loading
{تمهيد القواعد في شرح قواعد التوحيد}
مقدمہ کتاب
درس: تمهيد القواعد لابن تركة
استاد: آيت الله سيد يوسف إبراهيميان
تحریر: سید محمد حسن رضوی

(من لوامع الأضواء ظهور الأنوار بالأكمام)

اللہ تعالیٰ پاک و منزہ ہے ، اللہ تعالیٰ ظاہر ہے ۔ سورج خود مخفی نہیں ہے لیکن شدتِ روشنی کی وجہ سے سورج کو دن کے وقت دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اور شدتِ ظہور کی وجہ سے اس کا مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہے نہ یہ کہ اللہ تعالیٰ مخفی ہے اس لیے اس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا۔  مدرِک جب مدرَک کو ادراک کرتا ہے تو ایک نوعِ احاطہ اس کا کرتا ہے۔ پس مدرِک ضروری ہے مدرَک کو محیط ہو۔ اس صورت میں ممکن الوجود مدرَک جوکہ لا محدود ہے اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ البتہ اللہ تعالیٰ پردہِ نورانی کے ذریعے مشاہدہ کر سکتا ہے۔ پردہِ نور یعنی تجلیات الہٰی۔ لوامع الأضواء یعنی نورانی پردے، اسی کو حجابِ نورانی کہہ سکتے ہیں۔ حجاب دو طرح کے ہیں: ایک حجاب نورانی  اور دوسرا حجاب ظلمانی جوکہ گناہ اور معاصی ہیں۔ البتہ قلبِ مومن کی وسعت کا ہونا ایک الگ بحث ہے جیساکہ عوالی اللئالی میں حدیث قدسی مذکور ہے: 

وَفِي الْحَدِيثِ الْقُدْسِيِ‏ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لَا يَسَعُنِي‏ أَرْضِي‏ وَ لَا سَمَائِي وَ لَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ. [1]ابن جمہور، محمد بن زید الدین، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۷۔

ہر وجود اللہ تعالیٰ کو اپنے طریق سے خود دیکھ رہا ہے۔ چونکہ ممکنات کا وجود محدود ہے اس لیے ہر ضعیف وجود کا مرتبہ اپنے بالا مرتبہ کے لیے حجاب ہے۔ اس کو حجابِ نورانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حجاب نہیں رکھتا بلکہ ہم حجاب رکھتے ہیں۔ تمہارا اپنا آپ حجاب بنتا ہے تمہارے بالا مرتبہ کے لیے۔  حافظ بیان کرتے ہیں:

جمال یار ندارد نقاب و پرده ولی
غبار ره بنشان تا نظر توانی کرد

مناجات شعبانیہ میں امامؑ فرماتے ہیں: إِلَهِي هَبْ‏ لِي‏ كَمَالَ‏ الِانْقِطَاعِ‏ إِلَيْكَ وَأَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِيَاءِ نَظَرِهَا إِلَيْكَ حَتَّى تَخِرَقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلَى مَعْدِنِ الْعَظَمَةِ وَتَصِيرَ أَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِك‏. [2]ابن طاؤوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج ۳، ص ۲۹۹، فصل ۱۰۔کمال انقطاع کے لیے تمام قلبی تعلقات کو ترک کرنا ضروری ہے۔

(وجل شأنه من ظاهر …  من غياهب الظلام)

بطائن جمع بطون یعنی پنہاں، غیاھب: کنواں، ظلام: تاریکی ۔ اللہ جل شانہ ظاہر ہے جس کے علتِ ظہور شدتِ بطون ہے۔ حکیم سبزواری بیان کرتے ہیں: 

يا من هو اختفى لفرط نوره‌
الظاهر الباطن في ظهوره‌

اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اور اپنے ظہور میں باطن ہے۔ وجود دو قسم کا ہے: ۱۔ اشیاء کا اپنا وجودِ عینی: حقیقت عینی یعنی جس کا وجود ہے ، ۲۔ اشیاء کا وجود غیری ہے، جو ذہن میں ہے۔ پس جس طرح اشیاء کا وجود دو قسم کا ہے وجودِ عینی اور وجود غیری۔اسی طرح ظہورِ اشیاء دو قسم کا ہے: ۱۔ ظہور اشیاء خود ان کے لیے، ۲۔ اشیاء کا ظہور ہمارے لیے۔ چونکہ وجود مساوی ظہور ہے ۔ وجود لا محدود ہے یا محدود۔ پس اگر وجود لا محدود ہے تو اس کا ظہوربھی لا محدود ہے کیونکہ وجودِ بے نہایت ظہورِ بے نہایت ہے۔ پس وجودِ بے نہایت لا محدود ظہور رکھتا ہے۔ جس طرح لا محدود وجود ہمیں معلوم نہیں ہے اسی طرح  لا محدود ظہور ہمیں معلوم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وجود لا محدود ہے جبکہ ہمارا وجود محدود ہے۔ اس حقیقت کا وجودِ عینی اور اس حقیقت کا وجودِ غیری۔ اللہ تعالی کا وجود اسی کی اپنی ذات کے لیے باطن یعنی غائب نہیں ہماری نسبت سے اللہ تعالیٰ باطن ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ظاہر فی نفسہ ہے لیکن باطن لغیرہ ہے۔ چونکہ لا متناہی ’’متناہی‘‘ کے لیے قابل درک نہیں ہے ۔ مرحوم شبستری کہتے ہیں:جهان را به تمامی، پرتوی از نور وجود خداوند بِدان، و خداوند به دلیل آنکه در کمال پیدایی و آشکار بودن است، در این جهان پنهان به نظر می رسد۔  

صغری: اللہ تعالی مختف لفرطِ نورہ
کبری: وکل مختف لفرط نورہ باطن
نتيجه: فاللہ تعالی ھو الباطن

