loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۶۴}

ولایت فقیہ پر عقلی دلیل اور تلفیقی دلیل میں فرق

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ولایت فقیہ امامت کی جزوی بحث ہے۔ اگر ہمارے لیے امامت ثابت ہو جاۓ تو جزوی طور پر ولایت فقیہ بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ اس لیے ولایت فقیہ کی دلیلیں بھی وہی دلیلیں ہیں جو نبوت اور امامت کی ضرورت ثابت کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ اگر کوئی شیعہ اصل امامت کو مانتا ہو اور اس کی جز(ولایت فقیہ) کو نا مانے اس سے وہ دائرہ تشیع سے خارج نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی اصلِ امامت کا ہی انکار کر دے تو دائرہ تشیع سے خارج ہو جاتا ہے۔ ولایت فقیہ چونکہ جزوی بحث ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے کہ جو نہیں مانتا وہ شیعہ ہی نہیں ہے۔ لیکن کسی کو یہ اجازت بھی نہیں دی جا سکتی کہ وہ دشمنوں سے مل کر اسلامی نظام کی تضعیف کا باعث بنے،مسلمانوں کو اندر سے کمزور کرے یا ان کے اندر تفرقہ کا باعث بنے۔

بیان ہوا کہ ہمارے پاس ولایت فقیہ پر تین دلیلیں ہیں۔
۱۔ محض(خالص) عقلی دلیل
۲۔ محض(خالص) نقلی دلیل
۳۔ عقل اور نقل سے مرکب(تلفیقی) دلیل۔ اس دلیل کو مصنف نے تلفیقی دلیل کا نام دیا ہے۔ تلفیقی سے مراد یہ ہے کہ عقل اور نقل سے مرکب ہے۔ 

تلفیقی دلیل اور محض عقلی دلیل میں فرق

عقلی دلیل ایسی دلیل ہوتی ہے جس کے تمام مقدمات عقلی ہیں۔ گزشتہ تین اقساط میں ہم نے عقلی دلیل کی تبیین پیش کی۔ انسان کا مدنی الطبع ہونا، انسان کو عدالت کی ضرورت، قانون اور اس کے اجراء کی ضرورت، یہ سب عقلی باتیں تھیں۔ ان کو ثابت کرنے کے لیے ہم نے کسی آیت یا روایت کا استفادہ نہیں کیا۔ بلکہ انسانی عقل مستقل طور پر ان باتوں کو درک کر کے حکم لگاتی ہے۔ جبکہ تلفیقی دلیل ایسی دلیل ہوتی ہے جس کے بعض مقدمات عقلی اور بعض نقلی ہیں۔ ولایت فقیہ کو ثابت کرنے کے لیے تلفیقی دلیل کا ایک مقدمہ قرآن کریم سے لاتے ہیں:

«لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ».
ترجمہ: باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔[1] فصلت: ۴۱۔
قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے کہ اس میں باطل سرایت نہیں کر سکتا۔ آیا اس کی کوئی مدت معین کی گئی ہے یا تا قیامت یہ دعوی موجود ہے؟ ظاہری طور پر آیت میں کوئی مدت معین نہیں کی گئی اور قیامت تک یہ کتاب سراسر ہدایت ہے اور اس میں باطل امر موجود نہیں ہو سکتا۔ معلوم ہوا اس کتاب اور دین اسلام کی ضرورت دائمی ہے۔ آج کے معاشروں کو بھی دین کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نقلی مقدمہ ہے جو ہم نے قرآن مجید سے لیا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرا عقلی مقدمہ ملائیں تو ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قرآن محید صرف ۲۶۰ ہجری تک کے انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ آج بھی قرآنی تعلیمات کے اندر ہمارے لیے ہدایت اور انسانی ضرورتوں کا نظام موجود ہے۔ نبوت اور امامت کی جو ضرورت ۲۶۰ ہجری تک کے افراد کو تھی وہی ضرورت آج بھی ہے ورنہ معاشرے میں ہرج مرج لازم آ جاۓ گا۔ معاشروں کو آج بھی عدالت کی ضرورت ہے۔ معاشروں کو الہی قانون کی ضرورت آج بھی ہے۔ عقل یہاں پر کہتی ہے کہ اللہ تعالی نے امتوں کو ۲۶۰ ہجری کے بعد آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جو ان کی مرضی کرے غیر الہی و غیر قرآنی نظام اپنا لیں۔ بلکہ اس کے اندر آج کے انسان کے لیے بھی ہدایت موجود ہے۔ اللہ تعالی کا قرآن کریم کو اتارنے کا ہدف قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کرنا تھا۔ اس سے صرف ۲۶۰ ہجری تک کے انسان استفادہ لینے کے حقدار نہیں ہیں۔ ان دو مقدمات کو آپس میں ملائیں تو ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ 

