loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵۹}

ولایت و امامت اہل تصوف کی نظر میں

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

مسلمانوں کے درمیان اختلافی ترین موضوع امامت رہا ہے۔ اس مسئلے پر کئی جنگیں و کشت کشتار ہوا۔ امت کا حاکم کون ہوگا؟ امت کس کی قیادت میں چلے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر امت شیعہ سنی میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ سنی اس بات کے قائل ہوۓ کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یا رسول اللہﷺ نے ہماری اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی۔ لذا امت کسی بھی روش کو اختیار کرتے ہوۓ اپنا حاکم انتخاب کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس شیعہ اس معاملے میں اصول و ضوابط اور قرآنی معیار لاتا ہے۔ قرآن کریم مکمل نظام دیتا ہے اور اس نظام کی تشریح رسول اللہﷺ نے بیان فرمائی۔ اسی تسلسل میں غدیر خم کے مقام پر اسلامی معاشرے کا ولی، ہادی، مدیر و امام معین کیا گیا۔ اہل تشیع ۱۲ویں امام تک اسی نظام کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن سوال ۲۶۰ ہجری میں پیدا ہوتا ہے جب امام معصوم و متعین الہی حاکم پردہ غیبت میں چلا جاتا ہے۔ غیبت کے بعد سیاسی نظام کیا ہوگا؟ کیا قرآن کریم اور مکتب تشیع نے اس حوالے سے بھی کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ اگر غیبت میں فتوی اور قضاوت کا نظام موجود ہے تو کیا سیاسی نظام بھی موجود ہے یا نہیں؟ اگر ۲۶۰ ہجری کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے کوئی معین سیاسی نظام موجود نہیں ہے تو یہی بات تو اہل سنت بھی کرتے ہیں لیکن وہ یہ بات سال ۱۱ہجری کو کرتے ہیں اور ہم یہی بات ۲۶۰ ہجری کو کر رہے ہیں۔ اگر مان لیا جاۓ کہ دین نے ۲۶۰ ہجری کے بعد سیاسی نظام بیان نہیں کیا،حاکم کے انتخاب کا کوئی معیار بیان نہیں کیا تو نہائی طور پر شیعہ سنی ہر دو ۲۶۰ ہجری کو اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ دین اسلام سیاسی نظام نہیں رکھتا۔ جبکہ یہ بات درست نہیں۔ اہل تشیع جس طرح سے ۱۱ہجری اس بات کا قائل تھا کہ دین نے باقاعدہ حاکمیت و سیاست کا نظام بیان کیا ہے ۲۶۰ ہجری بھی اس بات کا قائل ہے کہ جو ضرورت ۱۱ہجری کو تھی وہی ضرورت اس وقت بھی باقی ہے اور اب بھی اللہ تعالی نے نظام قرار دیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے علم میں یہ بات تھی کہ ۱۲ویں حجت غائب ہوگی۔ تو اس وقت غیبت میں سیاسی نظام کیا ہوگا؟ امت کی ہدایت کس کے ذمہ ہوگی؟ مسلمانوں کی مدیریت کون کرے گا؟ اگر یہ بات اللہ تعالی کے علم میں تھی اور پھر بھی اس نے اہتمام نہیں کیا تو اس کی بازگشت اس بات پر ہوتی ہے کہ نعوذباللہ اللہ تعالی کی ذات میں نقص لازم آۓ۔

