے جدا ہو گا۔ پس برزخ کی دو جہات ہیں جن میں سے ایک جہت کی شباہت ایک جانب سے اور دوسری جہت دوسری طرف سے مشابہ ہو گی۔ جنہوں نے جسمِ شفاف کہا ہے تو ان کا مقصود بھی اس کو غیر مادی کہنا ہے ، اس لیے عالم مثال کو جسم نوری کہہ سکتے ہیں جو جواہرِ مجردہ لطیف اور جواہر جسمانی مادی کثیف کے درمیان فاصل ہے۔ اگرچے مادی اجسام میں سے بعض انتہائی لطیف ہوتے ہیں ، جیسے سماوات۔ ہیئتِ بطلیموسی معتقد ہے کہ یہ افلاک نو(مشتری، زحل …)  ہیں جو پیاز کے چھلکے کی مانند ایک دوسرے پر ہیں لیکن اس قدر لطیف ہیں کہ وہ حاجب نہیں بنتے  جس کی وجہ سے ہم ان سے دور ستاروں کو دیکھ لیتے ہیں۔ قدماء کہتے تھے کہ سورج حرکت کرتا ہے اور زمین ساکن جبکہ آج کے دور میں اس کے برعکس کہتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ قدماء نے یہ فرض کیا تھا نہ کہ ان کی حتمی یہ رائے تھے کیونکہ اگر آپ فرض کریں کہ سورج حرکت میں ہو اور زمین ساکن کیونکہ حواس کے دائرہ میں اسی طرح آتا ہے تو ہمارے لیے حساب لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہم حساب کو آسانی سے انجام دینے کے لیے اس طرح سے فرض کرتے ہیں کہ سورج حرکت میں ہے ، نہ کہ سورج حقیقت میں حرکت میں ہے۔ پس نجومی حسابات کے لیے فرض کیا کرتے تھے کہ سورج کی حرکت محسوس ہے اس لیے اس کو ہم فرض کرتے ہیں کہ سورج حرکت میں ہے اور زمین ساقط ورنہ ان کی تحقیقی رائے یہ نہیں تھی۔ ہم آج بھی اپنے حساب کتاب کے لیے یہی فرض کرتے ہیں۔ لہٰذا جو یہ کہتے ہیں کہ بطلیموس کا نظریہ باطل ہو گیا اور اس نے غلط کہا تو یہ بات درست نہیں کیونکہ بطلیموس اصلاً سورج کی حرکت کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ فرض کرتے تھے کہ ہم سورج کو متحرک مان لیں۔

جسم مثالی:

 جسمِ مثالی حقیقت میں جسم نہیں لیکن اگر آپ جسم ہی کہنا چاہتے ہیں تو یہ جسمِ نورانی ہے۔ موجودِ مثالی موجودِ جوہری ہے نہ کہ عرضی جوکہ کسی جوہر کا محتاج ہوتا ہے۔ لہٰذا جنہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ عالم مثال عرضی ہے جیسے صورِ مثالی نفس کے ساتھ قائم ہیں تو ایسا نہیں ہے بلکہ عالم مثال جوہر ہے۔ ہماری صورتِ علمی پہلے نہیں تھے کیونکہ وہ ہمارے عینِ ذات نہیں ہے لیکن وہ ہماری ذات کے ساتھ متحد ہو سکتی ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{وَ اللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْأَبْصارَ وَ الْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون؛  }. [3]نحل: ۷۸۔ ایک عقل کلی ہے اور ایک نفسِ کلی ۔ نفس کلی کو لوح محفوظ بھی کہتے ہیں جبکہ عقلِ کلی کو قلم کہتے ہیں۔ نفس کلی تمام حقائق کا احاطہ رکھتا ہے۔ عالمِ مثالی کو اس لیے مثالی کہتے ہیں کیونکہ یہ عالمِ جسمانی کی صورتوں کو شامل ہے۔ عالمِ مثال سے پہلے عالم عقل جوکہ مادہ اور مقدار نہیں رکھتا۔ عالم مثال مقدار رکھتا ہے قوسِ نزولی کے مطابق۔  عالم مثال کو عالم خیَال بھی کہتے ہیں۔ اردو فارسی میں خیال کہتے ہیں جبکہ صحیح خَیَال ہے جیسے کہ شمال میں صحیح شَمال ہے۔ 

وجودِ مثالی اور قوس صعودی ونزولی:

 ليس من معنى من المعاني ولا روح من الأرواح:معانی  یعنی اعیانِ ثابتہ، روح یعنی جواہر مجردۃ۔ معانی اور ارواح ہر دو کے لیے صورتِ مثالی ہے جو ان کے کمالات کے مطابق ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر معانی یا ارواح کے لیے عالم مثالی میں اسم الظاہر سے ظہور ہے۔ صحیح السند روایت میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیلؑ کو سدرۃ المنتہی میں چھ سو بال و پَر کے ہمراہ دیکھا۔ اسی طرح صحیح السند حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جبرئیلؑ ہر صبح و شام نہرِ حیات میں داخل ہوتے ہیں اور پھر خارج ہوتے ہیں اور اپنے پروں کو جھڑتے ہیں جس کے گرانے والے قطرات سے اللہ سبحانہ لا تعداد ملائکہ کو خلق کرتا ہے۔ یہ سب کنایہ ہے وجودِ مثالی سے۔ نہرِ حیات سے مراد دوامِ وجود ہے۔ دنیا یعنی عالم طبیعت میں عرش، کرسی یعنی فلک ثوابت جسے فلکِ ہشتم بھی کہتے ہیں اور سماوات سبع یعنی مریخ، مشتری، زحل، قمر و خورشید  …موجود ہیں بالکل اسی طرح ہم عالمِ مثالی میں عرش، کرسی اور سات آسمان رکھتے ہیں۔ تمام املاک یعنی ملائکہ اور غیر ملائکہ سب کا وجودِ مثالی ہے۔ فلاک الافلاک کا اطلاق مختلف معانی پر ہوتا ہے۔ جہات میں فقط جہات بالا اور جہات پائین متغیر نہیں ہوتی ۔ یہاں اوپر نیچے سے مراد اعلی اور سفلی مراد ہے نہ کہ دوسری یا تیسری منزل کے اعتبار سے اعتباری ہے۔ بقیہ جہات دائیں بائیں ، مشرق ، مغرب متغیر ہوتا ہے۔

معراجِ رسول ﷺ کا دو طرح سے ہونا:

 معراجِ رسول ﷺ دو طرح سے تھی: ۱۔ عرضی ، ۲۔ طولی۔ اس دنیا میں معراج عرضی تھی جبکہ عالم مثالی میں معراج طولی تھی  جیساکہ روایات ِ معراج میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے آسمان میں آدمؑ ، دوسرے آسمان میں یحییؑ اور عیسیؑ سے ملاقات کی، تیسرے آسمان میں یوسفؑ اور چوتھے پر ادریس ؑ کو دیکھا۔ علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ ادریس وہی الیاس ہیں جوکہ زمین پر الیاس اور جب انہیں اٹھایا گیا تو ادریس ؑکہلائے۔ یہاں آسمان سے مراد آسمانِ مثالی ہے نہ کہ آسمانِ مادی۔ انبیاء ؑ اور اوصیاءؑ اگرچے نبی اور وصایت کے منزل پر تھے لیکن سب ایک مرتبہ اور فضیلت کے حامل نہیں تھے۔ انبیاء و رسلؑ کے وجودیِ مقامات پر فرق ہے جس کی بناء پر  رسول اللہ ﷺ نے سب کو ایک جگہ نہیں دیکھا بلکہ رتبہ کے اختلاف سےجدا جدا آسمان پر ملاقات کی۔ مختلف آسمانوں کی سیر عالم مثالی کی سیر ہے اور مختلف آسمانوں میں مختلف انبیاءؑ سے ملاقات اور دیدار دیدارِ مثالی ہے۔ پس یہ آسمان آسمانِ مثالی ہے۔