عقل اور نقل

عقل اور نقل(قرآن کریم و احادیث) دونوں دین کے منابع ہیں۔ با الفاظ دیگر جو بات عقل کرتی ہے وہی بات نقل کرتی ہے۔ دین کا عقل سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ عقلی دلیل کے مقابلے میں نقلی دلیل آتی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں عقلی دلیل اور نقلی دلیل دونوں دین کی دلیلیں ہیں۔ دین کے مقابلے میں عقلی دلیل نہیں آتی۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی خود ہمارے اپنوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ عقلی دلیل ہمارے کسی کام کی نہیں ہے اور ہمیں صرف نقلی دلیل پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ اور یہی طعنہ آج مغرب بھی مسلمانوں کو دیتا ہے اور اپنے گمان میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان عقل کا استعمال نہیں کرتے اور عقلی دلیل نہیں رکھتے اور خود وہ عقلی اور منطقی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے بقول اسلام یعنی غیر عقلی باتوں کا مجموعہ۔ یا کہتے ہیں کہ عقل اور دین دو متضاد راستہ دکھاتے ہیں۔ ان کے ہاں یہ کام پاپ نے کیا اور ہر عقلی بات کو رد کیا۔ اس لیے وہ ہر دین کے بارے میں یہی سوچتے ہیں۔ وگرنہ حقیقت میں حضرت عیسیؑ کا دین تو عقل کے برخلاف نہ تھا۔ یہ تو کلیسا میں بیٹھا پاپ غیر عقلانی کام کر رہا ہے اور اس کو دین کا نام دے رہا ہے۔ دوسری طرف ایک نادان گروہ خود مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے جو کہتا ہے کہ نقل کافی ہے اور عقل کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ دین ثابت ہی عقل سے ہوتا ہے۔ پہلے عقل سے ثابت کرنا ہوگا کہ دین ہو یا نہ ہو، اگر عقل سے ثابت ہی نہ ہو سکے کہ دین ہونا چاہیے یا نہیں تو پھر کونسی دین کی باتیں اور کونسی کتاب و حدیث۔

