loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۸}

حکومت اسلامی کا اصل ہدف

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

سیاسی احزاب حکومت کے حصول کے لیے مختلف نعرے لگاتی ہیں۔ اپنے اہداف عوام کے سامنے رکھتی ہیں اور اس طرح عوامی مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔ گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ اسلامی حکومت کا پہلا ہدف انسان کو اس کمال تک پہنچانا ہے جس تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالی نے اسے خلق کیا ہے۔ اسے مصنف نے حکومت اسلامی کا ہدفِ عالی کہا ہے۔

اہدافِ حکومت کا بیان اور اس کی اہمیت

جب تک ہم حکومت اسلامی کا ہدف واضح طور پر سمجھ نہیں لیتے اور اس کی اہمیت عوام میں اجاگر نہیں کرتے اس وقت تک عوامی حرکت شروع نہیں ہو سکتی۔ اہداف اور خوش نما نعرے آج کی سیاست میں بہت تاثیر گذار ہیں۔ وطنیت اور آزادی ایک نعرہ ہے جو جنگ عظیم اول اور دوم میں لگایا گیا اور پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس کا معنی مبہم رکھا گیا کسی کو بھی علم نہ تھا کہ وطن کیا ہے اور اس کی حدود کیا ہیں؟ یا آزادی کیا ہے کس سے آزادی حاصل کرنی ہے؟ انہوں نے کروڑوں افراد اسی نعرے کی زد میں قتل کر دیے۔ پوری دنیا میں ہی اس کا شکار ہےحتی اسلامی ممالک میں مبہم نعرے لگا کر عوام کو فریب دیا جاتا ہے اور اس طرح بدترین حکومتیں اپنے لیے جواز اور مشروعیت کے اسباب پیدا کر لیتی ہیں۔ عوام بھی ان کا شکار ہو کر اپنے اصلی اہداف سے منحرف ہو کر ان نعروں کے پیچھے لگ جاتی ہے۔

حکومت اسلامی کے ہدف کی تبیین

ان سوالات کا جواب ڈھونڈھنا ہر مومن پر ضروری ہے؟ اسلامی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ اسلامی حکومت آ کر کیا کرے گی؟ اگر آپ کی نظر میں دنیا کے سارے نظام ہی باطل ہیں اور آپ الہی نظام لانا چاہتے ہیں اس میں ہوگا کیا؟ مثال کے طور پر اگر افغانستان، عراق یا پاکستان میں مکتب تشیع کی حکومت آ جاۓ تو وہ مکتب کیا کرے گا؟ کس ہدف کو حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا ریاست کے بڑے بڑے مسائل حل کریں گے؟ عوام کا رفاہ، ان کی امنیت، علاج اور تعلیم کے مسائل اور ان کے لیے سوسائٹی بنائیں گے؟ کیونکہ اگر آپ بھی یہی سب کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی اسلامی حکومت اور ان مغربی ممالک کی جمہوری حکومتوں میں کیا فرق ہوگا؟ ان مغربی حکومتوں نے تو سوسائٹی بھی بنا کر دے دی لوگوں کو رفاہ، امنیت اور تعلیم و علاج معالجے کی سہولیات بھی دی ہوئی ہیں۔ یہ کام تو غیر اسلامی جمہوری حکومتیں بھی انجام دے سکتی ہیں اور دے رہی ہیں تو پھر اسلامی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے حتی بعض افراد یہ کہتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں کہ جب امام زمانؑ تشریف لائیں گے ان کو اپنے قیام میں صرف مشرق وسطی اور بعض ایشیا کے فقیر ممالک میں محنت کرنا پڑے گی اور ان ممالک کا رفاہ، امنیت اور دیگر مسائل حل کرنا پڑیں گے، مغربی ممالک تو ویسے بھی ترقی یافتہ ہیں ان ممالک میں امام کو کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ جبکہ یہ بہت بڑا شبہہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں امام زمانؑ کے ظہور کے اہداف کا پتہ ہے اور نا ہی اسلامی حکومت کے اہداف کا؟ امام آ کر کیا کریں گے؟ اس کو کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ امام نے آ کر ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے ہدف ِعالی کو پورا کرنا ۔ خود اسلامی حکومت ہدف نہیں ہے بلکہ اس حکومت کے ذریعے جس ہدف عالی کو پورا کریں گے وہ ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے۔

