loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۶۸}

ولایت فقیہ پر عقل و حدیث  سے مرکب دلیل

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ہمارے لیے ولایت فقیہ کے موضوع کو اس کی دلیلوں کی بنا پر قبول کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ہم موسمی حامی کہلائیں گے۔ موسم بدلا تو ہمارا نظریہ بھی بدل جاۓ گا۔ اگر ولایت فقیہ کی دلیل کا پتہ نہ ہوا تو اندر سے پختہ ایمان و استحکام پیدا نہ ہوگا۔ ہم بھی اس کو امامت کی ذیلی شاخ کی بجاۓ ایرانیت سے مربوط کر دیں گے۔ اس لیے دلیل کو سمجھنا ضروری ہے۔

تلفیقی دلیل کی ساخت

تلفیقی دلیل میں ہم نقل(قرآن کریم و روایات) کے بعض احکام سے عقلی استفادہ کرتے ہوۓ ولایت فقیہ کو ثابت کرتے ہیں۔ با الفاظ دیگر دین کے بعض احکام ایسے ہیں جن کا آنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ولایت فقیہ ہونی چاہیے۔ اگر ولایت فقیہ نہ ہو تو عقل کہتی ہے کہ دین کے یہ بعض احکام لغو ہو جائیں گے اور دین کی تعطیل لازم آۓ گی۔ جبکہ اللہ تعالی نے دین اسلام اس لیے نہیں اتاراکہ اس کے احکام لغو ہو جائیں اور دین تعطیل ہو جاۓ۔ اگر ان دینی افکار اور احکام کو ہم واضح طور پر سمجھ لیں تو عقل فورا حکم لگاۓ گی کہ ولایت فقیہ ہو۔ اس کے لیے الگ سے کوئی دلیل لانے کی ضرورت نہیں۔ صرف نقلی مقدمہ واضح ہونا ضروری ہے، اس پر عقل حکم لگاۓ گی اور دلیل کامل ہو جاۓ گی۔ تلفیقی دلیل کو ہم دلیل مسامحتا کہہ رہے ہیں ورنہ اس میں بھی ہم صرف مقدمات کی وضاحت کریں گے۔ اس لیے اسے بدیہی کہہ رہے ہیں۔

دین کا وجودی فلسفہ

ہمارے پاس دین کے بارے میں دو نظریات ہیں۔
پہلا نظریہ: دین صرف آخرت کی زندگی کو سنوارنے کے لیے آیا ہے۔ دین کے پاس دنیوی زندگی کو منظم کرنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ چند احکام اور عبادات کا مجموعہ ہے جن کو آپ انفرادی زندگی میں انجام دے کر آخرت کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔
دوسرا نظریہ: دین اخروی زندگی کے لیے نہیں بلکہ دنیا کی زندگی کو سنوارنے کے لیے آیا ہے۔ اگر آپ اس دنیا میں دین کے مطابق زندگی گزاریں تو آپ کی دنیوی زندگی تو سنورے گی ، اس کے ساتھ ساتھ آپ کی اخروی زندگی بھی سنور جاۓ گی۔ دین آیا ہے کہ تاکہ آپ کی دنیوی زندگی کو منظم کرے۔ شریعت اس لیے نازل ہوئی ہے تاکہ انسانی معاشرے اس دنیا میں الہی قوانین کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ یہ دین انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں آپ کی ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے کامل و جامع دین ہے۔ دین کے بارے میں دوسری نظر درست ہے۔ قرآن کریم اور روایات میں بھی اس دین کے کامل و خاتم ہونے کا بیان کثیر طور پر وارد ہوا ہے۔[1] ملاحظہ فرمائیں۔ جب ہم نے دین کو کامل اور خاتم کے طور پر اقرار کر لیا ہے اور اس کو اپنے اختیار سے مان بھی لیا تو یہاں پر یہ قبول کرنا ہوگا کہ دین کی تمام باتوں کو مانیں۔ دین کی آدھی باتوں کو لے لینا اور آدھی کو ترک کر لینا قابل قبول نہیں۔[2] نساء: ۱۵۰۔ دین کو اس کے تمام احکام کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔

دین کے مجموعے

۱۔  نظریات

دین کا ایک حصہ نظریات پر مشتمل ہے۔ جن کو ہم عقائد بھی کہتے ہیں۔ انسان ہر قسم کا نظریہ نہیں اپنا سکتا۔ بلکہ وہ مجبور ہے کہ صرف دینی نظریہ اپناۓ۔ ایک دیندار انسان کا سیاست کی دنیا میں نظریہ کیا ہو؟ اس میں وہ آزاد نہیں ہے جو اس کا دل کرے نظریہ اپنا لے۔ اقتصادی دنیا میں اس کا نظریہ کیا ہو؟ خاندانی امور اور میل ملاپ کے حوالے سے اجتماعی زندگی میں انسان جو بھی نظریہ اپناۓ اسے چاہیے کہ دین سے ہدایت لے۔ دین لینے کے لیے منابع معین ہیں۔ سوشل میڈیا سے دین نہیں لے سکتے۔ دین کا منبع سماعت بھی نہیں ہے۔ جو جہاں سے سن لیا اس کو دین کے طور پر اختیار کر لیا، یہ درست روش نہیں ہے۔ دین اسلام کہتا ہے کہ اپنے نظریات و افکار دین کی ہدایت کی روشنی میں بناؤ۔ دین کا نظریہ جاننے کے لیے تگ و دو کرو، پہلے کوشش کرو اور حق جان لو، جب دین کا مؤقف جان لیا اسے اختیار کر کے اس کے مطابق عمل کرو۔ لیکن پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین کا مختلف شعبہ جات زندگی میں نظریہ کیاہے ؟ زندگی کے نظریات اپنے گھر والوں، سکول کالج، یا دوستوں سے نہیں لینے بلکہ خود دین کے منابع سے لینے ہیں۔ دین سے قلبی وابستگی پیدا کرنا ضروری ہے۔ ظاہری طور پر دین کو قبول کر لینا کافی نہیں۔ جب دین سے قلبی وابستگی پیدا ہو تو تب انسان جا کر اس کے لیے جان قربان کرتا ہے۔ شہداء کربلا کا دین سے قلبی و ایمانی ارتباط تھا جس کی بنا پر انہوں نے دین کے امام پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔ حضرت عباسؑ نے شمر لعین کے امان نامے کو رد کر دیا اور زندہ رہنے پر جان قربان کرنے کو فوقیت دی۔ وہاں پر حضرت عباسؑ نے شعار بلند کیا:

واللّه إِن قَطَعْتُمُوا یَمِینىی
إِنِّى اُحامى اَبَدا عَن دینى
وَ عن امامِ صادِقِ الیَقینِ
نَجْلِ النَّبِىِّ الطاهِرِ الأمین

ترجمہ: خدا کی قسم! اگر میرے دائیں ہاتھ کو کاٹو گے تو پھر بھی جہاد کرنے والوں کی طرح میں دین کی حمایت کرتا رہوں گا۔ اس سچے اور باتقوی امام کی حمایت کرتا رہوں گا جو پاک اور امین فرزند رسول ہیں۔[3] ابو مخنف ازدی، لوط بن یحیی بن سعید، مقتل الحسین، ص۱۷۹۔
حضرت عباسؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ داری کی بنا پر میرا ساتھ دینا ضروری ہے۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کی اس لیے حمایت کر رہا ہوں کیونکہ وہ فرزند پیغمبر ہیں اور باتقوی امام ہیں۔ دین سے یہ والی وابستگی تب پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنا سب کچھ دین سے لے رہا ہو۔