چشم برزخی کھلنے سے مراد

 قوس نزولی میں خلقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوئی اور قوسِ صعودی کہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف اس نے واپسی کا سفر کرنا ہے۔ عالم الذر قوس نزول میں وہی عالم مثال ہے البتہ قوسِ صعود میں عالم الذر نہیں تھا۔ عالم الذر میں نفسِ انسانی مادی جسم کے ہمراہ نہیں  لیکن  عالم الذر میں نفس کا وجودِ مثالی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شیء کو وجودِ مثالی عطا کیا ہے۔ حتی اعیانِ ثابتہ یعنی وجودِ علمی الہٰی میں وجودِ مثالی ہے۔ قوس نزولی اور قوس صعودی میں اشیاء ایک طول میں نہیں بلکہ نیم دائرہ کی صورت میں ایک دوسرے کے مقابل یعنی عرض میں ہے۔ قوس نزولی میں اشیاء نزول کرتی ہیں اور اسی کے مقابلے یعنی عرض میں صعود پیدا کرتی ہیں۔ پس قوس نزول اور قوس صعود ایک دوسرے کے عرض میں ہیں۔ ملائکہ اور عقول وجودِ مثالی رکھتے ہیں، حیوانات، نباتات، جمادات سب وجودِ مثالی رکھتے ہیں۔ چونکہ نباتات اور جمادات وجود ضعیف ہے اس لیے ظہور نہیں رکھتے ۔ عالم طبیعت ظلِ موجووات مثالی ہیں اور موجوداتِ مثال ظل موجوداتِ عقلی ہیں اور موجوداتِ عقلی ظلِ وجودِ الہٰی ہے۔ سایہ شاخص سے جدا نہیں ہے اس لیے یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔قوس نزول میں جو ہے وہ قوس صعود میں ظاہر ہوتا ہے لیکن اس سے جبر لازم نہیں آتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے انسان اختیار سے ان امور کو انجام دے گا۔  اگر انسان چشمِ برزخی کھل جائے تو وہ ہمارے ماضی اور مستقبل سے با خبر ہو جائے گا کیونکہ انسان کا ظاہر اس کے وجودِ مثالی کے مطابق ہے اس لیے روایت میں وارد ہوا ہے:   > فَاتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ الَّذِي خُلِقَ مِنْه؛‏مؤمن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ کے اس نور سے دیکھتا ہے جس سے اسے خلق کیا گیا ہے۔ <. [4]برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ص ۱۳۱۔علامہ حسن زادہ آملی کا ایک واقعہ ہے جس میں انہوں نے ملکوتی نگاہ سے مہمان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے خبر دی اور اس کی زوجہ سے کہا کہ تم اس سے شخص سے کیسے زندگی بسر کرتی ہو۔

اس فرق کی طرف توجہ رہنی چاہیے کہ عالم مثال ایک مطلق یعنی منفصل ہے اور ایک مقید یعنی متصل ہے۔ کُمَّل عالم منفصل میں دیکھتے ہیں کیونکہ وہ اس کمال پر پہنچے ہوتے ہیں جبکہ بعض ابھی کمال کی راہ میں ہیں وہ مثالِ متصل میں صورتوں کی صورت میں حقائق دیکھتے ہیں۔ اگر چشمِ بینا کوئی رکھتا ہو تو وہ ظل کو دیکھ کر حقیقت کو جان لے گا، مثلا اگر کوئی درخت کا سایہ دیکھے اور اس کی دید دقیق ہو تو وہ درخت کا سایہ دیکھ کر جان لے گا کہ درخت کس چیز کا ہے اور اس کی مقدار و طول و عرض و خصوصیات کیا ہیں۔ صورِ محسوسہ مثالی صورتوں کا ظل و سایہ ہیں ۔ روایتِ رسول ﷺ میں وارد ہوا ہے کہ دجال کی پیشانی پر کفر لکھا ہوا ہو گا جس کو فقط مؤمن پڑھ پائے گا۔ قرآن کریم میں اہل جنت کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:‏{سِيمَاهُمْ في‏ وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُود؛  ان کے چہروں پر سجود کے نشانات ہوں گے جس سے وہ پہچانے جائیں گے}. [5]فتح: ۲۹۔ یہاں سجود کے اثر سے مراد سجودِ باطنی یعنی عبودیت ہے۔ ورنہ چھوٹی سجدہ گاہ رکھ کر پیشانی میں سجدہ کا نشان بنانا آسان ہے کوئی مشکل کام نہیں ۔ یہاں اثرِ سجود سے مراد ظاہری سجود نہیں بلکہ یہ کنایہ ہے کہ کمالِ عبودیت سے۔ طولانی سجدے بہت قیمت رکھتے ہیں جو شیطان کی ناک رگڑ دیتے ہیں، خصوصا سحر کے وقت طولانی سجدہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اہل جہنم کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:‏{يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسيماهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّواصي‏ وَالْأَقْدام‏؛ مجرم اپنی علامتوں سے پہچانے جائیں گے تو انہیں پیشانی اور قدموں سے پکڑا جائے گا}. [6]رحمن: ۴۱۔

{ والمثالات المقيدة التي هي الخيالات … }

ایک مثال منفصل ہے اور ایک مثالِ متصل۔ یہاں مثالِ متصل سے بات ہو رہی ہے۔ مثال ِ متصل دریائے مثال منفصل سے متصل ہے۔ مثالِ مقید تمام موجودات رکھتے ہیں جوکہ انسان کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ حیوان بھی مثالِ مقید یا قوتِ خیال رکھتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ حیوان انسان کی نسبت سے قوی تر قوتِ خیال کا مالک ہے، جیساکہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ حیوانات ایسی آواز سن لیتے ہیں جو ہم نہیں سن پاتے، جیساکہ بعض پرندے کسی آواز کو سن پر پھڑپھڑاتے ہیں لیکن ہمیں اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ حیوان کی طرح نباتات بھی قوتِ خیال اور مثالِ مقید رکھتے ہیں، حتی کہ جمادات بھی مثالِ مقید کے مالک ہیں ۔ لیکن چونکہ جمادات کا وجود ضعیف ہے اس لیے ان کی مثالِ مقید بھی انتہائی ضعیف ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں کہ وجود ایک لشکر کے سردار کی مانند ہیں اور وجودی اوصاف مثلاً حیات، علم ، قدرت، ارادہ، سمع و بصر کہ انہیں وجود کے حقیقی اوصاف کہتے ہیں ، یہ اس سردار کے لشکر ہیں ۔ جہاں سردار ہے وہاں اس کے یہ لشکر موجود ہیں۔ جہاں سردار قوی ہے وہاں لشکر بھی قوی ہے اور جہاں سردار ضعیف ہے وہاں یہ لشکر بھی ضعیف ہے۔ انسان حیوانات، نباتات اور جمادات کی نسبت قوی ہے اس لیے اس کے لشکر اور اوصاف بھی قوی ہیں۔ حیوان نباتات و جمادات کی نسبت قوی ہے اس لیے ان کی نسبت اوصاف قوی تر رکھتا ہے اور اسی طرح نباتات اور جمادات میں نسبت ہے۔ یہ زمین وجود رکھتی ہے اور اگر وجود رکھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ زمین حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع اور بصر رکھتا ہے لیکن زمین کا وجود انتہائی ضعیف ہے اس لیے اس کے لشکر بھی ضعیف ہے۔ سورہ زلزال میں وارد ہوا ہے:‏{يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبارَها؛}.[7]زلزال: ۴۔ روایات میں وارد ہوا کہ زمین روزِ قیامت شہادت دے گی۔ اگر زمین تحملِ شہادت نہ رکھتی تو کیسے شہادت دیتی ؟! قرآن کریم میں اسی شہادت کا تذکرہ آیا ہے کہ انسان کی جلد و پوست شہادت دے گی:{وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْداءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ أَبْصارُهُمْ وَ جُلُودُهُمْ بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ قالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْ‏ء؛}. [8]فصلت: ۱۹-۲۰۔۔یہاں دقت کریں کہ آیت میں جب انسان کی جلد و پوست شہادت و گواہی دیں گی تو انسان پوچھے گا جس کے جواب میں وہ یہ نہیں کہیں گے کہ علّمنا اللہ بلکہ کہا : انطقنا اللہ ۔ سورہ اسراء میں آیا ہے کہ کوئی شیء ایسی نہیں ہے جو تسبیح نہ کرے ۔ شیء عموم رکھتی ہے جس کا اطلاق ہر شیء پر ہوتا ہے: {وَإِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَ لكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبيحَهُمْ ؛} ،[9]اسراء: ۴۴ہم ریڈیو کے بغیر کسی دوسرے ملک یا شہر کی باتیں نہیں سن سکتے لیکن جن کی سماعت قوی ہو وہ دیگر مخلوقات کی آواز اور گفتگو کو سن سکتے ہیں۔ اگر شیء علم و معرفت نہ رکھتی ہو تو وہ تسبیح نہیں کر سکتی۔ لیکن ہم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ ان کی تسبیح عقلی نہیں ہے کیونکہ انسان ہے جو علمِ عقلی رکھتا ہے جبکہ حیوانات، نباتات اور جمادات علم عقلی نہیں رکھتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک علمِ قلبی ہے، ایک علم عقلی ہے ، ایک علمِ خیالی ہے اور ایک علم حسی ہے ۔کتنی ایسی ہستیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم عنایت فرمایا جبکہ وہ کسی جگہ درس و تعلیم کے لیے نہیں گئے، جیسے جناب زینب ؑ۔ قرآن کریم میں سورہ کہف میں  جناب موسیؑ کے وصی کے بارے میں فرمایا: {فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا آتَيْناهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا وَ عَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْما؛} ،[10]کہف: ۶۵جمادات و نباتات کے شعور کے بارے میں مثنوی میں مولوی کہتے ہیں:

چون شما سوی جمادی می‌روید محرم جان جمادان چون شوی
( 1021)از جمادی عالم جان‌ها روید غلغل اجزای عالم بشنوید
( 1022)فاش تسبیح جمادات آیدت وسوسهْ تاویل‌ها نر بایدت
( 1023)چون ندارد جان تو قندیل‌ها بهر بینش کرده‌ای تأویل‌ها
( 1024)که غرض تسبیح ظاهر کی بود دعوی دیدن خیال غی بود
( 1025)بلکه مر بیننده را دیدار آن وقت عبرت می‌کند تسبیح‌خوان
( 1026)پس چو از تسبیح یادت می‌دهد آن دلالت همچو گفتن می‌بود

