loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۶۷}

ولایت فقیہ اور دلیل تلفیقی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ولایت فقیہ پر عقل اور نقل سے مرکب دلیل کا اصلی محور نقل ہے۔ نقل پر عقل حکم لگاتی ہے جس سے دلیل کامل ہوتی ہے۔ با الفاظ دیگر دلیل کا موضوع نقل سے لیا گیا ہے اور اس پر حکم عقل لگا رہی ہے۔ اس دلیل کی ترکیب کیا ہے اور اس سے کیسے استدلال کیا گیا ہے اس تحریر میں بیان کیا جا رہا ہے۔

تحقیقی دین اور تقلیدی دین

ہمارے پاس دین دو طرح کا ہے۔
۱۔ تقلیدی دین
۲۔ تحقیقی دین
تقلیدی دین کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ حتی دیکھا گیا ہے علماء بھی مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں۔ آبائی دین کو اپنا لینا،معاشرے میں رائج بات کو قبول کر لینا، مشہور قول ہونے کی بنا پر قبول کرلینا یہ سب تقلید کہلاتا ہے۔ آیت اللہ حسن زادہ آملیؒ فرماتے تھے کہ ایک دن میں نے سوچا کہ سارا دین تو میں نے تقلیدی طور پر لیا ہوا ہے۔ جو گھر والوں سے سنا، محلے والوں کو کرتے ہوۓ دیکھا اور معاشرے میں رائج پایا اسی کو دین کے طور پر لے لیا۔ آخر میں شیعہ کیوں ہوں؟ میں نے عہد کیا کہ تحقیق کروں گا اور تقلیدی دین سے نکل کر تحقیقی دین کو اختیار کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے تمام ادیان کا مطالعہ کیا تو اسلام کو سب سے بہتر پایا۔ اسلام کے کئی مکاتب فکر میں تحقیق کی اور آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ شیعہ اثنا عشری سچا مکتب ہے۔ میں نے جو نظریہ بھی اختیار کیا اس میں تحقیق کی ،تقلید کے طور پر نہیں لیا۔ آج جبکہ ہم ولایت فقیہ کو پڑھ رہے ہیں اس موضوع کی دلیلوں کو بہت دقت سے سمجھیں اگر بغیر دلیل کے مان لیا تو ایک شبہہ سننے پر فورا نظریہ بدل لیں گے۔

علم اصول سے ایک مقدماتی نکتہ

اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ طور پر تلفیقی دلیل کی ترکیب میں داخل ہوں ہمیں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔
ہم نے کہا کہ تلفیقی دلیل کا موضوع نقل سے لیا گیا ہے اور اس پر عقل حکم لگا رہی ہے۔ پہلا نکتہ یہ کہ عقل کیسے حکم لگاتی ہے۔ عقل کا حکم لگانا دو طرح سے ہوتا ہے:
۱۔ مستقلات عقلیہ
۲۔ ملازمات عقلیہ
عقل ایک دفعہ مستقل طور پر حکم لگاتی ہے۔ مثلا ظلم کا برا ہونا اور سچ کے اچھا ہونے کا حکم مستقل طور پر عقل لگاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات عقل مستقل طور پر حکم نہیں لگا سکتی بلکہ دو چیزوں کے لازمے سے حکم لگا پاتی ہے۔ مثلا قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے کہ نماز قائم کرو۔ دوسری طرف ایک روایت میں امام نے فرمایا کہ غصبی جگہ پر نماز نہیں ہوتی۔ یہاں پر عقل حکم لگاتی ہے کہ اگر کوئی شخص غصبی جگہ پر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کا صحیح ہونا مشکل ہے۔ ان دو باتوں کا لازمہ خود عقل نے درک کیا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ موضوع اور حکم سے کیا مراد ہے؟
موضوع: وہ امور ہوتے ہیں جو ایجاد ہو جائیں تو حکم شرعی تعلق پیدا کرتا ہے۔ با الفاظ دیگر حکم شرعی تب لاگو ہوگا جب موضوع متحقق ہوگا۔ اگر موضوع متحقق نہ ہوتو یہ حکم بھی عائد نہ ہوگا۔ موضوع کو شرائط بھی کہہ سکتےہیں۔ مثلا ظہر کا وقت داخل ہو تو نماز واجب ہوگی۔ جب تک نماز کا وقت داخل نہ ہو واجب بھی نہ ہوگا۔ پس نماز واجب ہونے کی ایک شرط نماز ظہر کا وقت داخل ہونا ہے۔ وقت نماز موضوع ہے، جب موضوع پورا ہو جاۓ تو نماز بھی واجب ہو جاۓ گی ۔لڑکا بالغ ہو تو روزہ واجب ہوتا ہے۔اگر کسی شخص کے اندر موضوعیت(بلوغ)ثابت نہیں اس پر روزہ رکھنا بھی واجب نہ ہوگا۔ روزہ رکھنے پر انسان قادر ہو تو روزہ واجب ہوتا ہے۔ یہ سب موضوع ہیں۔
حکم: ہمارے پاس پانچ حکم شرعی ہیں۔ وجوب، استحباب، اباحت، کراہت اور حرمت۔ اگر کسی موضوع کا ان احکام میں سے کسی ایک حکم سے ربط پیدا ہو جاۓ تو وہ بالترتیب واجب، مستحب، مباح، مکروہ یا حرام قرار پاتا ہے۔ در اصل متعلقِ حکم شرعی واجب یا حرام ہوتا ہے۔ خود حکم شرعی واجب یا حرام نہیں۔ بلکہ حکم شرعی وجوب اور استحباب ہے۔ اس مقدمے کو سمجھنے کے بعد اب ہم دلیل کی ترکیب کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