اس لیے  غائب یعنی اس کے متعلق شخص علم نہیں رکھتا۔امام وہ ہوتا ہے جو ملک اور ملکوت کو ہدایت کرے ، امام حاضر ہے ہم غائب ہیں۔ اللہ تعالی جو غائب ہو اس کو میں پسند نہیں کرتا ، دلیلِ جدلی ہے جو امام علیؑ کے کلام میں وارد ہوئی ہے، جیساکہ جناب ابراہیمؑ نے کہا: {فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى‏ كَوْكَباً قالَ هذا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قالَ لا أُحِبُّ الْآفِلين‏[3]انعام: ۷۶ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا انتہائی ظریف کلام وارد ہوا ہے:   > وَكُلُ‏ ظَاهِرٍ غَيْرَهُ‏ [غَيْرُ بَاطِنٍ‏] بَاطِنٌ، وَكُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَهُ غَيْرُ ظَاهِرٍ <.[4]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۹۶، خطبہ ۶۵۔ہر ظاہر اس کا غیر غیر باطن ہے اور ہر باطن اس کا غیر غیر ظاہر ہے۔ اللہ تعالی کا غیر اگر ظاہر ہے تو اس کا مطلب ہے وہ غیر باطن ہے اور اگر باطن ہے تو وہ غیر ظاہر ہے۔ پس اللہ تعالی کا غیر اگر ظاہر ہے تو باطن نہیں اور اگر باطن ہے تو ظاہر نہیں۔ لیکن اللہ تعالی کا ظاہر عین باطن اور اس کا باطن عین ظاہر ہے۔ اللہ تعالی ظاہر اور عین سے مرکب نہیں کیونکہ اگر ترکیب مان لیں تو اللہ تعالی کا محتاج ہونا لازم آ ئے گا اور وہ ذات منزہ اور غنی ہے۔ بسیطِ حقیقی فقط اللہ تعالی ہے ۔کسی قسم کی ترکیب اللہ تعالی میں متصور نہیں کی جا سکتی ہے اس لیے اللہ تعالی کا ظاہر عین باطن اور باطن عینِ ظاہر ہے۔ اللہ تعالی مجرد ، بسیط اور لا متناہی ہے۔

اللہ تعالی ظاہر ہے کیونکہ ہر موجود اس کی آیت ہے۔   نہج البلاغہ میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: > الْحَمْدُ لِلَّهِ الْأَوَّلِ قَبْلَ كُلِّ أَوَّلٍ وَ الْآخِرِ بَعْدَ كُلِّ آخِرٍ وَ بِأَوَّلِيَّتِهِ‏ وَجَبَ أَنْ لَا أَوَّلَ لَهُ وَ بِآخِرِيَّتِهِ وَجَبَ أَنْ لَا آخِرَ لَهُ <[5]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۴۶، خطبہ ۱۰۱۔ہم ہر شیء کو جب دیکھتے ہیں تو پہلے ہم نور کو دیکھتے پھر اس شیء کو دیکھتے ہیں کیونکہ اگر نور نہ ہو تو ہمیں شیء نظر نہیں آتی۔ہر موجود چاہے وہ مجرد ہو یا غیر مجرد اس سے پہلے اللہ تعالی ہے اور اس کے بعد اللہ ہے۔ پس اللہ تعالی ظاہر ہے کیونکہ ہر موجود اس کی آیت ہے جو اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اس کی نشاندہی کرتی ہے۔  سعدی کہتے ہیں:

آفرینش همه تنبیه خداوند دلست
دل ندارد که ندارد به خداوند اقرار

مرحوم ملا صدرا بیان کرتے ہیں کہ  بلند الہٰی معارف کو سمجھنے اور فہم کے لیے شرعی ریاضات اور سحر کے اہتمام ضروری ہے۔  انسان کا عمل بہشت و جہنم کو ایجاد نہیں کرتا کیونکہ عملِ انسانی موجِد نہیں مقتضی ہے۔ اللہ تعالی عمل بہشت و جہنم میں تبدیل کرتا ہے۔ موجِد اللہ سبحانہ کی ذات ہے۔ جو ذات عمل کو بہشت میں تبدیل کرتا ہے وہ حق تعالیٰ ہے۔  سلیم یعنی جسے سانپ نے ڈس لیا ہو، قرآن کریم میں قلبِ سلیم سے مراد سالم نہیں بلکہ سلیم بمعنی جسے میں تڑپ ہو، ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: {يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُونَ. إِلَّا مَنْ‏ أَتَى‏ اللَّهَ‏ بِقَلْبٍ‏ سَلِيمٍ‏‏}[6]شعراء: ۸۸-۸۹۔انسان اپنے تمام قوا اور اعمال میں پہلے نفس کو مشاہدہ کرتا ہے، یہ نفس ہے جو سنتا ، دیکھتا، چھکتا وغیرہ ہے، یہ نفس ہے جو قُوَی کو استعمال کرتا ہے: {وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصير‏‏}[7]حدید: ۴۔

(ثم الصلاة والسلام على محمد …وعلى آله وآصحابه.. جمع كل نظام)

’’صلاۃ‘‘ مفرد ہے جس کی جمع صلوات ہے جس کا اصل ’’ص-ل-و‘‘ ہے جس کے لغوی معنی رحمت، دعا، درود اور تحیت ہے۔نماز کو اس لیے ’’صلاۃ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ نماز دعا اور تحیّت پر مشتمل ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر صلوات اور درود کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے: { إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليما‏‏}[8]احزاب: ۵۶۔۔ اللہ تعالیٰ ہماری طرح درود نہیں بھیجتا بلکہ وہاں حقیقتِ الفاظ موجود ہے۔ہم نہیں چاہتے کہ الفاظ کی اہمیت اور اثر کا انکار کریں کیونکہ ہر چیز جو وجود رکھتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔ یہ تاثیرات و اثرات کبھی محسوس ہیں اور کبھی نامحسوس ۔ ہم الفاظ کی تاثیرکو انکار نہیں کرنا چاہتے بلا شک و شبہ اس کے کثیر اثرات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا صلوات بھیجنا الفاظ کی صورت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد نزولِ رحمتِ الہٰی ہے ان کی ذات پر ۔ جبکہ ملائکہ کا صلوات رحمت کا تقاضا کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ذوات پر رحمت نازل فرمائے۔