ولایت و امامت کی ادھوری تفسیر

امت کی ہدایت و مدیریت کے لیے اللہ تعالی نے امامت کا نظام رکھا ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد ۱۲ امام حقیقی طور پر امت کے شرعی حاکم اور ان پر ہادی ہیں۔ ۱۲ویں امام کے بعد نیابت کا نظام ہے۔ اب نائبین کی ذمہ داری ہے کہ جو کام امام نے کرنا ہے اپنے تئیں وہ فریضہ انجام دیں اور امت کی مدیریت کریں۔ افسوس کے ساتھ امت کے ساتھ ایک مسئلہ شروع سے پیش آیا جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ اور یہ کہ امامت کا صحیح معنی امت پر واضح  نہیں ہو سکا۔ غدیر خم میں جب امام کا تعین ہوا تو اکثریت نے کوئی اور ہی معنی سمجھ لیا۔ اہل تشیع کے ہاں بھی یہ مسئلہ پیش آیا۔ امامت کا معنی ۱۲ اماموں کی ذوات تک تو صحیح کرتے ہیں لیکن جب باری آتی ہے نائبین امام کی تو وہاں پر امامت کا معنی صرف فتوی بیان کرنے اور قضاوت کے لیے مانتے ہیں۔ حاکمیت و اجتماعی طور پر امت کی مدیریت میں امامت کا معنی نہیں کرتے۔ ہمارے علماء اور اہل منبر نے یہ معنی بہت قلیل بیان کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں امامت کا معنی ایک روحانی مقام کیا جاتا ہے۔ امام کو ایک ایسی شخصیت سمجھا جاتا ہے جو عرفان کے اعلی مقامات پر فائز ہے، کرامات اور معجزے دکھا سکتا ہے اور اللہ تعالی کے بہت قریب ہے۔ یہ معنی درست ہے لیکن یہ معنی صرف امام کی ولایت تکوینی کی جہت کو بیان کر رہا ہے۔ جبکہ امام کا حقیقی معنی حاکم ہے۔ چونکہ برصغیر کے مسلمانوں پر اہل تصوف کے تفکر کی ایک گہری چھاپ موجود ہے اور کوئی بھی فرقہ اس سے استثناء نہیں ہے۔ ان مناطق میں زیادہ تر صوفیاء نے تبلیغات انجام دیں اور اسلام کو پھیلایا۔ اہل تصوف نے امام کا یہی معنوی معنی کیا ہے۔ شیعہ بھی اپنے منبر سے آئمہ معصومینؑ کی اسی معنوی جہت اور فضائل کو بیان کرتا ہےلیکن ان کی حاکمیت شرعی کا بیان بہت قلیل کرتا ہے۔

صوفیاء کی تبلیغ کا اثر

ہم یہ نہیں کہتے کہ جو اسلام صوفیاء نے تبلیغ کیا وہ سو فیصد غلط تھا۔ یا جو معنی امامت کا بیان کیا وہ درست نہیں۔ سب مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ آئمہ معصومینؑ کو عظیم مرتبہ و مقام حاصل ہے جو کسی کو بھی حاصل نہیں۔ اہل تشیع اسے رسول اللہﷺ کی صحیح السند احادیث کی بنا پر قبول کرتے ہیں اور صوفیاء اس حقیقت کو کشف و شہود سے درک کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امامت کی حقیقیت یہی ہے؟ کیا امام کا معنی با فضیلت و ایک معنوی شخصیت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف یہی حقیقت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امام کی اس حقیقت کی طرف بھی توجہ ہونا ضروری ہے کہ امام وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے امت کا حکمران ہو۔ امت کے اجتماعی و سیاسی مسائل کی مدیریت کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف عبادت کرنا، اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ریاضتیں کاٹنا، معجزے دکھانا نہیں۔ امام کا کام صرف فقہی احکام بیان کرنا اور درس و تفسیر بھی نہیں بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ امت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے، زمانے کے طواغیت سے امت کو نجات دے اور ان پر الہی قوانین کے مطابق حکومت کرے تاکہ امت ہدایت کے راستوں پر چل سکے۔ امامت اس کو کہتے ہیں۔ یہ وہ معنی ہے جسے صوفیاء بیان کرنے سے کتراتے ہیں بلکہ شیعہ بھی اس معنی کو بیان کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں۔

