loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۶}

حکومت پر فائز حاکم اور عدل و انصاف

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ماضی سے لے کر آج تک یہ سوالات محققین کے زیر  مطالعہ رہے ہیں کہ معاشرے میں کن خصوصیات کا حامل شخص حاکم ہو؟حاکم کا معیار کیا ہے؟ کس شخص کو عوام پر حاکمیت کرنے کا حق حاصل ہے؟ایسا کیا کریں کہ حاکم ظلم نہ کرے، حاکم کرپشن نہ کر سکے، کیونکہ آج تک حکمرانوں کی تاریخ اس کی گواہ رہی ہے کہ جب بھی حاکم اقتدار میں آیا اس نے عوام پر ظلم کیا، دوسروں کا حق لوٹا، اپنوں کو نوازا اور ذاتی مفادات کو حاصل کیا۔کس طرح کا حاکم لایا جاۓ جو یہ کام نہ کرے اور حقیقی طور پر عوام کی سعادت کا خیال رکھے؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کے مختلف مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں جوابات دیے ہیں۔یہاں پر مختصر طور پر چند اقوال بیان کیے جار ہے ہیں اور آخر میں مکتب اہل بیتؑ کا نظریہ پیش کیا جاۓ گا۔

افلاطون کا نظریہ

افلاطون نے جو مدینہ فاضلہ کے ذیل میں نظریہ پیش کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ  حاکم فیلسوف ہونا چاہیے۔ یہاں پر فیلسوف سے مراد صرف فلسفہ پڑھنے والا مراد نہیں ہے بلکہ پرانے ادوار میں فیلسوف اس شخص کو کہا جاتا تھا جو تمام علوم پر مہارت رکھتا ہو۔بہرحال افلاطون فرماتے ہیں کہ آئیڈیل حکومت وہ ہے جو عقلی حکومت ہو اور اس کا حکمران فیلسوف ہو۔ اس حکمران کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام مادیات سے اس  حاکم کو دور ہونا چاہیے۔ مثلا حاکم شادی نہیں کر سکتا، جب بیوی بچے نہیں ہونگے تو صرف اپنے ملک اور عوام کا سوچے گا۔حاکم اپنا مال نہیں بنا سکتاوغیرہ۔ یعنی حاکم کے ہاتھ پاؤں باندھ دو، کرپشن کے مواقع ا س سے چھین لے جانے چاہیں، کسی بھی شے کا مالک نہ بننے دیا جاۓ اور نہ ہی ذاتی کاروبار کرنے کی اجازت ہو۔اگر اس کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیرونی ذرائع سے وہ ضرورت پوری کی جاۓ۔ مثلا جنسی خواہشات کے لیے اسے خواتین مہیا کی جائیں لیکن کسی خاتون سے قلبی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔افلاطون در اصل حاکم کی شہوت کو بیرونی طور پر ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کے باطن اور اندرون میں اس نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے کا راہ حل پیش نہیں کر پا رہا۔ باالفاظ دیگر افلاطون کا نظریہ عملی نہیں ہے ۔بہر صورت اگرآپ کوئی ایسا حاکم لے بھی آئیں تب بھی اس کی نفسانی خواہشات کا علاج نہیں ہوا کیونکہ آپ نے بیرونی ذرائع کو ختم کیا اس کے درون میں اب بھی شیطان موجود ہے اس کا کیا علاج کریں گے؟ جب تک نفس انسان اندرون سے پاک نہیں ہو جاتا انسان شیطنت کرنے سے رک نہیں سکتا یہ حکمران ظلم و ستم اور لوگوں پر تعدی کرنے کے اور طریقے ایجاد کر لے گا۔تو پھر کیا کیا جاۓ؟

