loading

قرآن کریم میں تحریف کا قائل کون؟

تحرير : سيد محمد حسن رضوى

       تمام مسلمانوں كا عقىدہ ہے كہ ’’قرآن كرىم‘‘ اللہ سبحانہ كا كلام ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا اور بغىر كسى كمى بىشى كے ہم تك پہنچا ہے۔ قرآنِ كرىم كے كلمات و الفاظ مىں كسى صورت تحرىف واقع نہىں ہو سكتى كىونكہ اللہ سبحانہ نے اس كى حفاظت كا خود ذمہ لىا ہے۔جہاں تك شىعہ پر قرآنِ كرىم كى تہمت لگائى جاتى ہے تو ىہ كام ’’ دشمانانِ اسلام‘‘ كا ہے جو امرىكہ اور اسرائىل كے مذموم مقاصد كو پورا كرنے اور تعصب و تہمت جىسے شىطانى عزائم كى تكمىل كى غرض سے اىسا كرتے ہىں ۔اگرچے اس مقام پر طوىل بحث كى گنجائش ہے اور ثابت كىا جا سكتا ہے كہ شىعوں كے مقابلے مىں اہل سنت علماء بعض اىسے نظرىات كے حامل ہىں جن كا نتىجہ ’’تحرىفِ قرآن ‘‘ نكلتا ہے۔ لىكن شىعىانِ حىدرِ كرار ؑ اپنى عظىم و كرىم نبى محمد ﷺ كى سنت پر عمل كرتے ہوئے كسى صورت بات كو توڑ موڑ كے اہل سنت فرقے كو بدنام نہىں كرتے كىونكہ ىہ طرىقہ ’’فتنہ پرور اور جہلاء ‘‘ كا ہوتا ہے كہ وہ پروپىگنڈہ كے ذرىعے سے حقىقت كا رُخ موڑنے كى كوشش كرىں ۔
اس تحرىر مىں ہم مختصر طور پر جائزہ لىں گے كہ قرآن ِ كرىم مىں تحرىف سے كىا مراد ہے اور كىا مسلمانوں كا كوئى فرقہ ’’تحرىف‘‘ كا قائل ہے ىا نہىں ؟ اسى كے ضمن مىں ان شبہات كا مدلل اور ٹھوس جواب بھى دىا جائے گا جوبرادرانِ اہل سنت كو بدنام كرنے والى جماعت ’’ سپاہ فساد‘‘ اور ان كے شىطانى كارندوں كى پھىلائى ہوئى شىطنت ہے ۔تحرىر كو درج ذىل چار حصوں مىں تقسىم كىا گىا ہے:
۱۔ قرآنِ كرىم مىں تحرىف سے مراد ۔
۲۔
مسلمانوں كا كوئى فرقہ تحرىف كا قائل نہىں۔
۳۔
تحرىف كے بارے وارد ہونے والى رواىات ۔
۴۔ ا
ہل سنت كى معتبر رواىات و نظرىات كے مطابق بعض صحابہ كرام كا تحرىف كا قائل ہونا ۔
۵۔
اہل سنت كے بعض گروہ ، علماء ،صوفىاء اور نظرىہ تحرىف ۔

تحرىف كا معنى :

قرآن کریم میں تحریف کی بحث میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں تحریف کے لغوی اور اصطلاحی معنی جاننا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ تحریف سے کیا مراد ہے۔ ذیل میں پہلے لغوی معنی ذکر کیے جاتے ہیں اور اس کے بعد اصطلاحی معنی بیان کیے جاتے ہیں:

لغوی معنی: 

     كلمہ ’’ تحرىف ‘‘ عربى زبان كا لفظ ہے جو كلمہ’’ حرف ‘‘ سے باب تفعىل كا مصدر ہے۔ عربى لغات كے مطابق حرف كا مطلب ’’ كسى شىء كے اطراف ، منحرف ہونا ، اىك جگہ سے پھرنا اور كنارے پر واقع ہونا ‘‘ ہے ۔ عصرِ قدىم كے معروف لغوى ’’ احمد بن فارس متوفى 395 ھ‘‘ اپنى كتاب ’’ معجم مقاىىس اللغۃ‘‘ مىں لكھتے ہىں: حَرْفٌ: الحاءُ والراءُ والفاءُ ثلاثةُ أصولٍ: حدُّ الشَيْ‏ءِ، وَالعُدُولِ‏، وتقديرُ الشَّي‏ء؛  ’’ حرف ‘‘ : ح ۔ راء ۔ فاء ، اس كى تىن اصل ہىں : 1. شىء كى حد (ىعنى شىء كے اطراف جو كہ كسى شىء كى boundary كہلاتى ہے) ، 2. اصل جگہ چھوڑ كر دوسرى طرف پھىر جانا ، 3. تقدىرِ شىء۔ [1]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۴۲۔      یہاں سے واضح ہوا کہ حرف کا ایک معنی اصل جگہ چھوڑ دینا ہے۔   اسى سے باب تفعىل كا مصدر ’’ تحرىف ‘‘ آتا ہے جس كے لغوى معنى بىان كرتے ہىں ہوئے خلىل بن احمد فراہىدى متوفى 175 ھ لكھتے ہىں : والتَّحْرِيف فِي القرآنِ تغييرُ الكلمةِ عَن مَعنَاهَا؛ اور قرآن مىں ’’ تحرىف ‘‘ ىعنى كلمہ كو اس كے اصل معنى سے تبدىل كر دىنا ۔[2]فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۳، ص ۲۱۱۔       اہل سنت كے معروف لغوى راغب اصفہانى متوفى 401 ھ’’ مفرداتِ الفاظ القرآن‘‘ مىں لكھتے ہىں : وتَحْرِيفُ الشي‏ء: إمالتُهُ، كَتَحرِيفِ القلم، وَتَحْرِيفُ الكلامِ‏ أَن تَجعَلَهُ عَلَى حَرف من الاحتمالِ يُمكِن حَملُهُ عَلَى الوَجهَينِ؛ شىء كى تحرىف : اس كو كسى اور طرف پھىر دىنا  جىسے قلم كو اس كى جگہ سے پھىرنا ، اور كلام مىں تحرىف : كہ آپ كلام كو اس طرح قرار دىں كہ اس سے دو معنى مراد لىنے كا احتمال پىدا ہو جائے۔‏ [3]راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۲۸۔        عصرِ حاضر كے معروف لغوى ’’ علامہ حسن مصطفوى ‘‘ اپنى كتاب ’’ التحقىق فى القرآن الكرىم‘‘ مىں تحرىف كے لغوى معنى بىان كرتے ہوئے لكھتے ہىں : إنّ الأَصلَ الواحِدَ فِي هَذِهِ المَادَّة: هُوَ طَرفُ الشَّي‏ءِ وَمُنتَهَاهُ ، يُقَالُ : حَرَفْتُ الشَّي‏ءََ وَحَرَّفْتُهُ أي أخرَجتُهُ عَن مَوضِعِهِ وَاعتِدَالِهِ وَنَحَّيتُهُ عنه إِلَى جِهَةِ الحَرفِ وَهُوَ الطرفِ لِلشَّي‏ءِ؛حرف : اس كلمہ كا اىك اصلى معنى ’’شىء كا كنارہ اور اس كا آخرى حصہ ‘‘ہے۔ جىسے كہا جاتا ہے : حَرَفْتُ الشي‏ءَ وَحَرَّفْتُهُ ىعنى ’’ مىں نے شىء  كو  اُس كى جگہ سے نكالا ‘‘ ىا ’’مىں نے شىء كو حدِاعتدال سے نكالا ‘‘ىا ’’ مىں نے شىء كو اس كى جگہ سے نكال كر اىك كنارہ كى طرف كىا‘‘۔ [4]مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات الفاظ القرآن الکریم، ج ۲ ، ص ۱۹۸۔

اہل لغت کے ان بیانات سے ثابت ہوا کہ  ’’ تحرىف ‘‘ كا مطلب ’’ جگہ تبدىل كرنا ‘‘ اور ’’ اىك كلمہ كو دوسرے كلمہ كى طرف پھىر دىنا ‘‘ ہے۔ كلمہ كو اس كى جگہ سے پھىرنا ىا تبدىل كرنے كى درج ذىل صورتىں بنتى ہىں :
۱۔ اىك كلمہ كى جگہ تبدىل كر كے اس كو كسى دوسرى جگہ ركھ دىں ۔
۲۔
اىك كلمہ كو اس كى جگہ سے نكال كر اس سے ملتا جلتا كلمہ اس كى جگہ پر ركھ دىں ۔ (مذكورہ تعرىفات اس مورد كو شامل نہىں ہىں)
۳۔
كلام مىں موجود كلمات كو آگے پىچھے كر دىں ۔
۴۔
كلمہ كو اپنى جگہ سے نكال كر كسى كنارے پر لے جائىں۔
۵۔
جملہ كى ترتىب اور اس مىں موجود نظم و نسق تبدىل كر دىنا ۔

مندرجہ بالا لغوى معانى پر دقت کریں تو ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں كہ ’’ تحرىف كا لغوى مطلب ‘‘ قرآنِ كرىم كے كلمات كو قرآنِ كرىم سے نكالنا ، حذف كرنا ىا مٹانا نہىں ہے۔ عمومًا ذہنوں مىں ىہ آتا ہے كہ تحرىف كا لغوى مطلب  قرآنِ كرىم كے بعض كلمات كو قرآنِ كرىم سے نكال دىنا ہے، جىساكہ  اصطلاحى تعرىف كے نتىجے مىں تحرىف كى متعدد اقسام كرتے ہوئے اىك قسم ’’تحرىف لفظى ‘‘ بىان كى جاتى ہے جس كا مطلب ’’ كسى كلمہ ىا كلام كو قرآن سے نكالنا ىا اضافہ كرنا ‘‘ ہے۔ لغوى تعرىفات ’’لفظى تحرىف‘‘ كو شامل نہىں ہىں كىونكہ لغۃً تحرىف كا معنى الفاظ كى جگہ بدلنا ىا جملہ كى ترتىب مىں تبدىلى لانا ہے نہ كہ كلام مىں سے كسى كلمہ و نكالنا ىااضافہ كرنا۔

اگر لغوى معنى كى رعاىت كى جائے تو معلوم ہو گا كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىف واقع ہونے كا مطلب ’’ قرآنِ كرىم كے كلمات كو اس لىے آگے پىچھے كرنا ہے تاكہ اس سے اپنى مرضى كے معنى حاصل كىے جا سكىں ‘‘۔ ىہ عمل اپنى جگہ انتہائى مذموم ہے اور اس كى شدت سے نفى وارد ہوئى ہے لىكن اصطلاحى تعرىف كے مطابق ىہ ’’معنوى تحرىف‘‘ سے ملتى جلتى شكل ہے ۔ اس پر بہترىن دلىل خلىل احمد فراہىدى كامذكورہ ىہ قول ہے كہ’’ قرآنِ كرىم مىں تحرىف سے مراد كلمہ كو اس كے معنى سے تبدىل كرنا ىا پھىر دىنا ہے‘‘ ىعنى كلمہ بول كر اپنے مطابق معنى حاصل كرنا تحرىف ہے۔ اسى طرح اہل سنت كے معروف لغوى ’’ راغب اصفہانى‘‘  كلام مىں تحرىف ہو جانے سے مراد ىہ بتلاتے ہىں كہ ’’ كلام كو اس طرح پىش كرنا كہ اس سے دو قسم كے معنى سمجھ مىں آئىں‘‘۔ بذاتِ خود قرآنِ كرىم نے كلمہ ’’ تحرىف ‘‘ كو اس كے لغوى معنى مىں استعمال كىا ہے جىساكہ اہل كتاب كى مذموم حركات كى طرف اشارہ كرتے ہوئے قرآن بىان كرتا ہے:{ مِنَ الَّذينَ هادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِه‏؛ىہودىوں مىں سے اىسے بھى تھے جو  كلام (الہٰى) كو اس كى جگہ سے پھىر دىا كرتے تھے  }[5]نساء: ۴۶۔ ا سى طرح  سورة المائدة مىں ارشادِ بارى تعالىٰ ہوتا ہے:{يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ؛وہ اہل كتاب كلام (الہٰى) كو اس كى جگہوں سے پھىر دىا كرتے تھے  }.[6]مائدہ: ۱۳۔ ان دو آىات مىں كلمہ ’’ تحرىف ‘‘ اپنے لغوى معنى مىں استعمال ہوا ہے جىساكہ راغب اصفہانى نے تصرىح كى ہے۔ ىہود و نصارىٰ ’’ تورات و انجىل ‘‘ كے كلمات كو اس طرح آگے پىچھے كرتے تھے كہ اپنے مطابق معنى حاصل كر سكىں۔ بالفاظِ دىگر اہل كتاب كے دو بڑے جرم قرآن كرىم نے صراحت كے ساتھ بىان كىے ہىں:
۱۔ اہل كتاب ’’كلامِ الہٰى‘‘ سے اپنى مرضى اور مفادات كے پىش نظر معنى لىتے تھے اور حقىقى معنى كا رُخ ’’ كلمات كو آگے پىچھے كر كے ىا اصلى معنى مىں احتمالات دے كر ‘‘ موڑ دىتے تھے۔ اسے تحرىف معنوى كہتے ہىں۔
۲۔
اہل كتاب (ىہود و نصارىٰ) نے تورات اور انجىل مىں سے بعض جملات ىا كلمات كو نكال لىا ىا ان مىں اپنے كلام كا اضافہ كر دىا ۔ جىساكہ سورہ بقرہ آىت 159 ىا دىگر سورتوں مىں وارد ہوا ہے۔ اسے تحرىف لفظى كہا جاتا ہے۔

 تحريف كى اصطلاحى تعرىف :

       علماءِ اعلام خصوصًا مفسرىن كے نزدىك تحرىف كا مطلب ’’ كلام مىں الفاظ كو آگے پىچھے كرنا ىا كلام مىں اپنى طرف سے اضافہ ىا كمى كرنا اور اپنى مرضى كے معنى مراد لىنا ‘‘ ہے ۔ ’’ تحرىف ‘‘ كى متعدد اقسام ہىں:

تحرىف ترتىبى :

ىعنى قرآن كرىم كى سورتوں كى ترتىب آگے پىچھے كر دىنا، مثلاً پہلى سورت كو آخرى سورت بنا دىنا اور آخرى كو درمىانى … ۔ ىا اىك سورت كے اندر آىات كے نظم و ضبط كو متاثر كر كے ان آىات كى ترتىب بگاڑ دىنا ۔ ىعنى جو آىت درمىان مىں تھى اسے آخر مىں لے جائىں اور جو آخر مىں تھى اسے ابتداء مىں لے آئىں …۔ اس تحرىف كى قسم مىں الفاظ و كلمات مىں كسى قسم كا ردّ و بدل ىا كمى بىشى و زىادتى نہىں كى گئى ۔ اس لىے اس قسم مىں زىادہ حساسىت نہىں دكھائى جاتى ۔ حق ىہ ہے كہ قرآن كرىم مىں اس طرح كى تحرىف واقع نہىں ہوئى بلكہ جس طرح رسول اللہ ﷺ سورتوں اور آىاتِ مباركہ كى ترتىب بىان كى تھى وىسى ہى آج ہمارے پاس موجود ہے۔

