اصل ضابطہ عدم ولایت
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو ولایت حاصل نہیں ہے۔ اسے اصلِ عدم ولایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ شیعہ مکتب اور اس کے نظریات کو سمجھنے کے لیے اس اصل کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ شیعہ قائل ہے کہ ولایت حقیقی طور پر اللہ تعالی کو حاصل ہے اور کسی ذات کو اس وقت تک ولی نہیں مانا جاۓ گا جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہو جاۓ کہ اس ذات کو اللہ تعالی کی طرف سے ولایت حاصل ہے۔
فہرست مقالہ
عدمِ ولایت کی تشریح
ولایت کی تمام اقسام کا حقیقی مالک اللہ تعالی ہے۔ چاہے وہ ولایت بمعنی معاشرے کی مدیریت کرنا ہو، قرب الہی کے معنی میں ہو، یا معجزہ دکھانے اور صاحب کرامات ہونے کے معنی میں ،یہ سب ولایتیں جس ذات کو بھی حاصل ہوں وہ ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے عطا کی گئی ہیں۔ ولایت کے بارے میں قاعدہ کلیہ ہمیشہ یہ ہے کہ حقیقت میں یہ کسی کو بھی حاصل نہیں مگر یہ کہ ایسی ادلہ سے ثابت ہو جاۓ جن کا انکار کرنا عقلی طور پر ناممکن ہو۔ اللہ تعالی نے باپ کو گھر میں ولی بنایا ہے۔ باپ اپنی طرف سے اولاد کے لیے کوئی حق نہیں رکھتا، بلکہ یہ حق اس کو اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اس لیے اللہ تعالی کے احکام کے دائرہ میں رہتے ہوۓ وہ ولی ہے اگر باپ کوئی ایسا کام کرنے کا حکم دیتا ہے جو گناہ ہو یہاں پر اس کی ولایت ساقط ہو جاتی ہے۔ مطلب باپ کی ولایت ذاتی و مستقل نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے حاکم شرع کو امور حسبیہ میں ولایت دی ہے، یا ولی فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے کی ولایت دی ہے یہ سب ولایتیں در اصل اللہ تعالی کو حاصل ہیں۔ اگر اللہ تعالی کسی کو ولایت عطا کر دے بس وہی ولی ہے ورنہ کوئی بڑا کسی چھوٹے پر، کوئی سید کسی امتی پر، کوئی سفید کسی کالے پر، کوئی امیر کسی فقیر پر کسی قسم کی ولایت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالی نے سب کو آزاد خلق کیا ہے اور اسے یہ اجازت بھی نہیں دی کہ کسی ایسے انسان کی ولایت میں قرار دے جو اللہ تعالی کی طرف سے ولایت کا حق نہیں رکھتا۔
آئمہ معصومینؑ کی ولایت
اصل عدم ولایت کا ضابطہ کس مورد میں جاری ہوتا ہے؟ آیا آئمہ معصومینؑ کی ولایت میں بھی اصل یہی ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں چند اصطلاحات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مثلا آپ کہتے ہیں کہ تمام علماء کرام کا احترام کرنا چاہیے۔ کچھ دیر بعد آپ کہتے ہیں کہ جو فاسق عالم ہو اس کا احترام نہیں کرنا۔ پہلی دفعہ جو آپ نے بات کی وہ عمومیت رکھتی تھی اس میں عادل اور فاسق دونوں قسم کے علماء شامل تھے۔ لیکن دوسری بات کہہ کر آپ نے دائرہ محدود کر دیا اور کہا کہ صرف ان علماء کا احترام کرنا ہے جو فاسق نہ ہوں۔ اسے کہتے ہیں عمومی بات کو ایک اور کلام کر کے تخصیص لگا دینا۔ پہلے احترام کے حکم کو تعمیم حاصل تھی اب تخصیص حاصل ہو گئی۔ دوسری بات کرنے کے بعد احترام کرنا صرف عادل علماء کے ساتھ خاص ہو جاۓ گا۔ ایک مرتبہ آپ کہتے ہیں کہ سب طالب علم امتحان کے لیے تشریف لے آئیں۔ ایک فرد امتحان پر نہیں آتا۔ تو کوئی پوچھتا ہے کہ فلاں شخص امتحان دینے کیوں نہیں آیا تو آپ کہتے ہیں کہ وہ تو طالب علم ہی نہیں ہے۔ یہاں پر وہ شخص آپ کی بات سے تخصصا خارج ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ پہلی مثال میں فاسق اور عادل دونوں عالم شامل تھے، لیکن آپ نے فاسق علماء کو تخصیصی حکم لگا کر خارج کروا دیا۔ لیکن دوسری مثال میں بات ہی صرف طلاب کی ہو رہی تھی اور جو طالب علم نہیں ہے وہ آپ کی بات سے تخصصا خارج تھا۔ اس مثال کے سمجھ لینے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ کی ولایت بھی عدم ولایت کے قاعدے سے تخصیصا خارج ہے یا تخصصا؟ قرآن کریم سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ حقیقی طور پر ولایت صرف اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور اس کے علاوہ ہر ذات ولایت سے تخصصا خارج ہے۔ درست ہے کہ امامؑ کو اللہ تعالی کی طرف سے ولایت عطا ہوئی ہے، لیکن یہ ان کی ذاتی ولایت نہیں ہے۔
لزومِ اطاعت از ولی
ولایت کی ایک قسم معاشروں کی مدیریت کرنا ہے۔ جس شخص کو یہ حق حاصل ہو جاۓ اب اس کی اطاعت کرنا بھی واجب ہوگا۔ مثلا جب امام حکم دے کہ جنگ پر چلو تو یہاں پر کوئی بھی عذر پیش نہیں کرسکتا کہ میں جنگ پر نہیں جا سکتا۔ چاہے وہاں پر اس کا کوئی مالی و جانی نقصان ہو رہا ہو ولی کی اطاعت واجب ہوگی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں اگر جنگ پر جاتا ہوں تو گھر اکیلا ہو جاۓ گا بچے یتیم ہو جائیں گے قابل قبول نہ ہوگا۔ ہم نے آئمہ معصومینؑ کی ولایت کو کبھی اس جہت سے نہیں دیکھا، کیونکہ کبھی عملی طور پر یہ مسئلہ پیش بھی نہیں آیا اس لیے امام کی ولایت کو بہت آسان سمجھتے ہیں۔ ہمارے زمانے کے امام غائب ہیں اس لیے اس امتحان میں ہم کبھی نہیں پڑے اور آسودہ ہیں۔ با الفاظ دیگر ولایت کا لازمہ بہت سخت ہے جان کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ولایت بہت سنگین امر ہے اس لیے اس بات کا ثابت کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ جس شخص کے کہنے پر ہم اپنی جان قربان کر رہے ہیں آیا وہ واقعی اللہ تعالی کی طرف سے ولایت رکھتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر ولایت ہی نہیں رکھتا تو بھلا کیوں اس کو اتنی بھاری ذمہ داری دے دی جاۓ اور اس کی اطاعت واجب قرار دی جاۓ؟ اس لیے اس امر کو ثابت کرنے کے لیے بھی ہمیں ظنی دلیلوں کی نہیں بلکہ قطعی و یقین آور دلیلوں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:
«إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا».
