loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۵}

مکتب تشیع کا سیاسی تفکر امامت

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

پچھلی قسط میں ہم نے جانا کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق حق حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے یہ حق حاکمیت اپنی تبع میں رسول اللہﷺ اور ان کے بارہ معصوم اوصیاء کو عطا کیا ہے۔ حاکم کا معصوم ہونا ضروری ہے اگر کوئی حاکم معصوم نہ ہو تو وہ الہی حاکم نہیں ہو سکتا۔ مادی طور پر دیکھا جاۓ تو حاکم طبقہ سب چیزوں پر حاوی ہوتا ہے، یہ شخص اگر معصوم ہو تو سب چیزیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اگر معصوم نہ ہو تو معاشرے میں ہرج مرج لازم آتا ہے۔ حاکم طبقہ افراد پر مسلط ہو جاتا ہے اور ان کا حق سمیٹ لیتا ہے اور ہر شے کو اپنے لیے قرار دیتا ہے۔ اس ناانصافی کو روکنے کے لیے اللہ تعالی نے ضروری قرار دیا ہے کہ معاشروں پر صرف وہی شخص حاکم بنے جو معصوم ہو۔

حاکم کو کیسے کنٹرول کیا جاۓ؟

موازنہ قوا پولیٹیکل سائنس کا اہم ترین موضوع ہے۔ موازنہ قوا یعنی طاقت اور قوت کا توازن کیسے برقرار رکھا جاۓ؟ایک حاکم جب تمام قدرت کے ساتھ ایک معاشرے پر مسلط ہو جاتا ہے اس کو کنٹرول کیسے کیا جاۓ؟ زمانہ ماضی میں بادشاہ ہوا کرتے تھے وہ عام لوگوں کے ساتھ غلاموں جیسا رویہ رکھتے، ان سے سارا دن کام لیتے اور سرکاری خزانہ بھرتے، جنگوں میں بھی انہیں عام لوگوں کو دھکیلا جاتا اور حاکم طبقہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا۔ آج بھی پوری دنیا میں یہی مسئلہ ہے مثلا مغربی دنیا ہے، امریکہ جو خود کو سپر پاور سمجھتا ہے اور ملکوں پر چڑھائی اور ان کے اموال اور خزانے لوٹنا اپنا حق سمجھتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ موازنہ قوا یعنی ایک قدرت کو کیسے کنٹرول کریں؟ مقتدر بادشاہ، طاقتور ادارے یا کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک پر چڑھائی سے کیسے روکیں؟ یہ وہ بحث ہے جس پر بہت سے نظریات موجود ہیں، مسلمان مفکرین نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن ان سب میں ہمارا موضوع اس سلسلے میں آئمہ معصومینؑ کا مؤقف ہے۔

مکتب تشیع بطور سیاسی تفکر

شیعہ وہ گروہ ہے جو ایک سیاسی مسئلے پر دوسرے مسلمانوں سے اختلاف کی بنا پر اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں۔ اور وہ سیاسی مسئلہ یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے بعد امت کا حکمران کون ہوگا؟ کیا مسلمانوں نے خود اپنا حکمران بنانا ہے یا اس مسئلے کو رسول اللہﷺ خود حل کر کے گئے ہیں؟ یہ وہ سیاسی مسئلہ تھا جو بعد میں اور حتی آج تک عقائدی مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ جبکہ تشیع کی اساس ہی اسی سیاسی مسئلے کی بنا پر تھی۔ تشیع شروع سے ہی ایک سیاسی تفکر رکھتا تھا اور وہ تفکر یہ تھا کہ امت کا حکمران صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہو۔ حاکم انتخابی نہیں ہو سکتا بلکہ انتصابی ہوگا۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل تھا کہ دین میں کوئی بھی چیز انتخابی نہیں، اور امت پر حکمرانی کا مسئلہ جو کہ اساسی ترین مسئلہ تھا کہ جس کی دلیل یہ ہے کہ آج تک امت مسلمہ اس مسئلے پر دو گروہوں میں بٹ گئی، یہ وہ مسئلہ تھا جس میں تشیع نے اپنا راستہ تمام اسلامی فرقہ جات سے جدا رکھا اور یہی وہ تفکر تھا جس کی بنا پر تشیع کی تاریخ صدرِ اسلام سے لے کر آج تک سرخ ہے۔