تلفیقی دلیل سے مراد

ہمارے پاس دین کے دو منابع ہیں۔
۱۔ عقل
۲۔ نقل
گزشتہ اقساط میں یہ مطلب بیان ہوا کہ عقل اور نقل ایک دوسرے کی ضد میں نہیں ہیں۔ جو مطالب نقل(قرآن کریم و سنت) میں وارد ہوۓ ہیں، عقل ان کی تائید کرتی ہے۔ عقل دین کا منبع ہے۔ اگر نقل موجود نہ بھی ہو تب بھی عقل انسانی بعض امور کو مستقل طور پر درک کرتی ہے۔ مثلا حرمت ظلم۔ ظلم کرنا حرام ہے اس کا مستقل طور پر عقل حکم لگاتی ہے۔ نقل بھی ظلم کو حرام سمجھتا ہے۔ یا مثلا جو شخص بیمار ہو اس پر روزہ واجب نہ ہونا۔ اس کو شرع میں بیان نہ بھی کیا جاتا تو تب بھی عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ بیمار بندے پر ایسی تکلیف عائد نہیں ہونی چاہیے۔ عقل حکم لگاتی ہے کہ بغیر ویزے کے کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا اس ملک کے نظم و نسق کے خراب ہونے اور ہرج مرج کا باعث بن سکتا ہے اس لیے ویزا لگوانا ضروری ہونا چاہیے۔ موجودہ مراجع کے فتاوی بھی اسی ذیل میں ہیں ورنہ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں تو ویزا ہی نہ تھا۔ نقل سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ ویزے کے بغیر کسی ملک میں جانا حرام ہے یا نہیں لیکن عقل کہتی ہے کہ ویزا ہونا چاہیے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو عقل مستقل طور پر درک کر سکتی ہے چاہے نقل میں اس کا کوئی حکم وارد ہوا ہو یا نہ ہو۔ لیکن بعض امور ایسے ہیں جن میں عقل مستقل طور پر حکم نہیں لگاتی۔ بلکہ نقل سے استفادہ کرتی ہے اور پھر حکم لگاتی ہے۔ حکم شرعی پہلے سے موجود ہے اس کے ملازمات سے عقل استفادہ کر رہی ہے۔ ایسی دلیل کو تلفیقی دلیل کہتے ہیں۔