امامت کا معنی بدلنا

امامت ایک معنوی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ، سیاسی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہﷺ نے غدیر کے مقام پر امام علیؑ کے بلند معنوی مقام کو بیان کرنا نہیں چاہ رہے تھے بلکہ ان کے سیاسی طور پر امت کے مدیر ہونے کا اعلان فرمارہے تھے۔ اس لیے ہم شیعہ پہلا خلیفہ امیرالمومنینؑ کو مانتے ہیں۔ دوسرا خلیفہ امام حسنؑ اور اسی ترتیب سے ۱۲ویں امام تک امت کے رہبر و رہنما اور ان پر حکمران یہی ہیں جن کو اللہ تعالی نے منصوب کیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ کیا امامت کا نظام صرف ۱۲ویں امام کی غیبت تک تھا۔ اس کے بعد جمہوری یا بادشاہی نظام ہونگے؟ اور کیا غیبت کے بعد امامت کا معنی بدل جاۓ گا۔ نائب امام کا کام صرف فتوی دینا، قضاوت کرنا اور نماز جماعت کی امامت کرنا ہوگا؟ یہاں پر اہل تصوف کے اس معنی کی واضح چھاپ ہمیں نظر آتی ہے۔ انہوں نے معنی ہی ایسا بیان کیا جو غیر سیاسی تھا۔ شیعہ نے بھی امامت کو غیر سیاسی مان لیا۔ جبکہ امامت، امت کی سیاسی و اجتماعی باگ ڈور سنبھالنے کا نام ہے۔ شیعہ اس بات کا قائل ہے کہ ایک دن امامت کا نظام پوری دنیا پر حاکم ہوگا۔ جس طرح سے امامت کا نظام سیاسی ہے اسی طرح سے نیابت کا نظام بھی سیاسی ہوگا۔

امامت اور نیابت کا نظام

مکتب تشیع کا نظریہ ہے کہ ۱۲ویں امام اپنے بعد امت کو اپنے حال پر چھوڑ کر نہیں گئے بلکہ نیابت کا نظام تشکیل دے کر گئے۔ جو ذمہ داریاں امام کی تھیں غیبت کے زمانے میں وہ ذمہ داریاں ان کے نائبین کی بنتی ہیں۔ نائب امام کے اختیارات میں اختلاف ہے۔ بعض صرف فتوی اور قضاوت کی دنیا میں نیابت مانتے ہیں سیاسی و اجتماعی مسائل میں نیابت نہیں مانتے۔ یعنی جو معنی صوفیاء نے امامت کا کیا وہی معنی ہم غیبت کے زمانے میں نیابت کا کرتے ہیں۔ صوفیاء نے کہا کہ امام کا کام صرف معجزے دکھانا اور اعلی مقامات معنوی کو کسب کرنا ہے۔ امام کا کام سیاسی مسائل میں پڑنا نہیں ہے۔ اور نیابت کا یہی معنی ہمارے بعض افراد زمانہ غیبت میں بھی قبول کیے ہوۓ ہیں۔ ان کے بقول نائب امام کا کام صرف فقہی حکم بیان کرنا ہے اس کا کام یہ نہیں کہ امت کے سیاسی و اجتماعی مسائل میں دخالت کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ فقیہ کی ذمہ داری امام کی نیابت میں صرف اتنی بنتی ہے کہ اگر اس سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھتا ہے تو اس کو بتاۓ اور اگر کوئی جھگڑے کا فیصلہ کروانے آتا ہے تو قرآن و سنت کی روشنی میں اس کے تنازع کو حل کرے۔ جبکہ درست یہ ہے کہ جو معنی امامت کا ہے وہی نیابت کا بھی ہے۔ جو ذمہ داریاں امام کی ہیں وہی نائب امام کی ہیں۔ بات مقام و منزلت کی نہیں ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ نائب امام کا مقام، امام کے مقام کے آگے ہیچ ہے۔ اگر امام کی ذمہ داری صرف مسئلے بیان کرنا اور قضاوت کرنا نہیں ہے اور امت کی مدیریت کرنا ہے تو یہی صورت نائب امام کی بھی بنتی ہے۔ جو دلیلیں تقلید کے باب میں دی جاتی ہیں اور ان سے فقیہ کے فتوی دینے اور اس پر عمل کرنے کو واجب قرار دیے جانے کا کہا جاتا ہے انہیں دلیلوں کی بنا پر فقیہ کے سیاسی طور پر حاکم ہونے کو بھی ثابت کیا جاتا ہے۔ اگر معاشرے کو فقہی مسائل بیان کرنے والے فقیہ کی ضرورت ہے تو وہیں پر سیاسی طور پر ایک حکمران کی بھی تو ضرورت ہے۔ اگر دین اسلام اور ۱۲ امام کے لیے تقلید کا نظام دے کر جانا اتنا اہم تھا تو وہیں پر امت کا اجتماعی نظام بھی تو اہم تھا۔