تشیع کی سیاسی فکر اور حکمران

جیسا کہ بیان ہوا کہ جیسے ہی ثقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کا انتخاب ہوا وہیں سے امت مسلمہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک گروہ وہ تھا جس نے آرام سے جا کر خلیفہ اول کے انتخاب کو قبول کر لیا اور بیعت کر لی۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس نے کہا کہ خلافت انتخابی نہیں، یہ وہ مسئلہ ہے ہی نہیں جسے امت کے انتخاب پر چھوڑ دیا جاۓ بلکہ یہ مسئلہ تو انتصابی ہے اور امیرالمومنینؑ پہلے سے ہی امت پر نصب شدہ ہیں۔ اس سیاسی تفکر کا اٹھنا تھا کہ حکومت نے بلا تفریق سب سیاسی مخالفین کو سرکوب کرنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلی قربانی بنت رسول حضرت فاطمہ زہراؑ نے پیش کی۔ اور خلیفہ کے دربار میں حقیقی دین اور اس کا نظام متعارف کیا، لیکن امت نے ساتھ نہ دیا۔ [1] شيخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔ [2] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔ [3] نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار في فضائل الائمہ الاطهار، ج۳، ص۳۴۔ [4] امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔ [5] طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔ [6] فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔ بی بی کی غم انگیز شہادت کے بعد یہ سیاسی اختلاف ختم نہ ہوا بلکہ اور بڑھ گیا، اہلبیتؑ کا معاشرے نے بائیکاٹ شروع کیا، یہاں تک کہ امیرالمومنینؑ کی حکومت آئی۔ فتنوں کا شکار امیرالمومنینؑ کی حکومت زیادہ دیر تک نہ چل سکی، پہلے امام کو شہید کر دیا گیا، دوسرے امام جب تک حالات ان کے اختیار میں تھے جنگ کرتے رہے لیکن ان کو بھی صلح پر مجبور کر کے بعد میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد واقعہ کربلا ہوا کہ امت کے حقیقی امام نے امت کو ظالم حاکم کے خلاف جنگ کرنے پر بلایا لیکن امت کربلا نہ آئی اور امام حسینؑ بھی بے دردی سے شہید کر دیے گئے۔ کربلا کے بعد تشیع کے اس سیاسی تفکر اور شیعہ کو بہت شدت کے ساتھ کچلا گیا اور آج تک کچلا جا رہا ہے۔ یہ کہانی کسی ایک سال یا دو سال کی نہیں بلکہ صدیوں سے تشیع اس سیاسی تفکر پر کچلا جا رہا ہے۔

حکومت مخالف تحریک کا مطلب

ان حالات پر اگر دقت کی جاۓ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک ریاست میں حکمران کے خلاف تحریک چلتی ہے تو ہوتا کیا ہے؟ حکومتی عسکری طاقتیں اکشن میں آجاتی ہیں، سیاسی تحریک کو مختلف طریقوں اور بہانوں سے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلا تحریک کے بڑے بڑے افراد کو قتل کروا دیا جاتا ہے، اگر قتل کرونے میں حکومت کامیاب نہ ہو سکے تو یا تو تحریک کے لیڈران کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے یا جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، چھوٹے کارکنوں کو بھی جیلوں میں یا فتنہ انگیزی کے جرم میں قتل کروا دیا جاتا ہے۔ یہ حال تشیع کے ساتھ رہا ہے۔ ہمارے سب آئمہ معصومینؑ شہید ہوۓ ہیں، ایسا نہیں کہ وہ کچھ کر ہی نہیں رہے تھے اور حکومتوں نے بغیر کسی وجہ کے ان کو شہید کروا دیا، اگر آئمہ معصومینؑ غیر اسلامی حکومتوں کا خاتمہ نہ چاہتے ہوتے اور حق کے قیام کی بات نہ کرتے، اپنی انفرادی زندگی گزارتے تو ایک امام بھی شہید نہ ہوتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سب آئمہ معصومینؑ کو یا تو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی، جب وہ نہ ہو سکا تو اپنی زیرنگرانی رکھا گیا۔ جب حالات کنٹرول میں نہ کر سکے تو شہید کروا دیا۔