’’سلام‘‘ بمعنی سلامتی و امنیت و صلح ہے ۔ سلام کی صورت میں ہم ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالی امن و عافیت و سلامتی عنایت فرمائے۔ سلام اللہ تعالیٰ کا اسم ہے۔ حقیقت میں سلام ایک پیغام رکھتا ہے جو ہمارےعرف اور معاشرے میں موجود ہے اور وہ ہے کہ سلام کہہ کر ہم مدمقابل کی جان و مال و صحت و ناموس کی سلامتی و عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

’’مطلع‘‘ یعنی طلوع کی جگہ، تناشر یعنی نشر ہونے کی جگہ اور بعض جگہ تباشر ہے جس کا مطلب ہر شیء کا آغاز اور اوائل۔’’فواتح‘‘ جمع ہے فاتح کی ، ’’مختتم‘‘ یعنی اختتام ، ’’ساطع‘‘ یعنی درخشاں، ’’شوائب‘‘ یعنی مخلوط ، ’’فیء‘‘ یعنی زوال و ظہر کے بعد کا سایہ جو مشرق کی جانب ہوتا ہے، زوال اور ظہر سے پہلے والے سایہ کو ’’ظل‘‘ کہتے ہیں، ’’غوائل ‘‘یعنی فساد و تباہی، ’’ترُم‘‘ یعنی قصد ،’’ مشکاۃ‘‘ یعنی چراغ کی جگہ اور بعض اوقات خود چراغ کو بھی مشکات کہتے ہیں،’’ شتات‘‘ یعنی پراگندگی، ظلام یعنی تاریکی۔ہر وجود اور کمالِ وجودی ، جیسے علم ، قدرت ، شجاعت… مشکاتِ ذات رسول اللہ ﷺ کے ذریعے پہنچتا ہے۔ حقیقت میں ذاتِ رسول اللہ ﷺ فیضِ الہٰی ہیں۔ یہاں بدن و جسم عنصری رسول اللہ ﷺ نہیں ہے بلکہ ان کی حقیقت اور ذاتِ اقدس مراد ہے، جیساکہ حدیث میں ہے :  > لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاك‏ <[9]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۶، ص ۴۰۶۔ صرف افلاک نہیں بلکہ ایک بھی خلقت اللہ تعالیٰ وجود نہ دیتا۔ ذاتِ رسول ﷺ ہر کمال کا آغاز ہے اور ہر خیر کا اختتام ہے۔ پس آغازِ کمال بھی ہیں اور اختتامِ کمال بھی ہے یعنی تمام کمال آپﷺ کی ذات ہے۔ ہر خیر اور ہر کمال اور ہر چیز آپ ﷺ سے آغاز ہوتا ہے۔جہان کا آغاز آپﷺ سے ہوتا ہے، حدیث نبوی ہے:    > أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ نُورِي ابْتَدَعَهُ مِنْ نُورِهِ وَ اشْتَقَّهُ مِنْ جَلَالِ عَظَمَتِهِ <[10]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص ۲۴۔ ذاتِ رسول اللہ ﷺ مظہر اللہ نور السماوات والارض ہے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کا سایہ نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ کی ذات فقط نور محض ہے۔ جابر بن یزید امام باقرؑ سے روایت نقل کرتے ہیں:  > عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: قَالَ لِي أَبُو جَعْفَرٍ × يَا جَابِرُ إِنَّ اللَّهَ أَوَّلَ مَا خَلَقَ خَلَقَ مُحَمَّداً وَعِتْرَتَهُ الْهُدَاةَ الْمُهْتَدِين ^ <[11]کلینی، محمد بن یعقوب، ج ۲، ص ۴۴۳۔   

(وبعد: فإن مسألة التوحيد حسب ما حققه المشاهدون … )

توحید کو بعض نے مشاہدہ کیا ہے اور تفصیل بیان کی ہے اور ایک طریقہ عقلی و فکری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ امر بدیہی اور فطری ہے اس لیے قرآن کریم نے وجودِ الہٰی پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی، مثل وجود۔ کیا وجود کو وجود سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟! یقیناً نہیں کیونکہ اس سے تسلسل لازم آئے گا جوکہ بدیہی طور پر باطل ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتاہے: { فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي‏ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها ‏}[12]روم: ۳۰ غرب میں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا ہے وہ سیاسی وجہ سے ہے کہ انہیں پیسے دیئے گئے تو انہوں نے شبہات ایجاد کر کے معاشرے میں نشر کیے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود بدیہی اور فطری ہے جس پر استدلال کی اصلاً ضرورت نہیں ہے۔ البتہ وحدتِ الہٰی کے لیے استدلال کی ضرورت ہے۔  مسئلہ توحید یعنی اصل وجود باری تعالیٰ جوکہ دلیل کا محتاج نہیں ہے۔ ایک انسان اپنے وجود کے بارے میں علم حضوری رکھتا ہے اور علم حضوری کے ذریعے وہ اپنے وجود کا عالم ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں وجود رکھتا ہوں اور اپنے ارادہ تک علم حضوری کے طور پر جانتا ہے کہ میں ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنا کام اپنے ارادہ سے انجام دیتا ہوں۔ اسی طرح عارف حقائق کو شہود کرتا ہے اور الفاظ و اشارات کے قالب میں اس کو بیان کرتا ہے۔جبکہ صاحبانِ عقول برہان اور حجج سے توحید کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود صاحبانِ عقول اس جگہ تک نہیں پہنچے جہاں تک صاحبانِ شہود پہنچے ہیں۔توحیدِفطری پر دلیل نہیں پیش کی جا سکتی لیکن توحیدِ واجب برہان سے ثابت ہوتی ہے۔ انبیاءؑ واسطہِ نزول معانی و حقائق ہیں۔

(بحسن متابعة الأنبياء … الذين روابط رقائق الحقائق …)

مسئلہ توحید کو اہل شہود اور محققین نے کشف و عیان کے ذریعے سے جیسے درک کیا ہے اس کو یہاں بیان کیا جائے گا، مثلاً برہانِ امکان وجوب، برہان  وغیرہ مفاہیم ہیں، عارف ِ حقیقی جسے مشاہدہ کرتا ہے وہ اس سے جدا ہے جو ایک حکیم درک کرتا ہے۔ پس اہل شہود اور حکیم کے ادراک میں فرق ہے۔ صاحبانِ عقول وہاں تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ صاحبانِ عقل کی عقل مفاہیم سے بحث کرتے ہیں جبکہ عارفِ حقیقی جس کو شہود کرتا ہے اس حقیقت اور مشاہدہ تک اہل نظر وعقل نہیں پہنچ سکے۔امام علیؑ فرماتے ہیں:  >  فَتَبَارَكَ اللَّهُ الَّذِي لَا يَبْلُغُهُ بُعْدُ الْهِمَمِ وَلَا يَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَن‏ <. [13]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۳۰۔ البتہ وہ حکیم جدا ہے جس کی اللہ نے اپنے نور سے تائید کی اور اس کو اپنی ہدایت سے مرتبہِ استدلالِ عقلی اور ذوقی ہر دوکی توفیق عنایت فرمائی۔  پس ہمارے پاس ایک ذائقہ رکھتے ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:  { كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْت‏ ‏}[14]آل عمران: ۱۸۵۔ روایات میں آیا ہے کہ حتی جناب عزرائیلؑ بھی موت کا شکار ہوں گے لیکن ضروری ہے کہ موت کی تشریح صحیح ہونی چاہیے۔ موت کا ایک غلط معنی ہمارے ذہنوں میں موجود ہے جس میں موت ایک وحشتناک و ہولناک امر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موت متنِ وجود ہے۔رومی مثنوی میں بیان کرتے ہیں:

عمر همچون جوی نو نو می رسد
مستمری می نماید در جسد
پس تو را هر لحظه مرگ و رجعتیست
مصطفی فرمود دنیا ساعتیست۔ [15]مولوی، مثنوی، ۱۱۶۷۔

نیند موت کا بھائی ہے جیساکہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے اس کو خطابی، برہانی مقدمات کی تنگیوں سے چھٹکارا دے کر وارد ہونے والے مکاشفات کی وسعتیں عنایت فرمائی، جس کی وجہ انبیاءؑ کی اتباع ہے۔ مشاہداتِ عرفانی وحی کے مقابلے میں کف ہیں سقف نہیں۔  حافظ نے جو اشعار کہیں ہیں وہ سب معرفت سے مربوط ہیں ،اس لیے اس کی شاعری میں شراب، مے وغیرہ کی تعبیرات جب نظر آئیں تو اس سے مراد نجس مشروب نہیں بلکہ یہ معرفتی نکات سے کنایہ ہے۔ بزرگ ترین ریاضت دینداری ہے۔ عارف شریعت اور دینی ضوابط کے بغیر کسی مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ بعض افراد ریاکار اور ظاہر بین ہوتے ہیں جو ٹیڑھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں یا ایسا لباس پہنتے ہیں جیسے بہت بڑے زاہد ہوں تو ایسے افراد عارف نہیں ہیں۔ عارف وہ ہے جو اپنے زمانے کی حجت کا مطیع ہو۔ عارف انبیاءؑ کی اتباع کی وجہ سے کسی مقام تک پہنچ سکتا ہے ورنہ اس کے مکاشفات کچھ حیثیت رکھتے ۔ انبیاءؑ کی پیروی کے بغیر ذرہ برابر نورانیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ توحید ایک خاص وادی کا نام ہے جس سے اس کا تعلق جڑتا ہے جو انبیاءؑ کا پیرو ہواور برہانِ خطابی و برہانی کی تنگیوں سے چھٹکارا حاصل کر کے کشف کے وارد ہونے کی وسعتوں سے ہمکنار ہو جائے۔

حقیقت اور رقیقت 

حقیقت کا مظہر رقیقت کہلاتا ہے۔ عالمِ وحدت حقیقت ہے اور عالم کثرت اس حقیقت کی رقیقت ہے۔ حقائق کے رقائق ہوتے ہیں۔ حقیقت میں توحید اس کو حاصل ہوتی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ذات کو اسوہ حسنہ بنا لیے اور اس پر شدت سے عمل کریں کیونکہ آپ ﷺ تمام انبیاءؑ کے کمالات کے حامل تھے اور ان سے زیادہ مقام و منزلت و کمال کے مالک ہیں ۔ اس لیے انبیاءؑ کے توسط سے ہم توحید سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ۔خصوصا رسول اللہ ﷺ کی تأسی اور اطاعت کر کے۔ رسول اللہ ﷺ رتبہ اور وجود کے اعتبار سے ہر نبی سے پہلے اور مقدم ہیں جبکہ زمانے کے اعتبار سے سب سے آخری نبی اور خاتم المرسلین ہیں۔ آنحضرت ﷺ تمام غایات کی غایت اور تمام کمالات کے منبع اور تمام سعادتوں کا پیکر ہیں۔ حقیقت توحید اس کو حاصل ہوتی ہے جو انبیاءؑ کی پیروی کرے خصوصاً رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی تأسی و پیروی کرے۔اسوہِ حسنہ امرِ وجودی ہے جوکہ مراتب رکھتا ہے ۔ اس لیے انبیاءؑ کا اسوہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اسوہِ حسنہ بالاترین ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہےکہ انبیاءؑ امت پر شاہد ہیں جبکہ تمام انبیاءؑ پر شاہد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ غایت ِ وجود معرفت ہے اور رسول اللہ ﷺ سے کامل ترین اللہ تعالیٰ نے کسی اور خلقت کو خلق نہیں کیا اس لیے ان کی معرفت اور ان کا وجود غایۃ الغایات ہے۔

