loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۶۲}

ولایت فقیہ اور ضرورتِ قانون و نظم

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی

غیر اللہ کے لیے اصل عدمِ ولایت ہے۔ اس لیے اگر ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور ذات کے لیے ولایت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قطعی دلیل لانا ہوگی۔ ولی فقیہ کو جو ولایت حاصل ہے وہ حکومت کرنے، معاشرے کی مدیریت کرنے کے معنی میں ہے۔ اس ولایت پر ہمارے پاس تین قسم کی قطعی دلیلیں ہیں۔ پہلی دلیل محض(خالص) عقلی ہے۔

محض عقلی دلیل کی دلالت

محض عقلی دلیل سے ہم صرف عہدے کو ثابت کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر اس سے صرف ولایت فقیہ کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ولی فقیہ کون ہو؟ اس دلیل کے ذریعے ہم صرف اتنا ثابت کر رہے ہیں کہ معاشرے کو نظم اور قانون کی ضرورت ہے۔ قانون کو جاری کرنے کے لیے مجری کی ضرورت ہے۔ یہی دلیل علم کلام میں نبوت اور امامت کے اثبات میں بھی بیان ہوتی ہے۔ متکلمین پہلے نبوت اور امامت کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں اور پھر نبی و امام کا ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اس دلیل سے ہم بھی صرف ولایت فقیہ کا عہدہ ثابت کر رہے ہیں۔ 

ایک شبہہ کا جواب

پاکستان میں ولایت فقیہ کے موضوع کو لے کر بہت سے شبہات ایجاد کئے جا رہے ہیں۔ اور دشمن کی کوشش ہے کہ اس موضوع کو شیعہ نما علماء کی شکل میں مشکوک بنا کر پیش کیا جاۓ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ولایت فقیہ کی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر ولایت فقیہ آ گئی تو کوئی وہابی ولی فقیہ بن جاۓ گا۔ ایسے لوگ ہر موضوع کو فرقہ واریت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی اکثریت اہل سنت ہے تو اگر کوئی ولی فقیہ بنا بھی تو وہابی یا دیوبندی بنے گا اور پھر شیعوں پر ظلم و ستم ڈھاۓ گا۔ ایسی بات کوئی ایسا انسان کر سکتا ہے جس نے ولایت فقیہ کا موضوع کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ اس شخص کو حاصل ہے جو جامع الشرائط فقیہ ہو۔ اور دوسری شرط عدالت ہے۔ اگر کوئی شخص عادل نہیں ہے تو وہ ولی فقیہ نہیں بن سکتا بے شک کوئی شیعہ عالم دین ہی کیوں نہ ہو۔ ولایت فقیہ کی نعمات اور اس کی برکات سے دور کرنے کے لیے اسے وہابیت بنا کر پیش کرنا خیانت ہے۔ اگر آپ کو واقعی اسلام اور تشیع کا درد ہے تو جہاں آپ وہابیت کے دشمن بنتے ہیں وہیں سیکولرزم کے بھی دشمن بنیں۔ ایک سنی یا شیعہ مسلمان کے لیے اگر طالبان یا داعش قابل نفرت ہے تو وہیں ملحد بھی قابل نفرت ہے۔ صرف وہابیت کی نہیں بلکہ سیکولرزم کی بھی مخالفت کریں۔ ہمیں دونوں ہی قبول نہیں ہیں۔ ہمیں طالبان کی جبری حکومت بھی قبول نہیں ہے اور لبرل لوگوں کی مغربی ڈیموکریسی بھی قبول نہیں ہے۔ آپ کا جتنا نقصان طالبان اور داعش نے کیا ہے اس سے کم نہیں تو اتنا ہی نقصان ان سیکولر سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں نے بھی کیا ہے۔ ملک اور قوم کو قرضے میں ڈبویا، مغربیوں کے آگے بھکاری بنایا، مشرقی پاکستان(بنگلادیش) کی جدائی اور کشمیر کا مسئلہ بھی انہیں سیکولر حکمرانوں کی وجہ سے پیش آیا۔ حتی جن لوگوں نے طالبان بناۓ ہیں خود وہ لوگ مذہبی نہیں تھے بلکہ سیکولر سوچ رکھنے والے افراد تھے۔ انہوں نے سیکولر سوچ کے تحت طالبان بناۓ امریکہ سے مفادات حاصل کیے۔ ان دہشتگرد گروہوں کو منصوبے بنا کر دینے والے اور پیسوں کی خاطر ملک میں فرقہ واریت پھیلانے والے بھی حقیقی علماء تو نہیں ہیں۔ چند ایک مولوی ہیں جن کا سب کو معلوم ہے کہ کس لیے فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں اور کس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہیں۔ لہذا لوگوں کو اس طرح کے بیہودہ شکوک و شبہات اٹھا کر اسلامی حکومت سے دور کرنا اسلام کے ساتھ خیانت کے سوا کچھ نہیں۔