مکتب تشیع ایک سیاسی مکتب

ایک اعتراض جو تشیع پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ تم لوگوں نے آج کے دور میں ان سیاسی نظریات کو خود سے گھڑا ہے، یا کہتے ہیں کہ اسلام نے سیاست اور حکومت کی تو بات ہی نہیں کی یہ تم لوگوں نے آج کے دور میں سب کچھ ایجاد کیا ہے؟ اگر تشیع کے ان نظریات کے مبانی بھی آج گھڑے جاتے تو یہ بات درست تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تشیع کے ہاں سیاسی تفکر اور اس کے مبانی صدر اسلام سے ہی پاۓ جاتے ہیں۔ یا خود ولایت فقیہ کے نظریے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو امام خمینیؒ کا ایجاد کردہ نظریہ ہے اس سے پہلے تو کسی نے بھی فقیہ کی ولایت کی بات تک نہیں کی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کم علمی یا اسلام دشمنی کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔ ورنہ اگر تشیع کی تاریخ اور اس کے آئمہ کی تاریخ کو بغور مطالعہ کیا جاۓ تو تشیع کا سیاسی تفکر صراحت کے ساتھ ہمیں صدر اسلام سے میں ہی موجود نظر آتا ہے۔

نظریہ امامت بحیثیت سیاسی نظریہ

امامت، خلافت کے برعکس تشیع کا ایک سیاسی نظریہ تھا۔ شیعہ حکومتی میدان میں آئمہ معصومینؑ کو اپنا حقیقی امام (امام بمعنی حاکم) مانتے تھے۔ معنوی طور پر تو آئمہ معصومینؑ کو ولایت حاصل ہے ہی، لیکن یہاں پر بات ان کی ظاہری حکومت کی ہو رہی ہے۔ اہلسنت خلفاء کو اپنے اوپر حکمران سمجھتے تھے لیکن اس کے برعکس شیعہ اپنے نظریہ امامت کی بنا پر آئمہ معصومینؑ کو اپنا امام اور دنیوی طور پر اپنے اوپر حکمران مانتے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ امامت کے نظریے کو بعد میں عقائدی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کو مناظرانہ حیثیت سے دیکھا جانے لگا جبکہ یہ ایک سیاسی نظریہ تھا اور سیاسی نظریہ ہمیشہ عملی صورت میں لاگو ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ تشیع پر شدید ظلم و ستم تھا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد سب شیعہ ایک طرح سے روپوش ہوگئے۔ مثلا بی بی زینبؑ، عبداللہ بن جعفر، ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کی دیگر شخصیات مکمل طور پر ایک سائڈ پر کر دی گئیں۔ کربلا کے بعد معاشرے میں ان افراد کو اصلا ابھرنے ہی نہیں دیا گیا۔