معاشرہ سازی اور انسان سازی

اسلام انسان کے مادی مسائل کو حل کرنے یا سوسائٹی بنا کر دینے سے پہلے چاہتا ہے کہ معاشرہ سازی اور انسان سازی ہو۔ پھر بقیہ مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ دنیا میں جتنے بھی مسائل کا انسان شکار ہیں اس کی پیچھے وجہ یہ ہے کہ انسان خود سازی نہیں کرنا چاہتا۔ اپنے مادی مسائل حل کر رہا ہے لیکن جتنا سہولت اور رفاہ میں آتا جا رہا ہے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ مثلا پوری دنیا میں ہی طاقتور حکمرانوں کے اندر دوسرے ممالک کے حقوق پائمال کرنے کا جنون موجود ہے، معاشروں میں کرپشن عام ہے، نا امنی اور فقر ہے۔ ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟ کہاں سے ان مسائل کو ختم کیا جاۓ؟ مسائل کی جڑ کہاں ہے؟ مثال کے طور پر اگر آج ہی پاکستان میں کسی شیعہ عالم دین کو وزیر اعظم بنا دیا جاۓ اور سارے وزیر و مشیر ہی عادل اور نیک لوگ ہوں، مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ کابینہ ایسا کیا کرے جس سے سب مسائل ختم ہو جائیں؟ لا قانونیت کو کیسے ختم کریں؟ قانون تو موجود ہے اس پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ پولیس، فوج، عدالتیں اور بقیہ ادارے سب ہی موجود ہیں پھر بھی پاکستان میں امنیت اور انصاف کسی کو نہیں ملتا؟ اس کی پیچھے اصل وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارا معاشرہ اپنے نفس کا غلام بن چکا ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں کر لیتے اور انسان سازی نہیں ہو جاتی اصلاح ممکن نہیں۔ اگر آپ نفس کو کنٹرول نہیں کرتے اور انسان کو درون سے اصلاح نہیں کر لیتے ہزار قانون لے آئیں وہ کوئی نا کوئی طریقہ کرپشن کا نکال ہی لے گا۔ آپ جتنا کنٹرول کر لیں جب تک اس کے نفس کی اصلاح نہیں کر لیتے مسائل حل نہیں ہونگے۔

نفس کی اصلاح کیسے ہو؟

یہاں پر ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ نفس کی اصلاح کا کام بہت لمبا ہے؟ معاشرے میں ہزاروں لوگ ہوتے ہیں ان کے نفس کو ہم کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں اس میں تو ہزاروں سال لگ جائیں گے؟ ابھی کا کیا کریں؟ نفس کی اصلاح تو ہوتی رہے گی آج کا کیا کرنا ہے؟ اس کا جواب بھی مختصر ہے آپ اس تفکر کو رواج دیتے جائیں جتنا یہ تفکر پھیلتا جاۓ گا مسائل ختم ہوتے جائیں گے مثلا ہر چیز ہی حکومتوں پر نہ ڈال دیں۔ اپنے نفس کی حکومت اور اس کا اختیار تو خود آپ کے پاس ہے اس کی اصلاح کریں، اس کے بعد گھر کی حکومت ہے ، گھر میں تو آپ ہی بڑے ہیں ، بیوی بچوں میں تو عدالت قائم کریں۔ اگر اپنے نفس اور گھر میں اصلاح قائم کر دیں یہیں سے مسائل کا حل شروع ہو جاۓ گا۔ لیکن اگر ہم نے اپنے نفس اور گھرانے کی اصلاح نا کی جو کہ ہماری قدرت میں بھی تھا تب معاشرے کی بھی اصلاح نہیں کر سکیں گے۔ نفس کی اصلاح کے بغیر جب انسان معاشرے میں قدم رکھتا ہے اب فرق نہیں پڑتا وہ عالم ہو یا عام شہری، قاری ہو یا استاد، فاسق ہو یا دیندار شخص وہ اپنی مادیات کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوگا؟ عالم دین ہے تو وہ دین بیچے گا۔ قاری ہے تو قرآن بیچے گا۔ ڈاکٹر انجینیر یا آفیسر ہوا تو اپنی خدمات بیچے گا۔ اسی طرح سے اگر کوئی حکمران ہوا تو ملک و قوم بیچے گا۔ یہی فرق ہے اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت کا۔ اسلامی حکومت لوگوں کی اصلاح درون سے کرتی ہے اور اس سے بیرونی مسائل بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ غیر اسلامی جمہوری یا دیگر حکومتیں ظاہری طور پر انسان کے بیرونی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں لیکن کر نہیں سکتیں کیونکہ جب تک انسان کا اندرون اصلاح نہ پا جاۓ آپ اس کے جتنے بیرونی و مادی مسائل حل کرتے جائیں وہ بد سے بدتر ہوتا جاۓ گا۔