اہل سنت  کا نظریہ

اہل سنت محققین نے اس مسئلے پر بہت گفتگو کی ہے لیکن کوئی  راہ حل پیش نہیں کر سکے۔ در اصل اہل سنت کے پاس نظام کی صورت میں کوئی سیاسی نظریہ موجود نہیں ہے۔ان کے خلافت راشدہ کے نظریہ کو دیکھیں تو ہر چار خلیفہ الگ الگ طرح سے حاکم بنے ہیں۔لہذا کوئی خاص معیار ہمارے سامنے نہیں بن پاتا کہ کس معیار کے تحت حاکم کا انتخاب ہوو؟ پھر آپ بتائیں موازنہ قوا کا مسئلہ کیسے حل کریں گے؟ کیونکہ خود یہی مسئلہ خلیفہ سوم کے زمانے میں بھی رہا، حتی امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی بعض والی کرپشن کے جرم میں معزول ہوۓ ہیں۔اور آج بھی یہی مسئلہ پوری دنیا میں موجود ہے خود وطن عزیز میں بھی انہیں حکمرانوں  نے پاکستانی عوام کو  فقر میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یعنی کھربوں روپے اپنی آنے والی چند نسلوں کے لیے انہوں نے جمع کیے ہوۓ ہیں لیکن پھر بھی ہوس اقتدار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

تیسری دنیا کے ممالک

یہ مسئلہ صرف جہان سوم (Third World)کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک بھی یہی کام کرتے ہیں۔اس وقت امریکہ برطانیہ اور جرمنی یہ وہ ممالک ہیں جن کی بات پوری دنیا نے ماننی ہے اور ان کے مفادات کو پورا کرنا ہے اگر کوئی ملک اپنے مفاد کا سوچتا ہے اور ان کی بات نہیں مانتا تو فورا ان پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور ان کی غلامی قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔آپ کسی بھی ملک کی مثال لے سکتے ہیں، مثلا خود پاکستان اگر ان کے مفادات کو پورا نہ کرے فورا پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا دیتے ہیں۔یا ایران اور روس وغیرہ ہیں۔ اب روس ان کے کنٹرول سے باہر ہو رہا ہے تو انہوں نے ہر قسم کی پابندی اس پر لگادی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ روس بہت اچھا ملک ہے اور ہمیں اس کی ہمیشہ حمایت کرنی چاہیے ۔ جی نہیں! رہبرمعظم اور انقلابی طبقے نے کبھی بھی روس کی مطلق طور پر حمایت نہیں کی بلکہ رہبر معظم نے اصرار کرتے ہوۓ فرمایا کہ یوکرائن میں جنگ فورا بند ہونی چاہیے۔[1] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ پس ہمارے پاس کیا راہ حل ہے حاکم کی شہوت اور مادی سوچ کو ختم کریں؟مکتب تشیع نے اس کا راہ حل پیش کیا ہے۔

مکتب تشیع کا نظریہ

۔مکتب اہل بیتؑ نے مہدویت کو آئیڈیل حکومت قرار دیا ہے۔ مکتب امامت و ولایت میں صرف امام معصوم حاکم ہو سکتا ہے۔ اہلسنت و تشیع میں بنیادی ترین فرق یہی ہے کہ شیعہ رسول اللہ ﷺ کے بعد امام معصوم کواپنا حاکم مانتے ہیں ۔ اور ضروری قرار دیتے ہیں کہ دین اور دنیا کا رہبر و امام معصوم ہونا چاہیے لیکن اہل سنت اس امر کو ضروری قرار نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ غیر معصوم شخص بھی حاکم و امام ہو سکتا ہے۔ یہاں پر امام سے مراد حاکم ہے۔ معنوی امامت کی بات نہیں ہو رہی کیونکہ امام علیؑ کی معنوی امامت کے تو بعض اہلسنت بھی قائل ہیں۔ اور معنوی امامت تو کسی سے چھینی نہیں جا سکتی بلکہ یہاں پر ظاہری امامت و حکومت کی بات ہو رہی ہے۔ افلاطون نے جو حاکم کا معیار بتایا تھا اس میں ظاہرا اس نے حاکم کے لیے ظاہری اسباب کو ختم کر کے مجبور کرنا چاہا لیکن درونی راہ حل پیش نہیں کیا۔ مکتب امامت کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس مکتب نے اندرون سے اور باطنی طور پر مسئلہ حل کیا ہے۔ جوشخص عصمت کے درجے پر فائز ہو محال ہے وہ کسی پر ظلم کرے یا کسی کا حق کھاۓ۔ اس سلسلے میں امیرالمومنینؑ کے اقوال ضرور مدنظر رکھنے چاہیں کہ جب وہ  ظاہری حکومت کو ہاتھوں میں لیتے ہیں اور اپنی خلافت کے دورانیےمیں انہوں نے کیسے حاکمیت کی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔امامؑ نعوذباللہ کسی پر ظلم کیا اور نہ کسی پر ظلم ہونے دیا، خود کرپشن کی اور نہ کسی کو اجازت دی، اپنے لیے اموال جمع کیے اور نا ہی اموال میں کسی کو خوردبرد کرنے کی اجازت دی۔[2] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۷۷۔ [3] محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۰، ص۷۴۵۔ [4] محمدی ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۲، ص۲۰۸۔ [5] سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۵۳،ص۴۴۴۔ [6] محمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۰۰۔ [7] علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۵، ص۹۶۔ [8] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۵، ص۵۷۔ [9] محمد ری شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۱۱، ص۱۹۲۔ [10] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ ،مکتوب۴۳، ص۴۱۵۔ [11] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۶،ص۳۸۳۔ [12] سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۰، ص۳۷۷۔ [13] سيد رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۷۱، ص۴۶۲۔

دین اسلام کی نظر میں لوگوں پر ولی اور سرپرست صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ حقیقی ولی صرف اللہ تعالی ہے۔ لوگوں پر حق حکومت صرف اللہ کا ہے اور بقیہ سب مجازی ولی ہیں۔ حتی انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کی ولایت اللہ تعالی کی ولایت کے ذیل میں ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالی نے لوگوں کو صرف اپنی، رسول اللہﷺ اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے اس کے علاوہ لوگوں کے لیے جائز نہیں کسی اور انسان کو اپنا ولی بنائیں اور اس کی اطاعت کریں۔[14] شوری: ۹۔ [15] مائدہ: ۵۵۔ [16] نساء: ۵۹۔

نظام ولایت فقیہ کی مشروعیت

رسول اللہﷺ نے اپنے بعد اللہ تعالی کے حکم سے بارہ آئمہ معصومینؑ کو جانشین قرار دیا۔ امت پر حاکمیت کا حق صرف ان ۱۲ آئمہ کرامؑ کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تمام حکمران غاصب اور طاغوتی ہیں۔ رہی بات زمانہ غیبت میں حاکمیت کی تو اس کے لیے کم از کم عدالت شرط قرار دی۔ زمانہ غیبت میں چونکہ امام معصوم تو موجود نہیں ہے کہ وہ ہم پر حکومت کرے پس اس زمانے میں حاکم کم از کم وہ ہو جو امام معصوم کی شخصیت سے قریب ترین ہو۔ عادل ہو، فقیہ ہو اعلم ہو اور مدبر ہو۔ اور اس پر دلیل خود آئمہ معصومینؑ کی سیرت ہے کہ خود امیرالمومنینؑ نے اپنے زمانہ حکومت میں غیر معصوم افراد کو لوگوں کا حاکم و والی بنا کر بھیجا۔ مالک اشترؒ، ابن عباس، عثمان ابن حنیف، محمد بن ابی بکر اور اس کے علاوہ بقیہ علاقوں کے والی سب کے سب غیر معصوم تھے۔ لیکن ان کی رہبری و ولایت ذاتی نہ تھی بلکہ امام علیؑ کی ولایت کے سائے میں ان کی نیابت میں وہ اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں پر ولی مقرر ہوۓ۔ ولایت فقیہ بھی در اصل فقیہ کی ذاتی ولایت و رہبری کا نام نہیں بلکہ امام زمانہؑ کی نیابت میں وہ لوگوں کے ولی ہیں اور ان کا حکم ویسے ہی حجت ہے جیسے مالک اشترؓ کا حکم مصر کے لوگوں پر حجت تھا۔ مگر یہ کہ کوئی شخص خدانخواستہ ہواۓ نفس کا شکار ہو کر امامؑ کی نیابت سے خارج ہو جاۓ اس وقت اس کی ولایت اور اتباع جائز نہ ہوگی۔[17] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔

Views: 35

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مکتب تشیع کا سیاسی تفکر امامت
اگلا مقالہ: حکومت اسلامی کا ایک ہدف تمدن اسلامی