loading

تحرىفِ قرآن اور بعض علماءِ اہل سنت

تحرير : سيد محمد حسن رضوى

تحرىف كا مطلب كسى شىء مىں كمى ىا باہر سے كچھ اضافہ كرنا ہے ۔ اس كى دو قسمىں ہىں :
۱۔
تحرىف لفظى ۔
۲۔
تحرىف معنوى ۔
تحرىف لفظى ىعنى قرآنِ كرىم سے كوئى كلمہ ىا كوئى آىات ىا سورۃ نكال دى گئى ہو ىا اضافہ كر دى گئى ہو ۔ اہل تشىع ، اہل سنت اور تمام مسلمان فرقے قائل ہىں كہ قرآن كرىم مىں تحرىف لفظى واقع نہىں ہوئى ۔ البتہ صحاحِ ستہ اور دىگر بعض كتبِ احادىث مىں بعض صحابہ كرام جىسے حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت اُبى بن كعب ، ام المومنىن حضرت عائشہ ، حضرت عمر بن خطاب … كے بارے وارد ہوا ہے كہ ان بزرگان كے بعض نظرىات ’’تحرىفِ لفظى‘‘ پر دلالت كرتے ہىں ۔ لىكن ىہ رواىات ہمارے لىے قابل ِقبول نہىں ہىں كىونكہ ىہ احادىث ’’قرآن كرىم‘‘ اور احادىث متواترہ ، مثلاً ’’حدىث ثقلىن‘‘ سے ٹكراتى ہىں۔ پس ان رواىات كو صحىح السند ہونے كے باوجود ترك كر دىا جائے گا ۔ نىز دىگر موارد جن كو تحرىف كى غرض سے پىش كىا جاتا ہے تو ان كا تعلق ’’علومِ قرآنىہ‘‘ سے ہے ، جىسے سات قراءتوں كا مسئلہ ، بسم اللہ كا جزءِ سورہ ہونا ىہ نہ ہونا ، بعض خلفاء كا قرآنِ كرىم كے نسخوں كو جلانا، قرآنِ كرىم كو جمع كرنے كى كوشش كرنا …۔

فہرست مقالہ

خطرناك شبہ :

اس كے ذىل مىں اىك  شبہ اُبھارا جاتا ہے كہ ہم تسلىم كرتے ہىں كہ’’كتبِ احادىث‘‘ مىں صحىح السند رواىات آنے سے كوئى عقىدہ ىا نظرىہ ثابت نہىں ہو جاتا بلكہ اسے قواعد اور اُصولوں پر پركھنا پڑتا ہے۔  لىكن مشكل اس مورد مىں پىش آتى ہے جب قواعد اور اُصولوں كا استعمال كرتے ہوئے كوئى اہل سنت فقىہ و بزرگ ىا كوئى شىعہ مجتہد ’’تحرىفِ قرآن ‘‘ كا قائل ہو جائے !! اىسى صورت مىں ہم ىہ نہىں كہہ سكتے كہ صحىح السند رواىات ’’قرآن‘‘ سے ٹكرا رہى ہىں اس لىے قابلِ قبول نہىں بلكہ ىہاں تو باقاعدہ ان رواىات اور دىگر قرائن سے مدد لىتے ہوئے نظرىہ قائم كىا جا رہا ہے ؟ جىساكہ ہم دىكھتے ہىں كہ پانچوىں صدى ہجرى مىں اہل سنت مىں بعض اىسے گروہ وجود ركھتے تھے جو ’’تحرىف لفظى‘‘ كے قائل تھے جن كى طرف ’’ابن حزم‘‘ نے ’’الفصل‘‘ مىں متعدد مقامات اشارہ كىا ہے ۔ اسى طرح مفسرِ قرآن شىخ دىو بند انور شاہ كشمىرى نے بھى واضح الفاظ مىں تحرىف لفظى كا اقرار كىا ہے ۔ ان اقوال كو  اگر صحاحِ ستہ مىں وارد ہونے والى صحىح السند رواىات سے ملحق كىا جائے تو بآسانى كہا جا سكتا ہے كہ اہل سنت كے اِن علماء و اہل جماعت نے بخارى و مسلم كى صحىح السند احادىث پر علمى قواعد جارى كرتے ہوئے ’’تحرىفِ لفظى‘‘ كا نظرىہ اختىار كىا ہے ۔ پس ثابت ہو گىا كہ مسلمانوں كا اىك بڑا فرقہ قرآن كرىم مىں تحرىف كا قائل ہے اس لىے ىہ نہىں كہا جا سكتا كہ قرآنِ كرىم تحرىف سے پاك و منزہ ہے ؟
حقىقت ىہ ہے كہ ىہ محض اىك مغالطہ ہے كہ جوكہ دشمنانِ اسلام كى طرف سے ’’مسلمانوں‘‘ كے درمىان انتشار كى غرض سے پھىلاىا جاتا ہے ۔ ہم زىرِ نظر تحرىر مىں ثابت كرىں گے كہ اہل سنت ’’تحرىفِ لفظى‘‘ كے قائل نہىں ہىں اور چند افراد كے قائل ہو جانے سے تمام اہل فرقہ پر حكم نہىں لگاىا جا سكتا ۔ ’’قرآن كرىم‘‘ كى حقىقت كو مخدوش كرنے اور اس كى حقانىت كے حوالے سے شكوك و شبہات كھڑے كرنے كى اىسى ہى مذموم حركت سعودى تنخواہ خور،  بدنامِ زمانہ تنظىم ’’سپاہِ فساد‘‘ اور ’’ظہىر احسان الہىٰ ‘‘ كرتے رہے ہىں جن كا مقصد صىہونى اور اسرائىلى مقاصد پورا كرتے ہوئے عالمِ اسلام كو تفرقہ و جدال كى آگ مىں جھونك دىنا ہے ۔ ان شىطانى ہتھكنڈوں نے ’’تحرىفِ قرآن‘‘ كى تہمت مكتبِ اہل بىت  ^ كے پىروكاروں پر بھى لگائى اور اىسى احادىث كو بطورِ دلىل ذكر كىا جو شىعہ و اہل سنت ہر دو كے لىے قابلِ قبول نہىں ہىں ۔ صحابہ كرام كے نام پر بننے والى ىہ ’’سپاہِ فساد‘‘ آج بھى سعودى اخراجات سے عوام الناس مىں پروپىگنڈہ كر كے ان كے اذہان كو آلودہ كر رہى ہے ۔ اس شبہ كے جواب سے ان شاء اللہ ’’سپاہِ فساد‘‘ اور ’’ظہىر احسان الہٰى‘‘ كے كھڑے كردہ شبہات و ابہامات بھى دور ہو جائىں گے ۔

 اہل سنت اور تحريف كے قائل بعض علماء اور گروہ

       بلا شك و شبہ اہل تشىع كى مانند تمام علماء و محدثىنِ اہل سنت قائل ہىں كہ قرآن كرىم مىں كسى قسم كى تحرىف ِلفظى واقع نہىں ہوئى ۔ اىك ىا دو افراد كے قائل ہو جانے كى وجہ سے پورے فرقہ ىا گروہ كو موردِ الزام نہىں ٹھہراىا جا سكتا ۔ جہاں تك تحرىفِ قرآن كى نسبت علماء و گروہ كى طرف دىنے كى بات ہے تو ہم اوّلاً ’’اہل سنت علماء ‘‘ كے اقوال پىش كرتے ہىں اور اس كے بعد ان اقوال كا جائزہ لىں گے ۔ پہلا مرحلہ تىن حصوں مىں تقسىم ہوتا ہے :
حصہ اول : وہ علماء و فقہاءِ اہل سنت جنہوں نے اعلانىہ طور پر تحرىفِ لفظى كا اقرار كىا ہے۔
حصہ دوم : اہل سنت بزرگ صوفىاء جنہوں نے تحرىف لفظى كا اقرار كىا ہے ۔
حصہ سوم : وہ اہل سنت ماہرىنِ قرآنىات جنہوں نے تحرىف والى احادىث كو جمع كىا ہے۔

 حصہ اوّل:انور شاہ كشمىرى اور تحرىفِ قرآن

       فقہ حنفى سے تعلق ركھنے والے اہل سنت كے ممتاز اور ماىہ ناز شارحِ بخارى ’’ انور شاہ كشمىرى‘‘ جن كى مدح و ستائش مىں حنفىوں نے متعدد كتابىں اور ابواب تحرىر كىے ہىں اس نظرىہ كا واضح الفاظ مىں اقرار كرتے ہىں كہ نعوذ باللہ قرآنِ كرىم مىں دىگر آسمانى كتب كى مانند ’’تحرىفِ لفظى‘‘ واقع ہوئى ہے ۔ انور شاہ كشمىرى كے قول كو ذكر كرنے سے پہلے ان كا  اور ان كى بعض كتب كا اجمالى تعارف  قارئىن كے لىے مفىد ہو گا ۔

انور شاہ كشمىرى كون تھے ؟

       آپ كا نام ’’محمد انور‘‘اور والد كا نام ’’معظم شاہ الحسىنى‘‘ تھا۔ انور شاہ كشمىرى كى ولادت ’’16 اكتوبر 1875ء‘‘ مىں كشمىر كے اىك دىہات ’’بدودہ‘‘ مىں ہوئى ۔ كشمىر سے تعلق ركھنے كى وجہ سے انہىں ’’كشمىرى‘‘ كہا جاتا ہے۔ ابتدائى تعلىم اپنے والد اور شىخ غلام رسول ہزاروى سے حاصل كى اور 1892ء مىں سترہ سال كى عمر مىں تعلىم كى غرض سے ’’دىوبند‘‘ كى طرف سفر كىا۔ 21 سال كى عمر مىں شىخ رشىد گنگوہى اور شىخ الہند محمود الحسن سے اجازہِ حدىث وصول كىا اور اپنى سند كو ترمذى اور ابن عابدىن حنفى تك پہنچاىا ۔ 1903م مىں اپنے وطن كشمىر واپس لوٹے اور ’’فىض ِعام‘‘ كے نام سے اىك مدرسہ تاسىس كىا۔ 1915م مىں شىخ الہند محمود الحسن نے حجاز كى طرف سفر كىا اور وہاں طوىل قىام كرنے كى بناء پر انور شاہ كشمىرى كو اپنے مدرسہ مىں نائب مقرر كىا اور تمام دىنى و شرعى ذمہ دارىاں سپرد كر دى۔ كشمىرى 1932 م تك ان ذمہ دارىوں كو انجام دىتے رہے لىكن ’’بواسىر‘‘ كا شدىد نوعىت كا مرض لاحق ہونے كى وجہ سے واپس ’’دىوبند‘‘ منتقل ہونا پڑا ۔ انور شاہ كشمىرى كا حافظہ انتہائى قوى تھا جس كى بناء پر انہوں نے جلد علومِ قرآن و حدىث كا احاطہ كر لىا اور دار العلوم دىوبند مىں تدرىس كے فرائض انجام دىنا شروع كر دىئے ۔ انور شاہ كشمىرى اہل سنت مىں اپنى علمى اور فقہى وسعت كى بناء پر غىر معمولى حىثىت كے حامل سمجھے جاتے ہے اور آج بھى علماءِ دىو بند ان كى علمى بساط سے متاثر ہوتے ہوئے اپنے آپ كو زانوئے تلمذ سمجھتے ہىں۔ علماءِ دىوبند مىں ’’مولوى انور شاہ كشمىرى‘‘ كى حىثىت كا اندازہ ’’شىخ اشرف على تھانوى ‘‘ كے اس قول سے ہوتا ہے كہ اشرف على تھانوى بىان كرتے ہىں: مىرے نزدىك شىخ محمد انور شاہ كشمىرى كا   وجود بہترىن دلىل ہے كہ ’’اسلام‘‘ آسمانى دىن حق ہے ۔انور شاہ كشمىرى كا انتقال 1933ء مىں آدھى رات كے وقت معروف علاقے’’دىوبند‘‘ مىں ہوا جىساكہ ان كى قبر مىں نصب ’’كتبہ‘‘ مىں مذكور ہے ۔مفتى محمود سے نىچے والا كتبہ مولوى انور شاہ كشمىرى كا ہے ۔ تصوىر كو ڈان لوڈ كر كے ملاحظہ كىا جا سكتا ہے۔[1]انور شاہ کشمیری، ویکی پیڈیا۔

انور شاہ كشمىرى كى تصانىف:

       انور شاہ كشمىرى كى متعدد تصانىف ہىں جن مىں سے زبانِ زد و عام درج ذىل ہىں :
۱۔ فىض البارى فى شرح صحىح البخارى :انور شاہ كشمىرى كى ىہ كتاب ان دروس كا مجموعہ ہے جو ان كے شاگرد ’’محمد بدر عالم مىرٹھى‘‘ نے تحرىر كىے ہىں اور اس كى توثىق و تصدىق كے لىے اپنے استاد سے مسلسل رابطے مىں رہتے ہوئے آخرى شكل عطا كى۔ ’’محمد بدر عالم ‘‘ نے ’’البدر السارى‘‘ كے نام سے اس كتاب پر حاشىہ تالىف كىا ہے جوكہ علماءِ دىوبند مىں انتہائى اہمىت كا حامل ہے ۔ انور شاہ كشمىرى نے اصل كتاب اور حاشىہ ہر دو پر اپنى توثىق اور تصدىق ان الفاظ مىں ضبط كى ہے :{إنّ أخَانَا فِي اللهِ الذَّكِيَّ الزَكِيَّ الأَحْوَذِيَّ ، المكَّرم المُفخَّم المولويَّ ، بَدْرَ الَعَالَمَ بن الحاجَّ النَاسِكَ تَهور عَلِي ، قَدْ اشْتَغَلَ عَلَيَّ بـِ جَامِع الترمذي ، والجامع الصحيح للإمام الهمام البخاري رفع الله درجاتهما في أعلى علّيّين ، وقرأهما وسمع منّي ثلاث مرّات فِي نحو ثَلاثَ سِنين ، وعَلَّقَ عَنِّي أشياء ، وذاكر معي وراجع؛ راہِ خدا مىں ہمارے بھائى – ذكى ، زكى ، احوذى، مكرم و مفخم و مولوى – ’’بدرِ عالم بن حاج متقى تہور على‘‘ مىرے پاس جامع ترمذى اور امام ہمام بخارى كى جامعِ صحىح كے درس مىں مشغول رہے ہىں ، اللہ ان دونوں كے درجات اعلىٰ علىىن مىں بلند فرمائے ، اور بدر عالم نے ان دونوں كتابوں كو پڑھا ہے اور تىن سالوں مىں تىن مرتبہ مجھ سے سُنا ہے اور مجھے سے كسبِ فىض كرتے ہوئے اس پر تعلىقہ تحرىر كىا ہے، وہ اس سلسلے مىں مجھے سے مسلسل رابطے مىں رہے اور مراجع كرتے رہے ہىں ۔}. ىہى وہ كتاب مىں ہے جس مىں انور شاہ كشمىرى نے واضح الفاظ مىں قرآنِ كرىم اور تمام آسمانى كتابوں مىں تحرىف  لفظى و معنوى كا اقرار كىا ہے ۔ قابل توجہ نكتہ ىہ ہے كہ ’’مولوى بدرِ عالم‘‘ نے ان كلمات كے ذىل مىں حاشىہ نہىں لگاىا اور نہ ہى كسى قسم كى تشوىش ، شك و شبہ اور حىرت و تعجب كا اظہار نہىں كىا ہے ۔ا س سے معلوم ہوتا ہے كہ كشمىرى كا ىہ نظرىہ ان كے شاگردوں مىں كسى حىرت كا باعث نہىں بنا ۔       انور شاہ كشمىرى كى دىگر كتب درج ذیل ہیں:
۱۔ العرف الشذي من جامع الترمذي ۔
۲۔
فصل الخطاب فى مسئلة أمِّ الكتاب ۔
۳۔
التصريح بما تواتر فى نزول المسيح ۔[2]انور شاہ کشمیری، بنوریہ سائٹ۔

انور شاہ كشمىرى كا تحرىف كا  اقرار :

       انور شاہ كشمىرى اپنى ماىہ ناز تالىف ’’فىض البارى فى شرح صحىح البخارى‘‘ مىں حضرت عبد اللہ ابن عباس كے قول كے ذىل مىں تحرىف ِ لفظى كے واقع ہونے كا اعتراف ان الفاظ مىں كرتے ہىں : واعلم أنَّ في التحريف ثلاثةُ مذاهبَ : ذهب جماعةٌ إلى أن التحريفَ في الكتب السماوية قد وقع بكُلِّ نحو في اللفظ والمعنى جميعًا، وهو الذي مال إليه ابنُ حَزْم ، وذهب جماعةٌ إلى أن التحريف قليلٌ ، ولعلَّ الحافِظَ ابنَ تيميةَ جنح إليه، وذهب جماعةٌ إلى إنكارِ التحريف اللفظي رأسًا ، فالتحريفُ عندهم كلُّه معنوي.قلت: يَلْزَمُ على هذا المذهب أن يكونَ القرآنُ أيضًا مُحرَّفًا : فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فيه أيضًا. والذي تحقَق عندي أن التحريفَ فيه لفظيُّ أيضًا، أما إنه عن عمد منهم، لمغلطة. فالله تعالى أعلم به ؛ جان لو كہ تحرىف كے مسئلے مىں تىن مذاہب ہىں : اىك گروہ كا نظرىہ ىہ ہے كہ آسمانى كتابوں (تورات، زبور اور انجىل) مىں لفظ اور معنى ہر دو قسم كى تحرىف واقع ہوئى ہے ۔ ىہ وہ نظرىہ ہے جس كى طرف ’’ابن حزم‘‘ كا رجحان تھا۔ دوسرے گروہ كے نزدىك ان كتابوں مىں قلىل طور پر تحرىف واقع ہوئى ہے ۔ اس نظرىہ كى جانب ’’ابن تىمىہ‘‘ كا مىلان تھا ۔تىسرے گروہ نے آسمانى كتابوں مىں سرے سے تحرىفِ لفظى كى نفى كى ہے ، ان كے نزدىك تمام تحرىف ’’معنوى‘‘ ہے۔مىں كہتا ہوں (ىعنى انور شاہ كشمىرى) : اس مذہب كے نظرىے كے مطابق قرآنِ كرىم مىں بھى تحرىف واقع ہوئى ہے :بے شك ’’تحرىفِ معنوى‘‘ قرآنِ كرىم مىں بہت سے جگہوں مىں واقع ہوئى ہے ۔اور بتحقىق مىرے نزدىك ’’قرآنِ كرىم‘‘ مىں بھى تحرىفِ لفظى واقع ہوئى ہے ۔قرآنِ كرىم مىں تحرىفِ لفظى ىا تو عمداً جان بوجھ كر انجام دى گئى ہے ىا كسى مغالطہ كى بناء پر ، پس اللہ تعالىٰ اس بارے مىں زىادہ علم ركھنے والا ہے  ۔[3]کشمیری،محمد  انور شاہ، فيض الباری فی شرح صحيح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔          بعض علماءِ دىو بند جیسے مفتی تقی عثمانی اور دیگر  اعلام نے ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ كے ان كلمات كى مختلف تاوىلات كى ہىں ۔[4]فتاوی عثمانی، ج ۱، دیوبندی بک سائٹ۔  علماءِ اہل حدىث (سلفى) عموماً اسى حوالہ كو پىش كر كے دىوبند فرقہ كو مطعون كرتے ہىں اور صوفىاءِ نقشبندىہ سے تعلق جوڑتے ہوئے كفر كے فتاوى جارى كرتے ہىں۔ اہل حدىث جنہىں سلفى بھى كہا جاتا ہے وہ فرقہ ہے جن كے نزدىك ’’شىعہ ، برىلوى، دىوبندى ، اشاعرى اور ماترىدى‘‘ سب كافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہىں جىساكہ پرنٹ اور سوشل مىڈىا ان كى ذہنى تخرىب كارىوں سے بھرا پڑا ہے۔

كشمىرى كے كلام كى تشرىح

       انور شاہ كشمىرى نے ان مختصر سے كلمات مىں طوىل ابحاث كو سمو دىا ہے جو بلاشك و شبہ عربى ادبىات اور علومِ قرآنى و روائى پر كمال دسترس كى علامت ہے۔ علماء و محققىن كے نزدىك ’’تحرىف‘‘ كى دو اقسام ہىں جىساكہ قسطِ اول مىں تفصىلى تعارف گزر چكا ہے :
۱۔ تحرىفِ معنوى : ىعنى قرآنِ كرىم كے الفاظ سے اپنى رائے كے مطابق معانى لىنا ۔
۲۔
تحرىف لفظى : ىعنى قرآنِ كرىم كے الفاظ مىں كمى ىا زىادتى كر دى جائے تاكہ اس كے معانى ہم تك نہ پہنچ سكىں ىا ان سے اپنے مقاصد كے مطابق مطالب و معانى حاصل كىے جائىں ۔

’’تحرىفِ معنوى‘‘ اپنى جگہ مذموم اور انتہائى قبىح عمل ہے جس كى اسلام نے شدىد مذمت كى ہے ۔ لىكن اس قسم كى تحرىف سے قرآن كرىم كى آىات و كلمات اپنى جگہ محفوظ رہتے ہىں۔ تحرىف معنوى مىں قرآنِ كرىم كے الفاظ كو نہىں چھىڑا جاتا بلكہ ان كلمات سے خود ساختہ معانى مراد لىے جاتے ہىں۔ تمام مسلمانوں كے نزدىك عصرِ قدىم سے اس قسم كى تحرىف واقع ہوئى ہے اور مختلف گروہوں و جماعتوں نے اپنے نظرىات كے مطابق قرآنِ كرىم سے معانى حاصل  كىے ہىں  ۔جبکہ ’’تحرىفِ لفظى‘‘ وہ خطرناك صورت ہے جس كے نتىجے مىں كتابِ الہٰى سے استفادہ نہىں كىا جا سكتا ۔ ’’تحرىفِ لفظى‘‘ كا مطلب ىہ ہے كہ قرآن كرىم سے كوئى سورت ، ىا آىت ىا الفاظ نكال دىئے گئے ہىں ىا اضافہ كر دىئے گئے ہىں۔ ىہ ’’تحرىف‘‘ كى سب سے بدترىن صورت ہے۔ تمام مسلمانوں معتقد ہىں كہ قرآن كرىم مىں تحرىفِ لفظى واقع نہىں ہوئى كىونكہ اللہ سبحانہ نے اس كى حفاظت كا ذمہ اپنے سپرد لىا ہے اور اىسا كرنا مخلوق كى دسترس سے باہر ہے۔        ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ نے اپنى گفتگو كو دو حصوں مىں تقسىم كىا ہے :
۱۔ آسمانى كتابىں : تورات ، زبور، انجىل، مىں تحرىف كا واقع ہونا ۔
۲۔
قرآنِ كرىم مىں تحرىف كا واقع ہونا ۔ اس حصہ كى ابتداء ’’قلتُ‘‘ كے كلمہ سے كىا گىا ہے۔

 آسمانى كتابوں مىں تحرىف :

       ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ بىان كرتے ہىں كہ آسمانى كتابوں مىں تحرىف كے حوالے سے تىن قسم كے نظرىات ہىں :

{ پہلا نظرىہ } :

         تورات ، زبور اور انجىل مىں تحرىفِ لفظى بھى واقع ہوئى ہے اور تحرىف معنوى بھى ۔ قرآنِ كرىم مىں متعدد آىات بتاتى ہىں كہ ىہود و نصارىٰ آىاتِ الہٰى سے اپنى مرضى كے معانى حاصل كرتے اور لوگوں كى مرضى كے مطابق ان آىات كے معانى كو توڑ موڑ كر پىش كرتے تھے جس كو سُن كر لوگ خوش ہو جاىا كرتے تھے ۔ اس عمل كے نتىجے مىں ىہودى و عىسائى علماء كو عوام الناس سے كثىر مقدار مىں مال دولت اور پىسہ ملتا ۔ اسى طرح اہل ىہود اور نصارىٰ نے تورات ، زبور اور انجىل كے كلمات مىں ہىر پھىر كى اور كمى زىادتى كر كے انہىں اس درجے پر پہنچا دىا كہ ان سے استفادہ حاصل كرنا ممكن نہىں رہا ۔ اہل سنت علماء مىں ’’ ابن حزم ‘‘ اسى نظرىہ كے قائل تھے ۔ ابن حزم كا تعلق ظاہرى مكتب سے جو بالعموم متشدد اور متعصب ترىن علماء مىں شمار ہوتے ہىں۔[5]کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔

{ دوسرا  نظرىہ } :

       آسمانى كتابوں كے بارے ’’دوسرا نظرىہ ‘‘ىہ ہے كہ اس مىں قطعى اور ىقىنى طور پر تحرىف واقع ہوئى ہے ۔ لىكن ىہ تحرىف بہت بڑے پىمانے پر واقع نہىں ہوئى بلكہ بہت كم جگہىں اىسى ہىں جہاں لفظى ىا معنوى تحرىف نظر آتى ہے۔ اس نظرىے كى طرف ابن تىمىہ كا مىلان تھا ۔[6]کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔

تىسرا  نظرىہ } :

       اس نظرىہ كے مطابق ’’ آسمانى كتابوں ‘‘ مىں كسى قسم كى لفظى تحرىف واقع نہىں ہوئى ۔ اہل سنت كے اس گروہ نےتمام آسمانى كتابوں اور قرآنِ كرىم سے  تحرىفِ لفظى كا انكار كىا ہے ۔ بعض اہل سنت علماء كے اس نظرىے كا خطرناك نتىجہ ىہ نكلتا ہے كہ  ىہود اور نصارىٰ كى كتابوں مىں وارد ہونے والے متعدد قبىح اور پست نظرىات  وحىِ الہٰى اور تعلىماتِ حقىقى شمار ہو جائىں گے اور انہىں بطورِ دىن قبول كرنا پڑے گا ، جىسے’’  نعوذ باللہ اللہ تعالىٰ كا كشتى لڑنا ، ابنىاء ؑ كا گناہانِ كبىرہ انجام دىنا … العىاذ باللہ ‘‘ وغىرہ ۔ اس گروہِ اہل سنت كے مطابق آسمانى كتابوں اور قرآنِ كرىم مىں صرف ’’تحرىف معنوى‘‘ واقع ہوئى ہے۔ انور شاہ كشمىرى نے اس قول كے قائل علماء كے نام تحرىر نہىں كىے۔        آسمانى كتابوں مىں علماءِ اہل سنت كے اقوال اور نظرىات بىان كرتے بعد انور شاہ كشمىرى اپنى گفتگو كے دوسرے حصے كى طرف منتقل ہوتے ہىں جوكہ قرآنِ كرىم سے متعلق ہے ۔ كشمىرى نے اپنى گفتگو كا آغاز كلمہ ’’قُلتُ‘‘ سے كىا ہے ۔ ’’قلتُ‘‘ قال سے فعل ماضى كا۱۳صىغہ ہے جس كا اُردو ترجمہ ’’مىں كہتا ہوں ىا مىرا نظرىہ ىہ ہے ‘‘ بنتا ہے ۔ علمى ابحاث مىں مختلف نظرىات كو بىان كرنے كے بعد جب مصنف اپنا نظرىہ بىان كرنا چاہتا ہے تو وہ ’’قلت‘‘ كہہ كر اپنے نظرىے كو ذكر كرتا ہے ۔ انور شاہ كشمىرى نے  اسى علمى روش كو اختىار كرتے ہوئے تحرىف كے بارے متعدد نظرىات ذكر كىے ۔ جب سب نظرىات كى طرف مختصر كلمات سے اشارہ كر لىا تو ’’قرآنِ كرىم‘‘ كے بارے گفتگو كا آغاز كىا اور واضح كلمات كے ساتھ اقرار كىا كہ مىرے نزدىك قرآن كرىم مىں ’’تحرىفِ معنوى كے ساتھ ساتھ تحرىفِ لفظى‘‘ بھى واقع ہوئى ہے جوكہ جان بوجھ كر بعض نادانوں نے كى ہے ىا كسى مغالطہ كى بناء پر ىہ حادثہ پىش آىا ۔ [7]کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔

{ قُلْتُ }:

يَلْزَمُ على هذا المذهب أن يكونَ القرآنُ أيضًا مُحرَّفًا ، فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فيه أيضًا، والذي تحقَق عندي أن التحريفَ فيه لفظيُّ أيضًا، أما إنه عن عمد منهم، لمغلطة. فالله تعالى أعلم به[8]کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔ انور شاہ كشمىرى اپنے نظرىے كو ’’قلتُ‘‘ كے ذرىعے بىان كرتے ہىں۔ مندرجہ بالا عربى عبارت ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ كے كلمات ہىں ۔ ہم ان كلمات كو عنوان بناتے ہوئے مذكورہ تشرىح قارئىن كى خدمت مىں پىش كر رہے ہىں :{ يَلْزَمُ على هذا المذهب أن يكونَ القرآنُ أيضًا مُحرَّفًا ؛اس مذہب سے لازم آتا ہے كہ قرآن مىں بھى تحرىف واقع ہوئى ہے }،        انور شاہ كشمىرى كے ان كلمات مىں دو الفاظ قابل توجہ ہیں:۱۔   هذا المذهب ؛اس مذہب …، ۲۔   القرآن أيضا محرفا ؛ قرآن بھى تحرىف شدہ ہے…

هذا المذهب :

عربى زبان مىں ’’ هذا ‘‘ اسم اشارہ ہے جو كسى شىء كى طرف اشارہ كرنے كے لىے آتا ہے۔ سىاق و سباق كى روشنى مىں كہا جا سكتا ہے كہ ىہ ’’تىسرے نظرىے‘‘ كى طرف اشارہ ہے ۔ تىسرا نظرىہ ىہ تھا كہ تمام آسمانى كتابىں ’’تحرىفِ لفظى‘‘ سے پاك ہىں البتہ ’’تحرىفِ معنوى‘‘ ان مىں واقع ہوئى ہے۔ لہٰذا انور شاہ كشمىرى كہتے ہىں كہ ’’اس تىسرے مذہب سے لازم آتا ہے كہ …‘‘۔

القرآنُ أيضًا مُحرَّفًا :

ان كلمات مىں انور شاہ كشمىرى نے تىسرے مذہب سے حاصل ہونے والا نتىجہ بىان كىا ہے كہ قرآنِ كرىم مىں بھى تحرىف واقع ہوئى ہے۔ اگرچے اس مقام پر ’’ مُحرَّفًا ‘‘   كا كلمہ مطلق طور پر استعمال كىا ہے جو ’’تحرىفِ لفظى اور معنوى‘‘ ہر دو كو شامل ہے۔  لفظِ’’ قرآن ‘‘ چونکہ مفرد ہے اس لیے عربی قواعد کےمطابق اس كى طرف ’’مذكر‘‘ كى ضمىر لوٹے گی ۔ عربى قواعد وضوابط كے مطابق جب اىك اسم كو بىان كر دىا جائے اور اس كےمطابق گفتگو جارى رہے تو بقىہ گفتگو مىں اس كے نام كى بجائے ضمىر ذكر كى جاتى ہے۔ جىساكہ اگلى سطور مىں انور شاہ كشمىرى نے اسى اسلوب كى رعاىت كرتے ہوئے قرآنِ كرىم كے كلمہ كو بار بار ذكر كرنے كى بجائے ’’ هُ ‘‘ضمىر كو قرآنِ كرىم كى طرف لوٹاىا ہے۔ اس سىاق و سباق كے ساتھ انور شاہ كشمىرى قرآن كرىم كے بارے مىں تحرىفِ معنوى اور تحرىف لفظى كے بارے گفتگو شروع كر دىتے ہىں اور عربى زبان مىں ’’إنّ‘‘ جىسے تاكىدى و تحقىقى كلمات كو ذكر كرتے ہوئے اپنى رائے بىان كرتے ہىں ۔

تحرىفِ معنوى كے متعلق انور شاہ كشمىرى كا نظرىہ

انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:{ فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فيه أيضًا ؛ بے شك قرآنِ كرىم مىں بھى تحرىفِ معنوى تھوڑى واقع نہىں ہوئى }        ان كلمات مىں انور شاہ كشمىرى واضح طور پر بىان كرتے ہىں كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىفِ معنوى واقع ہوئى ہے۔ ىہاں تك انور شاہ كشمىرى ’’شىعہ و سنى‘‘ تمام مسلمانوں سے اتفاق كرتے ہىں۔ كشمىرى كى عربى عبارت مىں درج ذىل كلمات مدنظر ركھنے كى ضرورت ہے : ۱۔غَيْرُ قَلِيْلٍ ، ۲۔فِيْهِ ، ۳۔أَيْضًا ۔

{ غير قليل }:

انور شاہ كشمىرى بىان كرتے ہىں كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىفِ معنوى كثىر مواقع پر واقع ہوئى ہے ۔ اس بىان كے ذرىعے انور شاہ كشمىرى نے ’’دوسرے نظرىے اور ابن تىمىہ ‘‘ كى مخالفت مىں اپنى رائے پىش كى ہے۔ دوسرے نظرىے كے مطابق آسمانى كتابوں مىں قلىل مقدار مىں تحرىف واقع ہوئى ہے۔ انور شاہ كشمىرى كہتے ہىں كہ تحرىفِ معنوى قلىل نہىں بلكہ كثىر مقامات پر واقع ہوئى ہے جىساكہ بہت سے لوگوں نے آىاتِ قرآن سے اپنى مرضى اور رائے كے مطابق معانى حاصل كىے ہىں۔

{ فيه } :

’’ هُ ‘‘ ضمىر ِمتصل ہے جو ’’مفرد مذكر‘‘ كى طرف لوٹتى ہے۔ عربى زبان كا قاعدہ ہے كہ اگر جمع مكسر ىا مؤنث كى طرف ضمىر پلٹانا ہو تو ہمىشہ مؤنث كى ضمىر پلٹائى جائى گى جوكہ ’’ هَا ‘‘ ہے۔ قرآن ’’مذكر‘‘ كلمہ ہے اس لىے اس كى طرف مذكر كى ’’ هُ ‘‘ پلٹائى گئى ہے۔ اس بات كو ذكر كرنے كى ضرورت اس لىے پىش آئى ہے كہ بعض علماءِ اہل سنت نے كشمىرى كے قول كى تاوىل كرنے كى كوشش كى ہے اور كہا كہ ’’ فيه ‘‘ مىں ضمىر ’’كتبِ آسمانى‘‘ كى طرف لوٹ رہى ہے۔ لىكن ىہ تاوىل نہ عربى قواعد سے سازگار ہے اور نہ كلامِ مصنف كے سىاق و سباق سے۔اسی طرح بعض نے اس ضمیر کو حدیثِ عبد اللہ ابن عباس کی طرف پلٹایا ہےجوکہ درست نہیں ہے کیونکہ ضمیر میں قاعدہ ہے کہ وہ قریب کی طرف پلٹتی ہے اور ابن عباس کی حدیث کا تذکرہ کافی پہلے ہوا تھا۔        اُردو زبان مىں ’’ هُ – هَا، كَ، كِ … ، كى مانند اُس ، اُن، اِس، اِن، وہ ، آپ ، تم …‘‘ ضمىرىں كہلاتى ہىں۔ تمام زبانوں مىں ادبى اسلوب ىہ ہے كہ جب اىك نام ذكر كىا جائے اور اس كے بعد اسى ذات كے متعلق گفتگو جارى ركھى جائے تو ہر جگہ نام لىنے كى بجائے اىك بار نام ذكر كىا جاتا ہے اور اس كے بعد ضمىر كو ذكر كر كے وہ ذات مراد لى جاتى ہے، مثلاً ہم رسول اللہ ﷺ كے متعلق گفتگو كرتے ہىں تو دو طرز  اختىار كر سكتے ہىں : ایک مرتبہ ہم کہتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ پر قرآنِ كرىم نازل ہوا ، حضرت محمد ﷺ قرآن كرىم كى تعلىم دىا كرتے تھے۔ حضرت محمد ﷺ قرآن كرىم كو لكھواتے، حفظ كرواتے اور قرآنِ كرىم كے احكامات بىان كىا كرتے ۔ حضرت محمد ﷺ نے قرآنِ كرىم كا اہتمام كرنے كى خصوصى تاكىد فرمائى ۔       اس طرزِ كلام مىں اگرچے كوئى غلطى نہىں ہے لىكن اہل زبان اس كلام كو معىوب سمجھتے ہىں كىونكہ ہر جملہ مىں نام ذكر كرنے سے اكتاہٹ ، بے چىنى اور طبىعت پر سنگىنى و بھارى پن كا احساس ہوتا ہے ۔ عربى زبان مىں بھى اس طرح كا كلام معىوب سمجھا جاتا ہے۔ گفتگو کا دوسرا اسلوب یہ ہے کہ ایک مرتبہ نام ذکر کیا جائے اور اس کے بعد نام کی بجائے ضمیر ذکر کی جائے ، مثلاً ہم کہتے ہیں: حضرت محمد ﷺ پر قرآنِ كرىم نازل ہوا ۔ آپ ﷺ اس كى تعلىم دىا كرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس كو لكھواتے، حفظ كرواتے اور اس كے احكامات بىان كىا كرتے۔ آپ ﷺ نے اس كا اہتمام كرنے كى خصوصى تاكىد فرمائى ہے۔       دوسرے طرزِ كلام مىں ہم نے ملاحظہ كىا اىك بار ’’ رسول اللہ ﷺ اور قرآنِ كرىم‘‘ كا نام ذكر كرنے كے بعد ’’آپ – اُس‘‘ كى ضمىروں كا استعمال كىا گىا ہے اور بار بار نام لىنے سے گرىز كىا گىا ہے ۔ ىہ طرىقہ كار عربى زبان مىں خصوصى طور پر رائج ہے۔ عربى زبان كى لطافت اور فصاحت كو مدنظر ركھتے ہوئے انور شاہ كشمىرى نے بھى اس طرح كے اسلوبوں كى رعاىت كى ہے۔ چنانچہ آپ نے ’’قلت‘‘ كے بعد ’’قرآن‘‘ كا كلمہ استعمال كىا اور بقىہ سطور مىں ’’ هُ ( اس)‘‘ ضمىر كو استعمال كرتے ہوئے قرآن كى طرف لوٹاىا  ہے۔

اس طرف توجہ رہنا ضرورى ہے كہ عربى زبان مىں مذكر كى طرف ’’ هُ ‘‘ اور مؤنث كى طرف ’’ هَا ‘‘ كى ضمىر لوٹتى ہے ۔ پس ىہ نہىں كہا جا سكتا ہے كہ ’’ فِيهِ ‘‘ مىں ضمىر آسمانى كتب كى طرف لوٹ رہى ہے كىونكہ آسمانى كتب جمع مكسر ہىں اس لىے ان كى طرف مؤنث هَا ضمىر لوٹے گى ۔ اگر انور شاہ كشمىرى قرآن كى بجائے دىگر آسمانى كتب كے بارے گفتگو كر رہے ہوتے تو اس طرح عربى عبارت تشكىل دىتے : { فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فِيهَا أيضًا } ، لىكن انہوں نے ’’ فِيهَا‘‘ كى بجائے ’’فِيهِ ‘‘ ذكر كرتے ہوئے اس طرح عبارت تشكىل دى ہے: { فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فِيهِ أيضًا} جس مىں ’’ هُ‘‘ ضمىر قرآنِ كرىم كى طرف لوٹ رہى ہے نہ كہ آسمانى كتب كى طرف ۔

{ أيضا } :