امام زین العابدینؑ کی تشیع کو بچانے کی تدبیر

کربلا کے بعد تشیع کو شدت کے ساتھ کچل دیا گیا، دشمن کی خواہش تھی کہ آئمہ معصومینؑ کے پیروکاروں کو نیست و نابود کر دیا جاۓ۔ یہاں پر امام زین العابدینؑ نے تشیع کو بچانے کی تدبیر کی۔ اب یہاں پر علماء تشیع کے مفکرین دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک علماء کرام کا گروہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ اگر کوفہ کے شیعوں کے قیام وجود میں نہ آتے تو اسی دور میں حکومت اسلامی قائم ہو جاتی اور امام زین العابدینؑ امت کے ظاہری خلیفہ بن جاتے۔ اس کے لیے ان کی تدبیر یہ تھی کہ بنو امیہ اور آل زبیر کا آپس میں ٹکراؤ ہو، ان کے ٹکراؤ سے فائدہ تشیع کو ہوگا، بالاخر جو لشکر بھی ان میں سے کامیاب ہوتا تازہ جنگ سے فارغ ہوتا، اور ایک اور جنگ کے لیے آمادہ نہ ہوتا، منصوبہ یہ تھا کہ ان دو کا ٹکراؤ ہو اور بعد میں جیتے ہوۓ لشکر سے امامت کے پیروکار امامؑ کے رکاب میں جنگ کر کے ان کو شکست دیں  اور اس طرح امامت کا نظام نافذ ہوتا۔ لیکن اس منصوبے کو کوفہ کے بعض شیعہ رہنماؤں نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ کوفہ میں اس وقت دو سیاسی شیعہ پارٹیاں موجود تھیں۔ ایک سیاسی پارٹی مختار ثقفی کی تھی اور دوسری سلیمان ابن صرد خزاعی کی۔ ان مفکرین کے بقول مختار ثقفی کے قیام نے امامؑ کے منصوبے کو نقصان پہنچایا کیونکہ مختار نے مصعب کے خلاف جنگ کر کے آل زبیر کی تو کمر توڑ دی لیکن جو اصل فائدہ ہوا وہ بنو امیہ کو ہوا۔اصلی دشمن اور حریف جو ظاہری طور پر قدرت میں بھی تھا وہ بنو امیہ تھے ۔ لیکن مختار کے قیام کے نتیجہ میں بنو امیہ کے لیے دونوں حریف (آل زبیر اور شیعہ) ہر دو کمزور ہو چکے تھے۔ اس بنا پر اسلامی حکومت قائم نہ ہو سکی۔ [7] سائٹ فارس نیوز۔ تاہم علماء کرام کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مختار ثقفی کا قیام درست تھا اور اس کو امامؑ کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اس پر وہ دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ امامؑ نے مختار کے لیے دعا کی کیونکہ اس نے انتقام خون امام حسینؑ لیا۔[8] سائٹ شیعہ نیوز۔

تشیع امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے دور میں

یہ وہ دور تھا جس کے لیے گزشتہ آئمہ معصومینؑ نے خصوصی طور پر آمادگی کی ہوئی تھی کہ حکومت اسلامی و نظام امامت نافذ ہو جاۓ، اس دور میں شیعوں کی آبادی بڑھ چکی تھی، امام باقرؑ و امام صادقؑ کے افکار و ان کے شاگردوں کی کتابیں عالم اسلام میں پھیل چکی تھیں۔ دوسری طرف امام کاظمؑ کا پھیلایا ہوا وکالت کا نظام جو بہت کامیاب تھا۔ اس دور میں بھی نظام امامت نافذ ہوجانا تھا لیکن اس دور کے شیعہ راز کی نگہداری نہ کر سکے۔ [9] سائٹ علوم انسانی۔ جذباتی شیعوں نے امر امامت کا راز افشاء کر دیا جس کی وجہ سے حکومتوں کی جانب سے شدید پکڑ دھکڑ ہوئی، اصحابِ آئمہ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، عام شیعوں کا جینا حرام کر دیا گیا اور خود رہبر تشیع امام کاظمؑ کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ یہ دور تشیع پر سخت ترین دور تھا، ایک طرف سے اسلامی تعلیمات کو مسخ کیا جا رہا تھا، شہبات کی بھرمار اور فرہنگی و ثفافتی طور پر فحاشی بڑھ گئی۔[10] آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مکارم شیرازی۔ ہر دوسری جگہ پر قیام ہو رہے تھے سیاسی احزاب وجود میں آ چکی تھیں، علویوں، زیدیوں اور خوارج کے قیام سے ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔ اسی اثناء میں شیعہ اثناء عشری گروہ ہے جو مطیع محض امامت ہے۔ اگرچہ بہت ہی قلیل تھا لیکن موجود تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود سے کوئی حرکت نہیں کرتے تھے اگر امام کہتے کہ گھروں میں بیٹھے رہو تو بیٹھ جاتے اور اگر کہتے کہ قیام کے لیے آ جاؤ تو تیار رہتے۔ یہ نا تو عباسیوں کے نعرے میں بہکے جنہوں نے امویوں کے خلاف انتقام امام حسینؑ کا نعرہ لگایا تھا اور نا کسی دوسرے پرچم کے تلے گئے۔ ان سختیوں کا زمانہ چلتا رہا یہاں تک کہ غیبت کا دور آیا۔

