loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵۸}

امامت و خلافت اہل تشیع کی نظر میں

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

شیعہ نظریہ امامت کو قرآن کریم اور صحیح السند روایات سے ثابت کرتے ہیں۔ مخالفین شیعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ نظریہ امامت شیعہ کتب سے ثابت نہیں ہے ۔ ان کے بقول شیعہ کتابوں میں بھی چند ضعیف السند روایات ہیں جن سے نظریہ امامت ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ معترضین صرف وہ روایات لے آتے ہیں جو ضعیف ہیں صحیح السند روایات نہیں لے آتے۔

نظریہ امامت پر دلیل

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
«وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هادٍ».
ترجمہ:  اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔[1] رعد: ۷۔
اس آیت کے ذیل میں الکافی میں امام باقرؑ سے صحیح السند روایت وارد ہوئی ہے:
«عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع‌ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ‌ هادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْمُنْذِرُ وَ لِكُلِّ زَمَانٍ مِنَّا هَادٍ يَهْدِيهِمْ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ».
ترجمہ: امام باقرؑ سے اللہ تعالی کے قول «إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ‌ هادٍ »کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ منذر ہیں اور ہر زمانے میں ایک ہادی ہوتا ہے جو اس کی طرف لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جو رسول لاۓ۔[2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۹۱۔
اس کے علاوہ دیگر روایات بھی موجود ہیں جن سے نظریہ امامت ثابت ہوتا ہے۔ پس یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ نظریہ امامت شیعہ کتابوں سے ہی ثابت نہیں ہے اور شیخ صدوقؒ نے خود سے شیعی نظریات پھیلاۓ درست نہیں۔

شیعت کا معیار

شیعہ اور سنی ہونے کا معیار نظریہ امامت ہے۔ شیعہ حاکم کے انتصاب کا قائل ہے۔ اساسی ترین مسئلہ جس کی بنا پر شیعہ سنی میں فرق کیا جاتا ہے یہی مسئلہ ہے۔ اگر آج بھی کوئی شخص حاکم کے انتصاب کی بجاۓ انتخاب کا قائل ہو جاۓ وہ سنی ہو جاۓ گا۔ کیونکہ اصلی مسئلہ حاکمیت و امامت ہے۔ اگر ایک شخص خلفاء کی چار خصوصیات بیان کر دے یا ان کے حکومتی نظام کا تجزیہ تحلیل کر دے تو اس سے وہ سنی نہیں نہیں بن جاتا۔  اگر آج کوئی سمجھتا ہے کہ امت خود حاکم بنا سکتی ہے یہ سنی ازم (Sunnism)ہے۔ حاکمیت کا حق اللہ کو حاصل ہے اور حاکم کے منصوب کرنے کا حق بھی اللہ کا ہے یہ شیعت ہے چاہے وہ ۱۱ہجری ہو یا عصر حاضر کا زمانہ۔ ہمارے دین کی اساس ہی سیاسی نظریہ ہے۔ اس لیے کُل دین سیاست ہے۔ دین سیاست سے جدا نہیں ہو سکتا۔ 

