loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۴}

معاشرے میں تبدیلی کے مراحل

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

بیان ہوا کہ دین اسلام صرف افکار اور نظریات کا مجموعہ نہیں ۔ جہاں معارف و اعتقادات ،امور اخلاقی اور تہذیب نفس کا درس دیا گیا ہے وہیں اسلام نے زندگی کے لیے ایک دستور عمل بھی دیا ہے۔ جس میں معاشرے کے افراد کے وظائف و ذمہ داریاں ذکر ہوئی ہیں۔ اسلام نے امر بالمعروف، نہی از منکر اور جہاد و دفاع کے مسائل بیان کیے ہیں۔ حدود و مقررات اور اجتماعی قوانین بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف اخلاق، عرفان اور انفرادی وظائف کی تبیین نہیں کرتا بلکہ انسان کو راہ دکھاتا ہے کہ کیسے اجتماعی زندگی گزارے؟ کس طرح دیگر باطل مکاتب کا نفوذروکےاور طواغیت ِزمان سے نجات حاصل کرے۔ اور ظاہر ہے یہ کام بغیر حکومت اور سیاست سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

طاغوت کا تعارف

رہبر معظم فرماتے ہیں کہ طاغوت سے مراد ظالم اور خیبیث حکمران ہیں ۔جیسا کہ آج کا امریکی صدر اور اس جیسے دیگر افراد آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ طواغیت ہیں۔[1] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ پس دین چاہتا ہے کہ انسان طاغوت سے ہجرت کر کے ولایت کی طرف آۓاورظلم و ستم کا انکار کرے۔ طاغوتی حکومت سے نکل کر اسلامی حکومت کی طرف حرکت کرے۔ یہاں پر خود اسلامی حکومت کی  تعریف کرنا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کسی ملک میں کچھ قوانین اسلامی آ جائیں اس سے اس ملک کی حکومت اسلامی نہیں ہو جاتی۔

اسلامی حکومت کی تعریف

 اسلامی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ حاکم، قانون دونوں اسلامی ہوں، اس کے ساتھ ایک تیسری شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکم اور قانون کو عوام اپنی مرضی سے قبول کرے۔ بہت سے افراد ایران میں آتے ہیں اور ایک ذہنیت بنا کر آتے ہیں کہ مثلا جب ائیر پورٹ پر اتریں گے تو ہر طرف سے نعرہ تکبیر بلند ہو رہا ہوگا، رہبر اور امام خمینی کی تصاویر ہونگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب ایران داخل ہوتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں شاید کسی اور ملک میں غلطی سے داخل ہو گئے ہیں ۔ ایران میں اسلامی حکومت ہے اور اس وقت ایران حالت جنگ میں ہے۔ لیکن وہ جنگ نہیں جو سخت ابزار سے لڑی جاتی ہے۔ بلکہ یہ وہ جنگ ہے جو نرم ابزار سے لڑی جاتی ہے جسے اصطلاح میں جنگ نرم (soft war) کہا جاتا ہے۔ ایران پوری دنیا میں پابندیوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ایران کسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارت نہیں کر سکتا۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ لیکن پھر بھی اس اسلامی ڈھانچے کو بچاۓ ہوۓ ہے۔

انقلاب اسلامی کے پانچ مراحل

ان مراحل کو بیان کرنے سے پہلے ایک نکتہ جو بہت اہمیت کا حامل ہے اسے بیان کرنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ رہبر معظم کی شخصیت کے ساتھ ایک ناانصافی جو کی جاتی ہے کہ ان کو اسلامی مفکر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ اور یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ ان کو ایک عالم ،فقیہ، مدبر اور سیاستدان کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے لیکن ان کے مفکر ہونےکے پہلو کو بہت نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ شاید بھی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے خود کو اس طور پر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ تقریبا چالیس سال تک ان کے نام سے کوئی ایک کتاب بھی نشر نہیں ہوئی۔ ابھی انہیں دنوں میں ان کے افکار پر کام شروع ہوا ہے ۔ تہران  یونیورسٹی کے چند طلاب کو رہبر معظم کے افکار پر کوئی تھیسز لکھنا تھاجب انہوں نے رہبر معظم کے دفتر کی طرف رجوع کیا کہ کیا ہمیں رہبر کی کوئی کتاب مل سکتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رہبر کی کوئی کتاب نہیں۔ تب ان طلاب نے تقاضا کیا کہ ہمیں رہبر کی تمام تقاریر چاہیں۔ بعد میں انہیں تقاریر کو کتب کی شکل میں چھاپ دیا گیا ۔ رہبر معظم آج کے دور کے بہت بڑے اسلامی مفکر ہیں۔ بہت سی اسلامی اصطلاحات جو آج کے دور میں سنی جاتی ہیں وہ رہبر کی ایجاد ہیں۔ مثلا تمدن اسلامی، جہاد تبیین، گفتمان وغیرہ۔بہرحال رہبر معظم نے اسلامی انقلاب کے اہداف کے حصول کے پانچ مراحل ذکر کیے ہیں:

۱۔ انقلابِ اسلامی

یہ مرحلہ بہت قربانیوں کے بعد پورا ہوا۔ ایک بوڑھے عارف او ر فقیہ لیکن جامع دینی شخصیت نے ۲۵۰۰ سالہ بادشاہی نظام ختم کیا۔ اس کے پاس نہ تو کوئی سیاسی قوت اور مال تھا، سپاہ تھی اور نہ کوئی پبلسٹی کرنے والا، جب اسے جلاوطن کیا گیا تو بہت سے ملکوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا،جب اس کی تحریک کو بہت شدت سے کچلا جا رہا تھا اور ایران کی گلی گلی میں شاہ ایران خون بہا رہا تھا اسے کہا گیا کہ اب ہم کیا کریں؟ کیا رک جائیں؟ خود بندوق اٹھا لیں؟ کیا کریں؟ اس نے کہا کہ میں اللہ کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کیسے رک جاؤں؟ یہ وہ دور تھا جب امام خمینی کا نام لینے والے کو مار دیا جاتا تھا، لیکن اس نے ظلم کے خلاف عدل و انصاف کا شعار بلند کیا۔ مستضعفین کی مدد اس کا شعار تھا اور یہ انقلاب کامیاب ہو گیا۔ شاہ ایران کے فرار کے بعد جب امام۱۵ سال کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس آ رہے تھے بہت سوں نے کہا کہ یہ جہاز ہی لینڈ نہیں کرے گا اور یہ انقلاب ختم ہو جاۓ گا، بعد میں کہا کہ ۳ ماہ  میں اس انقلاب کی بساط لپیٹ دی دجاۓ گی۔ لیکن یہی کہتے کہتے ۴۳ سال گزر گئے اور آج تک یہ انقلاب ویسے کا ویسا بلکہ پہلے سے مضبوط ہو کر تن آور درخت بن چکا ہے۔

۲۔ حکومت اسلامی

کسی بھی معاشرے میں انقلاب لانا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر انقلاب آ بھی جاۓ حکومت تشکیل نہیں دے پاتے۔ جیسا کہ ہم بہت سے انقلابوں میں دیکھتے ہیں کہ کئی سال کی زحمت کے بعد ایک تحریک کامیاب ہوئی انقلاب لانے میں لیکن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔لیکن انقلاب اسلامی نے اس مرحلے کو بھی طے کیا۔ حکومت اسلامی تشکیل دی اور ۹۵ سے زائد افراد نے رفرنڈوم میں حصہ لے کر حکومت اسلامی اور امام خمینی کو بطور ولی فقیہ قبول کیا۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ حکومت اسلامی سے مراد تین عناصر ہیں۔ ان تینوں کا ایک وقت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ حکومت اسلامی نہیں کہلاتی۔ پہلا عنصر قانون ہے۔ دوسرا حاکم اور تیسرا عنصر عوام ہیں۔ حکومت اسلامی میں ضروری ہے کہ قانون اسلامی ہو، ایران میں قانون اسلامی ہے، دوسرا عنصر حاکم اسلامی ہو، ایران میں اصل حکومت ولی فقیہ کے پاس ہے جو نیابت امام زمانؑ میں حاکم  ہے۔ اور تیسرا عنصر عوام ہیں، عوام کی اکثریت اس نظام اور قانون کو قبول کرتی ہے۔ لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ایران میں اسلامی قانون نافذ ہوتےہوۓ تو دکھائی نہیں دیتا؟ اس  قانون کا کس حد تک نفاذ ہے؟ اس کا جواب اس آگے آ رہا ہے۔