۲۔  اخلاقیات

دین کا ایک حصہ اخلاقیات اور آداب پر مشتمل ہے۔ جو شخص دینی اخلاق کا خیال نہیں رکھتا وہ حقیقی دیندار نہیں ہے۔ ممکن ہے انسان گناہ کر لے یہ قابل بخشش ہے لیکن اخلاقی اقدار کو وجود سے مٹا دینا قبول نہیں۔ ظاہری آداب کی رعایت بھی بہت ضروری ہے۔ انسان پر ضروری ہے کہ اخلاقی اقدار کی معرفت حاصل کرے اور پھر ان کو اپناۓ۔ جب تک نفس پر زور ڈال کر ان کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنا لیتا انسان دیندار نہیں بن سکتا۔ انسان حوزے میں پڑھ لینے یا حتی نبی کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے با اخلاق نہیں ہو جاتا بلکہ نفس پر جبر کر کے ان اخلاق کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے عمر کا ایک بہت بڑا حصہ نبی یا امام کی صحبت میں گزارا لیکن ان کی زندگی سے ایک بھی سبق نہیں لیا اور اس کی اپنی زندگی میں نبی یا امام کے عمل کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی اجتماعی زندگی پر امام کی صحبت کا ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔ اس لیے بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر کسی کو پہچاننا چاہتے ہو کہ وہ کس طرح کا آدمی ہے ،اس کے لمبے رکوع سجود کو نہ دیکھو بلکہ اس کے ساتھ معاملہ کر کے دیکھو۔ اجتماعی طور پر معاملات کیسے کرتا ہے، دوسروں کو عزت دیتا ہے یا نہیں؟ اخلاقی اقدار کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ان اخلاقی اقدار کو پیدا کریں۔ معاشرے میں رائج رسم و رواج کو تو واجب سمجھ کر انجام دیتے ہیں لیکن دین نے جو اخلاقی اقدار بیان کی ہیں ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دوست بنانے میں یا اپنا لیڈر و رہنما بناتے ہوۓ غور کریں کہ آیا یہ شخص اخلاقیات کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر فکری طور پر محکم ہے تو دیکھو اخلاق کا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر کسی شخص کو کھانا کھانے کا بھی ادب نہ ہو اس کو اپنا رہنما قرار نہ دو۔ حلم، برداشت، حسن ظن اختیار کرنا اور زبان پر کنٹرول، دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا، شخصیت کشی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ دین نے ذاتی زندگی میں پانے والے عیوب قابل بخشش قرار دیے ہیں لیکن جب ایک شخص کے اندر اجتماعی طور پر ایک عیب سامنے آ جاتا ہے اور اخلاقی اقدار کو پائمال کر دیتا ہے تو اسے تنبیہ کی ہے۔ مثلا امیرالمومنینؑ نے ایسے افراد کو والی بنایا جو بعد میں اخلاقی طور پر معاشروں میں بدنام ہو گئے۔ جب والی بنایا تھا تو اگرچہ جانتے تھے کہ ان کے اندر عیوب و نقائص پاۓ جاتے ہیں لیکن تب بھی ان کو مختلف علاقوں کی ولایت دے دی، لیکن جب ان کی اخلاقی گراوٹ معاشروں میں شائع ہو گئی ان کو فورا معزول کر دیا۔ زیاد ابن ابی کو امام علیؑ نے فارس کے علاقوں کا والی بنایا۔ بعد میں معزول کر دیا۔ لذا شخصیات کے نقائص پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اس کا واویلا نہیں کیا جاتا۔ جہاں تک ممکن ہو اس کی پردہ پوشی کی جاۓ مگر یہ کہ معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جاۓ اور شخص کا فسق کھل کر سب کے سامنے آ جاۓ۔

۳۔ احکام

دین کا تیسرا مجموعہ احکام ہیں۔ دین نے کونسے کام کرنے کی اجازت دی ہے ، کونسے کام ضروری ہیں اور کونسے ممنوع۔ یہ سب ہم احکام کے ذیل میں پڑھتے ہیں۔ دین کے احکام سے عموما آشنائی پائی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دین کے نظریات، اخلاقیات، اور احکام تا قیامت ہیں یا نہیں؟ کیا دین صرف رسول اللہﷺ کی زندگی اور آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں رہنے والے لوگوں کے لیے تھا یا قیامت تک آنے والے  انسانوں کے لیے ہے؟ اگر ہم مان لیتے ہیں کہ دین تو صرف رسول اللہﷺ اور زمانہ امامت کے ساتھ خاص تھا تو آج کا دور زمانہ جاہلیت کہلاۓ گا۔ کیونکہ دین نہ ہو تو زمانہ جاہلیت ہے۔ کیا اللہ تعالی چاہتا ہے کہ زمانہ امامت کے گزرنے کے بعد جو زمانہ آۓ اس میں لوگ جاہلیت میں رہیں؟ زمانہ غیبت میں دین نہ ہو، یا اگر ہو تو آدھے سے زیادہ معطل رہے؟ کیا انسانی معاشرے دین کے بغیر جہالت میں زندگی بسر کریں؟ یہاں بات معاشروں کی ہو رہی ہے، نا ایک فرد کی۔ ممکن ہے چند افراد مومن ہوں، دیندار ہوں، لیکن آیا معاشرے جہالت میں رہیں؟ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے؟ اس سوال کو ذہن میں رکھیں، بعد میں اس کا جواب آۓ گا ان شاء اللہ۔