امتِ محمدیﷺ کا عقل و نقل کو جمع کرنا

   آنحضرتﷺ کی امت کامل ترین امت ہے اس لیے انہوں نے عقل و نقل کو جمع کر دیا ، جیساکہ آئمہ اہل بیتؑ کی احادیث میں عقل و نقل جمع ہے۔اس امت کا کمال یہ ہے کہ جو ان ہستیوں نے دیکھا اس کو انہوں نے برہانی کیا ہے۔ آئمہ اطہارؑ نے جو مشاہدات کیے اس کو برہانی انداز میں نقل کیا۔ پس عقل اور نقل میں تعارض نہیں ہے۔ لہٰذا بعض فلاسفہ نے اپنے استدلالات کے ذریعے سے جو شبہات کھڑے کیے وہ ان ہستیوں نے دور کیے۔ انہی میں سے ایک معاد جسمانی کا مسئلہ ہے۔ بلاشک و شبہ عالمِ آخرت میں معاد ’’جسمانی‘‘ ہے۔ انسان کی روح کسی عالم میں بدونِ بدن نہیں ہو سکتی لیکن ہر موطن اور عالم میں اس کا بدن و جسم اس کے مسانخ ہو گا۔ اسی طرح بہت سے موضوعات ہیں جن میں فلاسفہ نے شبہات کھڑے کر دئیے کیونکہ وہ عقل و نقل کو جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں تک رسول اللہ ﷺ کی امت آئی اور اس نے یہ شبہات عقل و نقل کے جمع سے برطرف کر دئیے۔

( هذا وإن زماننا هذا قد بلغ منتهى كماله … )

جو کام ملا صدرا نے گیارہویں صدی ہجری میں حکمت متعالیہ کی صورت میں کیا ہے وہی کام ابن ترکہ نے نویں صدی ہجری میں انجام دیا ہے اور عقل و نقل کے کمال کو حاصل کیا ہے۔ ’’دوحة‘‘ بزرگ بڑا درخت اور ’’اقبال‘‘ کہ توفیقِ نقلی ، ’’حان‘‘یعنی وقت آ پہنچا ہے۔ بالفاظِ دیگر اب وقت آ گیا ہے کہ پردہ نشین معارف سے اب نقاب اٹھایا جائے جن تک کسی کی ابھی تک رسائی نہیں ہوئی ، یعنی عقل کی رسائی ان معارف تک ابھی تک نہیں ہوئی۔ امام صادقؑ سے روایت منقول ہے:  > الْقَلْبُ حَرَمُ اللَّهِ فَلَا تُسْكِنْ حَرَمَ اللَّهِ غَيْرَ اللَّه‏ <.[16]شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۱۸۵۔  عقل کی رسائی یہاں تک نہیں کیونکہ عقلی براہین مثلا برہان نظم اللہ تعالیٰ کو ثابت نہیں کرتی بلکہ اس کے اسماءمیں سے ایک اسم کو ثابت کرتی ہے۔ استدلال کے ذریعے آپ حقیقتِ توحید تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ طہارت ِ قلبی اور متلبس بنور الہٰی ہو اور انبیاء ؑ بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی تأسی و اطاعت کرے تو وہ حقیقتِ توحید تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔البتہ رسول اللہ ﷺ کی تأسی کے ذریعے اس کمال تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے کہ عقل و نقل کو جمع کر دیا جائے۔پس انسان ریاضت، طہارت اور انبیاءؑ و رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے ذریعے حقیقتِ توحید تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

مرتاض ریاضت کے ذریعے ایک مقام تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنی زندگی میں زندگی اور مشقت آور اعمال انجام دے کر ایک درجہ تک پہنچتا ہے۔ ریاضت امرِ الہٰی کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کرنا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:   { الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ‏[17]رحمن : ۱-۲۔ اس آیت کریمہ میں ’’عَلَّمَ ‘‘ کا فاعل الرحمن ہے۔ انسانی حواس فقط حس کرتے ہیں جو حکم نہیں رکھتے، مثلاً آنکھ فقط دیکھتی ہے اور حکم نہیں لگا سکتی اس لیے آنکھ اشتباہ نہیں کرتی کیونکہ حکم نہیں رکھتی۔ اس کے مقابلے میں عقل حکم لگاتی ہے لیکن چونکہ عقل معصوم ہے اس لیے وہ بھی اشتباہ نہیں کرتی۔ عقل کے ساتھ وہم کا دخل نہ ہو تو عقل عصمت کے درجے پر حکم لگاتی ہے۔ پس یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہ آنکھ یا حس اشتباہ کرتی ہے اور نہ عقل تو اشتباہ کہاں سے آتا ہے؟ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے  { وَقالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في‏ أَصْحابِ السَّعير‏[18]ملک: ۱۰۔ پس حجت کو معصوم ہونا چاہیے۔ وہ شخص جو عقل اور نقل یعنی ’’وحی‘‘ کو جمع کرنے میں کامیاب ہو وہ شخص ہے جو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرے۔

امتِ محمدی ﷺ کی خصوصیت:

بعض چیزیں اعطائی ہیں اور بعض اکتسابی ۔ نبوت اعطائی ہے نہ کہ اکتسابی۔ حضرت موسیؑ نے جب جناب شعیبؑ کی دس سال خدمت کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت عنایت فرمائی لیکن یہ اعطائی تھی نہ کہ اکتسابی۔ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ولی اللہ کی خدمت کر کے مقام ولایت تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ ابن ابی جمہور نے رسول اللہ ﷺ سے منقول حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے:  > أَنَّهُ شَكَا إِلَيْهِ رَجُلٌ قِلَّةَ الرِّزْقِ، فَقَالَ ’: أَدِمِ الطَّهَارَةَ يَدُمْ عَلَيْكَ الرِّزْقُ، فَفَعَلَ الرَّجُلُ ذَلِكَ فَوُسِّعَ عَلَيْهِ الرِّزْقُ‏ <. [19]ابن ابی جمہور، محمد، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۵۔ طہارت کو دائمی طور پر انسان حاصل رکھے تو رزقِ الہٰی اس کے لیے دائمی رہتا ہے۔ ابن ترکہ بیان کرتے ہیں کہ امتِ محمدی ﷺ کو آنحضرتﷺ کی وجہ سے خصوصیات حاصل ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ معارف کی دنیا میں کمّل  کے لیے جن مراحل تک قدم رکھنا ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ وہ نعلین کو اتار دیں یعنی ترکِ تعلق کر دیں او ر نہ ہی کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ قدم بڑھا سکے بلکہ جب تک دو قوتوں سے خالی نہ ہو تب تک نہیں پہنچ سکتا اس مقام کے اسرار رسول اللہ ﷺ نے پہنچا دی ہے۔علم اور عقل ایک خاندان کی مانند ہیں، علم یعنی کشف ، اگر یہ راہ سے ہٹ جائے تو یہی علم حجاب اکبر بن جاتا ہے۔ اگر عقل کو راہِ الہٰی سے منحرف کر دیا جائے تو وہ راہزن بن جاتی ہے۔ امام علیؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:  > رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَهُ جَهْلُهُ وَعِلْمُهُ مَعَهُ [لَمْ يَنْفَعْهُ‏] لَا يَنْفَعُه‏ <. [20]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۸۷، حکمت قصار: ۱۰۷۔ پس رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اس مقام تک انسان پہنچ جاتا ہے جہاں عاقل و کمّل رسائی حاصل کرتے ہیں اور یہ معارف رسول اللہ ﷺ کی تأسی کرنے والے کے لیے بدیہات اور واضحات میں سے ہو جاتے ہیں۔ جب انسان پہنچتا ہے تو پھر پھل کو درخت سے اتارتا ہے۔  ایک علم دراسۃ ہے اور ایک علم وراثہ ہے۔ اگر انسان رسول اللہ ﷺ کی تأسی کرے تو وہ رسول اللہ ﷺ سے علم بعنوان میراث پائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے:  > كُلُّ تَقِي وَنَقِي آلِى‏؛‏ ل ہر متقی اور پاک و طاہر میری آل ہے<. [21]مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول، ج ۵، ص ۸۴۔ اگر کوئی وارثِ شبستری بیان کرتے ہیں:

موانع چون در این عالم چهار است
طهارت کردن از وی هم چهار است

نخستین پاکی از احداث و انجاس
دوم از معصیت وز شر وسواس
سوم پاکی ز اخلاق ذمیمه است
که با وی آدمی همچون بهیمه است
چهارم پاکی سر است از غیر
که اینجا منتهی می‌گرددش سیر
هر آن کو کرد حاصل این طهارات
شود بی شک سزاوار مناجات.[22]شبستری، محمود، گلشن راز، بخش ۲۵۔

( على أن المختار عند الصدر الأول من الحكماء الذين هم من … )

قدماء جب ’’حکیم‘‘ کہتے تھے تو وہ اس سے مراد انبیاءؑ اور اولیاءِ الہٰی ہوتےتھے۔مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ ’’کاغاثاذیمون‘‘ جنہیں شریعت کی زبان میں لقمان کہا جاتا ہے اور ’’ہرمس الھرامسۃ‘‘ جنہیں ادریسؑ کہا جاتا ہے اور ’’فیثاغورس‘‘ جنہیں شیث اور افلاطن الہٰی کہا جاتا ہے کو حکماء میں سے شمار تھے۔متأخرین نے کلمہِ حکیم کا اطلاق علم حصولی یعنی حجتِ محض اور بحثِ بحت پر کیا جس کی وجہ سے بہت سے مسائل میں گرفتار ہوگئےاور اس کی وجہ سے تاریک شبہات کے حجاب ’’حق کے واضح مسائل میں غور و فکر کرنے سے‘‘ مانع بن گئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ فلاسفہ ِ مشائین میں سے جنہوں نے دقت و تأمل کر کے مطالب لینے کی کوشش کی تو وہ نقض و متناقضات سے دوچار ہو گئے اور ان کی تألیفات تناقضات کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئے سوائے چند اور قلیل افراد کے۔ یہ فلاسفہ جن ظلمات کا شکار ہوئے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے طریقِ صحیح اور مستقیم کو ترک کر کے۔

جو لوگ حقیقتِ توحید تک پہنچے ہیں وہ اوج تواضع کے مالک ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملی رحمہ اللہ اوجِ تواضع رکھتے تھے کہ ان کے کلام اور زبان کے کلمات سے تواضع کی جھلک کا ہر انسان احساس کرتا تھا۔ اسی طرح امام خمینی رحمہ اللہ انتہائی متواضع شخصیت تھیں جبکہ توحید میں شاید ان سے اوپر معلومات رکھتا ہو کیونکہ وہ حقیقتِ توحید تک پہنچے تھے۔ ہر علم کا منتہی توحید ہونا چاہیے، حتی فزکس ، ریاضی وغیرہ غرض ہر علم کا منتہی توحید ہونا چاہیے۔ اگر اس کا اختتام اور منتہی توحید نہ ہو تو یہ ابلیس کے پھندوں میں سے ایک پھندا ہے۔ مولوی کہتے ہیں: 

