loading
{ قرآنى الفاظ معانى }
لفظ اللہ کا لغوی معنی
تحریر: سید محمد حسن رضوی
11/10/2022

کلمہِ اللہ قرآن کریم اور احادیث و دعاؤں میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اہل لغت ،مفسرین اور احادیث کے ذیل میں محدثین نے اس لفظ سے تفصیلی بحث کی ہے۔ ذیل میں ہم اس لفظ کے لغوی اور روائی معنی کو ملاحظہ کرتے ہیں:

لفظِ اللہ کے لغوی معنی :

لفظِ اللہ کے بارے میں بنیادی طور پر اہل لغت کے مابین دو قول پائے جاتے ہیں:
قول اول:  لفظِ اللہ اسم جامد ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام (عَلم) ہے۔ اس طور پر کلمہِ اللہ کسی لفظ سے مشتق نہیں ہے اور آغاز ہی سے ذاتِ باری تعالیٰ کے نام کے طور پر ایجاد کیا گیا۔ جس طرح ہر ذات کا کوئی نام ہے جس کے ذریعے سے اس کو پکارا جاتا ہے اور اس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے  اسی طرح سے ذاتِ ربوبی کا نام جو اس کی ذات نے خود انتخاب کیا ہے ’’اللہ‘‘ ہے۔
قول دوم:  لفظِ اللہ ’’إله يا وله يا لاه ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس صورت میں لفظِ اللہ کے اشتقاقی معنی سے اہل لغت نے بحث کی ہے۔ ہم ذیل میں ماہرینِ لغت کے اقوال کا جائزہ لیتے ہیں اورلفظِ اللہ کی اشتقاقی حیثیت کو مطالعہ کرنے کے ساتھ اس کے معانی کا جائزہ لیتے ہیں۔

