loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۶۳}

ولایت فقیہ تشیع کی دینی طاقت

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ولایت فقیہ اور ولایت فقہاء میں فرق ہے۔ ہماری بحث ولایت فقہاء میں نہیں ہے۔ ولایت فقہاء سے مراد یہ ہے کہ سب فقہاء ولی فقیہ ہیں۔ با الفاظ دیگر سب فقہاء کو امور حسبیہ میں ولایت حاصل ہے۔ جبکہ ہماری بحث امور حسبیہ میں ولایت پر نہیں ہو رہی۔ ہماری بحث کا مرکز یہ ہے کہ فقیہ کو معاشرے کی مدیریت کرنے کی ولایت حاصل ہے۔ اسلامی مفکرین کی ولایت فقیہ سے مراد یہ ہوتی ہے کہاایک جامع الشرائط فقیہ  الہی قانون کو معاشرے میں جاری کرے،اور اسلامی معاشرے کی الہی نظام کے تحت مدیریت کرے۔

ولایت فقیہ اور سازشی شبہات

اب تک ہم اپنے دروس میں مختلف شبہات کے جواب دے چکے ہیں۔ اس کتاب کے آخری حصے میں مصنف نے شبہات اور اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔ فعل حال ہم ان شبہات کے جواب دے رہیں جو پاکستان میں پھیلاۓ جا رہے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ولی فقیہ کو امام معصوم کا مرتبہ دے دیا گیا ہے، کبھی کہا جاتا ہے ولی فقیہ کو ولی کیوں کہا گیا؟ کبھی کہا جاتا ہے کہ ولایت فقیہ سے کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ گی وغیرہ۔ یہ وہ شبہات ہیں جو پاکستانی مومنین کے ذہنوں میں ابھار دیے گئے ہیں جبکہ ابھی تک باقاعدہ طور پر اس نظام کو تبیین نہیں کیا گیا۔ اور جب ایک ذہن مکمل نظریہ سمجھے بغیر شبہہ کا شکار ہو جاۓ وہ حقیقت سن کر بھی کنفیوذ ہو جاتا ہے۔ ولایت فقیہ سے مراد قانون یا شریعت وضع کرنا نہیں ہے۔ ولی فقیہ قانون نہیں بناتا بلکہ الہی قانون نافذ کرتا ہے۔ اس لیے صرف وہی شخص ولی فقیہ بن سکتا ہے جو جامع الشرائط فقیہ ہو۔ صرف جامع الشرائط فقیہ ہی دین شناس و شریعت شناس ہو سکتا ہے۔ دوسری شرط عدالت کی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ولایت فقیہ کی بات پاکستان میں نہ کریں ورنہ کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ گی ایک بیہودہ بات ہے۔ ولایت فقیہ سے مراد اسلامی حکومت ہے نا کہ کسی فرقے کی حکومت۔ 

غیر الہٰی حکومتوں کا حصہ بننا

پاکستان میں یہ شبہہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر آپ ولایت فقیہ کا نظام لاتے ہیں تو کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ گی۔ اور وہ ہم پر ظلم و ستم کرے گا ایسی حکومت سے شیعہ کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اولا ولایت فقیہ سے مراد کسی فرقے کی حکومت نہیں ہے بلکہ ولایت فقیہ صرف ایسے فقیہ کو حاصل ہے جو جامع الشرائط مجتہد ہو اور پھر عادل ہو۔ لذا جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ ولایت فقیہ نہیں ہے۔ دوسری بات اگر بنو عباس کے دور میں شیعہ اپنے حقوق کا دفاع کر سکتا ہے تو ہر دور کی حکومت میں ایسا کر سکتا ہے۔ بدترین آمریت کے دور میں شیعہ رہتا رہا ہے۔ اور اگر جمہوری نظام میں اپنے حقوق کا دفاع کر سکتا ہے تو کسی دیوبندی کی حکومت میں بھی حقوق کا دفاع کر سکتا ہے۔ یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ ہماری ولایت فقیہ سے مراد کسی دیوبندی کی حکومت مراد نہیں ہے۔ یہ آپ نے بدگمانی کی بنا پر ولایت فقیہ کی من پسند تشریح کی ہے۔ شیعہ کا دشمن سنی نہیں ہے چاہے وہ دیوبندی ہو یا چاہے بریلوی۔ شیعہ صدیوں سے ان مسالک کے ساتھ رہتا رہا ہے۔ شیعہ کی ان کے ساتھ تو کبھی جنگ نہیں رہی۔ شیعہ کو مارنے والا امریکہ اور آل سعود ہے۔ شیعہ سنی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس لیے آپ اس بات سے ڈرنے کی بجاۓ کہ کسی دیوبندی کی حکومت آ جاۓ، اس بات سے زیادہ ڈریں کہ کسی امریکہ نواز کی حکومت نہ آ جاۓ۔ آپ پاکستان میں اس بات سے ڈرنے کی بجاۓ کہ کسی بریلوی کی حکومت آ جاۓ، اس بات سے زیادہ ڈریں کہ کسی سعودی نواز کی حکومت نہ آ جاۓ۔ ہمارا جھگڑا فرقوں سے نہیں ہے۔