تلفیقی دلیل کی تشریح

ہمارے پاس پہلی بحث یہ ہے کہ عقل کیسے نقل سے استفادہ کرتی ہے؟ اور کیسے حکم لگاتی ہے۔ مثلا عقل یہ بات درک کرتی ہے کہ فساد کو معاشرے میں ختم ہونا چاہیے۔ آیت و روایت میں بھی یہ مطلب آ گیا کہ معاشرے میں فساد کو ختم کرو اور نظم و انضباط کو ایجاد کرو۔ اب یہاں پر عقل حکم لگاتی ہے کہ اگر ملک کی امنیت چاہتے ہو تو ویزہ اور پاسپورٹ کا قانون ہونا چاہیے۔ ورنہ ویزے کا حکم کسی آیت و روایت میں نہیں آیا۔ عقل حکم لگاتی ہے کہ ویزا کا قانون ہو۔ غیر قانونی طور پر کسی دوسرے ملک میں داخل ہونا اس ملک کی امنیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے ویزا لگوانا شرعی طور پر بھی واجب ہو جاۓ گا۔ اس طرح کی ہزاروں مثالیں آپ اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ مثلا ٹریفک کے اشاروں کی پیروی کرنے کے بارے میں کسی بھی آیت یا روایت میں وارد نہیں ہوا۔ لیکن عقل حکم لگاتی ہے کہ ٹریفک سے بچنے کے لیے ان کی پیروی ضروری ہے۔ لذا یہاں پر شریعت بھی کہتی ہے کہ اس کی پیروی کرو۔ تلفیقی دلیل کے ذیل میں دوسری بحث یہ بنتی ہے کہ کونسے نقل کے احکام ولایت فقیہ پر دلیل بنتے ہیں؟ با الفاظ دیگر وہ کونسی آیات و روایات ہیں جن کے وارد ہونے کی بنا پر عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ ولایت فقیہ ہونی چاہیے؟

عقل اور نقل کا ضمیمہ

شریعت کی طرف سے بعض اوقات حکم اور موضوع دونوں مشخص ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ موضوع بیان نہیں ہوتا۔ موضوع کی تشخیص دینا خود مکلف کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر موضوع ثابت ہو جاۓ تو حکم شرعی بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ مثلا شارع کی جانب سے ایک شرعی حکم آتا ہے کہ نماز قائم کرو۔ دوسرا شرعی حکم آتا ہے کہ غصبی جگہ پر نماز مت پڑھو۔ اگر کوئی شخص غصبی جگہ پر نماز پڑھ لے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ایک طرف سے اس نے ایک امر کو انجام دیا ہے اور دوسری طرف سے ایک منکر کو انجام دیا ہے۔ کیا یہ نماز صحیح ہے یا باطل؟ اگر صحیح ہے تو اس پر دلیل کیا ہے؟ اور اگر باطل ہے تو اس پر دلیل کیا ہے؟ یہاں پر کسی بھی روایت میں وارد نہیں ہوا کہ اس کی نماز صحیح ہے یا باطل۔ بلکہ عقل یہاں پر حکم لگاۓ گی کہ اس کی نماز کا کیا حکم ہے۔ جو حکم بھی لگائیں گے وہ عقل کے تحت ہی ہوگا۔ یہاں پر بعض مراجع نے فتوی دیا کہ اس نے گناہ کیا ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔ بعض نے کہا کہ اس کی نماز ہی باطل ہے۔ بہرحال جو حکم بھی لگایا جاۓ وہ عقل کا حکم ہوگا۔ در اصل یہ حکم عقل و نقل کا ضمیمہ ہے۔ اگر یہ نقل وارد نہ ہوئی ہوتی کہ غصبی جگہ پر نماز نہیں ہوتی تو عقل بھی ان میں سے کوئی ایک حکم نہ لگا سکتی۔ یا نماز کی حالت میں غیر محرم پر نگاہ ڈالنا کیا حکم رکھتا ہے؟ کیا نماز کو باطل کر دیتا ہے یا نہیں؟یہاں پر عقل حکم لگانے سے پہلے خود نقل کو تحلیل کرتی ہے ۔ 

قرآن کریم سے شاہدِ مثال

والدین کے بارے میں قرآن کریم میں اولاد کو حکم دیا گیا:
«فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ».
ترجمہ:  تو انہیں اف تک نہ کہنا۔[1] اسراء: ۲۳۔
اس کے علاوہ روایات میں آیا ہے کہ جب والدین بڑھاپے میں پہنچ جائیں توان کے عزت و احترام کا خاص خیال رکھو۔ حتی وہ خطا پر ہوں تب بھی بڑھاپے میں خاص خیال رکھنا ہے۔ اب یہاں پر سوال ہے کہ والدین کو اف نہیں کہنا ،تو کیا مارنا جائز ہے؟ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ جب اف تک نہیں کہہ سکتے تو مارنا بدرجہ اولی بڑا گنا ہوگا۔ ہمیں کسی آیت اور روایت نے یہ مطلب نہیں بتایا کہ ان کو مارنا نہیں چاہیے۔ بلکہ عقل نے اس اف نہ کہنے سے اخذ کیا ہے کہ مارنا اف کہنے سے بھی زیادہ بڑا گنا ہے۔ اگر اف کہنے کی زیادتی کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا تو اس سے اوپر درجے والے زیادتی کو کیسے معاف کرے گا۔ 