تحرىف معنوى :

ىعنى قرآنِ كرىم كى آىات كے معنى بدل كر اپنے مطابق پىش كرنا ۔ ىعنى آىاتِ كرىمہ كے معانى كو اپنے مفاد اور مقاصد كى خطر بدل دىنا اور كلماتِ قرآن كى خود ساختہ تفسىر و تشرىح كرنا۔ تمام مسلمان قائل ہىں كہ قرآنِ كرىم مىں معنوى تحرىف واقع ہوئى ہے كىونكہ ہر دور مىں اىسے افراد رہے ہىں جنہوں نے اپنى خواہشات كى تكمىل ىا كسى غرض كے تحت قرآنِ كرىم آىات كو بگاڑ كر اپنے خود ساختہ معانى كے مطابق پىش كىا ہے۔ ’’ تحرىف معنوى ‘‘كى سب سے بڑى مثال اہل سنت گروہوں مىں ’’ دىو بند اور اہل حدىث ‘‘ فرقے سے جنم لىنا والا نىا فرقہ ’’ پروىزىت اور چكڑالوى‘‘ ہے جو احادىث اور سنت كے منكر ہىں اور قرآنِ كرىم كى آىات كو اپنے ذہنى معانى كے مطابق بىان كرتے ہىں۔ پروىزى فرقہ كا تعلق ’’اہل سنت و الجماعت ‘‘ سے ہے اگرچے اس فرقے كى مخالفت مىں خود اہل سنت نے متعدد كتب لكھى ہىں۔ پروىزىت كى شاخىں اب ’’ مصر ‘‘ اور دىگر عرب ممالك مىں بھى نكل آئى ہىں اور عربوں مىں بھى اس انحرافى نظرىات كے حامل متعدد اہل سنت علماء منظرِ عام پر آئے ہىں اور پورے خلوص و دلجوئى كے ساتھ اپنے نظرىات كى تبلىغات كر رہے ہىں۔ البتہ  شىعہ سنى كتبِ احادىث مىں وارد ہونے والى رواىات مىں ’’تحرىف معنوى‘‘ كى شدىد مذمت كى گئى ہے اور اس جُرم كے مرتكب كو شدىد عذاب و جہنم كى نوىد سنائى گئى ہے۔ اس طرف توجہ رہے كہ اس طرح كى تحرىف كا ارتكاب كرنے والا ’’ كافر ىا مشرك ‘‘ نہىں ہوتا اور اگر جان بوجھ كر اىسا عمل انجام دے تو بلاشك و شبہ فاسق و فاجر اور ظالم كہلائے گا۔

تحرىف لفظى :

اس سے مراد ىہ ہے كہ قرآنِ كرىم كے الفاظ مىں ردّ و بدل ىا كمى بىشى واقع ہونا ہے۔ اہل سنت كے نزدىك اس كا قائل ’’ كافر ‘‘ ہے ۔اس كى مختلف صورتىں بنتى ہىں:
۱)  كلماتِ قرآن كى زىر ، زبر ، پىش مىں تبدىلى لانا ىا اىك كلمہ كے بعض حروف كو تبدىل كر دىنا ، مثلاً ’’ عَصَى كو عَسَى ىا صراط كو سراط‘‘ كر دىنا ۔ اہل سنت كے بعض نظرىات اس نوعىت كى تحرىف كو ثابت كرتے ہىں جىساكہ سات ىا دس قرائتوں كو جائز سمجھنا  اور ان كى درس و تدرىس كرنا ۔ آج بھى اہل سنت مدارس و ىونىورسٹىوں كے تفسىر كے شعبہ مىں اس نوعىت كى تحرىف كو علمى انداز مىں پڑھا، پڑھاىا اورقبول كىا جاتا ہے۔ ’’ تحرىف ‘‘ كےداغ سے بچنے كے لىے بعض علماء نے ’’ قراءات سبع ىا عشرۃ‘‘ كى تاوىلات كرتے ہوئے ان كے متواتر ہونے كو ثابت كىا ہے لىكن بعض دىگر اہل سنت علماء نے صراحت كے ساتھ بىان كىا ہے كہ ىہ قراءات ’’تواتر ‘‘كے ساتھ ہم تك نہىں پہنچى۔ تواتر كا مطلب ىہ ہے كہ ىہ قراءات ’’رسول اللہ ﷺ ‘‘نے خود بىان كى تھىں اور اس كو رسول اللہ ﷺ سے لىنے  اور نقل كرنے والے افراد لا تعداد تھے جو سب كے سب جھوٹ نہىں بول سكتے ۔ ہم سب جانتے ہىں كہ قرآنِ كرىم كى اس تواتر كے ساتھ صرف اىك قرأت پورى دنىا مىں رائج ہے اور وہى قرأت ٹھىك اور حقىقت كے مطابق ہے۔ علماءِ تشىع مىں اس مسئلہ مىں اختلاف پاىا جاتا ہے اور بعض  فقہاء و مفسرىن ان ’’سات ىا دس ىا گىارہ قرائتوں كو ‘‘ تحرىف شمار كرتے ہىں جىساكہ آىت اللہ خوئى  &نے ’’ البىان فى تفسىر القرآن‘‘ مىں مختلف قوى ادلہ كے ساتھ ثابت كىا ہے كہ قراءات سبع كا قائل ہونا تحرىفِ لفظى كا قائل ہونا ہے۔ اہل تشىع كے نزدىك صرف اىك قرأت مقبول و مشہور ہے جو عاصم كے طرىق سے ہم تك پہنچى ہے۔ اس قرأت كو ’’ اہل بىت ؑ  كى قرأت ‘‘بھى كہتے ہىں۔ ہر دور مىں  اسى قرأت كے مطابق قرآن پڑھا جاتا رہا ہے۔ آج بھى دنيا كے اطراف و كنار مىں اسى قرأت كے مطابق قرآن پڑھا جاتا ہے۔ پس اس قسم كى تحرىفِ لفظى كے مرتكب صرف اہل سنت اور ان سے تعلق ركھنے والے وہ علماء ہىں جو قراءات سبع كو تحرىف قرار دىتے ہىں۔

۲) قرآن كرىم كى ’’ آىات اور سورتوں ‘‘ كى بجائے بعض كلمات كو قرآن سے نكال دىنا ىا اس مىں كسى كلمہ كا اضافہ كرنا ۔ شىعہ و سنى دونوں متفق ہىں كہ قرآنِ كرىم مىں اس معنى مىں تحرىف واقع نہىں ہوئى ۔ البتہ ’’ اہل سنت ‘‘ كى كتب مىں بعض اىسے شواہد ملتے ہىں كہ بعض صحابہ كرام نے قرآنِ كرىم كے بعض كلمات كو بدلنے كى كوشش كى لىكن دىگر صحابہ كرام اور لوگوں كے شور كرنے كى وجہ سے وہ اس حركت كے مرتكب نہىں ہوئے۔ ىہ كہنا تب ٹھىك ہو گا جب مضبوط تارىخى ثبوت اور ٹھوس دلائل كے ساتھ ثابت ہو جائے كہ بعض صحابہ كرام نے اس فعل كى انجام دہى كى كوشش كى۔

۳)  قرآن كرىم مىں باہر سے بعض نئى سورتوں ىا نئى آىات كو داخل كرنا اور قرآنِ كرىم كے حجم كو مزىد بڑھا دىنا ىا اصل قرآن كو مكمل تبدىل كر دىنا اور اس بات كا قائل ہونا كہ جو كچھ ہمارے ہاتھوں مىں ہے اس مىں اىك حرف بھى وحى الہٰى نہىں ہے ،جىساكہ ’’ امام ابن حزم ‘‘ كے مطابق ’’ مصر ‘‘ كے بعض اہل سنت صوفىاء كا ىہ عقىدہ تھا ۔ بلاشك و شبہ اس قسم كى تحرىف باطل ہے اور كسى صورت واقع نہىں ہوئى اور اس كا قائل فاسد و فاسق ہے۔ اہل تشىع مىں اس نظرىہ كا كوئى قائل نہىں رہا حتى كہ جن كى طرف اہل سنت  تحرىف كى تہمت منسوب كرتے ہىں وہ بھى اس كے قائل نہىں ہىں۔ چھٹى صدى ہجرى كے معروف اہل سنت عالم دىن ’’ ابن حزم‘‘ نے الفِصَل مىں لكھا كہ مصر مىں امام مالك و شافعى كے ماننے والے مسلك ’’اشاعرہ‘‘ كى اىك جماعت اس طرح كے خرافاتى نظرىہ كى قائل رہى ہے۔ اسى طرح اہل سنت كى كتب مىں بعض اىسى رواىات ہىں جو بتاتى ہىں كہ قرآن كرىم كى بعض آىات تھىں جو حكم كے اعتبار سے قرآن ہىں لىكن تلاوت كے اعتبار سے نہىں، جىساكہ كتبِ اہل سنت كے مطابق ’’خلىفہ ثانى حضرت عمر بن خطاب ‘‘نے دعوى كىا كہ آىتِ رجم قرآن كا حصہ ہے لىكن سب مسلمان جانتے ہىں كہ اىسى كوئى آىت قرآن مىں موجود نہىں۔ خلىفہ ثانى كے قول كو محفوظ ركھنے كى غرض سے اہل سنت علماء قائل ہىں كہ قرآنِ كرىم كى آىات دو طرح كى ہىں :
۱۔ وہ آىات جن كى تلاوت اور حكم دونوں باقى ہے ۔
۲۔ وہ آىات جن كى تلاوت ساقط ہو گئى ہے لىكن حكم باقى ہے۔
اسى طرح حضرت عبد اللہ ابن مسعود ’’ صحىح بخارى اور دىگر كتب احادىث ‘‘ كے مطابق قائل تھے كہ سورہ فلق اور سورہ الناس قرآن كا حصہ نہىں ہے ۔ جىساكہ ىہ بحث تفصىلى حوالہ جات كے ساتھ آئندہ كے اوراق مىں آئے گى۔ 
اس طرف توجہ رہے كہ اہل سنت كے چند علماء ىا ان كے صوفىاء كا اس انحرافى نظرىہ كے قائل ہو جانے كا ىہ مطلب نہىں كہ تمام اہل سنت اس كے قائل ہىں ۔ بلكہ تمام اہل سنت اور ان كے علماء كسى صورت ’’تحرىف لفظى ‘‘ كے قائل نہىں ۔ نىز چند افراد كے نظرىہ كو پورے فرقے ىا مكتب كے پىروكاروں كا نظرىہ نہىں كہہ سكتے ۔جہاں تک اس نظریہ کا تعلق ہے کہ قرآنِ كرىم مىں سے بعض آىات ىا سورتوں كو نكال لىا گىا ىہ بھى باطل اور خرافاتى نظرىہ ہے۔ اگرچے اہل سنت نے اس نظرىہ كى نسبت دو ىا تىن شىعہ علماء كى طرف دى ہے كہ وہ اس نظرىہ كے قائل تھے ۔ لىكن ان شاء اللہ آئے گا كہ اوّلا ىہ ’’تہمت ‘‘ ٹھىك نہىں اور بالفرض اگر اس كو مان بھى لىا جائے تو شىعوں كے نزدىك غىر قابل قبول اور منافى قرآن و رواىات ہے۔ نىز اہل سنت مىں سے بعض صوفىاء اس نظرىہ كے قائل رہے ہىں جىساكہ اہل سنت كے معروف شىخ اور امام ’’ عبد الوہاب شعرانى‘‘ نے ابن عربى كا مسلك بىان كىا ہے۔’’ تحرىف لفظى ‘‘ كى كوشش كرنا انتہائى گھمبىر اور عظىم جرم ہے جس كے نتىجے مىں كسى كتاب سے استفادہ نہىں كىا جا سكتا ۔ لہٰذا جو تحرىفِ لفظى كا قائل ہو وہ قرآنِ كرىم كا منكر شمار ہوتا ہے۔ ہمارى بحث بھى صرف اسى قسم كے متعلق ہو گى۔ آئىے اب دىكھتے ہىں كہ تحرىف لفظى سے كىا مراد ہے اور كىا كوئى شىعہ ىا سُنى عالم اس نظرىے كا قائل رہا ہے ىا نہىں۔

قرآن كرىم مىں تحرىف لفظى ۔ اىك باطل نظرىہ :

       قرآن كرىم كو تحرىف سے بچانے اور اگلى نسلوں تك منتقل كرنے كے لىے  رسول اللہ ﷺ نے قرآن كرىم كى ’’تلاوت ، حفظ كرنا اور امام على ×كو باقاعدگى كے ساتھ تحرىر كروانے اور دىگر صحابہ كرام كو لكھوانے‘‘ كا خصوصى اہتمام كىا ۔ ىہى وجہ تھى كہ رسول اللہ ﷺ كے زمانے مىں ہى قرآن كرىم لاكھوں سىنوں مىں محفوظ ہو گىا تھا اور اسلامى مملكت كے كونے كونے تك كتابى صورت مىں پہنچ گىا تھا۔ رسول اللہ ﷺ كے زمانے سے حفظ اور كتابت كا اىسا سلسلہ چلا آ رہا ہے كہ آج بھى تلاوت، حفظ اور كتابت و نقاشى كى صورت مىں تواتر كے ساتھ قرآن كى آىاتِ مباركہ كو محفوظ كىا گىا ہے ۔ اگر قرآنِ كرىم مىں كسى قسم كى تبدىلى ىا تحرىف ہوتى تو دنىا مىں كوئى نہ كوئى اىسا قرآن ہمىں مل جاتا جس مىں آىاتِ قرآنىہ ردّ و بدل كے ساتھ لكھى گئى ہوتىں ىا مزىد آىات شامل كر دى گئى ہوتىں۔ حالانكہ ىہ كام دشمنانِ اسلام كے لىے بہت آسان تھا كہ وہ قرآن كرىم كا خود ساختہ نسخہ اىجاد كرتے اور اپنے ملك مىں نشر كر دىتے ۔ لىكن مسلمانوں كا قرآن كرىم كے ساتھ غىر معمولى سلوك كرنے كى وجہ سے دشمنانِ اسلام اىسا نہىں كر پاىا خصوصًا آج كے زمانے مىں دشمن اس كى طرف مىلى نگاہ دىكھ بھى نہىں سكتا۔