نور شاہ كشمىرى نے جو عربى عبارت تشكىل دى ہے اس مىں كلمہ ’’ أيضًا ‘‘ استعمال كىا ہے۔ كلمہ ’’أيضًا‘‘ عربى زبان مىں فعل ’’ آضَ ۔ يَئِيْضُ ‘‘ سے ’’مفعول مطلق‘‘ ہے جو ’’تكرار‘‘ كے معنى مىں آتا ہے۔ اُردو مىں ’’ أيضًا ‘‘  كا ترجمہ ’’بھى‘‘ كىا جاتا ہے۔ عربى زبان مىں جب كلام كو سابقہ كلام كے ساتھ ملانا  اور ىہ بتانا ہو كہ موجودہ كلام گزشتہ سطور مىں بىان كردہ معانى سے موافقت ركھتا ہے تو اس كے لىے كلمہ’’ أيضًا ‘‘ استعمال كىا جاتا ہے، مثلاً  آپ نے كہنا ہو كہ گھر مىں جعفر كے ساتھ اس كا دوست تقى بھی آىا ہے تو آپ آ كر اس طرح اطلاع دىتے ہىں : گھر مىں جعفر آىا ہے اور اس كے ساتھ تقى بھى آىا ہے۔ اس مثال مىں ’’بھى‘‘ كے ذرىعے گھر آنے كے حكم مىں جعفر كے علاوہ ’’تقى‘‘ كو بھى شامل كىا گىا ہے۔ گھر مىں داخل ہونے كى خبر ’’جعفر اور تقى‘‘ دونوں كو شامل ہے۔ عربى زبان مىں گزشتہ حكم سے موافقت بتلانے كے لىے ’’أىضا‘‘ كو استعمال كىا جاتا ہے ۔       پس معلوم ہوا كہ انور شاہ كشمىرى نے ’’ أيضًا ‘‘ كے ذرىعے گزشتہ مذاہب كے نظرىات مىں سے تحرىفِ معنوى كے واقع ہونے كا حكم قرآنِ كرىم پر لگاىا ہے۔ جس پر ’’فيہ‘‘ اور ’’ أيضًا ‘‘ كے كلمات دلالت كر رہے ہىں۔ بعض علماءِ دىو بند نے اس مقام پر تاوىلات كرتے ہوئے ’’ فِيهِ ‘‘ كى ضمىر كو ’’كتبِ سماوىہ ‘‘ كى طرف پلٹاىا ہے جوكہ عربى قواعد كى صرىح مخالفت ہے ۔ ضرورى ہے كہ ہم اس مقام پر عربى قواعد كى رعاىت كرىں اور جس اسلوب كى ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ نے پورى كتاب مىں رعاىت كى ہے اس كو ىہاں بھى جارى كرىں۔

تحرىفِ لفظى كے متعلق انور شاہ كشمىرى كا نظرىہ

آسمانی کتب اور قرآن کریم میں معنوی تحریف کو ثابت کرنے کے بعد انور شاہ کشمیری دیو بندی لکھتے ہیں: { والذي تحقَّقَ عِندِي أنّ التحريفَ فيهِ لَفظِيّ أيضًا؛ اور جو مىرے سامنے ثابت ہوا ہے وہ ىہ ہے كہ  قرآن مىں بھى لفظى تحرىف واقع ہوئى ہے}. [9]کشمیری، محمد انور شاہ ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔          ان سطور مىں انور شاہ كشمىرى اپنى تحقىق ذكر كرتے ہوئے كہتے ہىں كہ ’’مىرا نظرىہ‘‘ ىہ ہے كہ قرآن مىں بھى لفظى تحرىف واقع ہوئى ہے۔ ان جملات مىں درج ذىل نكات كو مدنظر ركھنا ضرورى ہے :۱۔ تحقق عندى ، ۲۔فىہ، ۳۔لفظى۔

{ والذي تحقق عندي }:

ىہ كلمات درحقىقت گزشتہ تىن مذاہب مىں پاىا جانے والے اختلاف كى طرف اشارہ كرتے ہىں ۔ پہلے اور دوسرے نظرىے كے مطابق آسمانى كتب مىں تحرىفِ لفظى وارد ہوئى ہے جبكہ تىسرے نظرىے كے مطابق صرف تحرىفِ معنوى واقع ہوئى ہے۔ سوال ىہ پىدا ہوتا ہے كہ قرآنِ كرىم مىں كىا تحرىف واقع ہوئى ہے؟ اختلاف ہونے كى بناء پر تحقىق كى ضرورت پىش آئى اس لىے انور شاہ كشمىرى واضح و آشكار الفاظ مىں بىان كرتے ہىں كہ مىں نے جو تحقىق كى ہے اس كے بعد مىرے سامنے ىہ نتىجہ آىا ہے كہ قرآن مىں بھى نعوذ باللہ ’’تحرىفِ لفظى‘‘ واقع ہوئى ہے۔

{ أن التحريف فيه لفظي أيضا }:

اس عبارت مىں وہ اقرار موجود ہے جو انور شاہ كشمىرى كے نظرىے كو بىان كر رہا ہے۔ بعض علماءِ دىو بند نے ’’فيه‘‘ كے كلمہ مىں موجود ضمىر كو كتبِ سماوىہ كى طرف پلٹاىا ہے جو سراسر عربى قواعد كے مخالف اور سىاق وسباق كے منافى ہے۔جس طرح تحرىف ِ معنوى كى گفتگو كے دوران ’’فيه ‘‘ كى ضمىر قرآن كى طرف لوٹ رہى تھى اسى طرح اس مقام مىں بھى ’’ فيه ‘‘ كى ضمىر قرآن كى طرف ہى لوٹ رہى ہے ۔ اگر اس مقام پر ’’هُ ‘‘ ضمىر كا آسمانى كتب كى طرف لوٹانا صحىح ہے تو گزشتہ سطور مىں بھى ’’هُ ‘‘ ضمىر كو آسمانى كتب كى طرف ہى پلٹانا پڑے گا اور اس كے نتىجے مىں جہاں عربى قواعد اور سىاق سباق كى مخالفت لازم آتى ہے وہاں كلام بھى عبث اور لغو ہو جاتا ہے كہ مصنف نے اچانك قرآن كا تذكرہ شروع كرنے كے بعد آسمانى كتب كى بات شروع كر دى جبكہ واضح طور پر كلام ’’قرآن كرىم‘‘ كے متعلق ہو رہا ہے۔

بعض علماءِ دىو بند نے ىہ احتمال بھى دىا ہے كہ ممكن ہے انور شاہ كشمىرى كى كتاب مىں ىہ پىراگراف اضافہ كر دىا گىا ۔ لىكن ىہ احتمال بعىد ہے كہ كىونكہ انور شاہ كشمىرى كے بعد ان كے شاگرد طوىل مدت قىدِ حىات رہے ۔ اگر كشمىرى صاحب كى كتاب مىں تحرىف لفظى كا نظرىہ من گھڑت اضافہ ہوتا تو محمد بدر عالم مىرٹھى حاشىہ لگا كر تصرىح كر دىتے  كہ مىرے استاد كا ىہ كلام ىا نظرىہ نہىں ہے ۔ بذاتِ خود مصنف ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ كے بقول انہوں نے تىن مرتبہ اس كتاب كو پڑھاىا اور شاگرد محمد بدر عالم مىرٹھى نے اسے پڑھا ۔ اگر اس مقام پر كوئى شكوہ شكاىت ىا اعتراض ہوتا تو كشمىرى صاحب اسے بىان كرتے ۔ نىز ىہ كتاب پرانى چھاپ كے علاوہ دار العلمىہ بىروت اور دار البىضاء سے تحقىق كے ساتھ چھپ چكى ہے۔ اگر ىہ اضافہ ہوتا تو اس نئى چھاپ مىں اس كو برطرف كر دىا جاتا اور اہل سنت پر اس تہمت كا ہمىشہ كے لىے خاتمہ كر دىا جاتا ۔ تمام علماءِ دىو بند كا باقاعدگى سے اس كو قبول كرنا دلالت كرتا ہے كہ تحرىفِ لفظى پر مشتمل ىہ كلمات مصنف ’’انور شاہ كشمىرى‘‘ كے ہى ہىں جنہوں نے اپنى ذاتى تحقىق كے نتىجے مىں اس نظرىہ كو صراحت اور اعلانىہ طور پر قبول كىا ہے۔        نىز كلمہ ’’أىضا‘‘ جو اردو مىں ’’بھى‘‘ كے معنى مىں آتا ہے ىہ بىان كرتا ہے كہ گزشتہ كے حكم سے ىہ حكم موافق اور اس كے عىن مطابق ہے۔ گزشتہ كلام ’’قرآنِ كرىم ‘‘ مىں تحرىفِ معنوى كے واقع ہونے كے بارے تھا جس مىں كشمىرى صاحب نے جرأت سے بىان كىا كہ اس مىں تحرىف معنوى واقع ہوئى ہے ۔ اس كے بعد تحرىفِ لفظى كى بارى آئى تو ’’اىضا‘‘ كے ساتھ گزشتہ كلام كے ساتھ موافقت پىدا كرتے ہوئے كہا كہ قرآن مىں ’’لفظى تحرىف‘‘ بھى واقع ہوئى ہے۔ گوىا انور شاہ كشمىرى نے پہلے نظرىے كو وسعت دىتے ہوئے قرآن كرىم كو بھى شاملِ حكم قرار دىا ہے ۔ آخرى سطور مىں آپ بىان كرتے ہىں كہ قرآن كرىم اور دىگر آسمانى كتب مىں لفظى اور معنوى تحرىف واقع ہونے كى وجہ دو ہو سكتى ہىں:
۱۔ بعض علماء نے جان بوجھ كر ىہ قبىح عمل انجام دىا ہے۔
۲۔
ىا كوئى اشتباہ ىا مغالطہ پىش آ جانے كى وجہ سے ىہ حادثہ پىش آىا ۔
ان دو وجوہات كے اختتام پر ’’ وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ بِهِ ‘‘ كے كلمات ذكر كىے ہىں جو بىان كرتے ہىں كہ ممكن ہے ان دو وجوہات كے علاوہ اور كوئى وجہ بھى ہو جسے اللہ تعالىٰ زىادہ بہتر جانتا ہے۔ ىہ احتمال بھى دىا جا سكتا ہے كہ انور شاہ كشمىرى نے ذاتى تحقىق اور جستجو كے بعد پہلے نظرىے كے دائرے مىں قرآن كو شامل كرنے مىں خطاء ىا غلطى كا امكان ہے جس كو بىان كرنے كے لىے ىہ كلمات ادا كىے ہىں ۔ عمومًا ىہ كلمات تب بىان كىے جاتے ہىں جب كسى مصنف كے سامنے شدىد اختلاف سامنے آئے اور وہ اپنى منفرد رائے كو ذكر كرتے ہوئے ’’جرأت ىا غلطى و اشتباہ‘‘ كا احتمال دے تاكہ بتا سكے كہ اس مىں تحقىق اور مزىد حقىقت آشكار كرنے كى گنجائش ہے ۔پس        گزشتہ سطور سے معلوم ہوا كہ انور شاہ كشمىرى واضح طور پر قرآنِ كرىم مىں ’’لفظى تحرىف‘‘ كے قائل تھے ۔ بعض لوگوں نے ان كے كلام كو توڑ موڑ كر پىش كرنے كى كوشش كى ہے جوكہ سعى لاحاصل ہے كىونكہ ان كى ذاتى تاوىلات سے عربى قواعد كى مخالفت اور كلام كے سىاق و سباق كى نفى ہوتى ہے جوكہ كسى طور پر مناسب نہىں ہے۔ پس شبہ پىش كرنے والوں كے بقول ثابت ہوا كہ اہل سنت خصوصاً دىو بند فرقہ قائل ہے كہ قرآن كرىم مىں تحرىفِ معنوى كے ساتھ ساتھ تحرىفِ لفظى بھى واقع ہوئى ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں كے درمىان ’’قرآن كرىم كا تحرىف پاك و منزہ ہونا‘‘ اتفاقى و اجماعى مسئلہ نہىں ہے۔

قرآن کریم کے خلاف سپاہ صحابہ کی کاوشیں:

      ’’سپاہِ فساد‘‘ اور ’’سلفى تكفىرى‘‘ گروہ ان حوالہ جات كو پىش كر كے قرآنِ كرىم مىں تحرىف كى فضا كو سازگار بنا كر خدمتِ اسرائىل و امرىكہ كرتے ہىں كىونكہ ىہ شبہات انہى گروہوں كى طرف سے اُبھارے ہوئے ہىں ۔ سپاہ صحابہ نے سب سے پہلے یہ مذموم حرکت کی کہ شاذ احادیث اور نادر اقوال جمع کر کے قرآن کریم کو مسلمانوں میں ایک اختلافی مسئلہ کے طور پر ظاہر کیا اور پھر تہمت لگائی کہ مکتب تشیع نعوذ باللہ قرآن کریم میں تحریفِ لفظی کی قائل ہے !! پھر خوب اس کا پروپیگنڈہ کیا۔ اس بناء پر پاکستان بلکہ پوری دنیا میں عالم اسلام متاثر ہوا اور اس موضوع کی احادیث کو پڑھا جانے لگا اور فرقہ واریت کی آگ بھڑک اٹھی کیونکہ اہل سنت کتب میں تحریف کے شواہد مکتب تشیع میں وارد ہونے والے موادِ علمی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح مکتب تشیع کی مانند اہل سنت میں بھی نادر اقوال پائے جاتے ہیں جیساکہ انور شاہ کشمیری صاحب کا نظریہ ہے۔ اس مقام پر ہم اىك قاعدہ سے مدد لىتے ہوئے تحریفِ قرآن کے باطل نظریہ کو ردّ کرتے ہیں۔ وہ قاعدہ ىہ ہے كہ ’’ تمام صحابہ، محدثىن اور علماءِ اعلام ‘‘ غىر معصوم ہىں اس لىے ان سے سہو، نسىان، خطاء اور غلطى ہو سكتى ہے۔ اس قاعدہ كو ’’ متعصب ترىن اہل سنت عالم ابن تىمىہ‘‘ پىش كرتے ہوئے صحابہ كرام اور فقہاء و تابعىن سے تحرىف كى تہمت دور كى ہے اور تحرىف والے نظرىات كو خطاءِ اجتہادى قرار دى ہے۔       شبہات كى دور كے حوالے سے ہمارے پاس دو اىسے قاعدے ہىں جو تمام كے تمام توہمات و شبہات كو ختم كر دىتے ہىں:
پہلا قاعدہ:قرآن سے ٹکراؤ
اس   کے مطابق ہر وہ حدیث جو قرآن کریم سے ٹکرائے وہ قابل قبول نہیں اور اس کا معنی معتبر نہیں ہو گا۔ چنانچہ
ہر وہ رواىت جو ’’قرآنِ كرىم‘‘ كے مخالف ہو ىا متواتر احادىث سے ٹكراتى ہو وہ قابل قبول نہىں، چاہے وہ بخارى و مسلم، مسند احمد یا صحاح ستہ  مىں وارد ہوئى ہو ىا اصولِ كافى و تہذىب الاحكام … مىں ۔ تحرىف كو ثابت كرنے والى جتنى احادىث و رواىات ہىں  وہ قابل قبول نہىں ۔
دوسرا قاعدہ: خطاء اجتہادی
دوسرے قاعدے كے تحت ہم اہل سنت علماء فقہاء كے ’’تحرىفِ لفظى‘‘ والے نظرىات كو اجتہادى غلطى قرار دىں گئے ۔
اگر اہل سنت كے كوئى امام ىا علماء ’’تحرىف‘‘ كے نظرىے كے قائل رہے ہىں تو ىہ ان كى علمى خطاء و اشتباہ ہے جس كى بناء پر انہوں نے واضح اور بدىہى حكم كى مخالفت كى ہے اور اىسے اشتباہات كا شكار ہونا علمى مسائل مىں كثىر ہے جىساكہ ابن تىمىہ نے تصرىح كى ہے۔ البتہ تحرىف كے قائل علماء چاہے اہل سنت محدثىن و علماءِ بزرگ مىں سے ہوں ىا كوئى شاذ و نادر قول شىعہ علماء مىں سے كسى عالم كا ہو وہ ’’مغالطہ، اشتباہ اور علمى خطاء‘‘ كى موجودگى كى بناء پر قابل قبول نہىں ۔ ان علمى خطاؤں كى بناء پر كسى بھى صورت ’’كفر و ارتداد‘‘ كا فتوى نہىں لگاىا جا سكتا جىساكہ ابن تىمىہ نے ’’مجموعة الرسائل والمسائل‘‘ مىں ذكر كىا ہے۔
قاعدہ دوم كى وضاحت:
       اگر كوئى عالم ’’اجتہاد‘‘ كرتے ہوئے خطاء كا شكار ہو جائے تو اسے ’’اىك اجر‘‘ ملتا ہے اور اگر وہ حقىقت تك پہنچ جائے اور درست رائے كو اختىار كرتا ہے تو اسے ’’دو گنا‘‘ اجر ملے گا۔ ’’اجتہاد‘‘ سے مراد معتبر دلىلوں كے ذرىعے سے كوئى نظرىہ قائم كرنا ہے۔’’اجتہاد‘‘ اپنى ذاتى رائےپر عمل كرنے كو  نہىں كہتے ،  جىساكہ بعض اہل سنت فقہى مذاہب مىں ’’قىاسِ فقہى‘‘ كے نام سے اجتہاد كى ىہ مذموم صورت ابھى تك رائج ہے۔ اجتہاد سے ہمارى مراد معتبر دلىلوں كے ذرىعے مبہم مسئلہ كو آشكار كرنا ہے ۔ نىز اجتہاد كى نوبت اس مقام پر آتى ہے جہاں كسى عالم كے لىے حقىقت مبہم ہو گئى ہو اور وہ اس حقىقت كو واضح كرنے كے لىے  تگ و دو اور بھاگ دوڑ كرے۔ اگر اىك مسئلہ واضح ہو اور ہر كسى كو معلوم ہو تو اىسى صورت مىں ہوا و ہوس اور حصولِ اقتدار كى غرض سے مخالفت كو اجتہاد كا نام نہىں دىا جا سكتا ، جىسے امام على ؑ كى خلافت و امامت اور ہمراہِ حق ہونا دوست دشمن سب كے لىے عىاں تھا لىكن شام كے باغىوں نے ہوا و ہوس اور حصولِ اقتدار كى بناء پر جنگ كو مسلمانوں پر مسلط كر دىا ۔ اىسى صورت مىں شام كے باغى كو مجتہد كہہ كر اىك اجر كا مستحق نہىں قرار دے سكتے ۔ كىونكہ شام كے باغىوں كے نزدىك حقىقت مبہم نہىں تھى اور نہ ہى كوئى اىسى آىت ، رواىت ىا قرىنہ موجود تھا جس كى بناء پر انہىں اجتہاد كى نوبت پىش آتى ۔ پس ثابت ہوا اجتہاد اس مقام پر ہو سكتا ہے جہاں حقىقت آشكار نہ ہو ، حكم واضح نہ ہو اور مجتہد شرعى دلىلوں كے ذرىعے سے حقىقت تك پہنچنے كى كوشش كرے۔

قرآنِ كرىم مىں ’’تحرىفِ لفظى‘‘ كے واقع ہونے ىا نہ ہونے مىں اىك عالم جىسے انور شاہ كشمىرى ، اس طور پر اشتباہ كا شكار ہو جاتا ہے كىونكہ بخارى ، مسلم اور دىگر معتبر كتبِ احادىثِ اہل سنت مىں اىسى رواىات كثرت سے آئى ہىں جو تحرىف كے نظرىے كو ثابت كرتى ہىں ۔ ان صحىح السند رواىات كى موجودگى اور بعض دىگر قرائن جىسے سات قرائتوں كا نظرىہ ، بسم اللہ كا سورت كا جزء نہ ہونا … كے ہونے كى وجہ سے انور شاہ كشمىرى اور بعض دىگر علماء كو ىہ اشتباہ لاحق ہوا كہ قرآن كرىم مىں تحرىفِ معنوى كے ساتھ ساتھ تحرىفِ لفظى بھى واقع ہوئى ہے۔ علماء و بزرگان چاہے صحابہ كرام مىں سے ہوں ىا تابعىن و محدثىن و متاخرىن و معاصرىن مىں سے ، ان علماء نے اجتہاد كرنے كے بعد اس رائے كو اختىار كىا ہے اس لىے  ان كو ’’ كافر‘‘ نہىں قرار دىا جا سكتا ۔ ىہ وہ رائے ہے جو ابن تىمىہ كے قول سے اخذ كى گئى ہے۔ ذىل مىں ہم ابن تىمىہ كا نظرىہ ان ہى كى زبانى پىش كر رہے ہىں۔

ابن تیمیہ کے مطابق خطاء کار کی عدم تکفیر

     ابن تىمىہ سے پوچھے گئے سوالات اور بعض موضوعات پر ان كى آراء كو ’’ مجموعة الرسائل والمسائل ‘‘ كے نام سے ۵ جلدوں مىں طبع كىا گىا ہے۔ اس میں ابن تیمیہ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اس امت کے افراد کثرت سے خطاء کا شکار ہوئے ہیں اس لیے ان کی خطاء پر ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ یہی وہ حل ہے جو ہم ایسے شیعہ و سنی علماء و بزرگان کے بارے میں کہیں گے جنہوں نے اجتہادی خطاء کی بناء پر قرآن میں تحریف کی باتی کی ہے۔ ابن تیمیہ اس كتاب كى تىسرى جلد مىں  بىان كرتے ہىں :{ قَدْ وَقَعَ الْخطأُ كَثِيراً لخلق من هذه الأمة ، وَاتَّفَقُوا عَلَى عدمِ تكفيرِ مَنْ أَخطَأ، مِثْل : مَا أنْكَرَ بَعْضُ الصَّحَابَةِ أنْ يكون الميتُ يَسمعُ نداءَ الحَيِّ، وَأنْكَرَ بعضُهُمْ أنْ يكونَ المعراجُ يقظةً ، ولبعضهم في الخلافةِ والتفضيل كلامٌ، وكذلك لبعضهم في قتالِ بعضٍ وتكفيرِ بعضٍ أقوالٌ معروفة، وكان القاضي شريحُ يُنْكِر قراءةَ مَنْ قرأ { بل عجبتُ } ، ويقولُ أنَّ اللهَ لا يعْجِبُ ، فَبَلَغَ ذَلَكَ إبراهيمَ النَّخَعِي ، فَقَالَ: إِنَّما شُرَيح شاعِرٌ يُعْجِبُه عِلْمُهُ، كَان عَبْدُ اللهِ أفَقْهَ مِنْهُ ، وَكَانَ يَقْرَأ { بل عجبت } ، فَهَذَا قَدْ أنْكَرَ قِرَاءَةً ثَابِتَةً، وَأنْكَرَ صِفَةً لله دَلَّ عَلَيْهَا الكتابُ وَالسُّنَّةُ، وَاتَّفَقَتِ الأمَّةُ عَلَى أنَّ شُرَيْحاً إمامٌ مِنَ الأئِمَّةِ ، وَكَذَلِكَ بعضُ العلماءِ أنْكَرَ حروفاً مِنَ القرآنِ كَمَا أنْكَرَ بَعْضُهُمْ: { أ ولم ييأس الذين آمنوا } ، فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ { أ ولم يتبين الذين آمنوا } ، وَآخَرُ أنْكَرَ { وقضى ربك أن لا تعبدوا إلا إياه } ، فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ { ووصَّى ربُّك } ، وبعضُهُمْ كَانَ حَذَفَ الْمُعَوَّذَتَيْن ، وَآخرُ يَكْتُبُ سُوْرُتَي الْقُنُوتِ، وَهَذَا الْخَطَأ مُعَفوٌ عُنْهُ بِالإِجْمَاعِ  … إِذا اجْتَهَدَ الْحَاكِمُ فَأَصَابَ فَلَهُ أجْرَانِ وإِذَا أخْطَأ فَلَهُ أجْرٌ؛ اس ’’اُمت‘‘ مىں اىك خلقِ كثىر خطا كا شكار ہوئى ہے ، تمام علماء و برزگان كا اتفاق ہے كہ خطا اور غلطى كا ارتكاب كرنے والے كو ’’كافر‘‘ قرار نہىں دىا جا سكتا ۔ مثلاًبعض صحابہ نے انكار كىا ہے كہ مىت ’’زندہ‘‘ كى پكار نہىں سُن سكتى،اور بعض صحابہ نے انكار كىا ہے كہ معراجِ نبى ﷺ حالتِ بىدارى مىں ہوئى تھى ،بعض صحابہ نے خلافت اور شىخىن كے افضل ہونے مىں كلام كىا ہے ،اسى طرح بعض صحابہ كے دىگر بعض صحابہ كے ساتھ جنگ و قتال اور بعض كو كافر قرار دىنے مىں اقوال و آراء معروف ہىں ،’’قاضى شرىح‘‘ اس آىت كرىمہ { بل عجبت } كے پڑھنے والے كى اس قراءت كا انكار كىا كرتا تھا اور كہا كرتا تھا : اللہ كبھى تعجب نہیں كرتا ، ىہ بات ’’ابراہىم نخعى‘‘ تك پہنچى تو انہوں نے كہا: ’’شرىح‘‘ صرف شاعر ہے جس كے علم نے اسے حىرت مىں مبتلا كر دىا ہے ، ’’عبد اللہ‘‘ شرىح سے زىادہ بڑا فقىہ تھا وہ اس آىت كرىمہ{ بل عجبت } كو انہى الفاظ كے ساتھ پڑھا كرتا تھا۔ پس قاضى شرىح نے محكم قراءت كا انكار كىا ہے ۔قاضى شرىح نے اسى طرح اللہ كى اس صفت كا انكار كىا ہے جس پر قرآنِ كرىم اور سنت دلالت كرتى ہے ، لىكن ان تمام انكار كے باوجود امت كا اتفاق ہے كہ ’’شرىح‘‘ آئمہ مىں سے امام ہے۔اسى طرح بعض علماء نے قرآن كے بعض حروف كا انكار كىا ہے ، جىسےبعض علماء نے اس آىت { أ ولم ييأس الذين آمنوا } كے بعض حروف كا انكار كىا ہے اور كہا ہے كہ ىہ آىت صرف اتنى مقدار مىں تھى : { أولم يتبين الذين آمنوا }۔بعض دىگر علماء نے اس آىت { وقضى ربك أن لا تعبدوا إلا إياه} مىں بعض حروف كا انكار كىا ہے اور كہا ہے كہ ىہ آىت صرف اتنى مقدار مىں تھى : { ووصَّى ربُّك } ۔بعض علماء ’’سورہ الفلق اور سورۃ الناس‘‘ كو قرآنِ كرىم سے حذف كر دىا كرتے تھے ،اور بعض علماء قنوت كى دو سورتوں (سورہ خلع اور سورہ حفد) كو قرآن مىں شامل كرتے تھے۔بلاشك و شبہ ىہ سب ’’خطاء‘‘ ہىں جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے جیساکہ تمام تمام علماء و برزگان اس بات کے قائل ہیں  }. [10]ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، مجموعۃ الرسائل والمسائل، ج ۳، ص ۱۴۔