اجتماعی مسائل کی اہمیت

یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم امامت سے تقلید کا نظام تو اخذ کرلیں جو فرد کو گناہ سے بچانے اور واجبات کو انجام دینے کے لیے تشکیل دیا گیا لیکن پوری امت کے لیے سیاسی نظام نہ اخذ کریں؟ معاشرے کے اجتماعی مسائل زیادہ سنگین ہیں یا انفرادی عبادت کے مسائل؟ مثلا امت کے لیے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ فلاں فقہ کے جزوی مسئلے میں کیا کرے اور کیا نہ کرے یا یہ اہم ہے کہ امت کا حکمران کون ہوگا؟ یقینا اجتماعی مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اجتماعی مسائل کے آگے فرد کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ یہاں پر ہم مثال خود فقہاء کے فتاوی سے لاتے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ امت کا اجتماعی نظام زیادہ اہم ہے یا فقہی مسئلہ۔ مثلا مسلمانوں کے لشکر کا کسی کے کھیتوں سے نکلنا بہت ضروری ہو اور اگر وہ وہاں سے نہ نکلے تو نا صرف لشکر کو نقصان ہوگا بلکہ جنگ ہارنے کا خدشہ ہے۔ اب یہاں پر کیا کیا جاۓ؟ کسان کے کھیت کو اور اس کی فصل کو بچایا جاۓ یا لشکر کو؟ کیونکہ اگر لشکر وہیں سے نکلتا ہے تو اس شخص کا نقصان ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ اس زمین سے گزریں کیونکہ یہ میری ملکیت اور حق ہے۔ اب یہاں پر ایک شخص کا انفرادی نقصان ہے اور دوسری طرف امت کا اجتماعی طور پر نقصان۔ فتاوی بھی یہی کہتے ہیں اور عقل بھی یہی مانتی ہے کہ اس شخص کا ذاتی نقصان ہونے دیا جاۓ گا اور معاشرے کو اجتماعی نقصان سے بچایا جاۓ گا۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل کی یہ اہمیت ہے۔ ہمیں امامت سے انفرادی مسائل بھی نکالنے ہیں اور اس کے لیے فقہ کا علم ہے۔ ساتھ ہمیں امت کی اجتماعی مدیریت کے لیے امامت سے سیاست کو بھی استنباط کرنا ہے تاکہ اجتماعی مسائل کا شکار نہ ہوں۔ امامت کو صوفیاء کی نظر سے نہیں دیکھنا بلکہ تمام جہات سے دیکھ کر اس سے اپنی ہدایت کا سامان لینا ہے۔