گر کسی گوید که از عمرت همین
هفت روزی مانده، وان گردد یقین

تو در این یک هفته، مشغول کدام
علم خواهی گشت، ای مرد تمام؟
فلسفه یا نحو یا طب یا نجوم
هندسه یا رمل یا اعداد شوم
علم نبود غیر علم عاشقی
مابقی تلبیس ابلیس شقی
علم فقه و علم تفسیر و حدیث
هست از تلبیس ابلیس خبیث.[23]شیخ بہائی، نان و حلوا، بخش ۴۔

ہر موجود علت کا محتاج نہیں ہے بلکہ ہر معلول علت کا محتاج ہے۔ بالفاظِ دیگر ممکنات محتاجِ علت ہیں نہ کہ ہر موجود۔ یہ غلط ہے کہ ہر موجود علت کا محتاج ہے۔ یہ ابتداء سے ہی غلط ہے اس لیے بہت سے شبہات پیدا ہوتے ہیں مثلا اگر ہر وجود علت کا محتاج ہے تو اللہ تعالیٰ کی علت کیا ہے؟ یہ اصل اساس سے ہی غلط اور باطل ہے۔ پس ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ ہر موجود نہیں بلکہ ہر ممکن علت کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ اصلاً علت کا محتاج نہیں ہے۔

اس کتاب میں دو موضوع اساسی ہیں:
۱۔ توحید کیا ہے؟
۲۔ موحد کون ہے ؟
شارح نے ان موضوعات کو بیان کرنے کے لیے چند مقدمات ذکر کیے ہیں۔شارح نے اس کتاب میں عرفانی مطالب کو استدلالی زبان میں بیان کی ہے۔ ہر علم کا ایک موضوع، مبادی اور مسائل ہوتے ہیں۔ علم عرفان کا بھی موضوع، مبادئ اور مسائل ہیں۔ کتاب قواعد التوحید کی شرح کرتے ہوئے شارح نے آغاز میں علم عرفان کے موضوع ، مبادئ اور مسائل کو ذکر کیا ہے اور اس ترتیب میں اہل حکمت و استدلال کی روش کو اختیار کیا ہے۔ اس مقدمہ کے بعد شارح نے اس رسالہ کے مقاصد اور اس کے فوائد کو بیان کیا ہے۔
حضرت یوسفؑ کی داستان میں کثیر حکمت کے خزانے ہیں۔ حضرت یوسفؑ کی داستان عشقیہ کہانی نہیں ہے بلکہ داستانِ یوسفؑ بتاتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سے ربط تعلق پیدا کرنے میں کامیابی نصیب ہو جائے تو ’’چاہ ‘‘ سے ’’جا‘‘ کا سفر طے ہو جائے گا۔

معنی وجود محققین کی نظر میں:

وحدت شرک نہیں ہے بلکہ کثرت شرک ہے۔ اس لیے وحدتِ وجود شخصی شرک نہیں ہو سکتا۔ پس وجود موجودات یعنی ماہیت پر زائد شیء نہیں ہے بلکہ موجودات یعنی ماہیات ایک نوع کی جزئیات یعنی افراد ہیں ۔تنوعات یعنی ظہورات نسبت کے اعتبار سے ہے جوکہ ذہن مختلف تحلیلات کرتا ہے۔ ان حقائق کے اعیان ان کی ہویت اور وجود ہے ۔ وجود اور ماہیت کو کمرے اور افراد یعنی ظرف و مظروف کی مانند نہیں لے سکتے کیونکہ موجودات اس طرح سے نہیں ہیں ۔ موجودات یا تو ہیں یا نہیں ہیں، اس لیے کہا کہ وجود ان اشیاء پر زائد نہیں ہے۔ وہم یہ گمان کرتا ہے کہ وجود اور عدم موجود اور معدوم پر زائد ہیں!! حقیقت یہ ہے کہ وہم کا یہ تخیل ہے اور جس طرح ایک فرد کمرے میں داخل ہوتا ہے یا نکلتا ہے اسی طرح ماہیت یا ایک شیء وجود میں داخل ہوئی ہے یا خارج ہو ئی ہے !! محققین کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وجود و موجود دو الگ الگ جیز ہے ۔ محققین کے مطابق یہ شیء عینِ شیء میں موجود ہے۔ وجود اور عدم دو عبارتیں ہیں لیکن مراد عینِ شیء کا اثبات اور اس کی نفی ہے۔ لہٰذا جب عینِ شیء ثابت ہو گئی یا منتفی ہو گئی تو اس عینِ شیء کو عدم یا وجود کے ساتھ متصف کر سکتے ہی۔ یہ نسبت اور اضافت ہے ، جیسے زید جوکہ موجود ہے خود عینِ زید بازار میں موجود ہےگھر میں معدوم ہے۔ اگر عدم اور وجود کا تعلق ان اوصاف میں سے ہوتا جو موجود کی طرف لوٹتے ہیں جیسے کالا اور سفید تو محال ہوتا کہ اس کو سفید و کالا کو ایک ساتھ متصف کیا جا سکتا۔ بلکہ اگر وہ معدوم ہے تو موجود نہیں ہے جیساکہ اگر سیاہ ہے تو سفید نہیں ہے ۔ البتہ نسبت اور اضافت کے اعتبار سے ایک شیء کو وجود اور عدم کےساتھ ایک زمانے میں متصف کر سکتے ، مثلا یہ اس اعتبار سے موجود اور اس اعتبار سے معدوم ہے باوجود اس کے کہ عینِ شیء ثابت ہے۔

معنی لفظِ کون:

لفظ وجود فقط اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بقیہ تمام وجودات چونکہ وجود کی طرف منسو ب ہیں اس لیے ما سوا اللہ کو عرفان میں ’’کَون‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔پس وجود فقط حق تعالیٰ ہے۔ بعض نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وجود ہے جبکہ بقیہ موجود ہیں یعنی وہ جو وجود کی طرف منسوب ہیں۔