       ابن تىمىہ نے اس موضوع كے تحت ان علماء و بزرگان كا دفاع كىا ہے جو اپنے اجتہاد كى بناء پر تحرىفِ لفظى كے قائل ہوئے ہىں۔ ’’پہلى قسط‘‘ مىں ہم نے صحاحِ ستہ اور دىگر معتبر كتب كى رواىات كا جائزہ لىا تھا۔ اس مرحلہ مىں ہم علماء كے اقوال اور اختىار كردہ نظرىات كا جائزہ لے رہے ہىں جس مىں بہترىن حل ’’ابن تىمىہ‘‘ نے پىش كىا ہے كہ تحرىف ِ لفظى كے قائل علماء ’’دلىلِ اجماع‘‘ كى بناء پر قابل معافى اور اجتہاد كرنے كى وجہ سے اىك اجر كے مستحق ہىں۔ابن تىمىہ كا ىہ قول اس لىے بھى قبول ہے كىونكہ اہل سنت اور اہل تشىع كى كتب مىں اىسى رواىات وارد ہوئى ہىں جو تحرىفِ لفظى كے نظرىے كى تائىد كرتى ہىں ۔ اس لىے ممكن ہے كوئى عالم ىا بزرگ ان رواىات كے دھوكے مىں آ جائے ۔ انور شاہ كشمىرى اور دىگر بزرگان نے صرف انہى صحىح السند رواىات اور بعض قرائن كى وجہ سے ’’تحرىف‘‘ كا نظرىہ قبول كىا ہے اگرچے ىہ رواىات ’’قرآن كرىم‘‘ كے مخالف ہونے كى بناء پر قبول نہىں كى جائىں گى۔قابل غور ’’نكتہ‘‘ ىہ ہے كہ انور شاہ كشمىرى ىا دىگر بزرگان نے صحىح السند رواىات پر اعتماد كرتے ہوئے ’’تحرىف‘‘ كا نظرىہ اختىار كىا ہے۔ اگر ىہ رواىات اور قرائن نہ ہوتے تو ىہ بزرگان كسى صورت اس مذموم نظرىے كو قبول نہ كرتے ۔       ابن تىمىہ نے اپنے قول كو دو حصوں مىں تقسىم كىا ہے :
۱۔ بعض صحابہ كرام كا انكار۔
۲۔
بعض بزرگ علماء كا انكار ۔
ان دونوں گروہوں كے مختلف انكار كو بىان كرنے كے بعد ابن تىمىہ نے واضح الفاظ مىں لكھا ہے كہ تمام علماء كا اجماع و اتفاق ہے كہ’’  صحابہ اور بعض بزرگ علماء ‘‘ نے اگرچے  قرآن و سنت كے اہم ترىن مسائل كا انكار كىا ہے لىكن اس كے باوجود وہ قابل عزت و احترام ہىں اور جو خطاء انہوں نے كى ہے وہ اللہ سبحانہ كى بارگاہ مىں قابل معافى ہے ۔ كىونكہ انہوں نے اجتہاد مىں غلطى كى ہے ۔ اجتہاد مىں غلطى كا ہمارے پاس كلىہ قاعدہ ہے كہ جو مجتہد اجتہاد مىں خطاء سے دوچار ہو وہ اىك اجر كا مستحق ہے اور جو صحىح رائے كو اختىار كرنے مىں كامىاب ہو جائے وہ دو اجر كا مستحق شمار ہو گا ۔

بعض صحابہ كرام اور تابعین كا انکار :

       ابن تىمىہ نے سب سے پہلے بعض صحابہ كے قابل اعتراض نظرىات كو بىان كرتے ہوئے پانچ مثالىں دى ہیں:
مثال اول :
وہ صحابہ كرام جنہوں نے اس حقىقت كا انكار كىا كہ مردے كسى ’’زندہ‘‘ كى نداء و پكار كو نہىں سُن سكتے ۔ ىہ مثال درحقىقت اس واقع كى طرف اشارہ ہے كہ اىك دن رسول اللہ ﷺ قبرستان تشرىف لے گئے اور وہاں مردوں سے ہم كلام ہوتے ہوئے باتىں كىں ، آپ ﷺ كے ہمراہ صحابہ نے حىرانگى كا اظہار كرتے ہوئے كہا كہ كىا ىہ مردے بھى سنتے سمجھتے ہىں ؟ آپ ﷺ نے ان صحابہ كى حىرانگى دور كرتے ہوئے باور كرواىا كہ ىہ سنتے سمجھتے ہىں لىكن عمل كى طاقت ان سے سلب كر لى گئى ہے۔ اس واقعہ كے رُونما ہونے كے باوجود بعض صحابہ كرام معتقد تھے كہ مردے كسى قسم كى آواز نہىں سُنتے۔
 مثال دوم :
       بعض صحابہ كرام قائل رہے ہىں كہ رسول اللہ ﷺ كو معراج ’’نىند كے عالم‘‘ مىں ہوئى تھى ۔ اس لىے ان صحابہ كرام نے معراج كا حالتِ بىدارى مىں واقع ہونے كا انكار كىا ہے۔ تمام اُمت معتقد ہے كہ رسول اللہ ﷺ كو معراج ’’بىدارى‘‘ كى حالت مىں نصىب ہوئى تھى ۔ لىكن اس واضح اور بدىہى امر كا انكار بعض صحابہ كرام نے كىا ۔
مثال سوم :
       بعض صحابہ كرام نے خلافت كے مسئلہ مىں شدىد اختلاف كىا ہے اور حضرت ابو بكر كى خلافت كا انكار كىا ، مثلاً سعد بن عبادہ بزرگ صحابى تھے جنہوں نے سقىفہ مىں بھى خلافتِ خلىفہ اول كا انكار كىا اور اس كے بعد شام چلے گئے اور سارى عمر خلافتِ ابى بكر كو قبول نہىں كىا ۔ ىہاں تك كہ ان كى شام مىں وفات ہو گئى ۔ اسى طرح امام على ؑ نے خلىفہ اول كى خلافت كو قبول نہىں كىا ۔ اہل سنت قائل ہىں كہ امام على ؑ نے چھ مہىنے كے بعد خلافت كو قبول كر لىا تھا ۔ جس كا نتىجہ ىہ نكلتا ہے كہ اہل سنت كے مطابق ىقىنى طور پر امام على ؑ نے خلافت ِ ابى بكر كا انكار كىا اور اىك مدت قائل نہىں رہے۔
مثال چہارم :
       بعض صحابہ كرام شىخىن كو افضلىت نہىں دىتے تھے بلكہ امام على ؑكو سب سے افضل جانتے تھے ، جىسے حضرت سلمان محمدى، حضرت ابو ذر غفارى ، حضرت مقداد ، حضرت عمار ، حضرت حذىفہ ىمانى ، حضرت بلال حبشى ، حضرت عبد اللہ ابن عباس رضى اللہ عنہم … ۔
مثال پنجم :
       بعض صحابہ نے بعض صحابہ سے جانى دشمنى اختىار كرتے ہوئے جنگ و قتال كىا اور اىك دوسرے كے خون كے پىاسے ہو گئے۔ اسى طرح بعض صحابہ دىگر بعض كو كافر قرار دىا كرتے تھے اور بعض دوسروں پر گالم گلوچ كو جائز قرار دىتے ، جىسے شام كے باغىوں نے امام على × اور اُن كے ہمراہ حق پرست صحابہ كرام سے جانى دشمنى كى ، ان كى تكفىر كرتے ہوئے گالم گلوچ كو رواج دىا ۔

بعض اہل سنت فقہاء و محدثىن كا انكار

       صحابہ كرام كے بعض قابل اعتراض نظرىات كو بىان كرنے كے بعد ابن تىمىہ معروف ’’ آئمہ اہل سنت ‘‘ كے انكار كو بىان كرتے ہوئےپانچ مثالىں چار عناوىن كے تحت  پىش كرتے ہىں جوكہ درج ذىل ہىں :

قاضی شریح کا انکار:

       اس ضمن مىں ابن تىمىہ سب سے پہلے ’’قاضى شرىح‘‘ جو كہ آئمہ فقہاءِ اہل سنت اور اكابر تابعىن مىں سے شمار ہوتے ہىں كے قابل اعتراض نظرىات بىان كرتے ہىں۔ ’’قاضى شرىح‘‘ قرآن كرىم سورہ الصافات آىت نمبر 12 كا انكار كىا كرتے تھے ۔ آىت كرىمہ بمع ترجمہ ىوں ہے :{ بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُون‏ ، بلكہ تم تعجب كرتے ہو اور وہ تمسخر اڑا رہے ہىں  }۔ [11]صافات: ۱۲۔۔ قاضى شرىح كہا كرتے تھے كہ اللہ تعالىٰ تعجب نہىں كرتا ۔ ابن تىمىہ بىان كرتے ہىں ([9]) كہ قاضى شرىح كے اس نظرىہ كى خبر ’’ابراہىم نخعى‘‘ كو پہنچى تو انہوں قاضى شرىح كى خوب خبر لى اور كہا  قاضى شرىح درحقىقت شاعر ہے جس كا علم اسے تعجب مىں ڈال دىتا ہے اور وہ اىسى باتىں كرنے لگ جاتا ہے۔ ’’عبد اللہ ابن مسعود ‘‘ جوكہ قاضى شرىح سے بڑے فقىہ ہے وہ اس آىت كو اسى طرح پڑھا كرتے تھے البتہ ’’عجبت‘‘ كى تاء پر پىش كىا كرتے تھے۔ ابن تىمىہ تصرىح كرتے ہىں كہ اس سے ثابت ہوا كہ قاضى شرىح نے ثابت اور متواتر قراءت كا انكار كىا ۔ قاضى شرىح كے اس انكار كى وجہ سے ىہ بھى لازم آتا ہے كہ اس نے اللہ تعالىٰ كى اىك صفت ’’تعجب‘‘  كا انكار كىا ہے جو كہ قرآن كرىم اور سنت كے مطابق اللہ تعالىٰ كى صفت ہے ۔ 

بعض بزرگان اہل سنت علماء کا قرآن کے الفاظ و کلمات کا انکار کرنا

       قاضى شرىح كے بعد ابن تىمىہ دوسرے گروہ كى طرف آتے ہىں كہ جنہوں نے قرآن كرىم كے بعض كلمات كا انكار كىا ہے ۔ ان گروہ كى دو مثالىں ذكر كى ہىں:
مثال اول :
       بعض بزرگ علماءِ اہل سنت نے سورہ رعد آىت 31 كے كلمہ ’’ يَيْأَسِ ‘‘ كا انكار كىا ہے اور اس كى جگہ كلمہ ’’يَتَبَيَّن‘‘ قرار دىا ہے ۔ سوره رعد كى آىت كرىمہ ہے :{ أَ فَلَمْ يَيْأَسِ الَّذينَ آمَنُوا‏ }ىہ علماء كہا كرتے تھے كہ ىہ آىت اس طرح تھى :{ أَ فَلَمْ يَتَبَيَّن الَّذينَ آمَنُوا‏ }
مثال دوم :
       بعض بزرگ اہل سنت علماء نے سورہ اسراء (بنى اسرائىل ) آىت 23 مىں كلمہ ’’قضى‘‘ كا انكار كىا ہے اور اس كى بجائے كلمہ ’’وصّى‘‘ قرار دىا ہے۔ سورہ اسراء كى آىت 23 ہے: { وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاه }اس آىت سے بعض اہل سنت علماء نے كلمہ ’’قضى‘‘ ہٹا كر كلمہ ’’وصى‘‘ لكھا ہے اور ىوں آىت درج كى ہے :{ وَ وَصَّى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاه }       پس ىہ علماء ’’تحرىفِ لفظى‘‘ كے مرتكب ہوئے كىونكہ انہوں نے قرآنِ كرىم كے بعض كلمات كو نكال كر ان كى جگہ بعض دىگر كلمات ركھ دىئے ۔ ابن تىمىہ كے نزدىك ىہ بعض قرآنى كلمات كا صرىح انكار ہے۔

بعض اہل سنت کا سورہ الفلق اور سورہ الناس قرآن سے نكال دىنا:

       ابن تىمىہ تىسرے مرحلے مىں اس شدىد اختلاف كو ذكر كرتے ہىں جو بزرگ صحابى عبد اللہ ابن مسعود اور دىگر صحابہ كے درمىان قائم تھا۔ عبد اللہ ابن مسعود شدت سے ان دونوں سورتوں كا انكار كىا كرتے تھے جىساكہ پہلى قسط مىں تفصىلى طور پر بخارى اور دىگر كتبِ احادىث كے حوالہ جات كے ساتھ بىان ہو چكا ہے۔ابن تىمىہ كے نزدىك سورہ الفلق اور سورہ الناس كا انكار كرنا خطاء اور غلطى ہے جوكہ صرىح طور پر ’’تحرىفِ لفظى‘‘ كے نظرىے كو قبول كرنا ہے۔ لہٰذا عبد اللہ بن مسعود كا آخرى عمر تك قائم نظرىہ ان كى ذاتى رائے تھى ۔

