loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۴}

حق حاکمیت کا قرآنی نظریہ

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ہمارے پاس نقلی اور عقلی براہین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حق ولایت و حاکمیت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ انسانوں کی سرپرستی اور مدیریت کا حقیقی حقدار وہی ہے جس نے انسان اور جہان کو خلق کیا ہے۔ جو خالق ہے وہی حاکم بھی ہے۔ جو رب ہے اسی کو قانون گذاری کا بھی حق ہے۔ انسانوں میں سے صرف وہی اللہ تعالی کا جانشین ہو سکتا ہے جو مقام علم اور عمل میں عصمت کے درجے پر فائز ہو۔ اس کے علاوہ حکومت میں کوئی بھی انسان اللہ تعالی کا جانشین نہیں ہو سکتا۔

حق حاکمیت قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد فرمانا ہے: « فَاللهُ هُوَ الْوَلِيُّ » ؛ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے۔[1] شوری:۹۔ اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ اصالتا و بالذات حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ البتہ دیگر آیات میں خود اللہ تعالی نے ہی اپنی ولایت کے جانشین متعارف کرواۓ ہیں۔ تاہم ساتھ ان کی عصمت کی طرف اشارہ بھی کیا اور بیان کیا کہ چونکہ وہ معصوم ہیں اس لیے ان کی حاکمیت اتباع میں اللہ تعالی کی حاکمیت ہے۔ یہ جانشین جو سمجھتے ہیں اور جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب در اصل میں اللہ کا کام ہے۔

انہیں آیات میں سے ایک سورہ نساء کی آیت کریمہ ہے جس میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ جو افراد بھی امور مسلمین کے والی قرار دیے گئے ہیں ان کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ارشاد ہوتا ہے:«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللهَ‌ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ في شَيْ‌ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ‌ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ‌ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ» ؛ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔[2] نساء: ۵۹۔ اس آیت کریمہ کے تین حصے ہیں
۱۔پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللهَ‌ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ»؛ اس میں تین ذوات کا ذکر ہوا ہے جن کی اطاعت کی جانی ہے۔ اللہ تعالی ، رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر۔
۲۔ آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں ارشاد ہوتا ہے:
« تَنازَعْتُمْ في شَيْ‌ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ‌ وَالرَّسُولِ »؛ اس حصے میں دو مرجع کی مرجعیت کا ذکر ہوا ہے یعنی اگر نزاع ہو جاۓ جن کی طرف رجوع کرنا ہے وہ دو مرجع ہیں ایک اللہ تعالی اور دوسرے رسول اللہ ﷺہیں۔
۳۔
آیت کریمہ کے تیسرے حصہ میں فرمانِ الہٰی ہوتا ہے:« إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ‌ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ »؛ اس حصے میں صرف اللہ تعالی اور یوم آخر پر ایمان لانے کےبارے میں ذکر ہوا ہے۔

آیت کریمہ کا مکمل طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ آیت کے پہلے حصے میں جس تثلیث (تین ذوات:اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ، اور اولی الامر)کا ذکر ہوا ، اور دوسرے حصے میں تثنیہ (دو ذوات:اللہ تعالی، رسول اللہ ﷺ)کا ذکر ہوا در حقیقت اس سب کا تعلق توحید در عبادت اور اطاعت سے ہے۔ یعنی ہر اطاعت جو رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر کی ہوگی در اصل اس کی بازگشت اللہ تعالی کی اطاعت کی طرف ہے۔ صرف رسول اللہ ﷺ اور اولی الامر کی عصمت ہی اس بات کا باعث بن سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے ان دو کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے برابر میں قرار دے۔

اولی الامر کی اطاعت

اس آیت میں جو چیز اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں مطلق طور پر بغیر کسی شرط و قید کے اولی الامر کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ولی امر امت معصوم نہ ہو یا اس کے فعل اور قول میں اشتباہ کا احتمال بھی دیا جا سکتا ہو تب بھی اللہ تعالی اس کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم نہیں دے سکتا،  جس شخص کے علمی یا عملی میدان میں اشتباہ کا احتمال دیا جا سکتا ہو اس کی اطاعت بھی مقید اور مشروط ہو جاتی ہے ، مثلا کہا جاۓ گا کہ ہر صورت میں تو اس کی اطاعت نہ کرو بلکہ اس وقت اطاعت کرو جب اس کی بات فرمان الہی اور خواستہ الہی کے مطابق ہو۔ کیونکہ عقل بھی یہی حکم کرتی ہے اور مشہور حدیث بھی  اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ معصیت کے امر میں کسی کی اطاعت نہیں کر سکتے۔
روایت میں واردہوا ہے: « لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق » ؛  جس امر میں خالق کی معصیت ہو اس امر میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔[3] ری شہری، محمد،میزان الحکمہ، ج۱، ص۱۲۷۔ [4] متقی ہندی، علی بن حسام، کنزل العمال، ج۵، ص۷۹۲۔ [5] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت ۱۶۵۔ یہ روایت اہلسنت منابع میں رسول اللہ ﷺ سے اور اہل تشیع میں امیرالمومنینؑ سے وارد ہوئی ہے۔

 ان سب کلمات کو ایک ساتھ ملائیں، یعنی ایک طرف کلام الہی سامنے رکھیں جس میں اللہ تعالی مطلق طور پر اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے، اور دوسری طرف حدیث کہ جس میں کہا جا رہا ہے کہ  مخلوق خدا کا وہ فرمان جو معصیت پر اکساۓ قابل عمل نہیں، ناگزیر ماننا پڑتا ہے کہ وہ شخص کسی بھی صورت میں مطلق طور پر مطاع (جس کی اطاعت کی جاۓ)واقع نہیں ہو سکتا جس کے بارے میں غلط فرمان جاری کرنے کا احتمال بھی دیا جا سکے۔ عدل الہی تقاضا کرتی ہے کہ ایسے فرد کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم دے جس کے اندر خطا کا احتمال نہ ہو اور وہ شخصیت صرف معصوم کی ہو سکتی ہے۔ نبی ﷺ اور آئمہ معصومینؑ کی عصمت اور ان کی اطاعت کی ایک دلیل یہی ہے۔[6] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۷تا۹۹۔

Views: 24

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حکومت اسلامی بنیاد وحی الہٰی
اگلا مقالہ: مکتب تشیع کا سیاسی تفکر امامت