قرآنِ كرىم مىں واضح چىلنج موجود ہے كہ اگر كوئى اىك سورہ بنا لائے تو ثابت ہو جائے گا كہ قرآنِ كرىم ابدى معجزہ نہىں ہے اور اسلام حقانىت نہىں ركھتا ۔ رسول اللہ ﷺ كے زمانے سے لے كر آج تك ’’دشمن‘‘ نے اسلام اور مسلمان كو نابود كرنے كى ہر مذموم كوشش كى اور ہر قبىح فعل كو انجام دىا ، اربوں كھربوں كى مالىات خرچ كى ، لاكھوں جانوں كو ضائع كىا لىكن اسے ىہ جرأت نہىں ہوئى كہ وہ ’’ قرآن كرىم ‘‘ كى اىك سورہ كا مقابلہ كرتے ہوئے نئى سورہ بنا لائے۔ لہٰذا اگر كوئى مسلمان فرقہ كسى دوسرے فرقے پر ’’ تحرىف كى تہمت‘‘ لگائے تو اس كا مطلب ىہ وہو گا كہ تہمت لگانے والا اپنے عمل سے ىہ اعتراف كر رہا ہے :
۱۔ قرآن كرىم مىں تحرىف واقع ہوئى  ہے۔
۲۔
مسلمانوں كے اىك فرقے مىں ىہ طاقت تھى كہ وہ تحرىف كر دے ۔
۳۔
مسلمانوں مىں اختلاف ہے كہ قرآن مىں تحرىف ہوئى ىا نہىں ہوئى ۔
۴۔
مسلمان ثابت نہىں كر سكتے كہ قرآن مىں تحرىف ہوئى ہے ىا نہىں۔

كسى بھى فرقہ پر  ’’ تحرىف قرآن ‘‘ كى تہمت لگانا  درحقىقت ’’ قرآن كرىم‘‘ كى شان و شوكت كو ضرب لگانے كے مترادف ہے۔ مسلمانوں مىں  قرآن كرىم كى تحرىف كے بارے مىں كسى قسم كا كوئى اختلاف نہىں ہے اور نہ ہى ان مىں سے كوئى تحرىف كا قائل رہا ہے۔ جہاں تك بعض علماء كے اقوال ىہ بعض گروہوں كا تحرىف كے نظرىہ كو قبول كرنا ہے تو اس سے ’’ پورا فرقہ ‘‘ قصور وار نہىں ٹھہرتا بلكہ وہ عالم ىا فرد قابل مذمت قرار پاتا ہے جس نے تحرىف كے نظرىہ كو اختىار كىا ہے۔ ہمىں شدت كے ساتھ ىہ موقف اختىار كرنا چاہىے كہ مسلمانوں ىا غىر مسلمىن مىں سے كوئى بھى قائل نہىں ہے كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىف واقع ہوئى ہے۔ بعض افراد كے قائل ہونے سے ىہ ثابت نہىں ہوتا كہ سب لوگوں كا بھى ىہى نظرىہ ہے ۔ جىساكہ ان شاء اللہ اہل سنت كتب سے بعض اىسے شواہد اور دلائل پىش كىے جائىں گے جن سے معلوم ہوتا ہے كہ بعض صحابہ كرام اور بزرگانِ اہل سنت تحرىف كے قائل تھے۔ اس كے باوجود اگر ىہ تمام اقوال كى حقانىت ثابت  ہو جائے تو بھى اىك صحابى كے نظرىے سے سب صحابہ كرام كا وہى نظرىہ ہونا ثابت نہىں ہوتا  اور نہ ہى اىك سُنى عالم كے نظرىہ سے تمام اہل سنت علماء كا  وہى نظرىہ اختىار كرنا  ثابت ہوتا ہے ۔

قرآن كرىم كے بارے انتہائى احتىاط سے گفتگو كرنى چاہىے كىونكہ رسول اللہ ﷺ كے كتابى اور عملى  دونوں معجزے انسانوں كے شر و فساد سے محفوظ ہىں۔ متواتر حدىث ’’ حدىث ثقلىن ‘‘ كے مطابق رسول اللہ ﷺ اپنى اُمت مىں صرف دو چىزىں چھوڑ كر گئے : كتابِ الہٰى (ىعنى قرآن كرىم) اور اہل بىت ^ ( ىعنى امامت ، جس كا آخرى فرد بقىۃ اللہ خاتم الاوصىاء خلىفہ رسول اللہ ، امام مہدى # )۔ ىہ دونوں معجزے زندہ تابندہ ہىں اور دشمن كے ناپاك عزائم كى دسترس مىں آنے والے نہىں ہىں۔ صحىح مسلم مىں صحىح السند اور متواتر رواىات اس خطبہ كے بارے مىں وارد ہوئى ہے جو رسول اللہ ﷺ كى حىات طىبہ كا آخرى بڑا خطاب تھا ۔ ىہ خطاب ’’غدىر خم‘‘ كے مقام پر عوام الناس كے سامنے كىا گىا اور اس مىں آپ ﷺ ﷺ نے اپنى امت كو وہ تمام وصىتىں دوبارہ ارشاد فرمائى جن كا قبول كرنا ہر مسلمان پر لازم تھا۔ اس خطاب كے بعد آپ ﷺ مدىنہ مىں مقىم رہے اور اسى سال آپ ﷺ لقاءِ الہٰى كى منزل پر فائز ہوئے۔ صحىح مسلم مىں وارد ہونے والى اس رواىت مىں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہىں :{ قام رَسُولُ اللَّهِ ’ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ ، فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِ؛ رسول اللہ ﷺ نے اس دن ’’ پانى كے اس گھاٹ ‘‘ كے سامنے ہم سے خطاب فرماىا جسے ’’ خم‘‘ كہا جاتا ہے جو مكہ اور مدىنہ كے مابىن ہے۔ آپ ﷺ نے اللہ كى حمد و ثناء بجا لائى اور نصىحت فرمائى اور ىاد دہانى كرائى ۔ پھر آپ نے فرماىا : اے لوگوں ! ىقىنًا مىں صرف اىك بشر ہے ، جلد ہى مىرے پاس ’’مىرے ربّ كا فرشتہ (اجل) آ جائے گا اور مىں اسے جواب دوں (اور ان دنىا سے رخصت ہو جاؤ)، مىں تم لوگوں كے درمىان دو بھارى (انتہائى قدر و قىمت كى حامل) چىزىں چھوڑے جا رہا ہوں : ان مىں سے اىك اللہ كى كتاب ہے ، اس مىں ہداىت اور نور ہے لہٰذا تم لوگ اللہ كى كتاب كو تھامے ركھنا اور اس كے ساتھ متمسك رہنا ، پھر آپ ﷺ نے كتابِ الہٰى پر اُبھارا اور اُس كى طرف رغبت دلائى ، پھر فرماىا : اور (دوسرى چىز)  مىرے اہل بىت ^ ہىں ، مىں تم لوگوں كو اپنے اہل بىت  ^ كے سلسلے مىں ’’ اللہ ‘‘ كى ىاد دلاتا ہوں ، مىں تمہىں اپنے اہل بىت ؑ كے بارے مىں ’’اللہ‘‘ كى ىاد دلاتا ہوں ، مىں اپنے اہل بىتؑ كے بارے مىں تم لوگوں كو ’’اللہ‘‘ كى ىاد دلاتا ہوں}. [7]نیشاپوری، مسلم، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۳۷۳۔ اس حدىث كو اہل سنت اور اہل تشىع كے كبار علماءِ حدىث نے نقل كىا ہے ۔ اس كو حدىث ثقلىن اس لىے كہتے ہىں كىونكہ رسول اللہ ﷺ نے كلمہ ’’ ثقلىن‘‘ كو استعمال كىا ہے اور اس كے ذرىعے سے كتابِ الہٰى اور اہل بىت ؑ كا نام لے كر انہىں انتہائى قدر وقىمت اور قابلَ اہمىت قرار دىا ہے۔ اس حدىث كے مطابق آپ ﷺ نے اپنى امت كے لىے جن كو چھوڑ تھا اُن كا دشمن كے نرغوں سے محفوظ ہونا ضرورى ہے۔ اللہ سبحانہ كى حكمت و تدبىر كے پىش نظر قرآن كرىم اور امام مہدىؑ دشمنوں كے ناپاك ہاتھوں سے محفوظ ہىں۔ ہمارے پاس آىاتِ قرآنىہ كے علاوہ حدىث ثقلىن سب سے بہترىن دلىل ہے جو بتاتى ہے كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىف واقع نہىں ہوئى ۔

       جہاں تك بعض امور مىں تحرىف كى طرف نسبت دى گئى ہے تو وہ اوّلاً واقع نہىں ہوئے ، ثانىًا اہل سنت اور اہل تشىع مىں اىك دو افراد اىسے گزرے ہىں جنہوں نے تحرىف كى بات كى ہے لىكن اىك فردِ واحد ىا دو تىن افراد سے كوئى مكتب ىا فرقہ پہچانا نہىں جاتا اور نہ ہى اسے تمام مسلمانوں كا نظرىہ كہا جا سكتا ہے اور نہ اس كو مسلمانوں مىں اختلاف كہا جا سكتا ہے۔ اىسے شاذ و نادر اقوال ہر مسئلہ مىں مل جاتے ہىں جن كو انہى شخصىات مىں منحصر اور محدود كرنا ضرورى ہے۔ ذىل مىں ہم جو بحث ذكر رہے ہىں وہ صرف ىہ بتلانے كےلىے ہے كہ اہل سنت بعض اىسے نظرىات كے قائل ہىں جن كا نتىجہ ’’ تحرىفِ قرآن ‘‘ بنتا ہے ، مثلاً بخارى اور مسلم كى تمام رواىات ’’ صحىح اور معتبر ‘‘ ہىں اور قرآنِ كرىم كے بعد انہى كى سب سے زىادہ اہمىت ہے، ىا قراءات سبع كا قائل ہونا، بسم اللہ كو سورتوں كا جزء نہ سمجھنا ، صحابى كو معصوم تصور كرنا اور اس كے ہر عمل كى تاوىل كرنا ، بعض تارىخى واقعات مىں صحابى كا دفاع كرتے ہوئے (تارىخ كے مطابق) ان كے غلط عمل كو بھى صحىح قرار دىنا ، جىسے قرآنِ كرىم كے نسخے جلانا ، دو گواہوں كى گواہى پر كسى بھى قول ىا كلام كو ’’ قرآن‘‘ قرار دے دىنا ، علماء كے غلط نظرىات كا دفاع كرنا اور ان كے باطل نظرىات كو بھى صحىح سمجھنا ، … ۔ اگر ان تمام امور مىں واضح موقف اور قواعد و اصولوں كے مطابق نتىجہ حاصل كىا جائے تو قرآن كرىم مىں تحرىف كے ہر قسم كے شبہات ختم ہو جاتے ہىں۔

بخارى و مسلم كى سب رواىات كو صحىح السند مان لىا جائے تو اس كا ىہ نتىجہ نكلتا ہے كہ بعض صحابہ كرام جىسے ’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود ‘‘ بھى تحرىف كے قائل تھے۔ لىكن حق ىہ ہے كہ چند علماء كے اقوال سے تمام اسلامِ جہان پر حكم نہىں لگاىا جا سكتا ۔ اسى طرح ’’ طبرانى كى معجم كبىر اور ابن ماجہ كى سنن مىں صحىح السند رواىت وارد ہوئى ہے كہ ام المومنىن كے تكىے كے نىچے ’’ آىتِ رجم اور آىت رضاعت ‘‘ تھى جسے بكرى كھا گئى اور آج وہ قرآنِ كرىم مىں موجود نہىں ہىں۔ ىہاں ہمارے پاس صرف ىہى حل رہ جاتا ہے كہ ہم كہىں : ىا تو بخارى و مسلم اور سنن ابن  ماجہ كى ىہ رواىتىں باطل اور موضوع ہىں ىا ہمىں ىہ كہنا پڑے گا كہ صحابى ىا ام المومنىن نے اشتباہ كىا اور انہوں نے غلطى سے چند آىات ىا سورتوں كى حد تك تحرىفِ قرآن كا نظرىہ قبول كر لىا ۔

پھر عرض كرتے چلىں كہ ان معتبر اور پختہ مدارك و حوالہ جات پىش كرنے سے مقصود ہر گز ىہ نہىں ہے كہ ہم ’’فرقہ وارانہ عناصر ىا تعصب ‘‘ چاہتے ہىں اور بعض نادان جس طرح ’’ شىعوں ‘‘ كى طرف  ’’ تحرىف ‘‘ كى تہمت لگا كر قرآن كرىم كى حقىقت كو داغداركرتے ہىں ہم بھى اہل سنت كو اس تہمت سے متہم كرنا شروع كر دىں !! ہمارا مقصد صرف قرآنِ كرىم كا دفاع كرنا ہے اور ہر اس فرد كے نظرىہ كو ناقابل اعتبار قرار دىنا ہے جس سے تحرىف ثابت ہوتى ہے ۔ اہل سنت مدارك مىں ’’ تحرىف ‘‘ كے حوالے سے چند معتبر مدارك موجود ہىں جن سے انسان شبہات كا شكار ہو جاتا ہے۔ ذىل مىں بعض شبہات اور ان كے جوابات پىش خدمت ہىں:

سُنى شىعہ كتب مىں موجود رواىات:

       دشمنانِ اسلام ’’تحرىفِ قرآن‘‘ كے واقع ہونے پر اہل سنت اور اہل تشىع كى كتبِ احادىث سے دلىل لاتے ہوئے بعض اىسى رواىات كو پىش كرتے ہىں جو تحرىف پر دلالت كرتى ہے۔ اہل سنت و شىعہ كى كتابوں  مىں اىسى رواىات وارد ہوئى ہىں جن كا نتىجہ ’’تحرىف‘‘ نكلتا ہے۔ ىہ رواىات درج ذىل اقسام كى ہىں:
۱۔بعض رواىات جو قرآن كرىم كى 6236 سے زىادہ آىات كى تعداد بتاتى ہے۔
۲۔ بعض رواىات كے مطابق قرآنِ كرىم كے بعض حصے كو بكرى كھا گئى تھى جو كہ اب قرآن مىں موجود نہىں ہے۔ اس طرح كى رواىات ام المومنىن حضرت عائشہ سے نقل ہوئى ہىں۔
۳۔ بعض رواىات كے مطابق قرآن كرىم كے حروف موجودہ حروف سے كہىں زىادہ ہىں۔
۴۔
بعض آىات تھىں جو قرآن سے نكال لى گئىں۔ اس طرح كى رواىات حضرت عمر بن خطاب سے منقول ہىں، جىسے آىتِ رجم، اس آىت كے خلىفہ ثانى حضرت عمر كہتے تھے ىہ قرآن كا حصہ ہے۔
۵۔
بعض رواىات جو واضح طور پر بتاتى ہىں كہ قرآن مىں تحرىف ہے۔