۴۔  حدود و تعزیرات

دین کا ایک مجموعہ معاشرے کے نظم و نسق کے ساتھ مربوط ہے۔ معاشرے کے اندر شریعت(الہی قوانین) کے اجراء کی ضمانت کے طور پر حدود و تعزیرات رکھی گئی ہیں۔ قتل، بے حیائی، چوری اور دیگر جرائم  کی سزا کیا ہو؟ جرائم کی سزائیں اللہ تعالی نے معین کی ہیں۔ یہاں پر بھی وہی سوال ہے کیا حدود اور تعزیرات صرف رسول اللہﷺ کے دور کے لیے مقرر کی گئیں؟ اور زمانہ غیبت میں جاری نہیں ہونگی؟ اگر آج کے دور میں کوئی قتل کرے تو اسے وہی سزا دی جاۓ گی جو شریعت نے بیان کی ہے یا نہیں؟ کیا حدود و تعزیرات زمانہ غیبت میں تعطیل ہیں؟ حدود و تعزیرات اللہ تعالی نے معاشرے کے اندر فساد کو ختم کرنے کے لیے مقرر فرمائی تھیں، کیا معاشروں کا فساد اب ختم ہو گیا ہے؟ کیا لوگوں نے قتل کرنا چھوڑ دیا ہے؟ یا اگر یہ ضرورت رسول اللہﷺ کے دور میں تھی تو آج بھی یہ ضرورت ہے؟ اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دینا زمانہ غیبت میں ملتوی ہے؟ اگر الہی قوانین کے مطابق سزائیں نہ دیں تو کیا ہوگا؟ اس کا انجام دیکھنا ہے تو آپ اپنے گھر میں ہی آزمائش کر لیں۔ آپ بچے کو آزاد چھوڑ دیں جو کرتا ہے کرنے دیں پھر دیکھیں دو سال بعد وہ آپ کا فرمانبردار رہتا ہے یا عادی مجرم بن چکا ہے؟ وہ صرف دوسرے افراد کو نہیں بلکہ خود گھرانے کے افراد پر بھی ظلم کرنا شروع کر دے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ سزا دینے سے جرم ختم نہیں ہو جاتا لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ آپ دینی ادارے میں طالب علموں کو ہی آزاد چھوڑ دیں کہ وہ اپنی مرضی سے نماز پڑھیں اور نماز کے لیے کوئی قانون نہ بنائیں۔ ایک مہینے کے بعد تہجد پڑھنے والا طالب علم بھی اپنی واجب نماز قضا کر بیٹھے گا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی حدود و تعزیرات کو قائم کیسے کیا جاۓ؟ کیا انفرادی طور پر ایک شخص ان حدود کو قائم کر سکتا ہے؟ جی نہیں! بلکہ اسلامی حدود و تعزیرات کو قائم کرنے کے لیے آپ کے پاس قدرت ہونا ضروری ہے۔ جب تک آپ کے پاس قدرت نہیں ہے آپ دین کے اس مجموعے کو قائم نہیں کر سکتے۔ حدود کو قائم کرنے کے لیے ادارہ چاہیے، ادارہ حاصل کرنے کے لیے آپ کا مقتدر ہونا ضروری ہے۔ اقتدار آپ کو حکومت سے حاصل ہوتا ہے۔ دین بغیر حکومت کے تعطیل ہے۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے دین قائم کیا لیکن اس سے پہلے حکومت تشکیل دی۔ اگر حکومت نہ بناتے، ان کو اقتدار حاصل نہ ہوتا تو اسلامی احکام کو جاری نہ کر پاتے۔ 