تلفیقی دلیل کا علم اصول میں کردار

علم اصول میں بھی ہم تلفیقی دلیل سے بہت زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔ مفہوم موافق، مفہوم مخالف، عام و خاص کی بحث، تعادل اور تراجیح، دو دلیلوں کو جمع کرنے کا قاعدہ، مطلق مقید کی بحث، اور اس کے علاوہ دیگر قواعد و اصول پر عقل حکم لگاتی ہے۔ تاہم مستقل طور پر حکم نہیں لگاتی بلکہ نقل پہلے سے موجود ہے اس سے عقل استفادہ کر کے حکم لگا تی ہے۔ فقہ میں استنباط کرتے ہوۓ عقل سے بہت زیادہ استفادہ کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ علم اصول کی ایک بہت بڑی اساس عقل ہے۔ 

تلفیقی دلیل اور ولایت فقیہ

جب ہم نے تلفیقی دلیل کی ساخت کو سمجھ لیا اب ہم اصلی دلیل کی طرف آتے ہیں۔ کس طرح سے ولایت فقیہ پر تلفیقی دلیل قائم کی گئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دین اسلام کامل دین ہے۔ قرآن کریم اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام معاشرے کی مدیریت کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اسلام نے تا قیامت آنے والے انسانوں کے لیے معاشرے کی مدیریت کے حوالے سے ہدایت کی ہے۔ نقلی دلیل سے یہ بات بھی ہمارے لیے ثابت ہے کہ دین اسلام صرف رسول اللہﷺ کی حیات تک کے لیے قابل عمل نہیں بلکہ تا قیامت انسانوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ اس دین میں احکام، قوانین، اور نظام موجود ہے۔ یہ باتیں اگر کوئی شخص قبول کرتا ہے تو اگلی بحث شروع ہوگی لیکن اگر کسی کے لیے یہ مقدمہ ہی حل نہیں ہے تو اگلی بحث شروع نہیں ہو سکتی۔ پہلے یہ مانا جاۓ کہ اسلام تا قیامت قابل عمل ہے ورنہ آپ اس بات کے قائل ہونگے کہ اسلام کے تمام قوانین زمانہ رسالت و امامت کے ساتھ خاص تھے۔ اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ نماز بھی صرف زمانہ امامت میں رہنے والے لوگوں کے لیے واجب تھی، ہم لوگ جو زمانہ غیبت میں رہ رہے ہیں ہمارے اوپر نماز واجب نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری عبادات اور دین کے احکام ہیں۔ اگر وہ عبادات اور احکام صرف زمانہ امامت کے ساتھ خاص نہ تھے اور آج بھی ان عبادات کو بجا لانا اور احکام کی پیروی کرنا ضروری ہے تو پھر اسلام کے نظام کی پیروی کرنا بھی آج کے دور میں ضروری ہوگی۔ جب ان باتوں کو اسلام کے بارے میں ہم نے مان لیا تو اب سوال پیدا ہوگا کہ زمانہ غیبت کے لیے بھی اسلام کے پاس کوئی نظام موجود ہے یا نہیں؟ اگر موجود نہیں ہے تو اس کا مطلب دین اسلام صرف ۲۶۰ ہجری تک کے لیے قابل عمل تھا اور زمانہ غیبت میں رہنے والے انسانوں کےلیے یہ دین قابل عمل نہیں ہے۔ لیکن اگر مان لیتے ہیں کہ دین اسلام کے پاس زمانہ غیبت کے لیے بھی نظام موجود ہے تو پھر سوال ہوگا وہ نظام کیا ہے اور اس کی ساخت کیا ہے؟ یہ سوال در اصل تلفیقی دلیل کا ایک مقدمہ ہے۔

تلفیقی دلیل کا دوسرا حصہ

تلفیقی دلیل کا پہلا مقدمہ جاننے کے بعد اب سوال ہوگا کہ جب دین تا قیامت ہے تو پھر زمانہ غیبت میں آدھے سے زیادہ دین تعطیل کیوں ہے؟ کیا اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ دین کا نظام جب تک ظہور نہیں ہو جاتا تعطیل رہے؟ دین کے آدھے سےزیادہ احکام تعطیل رہیں؟ عقل کیا کہتی ہے؟ جبکہ نقل نے کہا ہے کہ دین معطل نہ ہوگا بلکہ تا قیامت آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ آیات و روایات بتاتی ہیں کہ دین کے احکام، اخلاق، افکار صرف زمانہ امامت کے ساتھ مختص نہیں ہیں بلکہ زمانہ غیبت میں بھی دین جاری ہونا چاہیے۔ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ دین کو جاری کیا جاۓ۔ زمانہ غیبت میں بھی کوئی نظام ہو جو دین کے قیام کا سبب بن سکے ورنہ دین تعطیل ہو جاۓ گا جو کہ دین کے فلسفے کے خلاف ہے۔