علماءِ شىعہ و سنى ان مجموعہ رواىات كے بارے تفصىلى اور ٹھوس دلىلىوں سے ثابت كرتے ہىں كہ اول : ان مىں سے اكثر رواىات’’ضعىف اور موضوع ‘‘ ہىں۔ دوم : ان مىں سے بعض رواىات جو تحرىف كا بتاتى ہىں وہ قرآنِ كرىم اور متواتر رواىات جىسے ’’ حدىث ثقلىن ‘‘ كے خلاف ہىں اس لىے قابل قبول نہىں ۔ سوم : بعض صحابہ ىا ام المومنىن كى طرف دى گئى ’’ تحرىف ‘‘ كى نسبت اگر اہل سنت قواعدِ حدىث كے مطابق صحىح السند اور معتبر ہے تو پھر ىہ صرف انہى لوگوں كے ساتھ خاص نظرىہ ہے اور باقى صحابہ كرام ، امہات المنومنىن اور سب مسلمان ’’ ان شخصىات كے اس نظرىہ ‘‘ كو قبول نہىں كرتے ۔        اہل سنت كى كتابىں اس حوالے سے ’’ دو حصوں ‘‘ مىں تقسىم ہوتى ہے :
۱۔ وہ كتابىں جن مىں اىسى رواىات ہىں جو بتاتى ہىں كہ بعض صحابہ اور تابعىن تحرىف كے قائل تھے۔
۲۔
وہ كتابىں اور عبارتىں جو بتاتى ہىں كہ اہل سنت كے ’’ بعض فرقے اور بعض بزرگ علماء‘‘ تحرىف كے قائل تھے جن مىں سے بعض فرقے ابھى تك موجود ہىں۔

صحابہ كے بارے وارد ہونے والى رواىات:

       صحىح بخارى اور دىگر احادىث كے مجموعے كے مطابق بعض صحابہ كرام تحرىف كے قائل تھے۔ اس طرف انتہائى توجہ رہے كہ ىہ سب معلومات اہل تشىع كى كتب مىں وارد نہىں ہوئى ۔ بلكہ ىہ نتائج ان رواىات سے حاصل كردہ ہىں جو اہل سنت كتبِ احادىث مىں ’’صحىح السند اور معتبر ذرائع‘‘ سے وارد ہوئى ہے۔ زىادہ تعجب اس پر ہےس كہ اہل سنت ان رواىاتوں كو قبول كرتے ہىں اور ان پر عقىدہ بھى ركھتے ہىں۔ اگرچے بعض اىسى رواىات شىعہ كتب مىں بھى وارد ہوئى ہىں جن كى نسبت اہل بىت  ^ كى طرف دى گئى ہے لىكن شىعہ ان رواىتوں كو قبول نہىں كرتے اور نہ ان پر عمل كرتے ہىں۔ بلكہ انہىں غىر معتبر اور نا قابل قبول قرار دىتے ہىں۔ اہل سنت كى رواىات جن صحابہ كرام كے بارے ىہ بتاتى ہے كہ وہ تحرىف كے قائل تھے وہ صحابہ كرام دو حصوں مىں تقسىم ہوتے ہىں:
۱۔ وہ صحابہ جو واضح الفاظ مىں بعض سورتوں كا انكار كرتے تھے۔
۲۔
وہ صحابہ جو واضح طور پر تو تحرىف كے قائل نہىں تھے لىكن ان كى طرف بعض اىسے اقوال ، اعمال و افعال منسوب كىے جاتے ہىں كہ اگر ىہ اقوال و اعمال ان سے صادر ہوئے ہىں تو ان كا نتىجہ ىہ نكالتا ہے كہ ىہ صحابہ تحرىف كے قائل تھے۔
۳۔
اختصار كو مدنظر ركھتے ہوئے چند صحابہ كرام كى حوالہ جات كے ساتھ نشاندہى كر رہے ہىں اور ابھرنے والے شبہ كو ٹھوس جوابات زىرِ تحرىر لا رہے ہىں تاكہ ىہ بحث كھل كر ہمارے سامنے آ جائے:

صحابى بزرگ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور تحریف:

       صحىح بخارى ، صحىح ابن حبان ، معجم الكبىر، سنن بىہقى ، مسند احمد ، مسند بزار اور دىگر معتبر ذخىرہ احادىث مىں صحىح السند اور معتبر طرق سے وارد ہوا كہ جناب عبد اللہ بن مسعود ’’ سورہ الفلق اور سورہ الناس ‘‘ كو قرآنِ كرىم كا حصہ نہىں سمجھتے تھے اور سب لوگوں كے سامنے انكار كرتے تھے كہ ىہ قرآن كا حصہ نہىں ہے ۔ حتى حضرت عبد اللہ بن مسعود كا ىہ نظرىہ پورے عالم اسلام مىں معروف تھا ۔ اس لىے ان كے شاگرد اور بھائىوں سے صحابہ و تابعىن پوچھا كرتے تھے كہ كىا ابن مسعود اس بات كے قائل ہىں كہ ’’سورہ فلق اور سورہ الناس ‘‘ قرآن كا حصہ نہىں ہے تو وہ جواب دىتے بالكل اىسا ہى ہے۔ احمد بن حنبل كى مرتب كردہ كتاب ’’ مسند احمد‘‘ مىں عبد الرحمن بن ىزىد براہِ راست ’’عبد اللہ بن مسعود‘‘ سے نقل كرتے ہىں:{ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ عَبْدُ اللهِ ، يَحُكُّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنْ مَصَاحِفِهِ ، وَيَقُولُ : إِنَّهُمَا لَيْسَتَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ ؛ عبد الرحمن بن ىزىد بىان كرتا ہے كہ عبد اللہ بن مسعود  نے سورہ فلق اور سورہ الناس كو اپنے مصحف سے نكال دىا تھا اور وہ كہا كرتے تھے : ىہ دونوں سورتىں اللہ كى كتاب كا حصہ نہىں ہىں }. [8]بن حنبل ، احمد، مسند احمد،  ج ۳۵، ص ۱۱۷، حدیث: ٢١١٨٨۔        مسند احمد بن حنبل كى اس حدىث كے ذىل مىں ’’ معروف اہل سنت محدث شعىب ارنؤوط ‘‘ لكھتے ہىں كہ اس حدىث كے تمام راوى ثقہ اور اعلىٰ پائے كى صحت سے متصف ہىں ۔  كلمہ ’’حَكَّ ، يَحُكُّ ‘‘ كا مطلب ’’  نكالنا ، رگڑنا تاكہ مٹ جائے اور كھسكانے ‘‘ كے ہىں۔ ىہ حدىث صحىح اسناد كے ساتھ متعدد كتابوں مىں وارد ہوئى ہے ۔ ’’بخارى ‘‘نے اس حدىث كو اپنى صحىح مىں ان الفاظ كے ساتھ نقل كىا ہے:{ عَنْ زِرٍّ قَالَ سَأَلْتُ أُبَىَّ بْنَ كَعْبٍ قُلْتُ : يَا أَبَا الْمُنْذِرِ ! إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا ، فَقَالَ أُبَىٌّ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ’ ، فَقَالَ لِى: قِيلَ لِى ، فَقُلْتُ ، قَالَ : فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّه ؛ زرّ بن حبىش بىان كرتے ہىں كہ مىں نے ’’ اُبى بن كعب (معروف صحابى )‘‘ سے پوچھا ، مىں نے كہا: اے ابو منذر ( ىہ ابى بن كعب كى كنىت ہے ) ! آپ كا بھائى ’’ ابن مسعود ‘‘ تو اس طرح طرح كہتا ہے ، ابى بن كعب نے جواب دىا :  مىں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے مجھے سے وہى فرماىا جو مىرے بارے مىں كہا جاتا ہے، زرّ كہتا ہے كہ مىں نے كہا ، اس نے كہا : ہم تو وہى كہىں گے جو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ارشاد فرماىا}.[9]بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری،ج ۴، ص ۹۰۴ ، حدیث : ۴۶۹۳۔        اس رواىت مىں ’’بخارى نے ىا راوى نے ‘‘جان بوجھ كر بعض كلمات كومبہم ركھا ہىں۔ صحىح بخارى كے سب سے بڑے شارح ’’ ابن حجر عسقلانى ‘‘ نے اس حقىقت كو بىان كىا ہے۔ حضرت اُبى بن كعب ’’ صحابى ‘‘ ہىں اور غزوہ بدر مىں شرىك ہوئے۔ آپ كا تعلق انصار سے تھا اور مدىنہ منورہ كے اصل باشندے تھے۔ آپ كى كنىت ابو منذر  ہے اور آپ ’’رسول اللہ ﷺ ‘‘ كى زندگى مىں قرآن كو جمع كىا كرتے تھے اور پورا قرآن جمع كر كے آپ نے آنحضرت ﷺ كى خدمت مىں پىش كىا ۔ آپ كو پورا قرآن زبانى حفظ تھا۔ [10]ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۲۳۶، رقم: ۸۷۔  اگر مسند احمد بن حنبل اور صحیح بخاری کی صحیح السند حدیث کی رعایت کی جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلىل القدر صحابى حضرت عبد اللہ بن مسعود اہل سنت كى معتبر رواىات كے مطابق تحرىف كے قائل تھے ۔

صحابی بزرگ ابی بن کعب اور تحریف:

اہل سنت کی صحیح السند احادیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اُبی بن کعب بھی تحریف کے قائل تھے کیونکہ وہ کہا كرتے تھے كہ ہمارے زمانے مىں سورہ احزاب ’’ سورہ بقرہ‘‘ جتنى لمبى تھى۔ موجود ه قرآن مىں سورہ احزاب كى 73 آىات ہىں اور سورہ بقرہ كى 286 آىات كرىمہ ہىں۔ اہل سنت كے معروف محدث ’’ امام نسائى ‘‘ اپنى معروف كتاب ’’ سنن النسائى‘‘ اور ابن حبان اپنى ’’ صحىح ‘‘ مىں رواىت نقل كرتے ہىں كہ زرّ بن حبىش نے ابى بن كعب سے نقل كىا ہے كہ ’’ اُبَى بن كعب ‘‘ فرماتے ہىں : تم لوگ سورہ احزاب كى كتنى آىات شمار كرتے ہو ، ہم نے كہا : 73 ، اُبَى بن كعب نے فرماىا : سورہ احزاب تو سورہ بقرہ كے برابر ہے ، اس مىں آىت رجم بھى تھى ، وہ آىت رجم ىہ ہے :{والشيخ والشيخة فارجموهما البتة نكالا من الله والله عزيز حكيم؛ بوڑھا اور بوڑھى اگر زنا كرىں تو ان دونوں كو رجم كر دو ، ىہ اللہ كى جانب سے عقوبت و سزا ہے اور اللہ عزىز حكىم ہے }.[11]نسائی، احمد بن شعیب، سنن النسائی، ج ۶، ص ۱۰۸، حدیث: ۷۱۱۲۔       ہم اپنے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مربوط اس رواىت كى طرف واپس آتے ہىں جو ’’بخارى‘‘ نے مبہم الفاظ كے ساتھ نقل كى ہے۔ نوىں صدى ہجرى كے معروف اہل سنت محدث و شارح ’’ ابن حجر عسقلانى ‘‘ جن كى رائے حدىث كے فن مىں حجت اور حرفِ آخر شمار ہوتى ہے اپنى كتاب ’’ فتح البارى فى شرح البخارى‘‘ مىں ىوں رقمطراز ہىں:{ قوله: يقول كذا وكذا ، هكذا وقع هذا اللفظ مبهما ، وكأنّ بعض الرواة أبهمه استعظاما له ، وأظنّ ذلك من سفيان ، … كنت أظنّ أوّلا أنّ الذي أبهمه البخاري؛ لأننِي رأيت التصريح به في رواية أحمد عن سفيان، ولفظه : قلت لأبي : إنّ أخاك يحُكُّها من المصحف؛ صحىح بخارى كى اس حدىث مىں راوى كا ىہ كہنا كہ ’’ اس طرح اس طرح ‘‘ تو اس لفظ كو مبہم ركھا گىا ہے۔ گوىا كہ بعض راوىوں نے ان الفاظ كو عظمت كى وجہ سے مبہم ركھا ہے اور واضح بىان نہىں كىا ۔  … مىرا ىہ خىال ہے كہ بخارى نے خود اس رواىت مىں ان كلمات كو واضح ذكر نہىں كىا كىونكہ مىں ان الفاظ كو واضح طور پر اس رواىت مىں دىكھا ہے جو احمد نے سفىان سے نقل كى ہے۔ رواىت كے الفاظ ىہ تھے:قُلْتُ لِأُبَى : إِنّ أَخَاكَ يَحُكُّهَا مِنَ المَصْحَفِ ، مىں نے ابى بن كعب سے كہا: بے شك تمہارے بھائى نے مصحف سے ان دونوں سورتوں كو نكال دىا  ہے }[12]ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح البخاری، ج ۸، ص ۷۴۲۔[13]ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح البخاری، ج ۸، ص ۷۴۲۔ مزىد ىقىن دہانى كے لىے اىك اور صحىح السند رواىت كو نقل كرتے ہىں جس كے الفاظ پہلى رواىت كى مانند واضح اور راوى بھى مختلف اور ثقہ ہىں ۔ بوصیری متوفی ۸۴۰ھ نے اتحاف الخیرۃ میں روایت نقل کی ہے کہ ابراہىم بن علقمہ بىان كرتا ہے :{ قَالَ: كَانَ عَبْدُ الله، يَحُكُّ الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنَ الْمُصْحَفِ، وَيَقُولُ: أَمَرَ رَسُولُ الله ’ أَنْ نَتَعَوَّذَ بِهِمَا ، وَلَمْ يَكُنْ عَبْدُ الله يَقْرَأْهُمَا. هَذَا إِسْنَادُهُ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ؛ عبد اللہ ابن مسعود ’’مصحف ‘‘ سے سورہ الفلق اور سورۃ الناس كو نكال دىا كرتے تھے ، اور پھر راوى كہتا ہے: رسول اللہ ﷺ نے حكم دىا ہے كہ ان دونوں سورتوں كے ذرىعے سے ہم پناہ طلب كرىں ، عبد اللہ بن مسعود ان دونوں سورتوں كو نہىں پڑھا كرتے تھے۔ مصنف كتاب كہتے ہىں كہ اس حدىث كى سند مىں موجود تمام راوى ثقہ اور قابل اعتماد ہىں }.[14]بوصیری، احمد بن ابی بکر، اتحاف الخیرۃ المہرۃ بزوائد المسانید العشرۃ، ج ۴، ۴۶۷، حدیث: ۳۹۴۶۔

پس ثابت ہوا کہ اہل سنت کی صحیح احادیث کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ’’ صحابى رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابی بن کعب‘‘ تحرىفِ قرآن كے قائل تھے اور برسر اعلان كہا كرتے تھے كہ قرآن كرىم كى آخرى دو سورتىں قرآن كا حصہ نہىں ہےاور سورہ احزاب سورہ بقرہ جتنی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحاح ستہ اور کتب مسانید کے مطابق قرآنِ كرىم كے جن جن نسخوں مىں ’’ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ‘‘ موجود ہے وہ مصحف اور نسخے تحرىف شدہ ہىں ۔ جبكہ مسلمانوں كے نظرىے كے مطابق اگر اس قول كى نسبت صحىح ہے تو حضرت ابن مسعود ’’قرآنِ كرىم‘‘ مىں كمى بىشى واقع ہونے كے قائل اور اس عمل كو انجام دىنے والے ہىں !!