کتب میں رسول اللہ ﷺ اور مسجد نبوی میں موجود ایک درخت حنانہ کا تذکرہ کتب میں آیا ہے ۔ آپﷺ اس درخت کے ساتھ ٹیک لگاتے تھے۔

> الخرائج و الجرائح رُوِيَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ص لَمَّا بَنَى مَسْجِدَهُ كَانَ فِيهِ جِذْعُ نَخْلٍ إِلَى جَانِبِ الْمِحْرَابِ يَابِسٌ عَتِيقٌ إِذَا خَطَبَ يَسْتَنِدُ عَلَيْهِ فَلَمَّا اتُّخِذَ لَهُ الْمِنْبَرُ وَ صَعِدَ حَنَّ ذَلِكَ الْجِذْعُ كَحَنِينِ النَّاقَةِ إِلَى فَصِيلِهَا فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَاحْتَضَنَهُ فَسَكَنَ مِنَ الْحَنِينِ ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ يُسَمَّى الحَنَّانَةَ إِلَى أَنْ هَدَمَ بَنُو أُمَيَّةَ الْمَسْجِدَ وَ جَدَّدُوا بِنَاءَهُ فَقَلَعُوا الْجِذْعَ<. [11]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۷، ص ۳۶۵۔
نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے ۔ اسی مطلب کو بہترین طریقے مثنوی میں مولوی نے ذکر کیا ہے:

2113) اُستُنِ حنانه از هَجرِ رسول / ناله می زد همچو ارباب عُقول

2114) گفت پیغمبر : چه خواهی ای ستون ؟ / گفت : جانم از فراقت گشت خون

2115) مَسنَدت من بودم ، از من تاختی / بر سرِ منبر ، تو مَسنَد ساختی

2116) گفت : می خواهی تو را نخلی کنند / شرقی و غربی ز تو میوه چِنند ؟

2117) یا در آن عالم تو را سروی کند / تا تر و تازه بمانی در ابد ؟

2118) گفت : آن خواهم که دائم شد بَقاش / بشنو ای غافل ، کم از چوبی مباش

2119) آن ستون را دفن کرد اندر زمین / تا چو مردم ، حشر گردد یومِ دین

انسان کے علاوہ کوئی مخلوق کمال حاصل نہیں کر رہی۔ اس لیے یہ وجودات مثالِ مقید رکھتے ہیں لیکن مزید کمال حاصل نہیں کرتے ۔ حتی فرشتے مزید کمال حاصل نہیں کرتے بلکہ جیسا خلق ہوئے ابھی تک ایسے ہیں۔ فرشتوں اور دیگر وجودات میں فرق یہ ہے کہ فرشتے مُكَمِّل ہیں مستکمل نہیں جبکہ انسان کے علاوہ بقیہ تو مُكَمِّل بھی نہیں ہیں۔ مُكَمِّل سےمراد یہ ہے کہ فرشتے ہمیں کمال تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں اور ان کے توسط سے ہم کمال تک پہنچتے ہیں جبکہ مستکمل یعنی کمال طلب کرتے ہیں اور حاصل کرتے ہیں اور یہ انسان کے ساتھ خاص ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں حیوانات، نباتات اور جمادات مثالِ مقید رکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں جناب سلیمانؑ اور چیونٹی و پرندے کی گفتگو وارد ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {حَتَّى إِذا أَتَوْا عَلى‏ وادِ النَّمْلِ قالَتْ نَمْلَةٌ يا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَساكِنَكُمْ لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَ جُنُودُهُ وَ هُمْ لا يَشْعُرُون‏؛ [12]نمل: ۱۸۔ اسی طرح جناب سلیمانؑ اور پرندے کی گفتگو قرآن نے اس طرح نقل کی ہے:{وَ تَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقالَ ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبين‏ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَديداً أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطانٍ مُبين‏  فَمَكَثَ غَيْرَ بَعيدٍ فَقالَ أَحَطْتُ بِما لَمْ تُحِطْ بِهِ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقين‏ إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَ أُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ لَها عَرْشٌ عَظيم‏؛}. [13]نمل: ۲۰-۲۳۔

مافوق علت ہے اور مادون معلول ہے، ما فوق ذی ظل ہے اور مادون ظل ہے۔ عالم الالہ علت ہے عالم عقل کے لیے اور ذی ظل ہے۔ اسی طرح عالم عقل علت ہے عالم خیال کے لیے اور عالم خیال علت ہے عالم ملک یعنی عالم مادی کے لیے۔ اگر چشمِ برزخی کھل جائے تو وہ مثالِ مطلق سے بھی باخبر ہو سکتے ہیں۔ انسان فقط مثالِ مقید نہیں بلکہ مثالِ مطلق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ اگر کراماتِ اولیاء کو سنو یا پڑھو تو تعجب نہ کرو بلکہ اپنے اوپر تعجب کرو کہ یہ مقام یا یہ کرامت تمہیں کیوں حاصل نہیں ہے، یہ مقامِ تعجب ہے۔ اگر انسان سے یہ مشاہدات محجوب ہو جائیں اور انسان حجاب میں پڑا رہ جائے تو یہ اسفل السافلین میں سے ہے ، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: {أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلاَّ كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبيلا‏؛}. [14]فرقان:۴۴۔

عالم مثال کا ادراک اور اس کے اسباب 

عالم مثال میں ہم نے عالم منفصل اور عالم متصل کی تقسیم مطالعہ کی ۔ مثال متصل جوکہ خیال ہے نفس کی ایک قوت ہے، جس طرح قوتِ باصرہ نفس کی ایک قوت ہے، اسی طرح مثال کی ایک قسم خیال ہے۔ خیال نہ عینِ نفس ہے اور نہ غیرِ نفس ہے۔ جس طرح قوتِ باصرہ نہ عینِ نفس ہےبلکہ شئوونِ نفس کا ایک شئوون ہے اور متحد اس طرح سے نہیں ہے کہ یہ قُوَی عینِ نفس بن جائیں۔ پس خیال نہ عینِ نفس ہے اور نہ غیرِ نفس ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ عینِ موجودات ہے نہ غیرِ موجودات ہے۔ اگر ہم نفس اور اس کی قُوَی میں ربط و تعلق کو جان لیں تو ہم اللہ تعالیٰ اور مخلوقات کے درمیان ربط و تعلق کو جان لیں گے۔عالم مثال منفصل سے ارتباط قائم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر ہم عالم مثال متصل سے ارتباط قائم کریں تو جو واقع ہے اس سے دوچار ہوں گے؟ معلوم نہیں ، ممکن ہے ایسی اشیاء درک کریں جو واقع سے مربوط ہیں اور ممکن ہے واقع سے اس کا ربط نہ ہو۔ اگر واقع سے دوچار ہونا چاہتے تو تین امور کو وجود دینا ضروری ہے:

۱۔ بعض کا تعلق ہمارے نفس سے ہے      ۲۔ بعض کا تعلق ہمارے بدن سے ہے         ۳۔ بعض کا تعلق مجموعِ بدن و نفس سے ہے۔

الف: وہ جس کا نفس سے تعلق ہے:

وہ جس کا تعلق ہمارے نفس سے وہ تین امور ہیں جن میں پہلا’’مراقبہ‘‘ ہے ۔ انسان دائماً اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے محضر میں قرار دے۔ اس نفس کو انسان کنٹرول کرے۔ دوسرا صدق: حتی شوخی اور مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے۔ اگرچے ممکن ہے کہ انسان نے جھوٹ یا مذاق کر کے گناہ نہیں کیا لیکن اپنے آپ کو آلودہ کر دیا۔ تیسرا طہارت: طہارت دو قسم کی ہے، ۱۔ طہارتِ ظاہری، ۲۔طہارتِ باطنی ۔ نجاسات سے طہارت ضروری ہے ، اسی طرح  طہارتِ قوتِ خیال ضروری ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فکرِ گناہ بھی نہ کرے۔ اگرچے فکرِ گناہ گناہ نہیں ہے لیکن اثراتِ تکوینی رکھتا ہے۔ شبستری ’’گلشن راز‘‘ میں بیان کرتے ہیں: 

موانع چون در این عالم چهار است
طهارت کردن از وی هم چهار است

نخستین پاکی از احداث و انجاس
دوم از معصیت وز شر وسواس
سوم پاکی ز اخلاق ذمیمه است
که با وی آدمی همچون بهیمه است
چهارم پاکی سر است از غیر
که اینجا منتهی می‌گرددش سیر
هر آن کو کرد حاصل این طهارات
شود بی شک سزاوار مناجات۔ [15]شبستری، محمود، گلشن راز، بخش ۲۵۔

ب: وہ جس کا بدن سے تعلق ہے:

وہ جو بدن سے تعلق رکھتا ہے وہ صحت کا حصول ہے۔معتدل مزاج کا گہرا تعلق ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ ایامِ بیض میں روزے رکھے معلوم ہوا کہ کہ معدہ میں زخم ہو گیا ہے، چاہتا ہے کہ نمازِ شب کے لیے اٹھے لیکن جسم میں قوت ہی نہیں ہے۔ پُر خوری بری چیز ہے۔ کہا گیا ہے: البطنة تذهب بالفطنة۔[16]کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، ج ۲، ص ۳۶۔  پیٹ بھرنے سے فطانت چلی جاتی ہے۔ 

ج: وہ جس کا نفس اور بدن ہر دو سے تعلق ہے:

فرائض اور واجبات کی ادائیگی نفس اور بدن ہر دو سے مربوط ہے۔ انسان اگر نماز پڑھے بغیر نیت کے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نیت کا تعلق نفس سے ہے۔ جبکہ قیام و رکوع وغیرہ کا تعلق بدن سے ہے۔ اگر رکوع و سجود انجام دے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں تو ایسی عبادات کوئی خصوصیت نہیں رکھتیں۔ دعا کمیل پڑھتا رہے لیکن اصلًا توجہ ہی دعا کی طرف نہیں تھی !! انسان نے نماز شروع کیا اور حساب کتاب بازار کا شروع کر دیا۔ روایات میں آیا ہے کہ نماز حضورِ قلب کی مقدار کے مطابق بلندی کی طرف جاتی ہے۔ پس اسبابِ سوم نفس اور بدن ہر دو سے مربوط ہے، مثلاً طوافِ کعبہ، سعی و مروہ وغیرہ کہ ان کو انجام دینے کے لیے سالم بدن کا ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ توجہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہونی چاہیے۔

روشن مکاشفات کا معتدل مزاج سے تعلق

انسان ان شرائط کے ساتھ اگر عالم مثال سے ارتباط قائم کرے تو یہ دوام نہیں رکھتا کیونکہ بالآخر انسان کی بدنی حاجات و ضروریات ہیں، مثلاً انسان کو خوراک و آب کی ضرورت ہےو غیرہ جس کی وجہ سے انسان کا ربط منقطع ہو جاتا ہے اور وہ عالم مثال سے واپس عالم شہادت میں پلٹ آتا ہے۔ البتہ جب وہ عالم مثال سے واپس پلٹتا ہے تو بہت سی چیز کسب کر کے آیا ہے۔ اس نے عالم مثال میں جو مشاہدہ کیا تھا اس کی صورت خیال میں باقی رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے انسان عالم بیداری میں عالم مثال سے رابطہ قائم کرے اور ممکن ہے خواب اور نیند میں۔ لیکن وہ عالم شہادت میں واپس آ جاتا ہے کیونکہ اس کی بدنی حاجات ہیں۔ انسان کا شخصی مزاج اور بیماری ان امور میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ مزاج جتنا اعدل اور معتدل تر ہو گا عالم مثال سے ارتباط آسان ہو جائے گا۔ انسان کامل کا مزاج اعدل ترین ہوتا ہے اس لیے بآسانی عالم مثال سے ان کا ارتباط با راحت ہو جاتا ہے۔ آئمہ ؑ جب مریض ہوتے تھے تو اس وقت بھی ان کے لیے ارتباط ممکن ہوتا ہے ، جیساکہ کلینی نے الکافی میں پورا ایک باب بنایا ہے جس کا عنوان ہے کہ آئمہؑ جب چاہتے ہیں جان لیتے ہیں۔ اس میں ایک روایت کلینی نے نقل کی ہے: >عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ: إِنَّ الْإِمَامَ إِذَا شَاءَ أَنْ يَعْلَمَ عُلِّمَ <. [17]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۶۴۱۔ سعدی بیان کرتے ہیں:

یکی پرسید از آن گم کرده فرزند
که ای روشن گهر پیر خردمند

ز مصرش بوی پیراهن شنیدی
چرا در چاه کنعانش ندیدی؟
بگفت احوال ما برق جهان است
دمی پیدا و دیگر دم نهان است
گهی بر طارم اعلی نشینیم
گهی بر پشت پای خود نبینیم
اگر درویش در حالی بماندی
سر دست از دو عالم برفشاندی. [18]سعدی، گلستان، حکایت ۱۰۔

عبادات میں استمرار ہونا چاہیے۔ اگر نماز شب پڑھتے ہیں آدھا گھنٹے لیکن ایک دن چار گھنٹے نماز پڑھتے ہیں تو اس چار گھنٹے کا فائدہ نہیں ہے۔ استقامت اور استمرار ضروری ہے ، جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہوتا ہے: {إِنَّ الَّذينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلاَّ تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتي‏ كُنْتُمْ تُوعَدُون‏‏؛}. [19]فصلت:۳۰۔ ہمارا مسئلہ استقامت میں ہے کہ اگر یہ حاصل ہو جائے تو فرشتے نازل ہوں گے۔ فرشتے فقط انبیاءؑ پر نہیں اترتے بلکہ جس طرح جناب مریمؑ پر اترے اس طرح استقامت باعثِ نزول ملائکہ بن جاتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ وضو میں رہے، ذکر پڑھتا رہے البتہ ذکر سے مراد لسانی تکرار نہیں بلکہ قلبی توجہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف۔

خواب کی اقسام اور ان کی تعبیر

اگر کوئی دستوراتِ دین سے بے اعتنائی کرے، محرمات کو انجام دے، واجبات کو ترک کرے، شہوات میں غرق زندگی بسر کرے تو ایسا شخص جب خیالِ متصل میں کچھ دیکھتا ہے تو واقعیت کو نہیں دیکھتا۔ وہ اسی شیء کو دیکھتا ہے جو شہوات و محرمات انجام دیتا رہا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ بیداری میں بھی مشاہدات رکھتا ہو اور خواب و نیند میں بھی مشاہدات کرے۔ یہ مشاہدات کی ایک قسم حوادث ہیں جوکہ صورت و شکل و شمائل رکھتے ہیں اور دوسرے مشاہدات معانی سے تعلق رکھتے ہیں، جیساکہ علوم۔ مشاہداتِ انسانی اگر بیداری میں ہوں تو وہ یا تو مطابقِ واقع ہیں یا مطابقِ واقع نہیں اور اسی طرح مشاہداتِ انسانی اگر خواب میں ہوں تو ممکن ہے وہ مطابقِ واقع ہوں اور ممکن ہے مطابقِ واقع نہ ہوبلکہ اضغاثِ الاحلام ہوں۔ اضغاث ’’ضغث‘‘ کی جمع ہے اور احلام جمع ’’حُلم‘‘ ہے جس کو تعبیر کی جاتی ہے۔ انسان کے مشاہدات بیداری اور خواب ہر دو میں اس طرح ہے۔ جو واقعیت رکھتے ہیں چاہے بیداری ہو یا خواب ممکن ہے عینِ واقع کو دیکھے ، جیساکہ حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا  کہ وہ اپنے فرزند کو ذبح کر رہے ہیں اور قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ جو دیکھا بعینہ وہی حضرت ابراہیمؑ کے لیے پیش آیا اور انہوں نے فرزند کو ذبح کیا۔ یہ خواب تعبیر کی حاجت و ضرورت نہیں رکھتا۔ پس اگر عین واقعیت رکھتا ہو انسان کے مشاہدات تو وہ محتاجِ تعبیر نہیں ہیں۔ بعض اوقات انسان مشاہدات رکھتا ہے جوکہ بعینہ واقعیت نہیں بلکہ ایسے امور دیکھتا ہے جو ایک حقیقی معانی کی نشاندہی کرتے ہیں، جیسے عزیز مصر نے خواب دیکھا کہ سات کمزور گائیں سات موٹی گائیں کھا گئی۔ اس کی تعبیر سات سال خوشحالی اور فراوانی اور سات سال قحط کی صورت میں کی گئی۔ عزیز مصر کی قوتِ عاقلہ کو ایک معنی عطا کیا گیا جوکہ حقیقت رکھتا ہے لیکن وہ عزیز مصر کی ذہن میں نہیں تھا لیکن قوتِ خیال نے جو تصویر کشی کی وہ تھی۔ یہ خواب معبر کا محتاج ہے۔ معبر صورتِ ظاہری سے عبور دیتا ہے اور صورتِ ظاہری سے صورتِ حقیقی تک رسائی حاصل کر کے اس کو آشکار کرتا ہے۔ تعبیر کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عزیز مصر کے خواب کی تعبیر دربار میں موجود معبرین نہیں کر سکے لیکن جناب یوسف ؑ چونکہ صورتِ ظاہری اور صورتِ عاقلہ کو عطا کردہ معنی میں مناسبت کو جانتے تھے اس لیے آپؑ نے خواب کی تعبیر کر دی۔اسی طرح وہ خواب جو حضرت یوسفؑ کے زندان کے دو ساتھیوں نے دیکھا تو اس کی تعبیر بھی یوسفؑ نے بیان کی۔  ایک معنی ان دونوں کے قوتِ عاقلہ کو دیا گیا اور ایک قوتِ خیال نے تصویر کشی کی لیکن وہ قوتِ عاقلہ کے معنی کو نہیں سمجھ پا رہے تھے۔ یہاں حضرت یوسفؑ نے معبِّر کے طور پر تعبیر بیان کی۔ پس بیداری اور خواب ہر دو صورتوں میں انسان کے مشاہدات ہیں جوکہ واقعیت کے مطابق بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی ساختہِ و پرداختِ خیال ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

سالک کو استاد و رہنما کی ضرورت

 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ ہم نے بیداری یا خواب میں جو مشاہدہ کیا ہے وہ مطابقِ حقیقت ہے یا نہیں؟ یہاں رہنما اور استاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بدونِ استاد اس کی خبر نہیں ہو سکے گی۔ استادِ رہنما رہنمائی کرتے ہوئے نشاندہی کرتا ہے کہ جو تم نے دیکھا ہے وہ حقیقت ہے یا حقیقت نہیں ہے۔ مولانا رومی بیان کرتے ہیں:

هیچ کس از پیشِ خود چیزی نشد
                                         هیچ آهنْ خنجرِ تیزی نشد!