ترجمہ: ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا۔[1] یونس: ۳۶۔
ہم ولایت کو ظنی دلیل سے نہیں بلکہ قطعی دلیل سے ثابت کریں گے۔ کیونکہ یہاں مسئلہ فعل مکلف کا نہیں بلکہ فعل خدا کو ظاہر کرنا ہے۔ فعل مکلف میں ظن معتبرہ بھی حجت بن سکتے ہیں لیکن فعل خدا کے لیے نہیں۔ اس لیے ہمیں قطعی دلیل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اللہ نے کسی ذات کو ولایت دی ہے یا نہیں؟ اس کے لیے خبر واحد یا ایک دو حدیثیں کافی نہیں ہیں بلکہ قطعی دلیل لانا ہوگی۔ اور جب قطعی دلیل سے ثابت ہو گیا تو پھر اس کے نتیجے میں ایسے شخص کی اطاعت کرنا بھی لازم ہوگا۔
دلیل کی صورت میں اختلاف
انسان گمراہی اور ہدایت کے راستے میں سے جس راستے کو بھی چنے وہ اختیار رکھتا ہے۔ اس میں اس کا اپنا فائدہ اور نقصان ہے۔ لیکن اس کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ معاشرے میں گمراہی پھیلاتا پھرے۔ اگر خود گمراہ ہو کر مرنا چاہتا ہے تو بسم اللہ گمراہ ہو کر مرے، لیکن دوسروں کو گمراہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر اس کے نظر یہ سے اسلامی معاشرے کا امن و امان خراب ہوتا ہے اور گمراہی پھیلتی ہے تو وہاں پر اسے روکا جاۓ گا۔ اس لیے فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میرے نزدیک ولایت فقیہ ثابت نہیں ہے تو وہ معذور ہے لیکن اس بنا پر وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے نظریاتی اختلاف کی بنا پر معاشرے کا امن و امان خراب نہیں کر سکتا۔ دشمن کو نفوذ کا موقع دینا اور اسلامی حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانا حرام ہے۔[2] سائٹ خبر آنلائن۔
تواتر ۔ایک قطعی دلیل
معلوم ہوا کہ جب اصل عدمِ ولایت ہے تو ایسی صورت میں اگر ہم کسی کے لیے ولایت کے ہونے کو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں تو ہمیں قطعی دلیلوں سے ثابت کرنا ہوگا۔ احتمالی دلیلوں کی بنا پر یا بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں اس بنا پر ولایت فقیہ ثابت نہیں ہو سکتی۔ ایسی دلیل لانی ہوگی جس کے غلط ہونے پر ایک فیصد احتمال موجود نہ ہو۔ مثلا تواتر قطعی دلیل ہے۔ آئمہ معصومینؑ کا ہمارا امام ہونا اور ان کا صاحبِ ولایت ہونا قطعی دلیل سے ثابت ہے۔ جب ایک بات تواتر سے ثابت ہو جاۓ تو وہاں علم رجال کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ حدیث کی سند اس وقت دیکھی جاتی ہے جب اس کی مخالف جہت کا احتمال موجود ہو، جبکہ تواتر سے مخالف جہت کا احتمال ختم ہو جاتا ہے اور انسان کو یقین حاصل ہو جاتا ہے۔ یہاں پر یہ نہیں کہا جاۓ گا کہ ایک صحیح السند حدیث لے آؤ! نہیں! صحیح السند حدیث کی ضرورت نہیں ہے۔ خبر ہمیں اتنے کثیر ذرائع سے پہنچی ہے کہ ہمیں اس تعداد سے ہی یقین حاصل ہو جاتا ہے بے شک ان میں سے بعض ذرائع جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔
تواتر کی مثال