 امام کی معرفت اور اس کا انتصاب

تمام شیعہ سنی علماء کا اتفاق ہے کہ وقت کے امام کی معرفت ضروری ہے۔ کیونکہ طرفین کی صحیح السند احادیث میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص زمانے کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو جہالت کی موت مرے گا۔[3] شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۴۰۹۔ [4] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۴۶۔ [5] نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۷۸۔ [6] بیهقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، ج۸، ص۲۷۰۔ [7] حنبلی، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۲۸، ص۸۸۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر زمانے کے امام کی معرفت ضروری ہے تو پھر آج کے دور کا امام کون ہے؟ اگر آج کے دور میں کوئی بھی امام نہیں ہے توپھر ہم سب کیا جہالت کی موت مر رہے ہیں؟ آج بھی اہل سنت اس سوال پر خاموش ہو جاتے ہیں۔کیونکہ جو معیار انہوں نے حاکمیت کے انتخاب کے لیے رکھا ہوا ہے پھر تو سب کو ہی ان کو قبول کرنا ہوگا؟ اگر سارے حاکم ہی قبول ہیں تو پھر ایران میں سید علی خامنہ ای کی حکومت کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ پہلے تو بتائیں آپ کے زمانے کا امام کون ہے؟ اور اگر ہر حاکم ہی زمانے کا امام ہوتا ہے تو پھر ایران کے حاکم کی اطاعت امام کی طرح اہل سنت پر فرض ہے یا نہیں؟آپ کے بقول امت جس کو حاکم بنا لے یا جو بھی جس طرح سے امت کا حاکم بن جاۓ اس کی اطاعت فرض ہے پھر ایران میں اہل سنت کو ایرانی حاکم کے سامنے سرتسلیم خم ہونا چاہیے۔ اہل تشیع کا کہنا ہے کہ امت خود سے کوئی معیار نہیں بنا سکتی۔ بلکہ حاکم بنانا اللہ تعالی کا کام ہے۔ حقیقی حق حاکمیت اللہ تعالی کو حاصل ہے اللہ تعالی اپنی طرف سے جس کو حاکم بنا دے۔ رسول اللہﷺ نے باقاعدہ طور پر امیرالمومنینؑ کی حاکمیت کا اعلان فرمایا اور ان کو منصوب فرمایا۔حاکمیت کے مسئلے کو امت کی صوابدید پر نہیں چھوڑا۔ لیکن ایک سوال اب اہل تشیع کے لیے ہے۔ انتصاب کا معیار صرف ۲۶۰ ہجری تک کے لیے ہے یا ہر دور کے لیے ہے؟اگر ۱۱ ہجری میں حاکمیت کا مسئلہ اللہ تعالی کے ساتھ خاص اور کلامی مسئلہ تھا اور اللہ نے ہی حاکم کو منصوب کرنا تھا تو آج کے دور میں بھی یہ کلامی مسئلہ  ہے اور اللہ تعالی کا ہی حق ہے یا ۲۰۲۲ میں فقہی مسئلہ بن جاۓ گا اور ہم فتوی لے کر کسی کوبھی اپنا حاکم منتخب کر سکتے ہیں؟ بالآخر آج کے دور میں حاکمیت کا مسئلہ انتخابی ہے یا انتصابی؟اگر انتصابی ہے تو پھر تو نیابت کے نظام کو ماننا پڑے گا اور جو بھی نائب امام ہوگا اس کی اطاعت واجب ہوگی۔ 

سیاسی امور میں مداخلت اور شیعہ

امیرالمومنینؑ جب خلفاء کے دور میں تھے اور عملی طور پر ان سے حکومت چھین لی گئی تو کیا وہ اور ان کے حقیقی شیعہ ابوذرؓ، عمار، وغیرہ سیاسی نظام پر خاموش رہتے تھے یا اعتراض اٹھاتے تھے؟ اجتماعی اور سیاسی امور میں مداخلت کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے؟ اگر کرتے تھے تو کیسے آج کا شیعہ کہہ سکتا ہے کہ ہمیں سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور جب امام آئیں گے تو خود سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ ہمارا وظیفہ آج کیا بنتا ہے؟ دین کو معاشرے اور سیاست سے کاٹ دیں؟ دین کو مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کریں؟ جبکہ دین تونازل ہی معاشروں کو چلانے اور ان کی مدیریت کے لیے تھا۔ دین تو معاشروں پر نافذ ہونے کے لیے اترا تھا؟ تو کیا آج ہم دین کو معطل کر دیں؟ اگر دین کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں تو ۸۰فیصد حصہ معطل ہو جاۓ گا۔ اگر امام زمانؑ ہزار سال غیبت اختیار کرتے ہیں اور مزید ایک اور ہزار سال بھی غائب رہیں تو کیا تب تک دین معطل رہے؟ اللہ تعالی نے اسی لیے دین اتارا تھا کہ معطل رہے؟ اجراء نہ ہو؟ حوزہ جات میں بس علمی بحثیں تو ہوتی رہیں لیکن معاشرے میں نافذ نہ ہو؟ دین حاکمیت چاہتا ہے۔ الہی حاکمیت چاہتا ہے۔ ہم ایک بات کریں یا تو کہیں کہ لوگوں کو حاکم انتخاب کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ اگر حق نہیں ہے تو ۱۱ہجری میں بھی جن لوگوں نے حاکم انتخاب کیا وہ غلط تھا اور آج بھی اگر امت خود اپنا حاکم بناتی ہے تو غلط کرتی ہے۔ اور اگر حاکم انتخاب کرنے کا حق امت کو حاصل ہے تو پھر ۱۱ہجری کے زمانے میں رہنے والے لوگوں نے بھی ٹھیک کام کیا، الہی منصوب حاکم کو ترک کر کے خود حاکم چن لیااور آج بھی یہ کام جائز ہے۔

