loading

{حدیث یوم}

 نہج البلاغہ اور اخلاقیات

تقوی

تدوين:بلال حسين

التقی رئیس الاخلاق[1] سيد الشريف رضي ، نہج البلاغہ ، ج1 ، ص 548.

ترجمہ :تقوی اخلاق کا سردار ہے۔

تشريح:

مکتب اسلام اور نہج البلاغہ             میں تقوی کواخلاقیات کا بنیادی رکن ماناجاتا ہے اور اسے اخلاق کاسردارکہا گیا ہے اور بار بار امام المتقین تقوی پہ زور دیتے ہیں حتی تقوی اختیا ر کرنے والوں کے صفات کی فہرست ایک طویل خطبے میں ھمام کے حوالے کر دیتے ہیں اس خطبے کے بارے میں الگ سے اگرایک کتاب بھی لکھی جائے وہ بھی کم ہے چہ رسد کہ ان چند صفحات پر مشتمل مضمون میں اسکو بیان کرنے کی ناکام کوشش کی جائے اور دوسری طرف سے دیکھا جائے تو یہاں پہ خود مقولہ اخلاق ہمارا اصلی موضوع بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے وابستہ عوارضات اور  لوازمات۔مختصر یہ کہ تقوی کو اخلاقیات کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے یہاں یہ ذکرکرنا بہتر سمجھتا ہو ں کہ سب سے پہلے ہمیں تقوی کی حقیت کو سمجھنا ہوگا کیونکہ عصر حاضر کا جوان تقوی کا نا م سنتے ہی فرار کرنے لگتا ہے اسکی نظر میں تقوی کسی ایسی سنگین شئی کا نام ہے جو اس کے لئے قابل حمل نہیں ہے اسکی وجہ صاف ہے یاتوتقوی کا مفہوم صحیح طریقے سے واضح نہیں ہو ا یا پھر اسکا صحیح معنی سمجھنے میں اشتباہ ہو رہا ہے تقوی کو ئی خطرناک شئی نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کا نام تقوی ہے اور بس۔

الف۔ امام علی مدینہ کے لوگوں سے بیعت کے دوران فرماتے ہیں:’جو زمانے کے حوادث اور انقلابوں سے۔ جو اس شخص کے دور میں رونماہوتے ہیں۔ عبرت حاصل کر تا ہے تقوی اور پرہیز گاری اسے شبہات میں گر جانے سے با ز رکھتی ہے …آگاہ ہو جاؤتقوی اور پرہیز گاری ایک آرام اونٹ کی طرح ہے جس کی لگام اسکے سوار کے ہاتھ میں ہو تی ہے جو اپنے صاحبو ں کو سوار کرتا ہے اور انہیں جنت میں وارد  کر تا ہے …وہ محکم اساس جو تقوی پر استوار ہو کبھی ہلاک نہیں ہو تی اور قوم کی زراعت اسکی وجہ سے پیاسی نہیں رہتی.

ب۔التقی رئیس الاخلاق[2] سيد الشريف رضي ، نہج البلاغہ ، ج1 ، ص 548تقوی اخلاق کا سردار ہے۔

ج۔اوصیکم بتقوی اللہ[3]سيد الشريف رضي ، نہج البلاغہ ج1 ، ص 284.

میں تمہیں تقوی الھی کی وصیت کرتاہوں…

د۔لاخیر فی شئی من ازواد ھا الا التقوی[4]سيد الشريف رضي ، نہج البلاغہ ج1 ، ص 165.دنیا کی کسی چیز میں خیر و نیکی نہیں ہے سواے تقوا کے۔

پس تقوی او رپرہیز گاری انسان کو ہر برائی سے دور رکھتی ہے انسان کے کردار ،گفتار اور رفتار میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے آج کے دور کا انسان کتنا عاری ہے اس انسان صفت چیز سے ۔کتنی ضرورت ہے آج ایسے تقوی کی جو انسان کو فساد اور تباہی کے اس منجلاب سے نجا ت دلاکے بھشت کا راہی بنا دے۔

Views: 6

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حدیث یوم