مکتب تشیع غیبت کے زمانے کے بعد

ہمارے آخری اماموں کا زمانہ تشیع کے لیے سخت ترین دور ہے۔ اس دور میں آئمہ معصومینؑ ایک طرح سے سرکاری نظر بندی میں محبوس تھے اور ان کا اپنے شیعوں سے رابطہ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا۔ یعنی اگر کوئی امام سے ملنے آتا تو اسے یا تو قتل کر دیا جاتا یا زندانوں میں ڈال دیا جاتا، شدید تقیہ کے دور تھا اس لیے اس دور کے اصحاب بہت سختی سے اماموں سے مل پاتے، کبھی غلام کی صورت میں خرید لیے جاتے اور کچھ عرصہ امام کی خدمت کرتے، کبھی کسی فروشندے کی شکل میں چیزیں فروخت کرنے کے بہانے امام سے ملاقات کرتے۔ یعنی اگر آئمہ معصومینؑ کی تدبیر نہ ہوتی اور خدا نے اس نور کی حفاظت نہ کی ہوتی تو اگر کوئی اور گروہ یا جماعت ہوتی تو یقینا نابود ہو جاتی۔ یہی تقیہ کا دور غیبت تک رہا، غیبت کے ابتدائی دور میں تشیع کی اساس کو بچایا گیا جس کو ختم کرنے کے لیے عباسی حکمران ایڑی چوٹی کا زور لگاۓ ہوۓ تھے۔ اس دور میں کتابیں لکھی گئیں فقاہت اور نظام مرجعیت کی اساس اسی دور میں رکھی گئی۔ 

شیخ طوسیؒ سے علامہ مجلسیؒ تک کا دور

شیخ طوسیؒ مکتب تشیع کی وہ عظیم ترین شخصیت ہیں جنہوں نے بہت خدمات انجام دیں۔ آپ نے تفسیر، حدیث، کلام، فقہ، اصول فقہ، رجال اور متعدد دیگر علوم میں کتابیں لکھ کر تشیع کی تراث کو محفوظ کیا۔[11] سائٹ ویکی فقہ۔ اس کے بعد آنے والے دیگر فقہاء و علماء تشیع نے اس مکتب کی حفاظت کی یہاں تک علامہ مجلسی کا دور آتا ہے۔ ان کے دور تک تشیع کے لیے کافی حد تک فضا کھل چکی تھی۔ شیعہ کی پہلی حکومت علامہ مجلسی کے دور میں بنی۔ صفوی بادشاہ مذہبی طور پر شیعہ تھے اگرچہ بادشاہی نظام کے تحت ہی انہوں نے امور مملکت کو چلایا اس لیے ہم اس حکومت کو مکتب تشیع کی حکومت یا نظام امامت قرار نہیں دے سکتے لیکن بلا شک و شبہ ایک شیعی حکومت تھی جس میں شیعہ کے لیے حالات کھل گئے۔ اسی دور میں سید علماء کے لیے کالے عمامے کا رواج پڑا، علماء کا لباس، عزاداری کے طور طریقے اور بہت سی رسومات اسی دور کی ایجاد ہیں۔ اسی دور میں دوبارہ شیعہ سیاسی تفکر بھی ابھرنے لگا، علماء تشیع نے سیاسی نظریات پر قلم اٹھانا شروع کیا، اگرچہ قلیل تھے لیکن موجود تھے ایسے علماء جو سیاسی تفکرات رکھتے تھے۔ 