برہان ضرورت وحی و نبوت

نظریات کو دلیل کی بنا پر قبول کرنابہت ضروری ہے۔ معاشرے کے اندر کسی نظریہ کے اٹھان کی وجہ سے اس نظریہ کو قبول مت کریں۔ اگر یہ نظریہ دشمن کی جانب سے دبا دیا گیا تو آپ کا ایمان بھی اس نظریہ سے اٹھ جاۓ گا۔ یا اگر مشکل وقت آیا تو فورا چھوڑ دیں گے۔ نظریہ ولایت فقیہ کی تبیین ضروری ہے اسے دلیل کی بنا پر قبول کریں اگر ان دلیلوں پر ہمیں عبور حاصل نہ ہو ایک شبہہ ہی ہماری ساری عمارت کو گرا دے گا۔ ولایت فقیہ امامت و نبوت کی جزوی بحث ہے۔ اس لیے ولایت فقیہ کو ثابت کرنے کے لیے بھی وہی دلیل دی جاتی ہے جو نبوت اور وحی کی ضرورت پر ہمارے متکلمین و فلاسفہ نے اپنی کتابوں میں بیان کی ہے۔ ابن سيناؒ نے اپنی کتاب الہیات شفاء اور الاشارات وتنبیہات میں وحی اور نبوت کی ضرورت کو ثابت کیا ہے۔[1] ابن سینا، ابو علی حسین بن عبداللہ، الہیات شفاء، مقالہ دہم،فصل دوم و سوم،۴۴۱تا۴۴۶۔ [2] ابن سینا، ابو علی حسین بن عبداللہ، اشارات  و تنبیہات، ج۱، نمط۹، ۱۴۱۔ اس تفصیلی برهان میں شیخ الرئیس فرماتے ہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اجتماعی (Social) زندگی گزارنے والا موجود ہے۔ اب یہ جدا بحث ہے کہ وہ اجتماعی زندگی گزارنے پر مجبور ہے یا فطری طور پر ہی اجتماعی تھا۔ بہرحال جو نظریہ بھی قبول کر لیں انسان مدنی الطبع ہے۔ اگر اجتماعی زندگی نہ گزارے تو زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس بات کو آج کے دور میں بہت آسانی سے درک کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں لاہور جیسے پُر جمیعت شہر میں ایک دن آٹے کی سپلائی بند ہو جاۓ تو کیا ہوگا؟ یا آلو پیاز کی فروخت بند ہو جاۓ۔ فرض کریں ایک دن کے لیے سیورج کا نظام خراب ہو جاۓ اور صفائی کرنے والے گٹر وغیرہ صاف نہ کریں کیا لاہور شہر سانس لینے کے قابل ہوگا؟ معلوم ہوا انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ اجتماعی طور پر ضرورتیں وابستہ ہیں۔ ہر شخص اپنے لیے پیاز بھی اگاۓ، علاج بھی کرے، اپنے بچوں کو بھی پڑھاۓ، گھر کے اخراجات بھی پوری کرے، گھر کا سامان بھی خود بناۓ یہ سب ممکن نہیں ہے۔ واضح ہوا کہ انسان مدنی زندگی گزارتا ہے اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔

قانون و نظم کی ضرورت

ابن سیناؒ برہان کا اگلا نکتہ بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ انسان کی طبیعت میں سرکشی موجود ہے۔ انسانوں کی ضرورتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اس لیے سرکشی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ ان کو زیادہ حصہ ملے۔ سب کو ہی رہنے سہنے، کھانے پینے اور وسائل کی فراوانی چاہیے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی وارد ہوا ہے:
«فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا».
ترجمہ: پھر اس نفس کو اس کی بدکاری اور اس سے بچنے کی سمجھ دی۔[3] شمس: ۸۔
انسان کی طبیعت میں بغاوت موجود ہے۔ اگر ایک شخص بھی خراب ہو جاۓ پورے معاشرے کا نظم خراب کر دیتا ہے۔ کسی بھی جگہ پر چلے جائیں اگر کہیں پر دو انسان رہ رہے ہیں تو وہاں پر کامل طور پر امن و امان سے زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ ان کے حالات یکساں نہیں ہونگے۔ کبھی ایک فجور کی حالت میں اور دوسرا تقوی کی حالت میں ہوگا۔ انسان کے اندرونی اور بیرونی حالات خراب اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حتی والد اپنی اولاد پر قابو پانے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اس کے نتیجے میں لڑائی ہوتی ہے۔ ماضی سے لے کر آج تک ہر تنازع کی اصل وجہ انسان کی سرکشی ہے۔ بغاوت اور فسق و فجور باعث بنتے ہیں انسان جھگڑا کرے۔ 

قانون کی ضرورت پر عام فہم مثال

ممکن ہے کسی کے لیے معاشرے کی مثال سمجھنا مشکل ہو۔ ہم ایک ادارے کی مثال دیتے ہیں۔ ایک ادارہ ہے جس میں پچاس افراد کام کرتے ہیں۔ ان کی رہائش کا انتظام، کھانا پینا، صفائی ستھرائی کا سسٹم بنانا ہے۔ کیا یہ سب کام ان سے روایات اور آیات سنا کر کرواۓ جا سکتے ہیں۔ مثلا ہر روز ان کو درس قرآن سنایا جاۓ اور کہا جاۓ کہ دوسروں کے کام آنا بہت ثواب کا کام ہے، اللہ تعالی دوسروں کی خدمت کرنے والے کو پسند کرتا ہے یا رسول اللہﷺ صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آپ کے خیال میں ان سب باتوں کو جاننے کے بعد ان کے یہ سب امور حل ہو جائیں گے۔ کیا وہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا شروع کر دیں گے؟ کھانے کی باری کا خیال رکھنا شروع کر دیں گے؟ یا صرف ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں گے؟ یہ بات وہ افراد بہت بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو کسی ادارے میں رہتے ہیں۔ ان باتوں سے ممکن ہے ایک حد تک اثر ہو لیکن اس کا حل قانون ہے۔ جب تک آپ قانون نہیں بنائیں گے وہ جگہ رہنے کے قابل نہ ہوگی۔ افراد ایک دوسرے کی جگہ پر سونے لگیں گے، ایک دوسرے کا کھانا کھا جائیں گے اور کوئی بھی صفائی نہیں کرے گا۔ آپ جتنا بھی نیک اور پاکیزہ بندہ لے آئیں وہ سرکشی دکھاۓ گا۔ باہمی حقوق کا خیال رکھنا بہت سخت امر ہے۔ ہمارے علماء کرام تو کسی دوسرے شخص کی جوتی پر پاؤں تک نہیں رکھتے تھے۔ وہ افراد جو ایک دوسرے کی امانت کا خیال نہیں رکھتے ،مجرم بنتے ہیں۔ آج جو طالب علم کسی دوسرے کا کھانا بغیر اجازت کے کھا رہا ہے کل اگر اس کو خمس ملا تو اس میں خیانت کرے گا۔ ایسے مجرمین کو معاف کرنا اور ان پر رحم کرنا خود جرم ہے۔ ایسی جگہ پر فورا شور مچانا چاہیے۔ حقوق العباد کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ ان سب کا حل صرف قانون ہے۔ نصحیت سے ایک حد تک اثر ضرور ہوتا ہے لیکن نصیحت کافی نہیں ہوتی بلکہ قانون کی ضرورت بالآخر موجود رہتی ہے۔اگر نصیحت سے ہی مسائل حل ہو جاتے تو انبیاء کی اولادیں نا بگڑتیں۔ یہ قانون ہے جو اجتماعی طور پر معاشرے میں نظم و انضباط کا باعت بنتا ہے۔

قانون کے اجراء کی ضرورت

یہاں تک قانون کی ضرورت ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن قانون کا صرف موجود ہونا کافی نہیں ہے جب تک جاری نہ ہو جاۓ۔ قانون کے لیے وحی کی ضرورت پڑتی ہے۔ قانون کا مرحلہ وحی سے مربوط ہے۔ وحی کے بغیر انسان کو جامع قانون نہیں مل سکتا۔ الہی قانون وحی کے ذریعے انسانوں تک پہنچتا ہے۔ یہاں سے وحی کی ضروت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر انسان خود قانون بنانے لگ جائیں اور سو سال بعد پتہ چلے کہ یہ قانون تو صحیح نہیں تھا تو اس عرصے میں لاکھوں انسانوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا جوابدہ کون ہوگا؟ الہی قانون ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کے بعد رک نہیں جانا بلکہ اس کا اجراء ضروری ہے۔ الہی قانون اور دینی احکام کا مجتہد ہو جانا کافی نہیں ہے۔ شریعت صرف مطالعہ کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے اجراء کی کوشش ضروری ہے ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے قوہ مقننہ انتھک محنت کے بعد ایک قانون وضع کرے اور جب قوہ مجریہ کو قانون جاری کرنے کا کہے تو وہ آگے سے کہیں کہ قانون تو بہت اچھا ہے ہم اس کو پڑھ بھی لیتے ہیں اور اس کو عوام کو سمجھا بھی دیتے ہیں لیکن اس کا اجراء نہیں ہوگا۔ ایسے قانون کا یقینا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ان مطالب کے بعد یہ بات سمجھنا آسان ہو جاتی ہے کہ انسان کی اجتماعی ضرورتیں، قانون اور اس کے اجراء کی ضرورت کسی خاص زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ انسان کا مدنی الطبع ہونا آئمہ معصومینؑ کے دور میں بھی ثابت تھا، آج بھی ثابت ہے، انسان کو الہی قانون کی ضرورت آئمہ معصومینؑ کے دور میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔ انسان کو الہی قانون کے اجراء کی ضرورت   نبیﷺ کے دور میں بھی تھی اور آج بھی ہے۔ انسان ہر دور میں مادی و معنوی کمال چاہتا ہے۔ سوال پیدا ہوگا کہ ان ضرورتوں کو آئمہ معصومینؑ کے دور میں تو امام معصوم کی شکل میں پورا کیا جا رہا تھا، آج کے دور میں غیبت میں یہ ضرورت کیسے پوری ہوگی؟ کیا انسانوں کو اب ان سب امور کی ضرورت نہیں رہی یا بلکہ پہلے سے زیادہ یہ ضرورت بڑھ گئی ہے؟ اگر اب بھی ضرورت ہے تو اس کی صورت کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں یہ ضرورت اب نیابت کے نظام کے تحت ولایت فقیہ کی صورت میں پوری ہوگی۔ کیونکہ یہ نظام امامت و نبوت سے قریب ترین نظام ہے۔[4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۴تا۱۵۷۔

Views: 13

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مسئلہ ولایت کی اہمیت
اگلا مقالہ: افلاطون کی نظر میں انواع حکومت