۳۔ دولت اسلامی

پہلے دو مراحل گزرنے کے بعد تیسرا مرحلہ دولت اسلامی کا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب اسلامی  حاکم آ جاۓ، قانون بھی اسلامی آ جاۓ یہ قانون ملک کے اداروں میں نافذ ہوتا دکھائی دے۔ ملک کے ہر ادارے میں نظر آۓ کہ ہاں واقعا اس ملک میں اسلامی قانون موجود ہے۔ اس لیے نہ تو امام خمینیؒ اور نہ ہی رہبر معظم نے کبھی یہ دعوی کیا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے ادارے اسلامی قوانین کے مطابق چلتے ہیں۔ بلکہ ہم اس مرحلے کو طے کر رہے ہیں۔ اس کی طرف بڑھنا ضروری ہے اگر یہ مرحلہ مکمل ہو جاۓ تو تب ایران کو دولت اسلامی کہا جا سکتا ہے۔

۴۔ معاشرہ اسلامی

بہت سے افراد جب ایران میں داخل ہوتے ہیں اگر ٹیکسی ڈرائیور ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کر دے، یا کوئی بد اخلاقی دیکھ لیں تو فورا کہتے ہیں کہ یہ کونسی اسلامی حکومت ہے؟ خصوصا جب حجاب کی بات آتی ہے تو ایک بدترین حملہ ہے استعمار کا جو ایران پہ ہو رہا ہے۔ عموما جو آپ بے پردگی دیکھتے ہیں یہ بہائیت اور یہودیت کی جانب سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سب کی سب یہ خواتین بہائی یا یہودی ہوں لیکن ایک ثقافت ہے جو مسلمان خواتین میں پھیلائی جار ہی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ رضا شاہ اول نے اسی شیعہ ملک یعنی ایران میں حجاب پر پابندی لگا دی تھی۔ اور بدترین فحاشی معاشرے میں پھیلا دی ،ایران کے شہروں میں خواتین کمترین لباس کے ساتھ باہر نکلتی تھیں۔ انقلاب اسلامی کے بعد یہ حجاب جو آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے کم از کم عورت کو مکمل لباس پہننے پر آمادہ کر لیا ہے۔ البتہ اداروں میں خاتون کا کاملا حجاب میں ہونا ضروری ہے۔ معاشرہ اسلامی سے مراد یہ ہے کہ اس معاشرے کے رہنے والے لوگ اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ ان کی ثقافت اور فرہنگ اسلامی ہو وہ کسی دوسری فرہنگ سے متاثر نہ ہوں بلکہ اسلامی ثقافت کو اپنے اختیار اور مرضی سے اختیار کریں۔ اس معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی برائیاں بہت کم ہوں، سود، رشوت، کرپشن، نا انصافی اور نفرت اس معاشرے میں نہ ہو۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے تشکیل دیا، اس معاشرے میں مہاجر اور انصار اخوت کے ساتھ رہتے تھے، قبیلوں کی جنگیں ختم ہو گئی تھیں۔ مومنین آپس میں ایثار اور قربانی کے جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے تھے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جو آسانی سے طے ہونے والا نہیں۔ بلکہ  اس معاشرے کی تشکیل کے لیے بہت وقت درکار ہے۔

۵۔ تمدن اسلامی

جب چوتھا مرحلہ طے ہو جاۓ اورمعاشرہ اسلامی ہو جاۓ تب پانچویں مرحلے کو ہم پہنچتے ہیں جسے تمدن اسلامی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی تمدن اپنے اوج پر ہے۔ یہ معاشرہ تعلیمی، اقتصادی، سیاسی طور پر پوری دنیا کے لیے نمونہ بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی ہے لیکن اس بنا پر نہیں کہ ترقی حاصل کر کے پوری دنیا کا انسان ہی خطرے میں ڈال دیں۔ اسی ٹیکنالوجی سے وائرس بنائیں اور پوری دنیا میں کرونا پھیلا دیں۔ یہ ٹیکنالوجی اس معاشرے میں موجود ہے لیکن انسان کی خدمت کے لیے ہے۔ يہ آخری مرحلہ ہے جس میں انسان نہیں بلکہ پورا معاشرہ الہی معاشرہ اور تمدن اسلامی ہوگا۔  [2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۵تا۷۶۔

منابع:

منابع:
1 آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۷۵تا۷۶۔
Views: 22

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: معاشرہ سازی کے اہم اصول
اگلا مقالہ: حکومت اسلامی میں عوام کا کردار