علامہ مجلسیؒ سے امام خمینیؒ تک کا دور

سیاسی تفکر پر بحث مباحثہ اور تصنیفات اگرچہ علامہ مجلسی کے دور سے دوبارہ شروع ہو گئی تھیں لیکن علماء تشیع کا سیاسی میدان میں باقاعدہ طور پر ورود اس وقت شروع ہوا جب اسلامی ممالک میں انگریز استعمار کے لیے داخل ہوا۔ [12] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ علماء کرام نے اسلامی تفکرات اور ثقافت کو بچانے کے لیے انگریزوں کے خلاف بھرپور مقاومت کی، سیاسی تفکرات کو ابھارا گیا اور سیاسی اقدامات شروع ہوۓ۔ اس دور تک اگرچہ علماء شیعہ کی جانب سے مختلف سیاسی اقدامات کیے جا رہے تھے لیکن باقاعدہ طور پر کوئی سیاسی نظریہ موجود نہ تھا۔ یعنی کوئی سیاسی آئیڈیالوجی موجود نہ تھی جس کی بنا پر شیعہ کو اکٹھا کر کے مکتب اور اسلامی مبانی کے تحت ایک دینی حکومت قائم ہو۔ امام خمینیؒ وہ اولین شخصیت ہیں جنہوں نے نظریہ امامت کو سیاسی جہت سے بحث کیا۔ وہ سیاسی تفکر جو صدر اسلام میں تشیع کی اساس بنا دوبارہ مناظروں کی بحث سے نکل کر اپنی اصلی شکل یعنی سیاسی و حکومتی نظریے کے طور پر دیکھا گیا۔ امام خمینیؒ نے نظریہ امامت کو سیاسی جہت دی اور اس کو مہدویت سے ربط دیا کیونکہ خود مہدویت بھی قرآنی اور سیاسی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر اس پورے کرہ عالم پر حق کا غلبہ ہونا ہے اور باطل مٹ جانا ہے۔ 

امام خمینیؒ اور نظریہ امامت

امام خمینیؒ سے پہلے اگرچہ ولایت فقیہ کی بحث موجود تھی اور ہمارے قدیم فقہاء نے فقیہ کی ولایت اور اس کے اختیار پر بحثیں کی ہیں،[13] سائٹ علوم انسانی۔ [14] آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ مصباح یزدی۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس بحث کو  فقہ سے نکال کر کلام میں داخل کیا اور عقیدہ امامت کے ذیل میں ولایت فقیہ کو پیش کیا۔ امام خمینیؒ نے بیان کیا کہ دین اور اس کے احکام رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے بعد لغو نہیں ہو گئے بلکہ آج بھی ان کو نفاذ کی ضرورت ہے، جو ذمہ داری رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی ہے وہی ذمہ داری نیابت میں علماء کی بھی ہے۔[15] آفیشل ویب سائٹ امام خمینی۔ اس لیے جس طرح انبیاء الہی اور آئمہ کا وظیفہ ہے کہ وہ الہی حکومت قائم کریں فقیہ کا بھی وظیفہ ہے کہ وہ اس حکومت کے قیام کے لیے اقدام کرے[16] سائٹ ویکی فقہ فارسی۔ ۔ پس اگر کوئی کہتا ہے کہ نظریہ امامت یا نظریہ ولایت فقیہ امام خمینیؒ کی ایجاد ہے، ایسی بات کرنا غلط ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اس نظریے پر مواد اور نظریات بہت قدیمی ہیں، سیاسی نظریات صدر اسلام سے ہی موجود تھے، لیکن ان نظریات پر مطالعات اور اس پر عمل بہت دیر سے شروع ہوا، اگر ہمارے نظریات کا مواد اور مبانی جدید ہوتے تو تب آپ کا اعتراض درست تھا۔ اس لیے تشیع کے سیاسی نظریات پر اعتراض نہیں بنتا۔