هیچ قنّادی نشد استادِ کار
                                         تا که شاگردِ شکرریزی نشد!

استادِ رہنما کون ہے ؟ ہم انتہائی بدترین زندگی بسر کرتے ہیں، حوزہ علمیہ نے کمیت کے اعتبار سے رُشد کیا ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے قحط ہے۔ استادِ رہنما وہ ہو سکتا ہے جو آپ کے باطن کو جان سکتا ہے تاکہ آپ کے مطابق وہ نسخہ تجویز کر سکے، مثلاً آپ ایک متخصص اسپشلسٹ کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں جبکہ آپ اور دوسرا شخص ہر دو ایک بیماری سے ہمکنار ہے لیکن ہر دو کو چیک کرنے کے بعد اسپشلسٹ الگ الگ دوا تجویز دیتا ہے۔ مرض ایک ہے اور معالج بھی ایک ہے لیکن دوا اور نسخے جدا اور الگ الگ ہیں کیونکہ ہر نسخہ مریض کے عین مطابق تجویز کیا گیا ہے۔ حوزہ علمیہ میں ہمیں اس طرح کا طبیب تلاش کرنا چاہیے اور وہ نگاہ کرے تو ہمارے لیے نسخہ تجوزیر کر دے۔ ممکن ہے ایک ذکر مثل دوا مفید ہے اور ممکن ہے خود سے انتخاب شدہ ذکر ہمیں مشکل سے دوچار کر دے، درست ہے کہ وہ ذکر ہے جیسے درست ہے کہ دوا ہے لیکن وہ ہمارے مطابق نہیں ہے تو وہ ہمیں مختلف قسم کی مشکلات سے دوچار کر دے گا۔ پس خضر چاہیے جو ہمارےلیے دوا اور ذکر اور نسخہ تجویز کرے۔ قرآن کریم نے جناب خضرؑ اور حضرت موسیؑ کے واقع کو ذکر کیا اور ان حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ شیخ اکبر نے ایک مکاشفہ میں جناب خضر ؑ سے دریافت کیا کہ حضرت موسیؑ کے سفرکے بارے میں۔ جناب خضرؑ نے بیان فرمایا کہ میں نے ہزارہا موارد آمادہ کیے تھے لیکن موسیؑ استطاعت نہیں رکھ سکے۔ ایک روایت منقول ہے رسول اللہ ﷺ سے کہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ اے کاش حضرت موسیؑ استطاعت رکھ پاتے تو خلقت کے اسرار اس سے زیادہ ہمارے سامنے آشکار ہوتے۔ استاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن علامہ حسن زادہ آملی سے دریافت کیا کہ آپ کو تو علامہ الہٰی قمشہ ای ، علامہ طباطبائی، علامہ حسن طباطبائی وغیرہ جیسے عظیم الہٰی افراد میسر آئے ہمارے لیے کیا ہے؟ ! علامہ نے بیان نے ایک نگاہ اٹھائی اور دیکھا اور یہ آیت کریمہ ارشاد فرمائی:  {إِنَّ هذَا الْقُرْآنَ يَهْدي لِلَّتي‏ هِيَ أَقْوَمُ وَ يُبَشِّرُ الْمُؤْمِنينَ الَّذينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْراً كَبيرا‏؛} [20]اسراء: ۹۔ اور فرمایا کہ ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں۔ استاد طلب کرو ، استغاثہ کرو، گریہ کرو، توسل کرو، تشنہ کو پیاس بجھانے کے لیے میسر آ جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے پاس محمد حسین قلی ہمدانی، سید احمد کربلائی، سید قاضی طباطبائی، جواد ملکی تبریزی وغیرہ جیسی شخصیات حاصل نہیں ہیں۔ لیکن ہم تشنہ بنیں اور قابلیت پیدا کریں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہو گی۔ہم قابلیت کو پیدا کریں ہمارے پاس خود امامؑ تشریف لائیں گے۔ آیت اللہ سیستانی کے والد سید باقر سیستانی کا واقعہ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔

خواب کی تعبیرکسبی نہیں

بہت سی چیزیں سیکھ کر کسب کی جاتی ہیں اور بعض چیزیں وہبی اور عطائی ہوتی ہیں۔ خوابوں کی تعبیر کہیں سے سیکھی نہیں جا سکتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایات میں سے ہے۔ اسی طرح اشعار کہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں بلکہ ممکن ہے کوئی علامہِ دہر ہو لیکن زحمتوں کے بعد بھی ایک شعر نہ کہہ سکے اور ممکن ہے کسی نے کسی جگہ ایک لفظ تعلیم حاصل نہیں کیا لیکن وہ بہترین شاعری کر لیتا ہے ۔ کیونکہ شاعری عطائی ایک صلاحیت ہے۔ اسی طرح خوابوں کی تعبیر اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو عنایت کی ہے۔ ہر کوئی خواب کی تعبیر نہیں کر سکتا اور نہ ہی علم تعبیر کو سیکھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو عطا کر دے وہ خوابوں کی تعبیر تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:  { رَبِّ قَدْ آتَيْتَني‏ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَني‏ مِنْ تَأْويلِ الْأَحاديث‏‏؛ }. [21]یوسف: ۱۰۱۔  حضرت یوسفؑ کا معجزہ خوابوں کی تعبیر بیان کرنا تھا۔ ہر وہ شخص جو یوسفی مشرب ہے اس کو اللہ تعالیٰ حضرت یوسفؑ کے معجزے کی جھلک عنایت کرتا ہے۔ یوسفی مشرب بولنے میں آسان ہے لیکن عمل میں سخت اور انتہائی مشکل ہے۔ جو پاکیزگی کی آزمائش میں کامیاب ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کو تعبیرِ رؤیا کی صلاحیت عنایت کرتا ہے۔

مکاشفات اور اس کا میزان

انسان بعض اوقات مکاشفات سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ مکاشفات دو طرح کے ہیں: ۱۔ مکاشفاتِ رحمانی، ۲۔ مکاشفات شیطانی۔ ہمیں مکاشفات کی شناخت کے لیے معیار اور میزان کی ضرورت ہےجسے اہل ذوق و شہود جانتے ہیں۔ پس ایک میزان ہے جو میزانِ عام ہے اور وہ شریعت ہے۔ دوسرا میزان ’’استادِ رہنما‘‘ ہے کیونکہ استاد نشاندہی کر سکتا ہے کہ یہ مکاشفہ رحمانی ہے یا شیطانی۔ تیسرا میزان حکماء کی عقلی دلیل ہے یعنی ’’عقل ومنطق ‘‘ ہے کیونکہ حکماء منطق کو استعمال کر کے صحیح اور خطاء میں فرق معلوم کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اگر مکاشفہ عقل و منطق کے خلاف ہو تو وہ مکاشفہ رحمانی نہیں بلکہ خیال کی پیداوار ہے۔کائنات میں موجود ہر شیء اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم کا مظہر ہے، حتی شیطان اسم الہٰی مضل کا مظہر ہے۔ 

