loading

{حدیث یوم}

پڑوسی کے حقوق  واہمیت

تدوین:بلال حسین

رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بڑوسی کی اہمیت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے فرمارہے ہیں:كُلُ‏ أَرْبَعِينَ‏ دَاراً جِيرَانٌ‏ مِنْ‏ بَيْنِ‏ يَدَيْهِ‏ وَ مِنْ‏ خَلْفِهِ‏ وَ عَنْ‏ يَمِينِهِ‏ وَ عَنْ‏ شِمَالِه؛ [1] كلينى ، محمد بن يعقوب ،الكافي ج 2 ، ص 669۔

ترجمہ:

چاروں طرف(دائیں بائیں آگے پیچھے) چالیس چالیس گھر انسان کے ھمسایہ شمار ہوتے ہیں۔

شرح حديث:

انسان کا اپنےوالدین ،اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کےعلاوہ  سب سے زیادہ واسطہ وتعلق لین دین  کا مسابقہ ہمسایوں اور پڑوسیوں  سے بھی ہوتاہےاور اس می خوشگواری وناخوشگواری  کا زندگی کےچین و سکون اور اخلاق کےاصلاح وفساد اوربناؤبگاڑپربہت گہرااثرپڑتاہے۔رسول خداﷺ پڑوسی کی اہمیت کو مدنظررکھتےہوئےفرمارہےہیں:چاروں طرف(دائیں بائیں آگےپیچھے)چالیس چالیس گھر انسان کےھمسایہ شمارہوتےہیں۔

رسول خداﷺ کی حدیث کی روشنی میں اپنےگھر کےاطراف کےچالیس گھروں  کو پڑوسی کہاجاتاہےتوان ۱۶۰گھروں  کی بانسبت ہماریذمہ داری بھی اتنی ہی سخت ہوجاتی ہے۔معصومین ؑ کی احادیث طی روشنی میں ان ۱۶۰ گھروں  کاخیال کرناہمارےدینی ذمہ داری بنتی ہے،اگرکوئی ان گھروں میں پریشان ہےاوران کے بارے میں سوال کیاجائیگا۔آج کے دور میں ہم پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ نہیں دیتے،بلکہ لوگوں کےنزدیک یہ کوئی دین کاتقاضا ہی نہیں ،اکثرلوگ عبادات نماز،روزہ ،حج،وغیرہ کوہی بس دین سمجھتے ہیں،لیکن اگرمعصومین ؑ کی احادیث  اور سیرت کا مطالعہ کیاجائےتو ہمیں سمجھ میں آئیگا کہ اسلام نے پڑوسی کےلئےکتنے زیادہ حقوق رکھیں ہیں،جیساکہ رسول خداﷺ  اس میں ارشادفرمارہےہیں:  َ:قالَ أَ تَدْرُونَ مَاحَقُّ الْجَارِ قَالُوا لَا قَالَ إِنِ اسْتَغَاثَكَ أَغَثْتَهُ وَ إِنِ اسْتَقْرَضَكَ‏ أَقْرَضْتَهُ‏ وَ إِنِ افْتَقَرَ عُدْتَ عَلَيْهِ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ وَ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ وَ إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ وَ إِنْ مَاتَ تَبِعْتَ جَنَازَتَهُ وَ لَا تَسْتَطِيلُ عَلَيْهِ بِالْبِنَاءِ فَتَحْجُبَ الرِّيحَ عَنْهُ إِلَّا بِإِذْنِه‏؛[2] شهيد الثاني، مسكن الفؤاد، ج 1 ، ص 114۔

رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا تم لوگ جاتنے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ ان لوگوں نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا: ھمسایہ وہ ہے کہ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو ان کی مدد کرو، اور اگر وہ تم سے قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، اور اگر اس کو کسی چیز کی ضروری ہے تو اس کی ضرورت کو پورا کرو،  اور اگر اس پر کوئی مصیبت آئی ہے تو اس کی تسلیت پیش کرو، اور اگر اس کے ساتھ کوئی اچھی چیز ہوئی تو اسے مبارک باد پیش کرو، اور اگر وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت کو جائے اور اگر مرجائے تو اس کی  تشیع جنازہ میں شرکت کرو اور اپنے مکان کی حدوں کو اس کی طرف نہ بڑھاؤ اور ھوا  کا رخ  اس پر بند نہ ہونے دو»

Views: 4

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حدیث یوم
اگلا مقالہ: حديث يوم