۱۔ کتاب العین جوکہ سب سے قدیمی عربی لغت کی کتاب ہے میں خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ۱۷۵ ھ نے ذکر کیا ہے کہ ’’ألہ‘‘ اللہ کا سب سے بڑا نام ہے ۔ عرب کہتےہیں : واللهِ ما فعلته ؛  اللہ کی قسم میں نے اسے انجام نہیں دیا،   التَأَلُّه:التعَبُّد؛ تألہ کا معنی بندگی ہے۔ [1]فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۴، ص ۹۰۔
۲۔ راغب اصفہانی متوفی ۴۰۱ھ اپنی کتاب المفردات میں لفظِ اللہ کے معنی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:{ اللَّهُ‏: قيل: أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالى … وإِلهٌ جعلوه اسما لكل معبود لهم، وكذا اللَّاتُ، وسمّوا الشمس إِلَاهَةً لاتخاذهم إياها معبودا.وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الْآلِهَةَ: عبد، وقيل: تَأَلَّهَ.فَالْإِلهُ على هذا هو المعبود، وقيل: هو من أَلِهَ، أي: تحيّر… وقيل: أصله ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسميته بذلك لكون كل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخير فقط كالجمادات والحيوانات، وإمّا بالتسخير والإرادة معا كبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحكماء: اللّه محبوب الأشياء كلها … وقيل: أصله من لاه يلوه لياها أي احتجب؛اللہ :کہا جاتا ہے: اس کا اصل ’’إلہ‘‘ ہے، پھر اس کی ہمزہ کو حذف کر دیا گیا (چنانچہ ’’لہ‘‘ بن گیا) اور اس پر الف لام داخل کر دیا گیا ( اللہ بن گیا) ، پھر یہ باری تعالیٰ سے خاص ہو گیا… اور لفظِ الہ انہوں نے اپنے ہر معبود کا نام رکھ دیا، اسی طرح اللات کہتے ہیں، مشرکین سورج کو ’’اِلَاهَة‘‘ کا نام دیتے تھے کیونکہ انہوں نے سورج کو معبود بنا لیا تھا۔أَلَهَ فلان يَأْلُهُ الْآلِهَةَ:یعنی فلاں شخص نے عبادت کی ، کہا گیا ہے: تألّہ ، پس اس بناء پر الہ کا معنی معبود ہے ، کہا جاتا ہے: اللہ ’’الہ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی تحیر اور حیرانگی و سرگردانی کے ہیں… کہا گیا ہے : لفظِ اللہ اصل میں ’’ولاہ‘‘ تھا، پھر واؤ سے ہمزہ ہو گیا اور یہ نام اس کا اس لیے رکھا گیا کیونکہ ہر مخلوق اس کی جانب محبت سے بڑھتی جا رہی ہے ، یا تو فقط تسخیر ہونے کی وجہ سے جیسے جمادات اور حیوانات ہیں ، یا تسخیر اور ارادہ ہر دو کی وجہ سے ، جیسے کہ بعض لوگ، اسی وجہ سے بعض حکماء نے کہا ہے: اللہ ہر شیء کا محبوب ہے… اور کہا گیا ہے:(لفظِ اللہ) کا اصل لاه يلوه لياهاسے ہے جس کا معنی حجاب میں ہونے کے ہیں ۔ }.[2]راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۱۔راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق لفظِ اللہ کے اشتقاق کے درج ذیل چار احتمالات ہیں اور ہر احتمال کی وجہ اہل لغت نے ذکر کی ہے:
پہلا احتمال: اللہ ’’اِلہ‘‘سے مشتق ہے جس کا معنی معبود کے ہیں۔ تألّہ یعنی بندگی اور عبادت کرنا۔
دوسرا احتمال: اللہ ’’الہ‘‘ بمعنی تحیر و سرگردانی کے معنی میں ہے۔
تیسرا احتمال: اللہ ’’ولاہ‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب محبت کرنے سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شیء کا محبوب ہے۔
چوتھا احتمال: اللہ ’’ لِیاہ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی حجاب میں ہونا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ عقول کے ادراک سے حجاب میں ہے۔
۳۔ صاحب تحقیق نے الإلہۃ کا معنی عبادت کے ذکر کیے ہیں۔ عبادت اور الإلہۃ میں فرق یہ ہے کہ عبادت میں خضوع کا معنی پایا جاتا ہے جبکہ إِلہ میں تحیر و سرگردانی کا معنی پایا جاتا ہے
۔ [3]مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ۱، ص ۱۲۰۔
۴۔ فیومی ، صاحب مصباح المنیر لفظِ اللہ کے جن مشتقات کو ذکر کیا ہے وہ مندرجہ بالا اقوال کا بہترین خلاصہ اور علمی اعتبار سے منظم تر ہے۔ فیومی کے بیان کو ہم کچھ تشریح کے ساتھ درج ذیل نکات کی صورت میں ملاحظہ کر سکتے ہیں:
– اگر لفظِ اللہ کے اصل مادہ کو ملاحظہ کریں اور ثلاثی مجرد کے باب 
فَعِلَ يَفْعَلُ یعنی’’ أَلِه‏َ يَأْلَهُ إِلَاهَةٌ ‘‘ سے مشتق قرار دیں تو اس کا معنی عبادت کرنا ہو گا ۔ اس طرف توجہ رہے بقیہ اہل لغت کے مطابق اگر اس کلمہ سے عبادت کرنا کے معنی مراد لیے جائیں تو اس وقت یہ ’’  أَلَهَ يَأْلَهُ إِلَاهَةٌ ‘‘ یعنی فَعِلَ کی بجائے فَعَلَ کے وزن پر ہو گا۔ ’’أَلِهَ‘‘ فعل ماضی کا ترجمہ بنے گا : اس ایک شخص نے فلاں کی عبادت کی ۔
– اگر اس کلمہ کو باب تفعُّل سے ملاحظہ کریں تو بن جائے گا :
تَأَلَّهَ، جس کے معنی عبادت کرنا کے ہوں گے۔
– اگر یہ ’’
أَلِهَ يَأَلَهُ ‘‘ ہو  جس میں ہمزہ حقیقت میں واؤ سے تبدیل ہو کیونکہ یہ ’’ وَلِهَ يَوْلَهُ
‘‘ تھا جو اَلِہَ بن گیا ۔  اس صورت میں اس کا معنی حیران و پریشان و پراگندہ ہونے کے ہوں گے۔
– جب اِلَہ کہا جائے تو اس مطلب معبود کے ہیں جوکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہے ۔ اِلہ بمعنی مفعول آتا ہے ، جیسے کتاب بمعنی مکتوب جسے کاغذ پر لکھا گیا ہے، بِساط بمعنی مبسوط ۔ جہاں تک لفظِ اللہ کا تعلق ہے تو بعض نے کہا ہے کہ یہ غیر مشتق ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے اصلی نام کے طور پر متعارف ہے۔ [4]فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج ۲، ص ۲۰۔