حاکم کے انتخاب کے لیے فتوی لینا

حاکم کو عوام انتخاب کرے یا اللہ تعالی حاکم کو منصوب کرے گا؟ یہ ایک کلامی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں آپ فتوی نہیں لے سکتے۔ جو فتاوی موجود ہیں ان کی حیثیت کسی اور جہت سے ہے۔ وہ اضطراری مورد کے لیے دیے گئے ہیں۔ کس حکمران کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں؟ ووٹ دینا جائز ہے یا نہیں؟ واجب ہے یا حرام یہ سب سوال کلام سے مربوط ہیں۔ کلامی مسئلے میں تقلید نہیں ہوتی۔ تشیع کی اساس واضح ہے۔ مکتب تشیع اصل میں امت یا فرد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی کو اپنا حاکم بناۓ۔ یہ حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ مراجع نے جو فتاوی دیے ہیں وہ تقیہ کے مورد کو شامل ہیں۔ یہ مورد فتوی کا نہیں کیونکہ یہ بحث فقہی نہیں بلکہ کلامی ہے اور کلامی بحث میں فتوی نہیں لیا جاتا۔ جب مجتہد کو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اضطراری حالت میں ہیں اور اگر ووٹ نہ دیں تو موت واقع ہو سکتی ہے تو اس صورت میں حاکم کو انتخاب کرنے کا جواز وہ بھی اضطرار کی صورت میں جائز ہو جاتا ہے ورنہ اگر اضطراری صورت نہ ہو تو یہ حکم بھی جاری نہ ہوگا۔ مثال کے طور پر آپ پیاس سے مرنے والے ہیں اور پینے کے لیے صرف شراب موجود ہے۔ تو فتوی یہ ہے کہ اضطرار کی صورت میں اتنی شراب پی سکتے ہیں جس سے جان بچ جاۓ۔ اب یہاں پر یہ نہیں کرنا کہ پیٹ بھر کر شراب پی لیں۔ اور اگر اضطرار کی صورت ختم ہو جاۓ تو شراب ترک کرنا ضروری ہوگا۔ ہم نے سیاست سے مربوط سب مسائل کو ہی اضطراری صورت دی ہوئی ہے۔ اگر یہی روش اختیار کر لی جاۓ تو پھر تو کوئی حرام، حرام نہیں رہے گا۔ پھر تو رشوت لینا، سود کھانا، اور چوری ڈاکہ مارنا سب جائز ہوگا کیونکہ ان کو انجام دینے والا کہے گا کہ یہ سب کام نہ کروں تو میری فیملی کیسے چلے گی؟ گھر کیسے چلے گا؟ معلوم ہوا اضطراری صورت کا تعین بہت ضروری ہے۔

نظریہ امامت در تشیع

شیعہ کے نزدیک امامت اصول دین میں سے ہے۔ اس پر عقلی و نقلی ادلہ موجود ہیں۔ قرآن اور متواتر روایات سے اہل تشیع امامت کو ثابت کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے خلیفہ کی نسبت اپنی طرف دی ہے۔ وارد ہوا:
«إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَة».
ترجمہ:  میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں۔[8] بقرہ: ۳۰۔
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ زمین پر خلیفہ بن گیا، یا لوگوں نے بنا لیا بلکہ خلیفہ بنانے کی نسبت اپنی طرف دی ہے۔ شیعہ امامت کو اصول دین میں سے قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ رویہ بھی اصول دین والا کرتے ہیں اور یہی اعتدال ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ خلیفہ یا حاکم بنانا اللہ تعالی کا کام نہیں ہے اور رسول نے بھی کسی کو اپنے بعد متعین نہیں کیا۔ شیعہ کہتے ہیں کہ معین بھی کیا اور معیار بھی بتایا۔ ایسا نہیں تھا کہ بغیر معیار کے ہی کسی کو خلیفہ معین کر دیں۔ بلکہ معیار اور ضابطہ دے کر گئے ۔کس شخص کو یہ حق ہے کہ وہ امت مسلمہ کا خلیفہ ہو؟ یہ سب دین میں موجود ہے۔ ہمارے نزدیک وہ شخصیت امیرالمومنین علیؑ ہیں۔ وہ کمالات کے مالک تھے اور امامت کی تمام شرائط کے حامل تھے۔ امت کا کام ان کو بطور حاکم قبول کرنا ہے۔ ہاں اگر قبول نہیں کرتی تو امام کو جبری حکومت کرنے کوئی حق نہیں۔ لیکن امت حق حکمرانی کسی کو نہیں دے سکتی صرف قبول کرنے کا حق رکھتی ہے۔ 