پس مکاشفات کا پہلا میزانِ عام قرآن کریم، رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہارؑ ہیں اورمکاشفات کا  ان کے دستورات سے مطابقت ہونا ضروری ہے۔ آئمہ اطہارؑ کی تمام وہ احادیث جو سند اور اعتبار رکھتی ہیں وہ میزانِ عام ہیں۔ اس کو ’’کشفِ تام محمدیﷺ ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نیز مکاشفات میں اس کا حقیقی اور خیالی ہونے میں فرق کرنا ضروری ہے۔ اگرچے ہم آئمہؑ کی مانند عمل نہیں کر سکتے لیکن ہمیں کم سے کم چاہیے کہ ان کی اتباع کریں اور حقائق کو کشف کریں ۔ امام علیؑ نہج البلاغہ میں عثمان بن حنیف کو مکتوب میں فرماتے ہیں:  > أَلَا وَإِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَلَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَاجْتِهَادٍ وَعِفَّةٍ وَسَدَاد <. [22]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۱۷، مکتوب: ۴۵۔  پس ہم امام علیؑ جیسے اعمال کی قدرت نہیں رکھتے لیکن امام ؑ کے فرمان کے مطابق کم سے کم ورع ، راہِ الہٰی میں کوشش کر کے ، عفت و پاکیزگی اور سیدھی راہ پر چل کر مدد کر سکتے ہیں۔ جب ہم حقائق کو کشف کرتے ہیں یا مکاشفہ کرتے ہیں تو اس کا حق اور باطل ہر دو ہونے کا احتمال موجود ہے۔ امیر المؤمنینؑ کی زیارت کے الفاظ میں سے ہے:  > السَّلَامُ عَلَى يَعْسُوبِ الدِّينِ وَالْإِيمَانِ وَكَلِمَةِ الرَّحْمَنِ السَّلَامُ عَلَى مِيزَانِ الْأَعْمَالِ وَمُقَلِّبِ الْأَحْوَال‏ <. [23]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۷، ص ۲۸۷۔ پس مکاشفہ کا میزان و معیار دستوراتِ رسول اللہ ﷺ و امام علیؑ ہیں۔ مکاشفات کا معیار کشف تام ِ محمدی ﷺ ہے۔اگر مکاشفات دستوراتِ محمدی ﷺ کے مطابق نہیں ہے تو وہ شیطانی ہے ۔ پس ممکن ہے کہ مکاشفات رحمانی ہوں اور ممکن ہے شیطانی ہو۔ لہٰذا ہمیں ایک میزان اور معیار چاہیے اور وہ معیار آئمہ اہل بیتؑ ہے۔

عالم مثال متصل

ہر شیء جو اس عالمِ طبیعت یعنی عالمِ حس میں ہے وہ عالم منفصل میں موجود ہے، حتی شجر، حجر، غنم، سماء و ارض وغیرہ ، قبل اس کے کہ یہ تمام وجودات عالم طبیعت میں تحقق پیدا کر ے عالم منفصل میں موجود ہے اور اسی مثالِ منفصل سے تنزل کر کے عالم طبیعت میں متحقق ہوا ہے۔ لیکن اس کے برعکس نہیں ہےکیونکہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ عالم مثال منفصل میں ہے وہ عالم طبعیت میں ہو۔ عالم منفصل انتہائی وسیع جہان ہے جس کا ہر وجود عالم طبیعت میں متحقق نہیں ہوا۔ پس عالم طبیعت کی ہر شیء عالم مثال منفصل ہے جوکہ اس عالم طبیعت کی علت ہے۔ بالفاظِ دیگر برہانِ إنّی کے طور پر ہے کہ عالم طبیعت سے عالم منفصل کی طرف ہم جائیں۔عالم حس کا عالم مثال منفصل سے مقایسہ کیا جائے تو عالم حس ایک حلقہ ہے اس جہانِ غیر متناہی میں۔ 

مجردات کا متمثل ہونا:

ایسی موجودات جو صورت نہیں رکھتے وہ اگر ظاہر ہونا چاہیے تو تمثل کرتے ہیں بغیر تجافی کےایسی صورت میں متمثل ہوتے ہیں جو ان سے متناسب رکھتی ہے نہ کہ ہر قسم کی صورت میں وہ متمثل ہوتے ہیں، جیسے ملائکہ جوکہ مختلف طبقات و انواع رکھتے ہیں جن میں سے بعض ملائکہ عنصری ہیں جوکہ اس عالم طبیعت کے مدبر اور مؤکل ہیں ، جیسے ہوا چلانے والے ملائکہ وغیرہ۔ جناب جبریلؑ موجوداتِ عقلی میں سے ہیں جو مجردِ تام ہیں جو شکل و شمائل اور صورت نہیں رکھتے لیکن بشرِ کامل کی صورت میں جنابِ مریمؑ کے لیے متمثل ہوئے۔ اسی طرح وہ ملائکہ جو قومِ لوطؑ کے عذاب کے لیے آئے اور ان سے پہلے جنابِ ابراہیمؑ کے پاس بشارت لے کر آئے تو وہ متمثل ہوئے اور انہوں نے جناب سارہ کو حضرت اسحاقؑ کی خوشخبری دی اور باقاعدہ جناب سارہ نے انہوں نے گفتگو کی۔انہوں نے ابراہیمؑ کے پاس کھانا نہیں کھایا کیونکہ ملائکہ کی خوراک اصلاً مادی نہیں ہے۔ اگرچے بعض روایات میں فرشتوں کی خوراک کا تذکرہ وارد ہوا ہے لیکن وہ خوراک معنوی ہے جوکہ سبوح قدوس ہے۔ اسی طرح جناب جبریلؑ رسول اللہ ﷺ کے سامنے دحیہ کلبی کی صورت میں متمثل ہوتے تھے بغیر تجافی کے۔ جناب لوطؑ کے پاس جب فرشتے آئے تو سب نے انہیں دیکھا تو یہ ’’تصرف‘‘ ہے نہ کہ فرشتے مادی مخلوق بن گئے۔ یعنی ان کے خیال میں تصرف کیا گیا جس کی وجہ سے وہ فرشتے سب کے لیے متمثل ہوئے۔ اسی طرح سے اگر جناب دحیہ کلبی کو تصرف کر کے رسول اللہ ﷺ دیگر افراد کو دیکھاتے۔ تمثل کا مطلب یہ ہے کہ صورت تو نظر آئے گی لیکن گوشت و ہڈیاں اس صورت کی نہیں ہے۔ یعنی تمثل میں جسم مثالی ہے۔ ٹی وی پر جو تصاویر دیکھتے ہیں وہ مثلِ تمثل ہے جو صرف صورت رکھتے ہیں۔ پس موجودِ مجرد جوکہ صورت و شکل نہیں رکھتے وہ باذن الہٰی دیگران کے لیے صورت کو ظاہر کر سکتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں میں سنگریزوں نے کلمہ شہادت پڑھا اور ابو جہل نے سنا تو ابو جہل کے خیال میں آپ ﷺ نے تصرف کیا ۔ مولوی بیان کرتے ہیں:

سنگها اندر کف بوجهل بود
گفت ای احمد بگو این چیست زود

گر رسولی چیست در مشتم نهان
چون خبر داری ز راز آسمان

گفت چون خواهی بگویم آن چه‌هاست
یا بگویند آن که ما حقیم و راست

گفت بوجهل این دوم نادرترست
گفت آری حق از آن قادرترست

از میان مشت او هر پاره سنگ
در شهادت گفتن آمد بی درنگ

لا اله گفت و الا الله گفت
گوهر احمد رسول الله سفت

چون شنید از سنگها بوجهل این
زد ز خشم آن سنگها را بر زمین. [24]مولوی، مثنوی معنوی، دفتر اول ، بخش ۱۰۶۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے کہ درخت اکھڑ کر چل کر آ گیا لیکن کافرین ایمان نہیں لائے۔ یہ بھی تمثل تھا بغیر تجافی کے ۔اسی طرح معراج میں روایات کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کی صدا کو سنا کہ اللہ تعالیٰ نے جب رسول اللہ ﷺ کو پکارا تو انہیں امام علیؑ کی آواز میں صدا سنائی دی ۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال پوچھا گیاکہ ایمان، اسلام اور احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے سائل کے لیے تصرف کیا اور خانہ کعبہ کو دکھایا اور فرمایا کہ یہ ایمان ہے اور پھر مسجد الحرام کو دکھایا اور فرمایا کہ یہ اسلام ہے اور پھر حرم دکھایا اور فرمایا کہ یہ احسان ہے۔ خانہ کعبہ مرکز ہے اور اس کے اردگرد مسجد الحرام ہے اور مسجد الحرام سے باہر جو جگہ ہے وہ حرم کہلاتی ہے جوکہ عرفات کی طرف ۳۰ کلومیٹر اور بعض جگہوں میں ۱۶ کلومیٹر تک ہے۔ جو مسجد الحرام میں ہے اس کے لیے قبلہ خانہ کعبہ ہے اور جو حرم میں نماز پڑھتا ہے اس کے لیے قبلہ مسجد الحرام کے توسط سے خانہ کعبہ ہو گا۔

جِنّات کا متشکل ہونا

جن جوکہ آگ سے بنا ہے تمثل نہیں کرتا بلکہ جنّ تشکل اختیار کرتا ہے۔ اس لیے جن مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک روایت وارد ہوا ہے لیکن اس کو علامہ طباطبائی قبول نہیں کرتےوہ بیان ہے: الجن يتشكل بإشكال مختلفة حتى حيوان و كلب،جبکہ فرشتے حیوانات کی شکل میں متمثل نہیں ہوتے۔ البتہ جن دو طرح کے ہیں : ۱۔ جناتِ مومنین ، ۲۔ جنات غیر مومن۔ حیوانات کی شکل میں کفار و غیر مومن جنات متشکل ہوتے ہیں نہ کہ جناتِ مومن کیونکہ تشکل بھی مناسبت سے ہوتا ہے۔ جنات کو تسخیر کرنا ایک جداگانہ علم ہیں۔ ۔