معوذتىن كے بارےمیں شىعوں كا نظرىہ

       صحابى رسول حضرت عبد اللہ ابن مسعود كا ىہ مشہورِ زمانہ نظرىہ’’ اہل بىت ؑ سے منقول رواىات ‘‘ مىں بھى وارد ہوا ہے۔ لىكن اہل بىتؑ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود كے اس نظرىے كو ردّ كىا ہے اور اسے جناب ابن مسعود كا ذاتى نظرىہ قرار دىا ہے اور  ىہ دونوں سورتىں قرآنِ كرىم كا حصہ ہىں۔ معروف صحابى امام ابو بكر حضرمى ’’ امام باقرؑ ‘‘ سے رواىت نقل كرتے ہوئے كہتے ہىں:{ قلت لأبي جَعْفَرٍ : إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَمْحُو الْمُعَوِّذَتَيْنِ مِنَ الْمُصْحَفِ فَقَالَ : كَانَ أَبِي يَقُولُ : إِنَّمَا فَعَلَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ  بِرَأْيِهِ، وَهُمَا مِنَ الْقُرْآنِ؛ابو بكر حضرمى كہتے ہىں مىں نے امام باقرؑ سے پوچھا  كہ كہ عبد اللہ ابن مسعود تو قرآنِ كرىم سے سورہ الفلق اور سورہ الناس كو مٹا دىا كرتے تھے ؟ امام ؑنے فرماىا: مىرے والد  فرماىا كرتے تھے كہ عبد اللہ ابن مسعود نے اپنى رائے كو اختىار كرتے ہوئے اىسا كام كىا ہے ، جبكہ ىہ دونوں سورتىں قرآن كا  جزء ہىں}. [15]قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۴۵۰۔

 امّ المومنىن حضرت عائشہ اور تحریف:

       اہل سنت كى ’’ معتبر ترىن كتبِ احادىث ‘‘ مىں صحىح اور معتبر اسانىد كے ساتھ وارد ہوا ہے كہ ام المومنىن حضرت عائشہ كا نظرىہ تھا كہ موجودہ ’’ قرآن كرىم ‘‘ مىں وہ آىات نہىں ہىں جو اىك اىسى بكرى ان كے ’’ تكىے ‘‘ كے نىچے سے كھا گئى تھى جو لوگوں كے گھروں سے چارہ اور كوڑا كركٹ كھا جاتى ہے۔ ىہ رواىت ’’ سنن ابن  ماجہ ، معجم الكبىر ، معجم الاوسط ، سنن دارِ قطنى ، مسند ابى ىعلى اور بىہقى كى معرفۃ السنن والآثار مىں صحىح السند اور معتبر طرىق سے وارد ہوئى ہے۔ متعصب ترىن اہل سنت محدث ’’ ناصر الدىن البانى ‘‘ نے اس حدىث كو اپنى كتاب ’’ صحىح و ضعىف سنن ابن ماجہ ‘‘ مىں صحىح السند، معتبر اور ’’ حسن ‘‘ درجے كى حدىث قرار دىا ہے۔ نىز دىگر اہل سنت علماء و ماہرىن رجال و حدىث اس رواىت كى سند كو صحىح اور معتبر قرار دىتے ہىں ۔عبد الرحمان اپنے والد ’’ قاسم ‘‘ سے رواىت نقل كرتے ہىں كہ ’’ قاسم ‘‘ بىان كرتے ہىں كہ ام المومنىن حضرت عائشہ فرماتى ہىں :{َلَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا ؛ آىتِ رجم اور ’’ كبىر اور بالغ انسان كو  رضاعى بھائى قرار دىنے كے لىے دس گھونٹ دودھ پىلانا‘‘ كے بارے مىں آىت ىقىنى طور پر نازل ہوئى تھىں   اور مىرے ’’ بستر (تكىے) ‘‘ كے نىچے قرآن كرىم كا جو نسخہ موجود ہوتا تھا اس مىں ىہ آىات درج تھىں ، جب رسول اللہ ﷺ كى رحلت ہوئى اور ہم آپ ﷺ كى موت مىں مشغول ہو گئے تو گھروں سے چارہ وغىرہ كھانے والى اىك بكرى داخل ہوئى اور ان دونوں آىات كو كھا گئى}. [16]ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج ۱، ص ۶۲۵، حدیث: ۱۹۴۴۔[17]طبرانی، سلیمان بن احمد، معجم الاوسط، ج ۸، ص ۱۲، حدیث: ۷۸۰۵۔[18]ابو یعلی موصلی، احمد بن علی، مسند ابی یعلی، ج ۸، ص ۶۳، حدیث: ۴۵۸۸۔[19]بیہقی، احمد بن حسین، معرفۃ السنن والآثار، ج ۱۱، ص ۲۶۱، حدیث: ۱۵۴۶۸۔[20]دارقطنی، علی بن عمر، سنن دارقطنی، ج ۵، ص ۳۱۶، حدیث: ۴۳۷۶۔  اس حديث كو صحيح السند مان لىنے سے درج ذىل خطرناك نتائج سامنے آتے ہىں:
۱۔ ’’ آىت رجم اور آىت رضاعتِ كبىر ‘‘ قرآنِ كرىم كى آىات ہىں ۔ سب مسلمان جانتے ہىں كہ قرآن كرىم مىں ىہ دونوں آىات موجود نہىں ۔ لہٰذا حضرت عائشہ كے اس قول كے مطابق ىہ آىات قرآن كرىم سے نكال دى گئى ہىں۔
۲۔
حضرت عائشہ كو معلوم تھا كہ ان كے زمانے مىں قرآنِ كرىم كے جو نسخے پورے ملك مىں موجود ہىں ان مىں ىہ آىات نہىں ہىں۔ اس لىے حضرت عائشہ نے اپنے اس نسخے كى طرف اشارہ كىا جو ان كے تكىے كے نىچے ہوا كرتا تھا۔
۳۔
قرآن كرىم كے مطابق اللہ سبحانہ ’’ قرآن كرىم ‘‘ كى حفاظت كرنے والا ہے۔ اہل سنت كے مطابق اس حدىث سے لازم آتا ہے كہ اللہ تعالىٰ اىك بكرى سے قرآنِ كرىم كو محفوظ نہىں ركھ سكا اور وہ بعض آىات كھا گئى جس كى وجہ سے موجودہ قرآن كا نسخہ نعوذ باللہ ’’ ناقص ‘‘ ہے۔
۴۔
ىہ حدىث بتاتى ہے كہ ام المومنىن حضرت عائشہ كے پاس جو قرآن تھا وہ تمام مسلمانوں سے جدا نوعىت كا قرآن تھا جس مىں بعض اىسى آىات تھىں جو قرآن كرىم كے دىگر نسخوں مىں موجود نہىں تھىں۔ اس لىے ان كے نسخے مىں كمى بىشى واقع ہونے كى بناء پر قرآن كرىم كا كچھ حصہ ضائع ہو گىا۔
۵۔
اس حدىث كى كوئى تاوىل بھى ممكن نہىں ہے كىونكہ ىہ حدىث ’’ رسول اللہ ﷺ ‘‘ كى رحلت كے جانسوز واقعہ كے موقع كى ہے ۔
اب سوال ىہ پىدا ہوتا ہے كہ رسول اللہ ﷺ كى رحلت ہو گئى ہے اب كون بتائے گا كہ ام المومنىن حضرت عائشہ نے جو دعوى كىا ہے وہ سچ ہے ىا كوئى غلطى فہمى !! نہ ہى ىہ كہا جا سكتا ہے كہ ىہ دونوں آىات ’’ قرآن كرىم ‘‘ كا حصہ تھىں اور بعد رسول اللہ ﷺ نے ان آىات كو نكلوا دىا !! اور نہ ىہ كہا جا سكتا ہے كہ ىہ دونوں آىا ت قرآن كا حصہ تھىں لىكن جب رسول اللہ ﷺ نے اس كو نكلواىا تو امّ المومنىن حضرت عائشہ كو اس كى خبر نہىں ہوئى ۔ كىونكہ اہل سنت كے مطابق رسول اللہ ﷺ كے سب سے قرىب رہنى والى زوجہ جناب عائشہ ہى تھىں۔ نىز رسول اللہ ﷺ نے كسى آىت كو قرآن سے نكلوانا ہوتا اور وہ تمام نسخوں سے نہ نكلواتے تو اس سے تحرىف كا لازم آنا ىقىنى ہوتا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ىہ آىات كسى صورت اور كسى دور مىں قرآنِ كرىم كا حصہ نہىں تھىں اور نہ اب ہىں جىساكہ تمام مسلمان جانتے ہىں ۔

اہل سنت کے لیے ایک بڑی مشکل:

یہاں اہل سنت کے لیے سب سے بڑى مشكل ىہ پیدا ہو جاتی ہے كہ ام المومنىن حضرت عائشہ كے پاس موجود قرآن كرىم كے اس نسخے مىں ىہ ’’ دو آىات‘‘ كہاں سے آ گئىں جبكہ ام المومنىن حضرت عائشہ كا شمار ’’ كاتبانِ وحى ‘‘ مىں نہىں ہوتا اور نہ ہى انہوں نے قرآن جمع كرنے ىا لكھنے كے امور انجام دىئے تھے؟!اب اگر اہل سنت حدیث كا انكار كرىں تو اس سے لازم آتا ہے كہ انہوں نے صحىح السند اور معتبر احادیث كا انكار كىا جىساكہ شارحِ صحىح بخارى ’’ابن حجر عسقلانى‘‘ نے تحرىر كىا ہے ۔ پھر اگر وہ حدیث كا اقرار كرىں تو اس لازم آئے گا كہ حضرت عائشہ قرآنِ كرىم مىں ’’ تحرىف ‘‘ كى عملى صورت مىں قائل تھىں اور فرماىا كرتى تھىں كہ ان كے پاس موجود قرآنِ كرىم كا نسخہ دىگر نسخوں سے جدا تھا۔ اگر كہىں كہ ىہاں ام المومنىن حضرت عائشہ كو غلط فہمى ہو گئى تھى تو اس كا نتىجہ ىہ نكلے گا كہ ام المومنىن كے ذرىعے سے پہنچنے والى تمام كى تمام رواىات غىر معتبر اور ضعىف ہو جائىں گى كىونكہ ممكن ہے كہ ان مىں بھى آپ نے اشتباہ فرماىا ہو ،البتہ وہ احادىث قابل قبول ہوں گى جسے ام المومنىن كے علاوہ دىگر صحابہ كرام نے بھى نقل كىا ہے تاكہ ىقىن ہو جائے كہ ام المومنىن غلط فہمى كا شكار نہىں ہوئى۔ لہٰذا حضرت عائشہ سے اىسى كوئى حدىث نہىں لے سكىں گے جو صرف انہى سے نقل ہوئى ہے اور باقىوں نے اسے نقل نہىں كىا۔

مسئلہ ’’رجم‘‘ اور  ’’رضاعتِ كبىر‘‘ سے كىا مراد ہے ؟

       اس حدىث مىں تمام الفاظ اور ان كے معانى واضح ہىں لىكن ’’ رجم اور رضاعتِ كبىر ‘‘ سے كىا مراد ہے؟ ىہ معلوم نہىں ۔ ذىل مىں ان دونوں مسائل كى مختصر وضاحت بىان كر دى جاتى ہے تاكہ اہل بىتؑ كا موقف اس حوالے سے معلوم ہو جائے۔جہاں تک مسئلہِ رجم کا تعلق ہے تو شىعہ و سنى كتبِ احادىث كے مطابق ’’ رجم ‘‘ اىك شرعى اور اسلامى حكم ہے جس كا تعلق ’’ زنا ‘‘ كے باب سے ہے۔ فقہى احكامات كے مطابق اگر ’’ بوڑھا مرد اور بوڑھى عورت ‘‘ نعوذ باللہ زنا جىسے قبىح گناہ كے مرتكب ہوں تو ان پر حد جارى كى جائے گى اور اس كے بعد ’’ رجم ‘‘ كر دىا جائے گا۔ رجم سے مراد ىہ ہے كہ انہىں پتھر مار مار كر ہلاك كر دىا جائے گا۔ بوڑھے اور بوڑھى يا شادى شدہ ہونے كى صورت مىں اس سزا كے متحقق ہونے مىں شىعہ و سنى فقہاء مىں كوئى اختلاف نہىں ۔ البتہ اگر ’’ دونوں مرد اور زن ‘‘ جوان ہوں تو اس كى مختلف صورتىں بنتى ہىں ، مثلاً دونوں شادى شدہ ہىں نہىں ، دونوں پر پہلے حد جارى ہو چكى ہے ىا نہىں …، ان صورتوں مىں سے بعض مىں ’’دونوں كو اسى طرح رجم ‘‘ كىا جائے گا۔

بلا شك و شبہ رواىاتِ مباركہ مىں ’’رجم‘‘ كا حكم وارد ہوا ہے۔ سوال ىہ پىدا ہوتا ہے كہ قرآنِ كرىم مىں رجم كے حكم كو بىان كرنے كے لىے كوئى ’’ آىت ِ رجم ‘‘ موجود ہے ىا نہىں؟ سب مسلمان معتقد ہىں كہ قرآن كرىم كے قدىم ترىن نسخوں سے لے كر آج تک موجود تمام نسخوں مىں اىسى كوئى آىت موجود نہىں ۔ خلىفہ ثانى حضرت عمر بن خطاب اپنى زندگى مىں بہت شدت كے ساتھ اس نظرىہ كے معتقد تھے كہ قرآنِ كرىم مىں ’’ آىتِ رجم ‘‘ تھى جوكہ اب موجود نہىں۔ جىساكہ اگلے عنوان مىں ان مىں سے بعض رواىات كى طرف اشارہ كىا جائے گا۔ 

اہم قاعدہ: احادیث کو قرآن پر پیش کرنا:

اس طرف بھى اشارہ كرتے رہے كہ آیت رجم کے ہونے كى اىك رواىت ’’ شىعہ كتب‘‘ مىں سے تفسىر قمى مىں وارد ہوئى ہے لىكن شىعہ اس رواىت كو ’’ قرآن اور متواتر رواىات ‘‘ كے مخالف ہونے كى بناء پر ردّ كر دىتے ہىں۔ درحقىقت مسئلہ اس نوعىت كى رواىات كا وارد ہونا نہىں ہے بلكہ مسئلہ ان كا قبول كرنا ہے ۔  اہل سنت ان رواىات كو قبول كرتے ہىں اور مانتے ہىں كہ حضرت عائشہ اور حضرت عمر ’’ آىتِ رجم ‘‘ كے عنوان سے حدىث پىش كىا كرتے تھے ۔ جبكہ اہل تشىع كے نزدىك ’’ہداىت اور نجات ِ بشر ‘‘كے لىے اہل بىت ؑكے درّ مبارك سے صادر ہونے والى صحىح السند رواىات مىں  ىہ قانون قاعدہ وارد ہوا ہے كہ ’’ جو قرآن كرىم كے مطابق ہو اسے لے لو اور جو مخالف ہو اسے ردّ كرتے ہوئے چھوڑ دو ‘‘۔ اس قاعدہ كى رَو سے اور حدىث ثقلىن جىسى متواتر رواىات سے ٹكرانے كے سبب ’’ تفسىر قمى ‘‘ مىں موجود رواىت تمام شىعہ علماء كے نزدىك ناقابل قبول اور غىر معتبر ہے ، چاہے اس حدىث كى سند صحىح ہو ىا نہ ہو۔ كىونكہ كوئى بھى رواىت ’’قرآن كرىم‘‘ كا مقابلہ نہىں كر سكتى۔  اہل سنت كے منابع مىں بھى ىہ قانون ’’ اىك رواىت ‘‘ مىں ضعىف سند كے ساتھ وارد ہوا ہے۔  رواىت كے ضعىف ہونے كى وجہ سے اہل سنت اس قانون كا انكار كرتے ہىں ۔ اس عظىم قانون كا انكار كرنے كى وجہ سے اہل سنت اس نوعىت كى مشكلات مىں گرفتار ہوتے ہىں جس كے نتىجے مىں متضاد آراء سامنے آتى ہىں۔ اس قانون و اصول كے متعلق اہل بىتؑ كا موقف جاننے كے لىے مكتبِ تشىع كى صحىح السند رواىت پىش كى جار ہى ہے ’’ اصولِ كافى ‘‘ مىں امام جعفر صادقؑ ارشاد فرماتے ہىں:{كُلُّ شَيْ‏ءٍ مَرْدُودٌ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ، وَكُلُّ حَدِيثٍ لَا يُوَافِقُ كِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ زُخْرُف‏ ؛ ہر شىء كو قرآن كرىم اور سنت كى طرف پلٹاؤ ، اور ہر وہ حدىث جو كتابِ الہٰى (قرآن كرىم) كے موافق نہ ہو وہ اس مزىن اور خوبصورت شىء كى مانند ہے جس كا باطن فاسد ہے}. [21]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۱۷۳، حدیث: ۲۰۵۔        اسى طرح امام جعفر صادق ؑ اىك اور رواىت مىں فرماتے ہىں جوكہ اہل سنت كتب مىں ضعىف سند كے ساتھ وارد ہوئى ہے :{ إِنَّ عَلَى كُلِّ حَقٍّ حَقِيقَةً وَعَلَى كُلِّ صَوَابٍ نُوراً ، فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَخُذُوهُ ، وَمَا خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَدَعُوه‏‏؛ بے شك ہر حق كى اىك حقىقت ہے اور ہر ’’ صحىح اور ٹھىك بات ‘‘ پر اىك نور ہے ، لہٰذا جو قرآن كرىم كے مطابق ہے اس تو لوگ اختىار كر لو اور جو قرآن كرىم كے مخالف ہے اس ٹھكرا دو}.[22]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۱۷۔[23]طبرانی ، سلیمان بن احمد، معجم الكبير ، ج۱۲ ، ص۳۱۶، حدیث: ۱۳۲۲۴۔ اہل سنت محدثین نے اگرچے معنی کے اعتبار سے اس قاعدہ کو اپنی کتبِ احادیث میں نقل کیا ہے لیکن محدثین نے ان احادیث کو ضعیف  ، منكر اور موضوع قرار دىا ہے جیساکہ ناصر  الدىن البانى نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ میں اس کو درج کیا ہے۔ [24]البانی، محمد ناصر الدین،  سلسلۃ  الاحاديث الضعيفۃ ، ج ۳، ص ۲۰۹، حدیث: ۱۰۸۸۔

 مسئلہ رضاعتِ كبىر

       ىہ بھى اىك فقہى حكم ہے جس مىں شىعہ اور سنى فقہاء كے درمىان سخت اختلاف پاىا جاتا ہے۔ فقہى حكم ىہ ہے كہ اىك انسان دوسرے انسان كا محرم چار اسباب مىں سے كسى اىك سبب كے مہىا ہونے كى صورت مىں ہوتا ہے :
۱۔ نسبى رشتہ دارى كى بناء پر ، جىسے والدىن ، بہن بھائى، ماموں ، چچا، پھوپھى ، خالہ، بھانجے ،بھتىجىاں …۔
۲۔
نكاح ، دو نامحرم نكاح كے ذرىعے اىك دوسرے كے اس وقت محرم بن جاتے ہىں جب تك ان مىں طلاق ىا جدائى واقع نہ ہو۔
۳۔
دامادى ، شادى كے بعد جب مىاں بىوى اىك دوسرے كے محرم بن جاتے ہىں تو ان دونوں كے والدىن اىك دوسرے كے لىے ’’محرم‘‘ ہو جاتے ہىں اور دائمى طور پر ممنوع النكاح ہو جاتے ہىں۔ ىعنى لڑكا اپنى ساس اور لڑكى اپنے سسر سے كبھى شادى نہىں كر سكتى ۔ چاہے آپس مىں طلاق ہى كىوں نہ واقع ہو جائے ۔
۴۔
رضاعت ، ىعنى اگر اىك بچہ كسى خاتون كے پستان سے اس مقدار مىں دودھ پى لے كہ دودھ پىنے كى وجہ سے اس بچے كے جسم كا كچھ حصہ بن جائے تو وہ بچہ اور اس خاتون اور اس كى اولاد اىك دوسرے كے لىے محرم ہو جاتے ہىں ۔ اس مسئلہ مىں اختلاف ہے كہ بچہ كتنے گھونٹ ىا كتنى مقدار پىے تو محرم بن جائے گا؟ شىعہ فقہاء گھونٹ كے قائل نہىں بلكہ اس مقدار كو معتبر مانتے ہىں جو بچے كے جسم مىں كچھ گوشت پوست بننے كا سبب بن جائے۔ رضاعت كے لىے ضرورى ہے كہ بچہ براہِ راست خاتون كے پستان سے دودھ چوس كر پىے۔ اگر اىك فىڈر ىا كلاس ىا كسى اور ذرىعے سے بچے كو كسى خاتون كا دودھ پىلاىا جائے تو وہ رضاعت كا سبب نہىں بنتا ۔ اہل بىت ^ كى متعدد رواىات كے مطابق دو سال ىا اس سے كم  عمر بچہ رضاعت كے ذرىعے محرم بن سكتا ہے۔ اگر بچہ دو سال سے اوپر ہو جائے تو كسى خاتون كا دودھ پىنے سے وہ كسى صورت مىں محرم نہىں بن پائے گا۔ بالفاظِ دىگر رضاعت كى شرائط مىں سے دو اہم شرائط ىہ ہىں : خاتون كا دودھ اس كے پستانوں سے پىے  2.بچے كى عمر دو سال ىا اس سے كم ہو، اگر اس سے بڑى عمر كا بچہ ہو تو دودھ پىنے كى صورت مىں محرم نہىں بن سكتا ۔

اہل سنت رواىات كے مطابق امّ المومنىن حضرت عائشہ اس مسئلہ مىں ’’ اہل بىت ؑ ‘‘ كے موقف سے واضح طور پر اختلاف ركھتى تھىں۔ امّ المومنىن حضرت عائشہ كے نزدىك اگر اىك بڑا بچہ ىا بالغ انسان كسى خاتون كے پستانوں سے دس گھونٹ پىے تو وہ بالغ انسان اس عورت كا محرم بن جائے گا۔ ام المومنىن كے موقف كو ىہى رواىت ثابت كرتى ہے جو اہل سنت كے مطابق ان كے تحرىف ِ قرآن كے عقىدہ كو بھى بىان كرتى ہے۔ بالفاظِ دىگر اہل بىت  ؑاور ام المومنىن حضرت عائشہ مىں اس رواىت كى روشنى مىں دو جگہ اختلاف ہے:
۱۔ اہل بىتؑ قائل ہىں كہ بچہ اگر دو سال ىا اس سے كم عمر ہو تو وہ رضاعت كے ذرىعے محرم بن سكتا ہے جبكہ ام المومنىن حضرت عائشہ قائل تھىں كہ دوسال سے كم ہونا ضرورى نہىں ہے بلكہ بالغ ہو تو بھى اىسا ہو سكتا ہے۔
۲۔
اہل بىتؑ كى رواىات كے مطابق دو سال كے بچے كى رضاعت كا حكم ’’ قرآن سورہ بقرہ آىت 233 اور متعدد رواىات ‘‘ مىں وارد ہوا ہے جبكہ دو سال سے اوپر بچے كى رضاعت كا نہ قرآن مىں كہىں تذكرہ ہے اور نہ رواىات مىں۔ جبكہ ام المومنىن حضرت عائشہ كہا كرتى تھىں كہ بڑے انسان كى رضاعت كے متعلق ’’ قرآن مىں آىت تھى ‘‘ جو اُس نسخے مىں تھى جو مىرے تكىے كے نىچے پڑا ہوتا تھا لىكن بكرى اسے كھا گئى جس كى وجہ سے وہ آىت  ضائع ہو گئى جس مىں ىہ حكم موجود تھا ۔ اہل بىت ؑ كا موقف واضح كرنے كے لىے متعدد رواىات مىں سے اىك صحىح السند رواىت پىش خدمت ہے۔ کتاب الکافی میں حماد بن عثمان بىان كرتے ہىں كہ مىں نے امام جعفر صادق ؑ كو ىہ فرماتے سنا  { لَا رَضَاعَ بَعْدَ فِطَامٍ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ مَا الْفِطَامُ قَالَ الْحَوْلَانِ اللَّذَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ؛’’ فطام ‘‘ كے بعد كوئى رضاعت نہىں ، راوى كہتا ہے كہ مىں نے امامؑ سے پوچھا : مىں آپؑ كى قربانى قرار پاؤ ، ’’فطام ‘‘ كسے كہتے ہىں ؟ امامؑ نے فرماىا : فطام سے مراد (بچے كى ولادت كے پہلے)وہ دو سال ہىں جن كے بارے اللہ عزوجل نے ارشاد فرماىا ہے [25]  بقرہ : ۲۳۳۔}.[26]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۰، ص ۸۸۵، حدیث: ۹۸۹۶۔

حضرت عمر بن خطاب اور تحریف قرآن :

       اہل سنت كى معتبر اور صحىح السند رواىت كے مطابق حضرت عمر بن خطاب قائل تھے كہ قرآن  كرىم مىں ’’آىت رجم‘‘ موجود تھى لىكن اب وہ نہىں۔ حضرت عمر بن خطاب فرماىا كرتے تھے اگر مجھے اس طعنے كا ڈر نہ ہوتا كہ لوگ ىہ كہىں گے كہ مىں نے قرآن كے بارے نئى بات كہہ دى ہے تومىں  بتاتا كہ ہم رسول اللہ ﷺ كے زمانے مىں اس آىت كو قرآن قرار دىتے ہوئے پڑھا كرتا تھے۔ اس موضوع پر اہل سنت كتب مىں متعدد رواىات وارد ہوئى ہىں ۔ ان متعدد رواىات مىں سے اىك رواىت ’’صحىح بخارى اور صحىح مسلم ‘‘ سے پىش خدمت ہے جسے عبد اللہ ابن عباس نے ’’ حضرت عمر بن خطاب‘‘ سے نقل كىا ہے كہ اىك دن خلىفہ ثانى حضرت عمر بن خطاب آئے اور رسول اللہ ﷺ كے منبر پر بىٹھ كر فرمانے لگے :{ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ ، قَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا ، فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ : مَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِى كِتَابِ اللَّهِ ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ ، وَإِنَّ الرَّجْمَ فِى كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أَحْصَنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوْ الاِعْتِرَافُ؛ بے شك اللہ نے ’’ محمد ﷺ ‘‘ كو حق كے ساتھ مبعوث كىا  اور آنحضرت ﷺ پر كتاب نازل كى ، جو كچھ اللہ نے ان ﷺ پر نازل كىا تھا اس مىں ’’ آىت ِ رجم ‘‘ بھى تھى جسے ہم پڑھا كرتے تھے اور اسے حفظ كىا كرتے تھے اور اس پر تعقل و تفكر كيا كرتے تھے  ، رسول اللہ ﷺ نے افراد كو خود رجم كىا اور آپ ﷺ كے بعد ہم نے بھى كئى مواقع پر رجم كىا ۔ مجھے اس چىز كا ڈر ہے كہ كہ لوگوں پر طوىل زمانہ گزر جانے كے سبب كوئى اىسا كہنے والا نہ آ جائے جو ىہ كہے : ہمىں تو قرآن كرىم مىں رجم كے بارے كوئى حكم دكھائى نہىں دىتا ، لہٰذا لوگ اىسے فرىضے كو ترك كر كے گمراہ ہو جائىں گے جسے اللہ نے واجب اور فرض قرار دىتے ہوئے نازل كىا ہے ، آگاہ رہوں بے شك ’’رجم‘‘ اس شادى شدہ زانى ’’ مردوں اور عورتوں ‘‘ پر ’’ حق اور حد ‘‘ہے جس پر گواہ قائم ہو جائىں ىا عورت كا بغىر شوہر ىا مالك كے حاملہ ہونا معلوم ہو جائے ىا كوئى شخص اپنى زبان سے خود اقرار و اعتراف كر لے}.[27]نیشاپوری، مسلم ، صحیح مسلم، ج ۳، ص ۳۱۷، حدیث: ۱۶۹۱۔[28]نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری، ج ۶، ص ۴۱۲، حدیث: ۷۱۲۱۔        ىہ رواىت مختلف الفاظ كى وضاحت كے ساتھ بخارى و مسلم كے علاوہ صحىح ابن حبان، مسند احمد ، سنن بىہقى  اور كئى معتبر كتب احادىث مىں وارد ہوئى ہے۔ گزشتہ اوراق مىں بىان ہو چكا ہے كہ اس فقہى حكم مىں كسى شىعہ ىا سنى كو شك نہىں ہے۔ مسئلہ ىہ ہے كہ ىہ فقہى حكم ’’ آىت رجم ‘‘ كے نام سے قرآن كا حصہ رہا ہے ىا نہىں؟ شىعہ علماء شدت سے ىہ عقىدہ ركھتے ہىں كہ آىتِ رجم كے نام سے نہ كوئى آىت كبھى قرآن كا حصہ تھى اور نہ اب ہے اور نہ كبھى ہو سكتى ہے۔ جبكہ اہل سنت كے قواعد اور اصول اس نوعىت كے ہىں كہ وہ اس كا انكار نہىں كر سكتے ۔ اس رواىت كے صحىح اور معتبر ہونے مىں كوئى سُنى شك نہىں كر سكتا كىونكہ ىہ حدىث بخارى اور مسلم ہر دو كتابوں مىں وارد ہوئى ہے جس كے بارے اہل سنت كا قانون قاعدہ ہے كہ ىہ دونوں كتابىں قرآن كرىم كے بعد سب سے صحىح اور معتبر كتابىں ہىں۔ اگر ہم اہل سنت كى ان كتابوں كو صحىح السند اور معتبر تسلىم كر لىں تو درج ذىل خطرناك ترىن نتائج ہمارے سامنے آئىں گے:

۱۔ اہل سنت كے مطابق حضرت عمر بن خطاب ’’ تحرىف قرآن ‘‘ كے اس صورت مىں قائل تھے كہ وہ آىت رجم كو قرآن كا حصہ سمجھتے تھے جبكہ ىہ آىت كسى دور مىں قرآن كا حصہ نہىں رہى ۔
۲۔ حضرت عمر بن خطاب كے علاوہ بھى بعض صحابہ تھے جو اس بات كے قائل تھے كہ قرآن كرىم سے كچھ آىات كو نكال لىا گىا ہے جىسے آىت ِ رجم ، اس لىے اس حدىث مىں حضرت عمر فرماتے ہىں كہ ہم اس آىت كو پڑھا كرتے تھے اور اس پر تعقل و تفكر بھى كرتے تھے…۔ لہٰذا اہل سنت كے مطابق صحابہ كرام كى اىك جماعت تحرىف كى قائل تھى ۔ جىساكہ گزشتہ اوراق مىں ام المومنىن حضرت عائشہ اور حضرت ابى بن كعب كا نظرىہ گزر چكا ہے كہ ىہ دونوں بزرگان اہل سنت كے مطابق قرآن مىں كمى بىشى كے قائل ہونے كى بناء پر تحرىف كے قائل تھے اور كہا كرتے تھے كہ آىتِ رجم نام كى كوئى آىت قرآن مىں تھى اور سب مسلمان جانتے ہىں كہ اس نام اور الفاظ كى كوئى آىت قرآن مىں نہىں ہے۔
۳۔
حضرت عمر بن خطاب كو سخت ڈر اور خوف تھا كہ صحابہ كرام كے ہاتھوں تشكىل پانے والے معاشرے كے تربىت ىافتہ لوگ اللہ تعالىٰ كے كلام مىں ہىر پھىر كر دىں گے اور ’’رجم‘‘ كے قانون كو نكال كر كہىں گے كہ قرآن كرىم مىں رجم كا حكم وارد نہىں ہوا۔ ىعنى حضرت عمر بن خطاب كے دور مىں معاشرہ اس قابل نہىں تھا كہ اللہ تعالىٰ كى كتاب اور اسلامى قوانىن كى حفاظت كى ذمہ دارى انجام دے سكے۔ان آىات كے علاوہ اہل سنت علماءِ بزرگ نے بعض صحابہ كرام سے مزىد اىسى آىات بھى نقل كى ہىں جن كا نہ زمانہ قدىم مىں وجود تھا اور نہ موجودہ قرآن كرىم مىں ان كا وجود ہىں۔ آىت رجم اور آىت ِ رضاعتِ كبىر كے علاوہ درج ذىل آىات اىسى ہىں جن كے قرآن ہونے كا دعوىٰ حضرت عمر بن خطاب نے كىا لىكن وہ قرآن مىں موجود نہىں :
آىت فراش ۔ اس كے قائل حضرت ابى بن كعب بھى تھے۔
آىت رغبت ۔
آىت جہاد ۔

پس اہل سنت كتب مىں قرآن كرىم كى آىات كى كمى بىشى اور اضافہ كى صورت مىں تحرىف لفظى كے واضح ثبوت صحابہ كرام اور ام المومنىن حضرت عائشہ سے معتبر اسانىد كے ساتھ وارد ہوئے ہىں۔ نىز دىگر چند امور بھى اىسے ہىں جن پر اہل سنت پختہ عقىدہ ركھتے ہىں لىكن وہ تحرىفِ لفظى كو واضح طور پر بىان كرتے ہىں ۔ وہ امور درج ذىل ہىں :
۱۔ اہل سنت كے مطابق بسم اللہ كسى سورت كا حصہ نہىں جبكہ موجودہ قرآن مىں سورہ توبہ كے علاوہ ہر سورت كے آغاز مىں بسم اللہ موجود ہے۔ اس كا مطلب ہے كہ ىا تو موجودہ قرآن مىں تحرىف واقع ہوئى ہے اور ہر سورت كے آغاز مىں بسم اللہ باہر سے ڈال دى گئى ہے ىا اہل سنت كا عقىدہ باطل ہے۔
۲۔
اہل سنت قائل ہىں كہ حضرت ابو بكر ىا حضرت عثمان كے دور مىں قرآن كرىم كے اىك نسخے كے علاوہ تمام نسخے جلا دىئے گئے تھے۔ سوال ىہ پىدا ہوتا ہے كہ آخر ان نسخوں كو كىوں جلاىا گىا ۔ اگر ان مىں موجودہ قرآن كے برخلاف كوئى چىز نہىں تھى تو قرآن جلا كر قرآن كى توہىن كى گئى ۔ اگر موجودہ قرآن كے برخلاف كچھ اور آىات كم ىا زىادہ تھىں تو اس كا مطلب ہے اس دور مىں قرآن مىں تحرىف واقع ہوئى۔ پس قرآن كا جلانا تعجب آور امر ہے۔ مكتب تشىع كے مطابق حقىقت ىہ ہے كہ كوئى قرآن نہ جلاىا گىا ہے اور نہ قرآن كو جمع كرنے كا كام انجام پاىا ہے كىونكہ قرآن ’’ رسول اللہ ﷺ ‘‘ كے زمانے مىں ہى جمع ہو گىا تھا اور اسلامى رىاست كے كونے كونے تك پہنچا دىا گىا تھا۔ اس واقعہ كو صرف اس لىے گھڑا گىا ہے تاكہ بعض خلفاء كے فضائل اىجاد كىے جا سكىں۔
۳۔
دو صحابىوں كى گواہى پر قرآن كى آىت قبول كرنا ۔ اہل سنت كا عقىدہ ہے كہ حضرت ابو بكر نے قرآن كو جمع كىا اور زىد بن ثابت كے ذرىعے اعلان كرواىا كہ جو دو صحابى كسى كلام كے آىت ہونے كا دعوى كرىں اسے قرآن كى آىت كے طور پر قبول كر لىا جائے گا۔ اس اعلان كے بعد اہل سنت كتب كے مطابق بعض صحابہ نے بعض آىات پىش كىں لىكن اسے غىر قرآن قرار دے كر ردّ كر دىا گىا۔ جہاں تك ردّ كرنا ہے تو ىہ كام صحىح ہوا كىونكہ وہ قرآن نہىں تھا۔ لىكن دوسرى جہت سے دىكھىں تو معلوم ہوگا كہ بعض صحابہ كو غلط فہمى تھى كہ قرآن مىں تحرىف واقع ہوئى ہے اس لىے وہ بعض آىات كو قرآن قرار دىتے ہوئے لائے لىكن اسے قبول نہىں كىا گىا۔ حقىقت ىہ ہے كہ اس كام كى نوبت بھى نہىں آئى اور ىہ اہل تشىع كے نزدىك اموى دور مىں واقعات گھڑ كر ڈالے گئے ہىں كىونكہ قرآن رسول اللہ ﷺ نے جمع كىا تھا اور مختلف صحابہ كے پاس اس كے كامل نسخے تھے، جىساكہ گزشتہ رواىت مىں حضرت عائشہ كا قول ہم نے ملاحظہ كىا۔ اس لىے قرآن جمع كرنے كى ضرورت كسى دور مىں پىش نہىں آئى۔ ىہ واقعات بعض خلفاء كى فضىلت بىان كرنے كے لىے گھڑے گئے ہىں۔
۴۔
اہل سنت قائل ہىں كہ قرآن كرىم كى سات قرائتىں ہىں ۔ قرأت سے مراد ىہ ہے كہ موجودہ قرآن كے كلمات مىں سے بعض كلمات كو ردّ و بدل كر كے مختلف طرح سے پڑھا جا سكتا ہے ، مثلاً سورہ فاتحہ كى اس آىت  كرىمہ > مالك يوم الدين <  مىں ’’ مالك ‘‘ كا ’’ الف ‘‘ حذف كر كے ’’ ملك ‘‘ بھى پڑھا جا سكتا ہے۔ اس كو قرآنِ كرىم كى مختلف قراءات كہتے ہىں۔ اگر ہم اس كے قائل ہو جائىں تو واضح طور پر قرآن كے بعض كلمات كا زىادہ ىا كم كرنا لازم آتا ہے جوكہ كسى صورت ٹھىك نہىں۔ مثلاً اسى آىت مىں ہم اہل سنت سے پوچھتے ہىں كہ اگر’’ الف ‘‘ كو حذف كرنا جائز ہے تو آخر كىوں باقى كلمات مىں سے بعض حروف كو كم ىا زىادہ نہىں كىا جا سكتا !! نىز ہر با شعور انسان جانتا ہےكہ دنىا كى كسى بھى زبان مىں اىك كلمہ كے بعض حروف كو نكال ىا اضافہ كر دىا جائے تو اس كلمہ كے معنى تبدىل ہو جاتے ہىں ۔ اس طرح تو پورے قرآن كے معنى خطرے مىں پڑ جائىں گے۔ لہٰذا ہمىں ماننا ہو گا كہ قرآن كرىم كى صرف اىك ہى قرات ہے جوكہ پورى دنىا مىں مسلمانوں كے درمىان رائج ہے۔

اصل مشكل كىا ہے ؟

مشكل ىہ نہىں ہے كہ اس نوعىت كى باتىں  ’’ اہل سنت كے معتبر منابع ‘‘ مىں موجود ہىں كىونكہ ان كى مانند ’’مكتبِ تشىع‘‘ كى كتب مىں بھى اىسى رواىات وارد ہوئى ہىں جو تحرىف پر دلالت كرتى ہىں ۔ مشكل اور حىرت كى بات ىہ ہے كہ ’’اہل سنت علماء ‘‘ ان رواىات اور اقوال كو قبول كرتے ہىں اور اس كى حقانىت كو تسلىم كرتے ہوئے ان رواىات كے مضمون پر عقىدہ ركھتے ہىں اور عمل بھى كرتے ہىں۔ مثلاً انہى رواىات سے دلىل قائم كرتے ہوئے اہل سنت ’’ رضاعتِ كبىر ‘‘ كے قائل ہىں ۔ اسى طرح حضرت عمر سے منقول رواىات كو قبول كرتے ہوئے ’’رجم‘‘ كو فقہى حكم مانتے ہىں۔ جبكہ ’’ مكتبِ تشىع‘‘ كا ىہ امتىاز ہے كہ وہ تحرىف پر دلالت كرنے والى كسى رواىت كوقبول نہىں كرتے ، چاہے وہ رواىات اہل تشىع كے نزدىك معتبر ترىن منابع ’’ كتب اربعہ جىسے الكافى ‘‘ مىں وارد وہوئى ہو ىا اہل سنت كى صحاح ستہ مىں آئى ہو ۔ پس اصل مشكل ان باتوں كو قبول كرنا ىا نہ كرنا ہے۔ كىونكہ رواىات مىں تو صحىح اور من گھڑت ہر دو رواىتىں موجود ہىں ۔ كىونكہ رواىات كو جمع كرتے وقت صرف اس چىز كو مدنظر ركھا گىا تھا كہ جو بھى كلام ’’ حدىث ‘‘ كے عنوان سے موجود ہے اسے حدىث كے عنوان سے تحرىر كر دىا جائے ۔ تاكہ رسول اللہ ﷺ سے منسوب ’’ جو جو اقوال‘‘ ہىں وہ اىك جگہ جمع ہو جائىں تاكہ علماء بزرگ ’’ قواعد حدىث اور رجال ‘‘ كے ذرىعے حقىقى قول تك رسائى حاصل كر لىں۔ اس لىے رواىات مىں ہر’’ خشك و تر‘‘ وارد ہوا ہے جسے قواعد و اصول كے مىزان پر پركھے بغىر اخذ نہىں كىا جا سكتا ۔كوئى مكتب ىا فرقہ بغىر كسى ضابطہ و قانون كے ’’ ان رواىات ‘‘ كو اختىار نہىں كر سكتا ۔ لہٰذا ہر ’’مكتب ىا فرقہ‘‘  ان اساسى شخصىات اور علماء كے اختىار كردہ نظرىات سے پہنچانا جاتا ہے جن كے ذرىعے ىہ فرقہ پھىلا ہے۔ علماءِ شىعہ اىسى ہر رواىت ىا حدىث كا انكار كرتے جو تحرىف پر دلالت كرتى ہے كىونكہ وہ رواىات قرآن اور متواتر رواىات كے مخالف ہے۔
سوال:  ىہ پىدا ہوتا ہےكہ اہل سنت اس مشكل مىں كىوں گرفتار ہوئے اور كىوں ان مخالفِ قرآن چىزوں كا انكار اعلانىہ طور پر نہىں كر سكتے ؟
جواب :       اصل مشكل ’’ علماءِ اہل سنت ‘‘ كا بعض اىسے قواعد اور اصولوں كا قائل ہونا ہے جس كا نتىجہ ’’تحرىفِ قرآن‘‘ نكلتا ہے۔ اگر اہل سنت اپنے قواعد كى اصلاح كر لىں تو ’’مكتبِ تشىع‘‘ كى طرح انہىں بھى ىہ امتىاز حاصل ہو جائے گا كہ قرآن كرىم مىں كسى بھى صورت تحرىف ممكن نہىں ہے۔ البتہ اہل سنت عوام ’’شىعوں‘‘ كى طرح معتقد ہے كہ قرآن كرىم مىں تحرىف ہونا ممكن نہىں ہے۔ وہ قواعد اور اصول جن كى بناء پر تحرىف لازم آتى ہے درج ذىل ہىں :
(قاعدہ اول ) صحاح ستہ خصوصًا ’’ صحىح بخارى اور مسلم‘‘ كى تمام رواىات صحىح اور معتبر ہىں۔
(قاعدہ دوم) صحابہ كرام ہر صورت مىں ثقہ اور عادل ہىں ، چاہے وہ كسى بھى نظرىہ كے قائل كىوں نہ ہو اور چاہے ان سے كوئى سا بھى فعل سرزد ہو ۔
(قاعدہ سوم) رواىات كو ’’قرآن كرىم‘‘ كے معىار پر نہ پركھنا۔ بلكہ رواىات كواس صورت مىں بھى قبول كرنا جب وہ واضح طور پر ’’قرآن‘‘ كے مخالف ہو۔