حکومت اسلامی کا ہدف متوسط

حکومت اسلامی کا دوسرا ہدف جسے مصنف نے ہدف متوسط قرار دیا ہے یہ ہے کہ اسلامی حکومت کو اسلام کے عنوان سے تشکیل دیا جاۓ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حجت الہی کی اطاعت سے انسان کمال تک پہنچے۔ انسان کا کمال اور حکومت اسلامی کا پہلا ہدف پورا نہیں ہو سکتا مگر وقت کی حجت کی اطاعت کے ساتھ۔ اس لیے نبوت اور امامت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ پورے معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور اصلاح ِنفس چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں مگر یہ کہ حاکم اسلامی ہو، نبی یا امام کے توسط سے یہ کام انجام پاۓ۔ ہماری بات انفرادی اصلاح یا چند اشخاص کی انسان سازی تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے اگر اصلاح چاہتے ہیں حتی یورپی معاشرے، ضروری ہے کہ وہ دین کے ذریعے، امامت و نبوت کے ذریعے اصلاح پائیں۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ لوگوں کی اصلاح کے لیے حکومت کی کیا ضرورت؟ تو کہا جاۓ گا کہ حکومت کے بغیر آپ انفرادی طور پر تو چند لوگوں کی اصلاح کر سکتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر پورے کے پورے معاشرے ایک جمع کی صورت میں اصلاح نہیں پا سکتے مگر یہ کہ اس معاشرے کی زمام حجت الہی کے ہاتھ میں ہو۔

انفرادی سوچ کی مذمت

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیشہ انفرادی سوچتے ہیں معاشرے کی اجتماعی صورت کو مدنظر نہیں رکھتے۔ انفرادی طور پر اپنی یا چند افراد کی اصلاح کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور معاشرہ دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں اور اس وقت متوجہ ہوتے ہیں جب پورا معاشرہ گمراہ ہو چکا ہوتا ہے اس وقت ان اصلاح شدہ افراد کا ہونا اور نا ہونا برابر ہو جاتا ہے۔ اس انفرادی سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ امام خمینیؒ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اس سوچ کو ابھار اور انفرادی سوچ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان سے پہلے حتی حوزہ جات قم اور نجف میں یہ سوچ پائی جاتی تھی، سیاست کو بد سمجھا جاتا تھا۔ اخبار پڑھنے والے عالم دین کو یا امت مسلمہ کی ابتری پر بات کرنے والے کو سیاسی مولانا کہا جاتا اور اس کو کوئی بھی مجتہد نہیں مانتا تھا جو اجتماعی مسائل کی طرف توجہ دلاتا۔ یہ تفکر آج بھی موجود ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں حکومتوں، سیاسی امور، اور اجتماعی مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے بس اپنی، گھر والوں کی اصلاح کر لی بہت ہے۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس تفکر کو نابود کیا، حمایت اور مخالفت کے معیار قرآن و سیرت آئمہ معصومینؑ سے نکال کر بتاۓ۔ حکمرانوں کی بداعمالیوں پر آواز بلند کرنا اور امت کے اجتماعی مسائل کی طرف ان کو متوجہ کروایا۔ اور بتایا کہ مؤقف کیا ہو؟ کس بنیاد پر ہم حاکم کی حمایت کریں؟ کیا حکمرانوں کی حمایت کریں بھی یا ان کے خلاف قیام کریں۔ کیا مفادات کی بنا پر ہر یزید فاسق فاجر شخص کی حمایت کرنا شروع کر دیں؟ مثلا اگر آل سعود آپ کو ڈالر دیتا ہے تو کیا اس کے نوکر بن جائیں؟ یا ملک و قوم کی عزت و وقار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جب تک ہم اجتماعی سوچ نہیں رکھتے حل نہیں ہو سکتے اور اسی طرح سے غلام رہیں گے۔ ان سب مسائل کا حل دین اسلام نے ذکر کیا ہے۔ آئمہ معصومینؑ کی سیرت موجود ہے ان حالات میں ان کا مؤقف ہمارے سامنے ہے۔