اشیاء کا تنزیلی اور انزالی نزول

اشیاء کا یہ نزول دو طرح سے ہے :
۱۔ ایک مرتبہ تنزیلی ہے یعنی دفعی طور پر ایک ساتھ شیء کا نازل ہونا۔
۲۔ شیء کا تدریجی نزول ’’إنزال‘‘ کہلاتا ہے۔
قرآن کریم بھی اسی طرح سے نازل ہوا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر دفعی طور پر نازل ہوا جس کو قرآن کریم نے تنزیل سے تعبیر کیا ہے ۔ دوسری مرتبہ قرآن کریم تدریجی اور شان نزول رکھتے ہوئے نازل ہوا جس کو قرآن کریم نے ’’إنزال‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

قطب ، افراد،  اوتاد ، ابدال ، نجباء

موجوداتِ مجرد اس نشات میں صورت میں ظاہر ہوں جیسے جناب جبریلؑ کا متمثل ہونا جبکہ انہوں نے اپنی حقیقت کو اسی طرح سے حفظ رکھا۔ تمثل ایک نوعِ ادراک اندرونی ہے جوکہ قوتِ خیال متصل میں ظاہر ہوتا ہے۔ امام علیؑ ایک رات میں چالیس جگہ مہمان تھے ، یعنی امام علیؑ نے چالیس جگہ اپنے بدنِ اقدس کو رونما کیا اور متمثل کیا ۔ اسی طرح امام زمانؑ ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ اگر یہ مطلب ہمارے اجداد بیان کرتے تو اس کو سمجھنا اور درک کرنا مشکل ہوتا لیکن آج کے دور میں ٹی وی کی بناء پر یہ آسان ہے کہ ایک نیوزکاسٹر ہوتا ہے جسے میلیونوں افراد دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ شخص اس کیمرے سے سائیڈ پر آ جائے تو وہ سب کی نگاہوں سے غائب ہو جائیں گی۔ انسان کامل بھی اسی طرح انسانوں کے اندرون میں صورت کو متمثل کرتے ہیں۔ ٹی وی اور انسان کامل کا صورت کو انشاء کرنے میں ایک فرق ہے کہ ٹی وی والی تصویر مردہ ہے جبکہ انسان کامل جس صورت کو انشاء کرتے ہیں وہ زندہ ہے جیساکہ امام علیؑ نے اپنے بدن کی صورت کو انشاء کیا۔ جو صورت کو انشاء کرے اس کو عرفاء ’’ابدال‘‘ کہتے ہیں جس کی جمع بدلاء ہے۔ ایک محور ہے جس کے گرد سب چیزیں گردش کر رہی ہیں ، عرفاء اس کو ’’قطب‘‘ کہتے ہیں۔ شریعت کی زبان میں قطب ’’حجت‘‘ کو کہتے ہیں جوکہ ایک سے زائد نہیں ہو سکتا۔ ’’قطب‘‘ کے بعد ’’فرد‘‘ ہے جوکہ زوج کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ مرد بمعنی وجودی اعتبار سے انتہائی قوت رکھنے والا ہے۔ عرفاء قائل ہیں کہ ہر زمانے میں ’’تین افراد‘‘ ہوتے ہیں۔ ’’قطب‘‘ سے جو کم تر  ’’اوتاد‘‘ کہلاتا ہے جوکہ چار ہوتے ہیں اور ان سے کم تر ’’ابدال‘‘ ہیں جوکہ سات ہیں اور ان سے کم تر ’’نجباء‘‘ ہیں جوکہ ۴۰ ہوتے ہیں اور ’’‘‘ جوکہ ۔ یہ جو عدد بیان ہوا ہے ان سے کم نہیں ہو سکتا البتہ حکیم سبزواری کے مطابق اس سے اوپر ہو سکتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک دنیا سے چلا جائے تو دوسرا اس کی جگہ پر آ جائے۔ پس ’’قطب‘‘ ایک فرد ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ جولوگوں کے اندرون میں صورت کو ایجاد کر سکتا ہے وہ ابدال ہیں جن سے اوپر اوتاد اور ان سے اوپر قطب ہیں۔ انسان کامل اپنی اشکالِ محسوس کے علاوہ کسی اور شکل میں اس دنیا میں تشکل اختیار کر لے۔ کیونکہ وہ یہ قوت رکھتے ہیں کہ اپنے ابدان سے جدا ہوں اور خود کسی اور شکل سے تعلق جوڑیں۔ یہ تناسخ نہیں ہے کیونکہ تناسخ میں دنیا سے جانے کے بعد رحمِ مادر میں کسی اور نطفہ سے تعلق جوڑنا ہے جبکہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ جب انسانِ نفس دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے پاس اس قوت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اب تو بدنی رکاوٹ بھی موجود نہیں ہے۔ یہاں تشکل بمعنی تمثل ہے۔ یہ نفوسِ کامل کو ’’بدلاء‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لیے ابدال انہیں کہتے ہیں کیونکہ اپنے بدن کو خود ایجاد کرتے ہیں۔ اگر مکاشفہ میں کوئی صورت متمثل ہوئی ہے تو کیسے معلوم ہو کہ یہ ملائکہ میں سے ایک فرشتہ کی صورت متمثل ہوئے ہے یا ایک انسانِ کامل کی صورت متمثل ہوئی ہے؟ اہل کشف اس بارے میں معیارات رکھتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ تشخیص دیتے ہیں۔علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ آیت اللہ حسین طباطبائی اور آیت اللہ حسن الہٰی طباطبائی ہر دو نے بیان کیا ہے کہ مرحوم سید علی قاضی نے انہیں دو دستور دیئے تھے اور کہا کہ اگر میں اس دنیا میں رہوں تو اگر اس دستور پر عمل کیا تو بیداری میں مجھے پاؤ گے اور اگر خواب میں دیکھنا چاہو تو یہ دوسرے دستور پر عمل کرنا۔ علامہ حسن زادہ بیان کرتے ہیں کہ ہر دو نے ان دستوروں پر عمل کیا اور مرحوم قاضی سے ملاقات کی۔یہ دستور ہمیں نہیں معلوم لیکن اگر معلوم بھی ہو جائیں تو فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس درخت پر برگ و گل آتا ہے جو تَر ہو۔ اس لیے نفوس کو تر ہونا ضروری ہے۔ حضرت عیسی ؑ کا واقعہ ہے کہ ان کا حواری ان کے ساتھ تھا ، آپؑ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور پانی پر چلے ، ان کے حواری نے بھی بسم اللہ پڑھی لیکن وہ پانی میں ڈوب گیا اور حضرت عیسیؑ نے اس کی جان بچائی۔ پس ان دستورات کا فائدہ ہر نفس کو نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مقدمات چاہیے۔

اصحاب اذواق ملائکہ اور ان نفوسِ کامل میں فرق کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ الہام کرتا ہے۔ یہاں وحی لفظ نہیں استعمال کیا کیونکہ وحی فقط نبی کے ساتھ مختص ہے۔ فرشتے کا متمثل ہونا نبی کے ساتھ خاص نہیں ہے کیونکہ جناب مریم ؑ نبی نہیں تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ الہام کرتا ہے کہ یہ صورت فرشتہ کی ہے یا انسان کامل۔اگر عبادت گزاروں اور صالحین میں سے کوئی اہل مکاشفہ نہیں ہے تو اس کے لیے یہ فرق ظاہر نہیں ہوتا۔ البتہ وہ قرائن کی مدد سے ظن قائم کر سکتے ہیں، مثلا غیب کے بارے میں کوئی خبر مل گئی یا لوگوں کے ضمائر سے آگاہ ہو گیا یا اس کے قلب میں واقع ہونے سے پہلے اس کے خیال میں ایک امر ظاہر ہو گیا۔