تلفیقی دلیل کا تیسرا حصہ

جب دین تا قیامت انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے، اور اسے تعطیل بھی نہیں ہونے دینا اور اس کو جاری کرنا ضروری ہے تو یہاں پر عقل کہتی ہے کہ اسلامی احکام کے اجراء کے لیے مراحل کو طے کرنا چاہیے۔ مثلا اگر نماز واجب ہے تو اس کے لیے پانی ڈھونڈھنے کا عقل حکم کرتی ہے۔ وضو کے لیے پانی تلاش کرنے کا حکم الگ سے دین میں نہیں آیا بلکہ اتنا حکم آیا ہے کہ نماز کے لیے وضو ضروری ہے، اب یہاں پر عقل خود حکم لگاتی ہے کہ جب وضو ضروری ہے تو حتما پانی بھی تلاش کرنا ہوگا۔ دین میں صرف حج کا حکم آیا ہے۔ دین میں پاسپورٹ بنوانے، ویزا لگوانے کا حکم وارد نہیں ہوا بلکہ عقل خود حکم لگاتی ہے کہ حج کے لیے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ اگر دین تا قیامت ہے تو عقل کہتی ہے کہ پھر اس سے استفادہ کرنا بھی ضروری ہے۔ دین کو اپنے معاشروں میں ڈھالنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ دین کو کیسے معاشروں میں نافذ کیا جاۓ؟ یہاں پر عقل کہتی ہے کہ معاشرے کی مدیریت کسی ایسے شخص کے حوالے کر دو جو خود دین شناس ہو، فقیہ ہو، صرف فقیہ ہونا کافی نہیں بلکہ مدیریت کرنے میں ظلم بھی نہ کرے بلکہ اعلی درجے کی عدالت رکھتا ہو، اگر اس میں عصمت نہیں ہے تو کم از کم عصمت کی جھلک اس میں نظر آۓ، عقل ان امور کا حکم دیتی ہے جس سے ولایت فقیہ ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن عقل یہ حکم تب لگاتی ہے جب دین کی ضرورت آپ کو محسوس ہو اور آپ کا دین کامل ہو جو تا قیامت سراسر ہدایت کا محور ہے۔ لیکن اگر آپ کا دین ہی کامل نہیں ہے اور معاشرے کو منظم کرنے کی ہدایت اس کے اندر موجود نہیں ہے تو پھر عقل نے بھی اس کو جاری کرنے کا حکم نہیں لگانا۔ اگر مسلمانوں کے معاشرے میں اسلامی قوانین کو جاری کرنے کی فرصت موجود ہے یا اس فرصت کو ایجاد کیا جا سکتا ہے تو پھر عقل کہتی ہے کہ حتما اس کام کو انجام دیا جانا چاہیے۔ نقل اور عقل کی اس ترکیب سے یہ دلیل کامل ہوتی ہے۔ تقلید پر بھی ہمارے پاس یہی دلیل ہے۔