امام و خلیفہ کی شرائط

اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ دین نے خلیفہ یا امام کی شرائط بیان نہیں کیں۔ جبکہ اہل تشیع کے بقول شرائط قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ ہر شخص حاکم نہیں بن سکتا۔ اہل سنت یہاں پر اس لیے بھی شرائط کی نفی کرتے ہیں کہ اگر شرائط کے قائل ہو جائیں تو پھر ان کو خلفاء کے اندر وہ تمام شرائط ثابت کرنا ہونگی۔ جبکہ یہ بات خود اہل سنت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امیرالمومنینؑ بہت سی صفات میں باقی سب صحابہ سے افضل تھے، علم میں اور شجاعت میں تو سب ہی قائل ہیں۔ دیگر شرائط میں بھی امیرالمومنینؑ زیادہ حقدار بنتے ہیں۔ لیکن اہل سنت اس بات کا اصل سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلیفہ ہونے کے لیے شرائط کا حامل ہونا ضروری ہی نہیں۔ جبکہ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ حاکمیت و خلافت کا کوئی تو معیار ہو؟ خلیفہ کے اندر کچھ تو شرائط ملحوظ رکھی جائیں۔ دین من مانی کی نفی کرتا ہے۔ حاکمیت کے لیے کسی کی مرضی نہیں چلے گی حتی رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی مرضی سے علیؑ کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالی کے حکم سے انہیں اپنا خلیفہ منصوب کیا۔اس لیے جب بعض افراد نے رسول اللہﷺ پر اعتراض کیا کہ آپ اپنی مرضی سے علیؑ کو ہم پر مسلط کر رہے ہیں تو ان پر عذاب نازل ہوا۔
سورہ معارج میں وارد ہوا ہے:
«سَأَلَ سائِلٌ بِعَذابٍ واقِعٍ».
ترجمہ:  ایک سوال کرنے والے نے عذاب کا سوال کیا جو واقع ہونے ہی والا ہے۔[9] معارج: ۱۔
امامیہ و غیر امامیہ مصادرمیں آیا ہے کہ جب رسول اللہؐ نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان فرمایا تو حارث بن نعمان الفہری نے کہا: محمدؐ جو کچھ کہ رہا ہے، اگر وہ صحیح ہو تو اے اللہ مجھ پر آسمان سے پتھر برسا دے یا مجھے دردناک عذاب دے۔ یہ کہ کر وہ اپنی سواری کی طرف چلا ہی تھا کہ ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر گرا اور اس کے نیچے سے نکل گیا اور وہ مر گیا۔ لذا یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ حاکم انتخاب کرے۔کسی فرد کو اور نا پوری امت کو۔اب پہلے والا سوال دوبارہ اٹھاتے ہیں کیا شیعہ ۱۲ امام کے بعد اہل سنت والا نظریہ اختیار کر لیں گے؟ ۱۲ اماموں کے بعد حاکمیت کے لیے انتصاب کا نظریہ ترک کر کے انتخاب کی طرف آ جائیں گے؟ یا آج بھی نظریہ انتصاب پر ہی قائم رہیں گے؟اور اگر اسی نظریہ پر قائم ہیں تو اس کی زمانہ غیبت میں کیا صورت بنتی ہے؟