اجتماعی مسائل میں اجتماعی نگاہ کی ضرورت

اگر ہم دین، معاشرہ اور انسان کے مسائل کو صرف فقہ کی جہت سے دیکھیں تو کبھی بھی فلاح نہیں پائیں گے۔ دین جہاں پر آپ کو فقہ اور قضاوت کے باب میں ہدایت کرتا ہے وہیں سیاسی و اجتماعی مسائل میں رہنمائی کرتا ہے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم دین سے اجتماعی مسائل کا حل استنباط کریں۔ اور یہ نا کہیں کہ غیبت کے زمانے میں ہماری ذمہ داری ہی نہیں بنتی۔ کربلا میں جب داعش پہنچی تو ہمارے بعض مراجع نے فقہ سے یہ راہ حل استنباط کیا کہ ابھی ہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کیونکہ ہم نجف میں بیٹھے ہیں اور جب داعش نجف پہنچے گی تو موضوع محقق ہوگا تو دفاع واجب ہوگا۔ تو ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ گھوڑوں اور تلواروں کا دور نہیں ہے، جنگ بغداد میں ہو رہی ہے اور دشمن ایک بٹن دباۓ گا کوئی بھی شہر عراق کا نابود ہو جاۓ گا۔ اجتماعی اور سیاسی مسائل میں ہمارے پیچھے رہ جانے کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے ۲۶۰ ہجری کے بعد امامت اور اس کے ذیلی نظام نیابت کو غیر سیاسی کر دیا۔ اور کہا کہ ہماری ذمہ داری اجتماعی مسائل میں مداخلت کرنا نہیں، ہماری ذمہ داری دفاع کرنا نہیں، ہماری ذمہ داری امت کے سیاسی و اجتماعی مسائل کی مدیریت کرنا نہیں بلکہ صرف فتوی دینا فریضہ ہے۔ یہ شبہات ہیں۔ یہ ناقص دین ہے جو پھیلا دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ طواغیت و ظالمین کے تابع رہیں۔ وہ ان پر ظلم و ستم کریں اور یہ فریضہ سمجھ کر خاموش رہیں۔ یا یہ سوچتے رہیں کہ ہم سیاسی امور میں مداخلت کریں یا نہ کریں؟ ہم اخبار پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ اخبار پڑھنے کا زیادہ فائدہ ہے یا فقہ کی کتاب پڑھنے کا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے یہ بات بھی علماء میں مشہور تھی کہ جو عالم منبر پر مجلس پڑھتا ہے وہ مجتہد نہیں بن سکتا۔ یہ غلط تفکرات تھے جن کو ختم کرنا ہے۔