پاکستان میں ولایت فقیہ کی عملی صورت

پاکستان میں اگر ۱۰۰فیصد اسلامی حکومت کی صورت اختیار نہ ہو سکے تو ہم تنزل کر سکتے ہیں۔ حکومت اسلامی کی اعلی ترین صورت عملی نہیں ہو سکتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم طاغوتی حکومت کی صورت اختیار کر لیں۔ جتنا ممکن ہو حکومت کو اسلامی کرنے کی کوشش کریں اگر ممکن نہ ہو تو بعض مقامات پر پیچھے ہٹ جائیں۔ لیکن مکمل طور پر اسلامی حکومت کو ترک کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جانا درست نہیں ہے۔ اس نظریہ کو فرقہ واریت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ شروع میں ممکن ہے ایسی صورت اختیار کر لی جاۓ جو تمام امت کے لیے متفقہ ہو۔ اگر اختلافات کو ہی مدنظر رکھا تو پھر تو اہل سنت مین بھی ہزاروں فرقے ہیں، خود ایک بریلوی تفکر کے اندر مختلف سیاسی نظریات ہیں۔ حکومت اسلامی سے مراد اسلامی قوانین کا اجراء ہے۔ اس سے مراد تفرقہ بازی نہیں ہے۔ ایسے عمامہ پہننے والے افراد جو یہ بات کرتے ہیں کہ ہمیں سیکولر کی حکومت تو قبول ہے لیکن اسلامی حکومت قبول نہیں ہے، انہوں نے در اصل اسلام کو فرقے کی نگاہ سے دیکھا ہے جامع دین کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ 

امت اور فرقے

ہم کہتے ہیں کہ امت الگ ہے اور فرقے الگ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے امت بنائی تھی اور فرقے دشمن نے بناۓ ہیں۔ طالبانی تفکر اہلسنت کی ترجمانی نہیں کرتا، یہ ایک سازشی ٹولہ ہے، اسی طرح داعش ہے وہ بھی کسی اہل سنت مکتب کی ترجمانی نہیں کرتی۔ یہ بھی دشمن نے بنائی اور انہوں نے بلا استثناء سب مسلمانوں کا خون بہایا۔ شیعہ میں بھی دشمن نے تبرہ بازی پارٹی بنائی جس کا کام صرف تشیع کو مناظراتی دین بنا کر پیش کرنا ہے۔ اپنی باتیں ہر قیمت پر ثابت کرنا اور دوسروں کے مقدسات کی توہین کرنا۔ یہ اہلسنت کے مقدسات پر حملہ کرتے ہیں تو اس کے ردعمل مین داعش آئمہ معصومینؑ کے حرموں پر حملہ کرتی ہے۔ اصل میں یہ دونوں ایک ہیں۔ ایک کا کام ذہنی آمادگی پیدا کرنا ہے اور دوسرے کا کام عملی طور پر جا کر بم پھوڑنا ہے۔ داعش اسرائیل پر حملہ نہیں کرتی اور یہ تبرہ باز پارٹی اسرائیل اور امریکہ کو اپنا دشمن نہیں مانتی۔ بلکہ ان کے علماء امریکہ اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اور وہاں سے صرف ولایت فقیہ اور اسلامی حکومت کو نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ اتنے ہی بڑے شیعہ ہیں تو یمن، عراق، افغانستان، ایران، پاکستان میں بسنے والے شیعہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ کیا امریکہ اور برطانیہ کی امداد نہ ملنے کا خوف ہے؟ آپ کو دارالکفر میں بیٹھ کر امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں پر کوئی اعتراض نہیں جو مسلمانوں کی بدترین دشمن ہیں لیکن اسلامی حکومت سے تکلیف ہے؟ ہمارے نزدیک چاہے وہ بنو امیہ کی حکومت ہو یا چاہے بنو عباس کی، چاہے وہ برطانیہ کی حکومت ہو یا چاہے امریکہ کی ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پہلے دور میں مستکبر طاقتیں ڈنڈے کے زور پر لوگوں پر ظلم کرتی تھیں اور آج آزادی کے نعروں سے ملکوں کو تباہ کرتی ہیں۔