غیبت کے زمانہ میں حاکمیت کا نظام

شیعہ کے پاس زمانہ غیبت میں دو راستے (Option) ہیں۔

۱۔ نظریہ امامت

اس نظریہ کو اختیار کرے اور کہے کہ جس طرح سے ۱۱ہجری میں امت کا حاکم اللہ نے بنایا اور رسول نے منصوب فرمایا۔ زمانہ غیبت میں بھی حاکم اللہ کی طرف سے ہوگا۔اور ۱۲ویں امام اپنے بعد کسی کو منصوب کر کے گئے ہیں۔ کیونکہ جس طرح سے ۱۱ہجری کو امت کو حاکم کی ضرورت تھی، زمانہ غیبت میں بھی امت کو رہبر و حاکم کی ضرورت ہے۔ جس طرح سے رسول اللہﷺ نے اپنے بعد منصوب کیا، اور حاکم کا معیار دیا اسی طرح سے ۱۲ویں امام نے بھی پردہ غیبت میں جانے سے پہلے حاکم معین فرمایا اور اس کے معیار بتایا۔ لیکن اگر ہم مان لیں کہ ۱۲ویں امام نے اپنے بعد کسی کو بطور حاکم معین نہیں فرمایا اور نا ہی حاکم کے انتخاب کے لیے کوئی معیار دے کر گئے ہیں تو پھر اہل سنت کے تفکر صحیح ثابت ہو جاۓ گا جو کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد کسی کو معین نہیں فرمایا اور نا ہی کوئی معیار دیا۔ جبکہ ہر دو صورتوں میں معیار اور تعیین موجود ہے۔ رسول اللہﷺ بھی معیارا ور تعیین کر کے گئے اور اسی طرح سے امام زمانؑ بھی معیار اور تعیین کر کے گئے ہیں۔

۲۔ نظریہ اہل سنت

یا شیعہ یہ بات مان لے کہ زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کی جانب سے کوئی بھی حاکم معین نہیں ہے۔ ہاں ۱۲ویں امام تک تو اللہ تعالی نے معین فرماۓ اس کے بعد لوگوں کے سپرد کر دیا کہ وہ خود جس کو چن لیں۔ با الفاظ دیگر شیعہ ۲۶۰ ہجری تک تو شیعہ عقیدے پر قائم رہے اس کے بعد سنی بن جاۓ۔ سنی سے مراد یہ ہے کہ جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ اس وقت اللہ کی طرف سے کوئی بھی معین شدہ حاکم نہیں ہے اور میں خود حاکم بنا سکتا ہوں۔ افسوس کے ساتھ دوسرا تفکر اس وقت تشیع میں وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حاکمیت فعلِ الہی ہے۔ حاکم کا چناؤ ایک کلامی مسئلہ ہے۔ اگر رسول اللہﷺ اپنے بعد امت کی حاکمیت کا اہتمام کر کے گئے ہیں تو یہی توقع ۱۲ویں امام سے بھی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہﷺ تو اپنے بعد امت کو اپنے حال پر نہ چھوڑ کر جائیں لیکن ۱۲ویں امام امت کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیں۔

نیابت کا نظام اور اس کے اختیارات

بارہویں امامؑ کلی ضابطہ دے کر گئے ہیں۔ نیابت کا نظام دے کر گئے ہیں۔ اور نیابت صرف فتوی دینے میں نہیں بلکہ تمام امور میں نیابت دے کر گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو شخص وزیر اعظم کا نائب ہو اس کے پاس وزیر اعظم والے اختیارات ہی نہ ہوں۔ درست ہے کہ وہ نائب ہے اور حقیقی طور پر اصلی عہدہ وزیر اعظم کا ہے۔ لیکن جب تک اضطراری صورت ہے اس نائب کے پاس بھی وہی اختیارات ہونگے جو وزیراعظم کے ہوتے ہیں۔ ولایت فقیہ صرف فتوی کی حد تک نیابت کا نام نہیں بلکہ سیاسی اور اجتماعی امور میں امام کی نیابت کا نام ہے۔ جس طرح امام کی امامت زمین کے کسی خاص کونے سے مختص نہیں ہوتی، اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی کسی زمین کی خاص حد تک نہیں ہے۔ ممکن ہے اجرائی طور پر صرف ولایت فقیہ کے اختیارات صرف ایک خاص سرزمین تک محدود ہوں،لیکن قانونی طور پر ولی فقیہ اسی طرح سے پوری دنیا کا رہبر ہے جس طرح سے امام پوری دنیا کا حاکم ہوتا ہے۔ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں امیر شام نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ عملی طور پر امیرالمومنینؑ ان علاقوں پر اجرائی قوت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان پر امیر شام کا قبضہ تھا؟ لیکن پھر بھی ان علاقوں کے قانونی و شرعی حاکم امیرالمومنینؑ ہی تھے۔ کوئی یہ اعتراض بھی نہیں کر سکتا کہ امیرالمومنینؑ تو کوفیوں اور مکہ و مدینہ والوں کے امام تھے، کیونکہ انہیں علاقوں کے لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ اگر اہل شام نے ان کی بیعت نہیں کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ امیرالمومنینؑ شام والوں کے امام نہیں ہیں۔ یہ اعتراض کرنا کہ ولی فقیہ کو تو ایران والوں نے بنایا ہے اس کا ہم سے کیا تعلق؟ یہ اعتراض در اصل امیر شام نے پہلی بار کیا۔ الہی حاکم قانونی طور پر پوری دنیا کا حاکم ہوتا ہے اور اس کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو مملکت داری کے لیے اسے حاصل ہونےچاہیں۔