کلمہِ اللہ مفسرین کی نگاہ میں:

 مفسرین و محدثین کے کلام کی طرف رجوع کیا جائے تو ہمیں ان چار کے علاوہ مزید معانی بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں، جیساکہ ملا صدراؒ ، علامہ مجلسیؒ اوردیگر بزرگان نے احادیث کی شرح میں متعدد معانی درج ذکر کیے ہیں۔ ان دیگر معانی اور متعدد احتمالات کواجمالی طور پر درج ذیل سطور کی شکل میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ لفظ ِ اللہ ’’اَلِہ‘‘ بمعنی عَبَد سے مشتق ہے ۔ اس صورت میں اِلہ بمعنی مفعول یعنی معبود آئے گا۔
۲۔ ’’لَاہَ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی مخفی اور پوشیدہ ہونا ہے۔
۳۔ ’’الہ‘‘ بمعنی تحیر سے مشتق ہے کیونکہ اللہ سبحانہ کی کنہِ معرفت کے ادراک سے عقل حیرت و سرگردان ہے۔
۴۔ ’’الہ‘‘ بمعنی تعبُّد سے مشتق ہے۔
۵۔ ’’اَلِہ‘‘ بمعنی کسی جگہ پر مقیم ہونا سے مشتق ہے۔
۶۔ ’’لَاہَ یلوہ‘‘ بمعنی بلند اور ارتفاع سے مشتق ہے۔
۷۔ ’’وَلِہ‘‘ سے مشتق ہے کیونکہ دودھ پیتا بچہ جس طرح ماں کی آغوش میں جانے کا مشتاق ہوتا ہے اسی طرح بندگانِ الہٰی اللہ کی طرف تضرّع کرتے ہوئے پناہ لینے کے مشتاق ہوتے ہیں۔
۸۔ ’’الہ‘‘ بمعنی رجوع سے مشتق ہے کیونکہ اپنی ضروریات اور خوف و ڈر کے موقع پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
۹۔ ’’الہ‘‘ بمعنی سکون سے مشتق ہے کیونکہ اللہ سبحانہ کا ذکر کر کے مخلوق سکون حاصل کرتی ہے۔
۱۰۔ ’’الالہیۃ‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب اختراع اور ایجاد کرنے کی قوت کا ہونا ہے۔
۱۱۔ لفظِ اللہ اصل میں ’’لاھا‘‘ تھا جوکہ سریانی زبان کا لفظ ہے۔ پھر آخر سے الف حذف کر دیا گیا اور اس پر لام داخل کر کے ’’اللہ‘‘ بن گیا جوکہ اہل عرب میں رائج کلمات میں سے ہے۔ [5]مجلسی، محمد باقر، الفرائد الطریفۃ فی شرح الصحیفۃ، ص ۱۰۲۔

لفظِ اللہ احادیث کی روشنی میں:

احادیث مبارکہ میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن میں اللہ سبحانہ کا معنی ذکر ہوا ہے۔ ذیل میں پہلے ان احادیث کو ذکر کیا جاتا ہے جس کے بعد متونِ احادیث سے ایک نتیجہ اخذ کریں گے۔