ولایت فقیہ ۔تشیع کی طاقت

دارالنفاق اور دارالکفر میں بیٹھ کر تشیع کی طاقت کو کمزور کرنا اور اسے مشکوک بنا کر پیش کرنا کونسی خدمت ہے؟ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے ہمیں درس دیا ہے کہ استدلال سے بات کرو، اپنا مؤقف پیش کرو۔ ایسا بھی نہیں کہ اپنا مؤقف ہی پیش نہ کرو جو دوسرے سے اختلاف رکھتے ہو اس کو ضرور بیان کرو لیکن آداب کا خیال رکھتے ہوۓ۔ قرآن کریم میں حکم آیا:
«و جَادِلْهم بالّتی هیَ أحْسَن».
ترجمہ: اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔[1] نحل: ۱۲۵۔
دین کہتا ہے کہ فتنے کھڑے مت کرو ۔فتنہ قتل سے بدتر گناہ قرار دیا گیا ہے۔[2] بقرہ: ۱۹۱۔ پاکستان میں اگر بنو عباس اور بنو امیہ کی بھی حکومت آ جاۓ تب بھی وہ شیعوں پر اتنا ظلم نہیں کریں گے جو ان سیکولر حکومتوں نے ۲۰ سالوں میں کیا ہے۔ کتنے شیعہ قتل عام ہوۓ۔ شیعہ دفاع کر سکتا ہے اور اس نے دفاع کیا، سکاوٹ بناۓ، خودکش حملہ کرنے والے شیعوں کی ایک مسجد بھی بند نہیں کر سکے، ایک جلوس بھی ختم نہیں ہوا۔ ان حکومتوں سے شیعہ ختم تھوڑی ہونے والا ہے۔ یہ سارے ظلم پاکستان میں کسی دیوبندی یا بریلوی حکومت کے ذیل میں تو نہیں ہوۓ انہیں سیکولر حکومتوں کے تحت ہوۓ ہیں۔ ان کی تائید کس لیے کی جاتی ہے؟ یہ بھی تو ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔

طالبان کی حکومت میں شیعہ

آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ فرقے کے نام پر اگر کوئی حکومت آ جاۓ تو وہ تو آپ کو قبول نہیں ہے لیکن اگر سیکولرزم یا لبرلزم کے نام پر کوئی حکومت آ جاۓ تو اس کی آپ مکمل حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ دونوں ہی باطل حکومتیں ہیں۔ افغانستان میں طالبان نے جبری حکومت مسلط کی ہوئی ہے۔ ہم طالبان کی حمایت نہیں کر رہے لیکن وہاں پر بھی تو شیعہ رہ رہے ہیں۔ کیا طالبان وہاں پر شیعوں پر کھلم کھلا ظلم کر سکتے ہیں؟ شیعوں کو ختم کر سکتے ہیں؟ اگر طالبان شیعہ کو ختم نہیں کر سکتے تو اور بھی کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ ہمیں ان بہروپیوں کی حکومت نہیں چاہیے۔ اسلام کے نام پہ یہ حکومتیں باطل کی حکومتیں ہیں۔ صرف نعروں سے نہیں ،اچھے نعرے تو کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ کوئی اسلام کا نعرہ، کوئی اقتصاد کا نعرہ، اور کوئی کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر پوری قوم کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔ شیعہ کو ان کے چنگل میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ لوگ ووٹوں کے دنوں میں ہمیں گھیر لیں اور بعد میں حکومت کے وقت ہمیں لفٹ ہی نہ کروائیں۔ ووٹ لیتے وقت تو کہیں کہ ہم آپ کے مسائل کو حل کریں گے اور جب حکومت میں آئیں تو کہیں کہ ہم خود بے بس ہیں آپ کے شیعہ نوجوان ہم نہیں چھڑوا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے مسائل کا حل نہیں چاہتے۔ 