۵۔ دفاع

دین کا ایک مجموعہ دفاع سے متعلق ہے۔ اپنے نفوس، اموال اور ملک کا دفاع سب پر واجب ہے۔ یہاں بات سنی شیعہ سے ہٹ کر اسلامی معاشرے کی ہو رہی ہے۔ اگر آپ کے ملک پر کوئی حملہ کر دیتا ہے تو دفاع کرنا واجب ہو جاۓ گا۔ لیکن دفاع ہوگا کیسے؟ جہاد کیسے کیا جاۓ؟ غنیمت کے مسائل کیسے حل ہوں؟ یہ اس وقت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اہل سنت میں اس وقت جتنی بھی عسکری یا دہشتگرد تنظیمیں ہیں ان کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غنیمت کے مال کو کیسے تقسیم کریں؟ جنگی قیدیوں کا کیا کرنا ہے؟ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ ان سب امور میں امام کی طرف رجوع کیا جاۓ؟ لیکن سوال پیدا ہوگا کہ اگر زمانہ غیبت میں جنگ ہو جاۓ تو تب کس کی طرف رجوع کریں؟ اگر دشمن ہم پر جنگ مسلط کر دے تو ہم چپ ہو کر بیٹھ جائیں اور یہ کہیں کہ جب تک امام نہیں آ جاتے جہاد ساقط ہے اور تعطیل ہے؟ یا اب بھی دفاع کرنا ہوگا؟ عقل کہتی ہے کہ زمانہ غیبت میں بھی ایسا شخص ہو جو ان امور کی مدیریت کرے۔ اموال غنیمت کسی ایسے شخص کے پاس ہوں جو ان کی درست و عادلانہ مدیریت کر سکے۔ کیونکہ قرآن کریم کا ارشاد فرمانا ہے:
«وَ لا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ».
ترجمہ: اور اپنے اموال بے وقوفوں کے حوالے مت کرو۔[4] نساء: ۵

نتیجہ

زمانہ غیبت میں دین تعطیل نہیں ہے۔ دین تا قیامت جاری ہونا ہے۔ لیکن دین کے بعض امور ایسے ہیں جو صرف امام کے ساتھ خاص ہیں ان امور میں زمانہ غیبت میں رہنے والے مومنین کا فریضہ کیا ہے؟ عقل یہاں پر حکم لگاتی ہے(جس طرح عقل نے غصبی جگہ پر نماز پڑھنے کو صحیح قرار نہیں دیا، یا جس طرح اف نہ کہنے کے حکم کی بنا پر ماں باپ پر تشدد کی حرمت کا حکم لگایا) کہ ان امور میں دین شناس فقیہ کی طرف رجوع کرو۔ ورنہ دین تعطیل رہے گا۔ دین حدود و تعزیرات کو تعطیل نہیں کرنا چاہتا، اگر حدود و تعزیرات تعطیل ہو جائیں تو معاشرے ہرج مرج کا شکار ہو جائیں گے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی فلسفی ذہن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عام معمولی ذہن بھی اس بات کو درک کرتا ہے کہ حدود و تعزیرات کا اجراء ہونا چاہیے۔ یہاں پر عقل اگلے مرحلے میں حکم لگاتی ہے کہ جب حدود و تعزیرات کا اجراء ضروری ہے تو پھر حکومت تشکیل دینا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بغیر قوت کے آپ قانون کا اجراء نہیں کروا سکتے۔ حکومت کی تشکیل کی ضرورت عقل بیان کر رہی ہے۔ اور یہیں سے ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں یا تو دین کو امام زمانؑ کے ظہور تک تعطیل کر دیں، اور کہیں کہ جب تک امام نہیں آ جاتے ہم دین کی بات نہیں مان سکتے ہماری مجبوری ہے، ایسی صورت میں پھر دین کا کوئی بھی حکم بجا لانا ضروری نہیں ہوگا کیونکہ ہر ایک بہانہ بناۓ گا کہ میرے لیے مثلا فلاں کام کرنا ضروری ہے ورنہ میں مر جاؤں گا اور زمانہ غیبت کا بہانہ بنا کر تمام محرمات کو انجام دے گا اور تمام واجبات کو ترک کرے گا۔ یا اس کی بجاۓ دوسرا راستہ اختیار کریں جس کا حکم عقل لگاتی ہے اور وہ یہ کہ خود کو ایسی صورت میں ڈھالا جاۓ جو زمانہ امامت کے قریب تر ہو، دین جتنا قائم ہو سکتا ہے قائم کیا جاۓ، حدود و تعزیرات جتنی قائم ہو سکتی ہیں ان کو قائم کیا جاۓ اور الہی قوانین کے مطابق زندگی گزاری جاۓ۔ ایسی صورت میں اجتماعی طور پر زندگی کو الہی نظام کے قریب کرنے کے لیے ولایت فقیہ کو اختیار کرنا ہوگا۔[5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۰تا۱۷۸۔

منابع:

منابع:
1 ملاحظہ فرمائیں۔
2 نساء: ۱۵۰۔
3 ابو مخنف ازدی، لوط بن یحیی بن سعید، مقتل الحسین، ص۱۷۹۔
4 نساء: ۵
5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۷۰تا۱۷۸۔
Views: 51

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ اور تلفیقی دلیل
اگلا مقالہ: نظریہ ولایت فقیہ حملوں کی زد میں