وحدت اور کثرت کا معنی:

وحدت اور کثرت دو قسم کی ہے:
۱۔ وحدت حقیقی
۲۔ وحدت اضافی و نسبی
اسی طرح کثرت ہے:
۱۔ کثرتِ حقیقی
۲۔ کثرتِ اضافی و نسبی

۱۔ وحدتِ حقیقی:
وحدت حقیقی سے مراد وہ وحدت ہے جو کسی بھی اعتبار سے تقسیم اور قسمت کو قبول نہ کرے۔بالفاظ دیگر وحدتِ حقیقی کسی قسم کی کثرت کو قبول نہیں کرتی۔وحدتِ حقیقی اصلاً کوئی مقابل نہیں رکھتا، جیسے وحدتِ حق تعالیٰ کہ اللہ تعالیٰ عدد کے معنی میں واحد نہیں ہے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ زید ایک ہے، انسان ایک ہے، حیوان ایک ہے تو اس طرح کی مثالوں میں وحدت کے مقابلے میں کثرت ہے۔ اس کے برخلاف وحدتِ حقیقی یا وحدتِ ذاتی غیر کے لیے کسی قسم کی جگہ نہیں دیتی یا کسی قسم کا موقع فراہم نہیں کرتی کہ کثرت متحقق ہو۔ اس کو صمد بھی کہا جاتا ہے۔ پس وحدت ِ ذاتی وہ وحدت ہے جس کے مقابل کچھ وجود نہیں رکھتا اور نہ گنجائش ہے کہ اس وحدت کے مقابلے میں کثرت آئے۔اللہ تعالیٰ جس وحدت سے متصف ہے اس میں وحدت کے مقابلے کثیر و کثرت نہیں ہے۔ حتی وحدتِ ذاتی کے مفہوم میں کثرت کا اعتبار نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی مقابل رکھتی ہے۔ پس  اللہ تعالیٰ کی وحدت ’’وحدت ذاتی‘‘ ہے ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدد کے معنی میں وحدت نہیں رکھتا تو اس سے مراد حق تعالیٰ کی وحدت کا وحدتِ ذاتی ہونا ہے۔
۲۔ وحدتِ اضافی و نسبی:
وہ وحدت جو عارض اور لاحق ہے۔ وحدتِ نسبی سے مراد یہ ہے کہ یہ ذات متعدد امور میں تقسیم ہونے کی قابلیت نہیں رکھتی ۔ اس نوعِ وحدت میں مقابل ہے جوکہ کثرت ہے۔ ایک وحدت وہ ہے جو واحد پر عارض ہوتی ہے ، یہ وحدت مقابل رکھتی ہے جسے کثیر کہتے ہیں۔اس وحدتِ نسبی کا مقابل کثیر ہے لیکن یہ تقابل تقابلِ عرضی ہے۔ تقابلِ عرضی کے مقابلے میں تقابلِ ذاتی ہے۔  تقابل ذاتی با تقابل بالذات والاصل صرف چار جگہ ہے: ۱۔ تناقض، ۲۔ ملکہ و عدم ملکہ، ۳۔ تضاد، ۴۔ تضایف۔ ان چار کے علاوہ تقابل بالعرض ہے نہ بالذات۔ اس نوعِ وحدت کے مقابلے میں کثیر تقابل بالعرض ہے ۔ 
۳۔ کثرتِ ذاتی:
وہ کثرت جو کسی پہلو سے وجہِ مشترک نہیں رکھتا۔اشیاء کا اس طرح سے متعدد ہونا جن میں وجہِ اتحاد وجود نہیں رکھتا ۔ اس کو کثرتِ ذاتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حتی عدمِ اعتبارِ وحدت کی قید بھی نہ ہو۔ اگر یہ قید موجود ہو تو یہ نقطہِ اتحاد بن سکتا ہے۔ لہٰذا کثرتِ ذاتی میں متعدد اشیاء میں کوئی اتحاد کا پہلو وجود نہیں رکھتا حتی کثرتِ ذاتی میں عدمِ اعتبار وحدت کی قید بھی معتبر نہیں۔
۴۔ کثرتِ اضافی:
وہ کثرت جو جامع مشترک رکھتا ہے، جیسے زید و عمر و، بکر وغیرہ کہ نوعِ انسان میں اشتراک رکھتے ہیں۔

 

 

منابع:

منابع:
1 ابن جمہور، محمد بن زید الدین، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۷۔
2 ابن طاؤوس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج ۳، ص ۲۹۹، فصل ۱۰۔
3 انعام: ۷۶
4 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۹۶، خطبہ ۶۵۔
5 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۱۴۶، خطبہ ۱۰۱۔
6 شعراء: ۸۸-۸۹۔
7 حدید: ۴۔
8 احزاب: ۵۶۔
9 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۱۶، ص ۴۰۶۔
10 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص ۲۴۔
11 کلینی، محمد بن یعقوب، ج ۲، ص ۴۴۳۔
12 روم: ۳۰
13 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۳۰۔
14 آل عمران: ۱۸۵۔
15 مولوی، مثنوی، ۱۱۶۷۔
16 شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، ص ۱۸۵۔
17 رحمن : ۱-۲۔
18 ملک: ۱۰۔
19 ابن ابی جمہور، محمد، عوالی اللئالی، ج ۴، ص ۵۔
20 سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۴۸۷، حکمت قصار: ۱۰۷۔
21 مجلسی، محمد باقر، مرآۃ العقول، ج ۵، ص ۸۴۔
22 شبستری، محمود، گلشن راز، بخش ۲۵۔
23 شیخ بہائی، نان و حلوا، بخش ۴۔
Views: 22

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: انسانی حواس فارابی کی نظر میں
اگلا مقالہ: ذات احدیت اور واحدیت