امریکہ۔ تشیع کا دشمن

اس وقت عالم اسلام کا حقیقی دشمن امریکہ ہے۔ جس نے تمام اسلامی ممالک میں تباہ کاریاں مچائی ہوئی ہیں۔ امریکہ کے مظالم بنو عباس اور بنو امیہ سے زیادہ ہیں۔ اس نے اسلامی ممالک میں فرقہ واریت پھیلائی، دہشتگردی کو ختم کرنے کے نام پر دہشتگرد گروہ خود بناۓ اور اس بہانے اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، مسلمانوں کو ویران کیا اور ان کے مال و متاع کو غارت کیا۔ آج امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھا ہوا مولوی ولایت فقیہ کو مشکوک بنا کر پیش کرتا ہے۔ دارالکفر میں بیٹھ کر ان کی حمایت لے کر کیسا اسلام کا دفاع کر رہے ہو؟ کیا یہ لوگ تمہیں واقعی اسلام کا دفاع کرنے دیں گے؟ آج تک آپ لوگوں نے امریکہ اور برطانیہ کے مظالم تو امت کو نہیں بتاۓ؟ جبکہ ان کے مظالم پوری دنیا پر عیاں ہیں۔ آلودہ دل کے ساتھ دارالنفاق میں بیٹھ کر اسلامی حکومت اور الہی قوانین کے نفاذ پر شکوک پیدا کرتے ہو؟ اس سے بڑھ کی دشمنی کیا ہوگی؟ مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرنا، ان کے اختلافات کو ہوا دے کر مشترکہ دشمن سے توجہ ہٹانا کب سے دین کی خدمت قرار پایا؟ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کسی پر اس طرح کی تبرہ بازی اور لعن طعن نہیں کی۔ کیا دین صرف تبرہ کرنا ہے؟ کہاں گئی توحید؟ کہاں گیا نبوت اور امامت کا پیغام؟ کلمۃ اللہ ہی العلیا کا شعار کہاں گیا؟ توحید کی حاکمیت کا نعرہ کس نے بلند کرنا ہے؟ توحید کے قوانین کو معاشروں پر نافذ کرنے کی ذمہ داری کس نے سنبھالنی ہے؟ اللہ تعالی کا دین معاشروں میں کیوں تعطیل ہے؟ یہ غم کیوں کسی کے دل میں نہیں ہے؟ آپ کے دل میں یہ غم نہیں ہے۔ آپ کی توجہ صرف امت کو الجھانا اور مغالطے پیدا کرنا اور امریکہ اور اسرائیل کے مفاد کے لیے کام کرنا ہے۔

اسلامی نظریات پر حملہ

دین اسلام عقلانی ترین دین ہے۔ اگر دین اسلام کے نظریات کا صحیح تصور حاصل ہو جاۓ تو عقل فورا اسے تسلیم کرتی ہے۔ کیونکہ دین اسلام فطری دین ہے۔ فطرت کو جگانے کی ضرورت ہے، اگر جاگ جاۓ فورا تائید کرتی ہے۔ ولایت فقیہ کا درست تصور اس کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ ہم یہ سب گفتگو صرف تائید کے طور پر لا رہے ہیں۔ اور ان شبہات کا جواب دے رہے ہیں جو واضح اور روشن ترین مطالب کے آگے حجاب بنا کر معاشروں میں پھیلا دیے گئے ہیں۔ اسلامی قوانین کا تصور کریں اور پھر ان کے اجراء کی ضرورت پر غور کریں آپ فورا تصدیق کریں گے کہ کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے جو قوانین کو جاری کرے۔ البتہ یہاں پر مسئلہ ان کو پیش آتا ہے جن کو قوانین کے اجراء سے تکلیف ہو۔ اسلامی قوانین کے اجراء سے یقینا فاسقین کو تکلیف ہوگی۔ جیسا کہ ابھی ایران میں ہوا۔ جب حجاب کے مسئلے پر اسلامی حکومت نے اجراء کی کوشش کی تو فاسقین نے شور مچایا۔ بے حیا خواتین نے حجاب کو ترک کیا تو ان کی حمایت میں بے غیرت افراد بھی کھڑے ہو گئے جنہوں نے کہا کہ ہاں عورت پر حجاب ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بے غیرت مرد عورت کو ننگا دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس مسئلے پر بھی بعض قاضی شریح صفت مولویوں نے مغربی حمایت یافتہ باغیوں کی حمایت کی۔ اور کہا کہ ایرانی حکومت کو حجاب آزاد کر دینا چاہیے۔ ایسے علماء جن کو اسلامی قوانین کے اجراء سے تکلیف ہے یہ کونسے اسلام کا دفاع کر رہے ہیں؟ اگر امریکی استعماری اداروں کے پریشر میں آ کر پاکستان میں غیر اسلامی قانون کا نافذ ہوتا ہے تو ان مولویوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر ایران میں کسی اسلامی قانون کا نفاذ ہوتا ہے تو اس پر شور مچاتے ہیں۔ اسلامی قوانین کا اجراء اللہ تعالی کی حاکمیت کی طرف لے جاتا ہے۔ آئمہ معصومینؑ کی طرف ہمیں لے جاتا ہے۔ ظہور کے لیے آمادگی پیدا کرتا ہے۔ حد اقل ہمیں اتنا ضرور کرنا چاہیے کہ جو متفق اسلامی قوانین ہیں ان کے اجراء کی کوشش کی جاۓ۔ مثلا حجاب ، اسلامی حدود کا اجراء، سود پر پابندی، قتل و غارت کا خاتمہ وغیرہ۔ ان سب مسائل میں تو سب متفق ہیں۔ اس میں تو کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔ اس سے تو کسی دیوبندی کی حکومت نہیں آتی۔