اجتماعی مسائل میں استنباط کی ضرورت

ہمارے فقہاء کرام ماشاء اللہ اتنے با استعداد ہیں کہ انہوں نے ایک آیت «اوفوا بالعقود »سے ہزاروں فتاوی استنباط کیے ہیں۔ فقہ کے کئی ابواب میں اسی آیت سے استدلال کرتے ہوۓ ہزاروں فرعیات نکال کر فتاوی دیتے ہیں۔ لیکن یہ فقہ کی دنیا ہے جو مکلف کی انفرادی زندگی سے مربوط احکام کا حل بتاتی ہے۔ ہم اس حدیث سے استنباط کیوں نہیں کرتے جو کہتی ہے کہ«مَنْ أَصْبَحَ لا یَهْتَمُّ بِأُمورِ الْمُسْلمینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ »[1] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۱۶۳۔ اس حدیث سے مسلمانوں کے اجتماعی و سیاسی مسائل اجتہاد کیوں نہیں کرتے؟ مسلم ممالک کے دفاع کے امور، ان کے معاشرتی مسائل، مسلمان معاشروں کے سیاسی مسائل، اقتصادی اور امنیتی مسائل کو اس حدیث سے استنباط کرنا ضروری ہے۔ یہ کہہ کر اس فریضے سے پیچھے ہٹ جانا کہ سیاسی امور میں مداخلت کرنا فقیہ کی ذمہ داری بنتی بھی ہے یا نہیں اور یہ تو اختلافی موضوع ہے تو اس پر محنت کرنے کی کیا ضرورت؟ پھر تو توحید، رسول اللہﷺ کی ذات اور قرآن کریم میں بھی اختلاف ہے۔ پھر تو سب امور ہی اختلافی ہیں۔ آیت اللہ خوئیؒ علمی دنیا میں نادر و شاذ اقوال کو حوزہ میں شہرت دے گئے تو کیا وہ ٹھیک تھے اور ان سے پہلے والے علماء غلط؟ جی نہیں! بلکہ دلیل کو دیکھا جاۓ گا۔ اگر دلیل ہے تو مشہور کے مقابلے میں نادر قول کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ آخر کیا مسئلہ ہے کہ ہم اجتماعی مسائل سے اتنا کٹ کر رہیں؟ یہی نجف کی سرزمین اگر کسی یہودی یا عیسائی کے پاس ہوتی تو اس نے پورے شہر کو جنت بنا دینا تھا۔ لیکن ہم مدیریت کرنے میں اتنے پیچھے  ہیں کہ اس شہر کی صفائی بھی نہیں کروا سکتے۔ جب ہم نے خود کو اجتماعی مسائل سے دور کر لیا تو حالت یہ ہوگئی کہ تشیع کے مرکزی شہر کی ایک گلی تک صاف نہیں۔ بجلی ہے نا پانی ہے۔ اللہ تعالی نے قدرتی طور پر اس شہر کو خوبصورتی عطا کی ہے لیکن چونکہ ہمارے اندر معاشرہ سازی کا کوئی ایک مسئلہ بھی استنباط شدہ موجود نہیں اس لیے وہ شہر اس حالت میں ہے۔ جو حالت ایک دور دراز عام سے گاؤں کی ہے وہی حالت ایک ایسے شہر کی ہے جس میں کفایہ مکاسب پڑھنے پڑھانے والے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ بات قبول کرنا ہوگی کہ فقہ و اصول پڑھنے سے اور دین کو صرف ایک جہت سے دیکھنے سے معاشرے کے اجتماعی مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے دین بھی انفرادی حیثیت کا قبول کیا ہوا ہے اور ہمارا طرز تفکر بھی انفرادی ہے۔ اجتماعی شعور کی کمی ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کروڑ پتی ہو اس کا گھر شیش محل ہو لیکن اس کے گھر کی گلی میں مہینوں سے بارش کا پانی کھڑا ہو۔ اس نے اپنا گھر تو سجایا ہوا ہے لیکن ایک ایسے محلے میں رہتا ہے جس کا پانی صرف سورج سکھاتا ہے ورنہ سیورج کا کوئی انتظام نہیں۔ اس سوچ کا متحمل معاشرہ جب دین کو پڑھتا ہے تو اسے بھی انفرادی سوچ سے پڑھتا ہے اور اس سے انفرادی احکام اخذ کرتا ہے۔ دین سے اجتماعی و سیاسی نظام استنباط نہیں کر سکتا۔ ایسا شخص مجتہد یا ولی فقیہ نہیں بن سکتا جس کا گھر تو صاف ہو لیکن باہر گند کے ڈھیر ہوں۔ یہ شخص عالم تو ہے لیکن مدیریت نہیں جانتا، منظم کرنا نہیں جانتا، ہمارے آئمہ معصومینؑ ایسے نہ تھے۔ نظافت، طہارت، اور گھرانے کو منظم کرنے میں بہت حساسیت دکھاتے۔ لیکن افسوس ہم نے آئمہ معصومینؑ کی اجتماعی زندگی کا تعارف ہی نہیں کروایا۔

ناقص دین اور کامل دین

اگر ہم نے کامل دین پڑھا اور سمجھا ہوتا تو یہ نہ کہتے کہ فلاں مسئلے میں دین ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ فلاں سیاسی و اجتماعی مسئلے میں ہمیں دین سے کوئی مؤقف نہیں ملتا۔ یہ کیسا دین ہے جو آپ کو انفرادی مسائل میں تو ہدایت کرتا ہے لیکن اجتماعی مسائل میں آپ کو کوئی رہنمائی نہیں کرتا؟ کیا ایسا دین کامل ہو سکتا ہے؟ پاکستان کے مسائل میں نبیﷺ کا مؤقف کیا ہوتا؟ قرآن کریم کا مؤقف کیا ہے؟ کیا دین صرف ۲۶۰ ہجری تک ان مسائل کا جواب دہ ہے؟ اس کے بعد دین تعطیل ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء انفرادی مسائل میں اتنے حساس ہیں اور اس کے حل کے لیے سال ہا سال قرآن و سنت سے دینی مؤقف نکالنے کی زحمت اٹھاتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ایک فقہی مسئلے میں فتوی دینے میں کتنے سال کی زحمت موجود ہوتی ہے؟ لیکن اجتماعی مسائل میں کاملا سکوت؟ امت کے اجتماعی مسائل، امنیت میں کیا مؤقف اختیار کیا جاۓ؟ امت کو اجتماعی گناہوں سے کیسے محفوظ کیا جاۓ؟ ہمارے پاس حج کے ایک فقہی باب کا ۱۴ سالہ درس خارج موجود ہے لیکن حکومت، سیاست، اجتماعی امور پر ایک بھی درس خارج نہیں ہے۔ اجتماعی قوانین پر ایک درس بھی نہیں ہو رہا۔ ہم احکام استنباط کرنے پر زور لگا رہے ہیں اور دشمن نظام استنباط کرنے میں زور لگا رہا ہے۔ جب ہماری ساری توانائیاں احکام نکالنے میں سرف ہو رہی ہیں وہاں دشمن ہمارے لیے منصوبے بنانے میں مصروف ہے۔ کیا اس سے غیبت کی راہ ہموار ہو سکے گی؟ ولایت فقیہ کا موضوع معاشرے کی مدیریت کا مسئلہ ہے اس کو بحث کرنا ضروری ہے لیکن ہمارے بعض افراد کی پوری کوشش ہے کہ اس موضوع کو بھی انفرادی حیثیت دے دی جاۓ اور اگر دین سے کسی موضوع سے اجتماعی مسائل کا حل نکل بھی رہا ہے تو اسے بھی اختلافی موضوع بنا دیں اور اسی ناقص دین پر عمل کریں جس میں صرف چند عبادات اور احکام ہیں لیکن نظام نہیں ہے۔