حدیث۱: اللہ بمعنی ذات جس کی طرف رجوع کیا جائے

منابع احادیث میں امام حسن عسکریؑ سے روایت منقول ہےجو تفسیر امام عسکریؑ میں بھی وارد ہوئی ہے اور شیخ صدوق کے طریق سے بھی ہم تک پہنچی ہے۔ ذیل میں ہم اس حدیث کو شیخ صدوق کے طریق سے ملاحظہ کرتے ہیں: { حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْجُرْجَانِيُّ الْمُفَسِّرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ وَ أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَيَّارٍ وَ كَانَا مِنَ الشِّيعَةِ الْإِمَامِيَّةِ ، عَنْ أَبَوَيْهِمَا ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ ^: فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَل بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏ ، فَقَالَ: اللَّهُ هُوَ الَّذِي يَتَأَلَّهُ‏ إِلَيْهِ‏ عِنْدَ الْحَوَائِجِ‏ وَالشَّدَائِدِ كُلُّ مَخْلُوقٍ وَعِنْدَ انْقِطَاعِ الرَّجَاءِ مِنْ كُلِّ مَنْ دُونَهُ وَتَقَطُّعِ الْأَسْبَابِ مِنْ جَمِيعِ مَنْ سِوَاه ؛ امام حسن عسکریؑ سے اللہ عز و جل کے فرمان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو امام ؑ نے فرمایا:اللہ وہ ہے جس کی طرف ضرورت اور مشکلات و شدائد کے وقت ہر مخلوق رجوع کرتی ہے اور اس وقت رجوع کرتی ہے جب اس کے علاوہ ہر کسی سے امید منقطع ہو گئی اور اس کے علاوہ ہر ایک سے اسباب کا سلسلہ ٹوٹ گیا }.[6]شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۴، حدیث: ۲۔ اس حدیث مبارک میں اللہ کا تعارف رجوع کے معنی سے کرایا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ وہ ذات ہے جس کی طرف تمام مخلوقات مشکلات کے وقت فطری اور طبیعی تقاضے کے تحت رجوع کرتی ہیں۔ مخلوقاتِ الہٰیہ پر جب ایسا وقت آتا ہے کہ وہ شدید مشکل اور سختیوں کے بھنور میں ایسے برے طریقے سے پھنس گئے ہوں کہ نہ کسی مخلوق سے امید باقی رہتی ہو اور نہ کسی نجات کا سبب نظر آ رہا ہو تو اس وقت ان کی امید اور دھاڑس اللہ سبحانہ سے بندھ جاتی ہے اور وہ اسی بے چینی میں غیر اللہ سے مایوس ہو کر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس لیے اللہ کو اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے بھی اللہ سبحانہ کی رجوع کے اس فطری اور طبیعی امر کا تذکرہ کیا ہے،  جیساکہ ارشادِ رب العزت ہوتا ہے:
{
وَإِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَ كانَ الْإِنْسانُ كَفُورا ؛ اور جب سمندر میں انہیں ضرر و مشکل آ چھوتی ہے توغیر اللہ کو پکارنے والے جس جس کو پکارتے تھے ان سب کو ناپید پاتے ہیں سوائے اس اللہ کے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ لیتے ہو اور انسان بڑا نا شکرا ہے   }.[7]اسراء: ۶۷۔
{
هُوَ الَّذي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِريحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِها جاءَتْها ريحٌ عاصِفٌ وَ جاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنا مِنْ هذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرين ؛ وہ (الله) وہی ہے جو تمہیں خشکی و تری میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ کشتیاں بہترین ہوا کے دوش پر اپنے سواروں کو لے کر چل رہی ہوں اور وہ بھی اس سے خوب محظوظ ہو رہے ہوں تواچانک تیز ہوائیں کشتیوں پر ٹوٹ پڑیں اور  ہر طرف سے موجیں ان پر آن پڑھیں اور وہ سمجھنے لگیں کہ  اب تو ہم  گھیرے گئے   (اور زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہے) تو اس وقت وہ لوگ اللہ کو اس کے لیے دین خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں کہ (اے اللہ) اگر تو نے ہمیں اس آفت سے نجات دے دی تو ہم ہر صورت میں ہر تیرے شکر بندوں میں سے ہوں گے }.[8]یونس: ۲۲۔
{ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذا هُمْ يُشْرِكُون؛پس جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تواللہ کو اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں، پھر جب ہم نہیں خشکی پر نجات دے دیتے ہیں تو وہ شرک کرنے لگتے ہیں!! }. [9]عنکبوت: ۶۵۔
{
وَإِذا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ ما يَجْحَدُ بِآياتِنا إِلاَّ كُلُّ خَتَّارٍ كَفُور؛اور جب موجیں انہیں سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں تو وہ اللہ کو اس کے لیے دین خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں خشکی پر نجات عطا کر دیتا ہے تو ان میں سے بعض ہیں جو اعتدال میں رہتے ہیں اور ہماری آیات کا کوئی انکار نہیں کرتا گر وہ شخص بڑا دھوکے باز ناشکرا ہے  }. [10]لقمان: ۳۲۔