عقلی دلیل کی اہمیت

حوزہ جات علمیہ میں زیادہ تر ولایت فقیہ کی نقلی دلیل کو بحث کیا جاتا ہے۔ نقلی دلیل کے ذیل میں بھی تقلید کی جاتی ہے یا جو استاد نے کہہ دیا اسی کو قبول کر لیتے ہیں۔ یا کہیں گے کہ ولایت فقیہ کی دلیل میں وارد ہونے والی روایات ضعیف السند ہیں۔ سند کی تحقیق بھی تقلیدی طور پر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت اللہ خوئیؒ کی نظر کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔آیت اللہ خوئیؒ کی تحقیق ہمارے لیے قابل استفادہ ہے لیکن ہم نے علمی میدان میں کسی کی تقلید نہیں کرنی۔ ابھی ایک طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو ہر بات ذاتی رجحان کی بنا پر لیتا ہے۔ اگر آیت اللہ خوئیؒ کی بات ولایت فقیہ کے ذیل میں قبول نہیں کرنی تو کہیں گے کہ ہمارا آیت اللہ خوئیؒ سے اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ لیکن اگر آیت اللہ خوئیؒ کی بات مختار ثقفی کے بارے میں اچھی لگے تو کہیں گے کہ آیت اللہ خوئیؒ سے بڑھ کر اور کون عالم ہو سکتا ہے؟ نظریات میں تقلید نہیں ہوتی۔ اگر آیت اللہ خوئیؒ کے نزدیک مختار ثقفی کی مذمت میں وارد ہونے والی روایات ضعیف ہیں اور آپ کو ان کی تحقیق قبول ہے تو پھر ولایت فقیہ کے ذیل میں جب آیت اللہ خوئیؒ نے یہ بیان کیا کہ اکثر روایات ضعیف ہیں تو وہاں پر بھی قبول کریں۔ ذاتی رجحان کی بنا پر دین کو اختیار مت کریں۔