عقل کی ضرورت اور اس کا ادراک

چونکہ تلفیقی دلیل کے بعض مقدمات عقلی ہیں اس لیے ہمیں عقل کو مزید کھول کر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ عقل یہ بات درک کرتی ہے کہ انسان بغیر ہدف کے پیدا نہیں ہوا۔ وہ معاشرتی زندگی گزارتا ہے اور اسے قانون کی ضرورت ہے۔ یہ سب باتیں عقل مانتا ہے۔ یہ بات عقل نے مستقل طور پر سمجھی ہے اسے کسی نبی یا امام نے نہیں بتائی۔ عقل اس ضرورت کو کسی خاص زمانے کے ساتھ محدود بھی نہیں کرتی۔ بلکہ عقل مانتی ہے کہ انسان کو قانون اور ہدایت کی ضرورت زمانہ امامت میں بھی ہے اور زمانہ غیبت میں بھی ہے۔ اب یہ ساری باتیں عقلی دلیل کے مقدمات ہیں۔ منطق کی زبان میں اسی کو صغری کبری اور نتیجہ کہتے ہیں۔ صغری کبری میں بدیہی مقدمات لاۓ جاتے ہیں۔ جب مقدمات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیں تو نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ نتیجہ دلیل کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ اس نے حاصل ہونا ہی ہوتا ہے۔ عقلی دلیل کے مقدمات سب عقلی ہوتے ہیں۔ لیکن تلفیقی دلیل میں ایک مقدمہ عقلی ہوتا ہے اور ایک مقدمہ نقلی۔ ان دونوں کی ترکیب سے ایک نتیجہ نکلتا ہے جو عقل درک کرتی ہے۔ ہم یہاں پر مثال پیش کرتے ہیں:
صغری: علی انسان ہے۔
کبری: ہر انسان فکر کر سکتا ہے۔
نتیجہ: علی فکر کر سکتا ہے۔
صغری اور کبری میں انسان حد وسط ہے۔ جو ایک مقدمے کو دوسرے مقدمے سے جوڑتی ہے۔ حد وسط نتیجہ میں گر جاتی ہے۔ حد وسط کا کام دونوں مقدموں میں ارتباط پیدا کرکے فنا ہو جانا ہے۔
اسلامی نظام کی ضرورت کے بارے میں ہم اس طرح سے دلیل قائم کریں گے:
صغری: قرآن کریم ہدایت کی کتاب ہے۔
کبری: انسان کو ہر دور میں ہدایت کی ضرورت ہے۔
نتیجہ: قرآن کریم آج بھی انسان کی ضرورت ہے۔

قاعدہ لطف کا بیان

تلفیقی دلیل کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک قاعدہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس قاعدے کو متکلمین قاعدہ لطف کا نام دیتے ہیں۔قاعدہ لطف ایک معروف قاعدہ ہے جو علم عقائد کی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ ہمارے علماء نبوت اور امامت کی ضرورت کو قاعدہ لطف سے ہی ثابت کرتے ہیں۔ جب نبوت اور امامت کا عہدہ ثابت ہو جاتا ہے تو اگلا سوال ایجاد ہوتا ہے کہ اس زمانے کا نبی یا امام کون ہے۔ مکتب تشیع میں عقلی دلیلیں متعدد ہیں لیکن سب سے پہلے جس دلیل کا تذکرہ ہوتا ہے وہ قاعدہ لطف ہے۔ اس قاعدہ کو تقریبا تمام امامیہ متکلمین نے قبول کیا ہے تاہم آج کے دور میں اس کی تبیین اور تشریح پر بعض علماء نے اعتراضات کئے ہیں اور اپنے خاص انداز میں مختلف تشریح کی ہے۔ معتزلہ علماء میں سے بشر بن معتمر اور جعفر بن حرب نے اس قاعدہ کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ جبکہ اشاعرہ اس قاعدہ کو رد کرتے ہیں کیونکہ وہ حسن و قبح عقلی کے اصل سے ہی منکر ہیں۔ شیخ طوسیؒ نے اپنی کتاب الفہرست میں بیان کیا ہے کہ امام صادقؑ کے مشہور شاگرد ہشام بن حکم نے ایک کتاب لکھی جس کا نام الالطاف ہے۔[2] شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۵۹۔ اس قاعدے پر باقاعدہ کوئی آیت یا روایت موجود نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اور معنی اس دور میں پھیل گیا تھا۔ ہشام بن حکم بہت بڑے متکلم و مناظر تھے۔ اس طرح کی شخصیات ہر دور میں ہونا ضروری ہیں جو مکتب کے عقلی مبانی کو مضبوط کریں اور دفاع کریں۔ معتزلہ مکتب اس لیے ضعیف ہوا کہ اس کے مناظر علماء ختم ہو گئے تھے۔ معتزلہ عقلی روش کے قائل تھے لیکن بعد میں اہل اسلام میں اہل حدیث کی روش پھیل گئی تو یہ لوگ ختم ہو گئے، تاہم مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوۓ آج بھی عالم اسلام میں اس طرح کی شخصیات موجود ہیں جو معتزلہ کی طرح عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں۔ بہرحال اس قاعدے سے نبوت اور امامت کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ اور اسی کے ذیل میں زمانہ غیبت میں فقیہ کی ولایت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