موازنہ قوا کا مسئلہ اور تشیع کا نظریہ

ہمارا سوال یہ تھا کہ تشیع نے قوت کو موازن رکھنے کے لیے کیا راہ حل پیش کیا ہے؟ اسی کے ذیل میں ہم نے مندرجہ بالا تشیع کے سیاسی تفکرات اور ان کے احوال کو بھی بیان کیا۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مکتب امامت نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ حاکم کو معصوم ہونا چاہیے۔ صرف وہی شخص لوگوں پر حاکم اور ان کا امام ہو سکتا ہے جو معصوم ہو۔ اس لیے سب سے پہلا اعتراض جو خلفاء پر شیعہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خلفاء معصوم نہیں تھے اور آئمہ معصومینؑ معصوم ہیں اس لیے حقیقی حاکم و معاشرے کے رہبر یہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنی، رسول اللہﷺ اور اولی الامر کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے:
«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللهَ‌ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ».
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔[17] نساء:۵۹۔
پچھلی قسط میں ہم نے ثابت کیا کہ اولی الامر کی جب مطلق طور پر اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد صرف امام معصوم ہو سکتا ہے ہر حاکم اولی الامر نہیں ہو سکتا۔[18] سائٹ البر۔ اور جہاں تک مسئلہ ہے زمانہ غیبت کا کہ جب امام ظاہری طور پر موجود نہیں ہیں اس دور میں صرف وہ شخص حاکم بن سکتا ہے جو کم از کم عادل ہو اور فقیہ ہو۔ جیسا کہ ولی فقیہ معصوم نہیں ہوتا اس کو آپ اسلامی حاکم کیسے مان سکتے ہیں اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ ولی فقیہ اگرچہ معصوم نہیں ہے لیکن اس کا عادل اور فقیہ ہونا شرط ہے۔ اگر ولی فقیہ ایک حکم بھی اپنی خواہش نفسانی کی بنا پر دے یا خدانخواستہ کسی فسق کا مرتکب ہو اس کی دینی حیثیت ختم ہو جاۓ گی۔ جب تک وہ عدالت کی حدود میں عین دین کے احکامات جاری کرتا ہے اس کی اطاعت کی جاۓ گی کیونکہ یہ اطاعت در اصل خود اس کی اطاعت نہیں بلکہ دین کی اور شریعت کی اطاعت ہے۔ اگر کوئی غیر دینی حکم ولی فقیہ کی جانب سے جاری ہوتا ہے اس کی ولایت ساقط ہو جاۓ گی اس لیے ولی فقیہ کا فقیہ ہونا ضروری ہے یعنی ایسا شخص ہو جو احکام شرعیہ کو ان کی دلیل سمیت جانتا ہے۔ لیکن غیر معصوم کی اس جہت سے اطاعت کرنا کہ وہ معصوم کے بتاۓ ہوۓ فرمان ہی ہمیں بتاۓ گا اس بات پر ہمارے پاس کوئی دلیل ہے؟ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سیرت رسول اللہﷺ اور سیرت امیرالمومنینؑ موجود ہے۔ ان ہر دو بزرگوار شخصیات نے غیر معصوم ہستیوں کو اپنی نیابت میں علاقوں کا والی بنایا۔ مثلا امیرالمومنینؑ نے حضرت مالک اشترؓ کو مصر کا والی بنایا۔ اب مصر والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کسی غیر معصوم کی حکومت کو نہیں مانتے۔ امام نے جو دستاویز مالک کے لیے تیار کی ہے اس میں خود مصر والوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کرو کیونکہ جب تک یہ میرے احکامات پر چلتا ہے سمجھو یہ میں امام کی اطاعت ہے۔ [19] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۳۴۔ پس غیر معصوم بھی حاکم ہو سکتا ہے جب تک امام کی اطاعت میں ہو اگر ہواۓ نفس اس پر غالب آ جاۓ تب وہ نہ تو امام کا والی رہتا ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت واجب ہے۔[20] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔

Views: 75

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حق حاکمیت کا قرآنی نظریہ
اگلا مقالہ: حکومت پر فائز حاکم اور عدل و انصاف