ان سب مشكلات كا واحد حل:

       ان سب كا واحد حل وہى ’’ ہداىت اور رہنمائى ‘‘ ہے جو معتبر اور صحىح ذرائع سے اہل بىت ^ سے صادر ہوئى ہے۔ وہ ہداىتِ حقىقى ’’ قرآن كرىم كو اصل قرار دىتے ہوئے رواىات كو مىزانِ قرآن پر پركھنا ‘‘ ہے۔ پس جو حدىث بھى قرآن كرىم كے مخالف ہے وہ حدىث ناقابل اعتبار اور ناقابل قبول ہے۔ اس كا نتىجہ اور راہِ حل ىہ نكلتا ہے :
۱۔ ام المومنىن حضرت عائشہ ، حضرت اُبى بن كعب، ابن مسعود اور حضرت عمر بن خطاب كى بىان كردہ ىہ تمام رواىات جو تحرىف پر دلالت كرتى ہىں غىر قابل قبول اور مردود ہىں۔ اس لىے ان رواىات پرمخالفِ قرآن ہونے كى وجہ سے عمل نہىں كىا جائے گا۔ پس ’’ بخارى اور مسلم ‘‘ صحىح رواىات كا مجموعہ نہىں بلكہ اس مىں اىسى رواىات بھى ہىں جو قرآن كرىم اور متواتر رواىات كے مخالف ہىں ۔ پس اہل سنت كے سامنے صرف دو راستے ہىں : ىا تو وہ قرآنِ كرىم مىں تحرىف كے قائل ہو جائىں ىا وہ اہل بىت ^ كے بىان كردہ قاعدہ قانون كو اختىار كرتے ہوئے قرآنِ كرىم كو اصل كى حىثىت دے دىں !!
۲۔ جہاں تك سند كا معتبر اور صحىح ہونا ہے تو اس كے بارے مىں كہا جائے گا كہ حضرت عمر بن خطاب، اُبَى بن كعب اور ام المومنىن حضرت عائشہ كو غلط فہمى اور اشتباہ ہوا تھا ۔ اس لىے ىہ نظرىات صرف انہى شخصىات كے ساتھ خاص ہىں ۔ باقى صحابہ كرام كا اس طرح كے نظرىات سے كوئى تعلق نہىں ہے اور نہ ہى مسلمانوں كا اىسے نظرىات سے كوئى تعلق ہے۔ اس لىے بعض افراد كے نظرىات كو تمام امتِ اسلامىہ كے نظرىات قرار نہىں دىا جا سكتا ۔
۳۔
اس مقام پر ہم ’’ عدالتِ صحابہ ‘‘ كے قاعدہ سے استفادہ كر سكتے ہىں ۔ عدالتِ صحابہ كا اصول و ضابطہ بىان كرتا ہے كہ صحابہ كرام سے خطاء اور غلطى كا امكان بھى ہے اور ان سے متعدد خطائىں اور غلطىاں سرزد بھى ہوئى ہىں ، جىسے حضرت عمر بن خطاب كا مشہور اور صحىح السند رواىات كے مطابق رسول اللہ ﷺ كو وصىت نہ لكھنے دىنا ، حضرت عائشہ كا بغىر كسى شرعى جواز كے امام على × كى مخالف مىں جنگ كى غرض سے گھر سے باہر نكلنا وغىرہ۔ اسى طرح ہم كہىں گے كہ ىہ حضرات صحابى كے درجے پر فائز ہىں لىكن ان كى بىان كردہ تمام احادىث قابل قبول نہىں بلكہ صرف وہ رواىات قابل قبول ہىں جن كے بارے مختلف قرائن ىا شواہد كے ساتھ معلوم ہو جائے كہ انہوں نے اس كے بىان كرنے مىں خطاء ، غلطى ىا اشتباہ نہىں كىا۔ لہٰذا عادل ہونے سے مراد ہى ىہ ہے كہ وہ خطاء كر سكتے ہىں لىكن جان بوجھ كر نہىں۔ اس لىے اس مورد مىں بھى ىہ شخصىات ’’ تحرىفِ قرآن‘‘ قائل تھىں اور انہوں نے ىہ نظرىہ جان بوجھ كر نہىں بلكہ كسى غلط فہمى كا شكار ہو جانے كى بناء پر اپناىا ۔ اس سے ىہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ رواىات كے بىان كرنے مىں اشتباہات اور خطاؤں كا شكار ہو جاىا كرتے تھے۔
۴۔
ىا ہم ىہ كہہ لىں كہ حضرت عمر بن خطاب، ابى بن كعب اور ام المومنىن كسى صورت ان فاسد نظرىات كے قائل نہىں بلكہ اىسى تمام رواىات سند كے اعتبار سے ضعىف اور ناقابل قبول ہىں ۔ پس ’’صحىح بخارى اور صحىح مسلم‘‘ كو صحىح ترىن كتابىں نہىں قرار دىا جا سكتا بلكہ مكتبِ تشىع كى مانند ماننا پڑے گا كہ قرآنِ كرىم كے علاوہ كوئى بھى كتاب مكمل طور پر صحىح اور معتبر نہىں ہے ۔ بلكہ قرآن كے علاوہ ہر كتاب مىں كچھ صحىح اور كچھ غىر صحىح ہے۔ لہٰذا ىہ نظرىات ان بزرگان كے نہىں تھے بلكہ احادىث گھڑنے والوں نے تحرىفى نظرىات كو ان ہستىوں كى طرف منسوب كر دىا ۔ پس اہل سنت كے كندھوں پر ىہ ذمہ دارى عائد ہوتى ہے كہ وہ ’’ صحابہ كرام كا دفاع كرىں ىا صحىح بخارى اور مسلم ‘‘ !!

نتىجہ بحث :

تمام بحث كا نتىجہ ىہ نكلتا ہے  کہ قرآن كرىم مىں تحرىف ’’ بشر ‘‘ كى استطاعت سے باہر ہے كىونكہ اس كى حفاظت كا ذمہ اللہ سبحانہ نے اپنے ذمے لىا ہوا ہے۔ نىز مسلمانوں نے اس سختى اور پابندى كے ساتھ اس كا اہتمام ہر دور مىں ’’كتابت، حفظ اور اسلامى ثقافت كا حصہ قرار دے كر ‘‘ كىا ہے كہ كوئى اس مىں كمى ىا اضافہ كى جرأت نہىں كر سكتا۔ مسلمانوں كا كوئى گروہ نہ ماضى مىں تحرىف كا قائل رہا ہے اور نہ آج ہے۔ حدىث ثقلىن جىسى متواتر رواىت بتاتى ہے كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىف ہونا ممكن نہىں ہے۔جو رواىات ’’ تحرىف ‘‘ كو بىان كرتى ہىں وہ چاہے اہل سنت كتب مىں ہوں ىا اہل تشىع كى ، ہر صورت مىں ناقابل قبول اور غىر معتبر ہىں اس لىے ان كو اختىار نہىں كىا جائے گا۔

مسلمانوں مىں نہ شىعہ تحرىف كا قائل ہے اور نہ سُنى ۔ اہل سنت كے مضبوط ذرائع كے مطابق حضرت عبد ابن مسعۃد ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت اُبَى بن كعب اور ام المومنىن اگر تحرىف كے قائل رہے ہىں تو صحابہ كرام اور مسلمانوں كا اىسے نظرىات سے كوئى تعلق نہىں اور ان كى بىان كردہ رواىات ہمارے لىے قابل قبول نہىں ہىں ۔ لىكن اگر ہم اہل بىت كے پىش كردہ ’’ قانون قاعدہ ‘‘ كا اختىار كر لىں تو اس كا بہترىن نتىجہ ىہ نكلے گا كہ ہم قائل ہوں گے كہ ان شخصىات و بزرگان پر’’ جھوٹے راوىوں‘‘ نے تہمت لگائى ہے اس لىے بخارى اور مسلم صحىح ترىن احادىث كا مجموعہ نہىں ہے بلكہ ان مىں بڑى تعداد مىں جھوٹى ، من گھڑت اور صحابہ كرام كے مسلك كے مخالف رواىات موجود ہىں۔ قرآن كرىم مىں تحرىف ِ لفظى كے قائل كو كسى صورت ’’ كافر ‘‘ نہىں كہہ سكتے ۔ كىونكہ اگر تحرىفِ لفظى كے معتقد كو ’’ كافر ‘‘ كہہ دىں تو اس كا نتىجہ اہل سنت نظرىات اور احادىث كے مطابق ىہ نكلتا ہے كہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ ’’ حضرت عمر بن خطاب، حضرت اُبَى بن كعب اور ام المومنىن حضرت عائشہ ‘‘ بھى كافر ہىں؟!! جبكہ ىہ قول كسى صورت درست نہىں ہے اور نہ كوئى شىعہ ىا سُنى اس نظرىے كو قبول كرتا ہے۔ پس اہل سنت كتبِ احادىث اور جرح وتعدىل كے قواعد كى روشنى مىں ثابت ہوتا ہے كہ قرآنِ كرىم مىں تحرىف كا قائل ’’ كافر ‘‘ نہىں ہے۔ ان شاء اللہ اگلى قسط مىں اہل سنت فرقہ جات اور ان كے برجستہ علماء كے نظرىات كو بىان كىا جائے گا كہ ان مىں سے بعض تحرىفِ لفظى كے قائل رہے ہىں لىكن كوئى سُنى انہىں كافر نہىں كہتا ۔ پس كفر صرف اس صورت مىں ثابت ہوتا ہے جب اللہ سبحانہ ، رسول اللہ ﷺ ، قىامت اور ضرورىاتِ دىن كا انكار كىا جائے۔  جبكہ قرآنِ كرىم مىں كمى بىشى ىا اضافہ كى صورت مىں تحرىف كا قائل ہونے سے ان مىں سے كوئى چىزبھى ثابت نہىں ہوتى ۔ اس لىے ہم كہہ سكتے ہىں كہ قرآن كرىم كا منكر كافر ہے كىونكہ ىہ ضرورىاتِ دىن مىں سے كہ قرآنِ كرىم رسول اللہ ﷺ كا زندہ معجزہ اور كلامِ الہٰى ہے۔ لىكن ىہ كہ ’’ اس كلامِ الہٰى‘‘ مىں سے سورۃ الفلق ، سورۃ الناس ، آىت رضاعت، آىت رجم، آىت فراش، آىت جہاداور آىت رغبت اور حضرت ابى بن كعب كے مطابق سورہ بقرہ جتنى آىات(286) كى حامل طوىل سورہ احزاب كو نكال دىا گىا ہے اس سے تحرىف تو لازم آتى ہے لىكن قرآنِ كرىم كا انكار نہىں ۔ اس لىے ىہ سب ہستىاں اور صحابہ كرام ’’ مسلمان ، عادل اور ثقہ ‘‘ ہىں اور منكرِ قرآن نہىں ہىں بلكہ زىادہ سے زىادہ ان كے حق مىں ىہ كہا جا سكتا ہے كہ ىہ ہستىاں فقط’’تحرىف قرآن‘‘ كى قائل تھىں ۔ اس لىے ان ہستىوں پر حدىث اور جرح و تعدىل كے قواعد جارى كرتے ہوئے رواىات كو اخذ كىا جا سكتا ہے ۔

اللہ سبحانہ ہم سب كو صراطِ مستقىم پر گامزن ركھے اور گمراہى وضلالت سے بچاتے ہوئے نورِ ہداىت كى روشنى سے ہمارے قلوب كو منور فرمائے۔               والسلام

منابع:

منابع:
1 ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۴۲۔
2 فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۳، ص ۲۱۱۔
3 راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۲۸۔
4 مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات الفاظ القرآن الکریم، ج ۲ ، ص ۱۹۸۔
5 نساء: ۴۶۔
6 مائدہ: ۱۳۔
7 نیشاپوری، مسلم، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۳۷۳۔
8 بن حنبل ، احمد، مسند احمد،  ج ۳۵، ص ۱۱۷، حدیث: ٢١١٨٨۔
9 بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری،ج ۴، ص ۹۰۴ ، حدیث : ۴۶۹۳۔
10 ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۲۳۶، رقم: ۸۷۔
11 نسائی، احمد بن شعیب، سنن النسائی، ج ۶، ص ۱۰۸، حدیث: ۷۱۱۲۔
12 ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح البخاری، ج ۸، ص ۷۴۲۔
13 ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری فی شرح البخاری، ج ۸، ص ۷۴۲۔
14 بوصیری، احمد بن ابی بکر، اتحاف الخیرۃ المہرۃ بزوائد المسانید العشرۃ، ج ۴، ۴۶۷، حدیث: ۳۹۴۶۔
15 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۴۵۰۔
16 ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج ۱، ص ۶۲۵، حدیث: ۱۹۴۴۔
17 طبرانی، سلیمان بن احمد، معجم الاوسط، ج ۸، ص ۱۲، حدیث: ۷۸۰۵۔
18 ابو یعلی موصلی، احمد بن علی، مسند ابی یعلی، ج ۸، ص ۶۳، حدیث: ۴۵۸۸۔
19 بیہقی، احمد بن حسین، معرفۃ السنن والآثار، ج ۱۱، ص ۲۶۱، حدیث: ۱۵۴۶۸۔
20 دارقطنی، علی بن عمر، سنن دارقطنی، ج ۵، ص ۳۱۶، حدیث: ۴۳۷۶۔
21 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۱۷۳، حدیث: ۲۰۵۔
22 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۱۷۔
23 طبرانی ، سلیمان بن احمد، معجم الكبير ، ج۱۲ ، ص۳۱۶، حدیث: ۱۳۲۲۴۔
24 البانی، محمد ناصر الدین،  سلسلۃ  الاحاديث الضعيفۃ ، ج ۳، ص ۲۰۹، حدیث: ۱۰۸۸۔
25   بقرہ : ۲۳۳۔
26 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱۰، ص ۸۸۵، حدیث: ۹۸۹۶۔
27 نیشاپوری، مسلم ، صحیح مسلم، ج ۳، ص ۳۱۷، حدیث: ۱۶۹۱۔
28 نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری، ج ۶، ص ۴۱۲، حدیث: ۷۱۲۱۔
Views: 763