نیابت اور ولایت فقیہ کی ضرورت

ہم دین کے بہت سے احکام اور روایات اہل بیتؑ سے ولایت فقیہ کی ضرورت کو ثابت کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہاں پر ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
حج اسلام کی ایک سیاسی و اجتماعی عبادت ہے۔ جس میں دنیا بھر سے مسلمان بیت اللہ کے گرد جمع ہو کر خاص اعمال انجام دیتے ہیں۔ حج کا زمان و مکان معین ہے۔ حج صرف بیت اللہ خانہ کعبہ کے پاس انجام دے سکتے ہیں۔ زمان کے اعتبار سے حج صرف ہجری کیلنڈر کے آخری مہینے ذی الحجہ کے معین ایام میں انجام دے سکتے ہیں۔ حج کب شروع ہوگا یہ پہلی ذی الحجہ کے چاند پر موقوف ہے۔ اس لیے چاند کی رؤیت بہت اہم ہے۔ اگر چاند ثابت نہ ہو یا اس کے نظر آنے میں اختلاف ہو جاۓ تو لاکھوں حاجی سرگردان ہو کر رہ جائیں گے کہ کب حج انجام دیں۔ دین میں چاند کی رؤیت کے ضابطے بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ دو عادل افراد گواہی دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا ہے۔ چاند کی رؤیت کا ایک اور ضابطہ یہ ہے کہ حاکم شرعی اعلان کرے۔ پس اگر شاہدین کی گواہی میں اختلاف ہو جاۓ تو امام کے اعلان سے بھی حج انجام دے سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آج کے دور میں شک ہو جاۓ کہ چاند نظر آیا ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں کیا کریں؟ آج کے دور میں یہ ذمہ داری نائب امام کی ہے۔ زمانہ غیبت میں یہ ذمہ داری نائب امام پر ہے کہ وہ حج اور رمضان المبارک کے چاند کے حوالے سے مومنین کو ان کا وظیفہ بتاۓ؟ کس دن روزہ رکھنا ہے اور کونسا دن عید کا ہے؟ کس دن حج کرنی ہے؟ کیونکہ حج اور روزہ ایسے امور ہیں جو صرف زمانہ امامت کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ تا قیامت حج مسلمانوں پر واجب ہوگی اور روزہ رکھنا بھی واجب ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ تا قیامت دین کے یہ حکم بجا لانے ہیں تو سوال ہوگا کہ کس دن سے روزہ رکھنا ہے؟ یہ کس نے بتانا ہے؟ اگر امام نہ ہو تو کیا روزہ رکھنا چھوڑ دیں؟ دین کے اس واجب حکم کی تعطیل کر لیں؟ جی نہیں! بلکہ عقل کہتا ہے کہ کوئی ہو جو نیابت امام میں یہ ذمہ داری انجام دے۔

اجتماعی عبادات کی تعطیل

حج ایک اجتماعی عبادت ہے۔ اسی طرح سے نماز جمعہ اور جہاد وغیرہ ہیں۔ اجتماعی عبادات زمانہ غیبت میں کیسے انجام دیں؟ کیا زمانہ غیبت میں اجتماعی عبادات ترک کر دیں؟ کیا اجتماعی عبادات صرف ۲۶۰ ہجری تک واجب تھیں؟ جب تک امام زمانؑ ظہور نہیں کر لیتے تب تک نماز جمعہ تعطیل کر دیں؟ حج کے سیاسی و اجتماعی عبادت جس کا اعلان ہی امام کے اعلان پر موقوف ہے اس کو زمانہ غیبت میں تعطیل کر دیں؟جبکہ نقل نے کہا ہے کہ  دین اسلام تعطیل نہیں ہوگا۔ اجتماعی عبادات ساقط نہیں ہو سکتیں۔ جب بھی کسی شخص کو استطاعت حاصل ہوگی اس پر حج واجب ہو جاۓ گا۔ اگر حج واجب ہے تو اس کے لیے کس کی طرف رجوع کریں؟ اگر امام نہیں ہے تو کیا ترک کر دیں؟ عقل کہتی ہے کہ کوئی ایسا ہو جس کی طرف رجوع کریں۔ تقلید اسی بنا پر ہے۔ بعض نادان افراد استعماری افکار کا شکار ہو کر تمام اجتماعی عبادات کا انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں جب تک امام کا ظہور نہیں ہو جاتاان عبادات کو ترک کر دو ۔ عقل کہتی ہے کہ جو شخص امام کے قریب تر ہو اور با شرائط ہو اس کی طرف رجوع کیا جاۓ، اور دین کی ان عبادات کو بجالایا جاۓ۔کیونکہ روایت کے مطابق حج کے امر کو تعطیل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر چاند کے مسئلے میں اختلاف ہو جاۓ تو حج تعطیل نہیں کر دینا بلکہ امیر حج کی طرف رجوع کیا جاۓ گا۔ امیر حج پر واجب ہے کہ وہ اعلان کرے، اگر اعلان نہ ہوا تو اجتماعی طور پر پوری امت نے ایک حرام عمل کی مرتکب ہوگی۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۷تا۱۷۰۔

منابع:

منابع:
1 اسراء: ۲۳۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۶۷تا۱۷۰۔
Views: 9

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ پر عقل و نقل سے مرکب دلیل
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ پر عقل و حدیث سے مرکب دلیل