ولی فقیہ کا انتخاب یا انتصاب

بعض نادان افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ولی فقیہ کو ایک شوری انتخاب کرتی ہے۔ پس یہ بھی ایک قسم کا انتخاب ہوا نا کہ انتصاب! اس کا جواب یہ ہے کہ جو شوری ولی فقیہ بناتی ہے وہ انتخاب نہیں بلکہ وہ بھی انتصاب کرتی ہے۔ وہ اس شخص کو ولی فقیہ بناتی ہے جس کے اندر پہلے سے صلاحیت موجود ہوتی ہے، شوری ولی فقیہ کے اندر صلاحیت ڈال دینے کا سبب نہیں بنتی۔اور نا ہی شوری کے انتخاب کرنے سے اس شخص میں صلاحیت و مدیریت پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ وہ خصوصیات اور معیار کو دیکھتے ہیں جس شخص کے اندر وہ تمام دینی معیار موجود ہوں جو ولی فقیہ کے اندر ہونا چاہیں اس کو منصوب کردیتے ہیں۔ با الفاظ دیگر شوری کسی نااہل شخص کو انتخاب نہیں کر سکتی، اگر آپ کے بقول ولی فقیہ کا بھی انتخاب ہوتا تو شوری جس کو بھی چاہے ولی فقیہ بنا سکتی تھی۔ لیکن شوری صرف اس کو ولی فقیہ بناتی ہے جس کے اندر پہلے سے ولایت کی شرائط موجود ہوں۔ وہ صرف اس شخص کو کشف کرتے ہیں اور اسے یہ ذمہ داری سونپ دیتے ہیں۔ شوری کا کام ولی فقیہ کو تلاش کرنا اور اس کے ذمہ یہ مدیریت دینا ہے۔ 