صحابہ و تابعین كا دو سورتوں كا اضافہ كرنا

صحابہ كرام كى طرف سے بعض وہ آىات پىش كى گئى تھىں جو انہوں نے اپنے زعم مىں قرآن كرىم كا حصہ قرار دىا تھا جبكہ وہ قرآن كرىم مىں نہىں ہىں ، جىسے آىتِ رجم جسے حضرت عمر ، حضرت ابى بن كعب اور ام المومنىن نے قرآن كا حصہ قرار دىا جبكہ وہ قرآن مىں موجود نہىں ہے، ىا آىتِ رضاعت عشر جسے ام المومنىن نے قرآن كى آىت كے طور پر پىش كىا جبكہ تمام مسلمانوں كے نزدىك ىہ كسى دور مىں قرآن كرىم كا حصہ نہىں رہى ، ىا حضرت ابى بن كعب سورہ احزاب جس كى آىات 73 ہىں كو سورہ بقرہ جتنا طوىل قرار دىتے تھے … ۔ ىہ تمام مثالىں آىات كے اضافہ جات كے باب مىں ہىں۔        ابن تىمىہ نے آىات كے اضافہ كى مثالىں پىش نہىں كىں بلكہ آىات سے بڑھ كر سورتوں كا نكالنا اور اضافہ كرنے كى مثالىں پىش كى ہىں۔ سورتوں كے نكالنے كے باب مىں ’’سورہ الفلق اور سورہ الناس‘‘ كى مثال پىش كى جاتى ہىں جبكہ جن سورتوں كو قرآن كرىم مىں اضافہ كر كے قرآن قرار دىنے كى كوشش كى گئى وہ دو سورتىں ہىں:
۱۔ سورہِ خلع ۔
۲۔
سورہِ حفد ۔
بعض صحابہ كرام كہا كرتے تھے كہ ىہ دونوں سورتىں قرآن كرىم كا حصہ ہىں اور قرآن كرىم كے جو نسخے حضرت اُبى بن كعب ، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد ابن عباس كے پاس موجود تھے ان مىں ىہ سورتىں موجود تھىں، جىساكہ طبرانى نے اپنى معجم مىں، بىہقى نے اپنى سنن مىں  اور ابن ابى شىبہ نے اپنى ’’مصنَّف‘‘ مىں ان رواىات كو ذكر كىا ہے۔ ان رواىات كے مطابق ’’ سورہ خلع اور سورہ حفد‘‘ كو حضرت عمر قنوت مىں پڑھا كرتے تھے۔ اس لىے ان دونوں سورتوں كو ’’قنوت كى دوسورتىں‘‘ كہا جاتا ہے جىساكہ ابن تىمىہ نے اپنے قول مىں اشارہ كىا ہے۔ سىوطى نے اپنى تفسىر’’در منثور‘‘ مىں ان دونوں سورتوں كے ماجرے كو ذكر كىا ہے اور اہل سنت كى معتبر كتب احادىث مىں وارد ہونے والى تمام اسانىد و رواىات كو بىان كىا ہے۔ ان متعدد رواىات مىں سے اىك رواىت بطورِ مثال پىش خدمت ہے جس مىں ’’سورہ خلع‘‘ اور ’’سورہ حفد‘‘ نام كى من گھڑت سورتىں درج ہىں جنہىں خلىفہ ثانى حضرت عمر قنوت مىں پڑھا كرتے تھے ۔ بعض رواىات كے مطابق حضرت اُبى بن كعب كے پاس قرآنِ كرىم كے موجود نسخے مىں سورہ الناس كے بعد ىہ دو سورتىں اضافہ تھىں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود صحابى بزرگ كا قوى اعتقاد تھا كہ ىہ دونوں سورتىں قرآن كا حصہ ہىں ۔ در المنثور مىں جلال الدىن سىوطى رقمطراز ہىں  كہ عبد اللہ بن عبد الرحمن نے اپنے والد سے نقل كىا ہے :{ قَالَ : صليت خلف عمر بن الخطاب ، فلمَّا فَرَغَ من السورة الثانية قال : اللَّهُمَّ إِنَّا نَستَعِينُك وَنَستَغفِرُكَ وَنُثنِي عَلَيكَ الخَيرَ كُلَّهُ ، وَلَا نُكفِّرُكَ وَنَخلَعُ وَنَترُكُ مُن يَفجركَ ،  اللَّهمَّ إيَّاك نَعبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسجُد وإليك نَسعَى ، ونحفد نرجو رحمتك ونخشى عذابك إن عذابك بالكفار ملحق ، وفي مصحف ابن عباس قراءة أبى وأبى موسى: بسم الله الرحمن الرحيم اللهم انا نستعينك ونستغفرك ونثني عليك الخير ولا نكفرك ونخلع ونترك من يفجرك ، و في مصحف جحر :  اللّهمّ إنا نستعينك؛ في مصحف ابن عباس قراءة أبى و أبى موسى :{ اللّهم إياك نعبد و لك نصلى و نسجد و إليك نسعى و نحفد نخشى عذابك و نرجو رحمتك ان عذابك بالكفار ملحق } عبد اللہ كے والد بىان كرتے ہىں كہ ہم نے عمر بن خطاب كے پىچھے نماز پڑھى ، حضرت عمر جب ركعت كى دوسرى سورت سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے كہا:

 سوره خلع:

اہل سنت کتب میں یہ سورہ وارد ہوئی ہے جوکہ موجودہ قرآن میں نہیں پائی جاتی ۔ اس کے الفاظ درج ذیل ہیں: { اللَّهُمَّ إِنَّا نَستَعِينُك وَنَستَغفِرُكَ وَنُثنِي عَلَيكَ الخَيرَ كُلَّهُ ، وَلَا نُكفِّرُكَ وَنَخلَعُ وَنَترُكُ مُن يَفجركَ ، بارِ الہاٰ ! بے شك ہم تجھ سے مدد مانگتے ہىں اور تجھ سے مغفرت طلب كرتے ہىں اور تمام خىر مىں تىرى مدح و ستائش كرتے ہىں ، اور نہ تىرا انكار كرتے ہىں اور اُس سے كنارہ كش ہو جاتے ہىں اور اسے چھوڑ دىتے ہىں جو تىرى معصىت كرتا ہے   } ابن عباس كے قرآنى نسخے مىں ’’ اُبى ‘‘ اور ’’ابى موسىٰ‘‘ كى قراءت كے ساتھ ىہ سورتىں اس طرح وارد ہوئى ہىں:

 سوره حفد

اہل سنت کتب میں ایک سورہ بنام سورہ حفد وارد ہوئی ہے جوکہ موجود قرآن کریم میں نہیں ہے: { اللَّهمَّ إيَّاك نَعبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسجُد وإليك نَسعَى ، ونحفد نرجو رحمتك ونخشى عذابك إن عذابك بالكفار ملحق  ؛بارالہاٰ ! ہم صرف تىرى ہى عبادت كرتے ہىں اور تىرے لىے ہى نماز و سجدہ كرتے ہىں اور تىرى طرف سعى و كوشش كرنے والے ہىں اور تىرى رحمت كى اُمىد ركھتے ہىں اور تىرے عذاب سے بچتے ہىں بے شك تىرا عذاب كفار سے ملحق ہونے والا ہے۔}

       پس معلوم ہوا كہ بعض صحابہ كرام ، مثلاً حضرت عمر بن خطاب، حضرت اُبى بن كعب، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ ابن عباس … اہل سنت رواىات كے مطابق قائل تھے كہ قرآن كرىم كى آخرى دو سورتىں ’’سورہ خلع‘‘ اور ’’سورہ حفد‘‘ ہىں ۔ تمام مسلمان معتقد ہىں كہ كسى بھى زمانے مىں ىہ دو سورتىں قرآن كرىم كا حصہ نہ رہى ہىں اور نہ آج ہىں۔        ىہ ذكر كرنے كے بعد ابن تىمىہ كہتے ہىں كہ درحقىقت ىہ وہ غلطىاں اور خطائىں ہىں جو صحابہ كرام اور تابعىن و علماءِ اعلام سے نادانستہ طور پر ہوئى ۔ اس لىے تحرىفِ لفظى كى صورت مىں سامنے آنے والى ىہ خطائىں ’’اجتہادى‘‘ غلطىاں ہىں جن كى بناء پر كسى كو كافر قرار نہىں دىا جائے گا بلكہ اجتہادى غلطى وقوع پذىر ہونے كى بناء پر اىك اجر كا مستحق قرار دىا جائے گا۔        ىہ وہ حل اور شبہ كا جواب ہے جو ابن تىمىہ نے ان اہل سنت تابعىن و علماء اور سُنى رواىات كے مطابق تحرىف كا عقىدہ ركھنے والے صحابہ كرام كے دفاع كے طور پر پىش كىا اور ان خطاؤں اور اغلاط كو اجتہادى خطاء قرار دے كر ’’كفر‘‘ كے فتوى سے انہىں محفوظ ركھا ۔

كفر كے فتاوى ان شخصىات پر اس لىے نہىں لگے گے كىونكہ سب اہل سنت علماء كا اتفاق ہے كہ صحابہ كرام ، قاضى شرىح اور انور شاہ كشمىرى جىسے دىگر علماء بارگاہِ الہٰى مىں قابل معافى ہىں اور اللہ نے ان كى خطائىں معاف كر دى ہىں۔ ابن تىمىہ كے بقول ’’اجماع‘‘ سے ان كا قابل ِمعافى ہونا ثابت ہے۔ بلاشك و شبہ ’’ابن تىمىہ‘‘ كا ىہ نظرىہ علمى معىارات كے عىن مطابق اور عقلى طور پر قابل قبول ہے ۔ اگرچے اجماع كى دلىل مىں شدىد اختلاف ہے كہ آىا اجتہادى خطاء كا قابلِ معافى ہونا ’’اجماع‘‘ كى بنىاد پر ہے ىہ كسى اور دلىلِ شرعى سے ىہ حكم ثابت ہوتا ہے۔

فخرالدین رازی کا اعترافِ تحریف:

اہل سنت کے معروف متکلم و اصولی و مفسر فخر الدین رازی متوفی ۶۰۶ ھ اپنی کتاب المحصول میں تحریر کرتے ہیں:{ أن كل المسلمين يعترفون أن ما
بين الدفتين كلام الله عز وجل ثم إذا فتش عن المقالات الغربية وجد في ذلك اختلافا شديدا نحو ما يروى عن ابن مسعود أنه أنكر كون الفاتحة والمعوذتين من القرآن، ويروى عن الميمونية قوم من الخوارج أنهم أنكروا كون سورة يوسف من القرآن؛ہر مسلمان معترف ہے کہ جو کچھ ان دو جلدوں کے درمیان ہے وہ اللہ عز و جل کا کلام ہے، اس کے بعد اگر کوئی اجنبی و غریب اقوال کی جانچ پڑتال کرے تو اسے اس مسئلہ میں شدید اختلاف نظر آئے گا، جیسے ابن مسعود کے بارے میں (صحیح السند احادیث سے) روایت کیا گیا ہے کہ وہ سورہ فاتحہ اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس قرآن کی سورتیں نہیں ہیں، اسی طرح جناب میمونہ سے نقل کیا گیا ہے کہ خوارج سورہ یوسف کا انکار کرتے تھے کہ یہ قرآن کا حصہ ہے۔ 
} [12]فخر الدین رازی، محمد بن عمر، المحصول فی اصول الفقہ، ج ۴، ص ۲۵۔ فخر الدین رازی نے ان سطور میں طور پر تحریر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بعض صحابہ قائل تھے کہ سورہ فاتحہ بھی قرآن نہیں ہے اور سورہ فلق اور سورہ ناس بھی اور اسی طرح خوارج سورہ یوسف کے قرآنی سورہ ہونے کے منکر تھے۔ اس لیے مسلمانوں میں قرآن کریم میں تحریف کے بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔

بعض اہل تصوف کی نگاہ میں تحریف:

اس مقام پر بعض اىسے بزرگانِ اہل سنت کا تفصیلی تذکرہ ضروری ہے جنہوں نے واضح الفاظ مىں تحرىف كے نظرىہ كو قبول كىا ہے اور اسے دىنى رازوں مىں سے اىك راز قرار دىا ہے تاكہ كمزور دل والے اس راز سے آگاہ نہ ہوں۔ ان بزرگان كو انور شاہ كشمىرى جىسے علماءِ اعلام سے اس لىے جدا كىا ہے كىونكہ ىہ بزرگان ’’تصوّف و اہل طرىقت‘‘ سے تعلق ركھتے ہىں جن كا ہم و غم صرف حقىقت كو پانا ہوتا ہے۔ نىز ان بزرگان كو جدا كرنے كى دوسرى وجہ ان كے متعلق شبہات كى نوعىت كا مختلف ہونا ہے جس كے نتىجے مىں اس شبہ كا جواب بھى مختلف ہو گا۔ بالفاظِ دىگر ’’اہل تصوف و طرىقت‘‘ مىں سے جو تحرىف كے قائل رہے ہىں جىساكہ ابن حزم اندلسى نے اپنى كتاب الفصل مىں متعدد جگہ كبھى اشاعرہ كى طرف نسبت دىتے ہوئے اور كبھى صوفىہ كى طرف نسبت دىتے ہوئے تحريف لفظى و معنوى كے اعتقاد كى طرف اشارہ كىا ہے جس سے ہر مسلمان چاہے وہ شىعہ ہو ىا سنى بَرى ہے۔ البتہ ان كے اس نظرىہ كو ’’اجتہادى غلطى‘‘ قرار نہىں دىا جا سكتا كىونكہ اہل تصوف فقىہ، محدث، اصولى اور متكلم نہىں ہىں۔

شیخ اکبر ابن عربی کا نظریہ:

نویں صدی ہجری کے معروف صوفی بزرگ عبد الوہاب شعرانی متوفی ۹۷۳ ھ جوکہ محمد بن حنفیہ کے نسب میں سے ہونے کی وجہ سے حنفی کہلاتے ہیں اپنی شہرت یافتہ کتاب ’’ الکبریت الاحمر فی بیان علوم الشیخ الأکبر ‘‘ میں لکھتے ہیں:{ قال: ولو أن رسول اللّه صلى اللّه عليه و سلم، كان هو الذي تولى جمع القرآن لوقفنا وقلنا هذا وحده هو الذي نتلوه يوم القيامة قال: ولو لا ما يسبق للقلوب الضعيفة ووضع الحكمة في غير أهلها لَبَيَّنۡتُ جميعَ ما سقط من مصحف عثمان رضي اللّه عنه، قال: وأمّا ما استقر في مصحف عثمان فلم ينازع أحد فيه؛ ابن عربی کہتے ہیں:اگر رسول اللہ ﷺ وہ ہیں جن کے ذمے قرآن کا جمع کرنا تھاتو ہم اس سے واقف ہوتے اور ہم یہ کہتے یہ وہی ہے جس کی ہم روزِ قیامت تلاوت کریں گے، پھر ابن عربی کہتے ہیں: اگر کمزور دلوں پر بھاری گزرنے کا خطرہ نہ ہوتا اور حکمت کو غیر اہل کے سپرد کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بیان کرتا کہ مصحفِ عثمان میں کیا کیا گر گیا ہے، ابن عربی کہتے ہیں: ابھی جو کچھ مصحف عثمان میں ہے اس کے قرآن ہونے میں کسی قسم کا نزاع و جھگڑا نہیں ہے ۔ } [13]شعرانی، عبد الوہاب ، الکبریت الاحمر فی علوم الشیخ الاکبر، ص ۹۴۔  یہاں ابن عربی واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ کمزور دل یہ برداشت نہیں کر پائیں گے ورنہ میں بتاتا کہ اس قرآن سے کیا کیا حذف کر دیا گیا ہے !! اس جگہ عبد الوہاب شعرانی اپنا تبصرہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیخ محیی الدین عربی نے اپنی کتاب الفتوحات المصریۃ میں ذکر کیا ہے کہ جو عقیدہ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کلامِ الہٰی سے کچھ گرا نہیں ہے کیونکہ اس پر اجماع منعقد ہے ، واللہ اعلم۔[14]شعرانی ، عبد الوہاب، الکبریت الاحمر فی علوم الشیخ الاکبر، ص ۹۴۔ اس طرف توجہ رہے کہ یہ کتاب نیٹ پر بہترین چاپ کے ساتھ موجود ہے جسے ڈاؤن لوڈ کر کے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔یہی بات عبد الوہاب شعرانی نے اپنی دیگر کتابوں میں درج کی ہے ، مثلا الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر ۔

ابن حزم اور اشاعرہ پر تحریف کی تہمت:

معروف متعصب متکلم ابن حزم اندلسی متوفی ۴۵۶ ھ نے اپنی کتاب الفصل فی الملل والأھواء والنحل‘‘ میں تمام اشاعرہ کی طرف  تحریف کی نسبت دیتے ہوئے ان کا نظریہ بیان کیا ہے۔ ابن حزم نے تحریر کیا ہے:{ وقالوا كلهم إن القرآن لم ينزل‏ به‏ قط جبريل‏ على قلب محمد عليه الصلاة و السلام، إنما نزل عليه بشي‏ء آخر هو العبارة عن كلام اللّه وأن القرآن ليس عندنا البتة إلا على هذا المجاز، و أن الذي نرى في المصاحف و نسمع من القرآن و نقرأ في الصلوات و نحفظ في الصدور ليس هو القرآن البتة، ولا شي‏ء منه كلام اللّه تعالى البتة بل شي‏ء آخر، وأن كلام اللّه تعالى لا يفارق ذات اللّه تعالى. قال أبو محمد: وهذا من أعظم الكفر؛ تمام مرجئہ فرقے کے لوگ قائل ہیں کہ جناب جبریلؑ کبھی قرآن لے کر محمدﷺ کے قلب پر نہیں اترے، ان کے قلب پر کوئی چیز اتری ہے جسے اللہ کے کلام سے تعبیر کرتے ہیں ، ہمارے پاس کوئی قرآن نہیں ہے سوائے اس کے کہ مجازی طور پر اس کو قرآن کہہ دیا جاتا ہے، جو کچھ ہم مصحفوں میں دیکھتے ہیں یا قرآن کے نام پر سنتے ہیں اور نمازوں میں پڑھتے ہیں اور سینوں میں محفوظ کرتے ہیں وہ قرآن نہیں ہے، وہ اللہ کا کلام کسی صورت نہیں ہے بلکہ کوئی اور چیز ہے ، بے شک اللہ تعالی کا کلام اس ذاتِ الہٰی سے جدا ہے۔ ابو محمد(ابن حزم) کہتا ہے: یہ عظیم ترین کفر ہے۔}[15]ابن حزم اندلسی، علی بن محمد، الفصل فی الملل والاھواء والنحل، ج ۴، ص ۱۵۹۔ ہر کوئی اپنی جماعت کی دنیا سے خوب واقف ہوتا ہے۔ اس لیے اہل سنت و الجماعت میں مرجئہ کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے ابن حزم نے تصریح کی ہے کہ وہ موجودہ قرآن کریم کو اصلا قرآن مانتے ہی نہیں تھے۔

بعض اشاعرہ کا گمراہ کن نظریہ تحریف:

ابن حزم اندلسی متوفی ۴۵۶ ھ نے ایک اور مقام پربعض اشاعرہ کی خاص جماعت کے اعتقادات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:{ وقالت أيضا هذه الطائفة المنتمية إلى الأشعرية إن كلام اللّه لم ينزل به جبريل عليه السلام على قلب محمد عليه السلام وإنما نزل عليه بشي‏ء آخر هو عبارة عن كلام اللّه تعالى، وأن‏ الذي‏ نقرأ في‏ المصاحف‏ و نكتب فيها ليس شي‏ء منه كلام اللّه عز وجل؛ یہ گروہ بھی جوکہ اشاعرہ کی طرف منسوب ہے کہتا ہے کہ اللہ کا کلام لے کر جبریل علیہ السلام محمد ﷺ کے قلب پر نہیں اترے، ان پر کچھ اور اترا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے کلام سے تعبیر کر دیتے ہیں، ہم مصحفوں میں جو پڑھتے ہں اور اس سے جو کچھ لکھتے ہیں اس میں اللہ عز و جل کا اصلا کلام موجود نہیں ہے۔ }[16]ابن حزم اندلسی ، علی بن محمد ، الفصل فی الملل والأھواء والنحل، ج ۳، ص ۵۔

بعض اشاعرہ کا قرآن کو ٹھڈے مارنا:

ابن حزم اندلسی متوفی ۴۵۶ ھ نے بعض اشاعرہ کی خصوصی محافل کی حالت اپنے قابل اعتماد شیخ کی زبانی ذکر کیا ہے جن کا نام علی بن حمزة مرادی صقلی ہے۔ علی بن حمزہ مرادی کہتے ہیں:{ أنه رأى بعض الأشعرية يبطح‏ المصحف‏ برجله ، قال فأكبرت ذلك وقلت له: ويحك هكذا تصنع بالمصحف وفيه كلام اللّه تعالى؟ فقال لي: ويلك واللّه ما فيه إلا السخام والسواد، وأما كلام اللّه فلا؛ میں نےبعض اشاعرہ کو دیکھا وہ قرآن کو پاؤں سے ٹھڈے مار رہے تھے، وہ کہتے ہیں: مجھے یہ بہت گراں گزرا، میں نے ان کو کہا: وائے ہو تم لوگوں پر یہ کیا کر رہے ہو! کیا قرآن سے تم لوگ یہ سلوک کرتے ہوجبکہ یہ اللہ کا کلام ہے!! انہوں نے مجھ سے کہا: وائے ہو تجھ پر ، اس میں ادھر ادھر کی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جہاں تک اللہ کے کلام کی بات ہے تو وہ اصلا اس میں نہیں ہے۔}[17]ابن حزم اندلسی، علی بن محمد، الفصل  فی الملل والأھواء والنحل، ج ۴، ص ۱۶۰۔

سورہ توحید کو قرآن کہنے والے کی سزا:

بعض اشاعرہ کے بارے میں ابن حزم اندلسی متوفی ۴۵۶ ھ نے قابل اعتماد اور ثقہ افراد سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:{ وَكتب إِلَيّ أَبُو المرحي بن رزوار الْمصْرِيّ أَن بعض ثقاة أهل مصر أخبرهُ من طلاب السّنَن أَن رجلا من الأشعرية قَالَ لَهُ مشافهة على من يَقُول أَن الله قَالَ قل هُوَ الله أحد الله الصَّمد ألف لعنة؛  ابو مرحی بن رزوار مصری نے میری طرف نوشتہ لکھ کر بھیجا جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ اہل مصر کے بعض قابل اعتماد اور ثقہ افرادہیں جوکہ حدیث و سنت کے طالب علموں میں سے ہیں انہوں نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ اہل سنت اشاعرہ میں سے ایک شخص تھا جو ان بعض افراد کے منہ پر انہیں کہتا تھا کہ جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے: قل هُوَ الله أحد الله الصَّمد، اس پر ایک ہزار لعنت ہو۔   }[18]ابن حزم اندلسی، علی بن محمد، الفصل فی الملل والأھواءوالنحل، ج ۴، ص ۱۶۰۔

نتىجہ بحث :

       اہل تشىع اور مكتب اہل بىتؑ كى مانند تمام اہل سنت علماء و مشائخ قائل ہىں كہ قرآن كرىم مىں لفظى تحرىف واقع نہىں ہوئى ۔ جہاں تك صحابہ كرام مىں سے بعض صحابہ ’’سورہ خلع‘‘ اور ’’سورہ حفد‘‘ نامى سورتوں كو قرآن كا حصہ شمار كرتے تھے ، ىا بعض علماءِ اہل سنت قرآن كرىم كے بعض كلمات كا انكار كرتے تھے ىا انور شاہ كشمىرى كى مانند واضح طور پر تحرىف كے عقىدہ كا اعلان كرتے ہىں تو ىہ سب ’’ابن تىمىہ‘‘ كے دىئے ہوئے حل كے مطابق ’’اجتہادى خطائىں‘‘ ہىں اور مسلمانوں كے مسلمہ عقائد كے مخالف ہونے اور متواتر رواىات كے منافى ہونے كى بناء پر قابلِ قبول اقوال نہىں ہىں۔ بے شك ىہ خطائىں بشرى نقائص كا نتىجہ ہىں جو كسى مذہب، فرقہ، ملت، قوم ، قبىلہ ىا سرزمىن كے ساتھ خاص نہىں ہے بلكہ عصمت صرف اہل عصمت ىعنى انبىاءؑ  اور چہاردہ معصومىنؑ كے ساتھ خاص ہے ۔ ان كے علاوہ كسى بھى بشر سے علمى خطائىں عمداً ىا سہواً وقوع پذىر ہو سكتى ہىں جوكہ قابل معافى ہىں نہ كہ كفر و ارتداد اور زندىق كے فتوى كا پىش خىمہ۔ اجتہادى خطاؤں كى بناء پر جنہوں نے كفر كے فتوئے لگائے ہىں انہوں نے سنگىن جُرم انجام دىا ہے۔

       ىہاں سے ىہ بھى ثابت ہوا كہ اہل سنت رواىات كے مطابق جس طرح صحابہ كرام اجتہادى خطاء كرتے ہوئے قرآن كرىم سے بعض سورتوں كو حذف كر دىا كرتے تھے ىا ’’سورہ خلع ‘‘ اور ’’سورہ حفد‘‘ جىسى سورتوں كا اضافہ كىا كرتے تھے اُسى طرح  اجتہادى خطائىں امت كے دىگر بزرگان سے بھى سرزد ہو سكتى ہىں ، چاہے وہ شىعہ ہو ىا سُنى  ۔ اگر اجتہادى خطاء ہوئى ہے تو اىسى صورت مىں كسى كو كافر نہىں كہا جائے گا بلكہ اىك اجر كا مستحق شمار كىا جائے گا۔ اگر تحرىف كے مسئلہ مىں اجتہادى اغلاط قابل قبول نہى سمجھى جائىں تو اس كا نتىجہ نعوذ باللہ ’’صحابہ كرام‘‘ كو كافر قرار دىنے كى صورت مىں سامنے آئے گا جس كا نہ كوئى شىعہ قائل ہے اور نہ كوئى سُنى۔       ىہ وہ شبہ تھا جو علماءِ اعلام مىں اعلانىہ طور پر تحرىف كے عقىدہ اختىار كرنے والے كى بناء پر اىجاد ہوا ۔ اس شبہ كا جواب ’’اجتہادى خطاء‘‘ قرار دىتے ہوئے اىك اجر كا مستحق شمار كرنا ہے۔

منابع:

منابع:
1 انور شاہ کشمیری، ویکی پیڈیا۔
2 انور شاہ کشمیری، بنوریہ سائٹ۔
3 کشمیری،محمد  انور شاہ، فيض الباری فی شرح صحيح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔
4 فتاوی عثمانی، ج ۱، دیوبندی بک سائٹ۔
5 کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔
6 کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔
7 کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔
8 کشمیری، محمد انور شاہ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔
9 کشمیری، محمد انور شاہ ، فیض الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۴، ص ۹۸۔
10 ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، مجموعۃ الرسائل والمسائل، ج ۳، ص ۱۴۔
11 صافات: ۱۲۔
12 فخر الدین رازی، محمد بن عمر، المحصول فی اصول الفقہ، ج ۴، ص ۲۵۔
13 شعرانی، عبد الوہاب ، الکبریت الاحمر فی علوم الشیخ الاکبر، ص ۹۴۔
14 شعرانی ، عبد الوہاب، الکبریت الاحمر فی علوم الشیخ الاکبر، ص ۹۴۔
15 ابن حزم اندلسی، علی بن محمد، الفصل فی الملل والاھواء والنحل، ج ۴، ص ۱۵۹۔
16 ابن حزم اندلسی ، علی بن محمد ، الفصل فی الملل والأھواء والنحل، ج ۳، ص ۵۔
17 ابن حزم اندلسی، علی بن محمد، الفصل  فی الملل والأھواء والنحل، ج ۴، ص ۱۶۰۔
18 ابن حزم اندلسی، علی بن محمد، الفصل فی الملل والأھواءوالنحل، ج ۴، ص ۱۶۰۔
Views: 480

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآن کریم میں تحریف کا قائل کون؟
اگلا مقالہ: لفظ اللہ کا معنی