مثلا خبر دی جاتی ہے کہ امریکہ ذلیل و خوار ہو کر شکست تسلیم کرتے ہوۓ مشرق وسطی سے نکل گیا ہے۔ آپ بی۔بی۔سی کھولتے ہیں وہاں پر خبر کو گھما پھرا کر بیان کیا جا رہا ہوتا ہے بہرحال یہ سمجھ آجاتی ہے کہ امریکہ نکل گیا ہے۔ اس کے بعد آپ سی۔این۔این کھولتے ہیں وہاں پر بھی دکھایا جا رہا ہوتا ہے کہ امریکی انخلاء جاری ہے اور خبر کا عنوان یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطی سے جا رہا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ یہ دونوں تو استعماری چینل ہیں اور کبھی بھی سچ نہیں بولتے۔ اکثر جھوٹ بولتے ہیں تو آپ پاکستانی چینلز کھول لیتے ہیں۔ وہاں آپ دیکھتے ہیں کہ تمام پاکستانی سرکاری و نجی چینل یہی بات کہہ رہے ہیں۔ یہاں پر آپ تھوڑا سا احتمال دیتے ہیں کہ ہاں بات سچ ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد آپ ایرانی اور عربی چینلز کھولتے ہیں، حزب اللہ کا المنار چینل کھولتے ہیں ان سب پر بھی یہی کہا جا رہا ہوتا ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطی میں بدترین شکست اور افواج کا انخلاء جاری۔ جیسے جیسے آپ کی خبر کے ذرائع بڑھتے جا رہے ہیں آپ کا شک رجحان اور رجحان یقین میں بڑھتا جا رہا ہے۔ اگلے دن آپ تمام اخبار کی سرخیوں میں بھی یہی خبر دیکھتے ہیں۔ بالآخر ایک جگہ پر آپ کو پورا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ اتنے سارے چینلز سب مل کر ایک متفقہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ خاص طور پر اگر ان میں دشمنوں کے اپنے چینلز بھی شامل ہوں۔ اسے تواتر کہتے ہیں۔ ہم بہت سی چیزوں کو تواتر کی وجہ سے قبول کیے ہوۓ ہیں۔ مثلا گزشتہ ادوار میں گزرنے والے مصنفین کی تالیفات کو ہم نے خود تو نہیں دیکھا۔ تواتر کے ذریعے ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ مثلا الکافی شیخ کلینیؒ نے لکھی ہے، صحیح البخاری کو امام بخاری نے لکھا ہے۔ فلاں شے فلاں سائنسدان کی اختراع ہے۔ یا حتی بہت سے شہروں کے وجود کو بھی ہم نے تواتر کی وجہ سے قبول کیا ہوا ہے۔ ہم نےدنیا بھر کے تمام شہر تو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے لیکن پھر بھی ہم ان کو مانتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ تواتر کی حد تک اس شہر کے بارے میں ہم تک خبریں پہنچی ہیں۔ آئمہ معصومینؑ کی ولایت بھی تواتر سے ثابت ہے۔ ورنہ عقل یہ بات تو تشخیص نہیں دے سکتی کہ لاکھوں افراد میں امام کون ہے؟ عقل امام کے ہونے کو تو درک کر سکتی ہے لیکن یہ درک نہیں کر سکتی کہ امام کون ہے۔ ہاں عقل معیار کو درک کر سکتی ہے مثلا اگر ایک شخص امامت کے تمام معیاروں پر اتر رہا ہے عقل اس کو درک کر لے گی۔ اسی معیار کے تحت عقل آج بھی درک کر سکتی ہے کہ امام یا اس کا نائب کیسا ہو؟
ولایت فقیہ پر تین ادلہ
ہمارے پاس ولایت فقیہ پر تین قسم کی قطعی ادلہ ہیں۔
۱۔ محض عقلی دلیل: اس دلیل کے تمام مقدمات عقلی ہیں اور کہیں پر بھی نقل سے استفادہ نہیں کیا گیا۔
۲۔ محض نقلی دلیل: اس دلیل کے تمام مقدمات نقل یعنی قرآن کریم و روایات سے لیے گئے ہیں۔
۳۔ عقل و نقل سے مرکب دلیل: اس دلیل کے بعض مقدمات عقلی ہیں اور بعض نقلی ہیں۔ یا مقدمات نقل سے لیے گئے ہیں اور ان پر حکم عقل نے لگایا ہے۔ان تین ادلہ کی بنا پر ولی فقیہ کی ولایت ثابت ہوتی ہے۔[3] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔
منابع:
↑1 | یونس: ۳۶۔ |
---|---|
↑2 | سائٹ خبر آنلائن۔ |
↑3 | جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۷تا۱۵۰۔ |