ایک وقت میں دو ولی فقیہ

سوال ہے کہ آیا ایک وقت میں دو ولی فقیہ ہو سکتے ہیں۔ جبکہ دونوں ایک برابر عالم، فقیہ، مدبر و دانا سیاستمدار ہوں؟ جواب یہ کہ جس طرح ایک وقت میں ایک امام ناطق ہوتا ہے اور دوسرا صامت و مطیع اسی طرح سے ایک وقت میں ولی فقیہ بھی صرف ایک ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے صلاحیتوں میں چند افراد برابر کے شریک ہوں۔ لیکن عملی طور پر ولی فقیہ ایک ہی ہو سکتا ہے۔ جس طرح رسول اللہﷺ کے دور میں امام علیؑ بھی موجود تھے اور حسنینؑ بھی۔ لیکن معاشرے کی مدیریت رسول اللہﷺ کے ہاتھوں میں تھی اور یہ تینوں امام مطیع رسول اللہﷺ تھے۔ یہ واضح سی بات ہے اور عملی طور پر اس حکمت کو آرام سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے اعتراضات جان بوجھ استعمار کے ہتھکنڈوں کے شکار افراد شیعوں میں پھیلاتے ہیں۔ یہ لوگ تو پہلے سے ہی چاہتے ہیں کہ حکومت فقیہ کے ہاتھوں میں نہ ہو۔ امت انہیں مسائل میں بحثوں کا شکار رہے اور حکومت ہم کریں۔ یہ لوگ ہر بات میں ہی شک و شبہہ ایجاد کرتے ہیں اور بعض ہمارے اپنے ہی افراد نافہمی میں انہیں بحثوں میں الجھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ استعماری ذہن ایک شیطانی سوال ابھارتا ہے اور علماء دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ یہ اجتماعی شعور نہ ہونے کی علامت ہے۔ مثلا دشمن ایک شبہہ پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ مقدس شخصیات تھیں اور معصوم لوگ تھے ان کو حکومت کی تو ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ تو صرف معاشروں میں اصلاح چاہتے تھے بس۔ بظاہر یہ ایک بہت اجھی بات محسوس ہوتی ہے لیکن پیچھےسے ایک شیطانی سوچ ہے۔اور بہت سے نادان افراد اس کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ سوچ تھی جس کی وجہ سے ہمارے ۱۲ امام شہید ہو گئے۔ یہی وہ سوچ تھی کہ امیرالمومنینؑ کا حق غصب کر لیا گیا، اگر ان کو حکومت ہی نہیں چاہیے تھی تو پھر بی بی ؑ نے کس حق کےلیے قیام کیا تھا؟لیکن ہمارے بعض نادان دوست کہتے ہیں کہ ہاں بھئی! امام کو تو حکومت کی ضرورت ہی نہ تھی اور نا کسی امامت نے حکومت کے لیے قیام کیا؟ کس کتاب میں لکھا ہے کہ کسی امام نے فرمایا ہو کہ میں حکومت کے لیے قیام کر رہا ہوں؟ پھر اس سے بندہ پوچھے کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ تقلید کرنا ضروری ہے۔ اگر آئمہ معصومینؑ کو حکومت نہیں چاہیے تھی تو جھگڑا کیا تھا پھر؟ اگر آئمہ معاشروں کی اصلاح چاہتے تھے تو کیا اصلاح کرنا حکومت کے بغیر ممکن ہے؟ کیا بغیر چولہا جلاۓ آپ ہنڈیا بنا سکتے ہیں؟ اصلاح بغیر حکومت اور اختیارات کے ممکن ہے؟ یہ وہ اعتراضات ہیں جو دشمن کی جانب سے ایجاد ہوتے ہیں ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔اگر حکومت اللہ کے مقرب اور مقرر کردہ افراد کے پاس نہ ہو تو کیا وہ زمین پر الہی حاکمیت قائم کریں گے یا شیطانی حکومت؟

ولی فقیہ کا عادل ہونا

اہل تشیع کے ہاں حاکم کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ لیکن نائب امام کا کم از کام عادل ہونا ضروری ہے۔ اسلامی معاشروں کا حاکم ایسا فرد نہیں ہو سکتا جو عادل ہی نہ ہو۔ کیونکہ اگر یہ معیار ختم کر دیا جاۓ تب ہی فرعون، یزید، ہارون، صدام اور رضا شاہ پہلوی جیسے حکمران مسلط ہو ہیں۔ اصل اور بہترین (Ideal) صورت یہ ہے کہ حاکم معصوم ہو لیکن اگر مجبوری ہے جیسا کہ زمانہ غیبت میں اضطراری صورت ہے تو اس زمانے میں بھی اس شخصیت کو حاکم قرار دیا جاۓ جو امام کے قریب تر ہو۔ کم از کم عدالت کی صفت اس کے اندر موجود ہو۔ اگر حاکم عادل نہ ہو اور ظالم ہو تو وہ اسلامی معاشروں پر ظلم کرے گا اور اس سے امام مہدیؑ کی عالمی حکومت کے منصوبہ کو سخت تر کردے گا۔ اس کی بجاۓ ایک ایسا شخص حاکم ہو جو امام مہدیؑ کے اہداف کو سمجھتا ہو اور ان کے لیے راہ ہموار کرے۔ جس طرح سے امام کو حکومت کی ضرورت ہے اسی طرح سے فقیہ کو بھی حکومت کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرے کی بہترین صورت میں مدیریت کر سکے اور اللہ تعالی کی زمین پر اللہ تعالی کی حاکمیت اور اس کے دین کو نافذ کر سکے۔[10] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔

Views: 22

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تم ہی بتاؤ … کیا ایسا نہیں
اگلا مقالہ: ولایت و امامت اہل تصوف کی نظر میں