قاعدہ لطف کی وسعت

قاعدہ لطف ثابت ہو جاۓ تو اس سے بہت سے دیگر نظریات بھی ثابت ہو جاتے ہیں۔ اسی قاعدے کی بنا پر وجوب تکلیف، بعثت انبیاء، امامت کی ضرورت، اور عصمت آئمہ معصومینؑ بھی ثابت ہوتی ہے۔ وعد و وعید، عذاب و ثواب، اور قیامت بھی اسی قاعدے سے ثابت ہوتی ہے۔ لذا اس قاعدہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ عقیدے صرف سن کر مان لینے سے راسخ نہیں ہوتے۔ جب تک ہم اس کو تفصیل سے سمجھ نہیں لیتے اور فہم حاصل نہیں کر لیتے فائدہ نہیں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حوزے میں سال ہا سال گزارنے والے بعض افراد کے عقیدے بالکل عوامانہ ہوتے ہیں۔ جو معاشرہ کہہ دے اور علماء سے سن لیا اسی کو عقیدہ بنا لیا۔ ان کی آخری دلیل فتوی ہوتی ہے۔ ہر بحث میں فتوی لے آتے ہیں۔ جبکہ ہماری بحث سیاست، عقائد اور تاریخ کے موضوعات پر ہو رہی ہوتی ہے۔ اس قاعدے کو تحقیقی طور پر سمجھیں اور اس کے مطابق عقیدے بنائیں۔ اور اس بات کو درک کریں کہ اس قاعدے میں کس طرح سے عقل سے استفادہ کیا گیا ہے۔ بہت سے امور میں ہمیں عقل سے مدد لینا پڑتی ہے کیونکہ نقل ہمارے لیے متشابہ واقع ہو رہی ہوتی ہے۔ مثلا قرآن کریم میں حضرت آدمؑ کے عصیان کا ذکر ہونا۔ حضرت آدمؑ کے بارے میں عصیان کلمہ وارد ہونا بہت سنگین بات ہے۔کیسے عصمت آدمؑ کو ثابت کریں گے۔ حتما ہمیں عقل کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اور ان آیات کو متشابہ قرار دے کر ان کا ارجاع محکمات کی طرف کرنا ہوگا۔ عقل سے ثابت کریں گے کہ نبی معصوم ہوتا ہے۔ اگر آیت کے ظاہر سے مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو تو متشابہ قرار دے کر توقف کریں گے خود سے تاویل نہیں کریں گے۔ حضرت آدمؑ کو کونسا حکم دیا گیا تھا؟ حکم ارشادی تھا یا حکم مولوی؟ حکم ارشادی کا مطلب ہوتا ہے کہ صرف رہنمائی کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ تعاونوا علی البر والتقوی میں حکم دیا گیا ہے۔ نیکی اور تقوی کے امور میں تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔آیا تعاون کرنا واجب ہے؟ اگر واجب ہوتا تو پھر چندہ دینے والے کو خالی ہاتھ لوٹانا حرام ہوتا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معلوم ہوا تعاون کرنے کا حکم ارشادی ہے۔ حکم مولوی کی خلاف ورزی کرنا حرام ہوتا ہے۔ بعض علماء کے بقول حضرت آدمؑ کو حکم ارشادی ہوا تھا۔ اب یہ علمی ابحاث ہیں جن میں عقل سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔

قاعدہ لطف کی تعریف

شیخ مرتضی علم الہدی فرماتے ہیں:
لطف ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت کی انجام دہی کی طرف دعوت دیتی ہے۔ اور اگر لطف نہ ہوتا تو مکلف اطاعت کو انتخاب نہ کرتا۔[3] حوالہ درکار ہے۔ پس اللہ تعالی پر ضروری تھا کہ وہ لطف کرے، مثلا نبی بھیجے، کتاب بھیجے، امام منصوب کرے۔ یہاں پر اہل سنت کہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں اللہ تعالی پر کوئی چیز لازم قرار دینے والے؟ ہم کہتے ہیں کہ عقل کہتی ہے کہ اللہ تعالی یہ کام کرے۔
ابو اسحاق نوبختی فرماتے ہیں:
لطف ایک ایسا امر ہے جو اللہ تعالی مکلف کے لیے انجام دیتا ہے۔ لطف میں کوئی ضرر موجود نہیں ہوتا اور اللہ تعالی اس بات کو جانتا ہے کہ اگر وہ لطف نہ کرے تو مکلف اطاعت نہیں کرے گا۔[4] حوالہ درکار ہے۔
علامہ حلی فرماتے ہیں:
لطف ایک ایسا امر ہے جس کے ذریعے مکلف اطاعت الہی کو انجام دینے کے نزدیک تر اور معصیت الہی سے دور تر ہو جاتا ہے۔[5] حوالہ درکار ہے۔
زندگی میں بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو انسان انجام دے لے تو بہت سے نیکی کے راستے اس کے لیے کھل جاتے ہیں۔ لطف بھی انہیں امور میں سے ہے جو اللہ تعالی کے لیے ضروری ہے اگر وہ انجام نہ دے انسان معصیت کی طرف چلے جائیں گے۔ اللہ تعالی نے ایسے امور بناۓ ہیں جن کی بنا پر اطاعت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یا معصیت سے بچنے کے لیے اسے مدد ملتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی پر یہ کام کرنا ضروری تھا یا نہیں؟ مثلا اللہ تعالی نے انسان کو بنایا اب معبود کی عبادت انسان پر ضروری تھی، اگر اللہ تعالی انبیاء اور شریعت نہ بھیجتا تو انسان کیا کرتے؟ عذاب اور ثواب کا ان کو پتہ ہی نہ ہوتا تو کیا یہ درست صورت تھی؟ کیا یہاں پر عقل کافی تھی کہ وہ سب کچھ سمجھ لے؟ یا اللہ تعالی پر انبیاء بھیجنا، شریعت اور کتابیں بھیجنا بھی ضروری تھا تاکہ انسان کو رہنمائی مل سکے، اس طرح کی رہنمائی کہ جس سے وہ نیکی کی طرف راغب اور برائی سے بچ سکے؟ اگر اللہ تعالی پر یہ سب امور انجام دینا ضروری تھے اور لطف کرنا اس پر واجب تھا تو یہ لطف صرف ۲۶۰ ہجری تک ہے؟ کیا اللہ تعالی کا لطف زمانہ غیبت میں ختم ہو جاۓ گا؟ یا ابھی بھی جاری ہے؟ اگر ضرورت نہیں ہے تو پھر تو امام کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر ضرورت ہے اور لطف ابھی بھی جاری ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟

قاعدہ لطف کی ضرورت

یہاں پر ہم قارئین کو دوبارہ تفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو خلق کیا، ان کو زندگی دی، عقل و ضمیر و احساسات دیے۔ انسان کے اندر تمنائیں اور خواہشیں رکھ دیں۔ انسان عقل کی مدد سے سب امور کو حل کر سکتا تھا یا نہیں؟ جس انسان نے اسی عقل کی مدد سے ہوا میں اڑنا، پانی پر سفر کرنا، اور اونچی بلڈنگیں بنانا سیکھا ہے وہ عقل اس کے لیے کافی نہیں تھی کیا؟ عقل ہمیں اتنا تو بتا سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہم پر احسان کیا ہے ہم اس کے شکر گزار ہوں۔ یہ سب باتیں تو عقل بھی ہمیں بتا رہی ہے، عقل عذاب و ثواب کو بھی درک کر سکتی ہے تو پھر رسول بھیجنے اور شریعت کی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں کی تعداد میں نبی بھیجنا، ان کو غلطی سے پاک ہمارے لیے نمونہ قرار دینا، شریعت نازل کرنا، نظام امامت بنانا یہ سب اللہ تعالی پر ضروری تھا یا نہیں؟ عقل کہتی ہے کہ یہ سب اللہ تعالی پر لازم تھا۔ اللہ تعالی پر لازم تھا کہ وہ امام بھیجے۔ اگر یہ سب اللہ تعالی نہ کرتا تو ہم نیکی اور بدی کو دقیق طور پر نا جان پاتے۔ لیکن ایک سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب عقل نے کیسے حکم لگایا؟ اللہ تعالی کے اندر تین صفات کی بنا پر عقل نے یہ حکم لگایا۔ اگر اللہ تعالی کے اندر یہ تین صفات نہ ہوتیں تو عقل بھی یہ حکم نہ لگاتی۔
۱۔ اللہ تعالی کا عالم ہونا
۲۔ اللہ تعالی کا قدیر ہونا
۳۔ اللہ تعالی کا حکیم ہونا
جب اللہ تعالی کے علم میں تھا کہ اگر یہ سب کام میں نے نہ کیے تو اطاعت جنم نہ لے گی تو اس کے عالم ہونے نے یہ تقاضا کیا کہ وہ یہ کام انجام دے۔ آیا اللہ تعالی ان کاموں پر قدرت رکھتا تھا یا نہیں؟ اس کے قدیر ہونے نے یہ کام اس سے کروایا۔ آیا اللہ تعالی کی حکمت یہ اجازت دیتی تھی کہ یہ کام ہونے چاہئیں یا نہیں؟ اس کا جواب بھی مثبت ہے۔ اس کی حکمت نے تقاضا کیا کہ وہ یہ سب کام کرے۔ اگر یہ کام نا کرتا تو حکیم نہ ہوتا۔ ان مقدمات کو جاننے کے بعد معلوم ہوا کہ عقل حکم لگاتی ہے کہ اللہ تعالی ان سب امور کو انجام دے کر لطف کرے۔

قاعدہ لطف پر اعتراض

بعض اہل سنت علماء نے اس پر اعتراض کیا کہ انسانی عقل کون ہوتی ہے اللہ تعالی پر کوئی کام لازم قرار دینے والی؟ انسانی عقل تو خود مخلوق ہے۔ کیا ایک مخلوق خالق کو حکم دے سکتی ہے؟ مصنف نے اس کا جواب دیا ہے کہ اللہ تعالی پر کوئی امر واجب قرار دینا جسارت نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالی پر کوئی حکم نہیں لگا رہے در اصل ہمارا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جانب سے یہ کام ہونا ضروری ہے۔ یہاں پر کلمہ واجب علم فقہ کی اصطلاح نہیں ہے۔ یجب علی اللہ کی بجاۓ اگر یجب عن اللہ کہہ دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ تاہم علماء امامیہ کی قاعدہ لطف سے مراد یہ ہے کہ ان امور کو اللہ تعالی کی جانب سے انجام دیا جانا ضروری ہے۔ جسارت کرنا مقصد نہیں ہے کہ ہم خدا پر کوئی چیز واجب قرار دے رہے ہیں۔

قاعدہ لطف کا استمرار

اللہ تعالی نے لطف فرمایا اور شریعت نازل کی۔ اللہ تعالی نے امتوں کی ہدایت کے لیے نظام اتارے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب امور کی ضرورت صرف ۲۶۰ ہجری تک تھی؟ نظام اور قانون الہی کی ضرورت صرف زمانہ امامت میں تھی؟ اسلامی حاکم کی ضرورت صرف زمانہ امامت میں تھی؟ اب حاکم کون ہوگا؟ زمانہ امامت میں اللہ تعالی کے لطف کی صورت کیا ہے؟ آج اگر امام معصوم موجود نہیں ہے تو ہم کیا کریں؟ ہم کہیں گے کہ آج کے دور میں وہ شخص حاکم اسلامی ہوگا جو امام کے قریب تر ہو۔ اور وہ ولی فقیہ ہے۔[6] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۲۔

منابع:

منابع:
1 فصلت: ۴۱۔
2 شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۵۹۔
3, 4, 5 حوالہ درکار ہے۔
6 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۲۔
Views: 19

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ تشیع کی دینی طاقت
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل