loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۷}

حکومت ِ اسلامی کا ایک ہدف تمدن اسلامی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

کسی بھی حکومت کو ہم اس کے اہداف سے پہچان سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جمہوری حکومت کا ہدف جمہور کی رضا حاصل کرنا ہے، اسی طرح سے اسلامی حکومت ہےکہ اس کا بھی ایک ہدف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت آ جاۓ تو وہ کیا کرے گی؟ اس کے سامنے کون سے اہداف ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے یہ حکومت بنی ہے؟ کیا اسلامی حکومت بنانا ہی خود ہدف ہے؟ یا ہدف کچھ اور ہے؟ مثلا پاکستان میں انقلابی طبقہ اسلامی حکومت لانے کی بات کرتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان کا ہدف فقط اسلامی حکومت لانا ہے اور بس؟ یا اصلی ہدف کچھ اور ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ حکومت اسلامی خود ہدف نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت لا کر کسی اور ہدف تک پہنچنا ہے۔اس مطلب کو ہم نہج البلاغہ کے متعددخطبات اورمکتوبات میں بھی  موجود پاتے ہیں۔ جس میں امیرالمومنینؑ خود حکومت کو ہدف قرار نہیں دیتے بلکہ کسی اور ہدف تک پہنچنے کے لیے اس کو وسیلہ قرار دیتے ہیں۔[1] سیدرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۳۔ [2] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۳۔

لقاء الہی اور ارتقاء کی طرف حرکت

اسلامی حکومت کا پہلا ہدف معاشروں کو لقاء الہی کی منزل تک پہنچانا ہے۔ انسانیت کا حقیقی کمال حکومت اسلامی کا ہدف ہے۔ حق اور عدالت کا قیام اس حکومت کا ہدف ہے۔ اس حکومت میں معاشرے اللہ کی طرف بڑھتے ہیں، اجتماعی طور پر حرکت میں ہیں۔ یہاں پر ہم تاکید سے بیان کر رہے ہیں کہ حکومت اسلامی میں معاشرے اجتماعی طور پر اللہ کی طرف بڑھیں گے، انفرادی طور پر بعض افراد کا کمال تک پہنچنا مقصود نہیں۔  کیون کہ اگر انفرادی طور پر ہی کمال تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے تو حکومت کی ضرورت نہیں ہر معاشرے میں ہی انفرادی طور پر بعض افراد حقیقی کمال کو پہنچے ہوۓ ہیں۔ اس کے لیے تو حاکم اسلامی کی ضرورت نہیں بلکہ عام پیر فقیر اور آستانوں پر یہ کام ہو رہا ہے۔ اسلامی حکومت اس لیے ضروری ہے کہ وہ اجتماع کو ہدایت کرتی ہے اور یہ کام آ کر کرتی ہے کہ لوگوں کو اللہ کے نزدیک کرنے کے موانع کو دور کرتی ہے اور پورا معاشرہ الی اللہ حرکت کرتا ہے۔ فرض کریں ایک دفعہ مثلا مسجد میں کوئی چھپ کر عبادت کر رہا ہے اور پورا محلہ اپے کام کام میں لگا ہوا ہے۔ لیکن ایک دفعہ آپ دیکھتے ہیں کہ پورے شہر کے لوگ جمع ہیں ہر طرف سے  «خلصنی من النار یا رب»کی صدائیں بلند ہیں اور گلی گلی روحانیت کا ماحول ہے لوگ اپنے معبود کو پکار رہے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں فرق ہے۔ اسلامی حکومت افراد کی اجتماعی تربیت کرتی ہے اور ان کو لقاء الہی کی طرف گامزن کرتی ہے۔

تبدیلی لانے کے لیے حقیقی انقلاب کی ضرورت

جس حرکت کی ابھی بات ہو رہی ہے اور معاشرے کو اس سمت میں لے جانے کا بیان ہوا ایسی تبدیلی کے لیے انقلاب کی ضرورت ہے۔ یعنی جتنا پاکستان کا نظام فاسد ہو چکا ہے بنیادی تبدیلی لاۓ بغیر آپ معاشروں کی سمت بدل نہیں سکتے۔ ابھی آپ دیکھ سکتے ہیں پاکستانی معاشرے کی سمت کس طرف ہے؟ جو نعرہ جمہوری حکومتیں لگاتی ہیں اس کی طرف عوام بھاگے چلی جاتی ہے۔ کیا ایک الیکشن، یا چند علماء کے پارلیمنٹ جانے یا بعض اداروں کو ٹھیک کر دینے سے یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف آپ کو انقلاب چاہیے کیونکہ اگر اس کے بغیر آپ کسی تبدیلی کی کوشش کریں گے تو یا تو آپ کو قتل کر دیا جاۓ گا، غائب کر دیا جاۓ گا۔ حکومت اسلامی سے پہلے آپ کو انقلاب کی چاہیے جو اس فاسد نظام کو جڑ سے کاٹ پھینکے۔ یہ گندگی بغیر انقلاب کے صاف نہیں ہو سکتی اور انقلاب بھی حقیقی معنوں میں جو جڑوں سے گندگی کو صاف کرے اور نئی بنیادوں کو قائم کرے۔

حکومت اسلامی پہلا ہدف قرب الہٰی

حکومت اسلامی کا پہلا ہدف خدا ہے۔ دیگر حکومتوں اور اسلامی حکومت کا بنیادی فرق یہی ہے کہ اسلامی حکومت کی اولین ترجیح عوام نہیں ہے۔ اگر ایک طرف ملک قوم اور عوام کا مفاد ہے اور دوسری طرف دین تو اسلامی حکومت کیا کرے گی؟ جواب واضح ہے وہاں پر ملکی مفاد کو قربان کر کے دین کو محفوظ کیا جاۓ گا۔ اس کے برعکس غیر اسلامی حکومتیں ہیں ان کا اولین ہدف ہی عوام اور ان کا رفاہ ہے۔ اگر دین، مذہب، اقدار اور عزت جاتی ہے اور غلامی کے نتیجے میں کوئی مفاد مل رہا ہے تو وہ سوچے بغیر اس غلامی کو قبول کرتے ہیں۔ یہی مسئلہ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کی تشکیل کے بعد ایران میں بھی پیش آیا۔ جب ملعون سلمان رشدی نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو امام خمینیؒ نے اس کے قتل کا فتوی دیا۔[3] آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔ بعض انقلابی افراد امام کی خدمت میں گئے اور کہا کہ اس فتوی کو واپس لے لیجیے ورنہ ایران پر پابندیاں لگ جائیں گی اور دنیا تعلقات ختم کر دے گی، ملکی اور ایرانی مفاد اس میں ہے کہ ہم اس مسئلے میں خاموشی اختیار کریں۔ وہاں پر امام خمینیؒ نے واضح طور پر فرمایا کہ یہ انقلاب اور سب قربانیاں اسلام کی راہ میں دی گئی ہیں اگر اسلامی اقدار اور رسول اللہﷺ کی شخصیت پر کوئی حرف آتا ہے وہاں ایران کو نہیں دیکھا جاۓ گا ہمیں اسلام اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھنا ہے اس کے لیے اگر ایران قربان ہوتا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن دوسری طرف جمہوری یا پادشاہی حکومتیں ہیں ان کے لیے ذاتی مفاد اہم ہوتا ہے اس لیے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اس میں مفاد ہے یا نہیں؟ دین کی بات بھی تب ہی کرتے ہیں جب مفاد ہو اگر مفاد حاصل نہیں ہوتا تو دین اور اقدار کو قربان کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔

اسلامی حکومت کا دوسرا ہدف تمدن اسلامی

دوسرا ہدف تمدن کو اسلامی بنانا ہے۔ جس تمدن اور ثقافت پر آج ہمارے معاشرے کھڑے ہیں وہ غیر اسلامی بنیادوں پر کھڑا ہے با الفاظ دیگر تمدن کی بنیاد مادی ہے۔ اگر تعلیم ہے تو مادی بنیادوں پر، اس وقت ہم آرام سے کہہ سکتے ہیں کہ تمام علوم کی اساس شیطانی ہے۔ حتی حوزوی علوم بھی مادی مفادات کی بنا پر حاصل کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں صرف یونیورسٹیاں اور کالحز صرف اس لیے نہیں چاہیں کہ وہاں سے پڑھے لکھے افراد نکلیں لیکن جونکہ ان کی تعلیم کی اساس ہی مادی تھی تو وہ باہر آ کر لوگوں کی مسیحائی کرنے کی بجاۓ عوام کو ہی لوٹیں۔ مثلا آج کا پڑھا لکھا طبقہ چاہے وہ ڈاکٹر یا انجینئر ہوں یا پڑھے لکھے استاد وہ کیا کرتے ہیں؟ کیا یہی لوگ عوام کو لوٹنے میں مصروف نہیں ہیں؟ آخر یہ لوگ کیوں؟ یہ تو ہیں بھی پڑھے لکھے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام ہی شیطانی اساس پر کھڑا ہے اب ایک شیطانی نظام سے فارغ التحصیل ہونے والے سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ انسانیت کی خدمت کرے بلکہ وہ وائرس یا ایٹم بم ہی بناۓ گا جس سے لاکھوں انسان کی جان خطرے میں پڑے گی۔ اسلامی حکومت آتی ہے اور تمدن و نظاموں کی اساس کو تبدیل کرتی ہے، انسانوں کی تربیت کرتی ہے اداروں کی بنیاد کو اسلامی کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی ادارے کا نام اسلامی رکھ دینے سے یا مسجد بنا دینے سے وہ ادارہ اسلامی ہو جاتا ہے، اسلامی حکومت صرف اداروں میں مسجد بنا دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس ادارے کی اساس اور فکر کو اسلامی کرتی ہے۔[4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۹تا۱۰۱۔

منابع:

Views: 25

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حکومت پر فائز حاکم اور عدل و انصاف
اگلا مقالہ: حکومت اسلامی کا اصل ہدف