حدیث۲: اللہ بمعنی غالب و مسلط

امام موسی کاظمؑ سے روایت منقول ہے جس میں اللہ کا معنی ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: { أَبِي عَنِ ابْنِ عِيسَى وَ سَلَمَةُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنِ الْقَاسِم‏  عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مُوسَى × قَالَ: سُئِلَ عَنْ مَعْنَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ اسْتَوْلَى عَلَى مَا دَقَّ وَجَل‏ّ؛  امام موسی کاظمؑ سے اللہ عز و جل کے معنی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو امامؑ نے فرمایا: وہ ذات جو دقیق سے دقیق اور عظمت و جلالت والی ہر چیز پر مسلط اور غالب ہے }.[11]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴، ص ۱۸۱، حدیث: ۶۔ اس حدیث مبارک میں امام موسی کاظمؑ نے اللہ تعالیٰ کا معنی استیلاء سے بیان کیا ہے۔ استیلاء کا مطلب عالی اور بالاتری کے ہیں جس کی بناء پر مدمقابل پر تسلط اور غلبہ حاصل کیا جائے۔ استیلاء کے معنی میں جہاں ایک طرف بلند مرتبہ ہونے کی وجہ سے غلبہ اور تسلط کا معنی پایا جاتا ہے دوسری طرف سے اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ کسی شیء پر غالب ہوا گیا ہے اور کس کو مسلط ہو کر اپنے ماتحت کیا گیا ہے۔ اس حدیث مبارک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنی بلند و عالی ذات کی وجہ سے باریک اور دقیق ترین چیز پر بھی غالب ہے اور جلالت و عظمت کی حامل بڑی سے بڑی ہستی پر بھی غالب ہے۔

حدیث۳: اللہ بمعنی حیرانی میں مبتلا کرنے والا معبود

 امام صادقؑ سے معتبر حدیث میں اللہ کے مشتق ہونے کا بیان اس طرح سے وارد ہوا ہے: { عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ × عَنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ وَاشْتِقَاقِهَا، اللَّهُ مِمَّا هُوَ مُشْتَقٌّ ؟ قَالَ فَقَالَ لِي: يَا هِشَام‏ اللَّهُ مُشْتَقٌ‏ مِنْ‏ إِلَهٍ‏ ، وَالْإِلَهُ يَقْتَضِي مَأْلُوها؛ ہشام بن حکم نے امام صادقؑ سے اللہ کے اسماء اور اس کے اشتقاق کے بارے میں سوال کیا کہ کیا (لفظِ ) اللہ کسی سے مشتق ہے؟ ہشام کہتے ہیں کہ امامؑ نے مجھ سے فرمایا: اے ہشام اللہ ’’اِلہ‘‘ سے مشتق ہے اور اِلہ تقاضا  کرتا ہے ’’مألوہ‘‘ (معبود ) کا }.[12]كلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۱۸، باب ۵، حدیث: ۲۔[13]محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج۱ ، ص ۲۱۲۔ اس حدیث مبارک کے مطابق کلمہِ اللہ اِلہ سے مشتق ہے۔ معروف محدث میر دامادؒ متوفی ۱۰۴۱ ھ اس حدیث کی شرح میں ذکر کرتے ہیں کہ ’’مألوہ‘‘ سے مراد اس مربوب کے ہیں جو حیران و سرگردان اور مدہوش ہے۔میر داماد ؒ کے مطابق  یہاں ’’اَلِہَ‘‘ سے دو معنی مراد لیے جا سکتے ہیں: ۱۔ ’’الہ‘‘ اصل میں ’’وَلِہَ‘‘تھا جس کا معنی حیرانی و سرگردانی کے ہیں ۔ ۲۔ یا’’الہ‘‘ کے آغاز میں ہمزہ ہی ہے یعنی ’’أَلِهَ يَأْلَهُ إِلَهَةٌ‘‘ہے جس کا معنی عبادت کرنے کے ہیں۔ اس صورت میں الہ کا معنی اس ربّ کے ہوں گے جو معبود ہو اور اس کی عبادت کی جاتی ہو۔ [14]میر داماد، محمد باقر ، التعلیقۃ علی اصول الکافی، ص ۲۰۷۔