جہادِ تبیین اور رہبر معظم کا حکم

رہبر معظم  نے بطور ولی امر حکم جاری کیا ہے اور اس کی تعمیل سب پر فوری طور پر واجب ہے۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ دین کی تبیین کی جاۓ، ملکی مسائل کی تبیین اور تشریح کی جاۓ، امت مسلمہ جن مسائل کا شکار ہے ان کا راہ حل کیا ہے اس کی تبیین ہم سب پر واجب ہے۔ ان مسائل پر گفتگو کریں اور ان کا دین کی نظر میں حل تلاش کریں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں غربت و فقر کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ مسئلہ سود سے حل ہو رہا ہو تو کیا ہم سود کو قبول کر لیں؟ اگر پاکستان کے مسائل آل سعود کی غلامی کرنے سے حل ہوں تو کیا ہم غلامی قبول کر لیں؟ ابھی عام مسلمان یہ سوچتا ہے کہ چونکہ ابھی مسائل کا حل یہی ہے لہذا کوئی حرج نہیں، سود بھی قبول ہے اور غلامی بھی قبول ہے۔ جب امام آئیں گے تو خود ان مسائل کو حل کریں گے ابھی جیسے چل رہا ہے چلنے دو۔ یہ تفکر بہت خطرناک ہے دین اور مکتب کربلا یہ بتاتا ہے کہ اگر جان جاتی ہے تو چلی جاۓ لیکن باطل کو قبول نہیں کرنا۔ ہمیں ایسی اولاد نہیں چاہیے جو حلال حرام ہر طریقے سے ہمارے لیے باعث تسکین ہو بلکہ وہ اولاد چاہیے جو حق کا ساتھ دے۔ ہمیں ہر یزید کی حکومت میں ملنے والا رفاہ اور امنیت نہیں چاہیے بلکہ عزت اور وقار چاہیے۔ جو بھی مشکل ہے اس کا حل دین کی حدود میں چاہیے اگر ان حدود سے باہر نکلنا پڑے تو ایسا کوئی راہ حل نہیں چاہیے۔ سب مشکلات کو دین اور حجت الہی کے توسط سے حل کرنا ہے اور یہی اسلامی حکومت کا دوسرا بڑا ہدف ہے جسے ہم نے ہدف متوسط کہا۔ عوام کے دین اور رفاہ میں ٹکراؤ ہو جاۓ، امنیت اور عزت و وقار میں ٹکراؤ ہو جاۓ، وہاں پر جو کام امام حسینؑ نے کیا وہ کرنا ہے۔ امام حسینؑ نے خود کو، اپنی اولاد اور اصحاب کو قتل ہونے دیا لیکن دین کو بچا لیا۔