عالم مثال نزولی اور صعودی میں فرق

ایک عالم مثال قوس نزول کے اعتبار سے ہے جسے اوّلیہ اور ’’عالم الذر‘‘ کہتے ہیں جس میں سب بنی آدم نے ربوبیت کا اقرار کیا۔  ایک عالم مثال قوس صعود کے اعتبار سے ہے۔ پس ایک عالم مثال قبل از دنیا ہے اور ایک بعد از دنیا ہےجسے ’’اخریہ‘‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ اول کے بعد ہے۔ یہ دونوں عالم مثال ایک دوسرے کے موازی ہیں اور دَوری ہیں نہ کہ طول میں ہیں۔قبل از دنیا عالم الذر کو عالم مثالی نزولی کہا جاتا ہے۔ برزخ میں جو ہمارے مرحومین ہیں وہ عالم مثال بعد از دنیا یعنی برزخ میں ہیں۔ جس طرح قوس نزول میں عالم مثال میں شکل و شمائل رکھتے ہیں جوکہ ان کے متنِ وجود میں ہے اس سے خارج نہیں ہے جبکہ قوس صعود میں عالم مثال میں شکل و شمائل متن وجود سے خارج ہے۔ ہر عمل جو خیر ہو یا بد وہ ہمارے نفس پر ایک اثر ظاہر کرتا ہے اور اگر ایک عمل کو تکرار کریں تو نفس میں ’’ملکہ‘‘ اختیار ہوتا ہے۔ ملکہ یا فضیلت ہے یا رذیلت ہے۔ عالم مثال قوس صعود میں شکل و شمائل ان ملکات کے مطابق ہیں۔ اگر ملکات اچھے ہیں تو شکل و شمائل اچھے ہیں اور اگر ملکات برے ہوں تو شکل و شمائل قبیح و کریہہ اور حیوانی و حشرات وغیرہ کی صورت میں ہے۔ عالم مثال قوس صعود کے اعتبار سے ایک روایت وارد ہوئی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں::  > اوَ عَنْ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ: يَا مُعَاذُ سَأَلْتَ عَنْ أَمْرٍ عَظِيمٍ مِنَ الْأُمُورِ ثُمَّ أَرْسَلَ عَيْنَيْهِ وَ قَالَ يُحْشَرُ عَشَرَةُ أَصْنَافٍ مِنْ أُمَّتِي بَعْضُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقِرَدَةِ وَ بَعْضُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْخِنْزِيرِ وَ بَعْضُهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ مُنَكَّسُونَ أَرْجُلُهُمْ فَوْقَ رُءُوسِهِمْ يُسْحَبُونَ عَلَيْهَا وَ بَعْضُهُمْ عُمْياً [عُمْيٌ‏] وَ بَعْضُهُمْ صُمّاً [صُمٌ‏] وَ بُكْماً [بُكْمٌ‏] وَ بَعْضُهُمْ يَمْضَغُونَ أَلْسِنَتَهُمْ فَهِيَ مدلات [مُدْلَاةٌ] عَلَى صُدُورِهِمْ يَسِيلُ الْقَيْحُ يَتَقَذَّرُهُمْ أَهْلُ الْجَمْعِ وَ بَعْضُهُمْ مُصَلَّبُونَ عَلَى جُذُوعٍ مِنَ النَّارِ وَ بَعْضُهُمْ أَشَدُّ نَتْناً مِنَ الْجِيفَةِ وَ بَعْضُهُمْ مُلْبَسُونَ جِبَاباً سَائِغَةً مِنْ قَطِرَانٍ لَازِقَةٍ بِجُلُودِهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ عَلَى صُورَةِ الْقِرَدَةِ فَالْقَتَّابُ مِنَ النَّاسِ وَ أَمَّا الَّذِينَ عَلَى صُورَةِ الْخَنَازِيرِ فَأَهْلُ السُّحْتِ وَ أَمَّا الْمُنَكَّسُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ فَآكِلَةُ الرِّبَا وَأَمَّا الْعُمْيُ فَالَّذِينَ يَجُورُونَ فِي الْحُكْمِ وَ أَمَّا الصُّمُّ وَ الْبُكْمُ فَالْمُعْجَبُونَ بِأَعْمَالِهِمْ وَ أَمَّا الَّذِينَ قُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ فَهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ الْجِيرَانَ وَأَمَّا الْمُصَلَّبُونَ عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَارٍ فَالسُّعَاةُ بِالنَّاسِ لِسُلْطَانٍ وَأَمَّا الَّذِينَ أَشَدُّ نَتْناً مِنَ الْجِيَفِ فَالَّذِينَ يَتَّبِعُونَ‏ الشَّهَوَاتِ وَاللَّذَّاتِ وَمَنَعُوا حَقَّ اللَّهِ فِي أَمْوَالِهِمْ وَ أَمَّا الَّذِينَ يُلْبَسُونَ الْجِبَابَ أَهْلُ الْكِبْرِ وَالْفُجُورِ وَ الْبُخَلَاء <. [25]شعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، ص: ۱۷۷۔

تناسخ کی اقسام ملکی اور ملکوتی:

تناسخ کی بحث اہمیت کی حامل بحث ہے۔ تناسخ کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:

تناسخ ملکی:

یہ فاسد و باطل نظریہ ہے کیونکہ نفس موت کا ذائقہ چکھنے کے بعد اس دنیا میں کسی دوسرے نطفہ کے ساتھ ملحق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم تناسخ ملکی کو قبول کریں تو دوسری مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ملا صدرا کے مطابق نفس جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقاء ہے۔ نطفہ اس دنیا میں کچھ مدت بعد ایک نفس سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہاں ایک وقت میں دو نفس سے رابطہ ثابت ہو گا۔ نفس کا جسمانیۃ الحدوث ہونا بالکل اسی طرح ہے جیسے سوکھے درخت سے رنگ برنگ کے پتے نکلتے ہیں تو یہ پتے اسی سوکھے درخت سے نکلے ہیں اسی طرح نفسِ انسانی اسی جسم سے ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقين‏‏؛ }. [26]مؤمنون: ۱۴۔ 

تناسخ ملکوتی:

قوس نزول میں جو ہے وہ نشات طبیعت میں تحقق پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ پس قوس نزول اور قوس صعود کاملا یکساں نہیں ہیں سوائے اس کے کہ ہر دو موجودِ مثالی ہیں۔ قوس نزول میں بھی وجود مثالی ہیں اور قوس صعود میں بھی وجود مثالی ہیں اور عالم روحانی اور وجود نورانی ہے کیونکہ مادی نہیں ہیں۔ ابن عربی نے تصریح کی ہے کہ قوس صعود غیر از قوس نزول ہے اور جو قوس نزول میں موجودات ہیں انہیں ’’ غیب امکانی ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے نشات طبیعت میں تحقق پیدا کرنا ہے۔ جبکہ قوس صعودی میں جو موجودات ہیں انہیں ’’ غیب محالی‘ ‘ کہتے ہیں۔بعض ایسے اولیاء ہیں جو قوس صعودی میں موجودات کو درک کر لیں۔ علامہ محمد حسن طباطبائی  رحمہ اللہ کے بارے میں علامہ حسن زادہ آملی کہتے ہیں کہ بہت قوی اور بلند منزلت تھے اور افلاطون کو برزخی طور پر درک کیا ۔ علامہ حسن زادہ آملی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ محمد حسن الہٰی طباطبائی بیان کرتے ہیں کہ میں دو برزگان سے تعلق قائم نہیں کر پایا، ایک سید ابن طاووس اور دوسرے سید بحر العلوم ، کہ جب میں نے کوشش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم امیر المؤمنین ؑ کے ساتھ وقف ہیں۔ جبکہ بقیہ سے آسانی سے ارتباط قائم کر لیتے ۔ اس طرح کی ہستیاں قلیل ہیں۔اگر کوئی برزخِ نزولی سے رابطہ قائم کر لے تو وہ دنیاوی حوادث کے بارے میں خبر دے سکتا ہے۔ پس قوس صعودی میں اموات یعنی مردوں سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے جوکہ قلیل ہیں۔ 

برزخِ صعودی میں وجودی مثالی بذاتِ خود اعمال ہیں جبکہ برزخ نزولی میں اس طرح نہیں ہے۔ قوسِ صعودی میں موجوداتِ برزخ قیدِ محالی ہے کیونکہ قوس نزول میں وجودات عالم نشاءت میں تحقق پیدا کرتے ہیں۔ قوس نزول میں کثیر ایسی اشیاء ہیں جنہوں نے ابھی تک اس عالم مادہ میں تحقق پیدا نہیں کیا اور بہت سی اشیاء نے تحقق پیدا کر لیا ہے جیسے ہم۔ عالم برزخ صعودی کوئی وجود اس نشاءت میں نہیں آئے گا۔ بلکہ محال ہے کہ برزخ صعودی سے اس دنیا میں نشاءت پیدا کرے۔  مال و عیال با وفا ہیں لیکن قبر کے دہانے تک ، جبکہ اعمال ہمیشہ با وفا ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے ہیں کہ ہم قیامت میں ہم اپنے اعمال کے دسترخوان پر ہوں گے۔ قبر کے سانپ بچھو وغیرہ باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ اندر سے آتے ہیں۔ موت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جو غیر ہے وہ اس سے جدا ہو جاتا ہے، مثلاً ہمارا کنبہ، ہمارا مال، ہماری دنیا وغیرہ سب ہمارا غیر ہے اس لیے موت اس غیر کو ہم سے جدا کر دیتی ہے۔

منابع:

منابع:
1 سورہ سجدہ: آیت ۵۔
2 سورہ مؤمنون: آیت ۱۰۰۔
3 نحل: ۷۸۔
4 برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ص ۱۳۱۔
5 فتح: ۲۹۔
6 رحمن: ۴۱۔
7 زلزال: ۴
8 فصلت: ۱۹-۲۰۔
9 اسراء: ۴۴
10 کہف: ۶۵
11 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۷، ص ۳۶۵۔
12 نمل: ۱۸۔
13 نمل: ۲۰-۲۳۔
14 فرقان:۴۴۔
15 شبستری، محمود، گلشن راز، بخش ۲۵۔
16 کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، ج ۲، ص ۳۶۔
17 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۶۴۱۔
18 سعدی، گلستان، حکایت ۱۰۔
19 فصلت:۳۰۔
20 اسراء: ۹۔
21 یوسف: ۱۰۱۔
22 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۱۷، مکتوب: ۴۵۔
23 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۹۷، ص ۲۸۷۔
24 مولوی، مثنوی معنوی، دفتر اول ، بخش ۱۰۶۔
25 شعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، ص: ۱۷۷۔
26 مؤمنون: ۱۴۔
Views: 117

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ذات احدیت اور واحدیت
اگلا مقالہ: ملائکہ کی حقیقت