ابن سیناؒ کی دلیل کی تکمیل

پچھلی قسط میں بیان ہوا کہ ابن سیناؒ نے ضرورت وحی و نبوت پر اپنی کتابوں میں عقلی برہان پیش کیا ہے۔ وہاں پر ثابت ہوا کہ وحی ضروری ہے۔ اگر وحی نہ ہو تو ہمیں عبادات سمجھ میں نا آتیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی کی عبادت کرتا۔ عبادات کی جامعیت وحی سے حاصل ہوئی۔ عقل عبادت کے ہونے کو تو ثابت کر لیتی ہے لیکن عبادت کی کیا شکل ہو؟ یہ صرف وحی بتا سکتی ہے عقل اس کو درک نہیں کر سکتی۔ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے بھی شریعت اور وحی کا ہونا ضروری تھا۔ مثلا سود کیسے پورے معاشرے کو تباہ کرتا ہے؟ یہ وحی کے ذریعے ممنوع قرار پایا۔ حقوق انسانی بھی وحی پر موقوف ہیں، خاندانی نظام بھی وحی سے ثابت ہوا۔ انسانی بنیادی ترین ضرورتیں اور ان کی ایجاد بھی وحی کی مرہون منت ہے۔ کشتی بنانا، لوہے سے اوزار بنانا، سلائی کرنا، لکھنا، گھر بنانے کا طریقہ یہ سب ہمیں انبیاء نے سکھایا۔ اسلامی حکماء کی انہیں دلیلوں کو سب فرقوں نے اپنی کلامی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ در اصل شریعت اور انبیاء کرام سے ہم نے بنیادی زندگی کے اصول حاصل کیے ہیں۔ اخروی اور ابدی زندگی کی کامیابی بھی شریعت پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ انسان کے معنوی مقامات، زاہدین، عابدین اور فقہاء کرام کا علم و عمل سب وحی پر موقوف ہے۔ اگر وحی نہ ہوتی تو صالح اجتماعی زندگی موجود نہ ہوتی۔ ورنہ صرف طاقتور کو جینے کا حق ہوتا، ایمان اور اقدار کیا  چیزیں ہیں ان کا کسی کو پتہ نہ ہوتا۔ زندگی کو شہوت کی نظر کر دیا جاتا۔

اجتماعی زندگی کی اہمیت

ابن سیناؒ کی دلیل کو سمجھنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم انفرادیت سے نکل کر اجتماعی سوچیں۔ انسان اگر اجتماعی زندگی نہ گزارے تو بہت سے منافع سے محروم ہو جاۓ گا۔ اجتماعی مسائل کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہوتی ہے۔ مثلا اس وقت ایران میں سوشل میڈیا کی بعض ایپس کو بند کر دیا گیا ہے۔ ایرانی حکومت نے ان کے سامنے چند مطالبات رکھے جو انہوں نے قبول کرنے سے منع کر دیا تو ایران نے بھی ان پر پابندی لگا دی۔ حالانکہ لاکھوں ایرانیوں کے روزگار انہیں سوشل میڈیاز سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف اگر ان کو بند نہیں کیا جاتا تو پورے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی پلیٹ فارمز ہیں ان کے فوائد اور مصیبتیں دونوں اجتماعی حیثیت رکھتی ہیں۔ اب ایک طرف پورے ملک کا نقصان ہے اور دوسری طرف چند افراد کا۔ جب دو افراد کا آپس میں منفعت کا ٹکراؤ ہو جاۓ تو یہاں سے تنازع پیدا ہوتا ہے۔ ایک کو اپنا کاروبار چاہیے اور دوسرے کو اپنی عزت ناموس اور دیگر مفادات کا حصول۔ مثال کے طور پر زمین کے مسائل ہیں، اموال، اجرت وغیرہ کے مسائل ان سب میں جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ انسان کی طییعت سرکشی دکھاتی ہے۔ طبیعت کا میلان ایک نظریہ کی طرف ہے وہ دوسروں کو باطل اور خود کو حق کہے گی۔ جو شخص سرکش ہو جاۓ وہ خود کو حق کا معیار سمجھ لیتا ہے اور دوسروں کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس سرکشی کو دبانا ضروری ہے اگر یہ شخص خود نہیں دباتا تو دوسروں کو چاہیے کہ اس کی سرکشی کو دبائیں۔ یہاں پر خاموش ہو جانا جرم ہے۔ اس کی سرکشی تنازع کا باعث بنے گی اس کا واحد علاج عدالت کا برقرار ہونا ہے۔عدالت کو قوانین الہی کے ذریعے برقرار کیا جا سکا ہے۔ اور قوانین الہی کے اجراء کے لیے مجری کی ضرورت ہے۔ یہاں سے ولایت فقیہ ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دین شناس جامع الشرائط فقیہ ہو جو الہی قوانین کو معاشرے میں جاری کرے تاکہ اجتماعی زندگی رہنے کے قابل ہو سکے۔ [3] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۴تا۱۵۸۔

منابع:

منابع:
1 نحل: ۱۲۵۔
2 بقرہ: ۱۹۱۔
3 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۵۴تا۱۵۸۔
Views: 14

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ اور ضرورتِ قانون و نظم
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ پر عقلی دلیل اور تلفیقی دلیل میں فرق