قرآن کریم میں حکومت اسلامی کا ہدف

قرآن کریم واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ دین کا اصلی ہدف نبی یا امام نہیں بلکہ خود اللہ تعالی کی ذات ہے۔ نبی، امام یا دین ہدف متوسط ہیں ان کا واسطہ ضروی ہے لیکن خود یہ بھی ہدف نہیں ہیں بلکہ عالی ہدف اللہ تعالی ہے۔ انبیاء کرام اور معصومینؑ اپنی ذوات کو دین اور خدا کے لیے قربان کرتے ہیں تاکہ امت عالی ہدف تک پہنچ سکے، امت کو اپنی ذوات تک پہنچانا ہدف نہیں ہے، اگرچہ یہ بھی ہدف متوسط ہے کہ امت حجت الہی تک پہنچ جاۓ لیکن یہ عالی ہدف نہیں بلکہ متوسط ہدف ہے۔ عالی ہدف تک پہنچنے کا یہ ذوات ذریعہ ہیں۔ باالفاظ دیگر ہدف متوسط سے ہدف عالی حاصل ہوگا۔جب امتیں حجت الہی تک پہنچ جاتی ہیں یہ ذوات ان کو اللہ تعالی کی ذات تک پہنچا دیتی ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
«إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلامُ».
ترجمہ: اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔[1] آل عمران: ۱۹۔
ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے:
«وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ ديناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ».
ترجمہ: اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔[2] آل عمران: ۸۵۔
سورہ حدید میں وارد ہوا ہے:
«لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْميزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ».
ترجمہ:  بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔[3] حدید: ۲۵۔
ایک بدترین سوچ ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے کہ دینداری صرف گھر میں ہے، دین کا اجتماعی امور سے کیا تعلق؟ مولانا صاحب کا سیاست سے کیا تعلق؟ فقہ کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے؟ مدارس دینیہ، قرآن، آئمہ معصومینؑ، مجالس محافل میں سیاست کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہمیں دنیا کے مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کے لیے دین کی ضرورت نہیں بلکہ ہم دنیاداروں سے پوچھ لیں گے یہی حکمران اور سیاستدان ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ دین، مولانا حضرات اور قرآن صرف مردے بخشوانے اور تعویذ گنڈوں کے لیے آۓ ہیں ان سب کا اجتماعی اور سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کریم اس سوچ کی شدت سے مذمت کرتا ہے اور انبیاء الہی کی بعثت کا ہدف ہی یہ بیان کرتا ہے کہ وہ اس لیے بھیجے گئے کہ لوگوں کے اندر میزان اور قسط یعنی عدل و انصاف کو قائم کریں۔ یعنی جو توقع ہم نے فاسق حکمرانوں سے رکھی ہوئی ہے اور وہ کبھی بھی اس توقع پر پورا نہیں اترے اور نا ہی اتر سکیں گے وہ کام انبیاء الہی کا وظیفہ ہے۔ اور ان کی اتباع میں علماء کرام کا یہ وظیفہ ہے۔ علماء انبیاء کرام کے وارث اور نائب ہیں ۔ انبیاء کی نیابت میں علماء کا وظیفہ ہے کہ وہ یہ کام انجام دیں۔یہ وہ حقیقی دین کی شکل ہے جو ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ تشیع کا معیار ختم کر دیا گیا۔ تشیع کی پہچان اور معیار ہی یہ تھی کہ انہوں نے پہلے دن سے غیر الہی حکمران کے انتخاب کو رد کر دیا اور امیرالمومنینؑ کی ولایت (حاکمیت)کو واجب قرار دیا۔ ہر دور میں تشیع نے اپنی پہچان حکمرانوں اور حکومتوں کی مخالفت کو قرار دیا۔ ہر دور میں حکومتوں کا سب سے بڑا مخالف شیعہ رہا ہے۔ کیونکہ اس کا مکتب اور امام یہ بتاتے ہیں کہ حکومت کرنے کا حق صرف امام کو حاصل ہے اس کے علاوہ اور کوئی بھی حاکم نہیں ہو سکتا۔ امام کی نیابت میں نائب امام ہیں جو زمانہ غیبت میں حاکم ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس دین کو فراموش کر دیا گیا ۔آج شیعہ کو سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی ہمیں بے وقوف بنانے کے لیے امریکہ دشمنی کا نعرہ لگاتا ہے ہم اس کے پیچھے لگ جائیں۔ ہم نے اندھا دھند اس کی حمایت نہیں کرنی۔ وہاں پر ہم عدل و انصاف کے معیار لائیں گے دشمنی اور دوستی کے وہ معیار لائیں گے جو تولی اور تبرا کے ذیل میں آئمہ معصومینؑ نے ہمیں سکھاۓ۔ یہ چیزیں انبیاء اور آئمہ ہمیں سکھا کر گئے ہیں وہ صرف معلم اور مسجد کے مولانا نہیں بن کر آۓ تھے بلکہ معاشروں کا تزکیہ نفس کرنے اور ان پر اللہ تعالی کی حاکمیت کے نفاذ کے لیے آۓ تھے۔[4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۹تا۱۰۱۔

منابع:

منابع:
1 آل عمران: ۱۹۔
2 آل عمران: ۸۵۔
3 حدید: ۲۵۔
4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۹۹تا۱۰۱۔
Views: 17

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حکومت اسلامی کا ایک ہدف تمدن اسلامی
اگلا مقالہ: مدینہ فاضلہ سے مراد