جامع تفکر رکھنے والے علماء کی قلت

ہم نے سیاسی طور پر کوئی بھی تفکر رکھنا ہو یا کسی بھی طاغوت کی اطاعت کا جواز نکالنا ہو تو فورا فتوی لے لیتے ہیں۔ فتوی بھی اپنی مرضی کا مسئلہ مروڑ تروڑ کر بیان کر کے لے لیتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ اقساط میں بیان ہوا کہ معاشرے کی مدیریت و امامت اور رہبری کا موضوع اصلاً فقہی مسئلہ ہی نہیں۔ معاشرہ کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کرنے والے علماء آسانی سے آپ کو کسی بھی غیر الہی سیاسی نظام کا حصہ بننے کا جواز فراہم نہیں کر دیتے۔ وہ امامت کی تبیین پیش کرتے ہیں اور جب امامت کا حقیقی تعارف کرایا جاتا ہے تو تب بات ولایت فقیہ تک پہنچتی ہے۔ لیکن اگر امامت کا معنی ہی صوفیاء والا کیا جاۓ تب تو کبھی بھی ولایت فقیہ کی نوبت نہیں آۓ گی۔ در اصل جس شخص کو امامت حقیقی معنی میں سمجھ آ جاۓ اس کے لیے ولایت فقیہ کو سمجھنا آسان ہے۔ ہمیں انفرادی دین سے نکل کر جامع دین کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے جس میں اجتماعی مسائل کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دین اسلام نے بھی انفرادی گناہوں سے زیادہ اجتماعی گناہوں کو اہمیت دی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زنا کرتا ہے اور چار گواہ ثابت نہیں ہوتے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ کیوں؟ کیونکہ گناہ اجتماعی شکل اختیار نہیں کر سکا لیکن اگر اس کے چار گواہ ہوں تو چونکہ اب ایک حد تک گناہ اجتماعی ہو گیا ہے اور معاشرے کو متاثر کر رہا ہے اس لیے حد جاری کرنا ضروری ہے۔ دین تو کامل تھا لیکن ہم نے غفلت کی اور دین کو جامع نظر سے نہیں دیکھا۔ ولایت فقیہ در اصل ایک ایسا موضوع ہے جو سیاسی اور اجتماعی نگاہ کو دین میں واپس لاتا ہے۔ آج کے دور میں اگر آپ دین کے کامل ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو کوئی نظام پیش کرنا ہوگا جو اسلام سے آپ نے استخراج کیا ہو۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو نا آپ کا دین کامل ہے اور نا آپ کی دینی معرفت کامل ہے۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔

منابع:

منابع:
1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۱۶۳۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔
Views: 74

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: امامت و خلافت مکتب تشیع کی نظر میں
اگلا مقالہ: اصل ضابطہ عدم ولایت