حدیث  ۴: الہ بمعنی حیرانی و سرگردانی

امام علیؑ لفظ  اللہ کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:{ وَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ × اللَّهُ‏ مَعْنَاهُ‏ الْمَعْبُودُ الَّذِي يَأْلَهُ فِيهِ الْخَلْقُ ، وَيُؤْلَهُ إِلَيْهِ ، وَاللَّهُ هُوَ الْمَسْتُورُ عَنْ دَرْكِ الْأَبْصَارِ، الْمَحْجُوبُ عَنِ الْأَوْهَامِ وَالْخَطَرَاتِ ؛امیر المؤمنین ؑفرماتے ہیں: اللہ کا معنی  اس معبود کے ہیں جس کے بارے میں مخلوق متحیر و حیرت زدہ ہے اور اس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ، اللہ نظروں کے ادراک سے پوشیدہ ہے  اور عقلی و خیالی تصورات سے حجاب میں ہے  }.[15]شیخ صدوق، محمد بن علی، توحید، ص ۸۹، حدیث: ۴۔

حدیث ۵: اللہ بمعنی قابل ادراک نہ ہونا

امام باقرؑ سے روایت منقول ہے جسے شیخ صدوقؒ نے اپنی کتاب التوحید میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں امام باقرؑ فرماتے ہیں:{ قَالَ الْبَاقِرُ × اللَّهُ‏ مَعْنَاهُ‏ الْمَعْبُودُ الَّذِي أَلِهَ الْخَلْقُ عَنْ دَرْكِ مَاهِيَّتِهِ وَ الْإِحَاطَةِ بِكَيْفِيَّتِه ؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں : اللہ کا معنی اس معبود کے ہیں جس کی حقیقت کو پانے اور اس کی کیفیت کا احاطہ کرنے سے مخلوق حیرت زدہ و سرگردان ہے  }، شیخ صدوق نے اس کے بعد جو عبارت ذکر کی ہے وہ ممکن ہے کلامِ معصوم ؑ ہو اور ممکن ہے اپنا تبصرہ ہو۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں: ويقول العرب: أله الرجل إذا تحير في الشي‏ء فلم يحط به علما، ووله إذا فزع إلى شي‏ء مما يحذره و يخافه، فالإله هو المستور عن حواس الخلق‏؛ جب کوئی شخص کسی چیز میں حیران و پریشان ہو جاتا ہے اور اس چیز کا علمی احاطہ نہیں کر سکتا تو اس کے بارے میں عرب کہتے ہیں: اَلِہَ الرجُل، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف پناہ لیتا ہے جس سے وہ گھبراتا ہے اور اس سے خوفزدہ ہوتا تو عرب کہتے ہیں: وَلِہَ ۔ پس ’’اِلہٰ‘‘ وہ ذات ہے جو مخلوق کے حواس سے پوشیدہ ہے۔  [16]شیخ صدوق، محمد بن علی، توحید، ص ۸۹۔

۔

Views: 51

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تحریف قرآن اور بعض علماء اہل سنت
اگلا مقالہ: لفظ نور کا قرآنی معنی