loading

{ ولایت فقیہ پر دلیل نقلی محض  }

ولایت فقیہ سے متعلق احادیث کی سندی تحقیق

تحریر : سید محمد حسن رضوی
30/11/2022

مکتب تشیع کی نظر میں دین اسلام کی سیاسی و اجتماعی حاکمیت و ہدایت کا نظام ’’امامت‘‘ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مملکت میں بسنے والے بندگانِ الہٰی پر الہٰی حکام کی الہٰی قوانین کے نفاذ کے ذریعے الہٰی حاکمیت کا قیام امامت کی حقیقی تصویر ہے۔ رسول اللہ ﷺ جہاں نبی اور رسول تھے وہاں امامت کا عہدہ اور وظیفہ بھی انہی کے سپرد تھا ۔ آنحضرت ﷺ کے بعد امام علیؑ امت اسلامیہ پر ان کے جانشین اور خلیفہ و امام مقرر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی متواتر نصوص سے عصمت کے مقام پر فائز مزید گیارہ امام ؑ خلافت و سیاست کی ذمہ داریوں کے حامل قرار پائے۔ آخری امام حضرت امام مہدیؑ ہیں  جنہیں اللہ تعالیٰ نے نامعلوم مدت کے لیے غیبت عنایت فرمائی ۔ غیبت کے اس دور میں انسانی معاشروں کے نظم و نسق اور امن و امان و ضرورتِ زندگی کی فراہمی کے لیے حکومت کے قیام اور الہٰی قوانین کے نفاذ کی وہی ضرورت باقی ہے جو ضرورت زمانہِ رسالت و امامت میں تھی۔ یقیناً  ایک معاشرے کا نظم و نسق اور امن و امان تب ہی ممکن ہے جب شریعت کے قوانین کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اختیار بھی کیا جائے۔ ایک قانون سے معاشرے میں ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب اس کے محکم اور جامع ہونے کا علم حاصل کریں اور اس کے بعد عملی طور پر اسے جاری کریں۔ اگر قانون عملی طور پر جاری نہ ہو تو قانون اپنے وجود کے باوجود بے فائدہ رہ جاتا ہے۔ یہاں سے ہمیں علم فقہ اور شریعت کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے اجتماعی و انفرادی احکام کی اہمیت معلوم ہو جاتی ہے۔ قانون کو عملی شکل دینے کے لیے حکومت کا قیام ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام آئمہ اطہارؑ کا ہدایت و رہنمائی کے ساتھ ساتھ ایک اہم ہدف عدل و انصاف کی اساس پر حکومت الہٰی کا قیام تھا۔ جو ضرورت رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہارؑ انسانی معاشروں کے لیے محسوس کرتے تھے یقیناً وہ ضرورت غیبتِ امامؑ میں بھی معاشروں کے لیے موجود ہے۔ الہٰی قوانین کے ذریعے انسانی معاشروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت اسلامی ضروری امر ہےجس پر عقلی دلیل کے علاوہ قرآنی آیات اور متعدد احادیث مبارکہ بہترین دلیل ہیں۔ غیبتِ امام مہدیؑ میں حکومت اسلامی کے قیام میں با شرائط فقیہ بزرگوار کا بطور پر حاکم اپنے وظائف انجام دینا ولایت فقیہ کہلاتا ہے۔ ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد عملی طور پر ایک معاشرہ اور ریاست پر حاکم ہونا ہے اور فقیہ سے مراد ایسا دین شناس ہے جوکہ دین کی نظری و عملی تمام تعلیمات سے آگاہ ہو ، علم فقہ پر ید طولیٰ رکھتا ہو اور عملی طور پر عدالت و شجاعت و بصیرت جیسی صفات سے مزین ہو۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیبتِ امام مہدیؑ میں با شرائط فقیہ بزرگوار کے لیے کیا حکومتِ اسلامی کاقیام اور الہٰی قوانین کے ذریعے سے انسانی معاشرہ کو ادارہ کرنے پر احادیث مبارکہ سے کوئی معتبر دلیل ہے؟ کیا فقیہ با شرائط کے حاکم ہونے کو امام معصومؑ نے بیان کیا ہے؟ اگر بیان کیا ہے تو وہ احادیث کون کون سی ہیں؟ اس کے جواب میں احادیث مبارکہ کا ایک مجموعہ ذکر کرتے ہیں جن سے ہم ولایت فقیہ کے نظریہ اور ولی فقیہ کے اختیارات کا استنباط کر سکتے ہیں۔

احادیث کی تحقیق کا ضابطہ:

فقہی پہلو سے اگر ہم کسی حدیث کی تحقیق اور استنباط کے عمل کو انجام دینا چاہتے ہیں تو ہمیں حدیث سے متعلق تین امور کو پہلے حل کرنا ہو گا اور اس کے بعد قواعدِ استنباط یعنی قواعدِ اصولیہ و فقہیہ کی مدد سے ایک حکم کو دریافت کریں گے۔ پس حدیث مبارک سے نتیجہ لینے کے لیے درج ذیل تین مراحل سے گزرنا ضروری ہے:
۱۔ سندِ حدیث: سب سے پہلے ہم یہ معلوم کریں گے کہ مذکورہ حدیث معصومؑ سے صادر ہوئی ہے یا نہیں۔ اس مقصد کے لیے علم رجال و علم حدیث کے ضوابط کی مدد لی جاتی ہے اور حدیث کے معتبر ہونے یا غیر معتبر ہونے کا علم حاصل کیا جاتا ہے۔ علم رجال میں مجموعی طور پر دو اہم نظریات ہیں جن میں سے ایک سند کے تمام راوی کی وثاقت کی اساس پر حدیث کو معتبر قرار دیتا ہے اور دوسرا مبنی یہ ہے کہ معتبر قرائن کی مدد سے وثاقتِ راوی اور حدیث کے صدور کو جانا جا سکتا ہے۔ آیت اللہ خوئی اور ان کے اکثر بیشتر شاگردان خصوص ِ ثقہ یعنی سندِ حدیث میں موجود تمام راویوں کی وثاقت کی اساس پر حدیث کو معتبر قرار دینے کے قائل ہیں جبکہ متعدد محققین و مجتہدین جیسے آیت اللہ بروجردی اور ان کے مبنی کے پیرو قائل ہیں کہ راوی کی وثاقت کا ایک سبب اقوالِ رجالیین کی طرف رجوع کرنا ہے جبکہ ہمارے پاس متعدد ایسے قرائن ِ معتبر ہیں جن کی مدد سے راوی کی وثاقت کو جانا جا سکتا ہے اور صدورِ حدیث کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔
۲۔ دلالتِ حدیث: جب حدیث کی سند ثابت ہو جائے تو ہم حدیث کے کلمات اور معنی کی طرف رجوع کریں گے اور دیکیں گے کہ حدیث کے کلمات کی اپنے معانی پر دلالت صریح ہے یا ظاہر ۔ اگر کلمات کی معانی پر دلالت غیر واضح ہو یا غیر ظاہر ہو تو ایسی حدیث قابل قبول نہیں ہو گی اور اس حدیث سے معنی نہیں لیا جا سکے گا اگرچے اس کی سند معتبر اور صحیح ہے۔
۳۔ حجیتِ حدیث: جب سند اور معانی پر دلالت بھی واضح ہو گی تو ایسی صورت میں جائزہ لیا جائے گا کہ جو معنی آشکار یا ظاہر ہوا ہے آیا وہ ہمارے لیے حجت ہے یا نہیں، مثلاً اگر حدیث کا ظہور ایک خاص معنی میں ہے تو وہ معنی ہمارے لیے حجت ہو گا۔ اس مقام پر ہم مختلف ایسے قواعد کی مدد حاصل کریں گے جن کے ذریعے حدیث کا ظاہری معنی ہمارے اوپر حجت بن جاتا ہے۔

زیر نظر سطور میں ہم ہر حدیث کے ضمن میں تینوں امور کو یکساں پر زیرِ بحث نہیں لا سکتے کیونکہ اس سے کلام طولانی ہو جائے گا اور اس مختصر نوشتہ میں سماں نہیں پائے گا۔ چنانچہ ہم اس مورد میں پہلے احادیث کو نقل کرتے ہیں اور ان کی سند سے جزوی طور پر بحث کریں گے جبکہ دلالت حدیث اور حجیت حدیث سے اختتام پر بحث کریں گے۔ کیونکہ بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ایک معنی مختلف معتبر غیر معتبر احادیث میں وارد ہوتا ہے اور متواتر معنوی یا اجمالی کا فائدہ دے رہا ہوتا ہے ۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تواتر میں علم رجال کے ضوابط کو جاری کرنے کی نوبت نہیں آتی اور حدیث کا امامؑ سے صادر ہونے کا علم و یقین ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہم ایک بڑی تعداد احادیث کی نقل کر رہے ہیں جن میں سے متعدد احادیث معتبرا ور کئی ایسی احادیث سامنے آئیں گی جو اگرچے غیر معتبر ہیں لیکن طرق مختلف ہونے کے باعث ممکن ہے تواتر معنوی یا اجمالی کا فائدہ دے۔ آئیے ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں:

حدیث ۱: علماء وارثِ انبیاءؑ:

کلینیؒ میں الکافی دو مختلف سندوں سے روایت کو نقل کیا ہے: { مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ: إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاء }. [1]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۷۷، باب ۲۔

سندی تحقیقی:

اس سند میں چار راوی ہیں جن کے تذکرہ کتب و قواعدِ رجالیہ کی روشنی میں درج ہے :
۱۔ محمد بن یحیی:
۲۔ احمد بن محمد بن عیسی:
۳۔ محمد بن خالد:
۴۔ ابو بختری:

اس حدیث کی دوسری سند درج ذیل ہے:

۔

حدیث ۲:علماء کا امین ہونا

الکافی میں شیخ محمد بن یعقوبؒ نے معتبر ذرائع سے حدیث نقل ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں:{ عَلِيٌّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّوْفَلِيِّ ، عَنِ السَّكُونِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الْفُقَهَاءُ أُمَنَاءُ الرُّسُلِ مَا لَمْ يَدْخُلُوا فِي الدُّنْيَا ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا دُخُولُهُمْ فِي الدُّنْيَا ؟ قَالَ: اتِّبَاعُ السُّلْطَانِ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَاحْذَرُوهُمْ عَلَى دِينِكُمْ }. [2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۱۱۴، باب ۱۴۔
۔

سندی تحقیق:

اس سند میں بھی چار راوی ہیں جن کے احوال کتب و قواعدِ رجالیہ کی روشنی میں درج ذیل ہیں:
۱۔ علی بن ابراہیم:
۲۔ ابراہیم بن ہاشم:
۳۔ نوفلی:
۴۔ سکونی:

۔

حدیث ۳:خلفاء کا تذکرہ

شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ  روایت نقل کی ہے:{ وَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ × ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ خُلَفَاؤُكَ ؟ قَالَ: الَّذِينَ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِي يَرْوُونَ حَدِيثِي وَسُنَّتِي }. [3]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۴۲۰۔یہی روایت معانی الاخبار میں بھی شیخ صدوق نے نقل کی ہے۔ معانی الاخبار میں اس روایت کی سند اس طرح سے منقول ہے:{ حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ النَّوْفَلِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ دَاوُدَ الْيَعْقُوبِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ × قَال ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ’: اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ خُلَفَائِي }. [4]صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۳۷۵۔ معانی الاخبار میں موجود حدیث میں خلفاء پر رحمت کی دعا کا تین مرتبہ تکرار کیا گیا ہے۔

سندی تحقیق :

اس روایت آٹھ راویوں کے بعد طبقہِ امامت آتا ہے۔ کتب و قواعدِ رجالیہ کی روشنی میں ان راویوں کے احوال درج ذیل ہیں:
۱۔ علی بن حسین بابویہ:
۲۔ علی بن ابراہیم:
۳۔ ابراہیم بن ہاشم:
۴۔ حسین بن یزید نوفلی:
۵۔علی بن داود یعقوبی:
۶۔ عیسی بن عبد اللہ:
۷۔ عبد اللہ بن محمد بن عمر:
۸۔ عمر بن علی بن ابی طالب :

حدیث ۴:فقہاء قلعہِ اسلام

کلینی نے الکافی میں امام کاظمؑ سے روایت نقل کی ہے جس کا سند و متن اس طرح سے ہے:{ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ يَقُولُ: إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ بَكَتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ وَبِقَاعُ الْأَرْضِ الَّتِي كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَيْهَا وَأَبْوَابُ السَّمَاءِ الَّتِي كَانَ يُصْعَدُ فِيهَا بِأَعْمَالِهِ وَثُلِمَ فِي الْإِسْلَامِ ثُلْمَةٌ لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ ، لِأَنَّ الْمُؤْمِنِينَ الْفُقَهَاءَ حُصُونُ الْإِسْلَامِ كَحِصْنِ سُورِ الْمَدِينَةِ لَهَا }. [5]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱ ، ص ۹۲۔یہی حدیث تھوڑے سے فرق کے ساتھ الکافی میں ایک اور مقام پر ذکر کی گئی ہے جس کی سند درج ذیل ہے:{ سَهْلُ بْنُ زِيَادٍ وَ عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الْأَوَّلَ ع يَقُول }. [6]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص۶۲۵۔

سندی تحقیق:

۔

منابع:

منابع:
1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۷۷، باب ۲۔
2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۱۱۴، باب ۱۴۔
3 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۴۲۰۔
4 صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۳۷۵۔
5 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱ ، ص ۹۲۔
6 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۵، ص۶۲۵۔
Views: 25

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ اور حدیث علماء وارثِ انبیاء
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ پر متعدد احادیث مبارکہ